01:30    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1919 0 0 00

( 1 ) بات اٹھانا، بات الٹنا یا الٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بات اٹھانا، بات الٹنا یا الٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، بات نیچی ہونا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات بات میں ذکر کرنا، اعتراض کرنا،بڑھ گئی بات بات کچھ بھی نہ تھی۔ بات کا سرا پانا، بات کا سِرا ملنا، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ بات بدلنا، بات بڑھنا یا بڑھانا، بات بڑی کرنا، بات بگاڑنا یا بگاڑ دینا، منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے، بات لگانا، بات میں سے بات نکالنا، بات نہ کرنا وغیرہ۔

گفتگو ہمارے معاشرتی رویوں کا بہت بڑا حصہ ہے ہمارے بہت سے معاملات و مسائل بات چیت کے غلط رخ یا رو یہ کی بدولت بگڑ جاتے ہیں اور  بات ہی سے سنورتے ہیں کہا سنی، گالی گلوچ،برا بھلا،لڑائی جھگڑا، تناتنی آخر ہمارے معاشرتی رو یہ ہیں جن کی بنیاد اکثر بات چیت سے پڑتی ہے ہم کہیں نہ کہیں گفتگو کے طریقہ سلیقہ میں غلط ہو جاتے ہیں بات آگے بڑھتی ہے غلط رخ پر آ جاتی ہے بلکہ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔

ہم غلط طور پر اپنی بات کا پچ بھی کرتے ہیں یعنی اپنی بات کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں غلط اور صحیح مناسب اور  نامناسب کی حدود کو اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے بہرحال ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں جو پریشانیاں ذہنی الجھنیں شکر رنجیاں اور (دوستانہ تعلقات کا بگاڑ) اور عزیزانہ رشتوں میں گرہ پڑنا یہ سب گفتگو کے الفاظ سلیقہ اور طریقہ پر قابو نہ رہنا ہوتا ہے بعض لوگوں کو صحیح الفاظ آتے بھی نہیں بعض جلدی میں غلط سلط بات کہہ جاتے ہیں اور اس سے زیادہ بُرا یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی پر اڑ  جاتے ہیں اور دس باتیں اور بُری ہو جاتی ہیں اور بات کو بڑھ کر جہاں نہیں پہنچنا چاہیے وہاں پہنچ جاتی ہے اور پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بات کو سنبھالنا ہر آدمی کے بس میں ہو تا بھی نہیں درگزر کرنا ایک اچھا رو یہ ہے لیکن مناسب حد تک ہی برداشت کرنا چاہئیے نامناسب حد تک بات کو پہنچانا یوں بھی صحیح نہیں ہوتا۔ توازن برقرار رکھنا چاہئے۔

کبھی کبھی بات اتنی پھیلتی بگڑتی اور اُلجھتی ہے کہ بات کا سرا نہیں ملتا کہ یہ معلوم کیا  جا سکے کہ اصل مسئلہ کیا تھا، اور کیوں تھا اور کیسے تھا، بات کا سِرا پکڑنے کی کوشش ہم اکثر کرتے بھی نہیں اِس سے بھی بات الجھتی ہے اور اس کا سَمٹانا  یا معاملہ سے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بہ حیثیت مجموعی سماج کو سمجھنا ماحول کا جائزہ لینا اور صورتِ حال کا تجزیہ کرنا ایک بہت ضروری امر ہے جس سے ہم خوبصورتی کے ساتھ عہدہ بَرا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ معاملہ کے تقاضوں کا خیال کرنا مسئلے کے ضروری پہلوؤں پر نظر رکھنا بات کے بے تکے پن سے بچنا سچ یہ ہے کہ بہت سی سماجی برائیوں سے بچنا ہے اور بہت سی الجھنوں سے نجات پانے کی کوشش ہے۔

( 2 ) بارہ باٹ کرنا یا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بارہ باٹ کرنا تیتر بتر کرنے کو کہتے ہیں جس کے بعد جمع اور ی مشکل ہو جاتی ہے اور  آدمی کچھ کر نہیں پاتا سارا کنبہ بارہ باٹ ہو گیا ہے۔

( 3 ) بارہ بانی کا ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہر طرح سے صحت مند ہو جانا یہ بھی دیہات میں اکثر بولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اور کھیت کی اچھی پیداوار کے لئے بھی اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہو رہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اور قصبات تک محدود ہو گئے ہیں۔ مثلاً دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی محنت کر لو وقت پر پانی دو اور  کھاد ڈالو تو تمہارے کھیت بارہ بانی کے ہو جائیں گے۔

اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب ’’کھیت کیا ر‘‘ کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تو اُس سے نسبت رکھنے والے محاورے بھی اس کی زبان میں داخل نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جو پڑھے لکھے اور ملازمت پیشہ طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے (دھیلی) پاولا کمانا یا پکڑنا محنت مزدوری کرنے والوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہو سکتا روپیہ کے مقابلہ میں (دھیلی) اور ’’دھیلی‘‘ میں ’’پاولا‘‘ آٹھ آنے چار آنے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ایک آدمی کی مزدوری آٹھ آنے روز ہوتی تھی اور وہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چار  آنے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جو آمدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جو معاوضہ ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔

آج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگار سے لگا ہوا کہنے والے موجود ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق روٹی روزی سے جوڑ دیا جائے اِس سے ان کی مُراد روپیہ پیسہ یا آمدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اور  روز کی روٹی کہا جاتا تھا روزی دراصل روزینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جو کچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھی چار آنے روز  دو آنے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آٹا ہی دیا جاتا تھا اور بازار سے جب چیز منگائی جاتی تھی تو روٹی بنوا لے، جو، باجرا، چنے اور گیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اور اُس کے بدلہ میں روزمرّہ کے استعمال کی چیز آ جاتی تھی۔

’’فقیر مٹھی دو مٹھی آٹا مانگتا تھا‘‘ جو ایک محاورہ ہے اور  ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی پیستی تھیں اپنے گھر کے آٹے میں سے ایک مٹھی آٹا اُسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آٹا، مٹھی بھر اناج، یا مٹھی بھر چنے،یہاں تک کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طور پر دیئے جاتے تھے۔

ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دور یا کسی بھی دور یا کسی بھی، معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں۔

( 4 ) بازار کے بھاؤ پیٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ دیہات  و قصبات میں بولا جانے والا محاورہ ہے مغربی یوپی میں یہ پیٹنا بولا جاتا ہے اور لغت المحاورات میں ’’پ‘‘ کے زبر کے ساتھ پیٹنا بھی ہے۔ لیکن بھاؤ کے ساتھ ’’پٹنا‘‘ عام طور پر نہیں آتا۔ بازار سے متعلق اردو میں بہت محاورہ ہیں بازار لگنا بازار میں کھڑے کھڑے بیچ دینا بازار میں کھڑے ہونا،گرم بازاری ہونا یا بازار سرد ہونا، اتوار کا بازار، پیر کا بازار، منگل کا بازار، ہفتہ کا بازار عام طور سے اس خاص بازار کو کہتے ہیں جو کسی خاص دن لگتا ہے اسی سے روزے بازار کا محاورہ نکلا ہے۔ بازار کا رنگ بھی ہمارے محاورات میں سے ہے اور بازار کی چیز بھی غالبؔ کا شعر یاد آ رہا ہے۔

؂ اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے تو مِرا جام سِفال اچھا ہے

( 5 ) بازاری ہزاری یا بازار کی مانگ، بازاری عورت، بازار کی زبان، بازاری رو یہ، باز ار مندا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سب بھی ہمارے محاورات کا حصہ ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ بازار اس میں بکنے والی چیزیں بیچنے اور  خریدنے والے لوگوں کا رو یہ زبان اور انداز بیان ہمارے معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا رہا ہے۔ بازاریوں بھی ہمارے معاشرتی اداروں میں سے ہے اور ایک بڑا ادارہ ہے۔

( 6 ) بازی دینا یا کرنا، بازی کھانا، بازی لگانا یا بدلنا، بازی لے جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سب ایسے کھیلوں سے متعلق محاورے ہیں جو مقابلہ کے لئے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ’’بد ‘‘ کر کھیلے جاتے ہیں، جوا اسکی نمایاں مثال ہے۔ جو قمار بازی یا جوا کھیلنے ہی کی ایک صورت ہے یہ اور  اس طرح تیتر بازی ہمارے معاشرے کی وہ کھیلنے کی روشیں ہیں جن کا ذکر ہماری زبان پر آتا ہے آج کرکٹ میں گیند بازی اور بلّے بازی بیت بازی، بازی کے لفظ کے ساتھ کچھ دوسری معاشرتی روشوں کا اظہار ہے بیت بازی ایک اور طرح کا مقابلہ ہے۔

( 7 ) بازی ہار جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مقابلہ میں شکست کھا جانا، یعنی وہ بازی ہار گیا اور اس کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ بازی لگانے کے معنی شرط لگانے کے بھی ہیں جان کی بازی لگانا بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جانا جس کوشش میں کامیابی نہ ملے اس کو بھی بازی ہارنے کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔

( 8 ) بال بال بچ گیا، بال بال دشمن ہو گیا ہے۔ بال بال گنج موتی پرونا، بال بال احسان مند ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بال بال کئی محاوروں کا بے حد اہم جز ہے جیسے بال بال بند جانا یعنی قرض میں مبتلا ہونا اور بری طرح قرض میں گھر جانا جب کہ بال بال بچنے کے معنی خطرہ سے نکل آنے کے ہیں میرے اور نقصان کے درمیان بال برابر فرق رہ گیا اسی کو بال بال بچنا کہتے ہیں بال بال گنج موتی پرونا گویا موتیوں سے بالوں کو آراستہ کرنا ہے یہ سجانے کے عمل کو آگے بڑھانا اور اس میں طرح طرح کے تکلفات برتنا ہے۔

بارہ ایران سولہ سنگھار میں یہ بھی داخل ہے کہ بال بال موتی پروئے جائیں بال بال احسان مند ہونا بھی بے حد احسان مند ہونے کو کہتے ہیں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں وہ کسی کے احسان کو بہت مانتے ہیں۔

( 9 ) بامن (برہمن) کی بیٹی کلمہ پڑھے یا بھرے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی کسی اچھی چیز کو دیکھ کر بڑے سے بڑے آدمی کا تقویٰ ٹوٹ جاتا ہے برہمن کی لڑکی کلمہ پڑھنا یہی معنی رکھتا ہے۔ 

( 10 ) بانٹیا یا بانٹے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بانٹیا کی جمع بانٹیے ہے۔ اصل میں بانٹیے کے معنی ہیں حصّہ تقسیم کرنا حق دینا اسی لئے جس کا کوئی حق نہیں ہوتا حصّہ نہیں ہوتا اُسے کہا جاتا ہے کہ تیرا کیا ’’بانٹیا‘‘ اور اپنے حصے حق پر لگنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔ اور جس کا وہ حق وہ حصّہ نہیں سمجھتے اس سے کہتے ہیں کہ تمہارا کیا بانٹیا یعنی تم بولنے کا حق نہیں رکھتے یہ بندر بانٹ محاورہ میں بھی شامل ہے کہ وہاں حق حصّے کی تقسیم بددیانتی کے ساتھ ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک رو یہ ہے۔

( 11 ) بانسوں اُچھلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت اونچائی تک چھلاّنگ لگانا یوں بھی بازی گر جب اوپر چھلانگ لگاتے تھے تو لچک دار بانس کے سہارے اُچھلتے تھے مطلب یہاں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے سے بھی ہیں جو سماج کا ایک عام رو یہ ہے۔

( 12 ) باؤ باندھنا، باؤ بندی، باؤ بھری کھال، باؤ بھڑکنا، باؤ پر آ جانا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

باؤ باندھنا، باؤ بندی، باؤ بھری کھال، باؤ بھڑکنا، باؤ پر آ جانا (اور دفاع میں ہوا بھر جانا) باؤٹا اڑانا، باؤ ڈنڈی پھرنا، باد ہوائی پھرنا، باؤ کے گھوڑے پر سوار ہونا، باؤلی دینا۔

باد فارسی میں ہوا کو کہتے ہیں اُسی کو ہندوی میں باؤ کہا جاتا ہے اور کہیں کہیں دونوں کو ایک ساتھ جمع بھی کر دیا جاتا ہے جیسے باد ہوائی پھرنا ہواؤں کی طرح آوارہ گردی کرنا لوگوں کے پاس جب کام نہیں ہوتا تو وہ یونہی مٹرگشت کرتے پھرتے ہیں اس سے سماج میں بے کار لوگوں کے وقت ضائع کرنے کے مشغلوں کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے اُردو کا ایک شعر جو اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یہاں پیش کیا  جاتا ہے۔

؂ تیرے کوچہ میں یونہی ہے ہمیں دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا

باؤ ہندی ہوا کو بند کرنے کا عمل ہے اور ہوا بند ہونے والی چیز نہیں ہے بُلبلے کے خول میں ہوا بند ہوتی ہے مگر کتنی دیر کے لئے یعنی یہ ایک بے اعتباری بات ہے۔ سماج میں ا س طرح کی باؤ بندی ہوتی رہتی ہے اسی کی طرف اس مصرعہ میں اشارہ ہے

؂ باؤ بندی حباب کی سی ہے۔

یا یہ مصرعہ

؂ مٹھی میں ہوا کو تھا منا کیا

وہ آدمی جو بلا وجہ موٹا ہوتا ہے اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو باؤ بھری کھال ہے۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے۔ لیکن اس کا اِطلاق انسانی رویوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سماج کا مطالعہ بن جاتا ہے اسی کے ذیل میں یہ محاورے بھی آتے ہیں باؤ بھڑکنا، باؤ ڈنڈی پھرنا۔ وغیرہ۔

( 13 ) باہر کا ہونا باہر کر کے، باہر کرنا، باہر کی بو، باہر کی پھرنے والی، باہر والا، باہر والی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شہری لوگوں میں یہ رو یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ باہر کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے نہ ان کی زبان کو پسند کرتے ہیں نہ ان کے طور طریقوں کو ان کے نزدیک وہ سب باہر کی باتیں ہیں اسی لئے وہ کسی کی بات کو باہر نہیں جانے دیتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ محاورہ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یعنی کوئی بات اس گھر سے  باہر نکلنی نہیں چاہیے۔

باہر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نکال کر باہر پھینک دینا اور  فالتو سمجھنا نفرت کا اظہار کرنا باہر کی بُو یعنی باہر سے آنے والی روش کو اختیار کرنا یا اس کی خواہش کرنا یہ اور اس طرح کے محاورات شہری نفسیات کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتے ہیں دہلی والے اپنی تہذیب اپنے رسم و رواج اور اپنے محاورے پر بہت ناز کرتے تھے اسی لئے وہ باہر کے لوگوں کی کسی بات کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے تھے۔ اور ان کے یہاں مردُم بیرونِ جات کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کے معنی ہوتے ہیں کہ لوگ اسی لئے ان کی زبانوں پر اس طرح کے فقرہ آتے تھے کہ تم تو دلی کی ہو باہر کی نہیں ہو۔

باہر پھرنے والی عورت ان کے خیال سے عزت کے لائق نہیں ہوتی تھی ایک خاص طبقہ پردہ پر بہت زور دیتا تھا وہ دہلی سے باہر بھی تھا مگر ایک خاص طبقہ تھا سب نہیں جو باہر کی پھرنے والی عورت کو بھی برا سمجھتا تھا اور اس پر طنز کرتا تھا۔ اگر دو قدم بھی چلنا ہوتا تھا۔ تو ڈولی استعمال ہوتی تھی۔ اور  تانگے میں سفر کیا جاتا تھا تو پردے باندھے جاتے تھے اور عورتیں اپنے گھر کے دروازے سے نکل کر تانگے یا ڈولی تک پردہ کروا کے جاتی تھیں اسی لئے باہر پھرنے والی بہت بری نظر سے دیکھی جاتی تھی۔

( 14 ) بیتی بجنا، بیتی بند ہو جانا، بیتی دکھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دانت منہ میں رہتے ہوئے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ہنسنا ہو یا بولنا ہر ایک میں ایک تمیز داری اور  آداب شناسی کی ضرورت ہوتی ہے بہت کھل کر ہنسنا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی لئے ٹھٹھے مارنا یا لگانا اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا یہاں تک کہ دانت دکھانے کو بھی عورت کے لئے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کے معاشرتی آداب تھے۔ کھاتے وقت دانتوں کا بجنا بھی بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔ دانتوں کا سوتے میں رگڑنا بھی منحوس سمجھا جاتا ہے۔

دانت دکھانے کا محاورہ بھی برائی کے معنی میں آتا ہے کہ ذرا سی دیر میں دانت دکھا دیئے۔

بتیسی بند ہو جانا دورا پڑنا، اس میں ایک افسوس ناک صورت کی طرف اشارہ ہے کوئی طنز نہیں لیکن بتیسی دکھانے میں ہے کہ اُس کا منہ کھلا رہتا ہے اور منہ کھُلا رہنا تمیز دار ی کے خلاف ہے۔

( 15 ) بجلی پڑے، ٹوٹے یا گرے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ عورتیں کے کوسنے ہیں اور عورتوں کی زبان میں گالیاں اتنی شامل نہیں ہوتیں جتنے کوسنے شامل ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا مزاج اور عورتوں کا اندازِ نظر ہے آسمان پر بجلی چمکتی ہے۔ لیکن پہلے اس طرح کے قصّے بہت ہوتے تھے کہ اُس پر بجلی گر گئی جس کے معنی یہ ہیں کہ اچانک وہ ایک المناک انجام سے دوچار ہوا عورتیں اپنے کوسنوں میں اس طرح کے جملوں کو شامل رکھتی تھیں۔ جس میں نقصان پہنچنے موت آنے بیمار پڑنے اور گھرکے برباد ہونے کا مفہوم شامل رہے۔

( 16 ) بجوگ پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہندوی محاورہ ہے۔ اور ’’ویوگ‘‘ سے بنا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں۔ جدا ہو جانا یہ فراق آشنا ہونا۔ ہندوؤں میں عورت کا مرد سے جُدا ہونا ویوگ کہلاتا ہے۔ وہی بجوگ ہے یعنی تیرا شوہر تجھے چھوڑ کر چلا جائے مر جائے یا کسی بھی وجہ سے دونوں کے درمیان جُدائی واقع ہو جائے جو بہت بڑا کوسنا ہوتا ہے۔ خاندانوں میں جب آپسی اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ تب بھی بجوگ پڑنا کہتے ہیں یہ بھی گویا خاندان کے لئے ایک تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔

( 17 ) بچن بد ہونا، بچن دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

وَچن سنسکرت کا لفظ ہے جو ہندوی میں بچن ہو گیا ہے اور اسی سے یہ محاورے بنے ہیں اپنی بات کا پابند ہونا اور اسے اُلٹ پلٹ نہ کرنا ایک طرح کا اخلاقی رو یہ ہے بچن  بد کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ وچن دینا وعدہ کرنا کہ ہم اِس کے پابند ہیں اور ایسا کریں گے یہ اخلاقی رو یہ ہے جو سماج کی بڑائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس برائی کو بھی کہ عام لوگ اپنی بات اور  اپنے وعدہ کو نبھانے کے بجائے ذرا سی دیر میں بات بدل دیتے ہیں اور مسئلے کا رُخ پھیر دیتے ہیں۔

( 18 ) بد لگام ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بدتمیز ہونا، سرکش ہونا، زبان کا قابو میں نہ رکھنا، یہ گھوڑے کی مناسبت سے ہے لیکن اِس سے مراد انسان کی طبیعت اور کردار ہے کہ وہ کس حد تک اپنی زبان اپنی طبیعت اور اپنے عمل اور  ردِ عمل پر قابو رکھتا ہے۔

بدمزاج اور بد مزاجی بھی اسی ذیل میں آتا ہے بد ذوقی، بد شوقی کی کمی صحیح مذاق کا فقدان بدکلامی وغیرہ اسی سلسلے کے محاورے ہیں ان میں طریقہ کار طرزِ عمل طرزِ گفتگو کے اعتبار سے اِن محاورات کا موقع بہ موقع استعمال اور  اِطلاق ہوتا ہے۔

( 19 ) بُرا وقت،بُرے دن، بُری گھڑی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم سماجی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی بُرا نہیں کرتا۔ برائی کا سبب تو بری گھڑی ہوتا ہے جس پر آدمی کو کوئی قابو نہیں بُری ساعت بھی اسی کو کہتے ہیں اور وہی بُرے دن ہوتے ہیں۔ جب ایک لمبا دور کسی تکلیف مصیبت یا پریشانی کے عالم میں گزرا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ بُرا وقت نہ لائے بُرے دنوں سے بچائے یا کسی بچے کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بری گھڑی کی پیدا ئش ہے بات وہی ہے کہ برائیوں کی ذمہ دار بُرے دن ہیں بُرا وقت ہے بُری ساعت ہے اُس سے معاشرتی طور پر ہماری سماجی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم حالات کوکس طرح سمجھتے اور کس طرح انہیں Interpretکرتے ہیں کسی بات کا مطلب نکالتے ہیں۔

( 20 ) بڑی چیز، بڑی روٹی، بڑا کھانا، بڑے گھرکی بیٹی، بڑا نام، بڑا بولا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِن محاورات پر غور کیا جائے تو بڑی چیز بڑا، بڑی بات سبھی سماجی امتیازات کو ظاہر کرتے ہیں۔ بڑا کھانا اور بڑی،روٹی غریب گھرانوں کے مقابلہ میں بڑے خاندانوں ہی سے مل سکتی ہے بڑا مال بھی ہے یعنی دولت اور بہت اچھا کھانا۔

بڑے گھرکی بیٹی اُس صورتِ حال کا اظہار ہے۔ جب وہ کسی چھوٹے درجہ کے خاندان میں بیاہی جائے۔ تبھی تو اُسے بڑے گھرکی بیٹی کا طعنہ دیا جائے گا طنز کیا جائے گا اونچ نیچ کا تصور اس سے جڑا ہوا ہے۔ بڑ بولا اس شخص کو کہتے ہیں جو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے۔

( 21 ) بسم اللہ کرنا، بسم اللہ کا گنبد ہونا، بسم اللہ کی برکت۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بسم اللہ کا گنبد ہونا جاہل آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو مذہب کا دعویٰ دار ہو جس کا ذہن بالکل مکتبی ہو۔ اُسے ہم ملاّئے مکتبی کہتے ہیں اور یہ بھی طنز کرتے ہیں کہ یہ تو بسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں ویسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا ایک طرح کا مذہبی اور  تہذیبی رو یہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ بسم اللہ کیجئے یعنی شروع کیجئے اللہ کے نام کے ساتھ۔

بسم اللہ کی برکت کے معنی بھی یہی ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کے کوئی کام کرو گے تو برکت ہو گی ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلمانوں کا اپنا ہے۔ اور ان کی مذہبی فکر سے گہرے طور پر متاثر ہے۔ اور ہمارے سماجی عمل اکثر مذہب دھرم خاندانی بزرگوں کے اثر اور صوفیوں کے اثرات سے بھرے نظر آتے ہیں۔ بسم اللہ ہی غلط ہو گئی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ کام کی شروعات غلط ہو گئی۔

( 22 ) بُغضِ الٰہی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بیر بغض رکھنا ہمارا یک محاورہ ہے۔ اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ ہم دوسروں کی طرف سے خوامخواہ بھی دشمنی کے جذبات اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ان کی خوشی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ خدا واسطے کا بیر کہلاتا ہے۔ اور اسی کو بغضِ الٰہی بھی کہتے ہیں۔ اِس سے معاشرے کی اپنی کچھ برائیاں سامنے آتی ہیں کہ اختلاف بھی ان کے یہاں بسا اوقات بلاوجہ اور  بے سبب ہوتا ہے۔

( 23 ) بغل کا دشمن، بغلی گھونسا ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بغل کے ساتھ بہت سے محاورے ہیں مثلاً بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا(مُنادی) یا بغل میں کتاب اور  منہ پر جہالت اِس سے مراد یہ ہے کہ بھی اور نہیں بھی بجا بے خبری ہے۔

اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے ہمیں دھوکے دیتے ہیں۔ اور دوست بن کر دشمنی اختیار کرتے ہیں وہی لوگ بغلی گھونسا ثابت ہوتے ہیں یا بغل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ بغل میں گھوس کر نقصان پہنچاتے ہیں یہ بھی مکاری دغا بازی اور دھوکہ دھڑی کی ایک صورت ہے۔

( 24 ) بغل گرم کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک دوسرے سے ہم آغوش ہونا۔ اور  ایک ساتھ ہم خواب ہونا۔ بغل گیر ہونا۔ ایک دوسرے سے مُعانقہ کرنا گلے ملنا یہ بھی ہمارے لئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مبارکباد کے وقت بھی ہم گلے ملتے ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ گلے مِلنا شکوہ شکایت اور گِلہ مندیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

( 25 ) بکھیڑا، بکھیڑے میں پڑنا،بکھیڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ خالص ہندوستانی محاورہ ہے اور  اس کے معنی ہوتے ہیں الجھنوں میں گرفتار ہونا جھگڑے میں پڑنا۔ اختلافات کا بڑھنا اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ ہم اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتے۔ 

( 26 ) بَل بَل جانا، بَلہاری جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک خاص انداز ہے یعنی صدقہ ہونا قربان ہو جانا، جان دینا، جان نچھاور کرنا اُسی کو بَل بَل جانا۔ بَلہاری جانا کہتے ہیں۔

( 27 ) بندوق بھرنا، بندوق لگانے کاندھے ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بندوق بارود ی ہتھیار ہے اور حیرت ہے کہ ہم نے بارود سے متعلق بہت کم سوچا اور اسی نسبت سے ہمارے یہاں بارود ی ہتھیاروں پر محاورے بہت کم ہیں۔ ایک زمانہ میں بندوق میں بارود بھری جاتی تھی ایسی بندوقوں کو توڑے دار بندوق کہتے تھے۔ اسی سے بندوق بھرنا محاورہ بنا یعنی لڑنے کی تیاری کرنا مقابلہ پر آمادہ ہونا۔

اتنی بڑی بڑی بندوقیں ہوتی تھیں کہ آدمی اکیلے اُن کو نہیں سنبھال سکتا تھا اُن کی نالی دوسرے کے کندھے پر رکھ دی جاتی تھی یہیں سے گانے کاندھے بندوق ہونا محاورے کے طور پر آنے لگا مراد یہ ہے کہ وہ اپنا فیصلہ خود نہیں کر سکتے دوسروں کے مشورہ پر کرتے ہیں۔ بندوق کو چھُپانا بندوق چلانے کا عمل ہے کہ بندوق کا پچھلا حصہ اگر کاندھے سے ایک خاص انداز سے نہ لگایا جائے اور چھاتی کا سہارا نہ دیا جائے تو بندوق ایک دم سے دھکا لگاتی ہے۔

اُس سے بچنے کے لئے ہی بندوق کو چھُپانے کا عمل کہا جاتا ہے۔ محاورہ کے طور پر یہ زیادہ کام نہیں آتا زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تیار ہونے کا عمل ہے کہ فوراً ہی گولی چلا دی جائے گولی مار دینا سامنے کی بات ہے لیکن ہم بیزاری کے طور پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اسے گولی مارو اور  اس کا ذکر بھی نہ کرو۔

( 28 ) بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے۔ بوٹی بوٹی کر ڈالنا، بوٹیاں چبانا، بوٹیاں چیلوں کو ڈالنا، بوٹی بوٹی تھرکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ شدید ردِ عمل اور غصہ کے اظہار کے طور پر کہتے ہیں کہ تیری بوٹیاں چبا لوں گا اس لئے کہ کچا گوشت کھانا وحشت و بربریت کی علامت ہے۔ بوٹیاں یا بوٹی بوٹی کر کے چیل کووّں کو کھلا دینا ایک بہت ہی المناک انجام ہے مرنے والے کے ساتھ شدید غصہ اور  انتقام کا سلوک کرنا ہے قدیم زمانہ میں غلاموں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا تھا اور ان کی بوٹیاں چیل کووّں کو کھلائی جاتی تھیں۔

ہم اس سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت محاوروں کے پس منظر میں تاریخی واقعات اور  روایات موجود ہیں۔ بوٹی بوٹی تھرکنا یا پھڑکنا دوسری بات ہے اس سے مراد ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے بلکہ اکثر نوعمر کے لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے چُستی چالاکی اور شوخ مزاجی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی تو بوٹی تھرکتی ہے۔

( 29 ) بول اٹھنا، بول بالا ہے۔ بول بالا ہونا، بول جانا، بولنے پر آنا، بولیاں بولنا، بولیاں سننا، بول سُنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہاں بنیادی طور پر لفظ بول کی اہمیت ہے۔ اور اس سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ایک ایک لفظ کے کتنے معنی اور کتنے Shadesہیں اور بات میں سے بات اور نکتے میں سے نکتہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ بول بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیں میٹھے بول اچھی بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیں جو محبت اور پیار سے کی جائے اسی طرح سے طنز و تعریض سے جو بات کی جاتی ہے اور لہجہ میں سختی اور  کرختگی آتی ہے اسے تلخ گفتگو گویا کڑوے بول کہتے ہیں جب کسی کی بات رکھ لی جاتی ہے مان لی جاتی ہے سرائی جاتی ہے۔ تو اسے بول بالا ہونا کہتے ہیں اور  جب رعد کی جاتی ہے۔ تو اس کو نیچا ہونا کہتے ہیں۔

طرح طرح کی باتیں کرنے کو بھانت بھانت کی بولیاں کہا جاتا ہے بول اٹھا اچانک کسی بات پر بول پڑنے کو کہتے ہیں کبھی کبھی چھت ٹوٹنے لگتی ہے۔ تو اس کے لئے بطور استعارہ چھت بول جانا یعنی کڑیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا ہونا۔ بڑبولا اس سے پہلے آ چکا ہے اور اپنے لئے’’ زمین آسمان کے قلابے ملانا‘‘ یہ سب باتیں ہمارے سماجی رویوں اور  معاشرتی روشوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔

( 30 ) بھاگ پھوٹنا، بھاگتے کی لنگوٹی، بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی۔ بھاگ جاگنا یا کھُلنا، بھاگ لگنا، بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارا معاشرہ ایک تقدیر پرست معاشرہ ہے کہ ہم تدبیر پر بھروسہ نہیں کرتے اپنی کوشش یا اجتماعی کوشش کے نتیجے پر ہمارا یقین نہیں ہوتا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے یا ہونا ہے وہ قسمت کی وجہ سے ہوا ہے تقدیر میں یونہی تھا اس لئے ہوا ہے۔ اس کوکسی تدبیر کسی منصوبہ بند کوشش اور کاوش سے وابستہ کر کے نہیں دیکھتے یہ ہماری بنیادی سوچ ہے کہ ہم Effortsکوششوں پر بھروسہ نہیں کرتے Chancesکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی وجہ سے بھاگ قسمت اور تقدیر کا لفظ بہت لاتے ہیں بھاگ پھوٹنا یعنی بدقسمتی کا پیش آنا بھاگ کھُلنا اچھی قسمت ہو جانا بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا اچانک ایسی صورت کا پیدا ہو جانا جو فائدہ پہنچانے والی ہو۔

اِس سے ہم اس فریم ورک کا حال معلوم کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہماری سماجی نفسیات’ ہمارے معاشرتی رویوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لئے ہم لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیئے ہیں۔ اب جو تقدیر جو نصیب یعنی ہم آگے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ہم اپنی زندگی میں اچھے بُرے مواقع سے بھی گزرتے ہیں جہاں قدرت بظاہر ہمیں Favourیا Disfavourکرتی ہے لیکن پورے معاشرے نے غلطی یہ کی کہ ہر بات کو تقدیر کے حوالہ کر دیا اور حالات ماحول نے انسانی روش اور  رویوں پر نظر نہیں رکھی ہمارے یہاں آدمی بد دیانت بہت ہے یہاں تک کہ قرض لیا ہوا واپس نہیں دینا چاہتا جو ایک طرح کا سماجی عیب ہے۔ دوسرے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جن کا قرض ہوتا ہے جو کچھ ملے وہی لے لو یہ آدمی کچھ دے گا تو نہیں اسی کو بھاگتے کے لنگوٹی یا بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی کہتے ہیں۔ اصل میں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کسی لائق نہیں ہے اور اس کے پاس کرتا پاجامہ بھی ہیں صرف لنگوٹی ہی لنگوٹی ہے۔ وہی تو چھینی جا سکتی ہے۔

( 31 ) بھرا بھتُولا، بھرا ُپرا، بھری بھتُولی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مغربی یوپی میں ایسے بھربتون کہتے ہیں دوسرے محاورے جواس سلسلے کے ہیں وہ وہاں رائج ہیں دہلی ہی میں رائج ہیں۔ بھرا پُرا گھرکے لئے بھی آتا ہے جس میں چیزیں بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی غربت رہی ہے کہ بعض اوقات گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہوتا تھا تو عورتیں کہتی تھیں کہ ہم نے روٹی پر روٹی رکھ کے کھائی یعنی ہم اتنے غریب نہیں ہیں کہ ہمارے یہاں دو روٹیاں بھی نصیب نہ ہوں اب ایسے خالی گھروں کے مقابلہ میں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا بھرا پرا گھر مال و دولت کے اعتبار سے بڑا گھر کہلاتا تھا اور جب کبھی لڑکی کو یا کسی عزیز کو بہت کچھ دیکر رخصت کیا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ ابھی تو پھر تبول  یا  بھربتوں کے بھیجا تھا۔

( 32 ) بھرم کھُل جانا، بَھرم باقی رہنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں بہت باتیں اصل حقیقت نہیں ہوتیں بلکہ اُن کو ظاہر اِس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہوں لیکن اِس میں واقعتاً کوئی بنیاد نہیں ہوتی تو جلدی ہی وہ بات کھُل جاتی ہے اور بھرم باقی نہیں رہتا اس کو دہلی میں ایک اور محاورے سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ پول پیٹی کھُل گئی اور آدمی اپنے بھرم کو باقی رکھ سکے کہ سماج کے لئے وہ بڑی بات ہوتی ہے۔

( 33 ) بھرے کو بھرتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ بھی ہمارے سماج کی سوچ ہے اور ہوت نہ ہوت کے نتیجے میں پیدا ہوئی کہ ضرورت مند آدمی یہ سمجھتا ہے۔ کہ میں متحقق ہوں مجھے ملنا چاہیے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور ملتا اسے ہے کہ جسے ضرورت نہیں ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بھرے کو بھرا جاتا ہے ہم اکثر رشتہ داروں کے لبوں پر شکایت دیکھتے ہیں کہ وہاں تو بھرے کو بھرا جاتا ہے۔ یہ سماجی شکایت ہے یہاں تک کہ یہ شکایت خدا سے بھی ہوتی ہے۔

ہمارے یہاں نکمّہ پن بھی زیادہ تھا اور نہ انصافی بھی اسی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پاس ہوتا تھا اور کچھ لوگوں کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا۔ بعض حالتوں میں وہ اِس نہ ہوت کے خود بھی ذمہ دار ہوتے تھے۔ لیکن سمجھتے یہ تھے کہ یہ سب تو ہماری تقدیر کی بُرائی ہے ہمارا کوئی قصور نہیں اور اپنے رشتہ داروں پر اپنا حق تصور کرتے تھے پھر شکوہ شکایت کرتے تھے۔

( 34 ) بہشت کا جانور، بہشت کا میوہ، بہشت کی قمری، بہشت کی ہوا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہشت مسلمانوں میں اور اس سے پیشتر عیسائیوں اور یہودیوں میں موت کے بعد کی زندگی کا ایک آئیڈیل ہے کہ وہاں راحتیں ہیں اس میں محل ہیں بہتی ہوئی نہریں پھل دار درخت ہیں اور  چہکتے ہوئے پرندے ہیں ہمارے ہاں سکون و راحت آرام کا یہی تصور بھی ہے جو صحرا نشیں قوموں کا ہوتا ہے اس سے بہت سے محاورے ہمارے ہاں جیسے بہشت کی قمری حُور جنت کوثر و تسنیم، شجر طوبہ، شجرِ ممنوعہ، آدم و حوا کا بہشت میں قیام یہ سب اسی تصور کا نتیجہ ہے جس کا اثر مسلمان تہذیب پر بہت گہرا ہے۔ اس کا اثر عیسائی تہذیب پر بھی ہے مگر اتنا نہیں فردوس گم گشتہ کی بات وہاں پر زبانوں پر آتی ہے انگریزی کے مشہور شاعر ملٹن کی نظم پیراڈائس لوسٹ اور  Paradise Regained پیرا ڈائس ریگینڈ نظمیں اسی کی طرف اشارہ کرنے والی شعر ی تخلیقات ہیں۔

( 35 ) بیٹی کا باپ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں بیٹی ہونے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا اس کی بہت سی وجوہات ہیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیٹی کے ساتھ اس کی سسرال والوں کا رو یہ ہے جو ایک بیٹی والے باپ کے لئے بے حد تکلیف کی بات ہوتی ہے۔

ہمارا سماج کمزور کو دباتا ہے چاہے اُس کی کمزوری اخلاقی ہو یا رشتوں کی نزاکت کے باعث ہو یا مالی اعتبار سے ہو۔ یا بے سہارا ہونے کے لحاظ سے یہاں تک کہ اگر اس کے گھر میں بیٹی ہے تو یہ بھی کمزوری ہے۔ اور اس کو بھی موقع بہ موقع داماد اس کے گھر والے برابر Exploitکرتے رہیں گے ناجائز دباؤ ڈالتے رہیں گے۔

( 36 ) بے چراغ کرنا، بے چراغ ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

چراغ خوشی کی علامت ہے اس لئے کہ وہ اندھیروں کو دور کرتا ہے۔ اور  روشنیوں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے بیٹے کو اندھیرے گھرکا  چراغ کہتے ہیں۔ دعاء دی جاتی ہے۔ چراغ روشن مراد حاصل اور بے چراغ ہو جانا اس کے مقابلہ میں محروم ہو جانا،بے حد نقصان کی حالت میں ہونا ویران ہو جانا،گھرکے گھر بے چراغ ہیں شہر کا شہر بے چراغ ہے۔ اردو کا ایک شعر ہے۔

؂ روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں داغ ایک

اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک

( 37 ) بیس بِسولے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے معاشرے میں غیر شہری یا دیہاتی طبقہ بیس تک ہی گنتی جانتا تھا اور دو بیسی یعنی چالیس تین بیسی یعنی ساٹھ اسی نسبت سے وہ وہ کھیت کو بھی بسوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی لئے بیس بِسوے کہتا تھا اور اُس سے مُراد اس کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ یہ معاشرے کے ایک خاص دور کا پیمانہ ہے۔ اور اُس معاشرے کے اپنے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ جو کھیت کیار سے جُڑا ہوتا تھا۔

( 38 ) بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کو کہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگر سہارا چاہتی ہے اگر سہارا نہیں ملتا تو وہ  گِر پڑتی ہے اور برباد ہو جاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اور تقدیر کی خوبی خیال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہمارے ہاں مدد کرنے والے تو ہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابو پانا بڑی بات ہوتی ہے۔ تبھی گھریلو ماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں۔ جو چیزیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں انہیں بیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تو بیل کی طرح بڑھتی ہیں۔

( 39 ) بے نمک ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نمک ہمارے ہاں سالٹ (Salt)کو بھی کہتے ہیں اور اس سے کئی محاورے نکلے ہیں۔ نمک حلال اور نمک حرام اور دہلی میں ایک حویلی ایسی ہے جس کو نمک حرام کہتے ہیں اور نمک کھانے کا معنی احسان مند کے ہیں۔ کسی کی نیکی خدمت اور بھلائی کا خیال کرنے کے ہیں۔ کہ ہم نے تو اس کا نمک کھایا ہے بے نمک سالن کے معنی بے مزہ ہونے کے ہیں۔ یہاں تک کہ جس شخص کے رنگ میں ہلکی ہلکی ملاحت نہیں ہوتی حسنِ بے نمک کہتے ہیں جہانگیر نے کشمیر کے لئے لکھا ہے کہ کشمیر میں نمک نایاب ہے یہاں تک کہ اس کے حسن میں نمک نہیں ہے ’’حتّی کہ حنش ہم نمک نمی دارد۔ ‘‘

( 40 ) بیوی کا دانہ یا کونڈا، بیوی کی صحنک یا نیاز بیوی کی فاتحہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمان گھرانوں میں یہ دستور چلا آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ بنت رسولؐ مقبول کے نام کی فاتحہ دی جاتی ہے۔ اسے گھروں کی زبان میں بی بی کی صحنک یا بی بی کے کونڈے کہا جاتا ہے کونڈا مٹی کی بڑی تغاری کو کہتے ہیں۔ جب فاتحہ کے لئے اُس میں کچوریاں پوڑے میٹھے(گلگلے ) اور کھیر پکا کر اس پر نیاز دی جاتی ہے تو اس کو کونڈا بھرنا کہتے ہیں یہ محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور گھریلو ماحول کی ایک خاص تصویر پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو رسم وابستہ ہے ان محاوروں سے اُس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

( 41 ) بیوی کا غلام ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جب بڑے گھروں کی بیٹی رخصت کی جاتی تھی تو اس کے ساتھ غلام اور باندیاں بھی دی جاتی تھیں کہ یہ آئندہ خدمت کے لئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ جاگیر داریاں ختم ہو گئیں تو یہ رسم بھی ختم ہوئی اب بیوی کے سامنے بول بھی نہیں سکتا ۔بھیگی بلی بنا رہتا ہے ۔ یعنی اُس غلام کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے مالک یا ملکہ کی طرح بی بی کے سامنے بولنے کی جرات بھی نہ ہو۔  وہ گویا بیوی کا غلام ہے۔ اِس سے ہمارے معاشرے کی ذہنی روش کا پتہ چلتا ہے۔ کہ شوہر کے مقابلہ میں وہ بیوی کو کوئی درجہ نہیں دیتا تھا۔ اور یہ اس کی مخالف ایک صورت تھی کہ بیوی اس کی آقا بن جائے اور شوہر اس کا غلام نظر آئے۔ یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتا تھا۔ تبھی تو طنزا ً کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔