01:39    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناصر کاظمی کی شاعری

1500 0 0 00

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی 

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانہ دل میں 

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا 

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی 

یاد کے بے نشاں جزیروں سے 

تیری آواز آرہی ہے ابھی 

شہر کی بے چراغ گلیوں میں 

زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے 

ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے 

شہر میں رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔