احمد مشتاق: ایک شاعر بے مثال
سلیم سہیل
غزل لکھنا اور غزل کے بارے میں لکھنا دونوں مشکل کام ہیں۔ پہلی اوکڑ تویہ ہے کہ اس صنف کے شاعر کے پیچھے غزل کی ہزار سال کی شاندار روایت کھڑی ہے۔ وہ اس سے بچ بچا کر اپنے لیے اظہار کا سلیقہ کیسے نکال سکتا ہے۔ دو ہی راستے اس کے لیے بچتے ہیں۔ یا تو روایت میں اظہار و بیاں کے سلیقوں کی جگالی کرلے یا پھر اپنے لیے نیا راستہ اختیار کرلے جو بہرحال خطرات سے پر ہوتا ہے۔ نامقبولیت اس راستے میں کھڑی ہے۔ قاری سابق قرینوں سے اپنا تعلق محکم کر چکا ہوتا ہے اور کیفیت کے نئے پن سے اور اظہار کی نئی صورتوں سے علاقہ قائم کرنے پر جھجک محسوس کرتا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنی ہئیت میں کل کا درجہ رکھتا ہے خود مکتف ہوتا ہے آسان لفظوں میں ایک نظم ہے۔ اُس کی ایک مکمل کہانی ہے۔ اس کے بارے لکھنے والا کتنی کہانیوں کے بارے میں لکھ سکتا ہے۔ کتنے اشعار دہرا سکتا ہے۔ اور پھر شاعر کا کلی طور پر اندازہ بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے اظہار میں کن کن مظاہر کو جگہ دے رہا ہے اور اس کا زندگی کے بارے میں گزارنے کا سلیقہ کیا ہے۔ علاوہ اس کے غزل کے بارے میں لکھتے ہوئے ہماری تنقیدی لغت بھی خاصی غریب ہے۔ ہم ہر شاعر کے بارے میں ایک طرح سے بات کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ ہماری غزل کی شاعری کا بڑا حصہ بھی بدقسمتی سے یکسانیت کا شکار ہے اگرچہ کہیں کہیں اس یکسانیت میں بھی لطف کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں مگر ایسا کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔
احمد مشتاق بیسویں صدی میں اپنے آپ کو بچا کر نکل گئے۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ احمد مشتاق کا شعر پڑھنے پر اس کا سامع شاعر کو پہچان جاتا ہے۔ حالانکہ لفظ وہی ہوتے ہیں جو ہمارے روزمرہ استعمال میں آرہے ہوتے ہیں مگر یہ شاعر ذاتی کیفیت کو اجتماعی تجربہ بنا دیتا ہے۔ اس کی واردات ذات سے نکل کر دوسروں کے باطن کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایک آہستہ روی احمد مشتاق کی ذات اور شاعری دونوں کا حصہ ہے۔ وہ دیر تک خیال کی پرورش کرتے ہیں اور پھر اُس کو لفظ کا لباس دیتے ہوئے بڑے تحمل اور نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
احمد مشتاق لفظوں کی شعبدہ بازی نہیں کرتے بلکہ جذبے کے موافق الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساٹھ سال کی شاعری میں غزلوں کی تعداد اڑھائی سو سے زیادہ نہیں۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ انہوں نے محض اتنا کلام ہی لکھا ہو۔ ممکن ہے وہ اپنے بہت سے لکھے میں سے انتخاب کرتے ہوں یا پھر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خیالوں میں ہی قطع برید کے عمل سے گزر کر شعر کہتے ہوں اور یہی کلام ان کا کل سرمایہ ہو۔ خیریہ بات ثانوی ہے۔
انتظار حسین نے جو احمد مشتاق کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے وہ ان کی بہترین تحریروں میں سے ایک ہے۔ اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ احمد مشتاق شاعری کے دربار میں جوتے اُتار کے داخل ہوتا ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے یہ بات عجیب ہوسکتی ہے مگر شاعری پڑھنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔
احمد مشتاق جیسے لوگوں کے لیے شاعری زندگی کا دوسرا نام ہے اور اس کو گزارنے کے لیے جو سلیقہ احمد مشتاق نے اختیار کیا ہے وہ محبت کا سلیقہ ہے۔ مجموعہ ، گرد مہتاب اور اوراق خزانی محبت اور رائیگانی کی دنیائیں ہیں۔ کوئی نام، کوئی موسم، کوئی خوشی ، کوئی چہرہ ایسا آن بسا جس نے شاعر کے قلب و ذہن کو اپنی ارادت میں لے لیا اور پھر شاعر نے ساری زندگی اس محبت کے وظیفے میں کمی نہیں آنے دی۔
احمد مشتاق کی یاد میں ایسی متانت ہے کہ ذرا احساس نہیں ہوتا کہ شاعر ابنساط میں بے قابو ہوکر اپنی عبادت میں شور شامل کر دے گا۔ یہ شاعر اللہ کی اس دنیا میں خاموشی تلاش کر رہا ہے۔ آواز اس کے نزدیک اُس کو یاد کے وظیفے سے دور کر سکتی ہے۔
احمد مشتاق کی موسموں سے دوستی ہے۔ پھولوں ، رنگوں ، بہاروں، بادلوں، پرندوں کی مدد سے اپنے محبوب کی شبیہیں بناتا رہتا ہے مگر کیا مجال کہ رنگ کا تناسب کہیں بڑھ جائے۔ تصویر بگڑ سکتی ہے۔ چوکھا رنگ دھبا بنا سکتا ہے۔ اور یہ بات احمد مشتاق اور اس قبیل کے دوسرے شاعروں میں مشترک ہے۔ میر، فراق، ناصر کاظمی یہ لوگ اپنی واردات کے بیان میں تحمل اور ضبط کو جانے نہیں دیتے اس لیے ان کا شعر دیر تک قاری کے احاطہ ادراک میں قائم رہتا ہے۔
اس شاعر نے محبت میں اعتدال کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اس لیے یہ شاعری محبت کرنے والوں کے لیے نعمت کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ یہ شاعری اپنی قرات میں جلدی اور رواروی کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ سنبھل سنبھل کر اورٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
آخر دوسرے کے دل میں اترے بغیر اس کے بارے میں کیسے جانا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ٹھہر کر پڑھیں گے تو سر گوشیاں گنگنائیں گی اور ایسا سماں بنے گا جس میں آپ کو نہال کر دینے کا سامان ہو گا۔ احمدمشتاق تھیوریوں کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی نہیں کرتا بلکہ وہ ہر دم رواں زندگی سے اپنی شاعری کے لیے طاقت کشید کرتا ہے اور اس میں اتنا لوچ ہے کہ یہ دنیا ہمیں بھلی لگتی ہے اور بھلے لوگ بھلائی کے علاوہ کچھ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ایسی شاعری کثیف دلوں پر نہیں اترتی۔ اس کے لیے احمد مشتاق جیسا سچا دل درکار ہوتا ہے۔ اس دل میں ایک لگن ہے۔ ایک رو ہے جو حرکی طاقت کے طور پر شاعر کے ساتھ ہے۔ اور اس محبت اور یاد کی تان کو شاعر نے ٹوٹنے نہیں دیا۔ اپنا جوگ اگر لیا ہے تو اسے نبھایا بھی ہے۔ ایک چلن جو انسان اپنے لیے بنا لے اور پھر اس دھن کے نام زندگی کر دے یہ بڑی بات ہے۔
یہ شاعر تھک یا اُکتا کر اپنے عمل سے منحرف نہیں ہوا بلکہ جڑا رہا ہے۔ آثار کو دیکھتا رہا ہے۔ دکھ کو سہتا رہا ہے۔ یاد کو جھیلتا رہا ہے پھر جاکر یہ لفظوں کی کھیتی پک کر ہری ہوئی ہے اور اس سونے کی فصل میں بڑا حسن ہے۔
احمد مشتاق کا مصرعہ کامل ہوتا ہے۔ ترشا ترشایا۔ قیمتی دھات کی کنی جیسا۔ پھر یہ کنی دوسرے کے دل میں بس جاتی ہے۔ اس شاعر نے ماضی کے ساتھ وفا کی ہے۔ بدیس لیا لیکن دیس کو دل میں رکھا۔ یہ آج بھی لاہور کے لوگوں کے ساتھ رہ رہا ہے اگرچہ ان کا محل وقوع سات سمندر پار ہے۔ احمد مشتاق کی شاعری پڑھ کر لگتا ہے کہ پاس رہنے کے لیے پاس ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
※※※※※
رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو
دل کی دھڑکن تھی کہ اڑتے تھے لہو میں جگنو
جیسے ہر شے ہو کسی خواب فراموش میں گم
چاند چمکا نہ کسی یاد نے بدلا پہلو
صبح کے زینۂ خاموش پہ قدموں کے گلاب
شام کی بند حویلی میں ہنسی کا جادو
صحن کے سبز اندھیرے میں دمکتے رخسار
صاف بستر کے اجالے میں چمکتے گیسو
جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو