ہمارے ہاں کے بہت عام لفظوں اور زبان پر آنے والے کلمات میں سے ہیں اور اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ضد‘‘ ہٹ دھرمی اور بلاوجہ کسی رو یہ کو اپنانا اور اُس پر اڑ جانا ہمارے معاشرے کی عام کمزوری یا عیب داری ہے۔ ہم معاملات کو سمجھنے کے بجائے اور مناسب لفظوں میں اظہار خیال نہ کرتے ہوئے ’’بد گوئی،بدکلامی‘‘ اور بد اندیشی اختیار کرتے ہیں۔ اس سے تلخیاں بڑھتی ہیں اور غلط طور پر غیر دانش مندانہ رو یہ سامنے آتا ہے ہم بچوں کی سی ’’ضد‘‘ کا محاورہ بھی اختیار کرتے ہیں جو ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے پس منظر میں عقل و شعور کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔
ضِد بحث میں پڑنا بھی خواہ مخواہ کی باتوں پر زور دینے اور غیر ضروری دلائل کو سامنے لانے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور بات سلجھنے کے بجائے اُلجھتی ہی چلی جاتی ہے اور ہماری سماجی گرہیں اور سماجی الجھنیں اِس سے اور بڑھتی ہیں۔
یہ محاورے عام طور پر تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کے سلسلے میں کام آتے ہیں کہ عربی زبان میں ضرب کے معنی مارنے کے ہیں لیکن ضرب المثل یا ضرب المثال ایک علمی اِصطلاح ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ فِقرہ اب بار بار استعمال ہوتا ہے اور ایک مثالی صورت بن کر رہ گیا ہے۔