مولانا کا اصل نام تو شاید تاریخ کے صفحات میں ایسا گُم ہوا ہے کہ تلاش بسیار کے بعد بھی اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔البتہ وطن مالوف میں مولانا کو "مولانا فتوری" کے مبارک نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ مولانا کی فتور پھیلانے کی وہ بے مثال صلاحیتیں ہیں،جن کو بیان کرنے کی حاجت نہیں ہوتی،اور جن کا اعتراف مولانا کے معتقدین کم اور مخالفین زیادہ کرتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مولانا کو جس جلسے مین بھی مدعو کیا جاتا ،مولانا اپنی تقریر سے ایسا روح پرور سماں باندھتے کہ مختلف عقائد کے لوگ دیوانہ وار نعرے لگا تے ،ڈنڈے اُٹھائے دوڑے چلے آتے اور آپس میں باہم بدست و گریباں ہو جاتے ، دور سے دیکھنے پرایسا معلوم ہوتا جیسے لوگ عید مل رہے ہوں۔تھوڑی دیر بعد پولیس والے بھی عقیدت کے جذبے سے سرشار ہو کر ہلہ بول دیتے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنی گاڑیوں میں ڈالنے لگتے۔ مولانا ایسے مواقع پر ہمیشہ کھسک لیا کرتے۔
خاص طور پر محرم الحرام کے دنوں میں مولانا کو نقص امن کے خدشے کے تحت حفظ ماتقدم کے طور پر جیل میں ڈال دیا جاتا۔ جہاں مولانا پولیس کے مہمان ہوتے اور پولیس کے نذرو نیاز کے نیک جذبے کے تحت عوام سے چھینے گئے مُرغ مسلم اُڑاتے۔مولانا کا قول ہے کہ "مرغ تو میں جیل سے باہر بھی کھاتا ہوں،مگر پولیس کے حلالی مُرغوں کا سواد ہی کچھ اور ہے۔ "
پولیس میں بھی مولانا کے ارادت مند قابل لحاظ تعداد میں موجود تھے ، جو مولانا کے پاس پابندی سے ہر روز حاضری دیتے اور مولانا ان کو فن فتنہ گری سے روشناس کراتے۔
مولانا فتوری کو اس بات کا گلہ ضرور تھا کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی ،مگر اس بات پر اطمینان بھی تھا کہ وہ خود کونسا زمانے کو قابل توجہ گردانتے ہیں۔یعنی حساب برابر۔جب بھی زمانہ انہیں ٹھوکر مارتا ،وہ جوابی کاروائی میں ذرا تحمل نہ دکھاتے اور فوراً زمانے کو جوابی ٹھوکر رسید فرماتے۔ متواتر ٹھوکروں اور جوابی ٹھوکروں کی بدولت ان کے پاؤں کا انگوٹھا اکثر زخمی رہتا۔مگر مولانا جن میں لاپرواہی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی ،اپنے زخموں کی چنداں پرواہ نہ کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ دل پر لگنے والے زخموں کے سوا دوسرے زخم توجہ کے لائق نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بے توجہی تو دیکھتے ہوئے زخموں نے بھی ان کی پروا نہ کی ،جس کی بدولت مولانا کو عین عالم شباب میں اپنے انگوٹھے سے محروم ہونا پڑا۔
مولانا فتوری کو مذہب سے بھی گہرا لگاؤ ہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر میں ترقی کا زینہ طے کرنے کے لیے مذہب کا بے دریغ استعمال کیا ،حتیٰ کہ مذہب ان کا اوڑھنا اور بچھونا بن گیا۔البتہ کھانے میں انہیں مرغ مسلم اور دیکھنے میں کترینہ کیف پسند ہے۔ چاول پلیٹ میں کھانے کے بجائے خاص طور پر تیار کر دہ تھال میں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس تھال کے طول و عرض کو ناپنے کی آج تک جتنی بھی کوششیں کی گئیں ،تمام رائیگاں ثابت ہوئیں۔ بقول مولانا اس تھال میں کھانے کا مقصد عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرنا ہے۔ عوام البتہ انتہائی عقیدت و احترام کے جذبہ سے مغلوب ہو کر ایک ہی نوالہ اُٹھا نے پر اکتفا کرتے
۔عوام کی عدم دلچسپی کو دیکھ کر مولانا کو مجبوراً پورا تھال اکیلے ہی ختم کرنا پڑتا۔
یہ با ت طے تھی کہ مولانا کو دنیاوی آسائش اور مال و دولت سے کوئی سروکار نہ تھا ،وہ اکثر اپنی تقاریر میں اپنے معتقدین کو دنیاوی خرافات سے دور رہنے کی تلقین فرماتے۔ البتہ دین کے نام پر حاصل کی گئی دولت کو اس اصول سے مستثٰنی قرار دیتے۔ نجانے کیوں مولانا کو بچپن ہی سے چاند سے ایک خاص قسم کی انسیت سی ہو گئی تھی۔سننے میں آیا ہے کہ مولانا کے گھر والے ان کی پیدائش پر انہیں چاند کہ کر پُکارنے لگے البتہ چند روز بعد جب مولانا نے اپنا اصل رنگ و روپ نکالا تو قرابت دار نجانے کیوں مولانا کو چاند کہنے سے کترانے لگے۔ مولانا البتہ چاند مانگنے سے کبھی باز نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولانا ہر تقریر کے بعد چن دے ،چن دے ،چندے کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔
مولانا کو جائیداد اور سیاست وراثت میں ملی ہیں ،اسلیے سیاست کو بھی وہ جاگیر سمجھ کر برتتے ہیں اور سیاسی قلابازیاں لگانے مین کوئی عار نہیں سمجھتے ،ویسے تو ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگانے میں بندروں کو ملکہ حاصل ہے۔ مگر مولانا کی سیاسی قلا بازیوں کے سامنے بندر بھی عاجز نظر آتے ہیں اور کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھے اور سُنے گئے ہیں۔ البتہ معتقدین کے اندھے اعتقاد میں اب تک کوئی فرق دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔سیاست کے بارے میں مولانا کا سنہری قول ہے کہ کترینہ کیف ایک فلم میں جتنی بار کپڑے بدلتی ہے سیاستدان اگر اتنی بار اپنی پارٹی نہ بدلے تو اس کے سیاستدان ہونے پر شک کرنا چاہیے اور اگر بدل لے تو اس کے با کر دار ہونے پر۔ البتہ خود کو وہ یہاں بھی اس اصول سے مستثٰنی قرار دیتے ہیں۔
مولانا کو کترینہ کیف کے مسلمان ہوتے ہوئے بے حجاب نظر آنے پر سخت اعتراض تھا ،یہی وجہ ہے کہ مولانا فارغ اوقات میں ،جو کہ انہیں اکثر حاصل رہتے تھے۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کترینہ کی فلم لگا کر کترینہ کو بے حجابی ترک کرنے کا مشورہ دیتے رہتے۔ سکرین پر مولانا کو جہاں جہاں بے حجابی نظر آتی،وہاں وہاں ان کی طبیعت میں جلال آ جاتا اور مولانا غصے کی حالت میں کانپتے ہاتھوں سے ریموٹ پکڑ کر فلم کے قابل اعتراض مناظر کو آگے پیچھے کر کے دیکھتے اور لا حول ولا پڑھتے رہتے۔ فلم کے آغاز میں مولانا کی زبان سے اکثر "لاحول ولا" اور "مر بے حیا" جیسے الفاظ ادا ہوتے۔ اور آخر میں "سبحان اللہ" اور "مرحبا" جیسے الفاظ خارج ہوتے۔ فلم ختم ہونے پر مولانا اس امید کا برملا اظہار کرتے کہ ایک دن وہ کترینہ کیف کا فہم اسلام درست کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے ،پھر فرماتے "دوشیزہ" میں حیا کی تھوڑی سی کمی ہے ، مگر کمبخت ہے بلا کی حسین،مستقبل میں مولانا کا ارادہ "بپاشا با سو " کو مشرف بہ اسلام کرنے کا بھی تھا۔
مولانا کو حلال چیزوں سے خاص رغبت تھی ،حلالہ کا نام سنتے ہی اپنی جگہ سے اُچھل پڑتے اور ان کی باچھیں کھل جاتیں اور ان کی آنکھوں میں گلابی ڈورے ناچنے لگتے اس سلسلے میں اپنی خدمات وقف کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے۔ اپنی تقریر کا آغاز ہمیشہ "حلالہ کی برکات" سے کرتے۔ طبیعت میں تجسس کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔اسی بنا پر ارادت مندوں کے گھریلو حالات جاننے میں غیر ضروری دلچسپی دکھاتے اور تنازعات کی ٹوہ میں لگے رہتے ،اور اکثر اپنے ارادت مندوں کو تلقین کرتے "گھر میں کوئی مسئلہ ہو تو بتایے گا " اور اگر کوئی معتقد اس غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتا تو مولانا اپنی خُداداد صلاحیتوں کو کام میں لا کر اس معمولی مسئلے کو "حلالہ" تک پہنچا کر ہی دم لیتے۔ مولانا کے اکثر دوست بڑے فخر سے مولانا کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "مولانا کے ہوتے ہوئے انہیں دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں"۔
مولانا کو مذہبی علوم پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔علم القرآن،علم البیان،تفسیر القرآن اور حدیث کے علاوہ فقہ کا نام بھی سن رکھا تھا۔ اور اپنی گفتگو میں اکثر ان علوم کا نام لے کر اپنے معتقدین کو جو کہ اکثر ان پڑھ تھے اپنی علمیت سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر غلطی سے کوئی تعلیم یافتہ صاحب علم ان کی محفل میں آ جاتا تو مولانا نامعلوم وجوہات کی بناٴ پر فوراً مراقبہ میں چلے جاتے اور پکارنے کے باوجود بھی جواب نہ دیتے جب تک کے وہ صاحب چلے نہ جاتے ،اور پھر چونک کر پُوچھتے کہ کیا کوئی آیا تھا۔
مولانا کو جن علوم پر دسترس کا دعویٰ تھا, ان میں سے ایک کشف القبور بھی تھا۔ اکثر قبرستان سے گذرتے ہوئے کسی قبر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے انکشاف فرماتے کہ اس قبر میں ہیروئنچی ہے ،قریب جا کر دیکھنے پر معلوم ہوتا واقعی ہیروئنچی بیٹھا ہیروئن کے کش لگا رہا ہے۔ رات کو وہی ہیروئنچی مولانا کے والد کی درگاہ پر بیٹھا سگریٹ میں ہیروئن بھر رہا ہوتا۔ مولانا کا دعویٰ تھا کہ اکثر رات کو خواب میں کوئی نہ کوئی ولی اللہ آ کر انہیں بتاتے ہیں کہ میری قبر فلاں مقام پر ہے اس جگہ کی کھدائی کرا کر میری قبر کی تعمیر نو کر ادو۔ مولانا صبح ہوتے ہی اپنے مبارک خواب کا اعلان فرما دیتے جو لوگ مولانا کو جانتے تھے وہ ان کی بات پر فوراً یقین کر لیتے اور جو زیادہ جانتے تھے وہ کبھی یقین نہ کرتے۔ مولانا علاقے کے لوگوں کی معیت میں خود جا کر اس جگہ کی نشاندہی فرما تے ،جو جگہ بقول ان کے ولی اللہ نے خواب میں بتائی ہوتی اور اپنی نگرانی میں قبر اور درگاہ کی تعمیر کیلئے زمین کی حد بندی کرتے ایسی جگہیں اکثر ان کے مخالفین کی ملکیت ہوتیں۔ مولانا کہ مخالفین ان کی اس حرکت سے سخت نالاں تھے اور مولانا کو نیند نہ آنے کی دعائیں منگا کرتے۔
الغرض مولانا کی خصوصیات کا احاطہ ایک نشست میں کرنا ممکن نہیں،اس کیلئے ایک دفتر چاہیے۔
٭٭٭