01:53    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ حیدر قریشی کی نظمیں

925 0 0 00




خلا

کبھی تم دل میں بستے تھے

تو آنکھوں میں

کہیں اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہاریں مسکراتیں،

کہکشائیں رقص کرتی تھیں

زمین و آسماں میں

ایسی یکتائی کا عالَم تھا

خلا کیسا؟

کہیں اک درز تک بھی تو نہیں

معلوم ہوتی تھی

مگر پھر یوں ہوا، اک دن

دھماکہ سا ہوا کوئی

زمین و آسماں میں اک دوئی

پیدا ہوئی

پھر فاصلہ در فاصلہ

اک سلسلہ بنتا گیا

اور اب یہ عالَم ہے

بہاریں کھو چکی ہیں

کہکشائیں بجھ گئی ہیں

اور مِری آنکھوں میں

اک اندھا خلا ہے

دور تک پھیلا ہوا، جس میں

لبوں پر ایک زخمی مسکراہٹ کو سجائے

چپ کھڑی ہے میری تنہائی،

او راس کے گرد

اک سفاّک سناٹا

مسلسل رقص کرتا ہے






درد

گہرے سناٹے میں

دُور سے

کالے انجن کی سیٹی کی آواز آتی ہوئی

دل کو بھاتی ہوئی

اک لرزتی، سسکتی صدا

دُور ہوتے ہوئے

کسی تانگے کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز

تانگے کے پہیوں کی آواز سے مل کے

کوئی انوکھا سا جادو جگاتی ہوئی

دکھ کا احساس دیتے ہوئے

دُور ہوتے ہوئے

منظروں کی صدا

چوڑیوں کی چھنک

ٹوٹتی چوڑیوں کی چھنک

زخم خوردہ مگر مسکراتے ہوئے

گیت گاتی چھنک

بانسری کی دُکھی اور سُریلی صدا

سَرخوشی اور دُکھ کے رَچاؤ سے

دل میں کچھ ایسے اترتی ہوئی

جیسے الہام ہو

یہ ساری صدائیں مِری آشنا ہیں

مجھے جانتی ہیں

میں اِن سب کو پہچانتا ہوں

متاعِ فقیراں۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب میرے دردوں کی آواز ہیں

درد

جو میرے مونس ہیں

ماں جائے ہیں!






ایک اداس کہانی

یہ کیسی دھُند سی پھیلی ہے

میرے چار سُو

کچھ بھی نظر آتا نہیں

چاروں طرف مہکے ہوئے، پھیلے ہوئے

شادابیوں، زر خیزیوں کے

کتنے ہی منظر ہیں

لیکن دھُند نے سارے مناظر

اپنے دامن میں کچھ اِس ڈَھب سے چھُپائے ہیں

مری نظریں کسی منظر کو بھی چھو ہی نہیں پاتیں

مگر کانوں میں سارے منظروں کی

مدھ بھری جھنکار پیہم گونجتی ہے

کوئی انجانی (یا شاید جانی پہچانی سی)

راحت بخشتی ہے

صدا جھنکار اور چہکار کی صورت

رگِ جاں تک اُترتی ہے،لہو میں بولتی ہے

روح میں رس گھول دیتی ہے

مگر دل میں نہیں آتی

کہ دل کے دیس میں آنے کے سارے راستے

آنکھوں سے آتے ہیں

یہ کیسی دھُند ہے جس نے مجھے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے

مِرا دل میری جاں کی

اور مِری جاں، میرے دل کی جستجو میں ہے

مگر دونوں میں کوئی ربط ہو پایا نہیں جیسے

عجب سی دھُند پھیلی ہے

سبھی منظر صدا کے رُوپ میں ہی مجھ سے ملتے ہیں

یہ دلکش دھُند

دو قطروں کی صورت

جب سے اِن پلکوں پہ ٹھہری ہے!

ہوا سفاّک لہروں کی طرح

یخ بستہ تِیروں سے مسلسل حملہ آور ہے

میں اپنے بند کمرے میں مسہری پر

رضائی لے کے بیٹھا ہوں

مِری بیوی مِرے پہلو میں بیٹھی ہے

شعیب، عثمان، ٹیپو، مانو، رضوانہ۔

ہمارے سامنے

پہلو

بہ پہلو دائرے کی شکل میں بیٹھے

ہماری مُورتیں ہم کو دکھاتے ہیں

ہمارا گمشدہ بچپن ہمارے سامنے

ان پانچ رنگوں میں چہکتا ہے






پھاگن کی سفاک ہوا

ہوا سفاک لہروں کی طرح

یخ بستہ تیروں سے مسلسل حملہ آور ہے

کبھی تیروں کی اک بوچھار سی

جب بند دروازے پہ پڑتی ہے تو بچے

ایک لحظے کے لئے خوف اور حیرت سے

ہمارے منہ کو تکتے ہیں

اور اپنے آپ ہی پھر کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتے ہیں

اگر اس وقت پھاگن کی ہوا سفاّک نہ ہوتی

تو میں اس بند کمرے میں

حَسیں بچپن کے ایسے جگمگاتے

اور سہانے دن کہاں پاتا

جہاں گردی کے چکر میں

ہمیشہ کی طرح کھویا ہوا ہوتا

یہ پھاگن کی ہوا سفاک بھی ہے مہرباں بھی ہے!






تمھارے لۓ ایک نظم

تمہیں پانے کی خواہش

صرف خواہش ہی نہیں جاناں

تمہارے اِن لب و رُخسار کی سُرخی پہ

میری شاعری کے سب دَمکتے رنگ بکھرے ہیں

طلسم ِ حرف کے جو اِسم بھی ہیں

سب تمہاری آنکھ کے جادُو میں بستے ہیں

مِرے مفہوم اور معنی تمہاری رُوح میں پنہاں

تمہیں پانے کی خواہش

صرف خواہش ہی نہیں جاناں!

مجھے اپنے ادھورے پن کی بھی تکمیل کرنی ہے

تمہارے بارے میں ہر سوچ پر میں نے

دعاؤں کے نہ جانے کتنے اندھے کرب جھیلے ہیں

بس اِس اُمید پر

یہ کرب اک دن روشنی بھی لے کے آئیں گے

تمہیں لیکن کوئی احساس تک بھی تو نہیں شاید!

چلو آؤ.... مری آنکھوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھو

کہ آنکھیں سچ ہی کہتی ہیں

تمہیں یہ خود بتائیں گی کہ میں نے تم کو پانے کی

دعائیں مانگنے کے جتنے اندھے کرب جھیلے ہیں

تمہاری ہی عطائیں ہیں

اور ان کی آنے والی روشنی بھی تو

تمہیں پانے کی حیرت زا بشارت سے عبارت ہے

سنو جاناں !

اب اپنے حُسن کے رنگوں سے میری شاعری بھر دو

اب اپنی آنکھ کے جادُو کے سارے اسم

مجھ پر کھول کر

مجھ کو طلسمِ حرف کے اسرار سکھلاؤ

مِرے معنی، مِرے مفہوم بھی مجھ کو عطا کر دو

مِرے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دو

نزدیک آ جاؤ!






چاند کی تسخیر کے بعد

لفظوں کو جستجو ہوئی اپنے وجود کی

مفہوم اپنے رشتے نئے ڈھونڈنے لگے

معنوں کی اک بساط بھی بچھنے لگی نئی

محبوب کے حوالے سے تفہیم چاند کی

اب صرف ایک قصۂ پارینہ بن گئی

ایٹم کے دَور نے ہر اک شے کو بدل دیا

تہذیب ِنَو کے نام پہ قدریں بدل گئیں

حسِ لطیف مٹ گئی ، انسان پٹ گئے

یہ دُور سے چمکتا ہوا چودھویں کا چاند

دراصل پتھروں کا اک ایسا طلسم ہے

جو اس کی چاندنی کے سرابوں میں تیر کر

پہنچے وہاں تو روح بھی پتھرا کے رہ گئی

لیکن میں اپنے دور سے بالکل الگ تھلگ

اور اپنے نظریات کو بھی رکھ کے اک طرف

لفظوں کے وہ پرانے مفاہیم چوم کر

سوچوں تو تیرا چاند سا چہرہ دکھائی دے

میں ڈوب جاتا ہوں تری کرنوں کے نُور میں

تیری نگاہوں سے یوں اُمڈتی ہے چاندنی

لیکن میں جانتا ہوں کہ تُو صرف چاند ہے

وہ چاند جس کا دل ہے فقط پتھروں کا ڈھیر

ڈرتا ہو ں تیرے قُرب سے پتھرا نہ جاؤں میں

میں چاہتا ہوں صرف تجھے سوچتا رہوں

جب جانتا ہوں دل ترا ہے پتھروں کا ڈھیر

پھر آئینۂ روح کیوں ٹکراؤں گا بھلا؟

تسخیر کر کے میں تجھے کیا پاؤں گا بھلا؟

اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی دیکھتا رہوں

اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی سوچتا رہوں!






میں پھر آنسوؤں کا گلا گھونٹ دوں گا

(زبیدہ کی رخصتی کے بعد)

تصور کے اُجلے دریچے سے میں نے

غمِ زندگی کا جو پردہ ہٹایا

تو یادوں کی سرسبز وادی میں

بیتے دنوں کی ہزاروں حسین اور رنگین گھڑیاں

محبت کے پھولو ں کی صورت میں بکھری ہوئی تھیں

ہماری مقدس محبت کے رشتے

تناور درختوں کی صورت میں قائم کھڑے تھے

وہ بچپن، وہ کھیلیں........وہ جھگڑے، وہ چہلیں

وہ ہنسنا، ہنسانا ........ وہ رونا، رُلانا

وہ مل جل کے پڑھنا ........وہ لڑ بھڑ کے کھانا

لڑکپن کے قصے ........جوانی کی باتیں

وہ ہنستے ہوئے دن ........ وہ مسرور راتیں

اسی طرح کے کتنے ہی پھول اب بھی

ہماری محبت کی طرح جواں ہیں

مگر میں انہیں

پھولوں کے ساتھ کانٹوں

کو پاکر ٹھٹک سا گیا ہوں

جدائی کے کانٹے!

مجھے یاد ہے سب

کہ میں ہر جدائی کے موقعہ پہ ہی

آنسوؤں کا گلا گھونٹ دیتا رہا ہوں

جدائی کے دکھ

اصل میں اس حقیقت کا اظہار ہیں

کہ پھولوں سے کانٹوں کا جب تک تعلق رہے گا

سبھی بہنیں ہی اپنے بھائیوں سے یونہی

بچھڑتی رہیں گی

تصور کے اجلے دریچے کے پردے

ابھی تک ہٹے ہی ہوئے ہیں

مِری چاروں سمت اپنی بہنو ں کی چاہت

کے پھولوں کی خوشبو بسی ہے

میں آنسوؤں کا گلا گھونٹنا بھی نہیں چاہتا

کیونکہ یادوں کی سرسبز وادی میں

بارش کا دلکش نظارہ بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں

مگر اب بھی پھر اُس گھڑی

جب مری دوسری بہنیں بچھڑیں گی مجھ سے

میں پھر آنسوؤں کا گلا گھونٹ دوں گا!






ایبٹ آباد

(دن کے وقت)

پہاڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی

یہ حسین اور سرسبز وادی کہ جیسے

کوئی خوبصورت سی ،ننھی سی بچی

محبت کا اظہار کرتے ہوئے

ماں کے سینے سے چمٹی ہوئی،

جس کے چہرے کے نقش اور شادابیاں

آنے والی جوانی کی،

بے مثل حُسنِ مجسم کی

جھلکی دکھائیں!

(رات کے وقت)

یہ شہرِ نگاراں ہے یا کوئی

دوشیزہ سلمہ ستارے کے جوڑے میں

ملبوس شرمیلے پن سے کھڑی ہے

اگر اس کے تن پر

یہ سلمہ ستاروں کا جوڑا نہیں ہے

تو پھر اس کے اپنے بدن میں ہی

لاکھوں، کروڑوں ستارے فروزاں ہیں

آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہے ہیں

کبھی اس کی جادو گری دیکھ کر

ایسے لگتا ہے جیسے

فلک کے ستارے ہی یہ

جگمگاتا ہوا آسماں لے کے

اس وادیِ دل نشیں میں اتر آئے ہیں

یا میں خود آسماں پر

کروڑوں ستاروں کے جھُرمٹ میں

چلتا ہوا جا رہا ہوں!






نصف سلور جوبلی

شبِ اوّل کی وہ محجوب سی

اک اوّلیں ساعت

تبسّم زیرِ لب

جب گنگناتی خامشی

اک گیت بن کر جسم میں اتری!

پھر اک مدھم ہنسی،مدہوش سرگوشی

مجسم گیت بن کروہ چہکتا

گیت گاتا اک پرندہ

پھول اور کلیاں

خزاں ناآشنا کھِلتی بہاریں، زندگی!

زندگی

پھر زندگی کی رُوح سے لبریز چہکاریں

جو گاہے کھلکھلاتیں، شور ہنگامہ بپا کرتیں

جو گاہے جھینپ بھی جاتیں

جواں، سرسبز جسموں کی مہک

شادابیاں

وہ روح کی پاتال تک سیرابیاں!

سرشاریاں

شاداب اور سیراب جسم و جان سے چھلکیں

تو آنگن میں بہاریں اور چہکاریں

دمک اٹھیں

ستارے، پھول، کلیاں

خوشبوئیں اور روشنی ....روشن

شرارت، کھیل، جھگڑا اور

صلح و آشتی، پھر آشتی کے ساتھ ہی جھگڑا

کتابیں، کاپیاں، پنسل، قلم اور ہوم ورک

اتنے شرارت سے بھرے چہروں پہ ایسا نُور

یہ معصومیت ،پاکیزگی

گنگناتے، کھنکھناتے، جگمگاتے قہقہے

زندگی ہی زندگی

بارہ برس اور چھ مہینے

آج پورے ہو گئے ہیں اپنی شادی کو!






صدا کا سمندر

فضا میں سمندر کی لہروں سی آواز ہے

سمندر کے ساحل سے اس وقت میں

سینکڑوں میل کے فاصلے پہ ہوں، پھر

یہ فضا میں سمندر کی لہروں کی موسیقی

کیوں نشر ہوتی چلی جا رہی ہے

انوکھی صدائیں امنڈتی چلی آ رہی ہیں

مِری رُوح پر چھا رہی ہیں

دسمبر کی یخ بستہ صبحوں میں

سورج نکلنے سے پہلے، فضا میں

پہاڑوں کے کووّں کی ڈاریں اڑی جا رہی ہیں

انہیں کی صدائیں

سمندر کی لہروں کی میٹھی،

سریلی صداؤں میں ڈھل کے

پہاڑوں کے دامن میں

الہام بن کر اترتی چلی جاتی ہیں

اور میں اس فضا میں، صدا کے سمندر میں

پرواز کرتا ہوا تَیرتا جا رہا ہوں!






منی پلانٹ

زمین سے جُڑا رہوں

تو تب بھی لہلہاؤں میں

زمیں سے کاٹ کر مجھے

بوتلوں میں پانی بھر کے ڈال دو

تب بھی میں ہرا رہوں

پَیر ہی جمانے کی مجھے کہیں جگہ ملے

میں جہاں بھی جا بسوں

وہیں ہرا بھرا رہوں

بلکہ میں جہاں رہوں

نصیب اُس کے جاگ اُٹھیں

میں کوئی خشک شاخ تو نہیں

کسی درخت کی !






فاصلوں میں ملاپ

ترے ہاتھوں کی مہندی اور تری نیندیں

مِری آنکھوں کی سرخی اور میرے رَتجگے

بے شک ہمارے درمیاں جو فاصلے ہیں

اُن کے ہونے کی شہادت ہیں

ہمارے فاصلے پھیلیں یا سمٹیں

پر حدیں قائم ہی رکھتے ہیں

سمٹ کر بھی کبھی یہ قرب کی لذت نہیں دیتے

مگر ان فاصلوں کے درمیاں اک گھر بھی آتا ہے

مری آنکھوں کی سرخی

اور ترے نازک سے ہاتھوں پر سجی مہندی

تری نیندوں کی لذت

اور میرے رَتجگے

اِن فاصلوں کے درمیاں ملتے ہی رہتے ہیں!






محبت کا خدا

گئے موسم کے لَو دیتے ہوئے دُکھ

جب رَگِ جاں میں دہک اٹھیں

گھروندے خواہشوں کے، خواب کے مسمار ہو جائیں

اور اندھی روشنی کی دھُول رستہ بھی نہ دے

تب جان لینا تم

تمہارے واسطے دنیا میں اک میری محبت ہی

حقیقی روشنی ہے

اور باقی جھوٹ،

جھوٹی منزلیں ا ور تیرگی کے شہر ہیں

تب آزما کر دیکھ بھی لینا

خلوصِ دل سے جب مجھ کو

بلانے کا ارادہ ہی کرو گی

اپنی شہ رگ سے بھی تم نزدیک پاؤ گی مجھے!






حاصلِ زندگی

میری آنکھیں بھی کب میری آنکھیں ہوئیں

ندیوں کی طرح اس کا پانی کبھی

پتھروں سے الجھتا ہوا،سر پٹختا ہوا

اور کبھی جیسے خاموش سی جھیل ہو

پھر کبھی ان میں دریاؤں جیسا سکوں

اور کبھی چودھویں رات میں

جیسے کوئی سمندر ہمکتا ہوا

میری آنکھوں کے اِن پانیوں سے

نکل کر کوئی جل پری

کوئی ننھی سی، پیاری سی گڑیا

مِری سمت آئی

تو میں اپنی ننھی ہتھیلی پہ اُس کو اُٹھائے ہوئے

دوسرے ہاتھ سے اُس کو تھامے ہوئے

یونہی تکتا رہا

اس کے چہرے پہ معصومیت کی چمک

اور شرارت سے مہکا ہوا نُور تھا

میں اسے دیکھتے دیکھتے کھو گیا

(آج تک خود سے کھویا ہوا ہی تو ہوں)

اور پھر جانے کب

وہ مِری آنکھ کے پانیوں میں کہیں چھپ گئی

تب میں اپنے کنارے پہ ہی،

اپنے جنگل میں ہی

جوگ لے کے یوں بیٹھا

کہ ہر پل میں صدیاں گزرتی گئیں

کتنی صدیوں کے بعد ایک دن

پھر مری آنکھ کے پانیوں سے اچھلتی ہوئی

اور چھینٹے اڑاتی ہوئی وہ مرے پاس آئی

اس کے چہرے پہ معصومیت اور شرارت کا نور

اور بھی بڑھ گیا تھا، مگر میرا دل تو بجھا تھا

میں گہرے دکھوں اور اداسی کے سایوں میں

جوگی بنا یونہی بیٹھا رہا

تب بالآخر اُسی نے مجھے گدگداتے ہوئے

اپنے ننھے سے ہاتھوں سے تھاما تو ایسے لگا

میں جو صدیوں سے کھویا ہوا تھا

میں

خود کو پھر مل گیا ہوں

یہی خواب

بس اک یہی خواب ہے حاصلِ زندگی!






بہار کے پہلے دن

مِری آنکھوں کی برساتیں

جو شب بھر تِیرگی سے بجلی کے کوندوں

کے ملنے اور بچھڑنے کا تسلسل دیکھ کر

اپنے سبھی دکھ بھول بیٹھی تھیں

تری مہکی ہوئی زلفوں کو

اور ہنستے ہوئے ہونٹوں کو اس کی کیا خبر ہوگی

خزاں کی آخری ہچکی

بہار آ نے کی پہلی چاپ سے ملنے لگی

تو میری آنکھوں کی گھٹاؤں نے گواہی دی

مگر جب صبح دم سورج نے اپنی نرم کرنوں سے

دھنک کے رنگ بکھرائے

تو آنکھوں پر کھُلا جانم

خزاں کی آخری ہچکی

بہار آنے کی پہلی چاپ سے جب تک نہیں ملتی

خزاں جاہی نہیں سکتی، بہار آ ہی نہیں سکتی

میں اپنی آخری ہچکی پہ ہوں

اب جلد آ جاؤ!






عجیب دشمن

بہت پہلے

کبھی اس نے بڑے مدھم مگر شفاف لہجے میں

کہا تھا مجھ سے

میرے نائنٹی نائین پائنٹ نائین نائین پرسنٹ

سچے جذبے تیری چاہت کی امانت ہیں

محبت میں ریاضی کی یہ تک بندی

مجھے ہر گز نہ بھائی تھی

میں چُپ تو ہو گیا لیکن

وہ اس کا پوائنٹ زیرو ون

جو اس نے میرے سو فیصد سے منفی کر کے

خود ہی رکھ لیا

میری نظر میں چبھ گیا، چبھتا گیا

وہ پائنٹ زیرو ون جذبہ

مِرا دشمن

میں اُس سے خوف کھاتا تھا

پھر اک دن یوں لگا

جیسے وہ پائنٹ زیرو ون بڑھنے لگا

اور بڑھتے بڑھتے خود مرے حصے کے

نائنٹی نائین پائنٹ نائین نائین

سچے جذبوں پر بھی حاوی ہو گیا

ہمارے برج

جدی اور جوزا بھی پھر اس کے دائرے میں آ گئے

جدی کی جوزا سے جو ازلی کشمکش ہے

یوں اُبھر آئی

محبت گم ہوئی

جھنجھلاہٹیں، جھلاہٹیں،طعنے، گلے، شکوے

کبھی خاموش لفظوں میں، کبھی کچھ تیز لہجے میں

ہم اب اک دوسرے کے سخت دشمن تھے

مِرا یہ حال تھا

میں اُس کی صورت دیکھنے کو بھی نہ راضی تھا

کچھ ایسا حال اُس کا تھا

اسی حالت میں کتنے دن

کئی صدیوں کی صورت ہم پہ بیتے تھے

پھر اک دن میں نے ہی جانا

کھرے سونے کی بھی اور

چینی میں Sucroseکی اپنی

اوریجنلPurity بھی

نائنٹی نائن پائنٹ نائن نائن پرسنٹ ہے

تبھی مجھ پر ہوا یہ منکشف

کہ اُس کی چاہت تو کھرا سونا ہے

خالص، صاف اور شفاف چینی ہے

مِرے اُس سے سبھی شکوے، گلے جاتے رہے

وہ خود بھی راضی ہو گیا

جدی کی اور جوزا کی ازلی کشمکش بھی

حیرتوں میں کھو گئی

لیکن وہیں اگلے ہی لمحے

پھر بدل کر رہ گئے منظر

وہی جھنجھلا ہٹیں، جھلاہٹیں

شکوے، گلے، طعنے

کبھی خاموش لفظوں میں ، کبھی کچھ تیز لہجے میں

مگر میں دشمنی کے سخت لمحوں میں بھی

یہ سمجھا نہیں اب تک

وہ دشمن کو ن ہے

جو اُس کی گہری جھیل سی آنکھوں سے

ہر دم ہی مجھے اپنائیت،

لا انتہا اپنائیت کے ساتھ بس تکتا ہی رہتا ہے

جو مجھ سے پیار بھی کرتا ہے

اور دشمن بھی ہے میرا

عجب دشمن ہیں ہم دونوں !






یہ دل

کبھی یہ قرب کے لمحوں میں

فرقت کی سزا مانگے

کبھی یہ ہجر کے عالم میں

وصلِ جاوداں چاہے

کبھی یونہی اُداسی میں گھر ا ہو

اور یونہی ہنس پڑے....پھر

پاگلوں کی طرح بس ہنستا چلا جائے

ہنسے اتنا کہ میری آنکھ سے

آنسو ڈھلک آئیں

مِری آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہی

آپ بھی بے ساختہ رونے لگے

روتا چلا جائے

میں ہنسنے اور رونے کا سبب

کیا جان پاؤں گا

تمہارے ہجر کی ساعت ہو چاہے وصل کا لمحہ

مگر یہ دل،

یہ پاگل دل، سمجھ میں ہی نہیں آئے

یہ دل ہے یا کوئی کردار اگلی داستانوں کا!






بے فیض موسم کا دکھ

اَسیرِ انا سے کوئی بھی

توقع عبث ہے

وہ صرف اپنی جھوٹی اَنا،

خود پسندی کا قائل

مگر میں کہ اپنی اَنا کا بھی منکر

مِرے عشق میں جسم سے رُوح تک جذب ہو کر

فنا میں بقا کی حقیقت کے مفہوم و معنی نہاں

خوشبوئیں

جذب ہوکے ہواؤں میں

اپنا سبھی کچھ

ہواؤں کو جب سونپ دیتی ہیں

پھیلی ہوئی وسعتوں میں

مہکتی فضاؤں کی صورت

’’نہ ہونے‘‘ میں ’’ہونے‘‘ کا عرفان کرتی ہیں

لیکن جو ا پنی سبھی خوشبوئیں

اپنے اندر سمیٹے

خود اپنی ہی خوشبو میں سرشار ہے

جانتا ہی نہیں ہے

کہ خوشبو جو اندر ہی سمٹی رہے

تو پھر آخر وہ گہرے تعفّن میں ڈھل کر

دلوں کی معطر فضائیں بھی مسموم کرتی ہے

اب اس اسیرِ انا کو جب اس کی خبر بھی نہیں ہے

تو پھر اس سے حیدر

کوئی بھی توقع عبث ہے!






ایک دراوڑ کا پیغام آریاؤں کے نام!

ہزاروں سال پہلے تم

ہوا کے تند جھونکوں کی طرح آئے

ہماری سر زمیں کو روندتے

تم نے گزرنا تھا

مگر تم تو بگولے بن گئے جیسے

جو باغوں ، جنگلوں، کھیتوں کو

بس تاراج کرتے تھے

جو ہم پر راج کرتے تھے

تمہارے رقصِ جشنِ فتح میں

صدیوں تلک اڑتے رہے تھے

اصل باشندوں کی آزادی کے،

ان کی عزت و ناموس کے ٹکڑے

ہمیں محکوم کر کے تم رہے صدیوں تلک نازاں

یہاں پھر جو ہوا وہ سب الگ قصہ کہانی ہے

چلو چھوڑو اب اس قصے، کہانی کو،

نیا قصہ سنو!

اب میں دراوڑ

خود تمہاری سر زمیں پر آنے کو تیار بیٹھا ہوں

مگر اندھے بگولے کی طرح ہر گز نہیں

میں تو فقط بادِ صبا کے نرم جھونکے

کی طرح دھیرے سے آؤں گا

تمہارے گلشنوں کو تاخت و تاراج

کرنے کو نہیں، میں ۔۔۔۔۔ بلکہ ان کی

خوشبوؤں کو اپنے من میں

جذب کرنے کے لئے آؤں گا اور

اپنی محبت کے وسیلے سے مجھے

اب آریاؤں کے دلوں پر راج کرنا ہے

سنو، اے آریاؤ!

میں تمہارے پاس آنے کے لئے تیار بیٹھا ہوں!






ہوا

ہوا

یہ شُو کتی۔ پھنکارتی ناگن ہوا

برہم ہوئی

بل کھا کے جب پلٹی

تو آنچل سر سے ڈھلکا

زہر اس کا

کانچ کی ان چوڑیوں تک بھی

اتر آیا، جو پہنی ہی نہ تھیں

برہم ہوا ڈائن بنی

جب خواب جو دیکھے تھے

جن کا دیکھنا باقی تھا

سارے ٹوٹ کر بکھرے

سرابوں میں بھٹک کر رہ گئے

ڈائن ہوا تب اک بگولہ

بن کے سب کچھ لے گئی

ظالم ہوا ناگن بھی ہے

ڈائن بھی ہے

جو شُو کتے پھنکارتے

اندھے بگولوں سے

ہمارے یوسفوں کی زندگی کی

روشنی کو چاٹتی جائے

مگر ٹھہرو!

ذرا تم دل کے دریا میں

اُتر کر اپنی نَم آنکھوں سے

تھوڑا مسکراؤ اور پھر دیکھو

ہمارے رُوٹھنے والے

بھلا کب ہم سے بچھڑے ہیں

بچھڑتے ہی نہیں، اپنے جو ہیں

وہ تو فقط باہر کی دنیا سے

سفر کر کے

ہمارے دل کے بہتے پانیوں

میں آن بستے ہیں

بتائے ہی بِنا

جب ان کا جی چاہے

ہماری بے کلی کے منظروں کو

خود ہماری آنکھ کے اندر سے

تکتے ہیں

رُلاتے ہیں ہمیں اور آپ ہنستے ہیں

یا شاید خود بھی روتے ہیں!

ذرا پھر دل کے دریا میں اُتر کر

اپنی نَم آنکھوں سے تھوڑا مسکراؤ

اور پھر سوچو!

زمیں، پانی، فضاؤں تک

جہاں بھی زندگی ہے

اس ہوا کی حکمرانی ہے

ہوا نہ ہو اگر تو زندگی معدوم ہو جائے

نہ پھر یہ دل کے دریا ہوں کہ جن میں

روٹھنے والے

مسافت کو ادھورا چھوڑ کر

خود آن بستے ہیں

جہاں ان کی حَسیں یادوں کے سب منظر مہکتے ہیں

ہوا ناگن سہی، ڈائن سہی، لیکن

ہوا تو زندگی بھی ہے!






دعا گزیدہ

سلامت رکھنا مولا!

سر پہ سایہ میرے ابو کا ۔۔۔۔۔۔دعا مانگی۔

۔کھلی آنکھیں تو میں دشتِ جدائی میں

سلگتی ریت پر تھا پا برہنہ سا

پھر امی جی کی لمبی عمر کی میں نے

دعائیں کیں

اک آندھی سی چلی اندھی جدائی کی

تو ماں بھی چھِن گئی مجھ سے

کھلے دشتِ جدائی میں سَوا نیزے پہ

سورج جیسی کوئی شے اُتر آئی

تو پھر سائے کی خواہش بھی

دعا کے روپ میں ڈھلنے سے

صاف انکار کر بیٹھی

اسے یہ خوف تھا سائے کے بدلے میں

کہیں سورج ہی سرپر ٹوٹ کر نہ گر پڑے

ہر اک خواہش دعا کے روپ میں

ڈھلنے سے خائف ہے

مگر مولا!

مجھے تجھ سے نہ کوئی بدگمانی ہے

نہ کوئی بے یقینی ہے

دعا کی استجابت کا یقیں بھی ہے

مگر مولا۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے

سبھی باقی عزیزوں سے محبت ہے

ابھی میں ان کو کھو دینا نہیں ہوں چاہتا مولا!

سو ان کے واسطے کچھ بھی نہیں ہے مانگنا تجھ سے

معافی مانگتا ہوں اب فقط

پچھلی دعاؤں کی !






تیامت

( Tiamat(قدیم عراق) سمیری دیو مالا کی ایک سمندری بلا کا نام تھا)

یہ سنتے تھے

سمندر سے نکل کر

وہ کبھی اوپر چلی آتی

تو خشکی کے مکینوں کے لئے

ویرانیاں، بربادیاں لاتی

وہ مظہر تھی ، ہلاکت اور تباہی کا

سبھی مجبور لوگوں پر ستم ڈھاتی

سبھی مقہور لوگوں سے کراتی

احترام اپنا، وہ جابر

قوت و طاقت پہ نازاں

نشۂ تقدیس میں

ڈوبی ہوئی ، جب

جھومتی جاتی

ہلاکت اور بربادی کے منظر پھیلتے جاتے

یہ سنتے تھے، مگر اب دیکھتے بھی ہیں

کئی صدیوں تلک سوئی ہوئی، کھوئی ہوئی

جابر تیامت جاگ اٹھی ہے

ہلاکت خیز قوّت اور عظمت کے نشے میں جھومتی

قاہر تیامت ساحلِ مغرب سے نکلی ہے

سمیری سر زمیں کو اب کے اُس نے

صرف خشکی اور پانی ہی نہیں

ساری فضا سے، ہر طرف سے ہر جگہ سے

گھیر رکھا ہے!






ایک خواہش کی موت

وہ اک بھولی بھالی سی صحرائی خواہش

جو اِس دل کے صحرا میں بستی تھی

آنکھوں میں اُمید کی روشنی کے دیئے سے جلاتی

کبھی دل کے زَم زَم سے چھینٹے اُڑاتی

وہ میرے ہی چھینٹوں سے مجھ کو بھگو کر جو ہنستی

تو جیسے مِرے دل کا صحرا

کھجوروں کے سرسبز میٹھے پھلوں والے

اونچے درختوں کی ٹھنڈک میں

ساری بہاریں سمیٹے ہوئے مسکراتا

مِرے دل کا صحرا کھجوروں کے سرسبز

میٹھے پھلوں والے

اونچے درختوں کی ٹھنڈک میں ساری بہاریں

سمیٹے ہوئے مسکراتا تو دہکے ہوئے گرم سورج

کے سینے میں بھی پھول سے کھلنے لگتے

مگر ایک دن کیا ہوا

جانے کیسے ہوا

وہی بھولی بھالی سی صحرائی خواہش

مجھے چھوڑ کر چاند میں جا بسی

پتھروں کے نگر میں وہ جاتے ہوئے

میرے صحرائے دل کو بھی ہمراہ لیتی گئی

اس کے بدلے میں وہ مہرباں

میری آنکھوں کو کوئی سمندر عطا کر گئی

تب سے آنکھوں کو بخشا ہوا یہ سمندر

سدا چاند کی سمت

امنڈتا، چھلکتا

ہمکتا ہی رہتا ہے!






سرسوں کا کھیت

یہ بے اَنت میدان

میدان میں کیاریاں

ہر کیاری میں ہریالیوں کی قطاریں

یہ پودوں کی ہریالیاں اپنی ساری نمو

پیلے پھولوں کو دے کر

انہیں اپنے سر پر سجائے ہوئے جھومتی ہیں

یہ ہریالیاں، یہ خوشی اور مسرت کے پیکر

مگر پیلے پھول ان پہ دکھ کا نشاں ہیں

خوشی اور دُکھ کے ملن کا

انوکھا سماں ہے

یہ بے انت میدان

سرسوں کے سر سبز پودوں سے۔

پودوں پہ پھولوں سے

غم اور خوشی سے اَٹا ہے

مرے دل کے نزدیک آؤ تو دیکھو یہ میدان کیا ہے!






تخلیق در تخلیق

خدا خلّاق ہے انسان کی تخلیق کرتا ہے

یہی انساں پھر اپنی جستجو میں خود نئی تخلیق کرتا ہے

یہی انسان لفظوں سے ، سُروں سے اور رنگوں سے

کہیں نظموں ،کہیں نغموں،

کہیں پینٹنگز کو زنجیر کرتا ہے

یہ نظمیں ، گیت، تصویریں کہ تخلیقات ہیں اس کی

مگر اس کی طرح یہ سب بھی اپنے اپنے

جسموں کے گھروں میں

سانس لیتی ہیں،

معافی کے کئی پرتوں کی صورت خود نئی تخلیق

کرتی ہیں، نئی تخلیق میں پھر اپنی ہی تفہیم کرتی ہیں

یہ ہر خلاّق کا، تخلیق کا ، جیسے

خود اپنی کھوج، اپنی جستجو، تفہیم کا

تخلیق در تخلیق کا کوئی انوکھا سلسلہ سا ہے

اسی تخلیق در تخلیق ہی میں ارتقا کی داستاں

جادو جگاتی ہے

’کہانی ارتقا کی کیا فقط آگے کو ہی بڑھتی چلی جاتی ہے یا بس اک دائرے میں گھومنا اس کا مقدر ہے؟۔

زمانہ سوچ میں غلطاں و پیچاں ہے!

مگر مجھ سے مری اک نظم سرگوشی میں کہتی تھی:

”زمانہ جو بھی کہتا ہے، یقیناً اس کی ہر اک بات میں

اک جزوی سچائی بھی ہوتی ہے۔ کہانی ارتقا کی

آگے بھی بڑھتی ہے لیکن دائرے کی شکل میں

ایسے !“

یہ کہہ کر نظم نے اس دائرے کو

ڈرائنگ کر کے ہی دکھایا تھا کہ اس میں سے

کوئی الہامی نغمہ سا اُبھر آیا!






نئی شالاط

وہ شہد اور زہر میں گوندھے ہوئے

سوئے ہوئے سارے زمانے جاگ اٹھے ہیں

ہماری داستاں تو داستاں در داستاں کا سلسلہ سا ہے

مگر اس بار لگتا ہے کہانی ہی نرالی ہے

نہ اب وہ آریاؤں کے ہلاکت خیز حملے ہیں

نہ دشتِ قیس ہے ،نَے خسرو پرویز کے حیلے

نہ اب تھل کا سفر درپیش، نَے تختِ ہزارہ ہے

نہ اب گجرات کی جانب رواں جانِ بخارا ہے

فقط میں ہوں!

فقط میں ہوں اکیلا۔ تنہا اپنے آپ سے بچھڑا ہوا

پھر بھی تمہاری سادگی کے حُسن میں

یکجا ہوئے جاتے ہیں

لیلیٰ ، شیریں، سسی،ہیر اور سوہنی کے سب جلوے

تمہاری آریائی روح جیسے سرزمینِ دل پہ

پیہم حملہ آور ہے

مگر یہ کیسے حملے ہیں

مسیحائی کی بھی تاثیر رکھتے ہیں

یہیں تک ہوتا گر قصہ تو پھر بھی دل کے بچنے کی

کوئی تدبیر ممکن تھی

مگر اب کے ستم یہ ہے

کہ میں اردو کا اک ٹوٹا ہوا شاعر بھی ہوں جاناں!

جو المانی زمیں تک جانے کیسے آن پہنچا ہوں

جو تم تک آن پہنچا ہوں!






دعا

الٰہی!

کعبۂ د ل کی طرف نظرِ کرم فرما

کہ اس پر ابرہہ،

اک لشکرِ جراّر لے کر چڑھتا آتا ہے

یہ ہاتھی والے اپنی نوکلیسیائی عظمت کے لئے

اِس کعبۂ دل کو بڑا خطرہ سمجھتے ہیں

سو اِس کو ایک ہی ریلے میں اب پامال کرنے پر تُلے،چڑھتے ہی آتے ہیں

ادھر میں ابنِ عبدالمطلب بھی، اپنے بابا کی طرح

اس لشکرِ جراّر سے لڑنے کی طاقت ہی نہیں پاتا

مجھے ان ہاتھی والوں سے تو اپنے اونٹ

واپس مانگنے کی بھی نہیں ہمت

خداوند ا!

یہ اندھے ظلم کے ہاتھی

یہ جابر ۔۔۔۔۔جَور کے ساتھی

حطیمِ دل تلک بھی آن پہنچے ہیں

مِرے مولا!

تجھے معلوم ہے یہ کعبۂ دل تو ترا گھر ہے

سو اپنے گھر کے مالک اپنے گھر کی خود حفاظت کر

اس اندھے ظلم کے عفریت کو

اور جبر کی اس رِیت کو پامال کر ایسے

کہ دنیا پھر ابابیلوں کے ہاتھوں

ہاتھی والوں کی ہلاکت کا نظارہ دیکھ لے مالک!






چلو اک نظم لکھتے ہیں

وہی موسم، وہی رستے،

وہی شام و سحر،یکسانیت،بے کیف سے لمحے

گنہ کی رغبتیں،اشکِ ندامت

نیکیوں کی لذتیں

اسرار جتنی ہو چکے ہیں منکشف،

اپنا تحیر کھو چکے ہیں

اب مسرّت غم زدہ ہے

اور حیرت کی چمک بجھنے لگی ہے،

جستجو سونے لگی ہے

بدن سے روح تک کے کتنے ہی اسرار تھے

جو کھل چکے کب کے

کسی تپتے ہوئے صحرا کی گرمی پی گئے درےا

عجب سیرابیاں تھیں ،پیاس کی لذت ہی کھو بیٹھے

نہ اب کوئی غزل یا ماہیا کہنے کی

اندر سے کوئی تحریک ہوتی ہے

نہ سردی اور گرمی میں کوئی تفریق ہوتی ہے

چلو ٹھہرے ہوئے ان موسموں میں

کوئی تبدیلی سی لاتے ہیں

تحیر کی نئی دنیاؤں کی سوئی ہوئی سی

جستجو بیدار کرتے ہیں،مسّرت کو ہنساتے ہیں

چلو اس بلب کا سوئچ آف کر کے

موم بتی کو جلاتے ہیں

قلم کاغذ اٹھاتے ہیں

کئی برسوں کی اس یکسانیت کی گرد کو

سر سے جھٹکتے ہیں

ذرا رستہ بدلتے ہیں

چلو اک نظم لکھتے ہیں!






محبت کا ایک یادگار دن

تب زندگی مسرور تھی

آنکھوں میں صبحِ نُور تھی

اُس صبح سے دوپہر تک

بوسوں کی بہتی نہر تھی ،اور زندگی کی لہر تھی

کیا زندگی کی لہر تھی جس سے جنم لیتی ہوئی

اک خوبصورت شام تھی

اس خوبصورت شام میں شمشیر بے نیام تھی

وہ شام جب ڈھلنے لگی

رنگوں بھری برسات تھی

خوابوں بھری کیا رات تھی،تعبیر جن کی ساتھ تھی

اور پھر اسی تعبیر میں،لے کر قلم تقدیر سے

سارے زمانوں سے بھرا وہ ایک دن

میرے ہی نام لکھ دیا

راہِ فنا میں عشق نے دل کو دوام لکھ دیا!






مبارک باد اور پُرسہ

(صلاح الدین پرویز کی ایک نظم پڑھ کر)

صلاح الدین!

میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے

تمہاری دکھ کہانی کے سبھی کردار

میری داستاں میں صرف اپنے نام کی

تبدیلیوں کے ساتھ آتے ہیں

وہی سفّاک اور بے رحم،

نفرت کے پجاری

زندگی میں زہر سا گھولے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔

دھرتی کو بدل لوں،

سوچ کے انداز کو،ایمان کو اور

زندگی کے گیان کو بھی چھوڑ دوں

تب بھی یہ ظالم لوگ

سُکھ کا سانس لینے ہی نہیں دیتے

خدا جانے یہ مجھ سے کس لئے خائف ہیں؟

کیوں مجھ کو ڈراتے ہیں؟

صلاح الدین !

ان سفّاک کرداروں کی سفّاکی سے

اتنا جان پایا ہوں

کہ میں جیسے منو کے دور کا شودر ہوں

اپنے ہر جنم، ہر دَور میں،ہر حملہ آور کا نشانہ ہوں

صلاح الدین ،

میری اور تمہاری دکھ کہانی ایک جیسی ہے

تو پھر اس دکھ کا رونا کیوں تمہارے سامنے روؤں

چلو اس دکھ کہانی کے ملن کی اس خوشی میں

میری جانب سے مبارک باد اور پُرسہ !

٭٭٭٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ

اردو تحریر میں تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔