“چھوٹے بچے جب اپنے قدموں پر چلنا سیکھنا شروع کرتے ہیں تو سیکھنے کے عمل کے دوران کتنی ہی بار گرتے ہیں اور چوٹ بھی کھاتے ہیں لیکن مجال ہے جو وہ اپنی کوشش کبھی ترک کردیں۔ وہ چوٹ کھانے کے اندیشے کو بھلا کراُس وقت تک کوشش کرتے رہتے ہیں جب تک کے وہ چلنے کے قابل نہیں ہوجاتے۔ اور پھر ایک دن وہ چلنے کے ساتھ ساتھ دوڑنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ افسوس کہ انسان جیسے جیسے عمر میں بڑا ہوتا جاتاہے مختلف قسم کے اندیشے اُس کےحوصلوں کو پست کردیتےہیں۔ اگر وہ ان اندیشوں کو پس پشت ڈال کر اپنا حوصلہ قائم رکھے تو ہر قسم کی کامیابی اُس کے قدم چوم سکتی ہے۔”