02:01    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

فکاہیاتِ سرفراز

1944 1 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-اگست-19

جانور

ہمیں جانور بہت پسند ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کے ہمارے گھر میں انسان کم اور جانور زیادہ پائے جاتے ہیں۔ کچھ جانور ہم نے خرید کر پالے ہیں۔ اور کچھ 'قبضہ گروپ' قسم کے جانوروں نے باہر سے آکرزبردستی ہمارے گھر سکونت اِختیا ر کر لی ہے۔ پھر اِن جانوروں نے بھی وہی کام شروع کر دیا جو ہم انسان ابتدا ہی سے بڑی مہارت سے کرتے آئے ہیں۔ یعنی آبادی میں اضافہ اور یوں ہمارے گھر میں ماشاء اللہ سےجانورں کی ریل پیل ہو گئی۔ اوراب تو اس حد تک ہو گئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کے یہ گھر آخر ہے کس کا؟ آیا یہ گھر ہے یا چڑیا گھر؟

جانور ہمیں کئی وجوہات کی بنا پراچھے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اُن کی زبان تو ہوتی ہے مگر وہ شریف شوہروں کی طرح کچھ بولتے نہیں ۔ اِن کی اس ادا کی وجہ سے اِن جانوروں سے کچھ قدرتی قربت سی محسوس ہوتی ہے۔ (اس مثال کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شوہر جانور ہوتا ہے)۔

دوسری بات یہ کہ جانور انسانوں کی طرح ناشکرے نہیں ہوتے۔ بس بھوک لگنے پر تھوڑا سا شور مچایا اور کھانا مل گیا تو بنا کسی چوں چرا کیےکھانا کھا لیا اور کھانے کے بعدمعصومیت کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک بار پھر شریف شوہر کی مُنہ بولتی تصویر بن کر جُگالی سے شغف فرمانے لگے!

ایک اور اچھی بات کہ یہ کمال کے توکّل پسند ہوتے ہیں ۔ جانور کبھی بھی آنے والے کَل کے لیے کھانا بچا کر نہیں رکھتے اور نا ہی انہیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کَل کھانا کہاں سے ملے گا؟ آیا ملے گا بھی یا نہیں؟ ابھی تک ان کے یہاں فریج ، ڈیپ فریزراور اس طرح کی دوسری چیزوں کو رواج حاصل نہیں ہوا ہے۔ اور نہ ہی ان کی ماداؤں کو پتہ ہے ٹھنڈی مشینوں کی اہمیت زندگی میں کیا ہے؟ ایک دن کام اور سات دن آرام یا اس سے بھی زیادہ!

اِس کے علاوہ ایک بڑی اہم بات جس پر ہمیں رشک آتا ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے جانوروں نے اپنی اپنی ماداؤں کو ٹھیک ٹھاک طریقے سے قابو کیا ہوا ہے۔ اب شیر کو ہی دیکھ لیجئے۔ سارا دن ساری رات گھاس پر پڑا اینڈھتا رہتا ہے۔ مجال ہے کہ ہل کر کوئی ایک کام بھی کر لے۔ شکار کے لیے بیویوں، سالیوں او ر انکی سہیلیوں کو بھیج دیتا ہے اور جب وہ بے چاریا ں انتہائی محنت سے کسی معصوم ہرن یا ایسےکسی اور جانور کا شکار کر لیتی ہیں تو سب سے پہلے کھانا کھانے خود پہنچ جاتا ہے اور مجال ہے کسی شیرنی کی جو اس کے سامنے دُم بھی مار سکے۔ افسوس کے ابن آدم کے اُس قبیلے نے جسے شوہرکہتے ہیں اس جانور سے کچھ نہیں سیکھا!

اسی لیے میں نے اپنے تمام کے تما م بیٹوں کے نام شیر پر رکھے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے کہ نام کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے تو میری اولاد وہ کام کرے گی جو میں 17 سال نہیں کر پایا!!!
بہت سے جانور وفاداری میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ گھوڑا ، کتا، وغیرہ انسان کے بہترین اور باوفادوست بھی ہوتے ہیں۔ کہتےہیں کتا پاگل بھی ہو جائے تو اپنے مالک کو نہیں کاٹتا! اگر ہم طوطے کی نسل کو الگ کر دیں تو باقی زیادہ تر جانور صابربیویوں کی طرح ایک کھونٹے پر ہی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔

دو ماہ پہلے ایک راہ چلتی بلّی نے ہمارے گھر کو فلاحی میٹرنٹی وارڈ سمجھتے ہوئے ایک دو نہیں پورے چھ عدد بچےّ جَن دیے۔ چند روز پہلے تمام کے تمام بچےّ اپنی ماں سمیت اچانک غائب ہو گئے اور ہمارے بچوّں اور اِن کی ماں کو پریشان کر گئے۔ بہت سمجھایا کہ بلّی کبھی گھر نہیں بھولتی مگر پریشانی تھی کے بڑھتی ہی جاتی تھی۔ شام تک بڑے بیٹے نے سارا محلہ چھان مارا اور ایک ایک گھر کی تلاشی ایسی لی جیسے رینجرز منگھوپیر میں آپریشن کر کے اسلحہ تلاش کر رہے ہوں۔ آخر کار شام کوتمام کے تمام بچوّں کو ایک بند گھر سے باز یاب کر ہی لیا۔ بے چارےگھس تو گئے تھے مگر اونچی دیوار ہونے کی وجہ سے باہر نہیں آپارہے تھے۔ خیر واپس لاتے ہی اُن سب کو جی بھر کھانا پانی دیا تو ہماری بیگم کی جان میں جان آئی۔
ہمارے گھر جتنے انسان اور جانور ہیں ان سب کو حلق تک غذا ٹھونسنے کا کام ہماری بیگم نےخود اپنے ذمہ لیا ہو ا ہے۔ ہمارا طوطا ماشاء اللہ جتنا موٹا ہے اس میں سے عام کاٹھ کے 2 عدد طوطے تو آرام سے نکل آئیں گے۔ رات رات بھر امرُود کھانا اب اُس کی عادت بن گئی ہے۔ لاکھ سمجھایا کے بیگم اللہ تعالٰی نے رات سونے کے لیے بنائی ہے کھانے کے لیے نہیں مگر مجال ہے جو مرغی کی دوسری ٹانگ کہیں نظر آ جائے! خیر ہمارے لیے تو ایک ٹانگ ہی کافی ہے۔
(ختم شد)

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔