مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک اور زندگی آئے گی جس کو وہ عاقبت کہتے ہیں اُس کے لئے ہم کو یہیں تیاری کرنی چاہیے اور تیاری یہ ہے کہ ہم نیکی کریں خدا سے ڈریں اور اُس کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اِسی کو عاقبت کو توشہ کہا جاتا ہے اور جب انسان کا عمل خراب ہوتا ہے اُس کا ایمان ڈانوا ڈول ہوتا ہے یا دوسرے اُس کے ساتھ اتنا برا سلوک کرتے ہیں کہ اُس کے نتیجہ میں وہ خود برا ہو جاتا ہے تو اُسے عاقبت بگاڑنا کہتے ہیں۔
مسلمانوں میں عاقبت یا آخرت کا تصوّر بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہ اکثر اسی حوالہ سے سوچتے ہیں اب اُن کا عمل کس حد تک اِس کے حق میں ہوتا ہے یا اُس کے خلاف یہ ایک الگ بات ہے۔
انگریزوں کے زمانہ میں ایک سزا تھی جس کو کالے پانی بھیجنا بھی کہتے تھے اور جزائر انڈمان نِکوبار بھیجنے کو ’’کالا پانی ‘‘بھیجنا کہتے تھے۔
آدمی سارے کام عقل سے کرتا ہے عقل جتنی کم ہوتی ہے اتنا ہی پریشانی بڑھتی ہے اور کام خراب ہوتا ہے دوسروں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ عقل خراب ہو جاتی ہے آدمی غلط سوچنے پر پڑ جاتا ہے یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اِسی کو کہتے ہیں کہ عقل چکر میں پڑ گئی یا عقل کو چکر میں ڈال دیا۔ عقل جاتی رہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور جب طنز کے طور پر کسی کی بے عقلی کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تمہاری عقل چر نے گئی ہے یا تمہاری عقل کو گدھے چر گئے ہیں۔
اِس سے ہم سماجی عمل اور ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور اُن باتوں کو جان سکتے ہیں جو کم عقل لوگوں کو پیش آتی ہیں جن لوگوں کو عقل بالکل نہیں ہوتی اُن کے لئے طنز کے طور پر کہا جا تا ہے کہ وہ تو عقل کے پورے ہیں یعنی اُن کو عقل بالکل نہیں اور جو لوگ جان جان کر عقل کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور بُرے نتیجہ بھگتے ہیں اُن کو عقل کا دشمن کہا جاتا ہے۔
اب اس کے مقابلہ میں جن لوگوں کو عقل زیادہ ہوتی ہے تو اُن کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو عقل کا پتلا ہے۔
اب جو لوگ عقل سے بالکل کام نہیں لیتے اور بیوقوفیاں کرتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُن کی عقل کا چراغ گل ہو گیا اور جو شخص عقل کی باتیں سوچتا رہتا ہے وہ گویا عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے ہمارے وسطی زمانہ میں گھوڑے کی بڑی اہمیت تھی۔ اسی لئے گھوڑے پر بہت سے محاورے بھی ہیں۔ اس سے ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے محاوروں میں زیادہ تر اُن باتوں کا حوالہ آتا ہے اور اُن چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ہماری زندگی میں داخل تھیں اور اُن سے کوئی اچھا بُرا اثر ہمارے ذہنوں پر پڑتا تھا اِس دورِ زِندگی اور اُس زمانے کی تصویر کسی نہ کسی حدیث سے ہمارے سامنے آتی تھی۔ عقل کی دُم بھی ہونا اس کی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے کہ عقل بالکل نہیں ہے یا اُن کی عقل گُدی کے پیچھے ہے جو عقل سے متعلق ایک اور محاورہ ہے اور اُس کے نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
عِلّت محاورہ میں عیب داری کو کہتے ہیں کوئی بھی ایسا سماجی کام یا برائی ہو سکتی ہے جو آدمی کو اپنے پیچ و پیچاک میں اُلجھا دیتی ہے یہ اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اس نے تو اپنے ساتھ یہ علت لگا رکھی ہے یاوہ اُس عِلت میں پڑا ہوا ہے یا پھر کون یہ علت اپنے ساتھ لگائے علت کو مختصر طور پر لت بھی کہتے ہیں مثلاً اُسے شراب پینے کی لت لگی ہوئی ہے یا وہ جُوئے بازی کی لت میں پڑا ہوا ہے یا اُس کو مقدمہ بازی کی لت تھی یہ علت یا برائی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں نکمے اور کم ہمت لوگ بہت ہوتے ہیں اور جسے اخلاقی توازن کہتے ہیں وہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر انفرادی اور اجتماعی رویوں میں مفقود ہے۔ اسی لئے لوگ کوئی ایسا حیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اچھا بُرا غلط اور صحیح مگر اُن کی گزر ہو جائے اسی کو روٹیاں سیدھی کرنا تو ایسے لوگوں کے لئے اور بھی بڑی بات ہے اب وہ فریب سے ہویا بے غیرتی سے جو بھی حربہ کام آئے۔
دستاویز لکھوانے کو کہتے ہیں اب عمر بھر کے لئے تو کوئی دستاویز معقول سطح پر لکھی نہیں جا سکتی اسی لئے جس کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں اُن کے لئے طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ کیا عمر بھر کا پٹہ لکھوا کر لائے ہو جو تمہارا کام برابر ہوتا رہے۔
جب آدمی کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو اسے عمر کا پیمانہ بھر جانا یا لبریز ہو جانا کہتے ہیں یہ اس وقت کی ایک اہم بات ہے جب وقت کو پیمانوں سے ناپا جاتا تھا کہ کٹورے میں ایک باریک سا سُوراخ کر دیا جاتا تھا اس سے پانی رس رس کر کٹورے میں بھرتا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ وہ کٹورا یا پیمانہ لبریز ہو جاتا تھا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ اتنا وقت گزر گیا اس سے زندگی کو ایک پیمانہ قرار دیکر یہ محاورہ بنا یا گیا کہ عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اِس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ محاورے کس طرح بنتے ہیں اور اُن کے پس منظر میں کیا سچائیاں موجود ہیں اور ان کے معنی اور معنویت کیا ہے۔
ہمارے ہاں معاشرے میں حسن عقیدت کے طور پر یہ بھی خیال پایا جاتا ہے کہ فلاں عمل پڑھنے سے اور ایک خاص وقت پر اس کو بار بار پڑھنے سے وہ کام بن جاتے ہیں جو بظاہر بہت مشکل ہوتے ہیں یا ہوتے نظر ہی نہیں آتے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عمل پڑھنے میں کیسی غلطی یا خرابی کی وجہ سے اُلٹ جاتے ہیں اور عمل پڑھنے والا کسی نہ کسی تکلیف یا نقصان کا شکار ہو جاتا ہے اب تو اس کا رواج کچھ کم ہو گیا پہلے یہ باتیں اکثر سننے میں آتی تھیں اور لوگ عمل پڑھتے نظر آتے تھے۔
آدمی شروع ہی سے پرندوں سے دلچسپی لیتا رہا ہے یہاں تک کہ اُس نے کہانیاں اور داستانیں گھڑ کر اس طرح کے کردار پرندوں میں بھی پیدا کر دیئے جو واقع نہیں ہیں مگر اپنے طور پر عجیب و غریب کردار ہیں جیسے رخ اور سیمرغ پرندے جو بہت بڑے ہیں اور جن کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پنجوں میں ہاتھیوں کو لیکر اڑ جاتے ہیں ایسے پرندے بھی فرض کئے گئے جو گیت گاتے ہیں اور اُن سے گیت اُن کے اپنے وجود کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی راکھ سے جنم لیتے ہیں۔
’’ققنس‘‘ اسی طرح کا ایک فرضی پرندہ ہے ’’ہما ‘‘کے نام سے ایک ایسے فرضی پرندہ کا تصور بھی ہو جاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مصری شہنشاہ (فرعون) اپنے سرپر ایک پرندہ نشان بنائے رکھتے ہیں غالباً ہما اب بھی اس کا تصوّر ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ لڑکوں کا نام ہمایوں اور لڑکیوں کے نام ظلِ ہما رکھے جاتے ہیں ’’ عنقا‘‘ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا تصور چین میں خاص طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ ہے بھی اور نہیں بھی اسی لئے جو چیز غائب ہو جاتی ہے اس کو محاورے کے طور پر کہتے ہیں وہ تو عنقا ہو رہی ہے یعنی کہیں ملتی ہی نہیں۔
ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم آدمی کی خو بیاں نہیں دیکھتے اس کی نیکیوں پر نظر نہیں کرتے بلکہ خواہ مخواہ بھی اس کے کردار میں طرح طرح کے عیب نکالتے ہیں۔ اور کوشش یہ رہتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو عیب تلاش کئے جائیں یا عیب تراشے جائیں اور جو خرابیاں یا خامیاں کسی میں نہ ہوں وہ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر نکالی جائیں یہ ہمارے معاشرے کاوہ غیر انسانی اور غیر تہذیبی رو یہ ہے جو بہت عام ہے اور غالبؔ کے اس مصرعہ میں اسی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔
ہوتی آئی ہے‘ کہ اچھوّں کو بُرا کہتے ہیں
سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان اور اپنے ادب کا مطالعہ اِس نقطہ سے کیا ہی نہیں کہ ہماری کن کِن باتوں کی طرف ہمارے اشعار ہماری کہاوتوں اور ہمارے محاوروں میں موجود ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عیش پسند ہویا نہ ہو مگر آرام پسند ضرور ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے ہاں آرام کرنے یا ہونے پر بہت محاورے موجود ہیں اور اسی طرح عیش کرنے پر بھی کہ وہ تو عیش کر رہے ہیں۔ عیش اُڑا رہے ہیں ایسے ہی لوگ جوہر حالت میں مطمئن رہتے ہیں اور خوش نظر آتے ہیں وہ’’ عیشی بندے‘‘ کہلاتے ہیں یعنی انہیں تو ہر حالت میں عیش کرنا ہے کچھ ہویا نہ ہو۔
یہ دو الگ الگ محاورے ہیں اور ان کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کی بیکار کی باتیں سوچنا اور ذرا سی دیر میں اپنی توجہ بدل دینا غیر سنجیدہ لوگوں کا یہی رو یہ ہوتا ہے ’’عین‘‘ آنکھ کو کہتے ہیں اور ’’غین‘‘ کے معنی ہیں غائب ہو جانا ذرا سی دیر میں توجہ بدل جانا اور آدمی کا موجود ہوتے ہوئے ذہنی طور پر غائب ہو جانا عین غین ہونا کہلاتا ہے۔ عین میں ہونا جوں کا توں بالکل وہی اور اُسی جیسا ہونا عین مین ہونا ہے وہ تو عین مین ایسا ہی تھا اور اسی طرح لگ رہا تھا یہ بھی ہی کے معنی بھی یہی ہیں یعنی بالکل اُس جیسا سی سے یہ عین مین کا محاورہ بھی بنا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے عربی الفاظ کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اور اپنی زبان میں صرف عربی لفظ داخل نہیں کئے محاورہ بھی تراشے ہیں۔