کہتے ہیں گئے زمانے میں ایک ملک ایسا بھی تھا جہا ں اَمن و اَمان کا یہ عالم تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیا کرتے تھے۔ یہ بات تو ٹھیک ہے مگر یہ قصہ دراصل اَدھورا ہے۔
اس کہاوت کا پورا قصہ در اصل کچھ یوں تھا کہ شیر روزکسی ایک بکری کو ساتھ لے کر گھاٹ پر پانی پینے جاتا تھا۔ اخلاقاً پہلے بکری کو پانی پینے کی دعوت دیتا اور جب بکری بھر پیٹ پانی پی لیتی تو پھر شیر پانی پیتا۔ بکری تو اپنی پیاس بجھانے کے لیےپانی پیتی تھی مگر شیر نے سن رکھا تھا کہ کھانے سے پہلے پانی پینا صحت کے لیے انتہائی مفید ہے سو وہ بھی جی بھر کر پانی پی لیتا۔ یہاں تک بات تو کہاوت کے عین مطابق ہے مگر پھر کچھ یوں ہوتا کہ شیرپانی پینے کے بعد بکری کے نرخرے پر اپنے دانت گڑا دیتا تھا اور اُس وقت تک نہ چھوڑتا تھا جب تک کہ اُس بے چاری کی جان جسم نہ چھوڑ جاتی تھی۔ پھر شیر مزے لےلے کر بکری کا گوشت تناول کیا کرتا تھا۔ بکری کو مارنے سے پہلے پانی پلانے کام وہ صرف اپنی رحم دلی کے باعث کرتا تھا تا کہ بے چاری پیاسی نہ مر جائے۔ یہ تھا مکمل قصّہ جس پریار لوگوں نے ایک پریوں کی داستان اِخترا کر لی اور یوں بھولے بھالےلوگوں کو ایک سراب کے پیچھے دوڑنے کی آس لگوا دی۔
ہمارے نزدیک تو وہ ایک ظالمانہ دور تھا۔ ظاہر ہے زمانہ جاہلیت میں اِس کے علاوہ کچھ اور سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہاں آج کے دورکی بات ہی کچھ اور ہے۔ رحم دلی کا زمانہ تو آج ہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہم پاکستانیوں نے قائم کی ہے۔ اب ہم مرنے سے پہلے تو شائد کم مگر ذبحہ کرنے کے بعد جانور کو اُس کے نرخرے کے ذریعہ پمپ لگا کرکم و بیش 10 سے 15 لیٹر پانی پلاتے ہیں جو رحم دلی کی ایک ایسی روشن مثال ہے جو دنیا نے اس پہلےنہ کبھی دیکھی اورنہ سنی ہو گی۔
مردہ جانور کو پانی پلانے میں بڑے راز پہناں ہیں۔ اوّل تو یہ صدفیصد کارِ ثواب ہے۔ ظاہر ہے اگر مرنے سے پہلے پانی پلانا نیکی ہے تومرنے کے بعد ایک بار پھر معصوم جانور کو حلق تک پانی پلانا یقیناً اُس سے بڑی نیکی کے زمرے میں آتا ہو گا۔ کچھ مذہبی لوگ اِسے غالباًبدعت سے تعبیر کرتے ہیں مگراُن کی آخر اِس دو ر میں سنتا کون ہے؟ کچھ لوگ تو کہتے یہ بدعت احس ہے!
دوئم یہ کہ ذبیحہ کواس طرح پانی پلانے سے گوشت میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے ۔ یعنی ہرایک کلو گوشت میں تقریباً ایک پاؤ پانی بھر جاتا ہے ۔ اس طرح گوشت نسبتاً کم قیمت پر غریب عوام کو نصیب ہو پاتا ہے۔ اور یوں گرانی کے اس دور میں جہاں جسم وجاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے عام انسان کو روزانہ جانے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں ایک چیز تو تھوڑی سستی مل جاتی ہے۔ اب خود ہی سوچیں اگر گوشت میں سے 25 فیصد پانی نکل جائے تو گوشت پچیس فیصد مہنگا نہ ہو جائے گا؟ اور جس سے عام انسان کی کمر مزید نہ ٹوٹ جائے گی؟
سوئم فائدہ یہ کہ اس طرح کاگوشت پکاتے وقت اِس میں اوپر سےپانی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے جن گھروں میں پانی نہیں آتا وہاں یہ گوشت بغیرا اِضافی پانی کی جھنجٹ کے پکایا جا سکتا ہے۔
چہارم یہ کہ اس طرح کا گوشت پکنے کے دوران خود بخود سُکڑکر کم ہو جاتا ہے اور یوں غریب عوام کو زیادہ گوشت کھانے سے بچا لیا جاتا ہے۔ اب خود سوچیے انسان زیادہ گوشت کھائے گا تو بیمار بھی زیادہ ہوگا اور یوں ڈاکٹر کا خرچ بھی بڑھے گا اس لیے آج کل کے اس پُر آشوب دور میں ہمارے یہاں رحم دلی کی جو مثالیں قائم ہو رہی ہیں اُن کو ہمیں دل کھول کر سراہنا چاہئے اور ساتھ ہی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں حالات اور بھی خراب ہو سکتے تھے!