لبِ خاموش سے اظہارِ تمنا چاہیں
بات کرنے کو بھی تصویر کا لہجہ چاہیں
تو چلے ساتھ تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں
ظاہری آنکھ سے کیا دیکھ سکے گا کوئی
اپنے باطن پہ بھی ہم فاش نہ ہونا چاہیں
جسم پوشی کو ملے چادرِ افلاک ہمیں
سر چھپانے کے لئے وسعتِ صحرا چاہیں
خواب میں روئیں تو احساس ہو سیرابی کو
ریت پر سوئیں مگر آنکھ میں دریا چاہیں
بھینٹ چڑھ جاؤں نہ میں اپنے ہی خیر و شر کی
خونِ دل ضبط کریں، زخمِ تماشا چاہیں
زندگی آنکھ سے اوجھل ہو مگر ختم نہ ہو
اِک جہاں اور پسِ بردۂ دنیا چاہیں
آج کا دن تو چلو کٹ گیا جیسے بھی کٹا
اب خداوند سے خیریتِ فردا چاہیں
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے
غرق ہونے کے لئے بھی جو سہارا چاہیں