معلوم ہے رستہ بھی تِرا اور تِری خُو بھی
بگڑا ہوں تِری راہ سے، بھٹکا تو نہیں ہوں
کرتا ہے جو صد لخت بیَک جنبشِ خامہ
اے کاتبِ تقدیر کھلونا تو نہیں ہوں
اُٹّھے ہے جنازہ ہی مِرا بزم سے تیری
میں آپ تِری بزم سے اُٹّھا تو نہیں ہوں
سِیتا ہوں جو کانٹوں سے کُھلے زخم تو کیا غم
منت کشِ احسانِ مسیحا تو نہیں ہوں
کہتا ہے کیوں "محروم" مجھے سارا زمانہ
محرومِ ستم ہائے زمانہ تو نہیں ہوں
ہر شخص مجھے روند کے گزرے ہے اِلٰہی
احساس کا پیکر ہوں مَیں رَستہ تو نہیں ہوں