"جس طرح کُتّے کو خوشبودار صابن سے نہلا دینے اور ریبیز rabies) ) کا ٹیکہ لگوا دینے سے کُتّا پاک نہیں ہو جاتا ۔ جس طرح جھٹکے یا مردار جانور کا گوشت کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لینے سے وہ کھانا قابل استعمال نہیں ہو جاتا۔ جس طرح خنزیر کا ذبیحہ حلال نہیں ہو سکتا۔ جس طرح سوُد کو کسی صورت طاہرنہیں کیا جاسکتا ٹھیک اُسی طرح حرام مال پر زکوۃ ادا کر نے سے یا اُس میں سے صدقہ وخیرات کر کے اُسے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی ایسے پیسہ سے حج و عمرہ کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ حرام کا مال ہر صورت حرام ہی رہے گا اور جہاں جہاں استعمال ہو گا وہاں وہاں برائی لائے گا۔ پاکستان غریب نوازی (philanthropy) میں دُنیا میں سر فہرست ہے جس کی اصل وجہ ناجائز مال کی بہتات اور لوگوں کا بستر مرگ پر پڑا ضمیرہے جو اُن کو گاہے بگاہے اشاروں سےیہ بات یاد دلاتا رہتا ہے کہ "تونے یہ سب غلط طریقہ سے کمایا ہے۔ اب کچھ اللہ کے نام پر خرچ کر لے تو شاید بچت ہو جائے۔" لیکن ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے لوگوں* کے حق پر ڈاکہ ڈال کرحرام کا مال کمایا ہے اس لیےاب چند مساکین کو اُسی لوُٹے ہوئے مال میں کچھ بھیک دے دینے سے اُن کا مال پاکیزہ نہیں ہو جائے گا۔ اگر وہ لوگ یہ حرام خوری اور لوٹ کھسوٹ روک دیں تو شاید میرے ملک میں موجود ہر کشکول ٹوٹ جائے۔ واللہ عالم!”
*حکومت کے پاس بھی عوام کا ہی پیسہ ہے