12:56    , پیر   ,   20    مئی   ,   2024

محاورات

2956 0 1 15

( 1 ) طاق بھرنا، طاق پر رکھا رہنا، طاق پر رکھنا، طاق ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’طاق بھرنا‘‘ دراصل کوئی محاورہ نہیں ہے ایک ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں میں بھی آ گئی ہے۔ اور اُس کا شمار یہ کہیے کہ ہماری ملکی رسموں میں ہوتا ہے مسجد کے طاق بھرے جائیں یا مندر کے مطلب اظہارِ عقیدت ہوتا ہے۔

چیزوں کی بھینٹ دینا قدیم زمانے سے انسانی معاشرے کی ایک رسم رہی ہے۔ اِس میں چوڑیاں چڑھانا چوٹیاں شاخوں میں باندھ دینا بالوں کو بھینٹ دینا زیورات بھینٹ کرنا اور مٹھائیاں چڑھانا یا روپے پیسہ چڑھاوے کے طور پر نظر کرنا ہماری عمومی رسموں میں شامل ہے یہاں تک کہ ہم دریاؤں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں پانی کے تالابوں اور کھیتوں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں اسی طرح مندروں مسجدوں کے طاق بھرے جاتے ہیں۔ چراغ چڑھائے جاتے ہیں تیل دیا جاتا ہے یہ زیادہ تر عورتوں کی رسمیں ہیں ’’طاق بھرنا‘‘ تو یہ کہتے ہیں کہ خالصتاً نسوانی رسم ہے۔

طاق پر رکھنا اس سے بالکل مختلف ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں بھُول جانا دھیان نہ دینا۔ ہمارے یہاں چیزوں کو رکھنے جس میں پیسے بھی شامل ہیں چھوٹے بڑے طاق ہی کام میں آتے تھے اور اُن پر رکھ کر کبھی گھرکے لوگ بھول بھی جاتے تھے یہیں سے طاق پر رکھنے کا محاورہ بھول جانے اور فراموش کر دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ طاق محل کو بھی کہتے ہیں اور  ایک (Single)عدد کو بھی جیسے ایک تین پانچ سات اور  نو یہیں سے ’’طاق‘‘ ہونے کا محاورہ بنا کہ وہ اپنے اپنے کام میں ماہر اور اپنی ہنر مندی میں طاق ہے یعنی بے جوڑ ہے منفرد ہے۔

( 2 ) طالع چمکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

علمِ نجوم میں ستاروں کا رشتہ انسان کی قسمت سے بھی جُڑا رہتا ہے اور اسی کے مطابق جنم پتری تیار کی جاتی ہے۔ جس میں پیدائش کے وقت جو ستارے مل رہے ہوتے ہیں اُن کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ زندگی پر جُو اس کے اثرات ہونے والے ہیں اُن کی طرف اشارے کئے جاتے ہیں۔

’’طالع‘‘ کے معنی ہیں طلوع ہونا، نکلنا اب کسی کی پیدائش کے وقت جو ستارے نکل رہے ہوتے ہیں وہی اِس کے طالع کہلاتے ہیں۔ جو قسمت کے ستارے ہوتے ہیں یہ مبارک بھی ہو سکتے ہیں اور نہ مبارک بھی اسی لئے طالع مسعود اور نا مسعود کہلاتے ہیں اُردو میں جو لوگ ادبی زبان بولتے ہیں وہ اِن لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور یہ ہمارے تہذیبی ماحول کا ایک حصّہ ہے۔ اور ہماری سوچ کا ایک انداز ہے۔

( 3 ) طباق سا منہ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم چہرے کو انسان کے حُسن خوبصورتی اور  بدصورتی کے سلسلے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں کبھی پھول کہتے ہیں کبھی چاند کہتے ہیں کبھی ٹکیاں سا منہ قرار دیتے ہیں کبھی آئینہ رخ کہتے ہیں ایسی لڑکیاں یا عورتیں جن کے چہرے بہت گول ہوتے اور  جن کے نقش و نگار نسبتاً بڑے چہرے مقابلہ میں ہلکے ہوتے ہیں اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ طباق سے منہ والی لڑکی یا عورت ہیں۔

جب لڑکیوں کو بہت تھوڑی عمر میں پردہ کروا دیا جاتا تھا اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ طباق سا منہ ہو گیا اب تک اس کو پردہ کیوں نہیں کروایا گیا یہ بھی سماجی رو یہ ہے جو قصبوں چھوٹے شہروں میں اب تک دیکھنے کو ملتا ہے اور  ہماری معاشرتی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔

( 4 ) طباقی کتّا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں ہندوؤں میں جس تھالی میں کھایا جاتا ہے اُس کو کتّے کے چاٹنے کے لئے رکھ دیا جا تا ہے اب تو ایسا نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک عام دستور ضرور رہا ہے جو کتا یہ کام کرتا تھا اور اُسے طباقو کتا کہتے تھے جو گویا سماج کی طرف سے ایسے کرداروں کا ایک طنز کا درجہ رکھتا تھا ایسی عورتیں بھی’’ طباقو‘‘ کہلاتی تھیں جن کو اِدھر اُدھر کھانے پینے کا لالچ ہوتا تھا۔

( 5 ) طبقہ اُلٹ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری مذہبی فکر ہویا فلسفہ اور سائنس سے متعلق ہو دونوں میں آسمان و زمین کے طبقات داخل ہیں اور  اُن کا ذکر موقع بہ موقع آتا رہتا ہے خود قرآن نے آسمان کو سات طبقوں سے وابستہ کیا ہے۔ زمین کے بھی طبقے ہیں اور زمین و آسمان کے طبقے ملا کر چودہ طبق کہا جاتا اور ہمارے ہاں محاورہ بھی ہے چودہ طبق روشن ہو گئے سماجی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی ہم طبقات کی تقسیم کے قائل ہیں مثلاً پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ کاریگروں کا طبقہ جس میں مزدور اور کم درجہ کے دستکار سبھی شریک ہیں۔

امیروں کا طبقہ سیاست پسندوں کا طبقہ ہم نے اہلِ شعر و ادب اور اصحابِ فلسفہ و تصوف کو بھی طبقات میں تقسیم کیا ہے اور  طبقاۃ الصوفیہ ’’طبقاۃ الشعراء‘‘ ’’طبقاۃ الملکہ‘‘ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ طبقہ اور  طبقات ہماری معاشرتی زندگی میں کس طرح داخل رہے ہیں یہ محاورے بھی اسی کی طرف اشارے کرتے ہیں طبقہ الٹ جانا چودہ طبق روشن ہونا وہاں طبق بھی ہے اور سبق بھی طبقہ الٹ جانا یعنی زمین کا اُلٹ پلٹ ہونا یا طبقاتی تقسیم کا درہم برہم ہو جانا زمین سے آسمان کا روشن ہو جانا اور مراد ہوتی ہے کہ اور کچھ نظر نہیں آیا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

( 6 ) طبیعت آنا، طبیعت الجھنا، طبیعت بگڑنا، طبیعت بھر جانا، طبیعت لگنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

طبیعت عربی لفظ ہے اور اُس سے مراد ہے انسان کی اپنی مزاجی کیفیت ’’دل‘‘ اور ’’جی‘‘ توجہ وغیرہ مثلاً طبیعت لگنے کے وہی معنی ہیں جوجی لگنے کے ہیں اور طبیعت آنا دل آنے یا عشق ہو جانے کو کہتے ہیں طبیعت لہرانا بھی دل کے خوش ہونے اور والہانہ کیفیت پیدا ہو جانے کے لئے کہا جاتا ہے عالمِ فطرت کو بھی طبیعت سے نسبت دی جاتی ہے اور طبیعیات عالمِ فطرت کے عمل کو کہتے ہیں۔ اُس پر اگر نظر رکھی جائے تو لفظوں کے ساتھ کیا گیا مفہوم وابستہ ہوتے ہیں۔ اور خود محاورے میں پہنچ کر اُن کے معنی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس معنی میں اگر دیکھا جائے تو لفظ کے لغوی معنی سے لے کر شعری،شعوری ادبی اور محاوراتی معنی تک بہت بڑا فرق آ جاتا ہے۔

( 7 ) طرارے بھرنا، طرارا آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

طرارے ’’ہرن ‘‘کی دوڑ کو کہتے ہیں اور ہرنوں ہی کے سلسلے میں یہ محاورہ آتا بھی ہے اور ہم اسے کہانیوں عام گفتگو یا شعر و شاعری میں سنتے اور دیکھتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں ’’ہرن‘‘ طرارے بھرنے لگا اُس کے مقابلے میں طرارا آنا غصّہ آنے کے معنی میں آتا ہے کہ ذرا سی بات پر اُسے تو ’’طرارا‘‘ آ جاتا ہے غصّہ آنا تو ایک بات ہے لیکن طرارا آنا زبان کا حُسن ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ محاورہ تشبیہہ اور استعارہ زبان میں کیا لطف پیدا کرتے ہیں اور اُس کا ہماری سماجیات سے کیا رشتہ ہے۔

( 8 ) طرح دار، طرح ڈالنا، طرح دار ہونا طرح دینا،طرح نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’طرح‘‘ کے معنی ہیں طرزِ انداز اور ادا ہماری ادبی اور سماجی زندگی میں ’’ طرح داری‘‘ کے معنی ہوتے ہیں خاص انداز رکھنا معشوق طرح داری ہمارے ادیبوں کے یہاں اب سے پہلے بہت آتا تھا۔ طرح ڈالنا کے معنی ہوتے ہیں کسی اندازِ ادا کو اختیار کرنا اور اُسے رواج دینا۔ شاعری میں جب کوئی مصرعہ غزل لکھنے کے لئے مشاعروں کے سلسلے میں دیا جاتا ہے تو اسے طرح دینا یا طرح ہونا کہتے ہیں طرح دینے کے معنی نظر انداز کر دینے کے بھی ہوتے ہیں طرح نکالنا بھی کسی نئے اسلوب کو رواج دینے کو کہتے ہیں۔

( 9 ) طُرفتہ العین میں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

طُرفۃ العین پلک جھپکنے کو کہتے ہیں یہ عربی لفظ ہے اور اِس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی کام آناً فاناً میں بھی ہو جاتا ہے یا جی چاہتا ہے کہ یہ کام گھڑی کی سیت (ساعت میں ) ہو جائے۔ طرفۃالعین عربی کا لفظ اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔

( 10 ) طرفہ معجون۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

عجیب قسم کی طبیعت یا سوچ کا عجیب و غریب انداز یا  پھر ایسی تحریر جس میں فکری الجھاؤ ہوں۔ طرفہ معجون یا طرفہ معجون مرکب کہلاتی ہے معجون جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک طبّی نسخہ کے مطابق تیار کردہ دوا کو کہتے ہیں جس میں شہد اور دوسری بعض جڑی بوٹیاں کوٹ کر ڈالی جاتی ہیں جیسے معجون’’ سورنجان‘‘ یا معجون فلاسفہ یہ محاورے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم علم و فن کی کن کن باتوں سے محاورہ پیدا کرنے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے۔

( 11 ) طشت از بام ہونا، طشت چوکی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں محاوروں کی طرف ایک بڑی تعداد تو وہ ہے جو ہماری اپنی بھاشا یا قریبی علاقوں کی بھاشاؤں سے ہماری زبان میں منتقل ہوئے ہیں۔ کچھ محاورے وہ بھی ہیں جو فارسی سے آئے ہیں یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہم نے ایک خاص دور میں فارسی ادب اور زبان سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ طشت از بام ہونا۔ انہی میں سے ایک محاورہ ہے جو فارسی کے ادبی اور لسانی اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اُس کے معنی ہیں راز فاش ہونا اور سب کو خبر ہو جانا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا بھی ایک حصّہ ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ خوامخواہ ہماری برائیوں کا ذکر اور اُن کی شہرت پھیلے یوں بھی معاشرے کا یہ ایک مزاج ہے کہ نیکیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور برائیوں کو بُری طرح پھیلاتے ہیں اُن کو’’ طشت از بام‘‘ کرتے ہیں یہ بات اچھی نہیں غلط ہے مگر ہمارا سماجی رو یہ نہیں کچھ ایسا ہی ہے۔

عام طور پر ہمارے مہذب گھروں میں ایک چوکی رہتی تھی اور اُس پر بیٹھ کر وضو کرنا اور  وضو کے پانی کو ایک طشت میں جمع کرنے کی گھریلو روش ایک خوبی تصور کی جاتی تھی اسی لئے طشت چوکی بچھے رہنے کا ذکر آتا تھا۔ مگر اِسے کوئی محاورہ قرار دینا مشکل ہے اگرچہ مخزن المحاورات میں اِسے محاورہ قرار دیا گیا ہے۔

( 12 ) طفلِ مکتب ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

طفلِ بچہ کو کہتے ہیں اور مکتب ابتدائی درجہ کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں قرآن کا کوئی سپارہ یا  بھر پورا قرآن پاک بچے پڑھتے ہیں بہرحال یہ بہت ابتدائی تعلیم کی منزل ہوتی ہے عمر بھی اس وقت بچپن کی منزل سے گزر رہی ہوتی ہے بڑی عمر کے لڑکے اِس میں داخل نہیں ہوتے اسی لئے جب کسی کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ عقل اور علمِ کے اعتبار سے بہت ہی ابتدائی سطح کا آدمی ہے تو اُسے طفلِ مکتب کہا جاتا ہے اور جس آدمی کو جس عالم یا مولوی کو کچھ نہیں آتا وہ ملائے مکتبی کہلا تا ہے۔

( 13 ) طنطنہ دکھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تناؤ کی کیفیت ہوتی ہے اور اِس میں غصہ بہادری اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور اِسی لئے اِسے طنطنہ کہتے ہیں اور اُس میں کہنے والے کی طرف سے ایک طنز چھُپا ہوتا ہے کہ وہ بہت طنطنہ دکھلاتے ہیں یہ بھی ایک طرح سے ہمارے سماجی عمل اور  رویوں پر ایک تنقید ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک اہم بات ہے۔

( 14 ) طور بے طور ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

طور طریقہ کو کہا جاتا ہے اسی لئے طور بے طور کہتے ہیں اور اِس سے مُراد سلیقہ ہوتا ہے اچھا ڈھنگ ہوتا ہے اب اگر کسی وجہ سے بے ڈھنگا پن پیدا ہو جاتا ہے اور بات بے تُکی نظر آتی ہے۔ تو اُسے طور بے طور ہونا کہتے ہیں ہم اِس محاورے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاشرہ ہمارے انسانی رویوں جو معاشرتی رو یہ بن جاتے ہیں کس طرح نظر رکھتا ہے اور گفتگو کی جاتی ہے۔

( 15 ) طُوطی بولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’طوطی‘‘ ایران کا ایک پرندہ ہے جس کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے وہ طوطے کی طرح کہانیوں کا ایک کردار بن جاتا ہے جب موسم بہار آتا ہے تو ایران کے پرندے اور خاص طور پر ’’طوطی‘‘ بہت خوش آوازی سے بولتا ہے اور بہار کے آنے کا اعلان کرتا ہے وقت آتا ہے اور اُس کی شہرت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اُس کا طوطی بول رہا ہے یعنی اُس کی زندگی میں بہار آئی ہوئی ہے۔

( 16 ) طوفان اُٹھانا، طوفان اُٹھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غیر صورتِ حال کا پیدا ہو جانا جس میں کسی فرد یا کسی جماعت کا عمل شریک ہو اور وہ دانستہ عمل ہو جھُوٹ بول کر فریب دیکر سازشیں کر کے جو پریشان کُن صورت حال پیدا کی جاتی ہے اُس کو طوفان کھڑا کرنا ’’طوفان اٹھانا‘‘ کہتے ہیں کہ صاحب اُس نے طوفان اُٹھا دیا ہنگامہ برپا کر دیا۔

عام پبلک کے پاس زبان ہوتی ہے ذہن نہیں ہوتا کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے اسی لئے وہ ہنگامہ بڑھتا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ بہت اہم محاورہ ہے اور سماج کی نفسیات اور عمل ورد عمل کی نشاندہی کرتا ہے طوفان آنا غیر معمولی صورتِ حال ہے لیکن اُس کا رشتہ سماجی عمل سے نہیں ہے۔

( 17 ) طومار باندھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی بات کو کسی خاص غرض کے تحت آگے بڑھانا اور اُس پر زور دیتے رہنا ’’طومار‘‘ باندھنے کے ذیل میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تو خواہ مخواہ الزامات یا پھر تعریفوں کا طومار باندھ دیا۔

( 18 ) طویلے کی بلا بند رکے سر پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈال دینا اور یہ کام بدنیتی سے یا اِرادے کے طور پر کرنا ’’طویلہ‘‘ ایک خاص اِصطلاحی لفظ ہے اور گھُڑ سال کو ’’طویلہ‘‘ کہتے ہیں امیروں راجاؤں اور بادشاہوں کے ساتھ گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جہاں وہ باندھے اور  رکھے جاتے تھے۔ اُس کو طویلہ کہتے تھے ہندوستان میں ’’گھڑسال‘‘ کہتے ہیں۔

اِس سے متعلق اگر اچھی بُری کوئی بات ہوتی تھی اُس کا بندر سے کوئی رشتہ نہیں لیکن لوگوں کا رو یہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس کا الزام اُس کے سرپر رکھ دیا اسی سے یہ محاورہ بن گیا کہ’ ’طویلے‘‘ کی بلا بند کے سرپر یعنی ذمہ دار کوئی اور ہے اور کسی دوسرے کو اُس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں اِس کو بھی سماجی نفسیات اور طریقہ فکر و عمل کا ایک نمونہ کہنا چاہئیے۔ 

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

سید معصوم اصغر
ہر تبصرے کے ساتھ ، ہو حوالہ جات ، تب بنے کوئی بات ، ورنہ نہیں مانیں گے لوگ آپ کی بات

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔