ہمارے یہاں مذاہب میں اپنی اپنی جو وضع قطع رکھنا چاہا اور اپنے ماننے والے طبقات میں اس کو رائج کیا اُن میں کیا کس کی وضع قطع کے علاوہ ڈاڑھی کو بھی ایک سماجی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاڑھی عزت و وقار اور بڑی حد تک تقدس کی علامت ہے اسی لئے ڈاڑھی پکڑنا اور ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالنا بے عزتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اور کسی ذلیل کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ میں تیری ڈاڑھی کے ایک ایک بال کر دوں گا اِس سے ہم اپنے ماحول کی تہذیبی قدروں کو سمجھ سکتے ہیں ڈاڑھی نوچ لینے کے بھی یہی معنی ہیں اور بال بال کر دینے کے ہیں یعنی بے عزتی کرنا ہے۔
ہمارے ہاں ’’آم‘‘ ایک مشہور پھل ہے قدیم زمانہ سے سنسکرت اور ہندی لٹریچر میں اس کا ذکر آتا رہتا ہے اور تعریفوں کے ساتھ آتا ہے ہمارے ہاں آموں کے باغ کے علاوہ ایک سطح پر آموں کے جنگل ہوتے تھے جب آموں کے باغ لگائے جانے لگے تو وہ آم ملنے لگے جو ڈال پر پک کر تیار ہو اور جس کو ڈال سے توڑ کر کھایا جا سکے اس لئے کہ تازگی اسی پھل میں ہوتی ہے ایسے پھل بھی ہوتے ہیں جنہیں پال میں دبا کر یا کوئی دوا چھڑک کر پکایا جائے۔ آم تو عام طور سے پال میں دبائے جاتے ہیں اور پسند کئے جاتے ہیں ایک ڈال کے پکے ہوئے آم کی یا کسی بھی پھل کی لذت اور لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ڈال کا پکا کہتے ہیں ویسے آم مٹکے کا بھی ہوتا ہے اور اس کو محاورے میں ٹپکے کا آم بھی کہتے ہیں کہ جب وہ پکتا ہے تو شاخ کو چھوڑ کر زمین پر گر جاتا ہے۔
اُس کے مقابلہ میں وہ پکا پھل جسے ڈال سے توڑا جاتا ہے وہ زیادہ قابلِ تعریف اور خوش مزہ سمجھا جاتا ہے اسی لئے ڈال کا ٹوٹا کہتے ہیں اور اسی نسبت سے آدمیوں کے کردار اور اُن کی قدر و منزلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور پھلوں کا اِطلاق آدمیوں کی شخصیتوں پرکیا جاتا ہے۔
’’ڈنکا ‘‘ہمارے دیہاتی قصباتی اور شہری سماج میں ایک خاص معنی رکھتا ہے ڈنکے کی چوٹ کہنا ڈنکا بجنا جیسے محاورے ہمارے یہاں ایک خاص معنی رکھتے ہیں ہم کسی بات کا اعلان کروانے کے لئے مُنادی کروا دیتے تھے تاکہ سب کو خبر ہو جائے اس کو ’’ڈھنڈھورا‘‘ بھی کہتے تھے ڈنکا پیٹنا بھی اسی سے نکلا ہے اور ڈنکا پیٹنا بھی دونوں شہرت دینے اور شہرت پانے کا عمل ہے مگر بُرائی کے معنی ہیں۔ جس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس کی شہرت ہوتی ہے اسے ڈنکا بجنا کہتے ہیں مگر وہ صرف برے معنی میں نہیں آتا۔ اُن کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے۔
دہلی میں ملکہ زینت محل جب محل سے باہر آتی تھیں تو اُن کے ساتھ ڈھول بجتا ہوتا تھا یا دوسرے باجے تاشے بجتے تھے اِسی لئے اُن کو ڈنکا بیگم کہا جاتا تھا۔ آج شہرت پانے اور شہرت دینے کے ذریعہ میڈیا کی وجہ سے دوسرے ہو گئے تواب ڈنکے کا لفظ محاورہ میں رہ گیا مگر معاشرہ اس سے دُور ہوتا گیا ’’ڈھول پیٹنا‘‘ بھی اسی مفہوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور ڈھول بجنا بھی یہ ہمارے تمدن کی ایسی یادگاروں میں سے ہے جن کو ہم بھولتے جا رہے ہیں مگر ہمارے محاوروں کے ذریعہ گویا یہ حالات اور یہ ماحول Preserve ہو گیا ہے۔
ڈوبنا ہمارے ایسے الفاظ میں سے ہے جو سماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ ’’ڈوبے ڈھیری‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اُس کا قصّہ ختم ہو گیا۔ جب ہاتھ اُدھار کی رقم واپس نہیں آتی تو اُسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی صُورت میں بھی رقم ڈوبنے کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح گھر ڈوب گیا تباہی کے معنی میں آتا ہے یا پھر بہہ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔
ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا میخانہ بھی
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑ گیا ہو اور سہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ دوسروں کے غیر مخلصانہ رویوں کی وجہ سے آدمی کسی پراعتماد بھی نہ کر سکتا ہو ایسے بُرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزور سہارا بھی آدمی کو بڑی بات نظر آتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعتاً وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اور بس۔
ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور ’’ ٹیسو کے پھول‘‘ ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں۔ اِس کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام آتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام آتے تھے گوشت اسی میں رکھ کر دیتے تھے اور ’’پھول‘‘ اور ’’ہا ر‘‘ وغیرہ انہی پتوں میں رکھ کر دیئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اور وہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثر کوششیں نا کام ہوتی ہیں اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پر ڈھاک کے تین پات کہتے ہیں۔
چُلّو ہاتھ کے پیمانے کو کہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اور دور بھی ختم ہوا ورنہ دیہات و قصبات میں بعض محاورات میں چُلّو کا لفظ بہت آتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ ڈیڑھ چُلّو پانی میں ڈوب مرو۔
ڈیڑھ اور ڈھائی بھی محاوراتی، کلمات میں آتے ہیں۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ عورتیں کو سننے کے طور پر محاورہ استعمال کرتی تھیں۔
’’ڈھائی دن کو جھونپڑا‘‘ دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہو پینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے معاشرتی فکر اور پیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کو مقر ر کیا جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں آتا ہے۔
’’چھاؤں ‘‘ ہمارے یہاں سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ سرپرستی محبت اور عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی میسر نہ آیا۔ سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے تو چھاؤں میں بٹھا تا ہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔
اسی چھاؤں کو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے تو ابھی دھوپ ہے اور جہاں جہاں دھُوپ آتی ہے وہاں وہاں چھاؤں تو ہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اُن کے’’ پینترے ‘‘بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اور بُرے دن بھی گزر جاتے ہیں ظاہر کرنے کے لئے چلتی پھرتی دھُوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔
ڈھونگ خواہ مخواہ کی بات کو کہتے ہیں اور جو آدمی اس طرح کی باتیں کرتا یا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس کو ڈھونگ رچانا کہتے ہیں کہیں کہیں یہ محاورہ ڈھونگ باندھنے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے اور ’’ڈینگ مارنا‘‘ اس کی ایک اور شکل ہے یعنی جھوٹی سچی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ یہ وہی ہے جو ہوا باندھنا کے معنی کے طور پر آتا ہے غالب کا مصرعہ ہے۔
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
نظرانداز کرنا ہے اسی لئے محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ اس نے ڈھیل دے رکھی ہے ڈھیل دینا دراصل پتنگ بازوں کی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھا بلکہ اُسے آزاد چھوڑ دیا اسی لئے ڈور ڈھیلی کرنا اور ڈھیلی چھوڑنا غیر ضروری آزادی دینے کو کہتے ہیں جس میں نرمی برتنے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے ہمارے تہذیبی رویوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم انتظام میں ایک گونہ سختی اور باقاعدگی کو ضروری سمجھتے تھے جوشؔ نے تو ایک موقع پر یہ بھی کہا ہے۔
کھُردُرے ہاتھوں میں رہی ہے حکومت کی لگام
یعنی حکومت کے لئے سختی لازمی ہے اور انتظام میں ذرا سی بھی ڈھیل دینا اُس میں خلل پڑنے کا باعث ہو جاتا ہے اسی لئے زندگی کو پُل صراط کا سفر کرنا قرار دیا جاتا ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور دھار سے زیادہ باریک ہے اور ذرا سی توجہ اگر راستہ سے ہٹ جاتی ہے اور پیروں میں لغزش آ جاتی ہے تو آدمی ایسے گہرے کھڈ میں گرجا تا ہے کہ وہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔