آب حیات میں مولانا محمد حسن آزاد نے میر سوزؔ کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سوداؔ کے ہاں میر سوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں شیخ حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے۔
می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے
اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے
میرؔ سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے
اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔
پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔
آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناںؔ ، حا تمؔ، سوداؔ، نا سخؔ، شا ہ نصیرؔ اور ذوقؔ نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کا جنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔
جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں
چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں
مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں
جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔
عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے بر عکس انہیں الفا ظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پر لطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ مو جود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شا ذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔
زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت
انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے
زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر
یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے
عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔
بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے لکھا ہے۔
’’قلعہ معلیٰ کی تہذیب کا ایک اہم جز وہ زبان تھی جس میں شاہ علم ثانی اور اُن کے بعد ظفرؔ نے بھرپور شاعری کی تھی۔ اس زبان کی گونج اور بازار سے گزرتی ہوئی کابلی دروازے کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوقؔ کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گونج میں ذوقؔ بھی کھنچے چلے گئے اور پھر دلّی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوقؔ کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوبصورت مثال داغؔ کے یہاں ملتی ہے۔
زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ محاورات وہ ننھے مرقع ہیں جو کسی سماج کے تجربات، تصورات اور تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کا سبب بنتا ہے۔ بیگمات نے اپنے محاوراتی اسلوب میں مجاز و مبالغہ تشبیہ اور تمثیل، مصوری و محاکات اور رمزیت و اشاریت کے سارے جوہر محفوظ کر لئے تھے۔ اسی لئے جب ہم ان کی صدائے بازگشت سنتے ہیں تو بیقرار ہو جاتے ہیں اظہارِ خیال اور ادائے مطلب میں پیچیدگی سے بچنے کے لئے بول چال کی زبان روزمرہ اور محاورے کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے زبان کا ذوق رکھنے والوں نے ادبی شبہ پاروں میں محاورات پر ضرور نظر کی ہو گی۔ یہاں چند محاورات مثال دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔
چلوؤں لہو خشک ہونا، اُوڑا پھڑنا، سر بالوں کو آنا، اٹھوائی کھٹوائی لینا، منہ تھوتھائے رہنا، دے دوں کا پانی ڈھلنا، تکلفی کے سے بل نکالنا، آنکھوں پر چربی چھانا، نعمت کی اماں کا کلیجہ ہونا، محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ہے جو ہماری زبان میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی، جس کے ہاتھ ہنڈیا ڈوئی اس کا ہر کوئی، انیس و بیس روڑے اُچھلیں، سرخ رو چونڈا ایمان بھونڈا، مائی جی کا تھان کھیلے چوگان، ٹاٹ کی انگیا، مونچھ کا بخیا، جہاں بہو کا پسار وہیں خسر کی کھاٹ، ان محاورات اور ضرب الامثال کی مدد سے کچھ مصنفین نے ابلاغ اور معانی آفرینی کے کمالات دکھائے ہیں اور کچھ مصنفین صناعی کلام کی ان بھول بھلیوں میں گم ہوکے رہ گئے۔
سنا ہے کوئی جاٹ سرپر چارپائی لئے کہیں جا رہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی۔۔ جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ۔ جاٹ اُس وقت تو چُپ ہو گیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لئے بیٹھا رہا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لئے جاتا ہے جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ترے سر پہ کولہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے لگا جچی نہیں۔ جاٹ نے جواب دیا جچے نہ جچے تو بھوجھوں تو مرے گا۔ محاوراتی اُسلوب کا راستہ پل صراط سے زیادہ خطرناک ہے غزل کے ہر شعر کی طرح اس کا تعلق آبدار اور برجستگی سے ہے پھر یہ کہ عورتوں سے محاورے زبان کی طراری اور ایک مخصوص معاشرتی تربیت کے بغیر اس پر شکوہ اور پر خطر مہم کا سر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نذیر احمد کی زبان ٹکسالی ہے لیکن ان کی تصنیف امہات الامۃ کو لوگ کہتے ہیں اسی لئے نذر آتش کیا گیا تھا کہ اس میں ایک محاورہ یہ بھی تھا کہ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔
اب نہ اُردوئے معلیٰ رہی اور نہ گلی کوچوں میں بولا جانے والا ریختہ، جمہوری انقلابات نے ماضی کے تمام امتیازات کی جڑیں اکھاڑ پھینکی ہیں عورت مرد سب بچھڑی زبان بول رہے ہیں۔ جو لوگ زبان کا حسن اور محاورے کی وابستگی کا رونا روتے تھے وہ بھی قصہ پارینہ ہوئے ۔ جواب دکھائی دیتے ہیں وہ کل ناپید ہو جائیں گے۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔
ایسے میں عشرت ہاشمی کا یہ کارنامہ ایک تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ عشرت نے بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد اور شاعری پر پہلے بھی کام کیا ہے انہیں اس دور سے ربطِ خاص ہے جس میں محاورات اور ضرب الامثال کا چلن نے اُردو زبان کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام بخشی تھی۔ محاورے کیسے بنتے ہیں، ان کی ساخت میں معاشرت کا کس کس عمل اور انسانی فکر کے کن کن زاویوں کا دخل ہوتا ہے، یہ سمجھے بغیر محاوراتی اسلوب کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اور محاوراتی اسلوب کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی، ہماری ہزار آٹھ سو سال کی محنت اور جانفشانی رائیگاں ہو جائے گی۔ محاورات اور ضرب الامثال پر اردو میں متعدد لغتیں اور فرہنگیں موجود ہیں۔ لیکن اُنکی تہذیبی اور کلیدی جہتوں پر اہل زبان کی نظر کم گئی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ضروری بھی نہیں تھا۔ کیونکہ تہذیب کے سوتے ہمارے وجود میں ضم ہو گئے تھے۔ ملک کی تقسیم نے اُردو کو دو خطوں میں باٹ کر ظلم عظیم کیا ہے۔ وہ خطّہ جو پاکستان کہلاتا ہے، ہمارے تہذیبی شعور سے متعلق ناآشنا ہے۔ اور ہندوستان میں بھی طرح طرح کے سیاسی انقلاب نے تہذیب اور تمدن کو نزاعی مسئلہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اس نازک دور میں ڈاکٹر عشرت ہاشمی کا یہ کام جودقیع اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی مرقعوں کی افہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیتا ہے، لایقِ ستائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اُردو بولنے والوں کے لئے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنے گا مرتب کی ذہانت کاوش دیدہ ریزی اور تاریخِ معاشرت سے دلچسپی کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ اشاعت کے لئے اردو اکادمی بھی شکر یہ اور مبارکباد کی مستحق ہے۔
سید ضمیر حسن دہلوی
۱۲/مارچ ۲۰۰۶ء
محاورہ عربی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں ’’محور‘‘ شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ فکر و عمل۔ جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گرد پھیلی ہوئی بہت ساری حقیقتوں کو یہ کہیے کہ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے محاورات ہمارے مُشاہدوں اور طرح طرح کے تجربوں کو پیش کرتے ہیں اور انہیں کہیں عام معاشرتی انداز فلسفیانہ اور کہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اور طبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیم الفاظ بھی محفوظ ہیں اور قدیم روز مرّہ بھی یہ عمومی زبان اور عام لب و لہجہ سے قریب ہوتا ہے اور ایک حد تک اِس میں تخیل اور تجربہ کا اور تجزیہ کا آمیزہ بھی پایا جاتا ہے۔
’’زبان ‘‘ کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتا ہے۔ ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے، اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور وہیں سے اُس سوچ یا اُس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں۔ اور پھر اُن میں سے کچھ فقرہ اور جملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اور ایک طرح سے محاورہ کی اِس حیثیت پر ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ تو ہوتا رہا کہ محاورہ کی صحتِ استعمال پر زور دیا گیا۔ اُس کی نوکِ پلک دُرست رکھی گئی۔ اور اِس طرح کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اور اِس کا استعمال یہ ہے۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا پھر زبان کے ایک بڑے حصّے کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیا گیا۔ چرنجی لال کی لغت مخزالمحاورات اسی کا ایک اہم نمونہ ہے اور قابلِ تعریف کام ہے۔ جس کو اب ایک طویل عرصہ گزرنے پر ایک یادگار عملی کام قرار دیا جا سکتا ہے۔
مگر اِس ضمن میں محاورے پراس پہلو سے غور و فکر نہیں کیا گیا کہ اُس نے ہماری زبان و بیان، تہذیبی رویوں اور معاشرتی تقاضوں سے کس طرح کے رشتہ پیدا کئے۔ اُن کو زبان و ادب اور معاشرت کا آئینہ دار بنایا۔ جب کہ محاورات کے سلسلہ میں راقمہ کی محدود نظر کے مطابق یہی سب سے اہم پہلو تھا اس لئے کہ زبان اور ادب کا ایک ’’اٹوٹ‘‘ اور ’’گہرا رشتہ‘‘ تہذیب سے ہوتا ہے۔ اور تہذیبی رشتہ وہ ہوتا ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ اُن کے لئے روشنی اور رہنمائی کے طور پر کام آتا ہے۔
راقمہ الحروف نے اِس کام کو اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اور اس سلسلہ میں بطورِ خاص مخزالمحاورات کو سامنے رکھا ہے تاکہ محاورات کی ایک بڑی تعداد تک رسائی ہو جائے۔ اُن کے معنی اور اُن کی بنیادی معنویت کو سمجھ لیآ جائے۔
تہذیبی مطالعہ ایک الگ سلسلہ فکر و نظر ہے اور اخذِ نتائج کے لئے ایک جُداگانہ زاویہ نگاہ ہے۔ کیونکہ اس پہلو (Angle)سے محاورے پر ہنوز کوئی کام نہیں ہوا۔ اس لیے مجھ ایسے اُردو زبان و ادب کی ایک طالبِ علم کے لئے یہ سوچنا مشکل ہے کہ مجھے اس میں کیا کامیابی ہوئی اور کس حد تک اس موضوع پر ادبی مطالعہ کی حدود آگے بڑھی ہیں۔ اس کا فیصلہ تو اصحابِ دید و دریافت اور زبان و محاورات کے ماہرین ہی کچھ زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ اور یہ توقع ہے کہ آیندہ یہ کام آگے بڑھے گا اور اس کے خطوط فِکر اور زیادہ روشن اور واضح ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ الفاظ و صویتات ہوں یا پھر لغت و قواعد کے دائرہ میں آنے والی کچھ خاص اور اہم باتیں ہوں، اُن کو کلیتاً عصری تہذیب اور دواری دائرہ ہائے فکر و عمل سے آزاد نہیں کر سکتے۔ ایک زمانہ میں کچھ الفاظ رائج ہوتے ہیں اور دوسرے زمانہ میں اُن کا استعمال پھر بحیثیت مجموعی اُن پر توجہ وہی کم ہو جاتی ہے۔ اِس کی وجہ بھی بہت کچھ سماجی اور معاشرتی ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہم دہلی اور اُس کے قرب و جوار کی زبان نیز بولی کو سامنے رکھ سکتے ہیں کہ شہری زبان کے ساتھ قصبہ و دیہات کی زبان میں بھی فرق آیا ہے۔ اور ایک زبان نے دوسری زبان کو متاثر بھی کیا ہے اور اِس سے تاثر بھی قبول کیا ہے۔
زبان میں اردو محاورہ کی حیثیت بنیادی کلمہ کی بھی ہے اور زبان کو سجانے اور سنوارنے والے عنصر کی بھی اس لئے کہ عام طور پر اہلِ زبان محاورہ کے معنی یہ لیتے ہیں کہ ان کی زبان کا جو اصل ڈول اور کینڈا ہے یعنی Basic structureجس کے لیے پروفیسر مسعود حسن خاں نے ڈول اور کینڈا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو اہلِ زبان کی لبوں پر آتا رہتا ہے۔ اور جسے نسلوں کے دور بہ دور استعمال نے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسی کو صحیح اور دُرست سمجھا جائے۔ اہلِ دہلی اپنی زبان کے لئے محاورہ ’’بحث خالص محاورہ استعمال کرتے تھے۔ اور اس محاورہ بحث کو ہم میرؔ کے اس بیان کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ میرے کلام کے لئے یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں یعنی جو زبان صحیح اور فصیح دہلی والے بولتے ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا اُس کے آس پاس اس کو سُنا جا سکتا ہے۔ وہی میرے کلام کی کسوٹی ہے۔
ہم ذوقؔ کی زندگی میں ایک واقع پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص لکھنؤ یا کسی دوسرے شہر سے آیا اور پوچھا کہ یہ محاورہ کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتلایا۔ مگر پوچھنے والے کو ان کے جواب سے اطمینان نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی سند کیا ہے۔ ذوقؔ ان کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر لے گئے۔ انہوں نے جب لوگوں کو وہ محاورہ بولتے دیکھا تو اس بات کو مان گئے اور اس طرح معلوم ہو گیا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں کس معنی میں محاورہ کے لئے سندِ اعتبار تھیں۔ میرؔ انشاء اللہ خاں نے اپنی تصنیف دریائے لطافت میں جو زبان و قواعد کے مسئلہ پر اُن کی مشہور تالیف ہے، اُن محلوں کی نشاندہی کی ہے جہاں کی زبان اُس زمانہ میں زیادہ صحیح اور فصیح خیال کی جاتی تھی شہر دہلی فصیل بند تھا اور شہر سے باہر کی بستیاں اپنے بولنے والوں کے اعتبار سے اگرچہ زبان اور محاورہ میں اس وقت اصلاح و اضافہ کے عمل میں ایک گوناگوں Contribution کرتی تھیں لیکن اُن کی زبان محاورہ اور روزمرّہ پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ اِس کا اظہار دہلی والوں نے اکثر کیا ہے۔
میر امنؔ نے باغ و بہار کے دیباچہ میں اِس کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پا سکتے کہیں نہ کہیں اُن سے چُوک ہو جائے گا اور وہی صحیح بولے گا جس کی’’ آنول نال‘‘ دہلی میں گڑی ہو گی اِس سے دہلی والوں کی اپنی زبان کے معاملہ میں ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میں Proverbبھی ہے اور زبان و بیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دو معنی ہیں ایک محاورہ با معنی Proverbاور دوسرا محاورہ زبان و بیان کا سلیقہ طریقہ اور لفظوں کیSettingبھی۔
اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اور اپنے شہر کے روزمرہ اور محاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرورؔ نے فسانہ عجائب میں میر امنؔ کے چیلینج یا دعوے کا جواب دیا اور یہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھامڑ اور کندۂ نا تراش آتا ہے بے وقوف جاہل اور نا مہذب ہو اور ہفتوں مہینوں میں ڈھل ڈھلا کر اہلِ زبان کی طرح ہو جاتا ہے یہ گویا میرا منؔ کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے بہرحال گفتگو محاورے اور شہر کے روزمرہ ہی کے بارے میں رہی۔
ہماری زبان میں ایک رجحان تو یہ رہا ہے اور ایک پُر قوت رجحان کے طور پر رہا کہ شہری زبان کو اور شرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اور اسی کو سندِ اعتبار خیال کیا جائے اور اِس کی کسوٹی محاورۂ اہلِ دہلی قرار پایا۔
اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جو رفتہ رفتہ پُر قوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کو پھیلا یا جائے اور دوسری زبانوں اور علوم و فنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جاتا ہے کہ زبان سکڑ کر اور ٹھٹھر کر نہ رہ جائے شہری سطح پر امتیاز پسندی آ جاتی ہے تو وہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں۔ اور اپنے لب و لہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور امتیازات کو قائم رکھتے ہیں۔ لکھنؤ اور دہلی نے یہی کیا۔ اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حیدر آباد کا کردار دوسرا رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اُس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے انہوں نے اضافہ سنئے اور نئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اور نئے سوالات پیدا ہو گئے تھے۔ ۔
محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اور ایک معاشرتی۔ یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو اُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی، بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے ۔ جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینیس (Genius) چھُپا رہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پر بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ صُورت تو نہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اور تہذیبی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا جائے یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ غیر معمولی طور پر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور پرداخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور زبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے۔ اُس کی اپنی لِسانی ادبی تاریخی اور معاشرتی پہلو داریاں ہیں۔ جن کو اِن خاص علاقوں میں بولے جانے والی زبان اور اندازِ بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طور پر رکھا ہے اور اس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سندِ اعتبار عطا کی ہے۔ زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اور جملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے۔ اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اور بولنے والوں کا اپنا ترجیحی رو یہ بھی۔ کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں۔ محاورہ میں آنے والے الفاظ تین پانچ کرنا یا نو دو گیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک طرح سے محاورے بھی ہیں اور جملے کی وہ لفظی اور ترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص Settingکا اندازہ رکھتی ہے۔
اِن دو جہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اور بڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے اور اُس کے ذہنی زمانی انفرادی اور اجتماعی رشتوں کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اُس وقت تک پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اُن تمام نفسیاتی سماجیاتی اور شخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جو محاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اور لفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اور تاریخی و تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اُس کے ذریعہ ہم زبان اُس کی تہذیبی ساخت اور سماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔
عام طور پر ہمارے ادیبوں، نقادوں اور لِسانیاتی ماہروں نے اِس پہلو کو نظرانداز کیا اور اِس کی معنویت پر نظر نہیں گئی۔ اِس کے لئے ہم ایک سے زیادہ محاوراتی صورتوں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔
راقمہ الحروف نے اسی نسبت سے محاورے کے مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اور مختلف محاورے کے سلسلہ میں جو باتیں ذہن کی سطح پر تہذیب و معاشرت کے لحاظ سے اُبھر کر سامنے آئیں۔ اُن کو اپنے معروضات میں پیش کر دیا۔ اسی کے ذیل میں مختلف محاورات اور اُن کے فِکر و فہم سے جو اُمور وابستہ ہیں اُن کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے متعلق کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
مثلاً پانی آب ہی کو کہتے ہیں۔ روشنی شفافیت اور کشِش کے طور پر پانی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پانی تلوار اور آئینہ کے ساتھ یہی معنی دیتا ہے اور آنکھوں کے ساتھ بھی ہم کچھ اپنی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ محاورے کی سادہ سی صورت کے پسِ منظر میں تہذیبی معنی اور معنویت کے کیا کیا سلسلے ملتے ہیں مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اُس کی آنکھوں کا پانی ڈھل گیا تو اِس سے مراد آنکھوں کی کشش بھی ہوتی ہے حیاء و شرم اور غیرت کی وہ خوبی و خوبصورتی بھی جو آنکھوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ اور جب وہ نہیں رہتی، تبھی تو یہ کہتے ہیں کہ آنکھوں کا پانی ڈھل گیا۔ ہم استعارہ کی طرح محاورہ میں بھی لفظ سے معنی اور معنی سے در معنی کی طرف آتے ہیں۔ ’’رنگ ‘‘کا لفظ خوبصورتی کشش انداز و ادا سب کو دھنک کی طرح اپنے حلقوں میں لے لیتا ہے اس سے رنگینی بھی مُراد ہوتی ہے۔ اور خوبصورتی بھی اور اہلِ زبان خاص انداز بھی شاعری میں طرزِ فکر اور اندازِ ادا کو ’’رنگ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بے رنگ ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں کوئی خاص خوبصورتی و کشش نہ ہو۔ اسی لئے بے رنگی اشعار کی اس سادگی کو کہا جاتا ہے۔ جن میں سپاٹ پن ہوتا ہے اور یہ کبھی کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے اشعار تو بالکل بے آب و رنگ ہیں۔ یعنی اُن میں فکر و خیال کے اعتبار سے کوئی حُسن کوئی جاذبیت اور کشش تھی ہی نہیں۔ اِس اعتبار سے اس محاورہ کو ہم اپنی ذہنی زندگی اپنے احساسِ جمال اور سماجی رو یہ کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔
زباندانی کا جو معیار اہلِ شہر اپنی شہریت،اپنی گفتگو اور اپنے لب و لہجہ سے وابستہ کرتے ہیں اُس کا ایک گہرا تعلق محاورہ سے بھی ہے کہ بغیر شہر میں قیام اور اُس کے باشندوں سے تعلقات کے محاورے پر قدر ت ممکن نہیں یہ بات ہم اہلِ شہر کی زبان پر اُس حوالہ یا اس حوالہ سے برابر آتے ہوئے دیکھتے ہیں جن باتوں کا ذکر ہمارے یہاں زیادہ آتا ہے وہ ہمارے معاشرتی رو یہ کی نفسیات یا (سائیکی) کا ایک بڑا حصّہ ہوتی ہے اس اعتبار سے بھی محاوروں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے نفسیاتی ماحول میں داخل ہیں اور جن باتوں سے ہم بہت متاثر ہیں محاورات میں اُن کا ذکر آتا ہے اور اُن کے لئے بار بار کوئی محاورہ ہمارے لبوں یا زبان قلم پر آتا رہتا ہے۔
محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں مگر بیشتر اور اُن کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا اِنفرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ داری ہے اسی طرح ہمارے اعضاء پر ناک، کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً آنکھ آنا، آنکھیں دیکھنا، آنکھوں میں سمانا، اور آنکھوں میں کھٹکنا آنکھوں کا لڑنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔
آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھانا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھ پھوڑ ٹڈا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھ بدل کر بات کرنا، رخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا،آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا۔ استعاراتی اندازِ بیان ہے۔ جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ بات ہے آنکھ بدل کر بات کرنا۔ ناگواری نا خوشی اور غصّہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے۔ آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں۔ اور اُن میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اُسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی یہ صورت تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتی ہے نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں۔ آنکھیں پتھرانا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اُس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آگیا ہے۔ اور کسی سے اس کی آنکھ لگی ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں اور ذہنی حالتوں کو صبح و شام کی وارداتوں اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصر اً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصّہ بن گیا۔
راقمہ نے جن محاورات پر کام کیا ہے اور جن کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا گیا ہے وہ Proverbکے معنی میں آئے ہیں۔ صرفSetting کے معنی میں نہیں Proverb(محاورے) سے لفظوں کی ایک ترکیبی یونٹ واحدہ ہوتا ہے جو ایک خاص انداز سے ترکیب پاتا ہے اپنے معنی کا تعین کرتا ہے اور اپنی ہیئت اور صُورت شکل پر قائم رہتا ہے محاورہ کی زبان بدلتی نہیں ہے جس کا تعین ایک مرتبہ ہو گیا اُس کو ایک مستقل صورت مل جاتی ہے۔
راقمہ نے محاورات کے لفظ و معنی کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اِس کے مقابلہ میں محاورات کے لفظ و معنی میں تہذیب و تاریخ کے جو محرکات اور موثرات ملتے ہیں اُن کو اُردو کی اپنی معاشرت کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اُس کے وسیلے سے بہت سے نئے معنی کا محاورات میں موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے اِس طرح کا کوئی کام اُردو میں اب تک نہیں ہوا۔ جس سے محاورات کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت کا حال معلوم ہو سکے۔
مختلف لغات میں جو محاورات دوسرے الفاظ کے ساتھ شریک ہیں اُن کے معنی بھی لفظوں ہی کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ اِن سے اخذِ نتائج کا کوئی عمل وابستہ نہیں کیا گیا۔ شہر دہلی لال قلعہ نیز دہلی اور لکھنؤ کے محاورے میں جو فرق کیا گیا ہے۔ وہ اپنی جگہ ایک اہم کام ضرور ہے مگر تہذیبی اور معاشرتی نقطہ نظر سے ہنوز کوئی کام راقمہ کی محدود معلومات کے مطابق ابھی تک نہیں ہوا۔ دو شہروں کی زبان کا الگ الگ انداز اُس میں ضرور زیر بحث آیا ہے۔ لیکن ہمارے سماج ہماری معاشرت اور ہمارے تہذیبی رویوں سے محاورہ کا جو خاص اور معنی خیز رشتہ رہا ہے اُس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اِس پر بھی صاحبانِ قلم نے کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ہمارے یہاں جو محاورات موجود ہیں اور ہماری زبان کا حصہ ہیں اُن میں سے بعض پر دوسری زبانوں کے کیا اثرات ہیں عربی فارسی ہندی اور دیہاتی کا اُن پر کیا اثر ہے اور اُن کی لفظیات کو کس طرح دوسری زبانوں نے متاثر کیا ہے۔ یہ اہم مسئلہ بھی محاورات پر علمی اور ادبی کام کرنے والوں کے سامنے نہیں آیا۔ اُن کی توجہ زیادہ تر لُغت پر رہی ہے اور اُسی دائرہ میں رہ کر انہوں نے سوچا اور اپنے طور پر پُر وقار کام کیا ہے۔
ایسے لغت بھی تیار ہوئے جس میں محاورات کو لفظی وحدتوں کے طور پر جمع کیا گیا اور اُن کے معنی بتلائے گئے۔ ہماری درسیات میں یہ شامل رہا ہے کہ محاورات پر اُن کے معنی سمجھانے کے لئے ضرور روشنی ڈالی جائے اور معنوی سطح پر لغوی نقطہ نظر سے اُن کے معنی لکھ دیئے جائیں۔ لیکن محاورے وہ شہروں میں رائج ہوں یا قصبہ میں ادبی زبان میں یا عام بول چال میں اُن کا ہماری تہذیبی ماحول سے کیا رشتہ ہے اِس طرف ہنوز کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ محاورات پر دوسرے اہلِ قلم نے جو کام کیا ہے اُس کی نوعیت بہرحال جُدا گانہ ہے وہ کام اُس نقطہ نظر سے نہیں ہوا جو راقمہ کے سامنے رہا ہے۔ آج تو اِس کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اُردو میں محاوروں کو جمع کیا جائے اور لُغت المحاورات مُرتب کی جائے۔ پہلے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال چرنجی لال کی معروف تصنیف مخزن المحاورات معروف کتاب سے بہت پہلے شائع ہو چکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی معروف لغت آصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کاکوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔
راقمہ کے اس کام کو نوعیت اِس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع اور ی یا اُن کی (لغوی) سطح پر معنی نگاری نہیں ہے بلکہ اُن کی تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ و معنی میں کس حد تک تہذیبی تصورات یا تصویروں کو جمع کئے ہوئے ہیں کہ یہ ایک جُدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا ’’ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکر اور تہذیبی تقاضوں کی طرح عکاسی کرتے ہیں۔
راقمہ سُطور نے اِسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اور اُن کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اور اس پر اپنی محدود نظر کے مطابق محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ اُن پر تنقیدی اور تہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کو حروفِ تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اِس ضمن میں نسبتاً اہم محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور اِس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اور زمانہ کا کیا رشتہ ہے۔
ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گزری ہے اور جن معاشرتی آداب و رسوم نے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پر بننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔ اُن کی ایک متحرک تصویر سامنے آتی ہے۔
راقمہ الحروف کے سامنے اُردو کا وہ لغت خاص طور پر رہا ہے جو محاورات پر مشتمل ہے۔ اور جسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے اِس کام نام مخزن المحاورات ہے۔ چرنجی لال نے۲۵/مئی ۱۸۸۶ء میں منشی بُلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا۔ اِس کے کاتب کا نام سید عبد اللطیف اور اُس کے ساتھ ساکن سبز منڈی بیرونِ شہر لکھا ہوا ہے۔
اِس کے بعد غلط نامہ کے صفحات آئے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر و نگارش سات سوا کسٹھ صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد تمام شد تحریر ہے۔ اِس کے ذیل میں قطعہ تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب در سیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساکِن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔
قطعہ
لکھتے ہیں اِس کتاب میں مُشتاق
خوب اُردو مُحاوروں کے حال
میں نے بھی اس کا بے سرا عدا
نسخۂ بے نظیر لکھّا سال
۱۸۸۶۔
نسخۂ بے نظیر مادہ تاریخ ہے پہلے مصرعہ میں بے سراعدا لکھ کر تخرجہ کے اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ عدد خارج ہونا۔ اتنے عدد مادہ تاریخ سے نکالے جائیں گے تب جا کے سالِ تاریخ کے اعداد آئیں گے۔
یہ کتاب اب نایاب ہو چکی ہے اِس کا ایک ہی نسخہ اب دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہے۔ موصوف ہی نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ میں محاورات کے تہذیبی مطالعہ پر کام کروں یہ کام اب تک راقمہ کی محدُود معلومات کے مطابق کسی دوسرے شخص یا ادارے نے نہیں کیا۔
میرے بعض ساتھیوں اور احباب نے مجھے اس نئی تنقیدی اور تہذیبی مطالعہ کے کام میں مشورہ دیا۔ اور اپنی رائے اور اظہارِ خیال سے میری راہِ فکر و عمل کو روشن کیا۔ میں اپنی اس ناچیز کو شش کے سلسلہ میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی (دہلی یونیورسٹی) ڈاکٹر شریف احمد (دہلی یونیورسٹی ) اور سید ضمیر حسن دہلوی (ذاکر حسین کالج) نیز اپنے علمی احباب اور ساتھیوں کا شکر یہ ادا کرنا اپنا ادبی فریضہ خیال کرتی ہوں۔ علاوہ بریں میں دہلی اُردو اکادمی کی اشاعتی کمیٹی کے اراکین نیز اِدارے کے دوسرے معزز کار کُنان اور اکادمی کی ایکزیکٹیو کمیٹی کے وائس چیئرمین جناب م۔ افضل صاحب اور مرغوب حیدر عابدی (سکریٹری دہلی اردو اکادمی) کی ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے اِس کام کی انجام دہی میں خاص طور پر تعاون کیا اور اس کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی،دہلی
گذشتہ سطور میں محاورہ کی ادبی تہذیبی اور معاشرتی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیئے گئے ہیں اُن سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور اُس کی ادبی پرداخت میں کیا خاص کردار ادا کرتا ہے اور صدیوں تک ادا کرتا رہا ہے۔
جب زبان آگے بڑھتی اور پھیلتی ہے مختلف دائروں اور تہذیبی حلقوں میں اپنا اثرو نفوذ پیدا کرتی ہے تو اس کی تزئین اور ترسیل میں جو باتیں یا خو بیاں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں ان میں تشبیہہ استعارہ تلمیح اور محاورہ خاص طور پر شریک رہتا ہے کہیں شاعر مقر ر افسانہ گو اور داستان نگار تشبیہ سے کام لیتا ہے۔ ایک شے وجود کو دوسری شے یا وجود سے مشابہت دی جاتی ہے تو تشبیہہ کا رشتہ پیدا ہوتا ہے جو مثال کا رشتہ کہلاتا ہے یعنی وہ شے ایسی ہے جیسے فلاں شے ہے۔ اور جب تشبیہہ کے رشتہ کو مستقل طور پر اُس شے سے وابستہ کیا جاتا ہے تو وہ استعارہ یا علامت بن جاتی ہے جیسے سورج چاند پھول شاخ گل شمشیر ستارہ ماہ نو وغیرہ وغیرہ یہ تشبیہیں بھی ہیں استعارے بھی اور جب بہت سی باتیں خیالات تصورات اور تاثرات کسی شے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو وہ علامت بن جاتی ہے وہ علامت تمثیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کہیں تلمیح کی صورت میں سامنے آتی ہے جب ہم استعارہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا رشتہ یا ذہنی سلسلہ اِدھر سے اُدھر تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ خیال حال تجربہ اور مشاہدہ سے تعلق رکھنے والے امور ہیں انفرادی سطح پر بھی ایک شاعر ایک فنکار ایک داستان گو اپنے فنکارانہ انداز نظر اور اپنے تہذیبی نقطہ نگاہ کے ساتھ تشبیہوں اور استعاروں تلمیحوں کو اپنے انتخاب اور استعمال میں شریک رکھ سکتا ہے۔
محاورہ ایک طرح سے زبان میں استعاراتی عمل ہے جس میں کہیں تشبیہ کا رشتہ قائم ہوتا ہے کہیں تمثیل کا کہیں تلمیح کا اِس سے ایک خاص معنی مراد لئے جاتے ہیں یہ معنی مرادی ہوتے ہیں عام لُغت کے تابع نہیں ہوتے جیسے ہم محاورہ کے طور پر’’ آگ بگولہ ہونا‘‘ کہتے ہیں اور اُس سے غیر معمولی غصہ اور طیش کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
محاورہ ذہنوں میں ایک تصویر یا مجسم شکل اختیار کر لیتا ہے اور اُس سے وہی معنی سمجھے اور سمجھائے جاتے ہیں جو ایک طرح سے اُس محاورہ کے ساتھ روایت یا ٹریڈیشن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زمانہ بہ زمانہ لفظ استعارہ تشبیہ وغیرہ اپنے معنی میں تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں الفاظ بھی شکل بدل دیتے ہیں لیکن محاورہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے وہ گویا جہانِ لفظ و معنی میں ایک پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے جو صدیوں تک بلکہ ایک ایسے زمانہ تک جس کا تعین مشکل ہے اپنے خدوخال اور نقش و نگار کو قائم رکھتا ہے وہ ٹوٹ سکتا ہے چھوڑا جا سکتا ہے اسی طرح سے محاورے ایک زمانہ کی لفظیات اور زبان کے تہذیبی یاتشبیہ و استعاراتی استعمال کی بعض صورتوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس معنی میں محاورہ کسی بھی زبان کی صوتیات لفظیات اور لسانیاتی مطالعہ میں مدد دیتا ہے۔ بہت سی لسانیاتی گتُھیاں کھلتی ہیں سماج کے رویے سمجھ میں آتے ہیں زبان کے ارتقائی مراحل پر نظر داری میں یہ محاورے معاون ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں محاورے ہماری زبان ایک ناقابلِ شکست حصّہ رہے ہیں شہری سطح پر ہویا قصباتی سطح پر یا دیہات کی سطح پر ہم اِن کے مطالعہ سے اپنی تہذیبی روشوں شہری رویوں اور اپنے تمدنی مزاج کی تہہ داریوں سے واقف ہو سکتے ہیں۔
ہم اپنی تاریخ کے صفحات سے سے گزرتے ہیں تو عام طور سے سیاسی واقعات اور انتظامی اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں یا جنگ و جدل کے حالات ہوتے ہیں مگر اس سے الگ اور آگے جو ہماری تہذیبی تاریخ کے نہایت اہم گوشے ہیں اُن سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ادبیات کا مطالعہ بعض ذہنی زمانی اور زمینی حوالوں سے ہماری تہذیب و تاریخ کے ان گوشوں اور زاویوں کو پیش کرتا ہے جو عام مطالعہ کے دوران اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اِن میں قصے کہانیاں حکایتیں نیز روایتیں بھی ہیں۔ شعر و سخن میں ہماری تہذیب کے مطالعہ کے بہت سے گوشہ محفوظ ہیں مثنویاں قصیدے غزلیات اردو مرثیہ نیز مرثیے اِس دائرہ میں آتے ہیں کہ تہذیبی مطالعہ کے لئے ان کو بطورِ خاص سامنے رکھا جائے ادبی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ کی طرف بھی لاتا ہے اور اس طرح کی علمی و ادبی کوششیں برابر ہوتی رہی ہیں۔ اگرچہ تحقیق و تنقید کے مقابلہ میں اُن کا دائرہ نسبتاً مختصراً ہے۔
یہاں ایک محاورہ کی طرف اگر اشارہ کر دیا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی اور اُس کے فکری زاویہ روش اور واضح ہو جائیں گے مثلاً ’’ساس لگنا ‘‘ایک محاورہ ہے جس کا ہماری معاشرت اور تہذیبی رشتوں سے گہرا تعلق ہے ایک کنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہم پیشہ خاتون کے رو یہ سے خفا تھی اور اُس پر اظہار ناخوشی کرنا چاہتی تھی کہ اُس نے خواہ مخواہ ایک موقع پر بُرے الفاظ میں یاد کیا تھا اور شکوہ شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑے کی صورت دیدی تھی اُس پر اس کنواری لڑکی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے میرے خلاف اِس طرح کی باتیں کیوں کیں وہ میری ’’ساس نہیں لگتی تھی‘‘۔
یہ اس لئے کہ معاشرتی طور پر ہمارے خاندانوں میں ’’ ساس‘‘ کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہو سکتی ہے اور اپنی بہو کا فضیحتہ کر سکتی ہے کسی اور کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر ہم اس بے تکلف اظہار اور محاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں تو ہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اور گھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اور مختلف رشتوں کے جو معنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریز روشنی پڑتی ہے۔
سماج متحرک نظر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے اور رہا ہے محاوروں کی زبان انداز بیان زمین زمانہ اور ذہن سے اُن کا رشتہ محاورات کی لفظی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے ایسے سماجی حوالوں سے بھی جو محاورات کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت بہرحال باقی رہتی ہے۔
محاورات کو ہم کئی اعتبار سے دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں اُن میں سے ایک رشتہ وہ ہے جو لسانیات سے ہے مختلف زمانہ میں ہم اپنی زبان کی جس ساخت اور پرداخت سے زمینی یا زمانی رشتہ رہتا ہے وہ سلسلہ ادبیات لغت اور شعر و شعور کے دائرہ میں پہنچ کے بدل جاتا ہے اور وقت کے ساتھ بہت لفظ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں متروکات میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک دور کے بعد ہم دوسرے دور میں انہیں استعمال نہیں کرتے زبان و ادب کے رشتہ سے جب ہم اپنی زبان کی لفظیات کو پرکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ گزر جانے والے وقت کے ساتھ اس کے سرمایہ الفا ظ میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ترک و اختیار کا سلسلہ ہر زمانہ کے بعد دوسرے زمانے میں واضح یا نیم واضح طور پر سامنے آتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جو الفاظ ایک طبقہ کی زبان سے خارج ہو جائیں وہ دوسرے طبقہ کی زبان سے بھی نکل جائیں یا جو ایک شہر کی زبان میں اپنا چلن ختم کر دیں وہ دوسرے شہر کی زبان میں بھی شامل نہ رہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مہذب شہریوں کی زبان اور لفظیات سے جو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں وہ قصبوں اور اُن کی مختلف آبادیوں کے حلقوں میں شامل رہتے ہیں۔
میر انشاء اللہ خاں نے خود شہر دہلی کے متعلق یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں محلے کی زبان زیادہ صحیح اور فصیح ہے بات ایک شہر سے آگے بڑھ کر دوسرے شہر تک اور شہری حدود سے تجاوز کر کے قصبات اور قصبات سے گاؤں تک پہنچتی ہے تو اس کے دَھنک جیسے حلقے بھی اپنے رنگوں کے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اعضائے جسمانی سے ہمارا جو نفسیاتی اور عملی رشتہ ہے وہ سماجی حقیقتوں کا ترجمان بن جاتا ہے اور اس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے جذبات و احساسات یا اُس قدرتی ماحول سے جو ہمارا وجود ہے یا ہمارے وجود کا حصہ ہے ہم اپنے خیالات اور حالات کو ظاہر کئے جانے اور اُن پر گفتگو کرنے نیز اُن سے متعلق تبصرہ کرنے میں ہم کیا اور کس طرح مدد لیتے ہیں اور اِس معنی میں ہمارا اپنے وجود اور زمانہ موجود سے کیا رشتہ ہوتا ہے اور زندگی بھر بنا رہتا ہے مثلاً آنکھوں کے علاوہ ’’دل‘‘ سے متعلق ہمارے محاورے اور کہاوتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہماری انسانی اور سماجی نفسیات میں کس نوع کے رشتہ کیا ہیں اور کس طرح کے ہیں اور کس کس سطح کے ہیں۔
اِس کے علاوہ ہمارے آس پاس جو چیزیں ہیں وہ ہمارے کام میں آتی ہیں اور ہمارے اپنے ماحول سے ہمارا تعلق اُن رشتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو ان چیزوں میں اور ہم میں ایک دوسرے سے رابطے اور وابستگی کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً’’ کانٹا‘‘ جھاڑی دار پودوں کا حصہ ہوتا ہے نرم کانٹے بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی نیز ایسے کانٹے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی نوکیں مڑی ہوتی ہیں اور ایسی بھی جو لوہے کی باریک کیل کی طرح سخت ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیان پھول ہوتے اور پھولوں کے درمیان کانٹے کانٹوں پر طرح طرح کے محاورے ہیں مثلاً’’ دل میں کھٹکنا ‘‘کانٹے کی طرح رگ جاں میں اُتر جانا زہر بھرے کانٹے وغیرہ وغیرہ یہاں یہ مصرعہ یاد آتا ہے ’’زیست کی راہ کا نٹوں سے بھر جائے گی۔ ‘‘اِس موقع پر غالبؔ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کوپر خار دیکھ کر
یا پھر یہ مصرعہ ہے۔
گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
اسی طرح ٹھیکرا’’ اینٹ‘‘ پتھر اور در و دیوار جادہ و راہ کون سی شے ہے جو ہماری زندگی کو متاثر نہیں کرتی ہمارے ذہنوں پر اثر نہیں ڈالتی اور ذہن جب اثرات قبول کرتا ہے تو زبان الفاظ تشبیہیں استعارہ اور محاورے سب ہی تو اس سے تاثر لیتے ہیں۔ مثلاً آب و رنگ اگرچہ فارسی کے لفظ ہیں لیکن ہماری زندگی ہمارے ذہن اور ہمارے زمانہ کی فکری اور فنی پہلو داریوں سے اُن کا گہرا واسطہ ہے اسی کو جب ہم محاورات میں معنی در معنی پھیلتے اور سمٹتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ ہمارے کب کب اور کن کن موقعوں پر کام آتے ہیں اور ہمارے مذہب ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرہ سے ان کا ذہنی طور پر کیا کیا رشتہ بنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری تہذیبی فکر اور معاشرتی انداز نظر بہت کچھ ہماری زبان کے طابع ہوتا ہے خیال کو جب تک الفاظ اِشارات و علامتیں نہ ملیں تو وہ حال میں نہیں بدل سکتا حال کا تعلق خیال سے ہے خیال تصور ہوتا ہے اور حال اُس کی تصویر۔
ہم فنونِ لطیفہ کے ذریعہ بھی اپنی بات کہتے ہیں اس میں رقص بھی شامل ہے اور موسیقی بھی اداکاری بھی مصوّری میں رنگ کام آتے ہیں خطوط اور زاویہ ہمارے خیال کو حال میں بدلتے ہیں خیال کے خاکوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں اور اظہارِ ابلاغ کو نئی جہتیں میسر آتی ہیں نقاشی بت گری اور عمارت سازی کو بھی انہی فکری اور فنی دائروں میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔
شاعری بھی فنونِ لطیفہ ہی میں سے ہے اور ایک بڑا اور ہمہ گیر تخلیقی فن ہے یہ ایک Creativeآرٹ ہے۔ اس میں بھی اظہار یا اظہاریت کو لفظ و معنی کی اشاریت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اشاریت سے یہاں مراد وہ کیفیت ہے کہ لفظ یا لفظی ترکیب مختصر ہوتی ہے جانی پہچانی ہوتی ہے لیکن انسانی ذہن اور تخلیقی حسّیت کے وسیلے سے اس میں نئی نئی وسعتیں گہرائیاں اور رنگارنگی پیدا ہو جاتی ہے جو ہمارے جذبات و احساسات اور اِدراک کو اپیل کرتی ہے معنی فہمی کی طرف لاتی ہے۔ ۔
اسی طرح عوامی سطح پر محاورہ ایک طرح کی شعوری کوشش ہوتی ہے جو پھر لاشعوری یانیم شعوری حالتوں میں بدل جاتی ہے ہمارے ایک وقت کے تجربہ کو ہمہ وقتی صورت دیتی ہے اسی لئے محاورہ وقت کے بعد زمانہ بہ زمانہ اور دور بہ دور اپنی رواجی حالت کو قائم رکھتا ہے اور یہ خصوصیت ہماری اظہاری اسلوبیات میں صرف محاورہ کو حاصل ہے کہ وہ اپنی لفظیات تلفظ اور ساخت کے ساتھ محفوظ رہتا ہے اور ایک بڑے حسّی تجربہ کو اپنے اندر سموئے رکھتا ہے جب کہ شعر و شاعری اپنا اثر کم کر دیتی ہے اِس کے برعکس خاص طور پر محاورے کی دو جہتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے ہمیشہ کام آتی ہیں ایک لسانیاتی جہت کہ محاورہ قدیم زبان کے Shadesاپنے ساتھ محفوظ رکھتا ہے اور ہم محاورہ پر ایک تجسس بھری نظر ڈال کر قدیم زبان کی پرچھائیوں کو اُس میں دیکھ سکتے ہیں اور علاقائی تغیرات کو بھی۔
ہم اپنی زبان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ ہماری زبان نے جو ایک ملی جُلی عوامی اور عمومی بھاشا ہے۔ پنجاب،راجستھان، سندھ، گجرات، مالوہ، دہلی، لکھنؤ اور دوسرے علاقوں کی زبان سے اُس نے کیا اثرات قبول کئے ہیں اِس سے زبان کی تاریخ کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کی روشنی میں لسانی ساخت کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے پس منظر میں زبان کے ارتقاء کو بھی۔
محاورہ زبان و بیان اور فکر و خیال کے مختلف سلسلوں سے وابستہ ہوتا ہے ان میں زبان کے ادواری اور علاقائی رو یہ بھی شامل ہیں محاورہ زبان کے کچھ خاص حصوں کو محفوظ بھی کرتا ہے اور صدیوں تک محاورہ کے ذریعہ زبان کے اس طریقہ استعمال کی حفاظت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر محاورہ زبان و بیان میں کوئی حسن پیدا کرے سنجیدہ ادبی زبان کو اب عام محاوروں کے استعمال سے الگ بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن طبقاتی زبان میں وہ استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہماری تہذیب کے ایک خاص رخ کو پیش کرتے ہیں محاورہ بھی ایک طرح کا استعارہ یا تشبیہہ ہے مگر وہ چونکہ منجمد صورت اختیار کر لیتا ہے اس لئے نئے ذہن اور نئی فکر کی ترجمانی محاورہ سے نہیں ہوتی۔ مگر وقت کا ذہن اور زندگی کا ایک طویل تجربہ بہر صورت محاورہ میں موجود رہتا ہے۔
شہر دیہات اور قصبات کی زبان میں بھی فرق ہوتا ہے اور ایک ہی بڑے شہر کے مختلف طبقوں کی زبان میں بھی محاورے کے استعمال کے لحاظ سے فرق اور فاصلہ ہوتا ہے ہم محض کسی ایک علاقہ کسی ایک طبقہ یا پھر کسی ایک شہر یا بستی کی زبان کو کسی بھی بڑی زبان کے رنگارنگ دائروں کا نمائندہ مشکل ہی سے کہہ سکتے ہیں شہروں میں یہ رجحان آتا ضرور ہے اور پڑھے لکھے طبقہ کے لوگ بھی اس سے ماورا نہیں قرار دیئے جا سکتے جب کہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ زبان کے الگ الگ رنگ اور ڈھنگ ہوتے ہیں ان میں ہم آہنگی ہو سکتی ہے مگر وہ سب ہم رنگ ہوں یہ ممکن اب سے کچھ زمانہ پہلے تک دہلی کے لوگ اپنی زبان کو سب سے اچھا کہتے تھے اور ایسا ہی سمجھتے بھی تھے یہاں تک کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان بھی اُن کے ہاں سند نہیں تھی یہی رجحان فارسی والوں میں موجود تھا کہ وہ یہ کہتے تھے فارسی ہماری مادری زبان ہے ہمیں وہ زیادہ بہتر آتی ہے خود ایران کے شہروں میں بھی شیراز اور اصفہان کی زبان کو زیادہ صحیح اور فصیح سمجھا جاتا تھا۔
دہلی والے بھی اپنے محلے کی زبان کے بارے میں اسی طرح کی دائرہ بندی کے قائل تھے میر انشاء اللہ خاں نے دریائے لطافت میں اس کا اظہار کیا ہے کہ قلعہ جامع مسجد کے آس پاس اور رسید واڑے (محلہ) کی زبان زیادہ صحیح ہے اور اسی کو زیادہ فصیح کہا جا سکتا ہے۔ باڑہ ہندو راؤ اور شہر کی بیرونی بستیوں کی زبان کو وہ محاورہ روزمرہ اور لطفِ ادا کے اعتبار سے بہت اچھا خیال نہ کرتے تھے اور مردم بیرونِ جات کی زبان ان کے نزدیک ٹکسالی زبان نہ تھی۔ یہ ایک وقت کا سماجی رو یہ ہو سکتا ہے اب یہ الگ بات ہے۔ مگر اس طرح کی دائرہ بندی یا معیار پسندی کو ہمیشہ کے لئے زبان کی ترقی و ترویج کے پیشِ نظر صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا قوموں اور طبقوں میں یہ رجحان رسم و رواج سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی رسموں اور رواجوں کو چاہتے ہیں پسند کرتے ہیں اور ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے انہیں ہر تبدیلی ایک طرح کی سماجی بدعت معلوم ہوتی ہے مگر تیز رفتار بدلتی پوری زندگی میں سوچ کا یہ انداز اور دائرہ بندی کا یہ اسلوب دیر تک اور دور تک ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ رجحان موجود ہے۔
اور اس سے پیشتر کم و بیش کافی شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ محاورہ محاورہ بندی با محاورہ زبان اور روز مر ہ کی پابندی کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے اس لئے کہ یہ تاریخ و تہذیب یا دوسرے لفظوں میں سماجیات (Sociology)کا ایک عمل ہے اور اس عمل کا جب ہم لسانی ادبی اور معاشرتی تجزیہ کرتے ہیں تو بہت سی اہم باتیں اور نکتہ ہماری نظر میں ابھرتے ہیں اور تاریخ کے عمل کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں مثلاً اُس اُس کرنا (عش عش) کرنا بھی اس ذیل میں آ سکتا ہے کہ تلفظ اور املا کے فرق کو تسلیم کرتے ہوئے ہم محاورہ کا استعمال اور لغت و تحریر میں اس کی نگارش کو سامنے لاتے ہیں اُس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔
ہم اس سلسلے میں آگ سے متعلق محاورہ کو بھی پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔ آگ پر بہت محاورے ہیں اس لئے بھی کہ آگ انسانی زندگی میں پانی کے بعد سب سے زیادہ داخل ہے۔ آگ سے بڑی ایجاد یا دریافت شاید ابھی تک نہیں ہوئی۔ انسان کو جنگل کی زندگی کی آفتوں سے آگ ہی نے پناہ دی اس کی غذائی ضرورتوں کو ایک خاص انداز سے پورا کرنے میں آگ ہی شریک رہی آگ کو انسان نے اپنا خداوند بھی قرار دیا اور اس کی طرف ہمارے مقدس صحیفوں میں اشارے بھی ملتے ہیں۔
آتش کدے قدیم زمانہ سے ہماری عبادت گاہیں رہے ہیں اور آج بھی ہیں مختلف مواقع پر آگ ہماری مذہبی رسومات میں شامل رہتی ہے اگر دیکھا جائے تو جو چیز ہماری زندگی میں فطری طور پر شریک ہے یا کسی وجہ سے ہماری معاشرت کا حصّہ بن گئی ہے ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور جب وہ ہماری نفسیات کا جز بن جاتی ہے توہم اس سے متعلق محاورات کی بھی تشکیل کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ہماری زبان سے کوئی ایسا فقرہ یا کلمہ ادا ہوتا ہے جس کو ہم معاشرہ میں رواج پاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہی محاورہ بن جاتا ہے۔ اور اس میں کچھ ایسی پہلو داری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سماج کے ذہنی رو یہ کی نمائندگی کرتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں اس طرح سوچا اور سمجھا گیا۔ اور پھر وہ رواج عام یا سماجی فکر کا حصّہ بن گیا۔
عجیب بات ہے کہ زیادہ تر محاورہ سماجی رویوں پر تنقید ہیں اور ہم نے کبھی اس رشتہ یا زاویہ سے اُن کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی جیسے ’’الٹی گنگا‘‘ ’’پہاڑ کھویا‘‘ ’’الٹی گنگا بہا‘‘ ’’الٹی مالا پھیرنا‘‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔
اصل میں ہم ایسی تنقیدیں کم کرتے ہیں جو شخصی ہوتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہم شخصی طور پر دوسرے سے برا بننا نہیں چاہتے اور اُس کے مخالفانہ رو یہ کو دعوت دینا اس لئے پسند نہیں کرتے کہ اس سے ہماری سماجی الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے اپنے قریب تر افراد کو برا کہنا اسی لئے avoidکرتے ہیں کہ پھر قربت میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں اور اتفاق اختلاف میں بدلتا ہے اسی لئے ہم صرف اپنے دشمنوں کو برا کہتے ہیں اور بات بات میں برا کہتے ہیں کہ ہمارا مخالفانہ جذبات اِس طرح تسکین پاتے رہتے ہیں اور تاہم غیر ضروری طور پر اپنی مخالفت کے دائرہ کو بھی بڑھنے سے روک دیتے ہیں مگر برا حال ہم سب ہی کو کہتے ہیں اور اس کے لئے محاورے کا سہارا لیتے ہیں اس طرح محاورہ ہماری زبان کی تیزی ہمارے لب و لہجہ کی چُبھن اور ہمارے طنز یہ فقرات کی زہر ناکیوں سے بھی بچ جاتا ہے اُس معنی میں محاورہ طنز و تعریض کے موقع پر بہت کام آتا ہے ذکر اور اپنے اظہارِ خو شی ذکر و ملال اور اپنے ذاتی غموں یا دکھوں کے اظہار و ابلاغ میں بھی غیر معمولی مدد دیتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جو شاعری کرتی ہے مگر شعر و شاعری سے سب لوگ کام نہیں لے سکتے اور جو کام لیتے ہیں وہ بھی ہر وقت نہیں لے سکتے ایسی صورت میں محاورہ ہمارے جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی نمائندگی اور جذبات کی ترجمانی اس طرح کر جاتا ہے کہ بات بھی کہہ دی جاتی ہے اور اس پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے۔
شہری زندگی میں زبان کے طرح طرح سے تجربہ کئے جاتے ہیں اور سطح پر اُس کے اثرات اور اِمکانات کو آزمایا جاتا ہے شہری معاشرہ میں ذہن و زندگی میں جو تہہ داریاں پیدا ہوتی ہیں پیچ و خم جنم لیتے ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور معاملہ کرنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے شہری زبان میں نئے نئے پرت پیدا ہوتے اور نئے نئے پہلو اُبھرتے رہتے ہیں۔
شہر ایک بڑی آبادی کے طور پر برابر حرکت میں رہتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرنے والا ایک انگریزی محاورہ ہے اس تحرک سے جس میں تسلسل بھی ہوتا ہے city in the motion A زبان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے شہری زبان اس کی لفظیات اس کے محاورے روز مرہ نیز اس کے لب و لہجہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر والے اپنی زندگی میں امتیاز کے جو زاویہ اور پہلو پیدا کرتے رہتے ہیں اُن میں وہ اپنی زبان کو بیشتر اپنی امتیازی روش و کشش کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک کی شہریت کا اپنا تہذیبی رو یہ ہوتا ہے۔ جو اُس کی معاشرتی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہم دہلی، لکھنؤ،لاہور، حیدرآباد، اور بعض دوسرے شہروں کی نسبت سے اپنی ادبی اور لسانی تاریخ میں اِس کا مطالعہ اور تجربہ کرتے آئے ہیں دہلی اور لاہور میں بیٹھ کر اہل ایران اپنے امتیازات کا اظہار کرتے تھے اور دہلی والے لکھنؤ اور حیدرآباد میں بیٹھ کر جب ہی توہم داغ کو یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
دلی نہیں دیکھی ہے زبان داں یہ کہاں ہیں
اور داغ ؔکایہ شعر تو اس موقع پر بے اختیار یاد آتا ہے۔
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے
محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں ان کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا افرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ دار اسی طرح ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی، انفرادی نفی کیفیتوں کی آئینہ دار ی ہے اسی طرح ہمارے اعضاء ہاتھ پیر ناک کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے مثلاً آنکھ آنا آنکھیں دیکھنا آنکھوں میں سمانا اور آنکھوں میں کھٹکنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔
آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں آنکھ اٹھانا،آنکھ اٹھانا آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھ پھوڑ ٹڈا۔ آنکھیں ٹیڑھی کرنا آنکھ بدل کر بات کرنا۔ رُخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا استعارات انداز بیان ہے جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ باتیں ہیں آنکھ بدل کر بات کرنا ناگواری نا خوشی اور غصہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں اور ان میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرنا آنکھیں پتھر انا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آ گیا ہے اور کسی سے اُس کی آنکھ لگی ہے اس سے ہم انداز ہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں کو ذہنی حالتوں کو صبح و شام کی وارداتوں کو اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصراً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصہ بن گیا۔
محاورہ جن الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا ہر طبقہ اپنے اپنے ماحول زندگی اور ذہن کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہے سب کے پاس نہ ایک سے الفاظ ہوتے ہیں نہ ایک سا تجربہ ہوتا ہے نہ ایک سی ذہنی سطح ہوتی ہے۔ اسی لئے محاورہ بھی اُن کی لفظیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مثلاً ً خوشی کے محاورے الگ ہوتے ہیں غم و الم کے مواقع سے نسبت رکھنے والے محاورے الگ شادی بیاہ سے تعلق والے الگ اور شادی بیاہ کے رسومات سے متعلق محاورے جُدا مثلاً ’’بیل پڑنا‘‘ جب بدّھاوے یا ڈومنیوں کے گانے بجانے سے تعلق سے بات کی جاتی ہے تو اُن کو پیسے دینے کا ذکر خاص طور پر آتا ہے اور یہ طبقہ اسے بیل پڑنا کہتا ہے اس موقع پر خاکروب عورتوں کا ناچ قصبوں میں بدھاوا کہلاتا ہے اب بدھاوے کی رسم بھی ختم ہو گئی ڈومینوں کا ادارہ بھی باقی نہ رہا تو بیل پڑنے کا محاورہ اب زبانوں پر نہیں آتا اس لئے کہ محاورات کا استعمال ہماری رسموں اور رواجوں کے مطابق رہا ہے وہ رسمیں ختم ہوئیں وہ رواج باقی نہ رہے تو وہ محاورے بھی ہماری زبان سے خارج ہو گئے لیکن قدیم ادب میں اور پرانے لوگوں کی زبانوں پر جب یہ آتے ہیں تو ہمارے سماج کی رنگارنگ تاریخ پر اپنے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اور اِس سے اِن کی اِفادیت کا پتہ چلتا ہے مثلاً بعض محاورے ایسے کھیلوں سے متعلق ہیں جن میں چانس( اتفاق) زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے ’’چوپڑا‘‘ ایسے ہی کھیلوں میں سے ہے اور ہم بطور مثال ’’پانسہ‘‘ پھینکنے کو پیش کر سکتے ہیں ’’پاسا پلٹنا ‘‘بھی اسی سلسلے سے وابستہ ایک محاورہ ہے۔ ان محاورات سے جب ہم گزرتے ہیں تو معاشرہ کا وہ ذہنی رو یہ بھی سامنے آتا ہے جو تقدیری امور یا ہماری قسمت پر ستی سے وابستہ ہے۔
ہمارا معاشرہ تقدیر پرست ہے اس لئے ہر بات کو قسمت سے وابستہ کرتا ہے یہاں تک کہ ’’پانسہ پلٹنا ‘‘بھی قسمت ہی سے وابستہ ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا یعنی ہار فتح میں اور فتح شکست میں بدل گئی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کہا گیا ہے اور کس کس صورت حال کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے محاورہ کا رشتہ تہذیب و سماج سے ہوتا ہے صرف لغت سے نہیں ہوتا۔
ہمارے زیادہ تر کام معاملات اور معمولات سماجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور ہماری انسانی کمزوریاں بھی انسان کے سماجی وجود سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کہ اگر وہ محض انسانی خو بیاں یا کمزوریاں ہوتیں تو وہ سب میں مشترک ہونی چاہیں تھیں اگر کچھ لوگ مختلف ہیں اور کچھ قومیں مختلف ہیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے اُس کی وجہ تاریخ ہے تہذیب ہے پیشے یا پھر عام سماجی رو یہ ہیں ان کو پیدا کرنے اور قبول کرنے میں بھی سماج شریک رہتا ہے اگر ہم کسی کے شکر گزار نہیں ہوتے صرف شکوہ سنج ہوتے ہیں تو دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق سماج سے ہے یا پھر ایک فرد سے اگر بہت سے لوگ ایک ہی عادت ایک ہی جیسا مزاج اور رو یہ رکھتے ہیں تو پھر اُس کا تعلق فرد سے نہیں ہے معاشرہ سے ہے اسے کسی انسان کے لئے ذاتی یا انفرادی نہیں کہا جا سکتا۔
اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصوں کو اپنی سوچ میں شامل کر رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گر بھی ہے زبان بھی ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت کر دی جائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ محاورہ سادہ الفاظ میں ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے معنی لغت یا قواعد کے تابع نہیں ہوتے وہ ایک طرح کے استعارہ یا کنایہ ہوتا ہے اور بولنے والا اُسے ایک خاص معنی اور مفہوم کے ساتھ استعمال کرتا ہے عام لفظی معنی اُس کے نہیں ہوتے۔
زبان میں محاورے کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس میں کوئی ندرت یا جدّت نظر نہیں آتی لیکن محاورہ بنتا ہی اُس وقت ہے جب اُس میں استعاراتی یا علامتی اظہار شامل ہو جاتا ہے استعارہ دراصل زبان کا وجہ استعمال ہی نہیں اُسے عام رویوں عمومی لفظیات اور انداز سے قریب تر کرتا ہے اور استعمال ہی کی وجہ سے طبقہ در طبقہ اور شہر بہ شہر اور بعض صورتوں میں محلہ در محلہ کچھ امتیازات کے پہلو اُبھرتے ہیں اور استعمال ہی سے دائرہ بند زبان عوام کے درمیان پہنچتی ہے اور اپنے استعمال میں ایک انفرادیت اور اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔
محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے اور سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی یہ عمومیت ہی زبان ادب اور لسانیت میں ایک اہم کردار ادار کرتی ہے۔ اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ یہ زبان میں تسلسل کی روایت کو قائم رکھنے میں ایک مسلسل اور خاموش کردار یہ ہے کہ ایک دور کے بعد دوسرے دور میں اور ایک دائرہ فکر و نظر کے بعد دوسرے دائرہ میں محاورہ کام کرتا ہے لغت کا بھی حصہ بنتا ہے ادب و شعر کا بھی اور تہذیب و روایت کا بھی۔
محاورہ کی تہذیبی تاریخی اور معاشرتی اہمیت پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے ضروری نہیں کہ کافی و شافی ہو اس میں اور بہت سے پہلو بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً لسانی پہلو جس کی طرف راقمہ نے بھی اشارہ کیا ہے یا تاریخی پہلو کہ وہ بھی راقمہ کی نظر میں رہے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہوئی اس کے علاوہ محاورات کا طبقاتی مطالعہ بھی ہو سکتا ہے راقمہ نے بھی موقع بہ موقع اِس کی طرف اشارے کئے ہیں۔
زبان و محاورات کی علاقائی تقسیم بھی ایک دائرہ و فکر و خیال بن سکتی ہے کہ کون کون محاورات کس علاقہ سے بطورِ خاص تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری، قصباتی اور دیہاتی سطح پر محاورات اپنے اپنے دائرہ میں کیا رنگ اور آہنگ رکھتے ہیں اور ان کی لسانی اور تہذیبی اہمیت کیا ہے۔
محاورات کی ایک عمومی حیثیت ضرور ہے لیکن ہماری زبان ہماری شاعری اور ادب نگاری کی طرح محاورے کے مطالعہ کی بھی ایک سے زیادہ جہتیں ہو سکتی ہیں بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور جہت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہماری زبان اُس کی لفظیات اُس کے پس منظر میں موجود کلچر کی ایک اساسی حیثیت ہے۔ جس نے زبان کی فکر ی نہج کو بھی متاثر کیا اّس کی لفظیات کو اور ادبیات کو کبھی اِس طرح کے حلقے ہماری زبان اس کی لسانی ساخت تہذیبی پس منظر اور محاوراتی سلیقہ اظہار پر بھی زمانہ بہ زمانہ اور حلقہ در حلقہ دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں پہلا عرب ایرانی حلقہ تہذیب و لسانیات ہے جس کا اثر ہم اپنی زبان پر دیر تک اور دُور تک دیکھتے ہیں۔
سندھ گجرات اور مالا بار کا علاقہ وہ علاقہ ہے جس سے عرب و عجم کا رشتہ بہت قدیم ہے عجم ہم عام طور پر ایران کو کہتے ہیں لیکن اس میں عراق بھی شامل ہے اس علاقہ سے مغربی ہندوستان اور جنوب مغربی ایشیاء کا جو تعلق ہے وہ بہت قدیم ہے جن کا اثر یہاں کی زبان یہاں کے شعر و شعور اور تہذیبی اندازِ نظر پربھی مرتب ہوا ہے اِن علاقوں کی زبانوں میں جو عربی فارسی اور اردو کے الفاظ ملتے ہیں ان میں محاورے بھی شامل ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان محاوروں کا اس لسانیاتی تاریخی اور پس منظر سے کیا رشتہ ہے علاوہ بریں ترکوں منگولین اور ترک و تاتاری علاقہ سے بھی ہمارا ہزاروں برس پرانا رشتہ ہے آر یہ سینٹرل ایشیا ہی سے آئے تھے اور ان کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا قدیم آریاؤں کے بعد اس علاقہ میں بسنے والی قومیں اور قبیلے وسطی عہد میں بھی اپنے اپنے علاقوں سے اِس پر ہندوستان آئے اور یہاں آباد ہو گئے۔
ہم یہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ وسطی عہد کے بہت سے حکمران خاندانوں کا نسلی رشتہ مرکزی ایشیاء سے وابستہ رہا ہے اس علاقہ میں ترکوں منگولین یا ترک و تاتاری زبانیں بولی جاتی ہیں یہی بولیاں یا زبانیں آنے والوں کے ساتھ شمال ہندوستان کے علاقوں میں آ کر آباد ہوئیں تو اپنی زبانوں سے ایک لمبے عرصہ تک اِن کا رشتہ باقی رہا اور اس کا اثر ہماری علاقائی بولیوں پر بھی مرتب ہوا۔ ہمارے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جواس علاقہ کی دین ہیں یا پھر اُس کے اثرات سے متاثر ضرور ہیں۔
ہم یہ بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہماری ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی ایشیاء سے وابستگی رکھنا ہے اور اِن کہانیوں کے جغرافیائی ماحول میں بھی یہ علاقہ اور ان کے جغرافیائی اور تاریخی آثار شریک ہیں ایسی صورت میں محاورہ کا کم از کم علاقائی محاورہ پران کے اثرات کا مرتب ہونا ایک فطری عمل ہے اس پر مزید کام کرنے اور بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ہماری زبان اور اس سے وابستہ بولیوں کا سرچشمہ اور اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ہونے والی بولیاں علاقائی زبانوں کو متاثر بھی کرتی رہتی ہیں اور ان سے تاثر بھی لیتی رہی ہیں پنجابی یا لاہوری زبان بھی اس میں شامل ہے۔
راجستھانی بھی اِس سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے میواتی کھڑی بولی اور دہلی میں بولی جانے اور رواج پانے والی بولیوں کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور برج کے علاقہ کی برج بھاشا کی بولی کو بھی یہ تو وہ بولیاں ہیں جن سے شمال مغربی ہندوستان میں اردو بنی اور صدیوں تک متاثر ہوتی رہی۔
اس میں فارسی کو بھی ایک اہم سرکاری درباری انتظامی اور ثقافتی حیثیت سے شامل رکھئے۔
اُردو کی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ان بولیوں کا اثر دکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آگیا اس میں تجارت پیشہ لوگوں کے آنے جانے کو بھی دخل تھا۔ اور فوجوں کے بھی تاریخ اپنے طور پر جس طرح کام کر رہی تھی اس کا عمل جو ہماری تہذیبی زندگی کو متاثر کرتا رہا اسی اعتبار سے زبانیں بھی اس کا تاثر قبول کرتی رہیں۔ ادیبوں شاعروں اور صوفیوں کے ہاں ہم اس تاثر کو زیادہ آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔
خانقاہوں کا اثر غیر معمولی ہے جو شمال و جنوب میں یکساں طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن جس زمانہ میں دکنی زبان میں قدیم اردو لٹریچر کے نمونے سامنے آ رہے تھے اس دور میں شمالی ہندوستان میں اُردو شاعری کی مثالیں نہیں ملتیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی کے آس پاس جو زبانیں بولی جا رہی ہیں اُن میں شاعری اچھے خاصے پیمانہ پر ہو رہی ہے۔ ان زبانوں میں پنجابی اور راجستھانی زبان کے علاوہ برج اور اودھی شامل ہے ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب مسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی۔ اور بڑے پیمانے پر ہے۔ اِن کے مطالعہ سے ہم بہت کچھ لے سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کے وسیلے سے ایک طرح اور ایک سطح پر زبان آگے بڑھتی رہی ہے اور نئی نمود حاصل کر رہی ہے۔
محاورہ اُس دور زندگی کی بہرحال لسانی یادگار ہے اور ان کے ادبی لسانی اور تہذیبی اثرات محاورے میں بھی سمیٹے ہوئے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Preservedصورت میں ہیں ان بولیوں سے تقابلی مطالعہ کا وسیلہ اختیار کر کے ہم اُردو محاورات کا مزید تہذیبی اور لسانی نقطہ نظر سے کام کر سکتے ہیں۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے اہلِ نظر اور اصحابِ خیر افراد اس طرف توجہ فرما ہوں جس سے اِس نوع کے مطالعہ کی اہمیت سامنے آئے اور اس کے مختلف گوشے جواب تک نظر داری کی روشنی سے محروم ہیں اُن کی طرف توجہ مبذول ہو۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والے اور سینئر ادیب اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ دے کر بات کو آگے بڑھائیں گے اور مطالعہ کی نئی صورتیں سامنے آئیں گی اور آتی رہیں گی۔