مانا کہ مشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
لیکن ہوا کے رحم و کرم پر نہیں ہوں میں
انسان ہوں، دھڑکتے ہوئے دل پہ ہاتھ رکھ
یوں ڈوب کر نہ دیکھ سمندر نہیں ہوں میں
چہرے پہ مل رہا ہوں سیاہی نصیب کی
آئینہ ہاتھ میں ہے سکندر نہیں ہوں میں
وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی
چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں
غالب تری زمین میں لکھی تو ہے غزل
تیرے قدِ سخن کے برابر نہیں ہوں میں
لفظوں نے پی لیا ہے مظفر مرا لہو
ہنگامہء صدا ہوں، سخن ور نہیں ہوں میں