سلام ہمارے تہذیبی رویوں اور رسموں کا ایک بہت اہم حصّہ ہے ہم بڑوں کو بھی سلام کرتے ہیں برابر والوں کو بھی اور اپنے سے چھوٹوں کو بھی بادشاہوں کو سلام بہت سادہ طریقہ پر نہیں کیا جاتا۔ وہاں سات بار زمین بوس ہو کر کورنش بجا لاتے ہیں جسے درباری سلام کہہ سکتے ہیں ۔مُجرا اربابِ نِشاط کا سلام ہوتا ہے۔
ہم سلام مُجرا ایک ساتھ بھی کہتے ہیں اور اُسے محاورے کے طور پر استعمال کرتے ہیں آداب اُمراء کا سلام ہے اور تسلیمات اُس کے ساتھ جُڑا رہتا ہے السلام علیکم گویا برابری کا سلام ہے چھوٹا طبقہ باقاعدہ سلام نہیں کر سکتا وہ’’ صاحب‘‘ سلامت‘‘ کہتا ہے ہمارے معاشرے میں جو اونچ نیچ ہے۔ اُس کا اثر سلام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
’’صاحب ‘‘کا لفظ مالک کے معنی میں آتا ہے ہم اُس کو احترام کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ سکھّوں میں ’’ صاحب‘‘ کے وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں شریف کے ہیں اسی لئے وہ گرودارا صاحب کہتے ہیں عام طور پر صاحب انگریزوں کو صاحب کہتے رہے ہیں اِس سے پہلے بیگمات اور شہزادیوں کے لئے بھی صاحب کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ غالبؔ کے زمانے میں گھرکی خواتین کو بھی ’’صاحب‘‘ لوگ کہا کرتے تھے اب یہ ایک طرح کا محاورہ ہے۔
صوفیانہ اِصطلاح ہے اور اُس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو فلاں صوفی خانوادے سے نسبت ہے اس کو وہاں سے رُوحانی فیض پہنچا ہے اسی لئے فارسی میں یہ مصرعہ کہا گیا جو بہت شہرت رکھتا ہے۔
گرچہ خو ردیم نسبتے است بزرگ
اگرچہ ہم چھوٹے ہیں لیکن ہماری نسبت بڑی ہے اس معنی میں صاحب نسبت ہونا ایک سطح پر محاورہ بھی ہے۔
ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بات کو سننا یا جاننا نہیں چاہتے اُس کی اُن دیکھی کرتے ہیں جیسے ہم نے سنا ہی نہیں یا ہمارے علم میں ہے۔ نہیں اور یہ سب کچھ جان کر ہوتا ہے ہم دانستہ انجان بنتے ہیں اِس سے ہم اپنے سماجی رویوں کے مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں۔
صاف نکل جانا بھی اسی مفہوم سے قریب تر اِس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یعنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنا اور یہی ہمارا معاشرتی مزاج بھی ہے۔
صبح کو اٹھنے والا صبح خیز کہلاتا ہے یہ عبادت کی غر ض سے ہوتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صبح کی عبادت میں زیادہ لطف اور رُوحانی کیف ہوتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو لفظی ترکیب اتنی نیکیوں کی طرف اِشارہ کر رہی تھی اسی سے صبح کے ابتدائی حصّے میں چوری چکاری کرنے والے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قافلوں کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ قافلے عرب میں رات کے وقت سفر کرتے تھے اور صبح کے قریب یہ سو جاتے تھے اسی وقت اس طرح کے چوری چکاری کرنے والے مصروفِ عمل ہوتے تھے اسے ہمارے ادیبوں نے بھی استعمال کیا ہے۔
فسانہ عجائب میں ایک سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں صبح خیز دراصل ’’صبح خیزے‘‘ ہی ہے اور اپنے خاص مفہوم کے ساتھ ہے۔
اُردُو کے ایسے محاورات ہیں جو بہت سی پریشانیوں ذہنی تکلیفوں اور کرب و اضطراب کے عالم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اُن میں ’’ صبح و شام ‘‘ہونا بھی ہے یہ ایسے مریض کے لئے کہا جاتا ہے۔ جس کی زندگی توقعات ختم ہو چکی ہوں اور یہ کہنا مشکل ہو کہ اب یہ صبح سے شام یا شام سے صبح کرے گا یا نہیں ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اس کی تو ’’صبح شام ‘‘ہو رہی ہے یا بڑھاپے کے بعد جب زندگی کے خاتمہ کا وقت آتا ہے تو میرؔ کے الفاظ میں اِس طرح کہا جاتا ہے۔
صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا
غالب نے صبح کرنا شام کا اسی اِضطراب اور بے چینی کے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
’’صبر‘‘ عربی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں کچھ اِس طرح داخل ہے کہ وہ اُس کے بنیادی الفاظ میں شامل کیا جا سکتا ہے اِسے ہم اِس بات سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صبر کرنا صبر سے کھانا بے صبر ہونا یا صبر و شکر کرنا ہماری اخلاقیاتی فکر کا ا یک جُز بنا ہوا نظر آتا ہے۔
معاشرے میں چاہے وہ گھریلو معاشرہ ہے یا سرکار و دربار بازار سے تعلق رکھتا ہو معاملات کی اونچ نیچ اور دیانت کے ساتھ بددیانتی ہمارے معاشرے کا ایک مزاج اور ہمارے معاملات کا ایک جُز بن گیا ہے اس پر ہم لڑتے جھگڑتے ہیں من مٹُاؤ پیدا ہوتا ہے اگر یہ صورت مستقل طور پر رہے تو زندگی میں ذرا بھی تواضع باقی نہ رہے اسی لئے صبر کرنے کی بات کی جاتی ہے صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صبر بڑی چیز ہے یا صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یا اللہ کو’’ صبر‘‘ بہت پسند ہے یہ سب باتیں ہماری نفسیاتی تسکین کے لئے ہوتی ہیں اور جو آدمی بے صبرے پن کا اظہار کرتا ہے اس پر ہم کسی نہ کسی طرح معترض ہوتے ہیں قرآن نے خود بھی ایک موقع پر کہا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صحبت اچھے بُرے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے کو کہتے ہیں اُس میں بڑے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور برابر والے بھی پڑھے لکھے بھی اور غیر پڑھے لکھے بھی اپنے بھی بیگانے بھی۔
انسان صرف کتابوں سے نہیں سیکھتا اپنے گھرکے ماحول سے بھی سیکھتا ہے اور اُس سے زیادہ اچھے لوگوں کی صحبت اٹھاتا ہے تب سیکھتا ہے اسی لئے کچھ زمانے پہلے تک ایسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اچھے لوگوں کی صحبت اٹھائے ہوئے ہوتے تھے اور اسی صورت حال کی طرف صحبت کے متعلق ہماری زبان کے محاورے اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اِس معنی میں محاورہ ہماری سوچ اور تہذیبی صورت حال کا ایک Miniature(چھوٹا سا مرقع) ہے جو ایک وسیع تر پس منظر کی طرف ہمارے ذہن کو مائل کرتا ہے۔
ہماری دیہاتی زبان میں صحنک ایک برتن ہے جو عام برتنوں سے بڑا ہوتا ہے ویسے ہماری زبان میں ’’صحن ‘‘آنگن کو کہتے ہیں گھرکے ساتھ وہ انگنائی کے معنی میں آتا ہے اور کسی بڑی عمارت کے ساتھ کھلے ہوئے حصّے کے معنی میں جیسے جامع مسجد کا صحن کہا جائے یعنی صحن Courtyardاُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔
اَری اُٹھ جاؤں گی میں صحنک سے
اس کے معنی ہیں کہ میں تو کہیں کی نہ رہوں گی۔
بعض محاورے خاص مسلمان کلچر سے رشتہ رکھتے ہیں ، ان میں صلِ علیٰ کہنا بھی ہے یعنی اُن پر ہزار سلام اسی لئے مسلم معاشرے میں صل علیٰ محمدؐ کہا جاتا ہے یعنی ہزار درود و سلام اسی لئے جب کسی کی تہہ دل سے تحسین کی جاتی ہے اور اُسے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ تو اُسے صلِ اللہ کہا جاتا ہے۔ غالبؔ کا شعر ہے۔
دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم صلِّ اللہ کہتے ہیں
نام خدا کہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور ایک خاص کلچر کے اظہار سے تعلق رکھتے ہیں۔
صلوات سُنانا برا بھلا کہنے کے معنی میں آتا ہے جب کہ’’ صلات‘‘ کے معنی ہیں نماز اور صلوٰۃ کے معنی ہیں درود لیکن زبان کیا کیا رنگ اختیار کرتی ہے اُس کا اندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ جو اچھے سے اچھے معنی میں آتا ہے اُس کو بُرے معنی میں اور بے تکلف استعمال کیا جاتا ہے۔ ا س سے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ کلچر جس میں مذہبی روایت بھی شامل ہے ہماری زبان کو متاثر کرتا ہے اور اِس کا ادبی علمی اور عوامی کردار اس سے متعین ہوتا ہے لیکن زمانہ اور زندگی ذہن اور زبان اسے جگہ جگہ اس طرح بھی متاثر کرتے ہیں کہ ا ُس کا رخ بدل جاتا ہے اور زبان کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔
صندل دراصل ’’چندن‘‘ ہے جو ایک خوشبودار لکڑی ہوتی ہے اس کے درخت جنوبی ہندوستان میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو کلچر سے اُن کا خاص تعلق ہے جنوبی ہندوستان کے لوگ پنڈت اپنے ماتھوں پر قشقہ لگاتے ہیں یہ صندل گھِس کر لگایا جاتا ہے مہا کوی کالی داس کے زمانے میں عورتیں اپنے بدن کی سجاوٹ کے لئے اور اُس کو خوشبودار بنانے کی غرض سے اُس پر چندن لگاتی تھیں۔ چندن کی لکڑیوں سے بعض خوبصورت آرٹیکل تیار کئے جاتے تھے ا بٹن میں بھی چندن شامل کیا جاتا تھا اس طرح ہمارے کلچر سے ’’چندن ‘‘کا صدیوں سے ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔
’’چندن‘‘ کے چھاپے منہ پر لگانا اپنے کردار کی خوبیوں کو ظاہر کرنا ہے اور سرخ روئی کا نشان ہے اِس کے علاوہ صندل کی تختی بھی خوبصورتی اور وجود کی پاکیزگی کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورات کو تراشنے میں ہماری زبان کے بولنے والوں نے کس حد تک شاعرانہ طریقہ رسائی کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ بعض محاورے انتہائی مبالغہ آمیز صورتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے آگ کھانا اور انگارے ’’اُگلنا‘‘، بعض محاورے اِس کے مقابلہ میں سماجی تلخیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اسی پس منظر میں اُن کے معنی اور معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے بعض محاوروں سے زندگی کی خوشگواریاں ظاہر ہوتی ہیں جیسے زہر بجھے ہوئے تیروں مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے تیروں کے مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے میٹھے بول کہہ کر خوشی کا اظہار کرنا۔ اسی طرح صندل کی تختی ’’صندل ‘‘کا چھاپہ شاعرانہ تشبیہات اور استعاروں کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے طریقہ فکر اور طرزِ اظہار کے مختلف سلیقوں کو محاورے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اگرچہ محاوروں پر اس رشتے سے کم نظر ڈالی گئی ہے۔
صُورت پر بہت سے محاورے ہیں جیسے یہ صُورت اور ’’مسور کی دال‘‘ یا اُجاڑ صورت یا پھر صورت حرام صورت کے ساتھ اُجاڑ منحوس یا ’’حرام‘‘ کا لفظ استعمال کرنا ذہنی تلخیوں کا اظہار ہے۔ صورت پر پھٹکار برستی ہے اس محاورے سے بھی اسی صورتِ حال کا اظہار ہوتا ہے شیطان کی سی ’’تھوپڑی‘‘ بیل جیسا منہ وغیرہ محاورات اسی جذبہ کا اظہار ہیں کہ کوئی شخص دوسرے سے اُس حد تک ناراض ہو کہ اِس کی شکل سے بیزار ہونا اُس کے رو یہ میں شامل ہو جائے۔