لاہورسے تقریباً پچاس کلومیٹر دور واقع پھول نگر سے ذرا پہلے سڑک ایک راجباہ عبور کرتی ہے۔ وہ عوام میں ’نہرپرناواں‘ کے نام سے معروف ہے۔ایک پختہ سڑک اس راجباہ کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ چلی جاتی ہے۔ سرائے مغل اسی سڑک پر بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سرائے مغل کی تعمیر کا زمانہ سولہویں صدی بتایا جاتا ہے۔ نام سے بھی ظاہر ہے، یہ سرائے مغلیہ دور حکومت میں تعمیر ہوئی تاہم کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی تعمیر کا سہرا کس بادشاہ کے سر ہے۔
ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق یہ سرائے ایک چوکور قطعہ اراضی پر تعمیر کی گئی جس کا ہر ضلع ۴.۱۶۶ میٹر تھا۔ اس کی تعمیر میں چھوٹی اینٹیں استعمال ہوئی تھیں۔ اینٹیں کنکر اور چونے کے مصالحے سے چُنی گئیں۔ آج سرائے کی دیوار کہیں کہیں سے کھڑی ہے۔ اس کے کمروں میں سے بعض کی بنیادیں اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ کمرے مربع شکل کے تھے اور ان کا ہر ضلع سوا تین میٹر تھا۔ سرائے کے باقی ماندہ آثار پر کوئی نقش و نگار نہیں نہ ایسا کوئی کتبہ جس سے اس کی تاریخ کا کچھ سراغ مل سکے۔ اس کی موجودہ حالت انتہائی مخدوش ہے۔
میرا خیال تھا، سرائے مغل کی مسلمہ تاریخی اہمیت کے پیش نظر علاقے کا بچہ بچہ اس سے پوری طرح باخبر ہو گا، لیکن یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ مقامی لوگوں میں سے اکثر اپنے اس تاریخی ورثے سے بے خبر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اڈے پہنچ کر کئی لوگوں سے سرائے کا محل وقوع معلوم کیا لیکن کوئی شخص سمجھ نہ پایا کہ ہم کس عمارت کی بات کر رہے ہیں۔بالآخر گندم اور مونجی کی خریداری کے ایک مرکز میں موجود راناذوالفقار نے ہمارا مسئلہ حل کر دیا۔ اس نے بتایا۔ ’’میرا خیال ہے آپ اس سرائے کی بات کر رہے ہیں جو سنتے ہیں کبھی یہاں ہوا کرتی تھی۔ وہ سرائے تو نہ جانے کب صفحہ ہستی سے مٹ چکی،کم از کم میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ ہاں !اس کا ایک دروازہ ابھی تک کھڑا ہے‘‘۔
’’ہم وہی دروازہ دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘ میں نے تکلفانہ جواب دیا ’’آپ کو زحمت تو ہو گی لیکن ہمیں وہاں لے چلیے۔‘‘
اگرچہ راناذوالفقار کی دکان اور سرائے مغل کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ تھا لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بارش کا پانی بکثرت جمع تھا۔ لہٰذا ہم بمشکل تمام ایک جگہ پہنچ کر گاڑی سے نیچے اترے اور پیدل گلی میں سے ہوتے ہوئے اس کے دوسرے سرے پہنچے جہاں سرائے مغل کا واحد دروازہ کھڑا ہے۔ اب لکڑی کا وہ دروازہ تو موجود نہیں جو رات کے وقت بند کر دیا جاتا تھا البتہ وہ محراب موجود ہے جس کے اندر وہ نصب ہو گا۔چھوٹی اینٹ سے تعمیر شدہ یہ دروازہ بھی چند دنوں کا مہمان نظر آتا ہے۔ زلزلے کے کسی معمولی جھٹکے ،زور دار آندھی یا شدید بارش کے زیر اثر وہ نہ جانے کب زمین بوس ہو جائے گا۔اگر دروازے یااس کے اطراف تعمیر شدہ جھروکوں پر کوئی نقش و نگار تھا تو اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ اس کی استرکاری بھی قصہ پارینہ بن چکی۔
سرائے مغل کے معدوم احاطے میں لوگوں نے اپنے مکانات تعمیر کر رکھے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس زمانے میں تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ ہم پھر اس ہشت پہلو مزار کی طرف نکل گئے جس کا ذکر محکمہ آثارِ قدیمہ کے ریکارڈ میں ’سرائے ٹومب‘‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔
نہ شمع، نہ فانوس، نہ بتی، نہ دیا
اس گنبد دار مزار کے اندر کون دفن ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ مزار کی استرکاری عمومی طور پر سلامت ہے تاہم زمین سے کم و بیش چار چار فٹ تک پلستر اتر کر اینٹیں نمایاں ہو چکی ہیں۔ داخلے کے لیے صرف ایک ہی دروازہ ہے۔ مزار کی منڈیر پر ایک جگہ مدھم سا ایک رنگ باقی ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ بیرونی دیواروں پر بھی کسی نہ کسی شکل میں نقش و نگار تھے۔
’’میں نے اپنے ہوش میں یہاں دو قبریں دیکھی ہیں۔‘‘ وہاں کے رہائشی، کرامت نے بتایا ’’یہ درست ہے کہ ان قبروں پر سنگِ مرمر کا تعویذ نہیں تھا لیکن وہ صحیح سالم تھیں۔ آہستہ آہستہ کوئی ان کی اینٹیں بھی اکھاڑ کر لے گیا۔‘‘
قبروں کے نشانات سے ظاہر ہے کہ ایک قبر گنبد کے مرکز میں تھی اور دوسری اس کے دائیں ہاتھ۔ بائیں ہاتھ والی جگہ خالی پڑی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ کسی معروف شخصیت کی قبر پر تعمیر ہوا اور بعد میں کسی اور کو اس کے دائیں ہاتھ دفن کر دیا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فی الاصل بائیں ہاتھ بھی کوئی قبر ہو جو آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے بالکل مٹ گئی۔ مزار کی دیواروں پر پودوں ، پھولوں اور اقلید سی اشکال میں بہت خوبصورت نقش و نگار تھے جو اب کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ مزار کے دروازے اور باقی تین اطراف میں تعمیر شدہ خوبصورت محرابوں پر آیۃ الکرسی اور سورۃ اخلاص لکھی تھی۔ تاہم اب یہ تختیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ان آیات کا کچھ حصہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ ’’میرے والد کے پاس ایک بار ایک شخص آیا تھا۔ اس کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہ تھی چنانچہ انہوں نے اس دروازے پر جو اب بغیر کواڑ کے ہے، لکڑی کے پٹ لگوا دیے۔، ، کرامت نے مزید بتایا ’’ وہ آدمی یہاں طویل عرصہ رہا لیکن پھر اچانک نہ جانے کہاں چلا گیا۔ بعد میں کسی نے لکڑی کے یہ پٹ بھی اکھاڑ لیے۔‘‘
’’مقامی ہونے کے ناتے آپ کو تو سرائے مغل کے بارے میں خاصی معلومات حاصل ہوں گی۔‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’میں یہی جانتا ہوں کہ یہ ایک قدیم آبادی تھی جس کا نام نوشہرہ بتایا جاتا ہے۔ ایک بار ایک آرائیں کو اپنے گھر کے اندر مٹی کھودتے ہوئے طلائی سکوں سے بھرا ایک برتن ملا۔ اس نے یہ سکے بیوی کو دھونے دیے۔ وہ بے چاری باہر بیٹھی سکے دھو رہی تھی کہ گجروں کا ایک لڑکا سکے اس سے چھین کر لے گیا۔ بات تھانے تک جا پہنچی۔ پولیس نے گجروں کے گھر پر چھاپہ مار کر یہ سکے برآمد کر لیے۔ پھر ان سکوں کا کیا ہوا؟ کسی کو نہیں معلوم۔ اور ہاں ! پرانی ککھاں والی سڑک جو لاہور سے ملتان جاتی تھی، پاس سے ہی گزرتی تھی۔‘‘
’’ککھاں والی سڑک؟‘‘
’’جی! ککھاں والی یعنی وہ سڑک جس پرککھ بچھا دیے جاتے تاکہ مسافروں کو دوران سفر گرد و غبار یا کیچڑ کی وجہ سے زیادہ تکلیف نہ ہو۔‘‘
سرائے ٹومب سے واپسی پر ہم پھول نگر رک گئے جو اب بھی عام طور پر اپنے پرانے نام، بھائی پھیرو سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کا نیا نام بھائی پھیرو کی اہم شخصیت، رانا پھول محمد کے نام پر پڑا ہے۔ اُتّم رکھ لینے سے اونچا ہوا نہ کوئی
سکھ روایات کے مطابق یہاں گھی کا ایک تاجر سنگتیا رہا کرتا تھا۔ اس کا کاروبار خاصا وسیع تھا اور مال دور دور تک جاتا تھا۔ ایک بار کچھ گھی کرتارپورہ بھجوانا تھا کہ سکھوں کے ساتویں گورو، گورو ہررائے کے ایک مرید خاص نے اچانک وہاں پہنچ کر سارا گھی خریدنے کی پیش کش کر دی۔ سنگتیا کو یہ سودا سودمند نظر آیا چنانچہ اس نے گھی گاہک کے حوالے کر دیا اور مشکیزے خالی کر کے دکان میں لٹکا دیے۔ اگلے روز سنگتیا اپنی دکان پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے مشکیزے پہلے کی طرح گھی سے بھرے ہیں۔ سنگتیا اسی الجھن میں گورو ہررائے کے پاس پہنچا اور اس بات کی تصدیق کے بعد کہ یہ سب ان ہی کی نظرکرم کا نتیجہ ہے، وہ ان کا چیلا بن گیا۔ گورو ہررائے نے اسے سکھ مذہب میں داخل کر لیا اور اس کا نیا نام ’’بھائی پھیرو‘‘ رکھا۔
بھائی پھیرو کا انتقال پھول نگر میں ہوا اور یہیں اس کا سمادھ بنا۔ بعد میں یہاں ایک گوردوارہ تعمیر کر دیا گیا جو گوردوارہ سنگت صاحب کہلاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی، پٹیالہ کی طرف سے شائع کردہ انسائیکلو پیڈیا آف سکھ اِزم کے مطابق اس گوردوارہ کے لے دو ہزار سات سو پچاس ایکڑ اراضی وقف تھی۔
آج سکھوں کی یہ تاریخی عبادت گاہ مختلف ادوار میں تعمیر ہونے والی تین عمارتوں یعنی گوردوارے، بھائی پھیرو کی سمادھ اور ایک چھوٹی سی عمارت میں منقسم ہے۔ عمارت پر کوئی ایسا کتبہ یا نشان موجود نہیں جس سے اس کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے۔ ممکن ہے یہ مہمان خانہ ہو۔ فی الوقت اس کی تمام چھتیں گری ہوئی ہیں۔
جب ہم یہ عمارت دیکھنے اندر داخل ہوئے تو ملبے کے ڈھیر پر بیٹھی بڑے قد کاٹھ کی ایک سیاہ بلی نے غرا کر میری جانب دیکھا لیکن پھر بے خوف و خطر اپنی جگہ بیٹھ گئی اور خلاف توقع ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنے لگی۔ اسے دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں ان بد روحوں کا خیال آ گیا جو ایک روایت کے مطابق ویرانوں اور پرانی عمارات میں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ ایک انجانے سے خوف کے تحت میرے جسم نے جھرجھری لی۔ ویسے بھی ملبے کے اس ڈھیر میں رُک کر دیکھنے والی کوئی چیز نہ تھی لہٰذا ہم جلد سمادھ کی طرف جا نکلے۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ پچھلے ساٹھ برس میں سمادھ کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باوجود وہ جوں کی توں قائم ہے۔ اس کی سبھی دیواریں ، چھتیں ، دروازے اور کھڑکیاں سلامت ہیں۔ سمادھ سطح زمین سے چند فٹ نیچے ہے چنانچہ بجلی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس کا عقبی حصہ مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ رہی سہی کسر فرش پر کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں ، چھت کے ساتھ لٹکے ہوئے جالوں ، بھڑوں کے چھتوں اور حشرات الارض کے خوف نے نکال دی تھی۔
سمادھ کی عمارت تین منزلہ ہے۔ سمادھ سب سے نچلی منزل پر ہے۔ یہاں سے سیڑھیاں دوسری منزل پر جاتی ہیں۔ تیسری منزل کے ماتھے پر دو گنبد ہیں جبکہ چوتھی منزل پر جو صحن کی شکل میں ہے، سمادھ کے اوپر قدرے بڑا گنبد بنا ہوا ہے۔ تین گنبدوں والی یہ عمارت دور سے تو خاصی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اپنے مجموعی خوبصورت تاثر کے باوجود اس کے اندر یا باہر کسی قسم کے نقش و نگار باقی نہیں۔ ہاں ! عمارت کی ایک دیوار پر مٹے مٹے سے نیلے، پیلے اور سرخ نقوش سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی اصل شکل میں یہ عمارت خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہو گی۔
جب میں عمارت سے باہر نکلا تو میرے دوست، مجید نے بتایا: ’’اس سمادھ کے نیچے سرنگیں ہوا کرتی تھیں۔ کم و بیش تیس سال پہلے کچھ بچے یہاں کھیل رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچہ کسی سرنگ میں جا گھسا اور پھر کبھی باہر نہ آ سکا۔ اس حادثے کا شہر میں بڑا چرچا ہوا جس کے بعد ان سرنگوں کے منہ اینٹوں سے مستقل بند کر دیے گئے۔‘‘
’’یہ سرنگیں جاتی کہاں تھیں ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’معلوم نہیں۔ ہو سکتا ہے سکھوں کی کسی کتاب میں کچھ ذکر ہو لیکن عوام میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ سرنگیں بہڑوال جاتی ہیں۔‘‘
’’وہ تو یہاں سے کافی دور ہے؟‘‘
’’اگر مغلیہ دور میں لاہور سے دلی تک سرنگیں جا سکتی تھیں تو بھائی پھیرو سے بہڑوال کا فاصلہ کیا معنی رکھتا ہے!‘‘
’’لیکن ان سرنگوں کی تعمیر کا مقصد کیا تھا؟‘‘
’’کہتے ہیں ، یہ سرنگیں سکھوں کے معزز خاندانوں کی خواتین بہڑوال سے آمدورفت کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ لیکن یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں ، اصل بات کیا ہے، یہ تو صرف خدا ہی جانتا ہے۔‘‘
اس گوردوارے کی حالت اکثر دوسرے گوردواروں سے بدرجہا بہتر ہے۔ پرکاش استھان خاصی اچھی حالت میں ہے۔ کمروں کی چھتیں بھی قائم ہیں البتہ بعض دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
’’یہ عمارت تو بہت خستہ حالت میں تھی‘‘ مجید نے بتایا ’’اس کی چھتیں گر گئی تھیں اور بارش کا پانی اندر آ جاتا تھا۔ کچھ سال پہلے حکومت کی طرف سے اس کی مرمت کے لیے خصوصی امداد آئی تھی۔‘‘
مجید کی بات سن کر مجھے احساس ہوا کہ پرکاش استھان کے علاوہ جس کی چھت لکڑی کے موٹے موٹے شہتیروں پر کھڑی ہے، باقی تمام کمروں کی چھتیں نئے سرے سے ڈالی گئی ہیں۔ میں نے سوچا ’’کاش مرمت کرانے اور کرنے والوں نے اپنی ذمہ داری کا کچھ ہی احساس کر لیا ہوتا۔ انہوں نے بدانتظامی اور بددیانتی کے امتزاج سے ایسی گھٹیا تعمیر کی ہے جو خود ہماری اپنی آنکھوں میں بھی ہمیشہ کھٹکتی رہے گی۔‘‘
٭٭٭