“یقین کے 3 درجات ہیں: اوّل: علم الیقین۔ دوئم: عین الیقین۔ سوئم: حق الیقین۔
مثال کے طور پر اگر میں کتاب میں پڑھوں یا کسی شخص سے سنوں کے آگ جلاتی ہے، تو مجھے علم تو یقیناًحاصل ہوگا مگر یہ یقین کا سب سے کم تر درجہ ہوگا جسے’علم الیقین' کہا جائےگا۔ اس طرح کا علم شک اور شبہ سے بالاتر نہیں ہوتا۔ لیکن جس دن میں خود اپنی آنکھ سے کسی کو آگ میں جلتا دیکھ لوں تو میرا یقین اُس منزل پر پہنچ جائے گا جسے 'عین الیقین' کہتے ہیں۔ اس طرح کے یقین میں شک کی گنجائش کم ہو تی ہے۔ مگر جب کبھی میں خود آگ سے جل جاؤں گا تو میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر یقین کی سب سے اعلیٰ منزل یعنی ' حق الیقین' حاصل کر لوں گا۔ اور پھر چاہے دُنیا کے تمام لوگ بھی مجھ سے آ کر کہیں کہ آگ نہیں جلاتی تو میں یہ بات نہیں مانوں گا۔
آج مسلمانوں کی کمزوری کی اصل وجہ ایمان یعنی یقین کی کمی ہے کیونکہ ہم علم الیقین سے آگے ہی نہیں بڑھ پا رہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنا مشاہدہ اتنا گہرا کرنا ہوگا کہ ہم حق الیقین یعنی معرفت الٰہی حاصل کر سکیں۔ یاد رکھیے معرفت الٰہی ہی در اصل وہ منزل ہے جہاں سے بندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور جو شخص اللہ کا بندہ بن جائے در اصل وہی کامیاب ہے”