مُرغیاں خریدنے والے ایک خاص طرح کا گھیرے دار جال رکھتے تھے وہ ٹاپا کہلاتا تھا وہ لوگ ٹاپے والے کہہ کر یاد کئے جاتے تھے۔ مُرغیاں گھر کے ماحول سے نکل کر اُس ٹاپے میں پھنس جاتی تھیں تو پریشان ہوتی تھیں اور اس سے نکلنا چاہتی تھیں اسی مشاہدہ سے یہ محاورہ بنا ہے۔ یعنی مصیبت میں پھنسنا اور پھر نکلنے کی کوشش کرنا۔
اس معنی میں ایک اہم محاورہ ہے کہ ہماری یہ ایک عام سماجی روش اور معاشرتی طرزِ فکر ہے کہ ہم بات کو سلجھاتے وقت ہر قدم اُٹھانے اور تدبیر کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اپنے معاملہ میں بھی اور دوسروں کے معاملہ میں بھی یہ ایک طرح کا سماجی عیب ہے کہ معاملات کو نمٹاؤ نہیں ٹالتے رہو اور کوئی نہ کوئی غلط سلط بہانہ بناتے رہو ہم آج کے معاشرے میں بھی شہری وہ معاشرہ ہویا قصباتی معاشرہ یہی ٹال مٹول کی صورت دیکھتے ہیں خود بھی اس سے گزرتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔
ٹانکا ہماری معاشرتی سماجی اور گھریلو زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے یہاں تک کہ بہت اہم سطح پر ہم ٹانکا ٹھپا کہتے ہیں پھٹے پُرانے کپڑے میں ٹانکا لگانا اور اسے جوڑنا ہماری ایک تمام سماجی ضرورت ہے اسی لئے یہ کام گھریلو طور پر کیا جاتا ہے کپڑوں کے علاوہ چادر، بستر، لحاف میں ٹانکا لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جُوتی میں ٹانکا موچی لگاتا ہے اب کچّا ٹانکا ہوتا ہے تو جلدی ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارے محاورے کا حصّہ ہے اور پکّا ٹانکا لگانا بھی اور موتی ٹانکنا بھی باریک ٹکائی بھی اس طرح سے یہ محاورے ہماری گھریلو زندگی کے اپنے انداز اور ماحول کو پیش کرتے ہیں۔
اصل میں رونے کے لئے ایک طنزیہ محاورہ ہے جو سماجی رد عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سوچا نہیں سمجھا نہیں اب ٹسر ٹسر رو رہی ہے اور ٹسوے بہا رہی ہے دہلی میں ’’ٹ ‘‘کے نیچے کسرا لگاتے ہیں اور ٹسوے کہتے ہیں۔
جب آدمی احساسِ محرومی اور تصورِ نامرادی کے ساتھ کسی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے گھر یلو سطح کی ٹکر ٹکر دیکھنا کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم دوسروں کی نظروں کو پہچانتے ہیں اُن کے جذبات و احساسات کی تصویر اُن کی آنکھوں میں اس کا خاص انداز سے ذکر کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ الگ بات ہے۔
دیہاتی زبان میں روٹی کو کہتے ہیں اور طنز کے طور پر ٹکر لگنا یا ٹکڑ کھانا بھی بولتے ہیں ٹکٹر لگنے میں یہ طنز چھپا ہوا ہے کہ پہلے بھوکے مرتے تھے کھانے کو نصیب نہیں ہوتا تھا اب کھانے کو ملنے لگا تو یہ انداز آ گئے یعنی نخرے کرنے لگے برائی کا اظہار کرنے لگے اسی کو قصباتی زبان میں روٹیاں لگنا کہتے ہیں۔
ٹکڑے ٹکڑے کر دینا کسی چیز کو بُری طرح توڑ دینا پھاڑ دینا اور ضائع کر دینے کا عمل ہے سزا کے طور پر بھی پہلے زمانہ میں ٹکڑے ٹکڑ کر دینے کا رواج تھا۔ جس کو اور آگے بڑھا کر بوٹی بوٹی کر دینا یا قیمہ کر دینا بھی کہا جاتا ہے اور قدیم زمانہ کی سزاؤں کی طرف اس سے اِشارہ کرنا مقصود چاہے نہ ہو کہ جب لوگ اسے جانتے بھی نہیں مگر قدیم زمانہ کی روایت کسی نہ کسی سطح پر اس میں موجو دہے اور تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔
ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے سکّے رائج کئے جاتے ہیں اور کھرے سکّے مانے جاتے ہیں ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور جو سکّہ سرکاری ٹکسال کا نہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا سکّہ یا ٹکسال قرار دیا جاتا ہے۔
شہری کی بولی جو بات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کو ٹکسالی کہا جاتا ہے اور جس سے اِدھر اُدھر کی بولی کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور اُس کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اُسے ٹکسال باہر کیا جاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے آس پاس کی زبان ہی کو سند مانتے تھے چنانچہ میر تقی میرؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری زبان ان کے لئے یا محاورہ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان اُن کے نزدیک پسند نہیں تھی ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا تھا جو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے آس پاس سنا جاتا تھا۔
یہ محاورات نسبتاً نئے ہیں ٹوپی سر کو ڈھکنے کے لئے کُلاہ کی صورت میں ایک زمانہ سے ایران، افغانستان اور مرکزی ایشیاء میں موجود رہی ہے مگر عام طور پر تنہا نہیں اُس کے ساتھ پگڑی بھی ہوتی تھی ہندوستان میں جہاں تک قدیم کلچر کا سوال ہے صرف کبھی ٹوپی کبھی چیز سے ڈھکتے تھے دیہات میں پگڑی رائج رہی ہے بدن پر چاہے لباس کم سے کم رہا ہو مگر سرپر پگڑی رہی۔ اُس کی وجہ سرکو دھوپ کی شدت سے بچانا بھی تھا۔ مدراس میں ہم دیکھتے یہی ہیں۔
پگڑی کے طرح طرح کے انداز مرہٹوں میں راجپوتوں میں اور جنوبی ہندوستان کے مختلف قبائل میں رہا ہے جس کا اندازہ ان تصویروں سے ہوتا ہے جو مختلف زمانوں اور خاص طور پر وسطی عہد میں رائج رہی ہیں قدیم تر ہندوستانی تہذیب میں سادھو سنت ’’بال‘‘ رکھتے تھے اور اونچا طبقہ مکٹ پہنتا تھا (تاج کی طرح کی کوئی چیز)سر عزت کی چیز ہے اسی لئے سر پر رکھنا سر جھکانا ہمارے ہاں خاص معنی رکھنے والے محاورات میں سر اٹھانا سرکشی اختیار کرنا ہے اور سر سے ٹیک دینا دوسری طرح کے محاورے ہیں جو آگے بڑھ کر سرگوشی تک آ جاتے ہیں۔ سر کو ڈھکنا مرد سے زیادہ عورت کے لئے ضروری تھا جیسے آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ٹوپی اسی کی ایک علامت ہے۔ اوپر دیئے ہوئے محاورے ہوں یا دوسرے محاورے جو سر سے متعلق ہوں جیسے سر سے چادر اُتر گئی۔
انہی محاوروں میں سر جھکانا،سر پیروں پر رکھنا،سرپر خاک ڈالنا، بھی اور ہم اپنی عزت کے نشان کے طور پر شخصی خاندانی قومی اور قبائلی وقار کے طور پر پگڑی یا دوپٹہ کو یا چادر اور آنچل کو سر سے گرنے نہیں دیتے تھے اور جب اُسے دوسرے کے قدموں پر رکھتے تھے تو اپنی انتہائی وفاداری کا اظہار کرتے تھے جسے ہم مکمل بھی کہہ سکتے ہیں دیہات قصبات اور شہروں میں جب دوسرے کی عزت کو بڑا دکھانا چاہتے ہیں اور اپنی شخصیت کو کمتر ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے پیروں میں کوئی دوپٹہ پگڑی رکھتے ہیں اور اس کو اپنی طرف اظہارِ عاجزی کی سب سے بہتر صورت خیال کرتے ہیں۔ اِس معنی میں یہ محاورے ہمارے سماج کے رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔