میرا تعلق گنداواہ سے ہے جو اس وقت ضلع جھل مگسی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے، اس کا سب سے پہلا نام کنڈا ابیل تھا اور جب ہندوستان پر بھیلوں کی حکومت تھی، تو یہ اس کا صوبائی صدر مقام تھا۔ اس کے بعد اس کا نام گنج آبہ رکھا گیا کیونکہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی قلت ہے اس لیے اکثر نام آب کے ساتھ رکھے جاتے ہیں مثلاً سرآب وغیرہ وغیرہ۔
یہ شہر مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کے تحت رہا ہے۔ یہاں عربوں نے حکومت کی پھر یہ سندھ کا حصہ بنا، ۵۴۷۱ئ میں نادر شاہ قہار نے سندھ سے علٰیحدہ کر کے اسے خان آف قلات خان نصیر خان نوری کے حوالے کیا۔ یہ شہر خان صاحب کا سرمائی ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا۔
یہ شہر بڑے اہم محل وقوع کا حامل ہے۔ ماضی میں اس کے چاروں طرف حصار تھا جس کے چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ شکارپور کی طرف کھلتا تھا، دوسرا ملتان کی طرف، تیسرا سبی کی طرف اور چوتھا قلات کی طرف۔ دریائے مولا اس علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ دریائے مولا سے پانچ ندیاں بارہ مہینے بہتی ہیں۔ یہ گنداواہ اور اس کی متصل دیہاتوں پاچھ، نوشہراہ، پنجک، اور فتح پور کو سیراب کرتی ہیں۔ گرمیوں میں دریائے مولا کا سیلاب پورے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ دریائے مولا سے آنے والی سیلابی ندی جسے مقامی زبان میں نیئں کہا جاتا ہے پر مٹی کا ایک بند باندھ دیا جاتا ہے جو گنداواہ کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ چارلس میسن نے اپنی انگریزی کتاب قلات کے سفرنامے میں گنداواہ کی فصلوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جسے پڑھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ گنداواہ میں اس قدر فصلیں ہوا کرتی تھیں۔ جو آج کے دور میں محدود ہو کر صرف گندم، جوار، مونگ اور سرسوں تک محدود ہو گئی ہے۔
میری پیدائش میرے باپ کے اندراج کے مطابق یکم ذیقعد ۱۳۶۴ھ بمطابق ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو ہوئی اور تعلق گنداواہ کے سید بخاری خاندان سے ہے۔ ہمارے جد امجد آٹھویں صدی ہجری میں گنداواہ تشریف لائے تھے۔ یہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت اُوچ شریف والے کے پوتے تھے۔ میرے والد صاحب کا نام سید تیمور تھا۔ ابتدا میں وہ پوسٹ ماسٹر تھے اور کوئٹہ کے ایوان قلات کے علاقے میں فرائض منصبی انجام دیتے تھے۔ بعد میں انہوں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔ کچھ وقت یہ سردار شیر محمد رند کے نائب رہے اور ان کی زمینیں سنبھالا کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ گنداواہ آئے اور وہاں پر جرگہ ممبر بنے اور وہاں کی ایک معزز شخصیت شمار ہونے لگے۔۱۹۴۷ء میں بلوچستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور سائیں رکھیل شاہ کے بھائی کے مقابلے میں ہار گئے۔ ۰۵۹۱ئ میں ان کی وفات ہوئی۔ اس طرح میں یتیم ہو گیا میری والدہ کہا کرتی تھی کہ وہ مجھے نواب شاہ کے ایک پبلک سکول میں داخل کروانا چاہتے تھے۔ یہ پروگرام انہوں نے سردار شیر محمد رند کے ساتھ مل کر بنایا تھا کیونکہ وہ بھی اپنے بیٹے مرحوم سردار خان رند کو وہیں تعلیم دلوانا چاہتے تھے، لیکن خدا کے منصوبے کچھ اور تھے۔ یہ شاید ان کی دعا کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے اللہ نے مجھے توفیق دی کہ میں نے پی ایچ ڈی کی اور ممتاز پروفیسر کی حیثیت سے بلوچستان یونیورسٹی سے ریٹائر ہوا۔
میری والدہ کا نام نور بی بی تھا۔ یہ بچپن میں یتیم ہو گئی تھیں اور میں نے اپنے نانا کے پاس فتح پور قائم شاہ میں بچپن گزارا۔ جوان ہونے پر ان کے والد انہیں گنداواہ لائے اور شادی کرا دی۔ ابتدا میں معاشی حالت کافی خراب تھی۔ بقول ان کے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، چند گھڑے اور ایک دو چٹائیاں تھیں۔ والد کی وفات کے بعد ہمارے معاشی حالات پھر خراب ہو گئے۔ اب والدہ پر گھر کی ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئی تھیں۔ ہمارا خاندان دو بھائیوں اور پانچ بہنوں پر مشتمل تھا۔ بڑے بھائی اور چار بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔
گھر چلانے کے لیے وہ کپڑے لے کر ان پر کشیدہ کاری کروا کے ادھار پہ دیا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ یونانی علاج جانتی تھی، خاص طور پر بچوں کے علاج کی ماہر تھی۔ اس وقت کے گنداواہ کی ڈسپنسری کے انچارج بچوں کو میری ماں کے پاس علاج کے لیے بھجوایا کرتے تھے۔ یہ ہماری آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ علاوہ ازیں ایسی عورتیں جوکسی کیس میں ملوث ہو کر قیدی بنتی تھیں ، تو اس وقت کے رواج کے مطابق انہیں معزز گھرانوں میں رکھا کرتے تھے اور ان گھرانوں کو روزانہ الاؤنس دیا کرتے تھے۔ یہ بھی ہماری آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔
میں نے ۱۹۶۱ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا۔ والدہ کا تقاضا تھا کہ میں نوکری کر لوں کیونکہ گھر کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ میں مزید تعلیم حاصل کر سکوں ، لیکن میں نے ضد کی جس کے باعث انہوں نے مجھے آگے پڑھنے کی اجازت دی اور میں نے جھل مگسی ہائی سکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ اس امتحان کو بھی ۱۹۶۳ء میں پاس کر لیا۔ مزید پڑھنے کا ارادہ تھا مگر ماں راضی نہ تھیں۔ وجہ مالی مشکلات تھیں۔ میرے حصے کی کچھ زمین تھی میں نے اسے گروی رکھنے کی کوشش کی ایک پارٹی گروی رکھنے کے لیے راضی ہوئی، لیکن میرے اپنے رشتے داروں نے اس کی مخالفت کی اور ان پر زور ڈالا کہ وہ یہ زمین گروی نہ رکھیں تاکہ میں اسے انہی کے ساتھ اونے پونے بیچ دوں۔ یہ دوپہر کا وقت تھا جب میں معاہدہ کرنے کے لیے ایک معزز شخص فضل احمد کی بیٹھک میں گیا۔ اگلی پارٹی نے جواب دے دیا۔ اس وقت میری عمر ۸۱/ سال تھی۔ کافی جذباتی تھا جب واپس گھر آیا، تو ماں پاؤں میں جھلی ڈال کے کھینچ رہی تھی۔ جھلی ایک قسم کا پنکھا ہوا کرتا تھا۔ چھت میں رسی ڈال کر اس کے ساتھ ایک بڑی لکڑی باندھ کر اس پر رلیاں ڈال دی جاتی تھی اور گھر کی عورتیں ہی اسے دوپہر کے وقت کھینچا کرتی تھیں۔ میری ماں نے مجھ سے پوچھا بیٹے کہ کیا ہوا، میں جذباتی تھا جس کی بنیاد پر رو دیا اور کہا کہ امی میری زمین کوئی گروی نہیں رکھ رہا لہٰذا اب میں نہیں پڑھوں گا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بیٹے اب تم پڑھو گے، ان کے کانوں میں کچھ سونے کی بالیاں تھیں ، اسی وقت انہوں نے وہ بالیاں اتاریں اور میری بہنوں سے کہا کہ وہ بھی دو دو بالیاں اتاریں اور پھر مجھ سے کہا کہ آپ ابھی جائیں اور یہ سنار کے پاس بیچ دیں اور اپنی تعلیم جاری رکھیں۔
میرے ۱۹۶۱ء میں جھل مگسی جا کر ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ چونکہ ماں کی طبیعت خراب رہا کرتی تھی اور باپ کی وفات کا اثر میرے ذہن پر موجود رہتا تھا لہٰذا جب کبھی کوئی کلاس نہیں ہو رہی ہوتی تھی، تو میں ایک طرف بیٹھ کر علامہ اقبال کی نظم ’ماں کی یاد میں ، جو کہ اس وقت کے میٹرک کے کورس کا حصہ تھی بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا اور ساتھ ہی رویا بھی کرتا تھا۔۱۹۶۳ء میں میں نے مستونگ میں ایف اے میں داخلہ لیا۔ سردیوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ اس وقت ہم جیکب آباد جا کر وہاں سے گنداواہ کے لیے بس لیا کرتے تھے۔ میری رہائش صحبت سرائے میں تھی جو کہ جیکب آباد سٹیشن کے نزدیک ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری والدہ کی طبیعت خراب ہے لہٰذا میں ان سے ملنے کے لیے گیا۔ اس وقت بلوچستان کے کالج میں پڑھنے والے طلباء کو ۸۰/ روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔ مجھے کل ملا کے ۷۰۰ سو روپے وظیفہ دیا گیا تھا۔ میں نے یہ رقم جا کر ان کے حوالے کی کہ اپنا علاج کروائیں۔ انہوں نے اپنا دوپٹا اتار کر گلے میں ڈالا، اس رقم سے صرف ایک سو روپیہ لیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹے اب میں مرنے والی ہوں ، لیکن مجھے اس بات کا سکون ہے کہ تم اپنا رزق کمانے کے لائق ہو گئے ہو۔ تمہیں شوق تھا کہ سائیکل خریدو اور کیمرہ لو لہٰذا تم سکھر جاؤ وہاں سے کیمرہ اور سائیکل لے کے آؤ تاکہ میں مرنے سے پہلے یہ دیکھ سکوں کہ تمہارا شوق پورا ہو گیا۔ میں سکھر گیا وہاں سے ایک سہراب سائیکل لی اور ایک کیمرہ لیا اور دوسرے تیسرے دن گنداواہ آیا۔ اس وقت ان کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی۔ میں جب ان کے نزدیک جاتا تھا، تو رونا شروع کر دیتا تھا۔ لہٰذا وہ مجھے جلد ہی اٹھا دیا کرتی تھیں۔ میں اپنی بیٹھک میں سویا کرتا تھا جو گھر سے بیس تیس فٹ دور دروازے کے نزدیک ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے میری بہنوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر میری وفات صبح سویرے ہو، تو زور سے مت رونا کہ میرے بیٹے کی نیند خراب ہو جائے گی۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ بیٹے تیرے والد کی اور اپنی جوان بیٹی کی وفات کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میرا جگر جل گیا ہے اور اس کی سڑانڈ کی بو اندر سے آتی ہے۔ انہیں ایک عجیب سی بیماری تھی۔ انہیں اتنی سردی لگتی تھی کہ وہ مارچ کے مہینے میں بھی کہتی تھیں کہ میری چارپائی کے نیچے آگ جلایا کرو حالانکہ مارچ میں گنداواہ میں کافی گرمی ہو جاتی ہے اور آدمی دھوپ تک میں نہیں بیٹھ سکتا۔ مختصراً یہ کہ جنوری ۱۹۶۳ءمیں ان کی وفات ہو گئی۔ میں ہر روز ان کی قبر پر جایا کرتا تھا۔ ماں کا یہ رشتہ آج تک منقطع نہیں ہوا۔ جب میں ۱۹۸۰ء میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے امریکہ گیا اور وہاں میری طبیعت خراب ہو گئی، تو وہ خواب میں آئیں اور مجھے کہا کہ بیٹا میں تم سے کہا کرتی تھی کہ آگے تعلیم حاصل مت کرو، لیکن تم باز نہیں آئے چلو اب واپس چلتے ہیں۔ ان کے ساتھ دو گھوڑے تھے ایک پر وہ سوار تھی دوسرا خالی تھا جس پر میں سوار ہوا۔ یہ دونوں گھوڑے ہم نے دوڑا دیے، میری آنکھ کھل گئی اور میں نے محسوس کر لیا کہ مجھے بغیر ڈگری حاصل کیے واپس جانا ہے اور ایسا ہی ہوا۔
اپنے ان تجربات کی روشنی میں میں یہ کہا کرتا ہوں کہ ماں کا اولاد سے رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ موت تو بس ایک پردہ ہے۔ میں زندگی میں جب بھی پریشان ہوتا ہوں ، تو میرا دل چاہتا ہے کہ ماں کی قبر پر سر رکھ کے سو جاؤں۔ جب بھی میں گاؤں جا کر ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتا ہوں ، تو اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ انہیں اس رشتے کی محبت اور اس میں بھری رحمت کے طفیل بخش دے اور میری ماں کو میرے لیے اسی طرح دعاگو رکھ جس طرح کہ یہ زندگی میں دعاگو تھیں۔ اللہ قادر مطلق ہے لہٰذا وہ ایسا کر سکتا ہے۔
میں آج جو کچھ بھی ہوں ، اپنی ماں کی تربیت کے باعث ہوں۔ جب کبھی شہر کا کوئی معزز چھٹی پہ گنداواہ آتا تھا، تو میری ماں مجھ سے کہا کرتی تھی کہ بیٹا ان کے پاس جاؤ اور شام کو ان کے ساتھ رہا کرو۔ وہ میری ہر حرکت پر نظر رکھا کرتی تھیں۔ بچپن ہی سے ہر قسم کا کام کروایا کرتی تھیں۔ جنگل سے جلانے کے لیے لکڑیاں لانا، فصل سے گھاس لے آنا وغیرہ وغیرہ۔ ان کی اس تربیت کے باعث آج مجھ میں غرور نہیں اور میں ہر کام کر لیتا ہوں۔ آج کل کے بچے، گنداواہ کی حد تک، نہ تعلیم کے ہیں نہ تربیت کے۔ شہروں میں بچے تعلیم تو حاصل کرتے ہیں ، لیکن تربیت نہیں۔ والدین تربیت پہ زور دیتے ہیں نہ سکول میں دیا جاتا ہے۔ اس وقت تعلیم کا لفظ تنہا استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمیشہ تعلیم و تربیت ایک ساتھ آتا تھا۔ میرے خیال میں آج ہمارے زوال پذیر معاشرے کی ایک بڑی وجہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔
ہمارے شہر میں بڑی سادہ اور احساس پر مبنی معاشرت ہوا کرتی تھی۔ لڑکے کی پیدائش بڑی خوشی کا باعث ہوتی تھی اور اکثر یہ دعا دی جاتی تھی کہ اللہ آپ کو سات بیٹے عطا کرے۔ خاص طور پر ہم سیدوں میں جب لڑکا چودہ ماہ کا ہو جاتا، تو اپنے بزرگ دادا حضرت ایوب شاہ کی جھنڈا تاری جاتی تھی یعنی بچے کے بال کاٹے جاتے تھے۔ اس دوران ایک سالن کی دیگ پکائی جاتی تھی، تمام رشتے داروں کو دعوت دی جاتی تھی۔ پنج لاگی یعنی بکرے کے پانچوں بڑے اعضا سری پائے جگر انتڑیاں اور اوجڑی کو ملا کر پکایا جاتا تھا۔ یہ تھوڑی تھوڑی تمام رشتے داروں کے سامنے رکھی جاتی تھی۔ یہ اس علاقے کی خاص ڈش تھی، جو دعوتوں کے موقع پر بھی پکائی جاتی تھی۔
گاؤں میں ہندو مسلمان اکٹھے رہا کرتے تھے۔ بڑی ہم آہنگی ہوا کرتی تھی۔ غمی خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کیا کرتے تھے۔ مثلاً اگر کسی مسلمان معزز گھر میں شادی ہوتی تھی، تو وہ کچا راشن ہندوؤں کو پہنچایا کرتے تھے۔ اسی طرح ہندو بھی اپنی شادی کے موقع پر مسلمانوں کو مدعو کرتے تھے اور کچا راشن پکانے کے لیے مسلمان باورچی کو دیا کرتے تھے۔ ہندوؤں کے تہوار ہولی، دیوالی، وغیرہ دھوم دھام سے ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر دیوالی پہ معزز گھرانوں میں ہندو مٹھائی پہنچایا کرتے تھے۔ کمہار خاص قسم کے برتن بنایا کرتے تھے جن میں مٹھائی رکھی جاتی تھی۔ ہندو اپنے دروازوں پر چونا لگاتے تھے اور اس پر سواستیکہ کا نشان لگاتے تھے۔ ہمارے گھر میں ایک چارپائی پر صاف چٹائی ڈالی جاتی تھی اور اتنی مٹھائی آتی تھی کہ چارپائی بھر جاتی تھی۔ دروازوں کے باہر دیے جلائے جاتے تھے۔ ہمارے جیسے شرارتی بچے غلیلوں سے ان دیوں کو نشانہ بناتے تھے اور پھر ہندو عورتیں گھروں سے نکل کر بہت کوسنے سنایا کرتی تھیں۔ بازار روشن ہوتا تھا، مٹھائیوں کے انبار لگے ہوتے تھے اور تمام مسلمان بھی اپنے گھر مٹھائی خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح سے ہولی کے تہوار پر اپنے انداز میں ہندو گلیوں میں ناچا کرتے تھے، رنگ پھینکا کرتے تھے اور اگر کوئی مسلمان نظر آ جاتا، تو اس پر بھی رنگ پھینک دیا کرتے تھے۔ مسلمان ناراض نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔
اگر کہیں موت واقع ہو جاتی تب بھی ہندو مل کر وہاں اظہارِافسوس کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ کسی کی وفات ہوئی تھی۔ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہندو فاتحہ کے لیے آئے۔ ان ہندوؤں میں سے ایک نے کہا کہ فلاں فقیر جس کی حال ہی میں وفات ہوئی ہے وہ بھیک کے پیسے میرے پاس جمع کیا کرتا تھا اور اس کی رقم تین ہزار روپے میرے پاس جمع پڑے ہیں۔ اگر کوئی اس کا وارث ہے یا پھر آپ لوگوں میں سے کوئی مجھ سے یہ رقم لے کر رکھ لے۔ میرے نزدیک یہ امانت اور دیانت داری کی ایک انتہا تھی۔ اس وقت تین ہزار بڑی رقم تھی کیونکہ استاد کی تنخواہ صرف چالیس روپے ہوا کرتی تھی، لیکن پیسہ کم ہونے کے باوجود ایمان داری اور دیانت داری موجود تھی۔
ہندوؤں کو اکثر کمزور سمجھا جاتا تھا۔ ان پر ہاتھ اٹھانا معیوب تھا۔ اگر کوئی ایسا کرتا، تو اس پر لعنت ملامت کی جاتی۔ اکثر ہندو معمولی چیزیں جیسے گڑ، چنے، ریوڑیاں اور پکوڑے وغیرہ بنا کر گدھے پہ سوار ہو کر نزدیکی دیہاتوں میں جا کر بیچا کرتے تھے اور کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا۔
اسی طرح باہر سے جو کوئی آتا تھا وہ کسی شہر کے معزز یا بڑے کے ہاں مہمان ٹھہرا کرتا تھا۔ کیونکہ ہوٹل یا سرائے نہیں ہوتے تھے۔ راستے میں اگر کوئی اس سے پوچھتا، تو وہ جواب دیتا کہ میں فلاں کا مہمان ہوں اور یہی تعارف اس کے تحفظ کا باعث ہوتا تھا۔ پردیسی (مسافر) کا بھی تحفظ کیا جاتا تھا اور اُسے نقصان پہنچانا معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کی ہر قسم کی مدد کی جاتی تھی۔
معزز گھرانوں کی عورتیں جب پردے میں باہر نکلا کرتی تھیں ، تو ان کے نزدیک گزرنے والا مرد دیوار کی طرف منہ لگا کے کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب تک یہ عورتیں گزر نہیں جاتی تھیں ، وہ اسی حالت میں کھڑا رہتا۔ پردے کے لیے برقعے کا رواج نہیں تھا بلکہ ایک لمبا سا سفید کپڑا ہوتا تھا، جو عورتیں اس طرح سے اوڑھ لیتی تھیں کہ قرآنی احکامات کے مطابق ان کا پردہ ہو جاتا تھا۔ اب جب کہ میں نے قرآن پڑھا ہے، تو مجھے اس بات کا احساس ہوا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ قرآنی احکامات کے مطابق چلا کرتا تھا۔ آج کے برقعے اور پردے اس کا نعم البدل نہیں ، یہ پردہ کم اور فیشن زیادہ ہوتا ہے۔
۱۹۶۰ء تک گنداواہ کا سکول مڈل تک تھا۔ یہ سات آٹھ کمروں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اس کا ایک حصہ ۲۵۹۱ئ میں تعمیر کیا گیا۔ دوسری جماعت سے تمام بچوں کو وظیفہ دیا جاتا تھا اور یہ وظیفہ ایک روپیہ ہوا کرتا تھا۔ مضامین بہت کم پڑھائے جاتے تھے۔ یہ زیادہ تر اردو، حساب اور معاشرتی علوم ہوا کرتے تھے۔ خوش خطی پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ پانچویں جماعت کا امتحان ڈسٹرکٹ آفیسر تعلیم خود آ کر لیا کرتے تھے اور پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے والے لڑکوں کو وظیفہ دیا جاتا تھا جو پانچ روپے ہوتا تھا۔ میں نے بھی وظیفہ حاصل کیا تھا جو آٹھویں جماعت تک جاری رہا۔ بزمِ ادب تعلیم کا لازمی حصہ تھا، ہر جمعرات تقاریر کروائی جاتی تھی جس میں مڈل کلاس کی جماعتیں شرکت کرتی تھیں۔ میں ان کا جنرل سیکرٹری ہوا کرتا تھا۔ اس بزم ادب کی وجہ سے اتنی مشق ہو گئی کہ میں اس وقت بھی بغیر لکھے تقریر کیا کرتا تھا اور بعد میں اسی مشق نے مجھے اچھا استاد بننے میں مدد دی۔
اساتذہ وقت کے پابند ہوا کرتے تھے بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ خاص طور پر پانچویں اور آٹھویں جماعت میں ٹیوشن مفت تھی اور یہ تقریباً رات تک جاری رہتی تھی۔ استادوں کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ مثلاً ایک دفعہ جب میں تیسری جماعت میں تھا، میرے استاد نے مجھے کہا کہ اپنے گھر سے میرے لیے مکھن اور لسی لاؤ۔ ماں نے کہا کہ مکھن اور لسی ختم ہو گئی ہے۔ استاد سے یہ پوچھ لیں اگر وہ کہیں ، تو اپنے سبزی کے کھیت سے انہیں سبزی دے دیں۔ یہی بات میں نے اپنے استاد سے کہی جس پر وہ ناراض ہوئے اور میرے ہاتھوں پر اتنے ڈنڈے مارے کہ میرے ہاتھ سوجھ گئے۔ آدھی چھٹی کے وقت گھر آیا اور رو کر ماں کو یہ ہاتھ دکھائے، تو ماں نے بڑی لاپروائی سے کہا کہ بیٹے استاد مارا کرتے ہیں۔ شاید ان کا یہی سبق میری تعلیمی کامیابی کا باعث بنا۔
سردیوں میں چھٹی تقریباً ساڑھے تین بجے ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد آدھے گھنٹے کے لیے مسجد چلے جاتے تھے جہاں ہم قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ وہاں سے گراؤنڈ چلے جایا کرتے تھے جہاں فٹ بال کھیلا کرتے تھے اور پھر جب ہم گھر کی طرف واپس آتے تھے، تو مغرب ہوا کرتی تھی۔ آج میں یہ سوچتا ہوں کہ اس ٹائم ٹیبل کے باعث ان پڑھ دیہات کے بچے کا سارا دن ایک پڑھے لکھے ماحول میں گزرتا تھا۔ اس کے مقابلے میں اب سکول کا دورانیہ نو بجے سے دو بجے تک ہوتا ہے یعنی بچے اٹھارہ انیس گھنٹے گلیوں بازاروں اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں اور یہی ہماری تعلیمی بربادی کی اصل وجہ ہے۔
ذرائع رسل و رسائل بہت محدود ہوا کرتے تھے۔ دیہاتوں کے درمیان اونٹوں ، گھوڑوں ، گدھوں اور بیل گاڑیوں پر سفر کیا جاتا تھا۔ نوتال سے گنداواہ تک ایک بس جایا کرتی تھی اور وہ بھی ہفتے میں صرف دو دن۔ کوئٹہ مستونگ سے یا جیکب آباد سکھر سے لوگ ٹرین کے ذریعے آتے تھے۔ رات نوتال اسٹیشن پر ٹھہرا کرتے تھے، وہاں پر ایک سرائے ہوتی تھی۔ جس کو میر سرائے کہا جاتا تھا۔ وہاں ایک چوکیدار اور چپراسی ہوا کرتا تھا کھانے پکانے کے برتن موجود ہوا کرتے تھے جو فیملیوں کو دیا کرتے تھے اور وہ خود کھانا پکا لیتے تھے۔ نوتال سے گنداواہ تک کا راستہ تین چار گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ راستہ کچا تھا، مٹی بہت آتی تھی، لیکن لوگ ہنستے کھیلتے ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے آتے تھے۔ ۲۹۹۱ئ میں گنداواہ روڈ پکا ہو گیا اور ماشائ اللہ آج آٹھ ویگنیں اور کئی بسیں جیک آباد کو جاتی ہیں۔ گنداواہ سے نوتال تک کا راستہ صرف ایک گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے، لیکن راستے میں ڈاکا پڑنے یا اغوا ہونے کا خوف ہمیشہ طاری ہوتا ہے۔ راستے کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سی لیویز چوکیاں بنائی گئی ہیں۔ اب جب میں نوتال سے گنداواہ کا سفر کرتا ہوں ، تو ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ وہ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر جس میں مٹی مٹی ہو جاتے تھے، لیکن سفر بہت سکون اور ہنسی خوشی سے کیا کرتے تھے، وہ زیادہ اچھا تھا، یا آج کا سہل سفر، لیکن ڈاکے اور اغوا کے خوف کے ساتھ۔
دوسفر
میں نے نوتال سے گنداواہ تک دو سفر پیدل کیے، ایک سردی میں ایک گرمی میں۔ پہلا سفر ۱۶۹۱ئ کے اگست کے مہینے میں کیا۔ میرے بہنوئی قلات میں پٹواری تھے۔ گرمیوں میں ، میں ان کے پاس گیا۔ اگست کے مہینے میں وہاں سے میں واپس ہوا۔ کیونکہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول کھل رہے تھے اور جھل مگسی جا کر میں نے سکول میں حاضر ہونا تھا۔ میں نوتال پہنچا جہاں سیگنداواہ جانے کے لیے سوائے پیدل جانے کے کوئی صورت نہیں تھی۔ ایک اونٹ والا نوتال سے سامان لے کر فقیر صاحب کی لانڈی کو جا رہا تھا جو نوتال سے پندرہ میل کے فاصلے پر ہے۔ ہم کوئی ۹ بجے روانہ ہوئے اونٹ پہ سامان لدا ہوا تھا۔ اونٹ کی مہار اس شخص کے ہاتھ میں تھی اور ہم دونوں پیدل تھے میں اُس سے اس کے پاس ایک مشکیزہ بھی تھا۔ مجھے بار بار پیاس لگ رہی تھی اور میں ساربان سے مشکیزہ لے کر پانی پی رہا تھا۔ جب آگے جا کر میں نے اس سے پانی مانگا، تو اس نے کہا کہ میں ابھی آپ کو پانی نہیں دیتا آگے چل کر پی لینا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اس کی نیت خراب ہو گئی ہے اب یہ مجھے پانی نہیں دے گا اور مجھے پیاسا ہی مرنا ہے۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد میں نے اس سے پانی مانگا، اس نے مشکیزہ میرے حوالے کیا اور کہا کہ پی لو۔ پانی بہت تھوڑا تھا میں نے پی لیا اور پھر سفر شروع کیا۔ ایک دو کلومیٹر چلنے کے بعد مجھے پھر پیاس لگی میں نے پانی مانگا، تو اس نے مجھے کہا کہ وہ سامنے آپ کو درخت نظر آ رہے ہیں ہمت کرو اور وہاں تک پہنچو کیونکہ مشکیزہ اب خالی ہے گرنا نہیں۔ بہرحال ہمت کر کے وہاں تک ہم پہنچے تھوڑا سا پانی بہت چھوٹے سے تالاب کی صورت میں موجود تھا۔ مٹی کی وجہ سے اس کا رنگ چائے جیسا تھا اور گرم بھی چائے جتنا ہی تھا۔ میں وہاں سے چلو بھر کے پانی پی بھی رہا تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس جوہڑ میں جانوروں نے بھی پانی پیا ہو گا۔ شاید کتے بھی گھسے ہوں ، لیکن مجبوری تھی۔ اس اونٹ کے مالک نے راستے میں شاید ایک دو دفعہ تھوڑا سا پانی پیا۔ کچی ’بھنگ، ایک نشہ آور بوٹی اس کے منہ میں تھی جسے وہ چباتا ہوا آ رہاتھا اور اس وجہ سے اسے پیاس نہیں لگ رہی تھی۔ ہم دوپہر کے قریب لانڈھی شریف پہنچے، لانڈی کے فقیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے چالیس پچاس آدمی نیچے چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ اپنا تعارف کروایا کہ میں تیمور کا چھوٹا بیٹا ہوں۔ وہ میرے ساتھ گلے ملے اور مجھے چارپائی پر سرہانے کی طرف بٹھایا۔ میں شرمندہ بھی ہو رہا تھا اور بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ بعد میں شعور آنے پر پتا چلا کہ وہ یہ خیال داری میری وجہ سے نہیں کر رہا تھا بلکہ سید ہونے کے ناتے یہ سب کر رہا تھا کیونکہ اللہ والے اللہ کے رسولؐ کی خاطر اس کی اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔
یہاں سے میں دو میل دور ایک اور گاؤں مروڑ گیا۔ وہاں پر کچھ ایسے گھرانے تھے جو ہمارے رشتے داروں کے مرید تھے۔ میں ایک رات ان کے پاس رہا۔ انہوں نے مجھے کالی جوار کی روٹی گڑ کے ساتھ پیش کی کیونکہ ان غریبوں کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بہرحال میں نے گنداواہ کا یہ سفر تین دن میں طے کیا۔ تیسرے دن مغرب کے وقت گنداواہ پہنچا اور پھر جھل مگسی چلا گیا۔ میرے پاؤں پھٹ چکے تھے لہٰذا میں تین مہینے تک بوٹ استعمال نہ کر سکا صرف باٹا کے ہوائی چپل پہنا کرتا تھا۔
دوسرا پیدل سفر مجھے ۹۶۹۱ئ میں کرنا پڑا۔ اس وقت میں کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سال دوم کا طالب علم تھا۔ یہ رمضان کے آخری دن تھے اور ہم عید منانے کے لیے گنداواہ جا رہے تھے۔ نوتال پر آ کر معلوم ہوا کہ سیلاب آیا ہوا ہے اور راستہ مکمل طور پر بند ہے۔ چونکہ اس وقت کوئی ڈیم نہیں تھے لہٰذا سردیوں اور گرمیوں میں دو ایک مہینوں کے لیے راستے سیلاب کے باعث مکمل بند ہوا کرتے تھے۔ میرے شہر کے کافی دوسرے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ مجھے اس سفر کی تکلیف کا اندازہ تھا لہٰذا میں واپس جانا چاہتا تھا، لیکن انہوں نے مجبور کیا کہ ہم پیدل چلیں گے۔ لہٰذا مجبوراً ان کا ساتھ دینا پڑا۔ نوتال سے ہم لانڈی شریف آئے اور وہاں سے پھر اسی چھوٹے دیہات مروڑ میں پہنچے جو ہیگن ندی سے دو تین کلومیٹر پہلے ہے۔ سردی بہت سخت تھی۔ ہم سب ایک کمرے میں تھے اور درمیان میں درخت کا ایک تنا جل رہا تھا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، جوار کی روٹی کے ساتھ ہم امرود کھا رہے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ روزہ کیسے رکھیں تین چار آدمیوں کے سوا سب نے یہ کہا کہ ہم روزہ نہیں رکھیں گے۔ رات کا کوئی نو دس بجے کا ٹائم تھا اور تقریباً ہم سب رضائیوں میں جا چکے تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے پوچھا کہ محبوب علی پٹواری کہاں ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ وہ چارپائی پہ سوئے ہوئے ہیں۔ وہ ان پٹواری کے پرانے واقف کار تھے، خود وہاں کے زمین دار تھے، پٹواری سے حال احوال پوچھا اور ان سے کہا کہ آج آپ کی میرے ہاں دعوت ہے۔ جونہی ہم سب مسافروں نے یہ گفتگو سنی، تو سب اپنی رضائیوں سے باہر نکل آئے کیونکہ یہ ایک غیبی امداد لگتی تھی۔ جہاں جوار کی روٹی امرود کھانا پڑے وہاں مرغی، گندم کی روٹی بہشتی خوراک ہی لگ رہی تھی۔ اس سردی میں دودھ کی چائے ایک خدائی نعمت تھی۔ وہ رئیس صاحب یہ تمام چیزیں گھر سے لے آئے پہلے ہم نے چائے بنا کے پی، اس کے بعد سالن تیار کیا اور یہ سب کرتے ہوئے سحری کا ٹائم ہو گیا، ہم نے روزہ رکھا اور پھر صبح کو آگے کے سفر پر چل پڑے۔
سارے دن کے سفر کے بعد ایک سیلابی ندی کے پاس پہنچے جسے مقامی زبان میں ہینگن کہا جاتا ہے۔ یہ دریائے ناڑی کا علاقائی نام ہے۔ یہ ندی اپنے کناروں سے باہر بہ رہی تھی۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ٹانگوں پہ جہاں لگتا تھا ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی چاقو کے ساتھ جسم چیر رہا ہے۔ اس ندی کو اس حالت میں پار کرنا ناممکن نظر آتا تھا۔ ندی کے اس پار ایک چھوٹاسا دیہات تھا جسے اوڈھانہ کہتے ہیں۔
موت صاف نظر آ رہی تھی۔ لہٰذا میں نے اپنے ہی چچازاد بھائی انور شاہ سے کہا کہ اب راستے دو ہیں ، بہادری کی موت یا بزدلی کی، اور فیصلہ کیا کہ ندی تیر کر پار کریں گے۔ ہم لوگ اچھے تیراک تھے کیونکہ بچپن ہی سے اپنے شہر کی دریائے مولا کی سیلابی ندی میں گرمیوں کے تین مہینے مچھلی کی طرح تیرا کرتے تھے۔ بہرحال ہم نے ندی تیر کر پار کی۔ دوسری طرف ہمارے ہی گاؤں کے ماسٹر عبدالعزیز وہاں تعینات تھے، ان کے پاس گئے کیونکہ ہم کپڑوں سمیت تیرے تھے اور سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے۔ وہ اپنے کپڑے لائے، تو ہم نے کپڑے بدلے اور سکول کے کمرے میں ایک موٹے درخت کا تنا جلایا۔ اس آگ کے باعث کافی گھنٹوں کے بعد ہمارے جسم کی سردی ختم ہوئی۔ ہمارے باقی ساتھیوں کی تعداد تقریباً دس تھی مجھے یقین تھا کہ یہ کل کو ہمیں زندہ نہیں ملیں گے، کیونکہ یہ جنوری کی رات تھی اور ان کے پاس اوڑھنے کو کچھ نہیں تھا۔ چاروں طرف گیلی زمین تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے منت مانی کہ کل صبح اگر میں نے انہیں زندہ دیکھا، تو پانچ روپے خیرات کروں گا جو اس وقت کے حساب سے بڑی رقم تھی۔ دوسرے دن یہ زندہ ہی ملے۔ سیلاب کا پانی اُتر چکا تھا۔ ہم نے ندی کے دونوں کناروں پر رسی باندھ کران کے سہارے اور دوسرے تیراکوں کے ذریعے باقی ساتھیوں کو ندی پار کروائی۔ دو دن کا مزید سفر کر کے ہم گنداواہ پہنچے راستے میں کیچڑ اور سردی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ میرے دو پیدل یادگاری سفر تھے جو نوتال سے گنداواہ تک پینتالیس میل پر محیط تھے۔
اس وقت میری عمر کوئی پینتیس چھتیس سال تھی۔ میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ میں جب شہر جاتا تھا، تو ہر بڑی بوڑھی شادی ہی کا پوچھتی تھی اور میں تنگ آ جاتا تھا۔ ایک دن میرے ایک خالہ زاد بھائی عطائ محمد شاہ آئے، وہ ایک چھوٹے سے دیہات فتح پور میں رہتے ہیں ، اس وقت ان کے دیہات میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں تھا۔ وہ میرے ساتھ بیٹھے اور دیہاتی انداز میں بات شروع کی اور کہا ’’بھائی میرے مقابلے میں تمہیں ایک آنہ بھی عقل نہیں ، لیکن تم نے ایک کام اچھا کیا ہے کہ ابھی تک شادی نہیں کی، میں نے ان سے کہا کہ شادی نہ کرنے پر لوگ مجھے پریشان کرتے ہیں اور تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں نے عقل مندانہ کام کیا ہے، آخر وجہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایک جوان بیٹا ہے، میں اسے کہتا ہوں کہ بیلوں کو ندی سے پانی پلا کر آؤ۔ وہ مجھے جواب دے دیتا ہے۔ میں اسے اس لیے نہیں مارتا کہ یہ اب جوان ہے اور اس کے منہ پہ ڈاڑھی آ گئی ہے۔ بددعا نہیں دے سکتا کہ پیروں فقیروں سے مانگ مانگ کر لیا ہے۔ اب کروں ، تو کیا کروں۔ اس وقت مجھے اس کی اس بات پرہنسی آئی کہ مجھے اس کے مقابلے میں ایک آنہ بھی عقل نہیں حالانکہ میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین تھا اور وہ ایک ان پڑھ دیہاتی، لیکن آج شادی اور بچوں کے تجربات کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے یہ بات درست کی تھی کہ مجھے اس کے مقابلے میں ایک آنہ بھی عقل نہیں کیونکہ عقل تجربات اور مشاہدات سے آتی ہے صرف ڈگری اور تعلیم سے نہیں۔
میرے شہر میں ہر طرح سے تبدیلی آ چکی ہے۔ تمام روایتی کھیلیں ختم ہو چکی ہیں اور اب صرف ٹی وی اور کیبل توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ تمام روایتی کھانوں جو کہ اکثر سبزیوں اور دالوں پہ مشتمل ہوا کرتے تھے، ان کی جگہ گوشت اور کڑاہی گوشت نے لے لی ہے۔ سردیوں میں تین ماہ جوار کھائی جاتی تھی۔ مونگ کی دال پکائی جاتی تھی کیونکہ اس وقت مونگ کی فصل آتی تھی۔ سرسوں کا ساگ سردیوں کا خاص کھانا تھا۔ اسے لہسن کا تڑکا لگتا تھا۔ ٹینڈے اور خربوزے عام تھے ٹینڈے اُبال کر بغیر روٹی کے کھائے جاتے تھے۔ خربوزے ایک روپے میں من سے زیادہ ملتے تھے۔ یہ کھانے آج کی مختلف بیماریوں شوگر، بلڈپریشر اور دل کے دوروں کا علاج بھی تھے۔ اب گنداواہ شہر میں ایک سکول نہیں کئی سکول ہیں۔ پاؤں سے کھینچنے والی جھلی کی بجائے پنکھے کولر اور اے سی لگ چکے ہیں لوگوں نے جنریٹرز کا بھی استعمال شروع کر دیا ہے۔ پکی جگہیں بن چکی ہیں ان کے ساتھ اٹیچ باتھ روم بھی ہیں۔ خط کے بجائے ٹیلی فون اور موبائل کا بے تحاشا استعمال ہو رہا ہے۔ گنداواہ کے بس اڈے پر درجنوں کی تعداد میں بسیں ویگنیں اور سوزوکیاں کھڑی ہیں۔ ایک تحصیل دار کی جگہ ہر محلے میں انیس بیس گریڈ کے آفیسر موجود ہیں۔ اب بٹائی نہیں ہوتی صرف عشر لیا جاتا ہے۔ ہل نہیں چلایا جاتا ٹریکٹر چلتے ہیں۔ گندم کو صاف کرنے کے لیے تھریشر موجود ہیں ، زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں اگر نہیں ہیں ، تو موٹرسائیکل اور سائیکلیں بہت ہیں۔ کلہاڑی اور تلوار کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی ہے۔ لباس بھی تبدیل ہو گیا ہے اور اکثر لباس ٹی وی ڈراموں اور فلمی ایکٹروں کے طرز پر ہوتے ہیں۔ یہ یقیناً ترقی ہے، لیکن یہ ترقی مادی ہے۔ میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ لوگ باہر سے بہت خوش ہیں۔ لباس اچھا ہے، گھر اچھے ہیں ، کھانے بھی اچھے ہیں ، لیکن ان کا اندر تباہ ہو چکا ہے۔ پہلے تو کوئی روایت بچی نہیں اگر بچی ہے، تو صرف خالی روایت ہے اس کے پیچھے کا احساس تباہ ہو چکا ہے۔ ہم ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ انصاف ملتا ہے نہ ہمدردی پیسے پورے نہیں پڑتے۔ رشتوں کا احترام ختم ہو گیا ہے اور مزید ختم ہوتا جا رہا ہے۔ معزز لوگ وہ ہیں جنہیں ہم بڑا آدمی، تو کہہ سکتے ہیں ، لیکن خاندانی آدمی نہیں کہہ سکتے۔ وہ اس جگہ پر کسی مثبت کوشش سے نہیں پہنچا بلکہ اس کا یہ مقام جھوٹ بے ایمانی اور چاپ لوسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جوا عام ہے شراب باعث فخر ہے غریب کا رونا دھونا بڑھ گیا ہے۔ عقل مندی کو چالاکی سے بدل دیا گیا ہے۔ چوری ڈاکا اغوا عام ہے۔ اس کا تدارک ناممکن نظر آتا ہے۔ معاشرتی، معاشی، علمی ترقی یا ایسی تبدیلی جس نے ہمارے اندر کو تباہ اور انسانیت کو برباد کر دیا۔
میں جب چھوٹا بچہ تھا، تو بڑے بوڑھوں کی مسجدوں میں دعائیں سنا کرتا تھا۔ یہ اکثر کہا کرتے تھے ’’یہ دنیا ایک گھڑی کی رہائش ہے۔ اے اللہ ہمیں چڑھی جوتی کی موت دینا‘‘ یعنی محتاج کر کے نہ مارنا کسی کو کوئی خوشی حاصل ہوتی تھی، یعنی نوکری ملتی تھی، عہدہ حاصل ہوتا تھا یا زمین وغیرہ خریدتا تھا، تو اس سے کہا کرتے تھے کہ اس میں تمہارے لیے خیر ہو۔ عجیب عجیب دانائی کے قصے بیان کرتے تھے۔ شکوہ کرنے کو سؤر کے گوشت کھانے کے مترادف سمجھتے تھے۔ جھگڑے کی صورت میں فوراً صلح کروایا کرتے تھے۔ ایمان داری کی قدر کرتے تھے اور اس کا پرچار بھی کرتے تھے۔ معاشرتی روایات کو اہمیت دیتے تھے۔ بہادری کے قصے سنایا کرتے تھے اور بزدلی دکھانا موت سے بدتر تصور کرتے تھے۔ ماں باپ اور رشتے داروں کا احترام ان کی روایت تھی۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔
اب میں موجودہ علم اور تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہوں کہ شاید میرے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، صرف میرے تجربے اور علم سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دیہات کے وہ سادہ اور ان پڑھ لوگ جو کچھ کہا کرتے تھے وہی دنیا کی حقیقت اور سچائی تھی۔ علم انہی کے پاس تھا، ہمارے پاس تو بس ڈگریاں اور اصطلاحیں ہیں اور ان کو پیش کرنے کا اچھا انداز ہے اور ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ یہ اصطلاحیں کس حد تک حقیقت اور سچائی پر مبنی ہیں۔ ہمارے پاس ایسا علم ہے جس کا تجربہ ہمارے پاس نہیں کیونکہ یہ علم کسی اور معاشرے سے لیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ ہم پر لاگو نہیں ہوتا اور لاگو ہوتا ہے، تو مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔ لہٰذا بہت حد تک یہ ہمیں خباثت اور نقصان کی طرف لے جاتا ہے۔
جب میں نے سروس شروع کی تو میں اپنے آپ کو ملازم سمجھتا تھا اور میں ملازم اسے سمجھتا ہوں جو سرکار کا ملازم ہو، لیکن جب میں اگست ۵۰۰۲ئ میں سبکدوش ہوا تو میں نوکری کر رہا تھا اور آج نوکری کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ سرکار کا ملازم نہیں بلکہ باس (سربراہِ ادارہ) کا نوکر ہوں۔ یہ بھی ہمارا ایک سفر ہے اور یہ بھی زوال پذیری کا نتیجہ ہی ہے۔
جب میں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تو مجھے گھر میں ڈپٹی ڈی ای او ضلع کچھی کا آرڈر ملا، اصل میں اس وقت معدودے چند لوگ تھے جنہوں نے بلوچستان سے ایم اے کیا تھا۔ ہم سے زیادہ حکومت کو ہماری ضرورت تھی۔ لہٰذا بغیر درخواست کے ملازمت کے لیے تقرری کا حکم نامہ ملا لیکن چونکہ میں نے ابھی ایل ایل بی فائنل کا امتحان دینا تھا جو فروری ۱۹ۂ۷۰ءکو ہونا تھا۔ علاوہ ازیں میرا ارادہ براہ راست لیکچرر بننے کا تھا۔ لہٰذا میں نے ملازمت کی اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔
فروری میں امتحان دیا دو مہینے گنداواہ میں رہا اور پچھتا رہا تھا کہ ملازمت کیوں نہیں کی اور پھر کوئٹہ روانہ ہوا۔ خیال یہ تھا کہ اب جو بھی ملازمت ملی کر لوں گا۔ بس رات آٹھ بجے کوئٹہ پہنچی اس کا ڈرائیور ہندو تھا۔ میں ہاسٹل گیا دوستوں کے پاس اپنا سامان رکھا جب ہاسٹل سے نکلنے لگا تو مجھے میرے ایک ہم جماعت اختر ندیم ملے جنہوں نے بعد میں ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی اور بڑے عہدے تک پہنچے، انہوں نے کہا ’’سر کیا حال ہے؟‘‘ میں نے اسے کہا کہ سر بھی بن جائیں گے مذاق کیوں اڑا رہے ہو۔ اس نے کہا نہیں میں مذاق نہیں اُڑا رہا کیونکہ تین چار دن پہلے آپ کے لیکچرر کے لیے تقرری کے آرڈر ہو گئے ہیں۔ میں صحیح بات معلوم کرنے کے لیے بابو پیر محمد جو ڈائریکٹر ایجوکیشن کے سپرنٹنڈنٹ تھے، کے گھر گیا انہوں نے کہا کہ آپ کا آرڈر ہو گیا ہے اور آپ جلدی جا کر سبی انٹر کالج میں رپورٹ کریں کیونکہ دیر کرنے سے آپ کی سینیارٹی متاثر ہو گی۔ صبح سویرے پھر میں نے سبی کے لیے بس لی، بس وہی تھی جس میں میں رات کو آیا تھا۔ چونکہ پانچ بجے صبح واپس جا رہا تھا تو ڈرائیور نے پوچھا کہ آخر آپ کو کوئٹہ میں کون سا ایسا کام تھا کہ رات آٹھ بجے آئے اور پانچ بجے واپس جا رہے ہو۔
۵۲/ اپریل ۰۷۹۱ئ کو میں نے انٹر کالج سبی میں بطور لیکچرر پولیٹیکل سائنس ملازمت اختیار کر لی۔ اس وقت ریاضی کے پروفیسر عزیز احمد، پرنسپل تھے اور انور کھیتر ان انگلش کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے میری جائیننگ رپورٹ لکھی اور میں نے ملازمت اختیار کر لی۔ میرے دوستوں ساتھیوں میں عزیز جمالی، راجا یاسین، غلام حسین، عبدالسلام جو بعد میں پنجاب چلے گئے، ہمارے ساتھی لیکچرر تھے۔ اس وقت کالج جمالی ہاؤس میں کام کر رہا تھا جو کہ سبی کے جیل روڈ پر جیل خانے کے ساتھ ہی ہے۔ بعد میں کالج کی نئی بلڈنگ بنی جو کہ سبی کی نمائش گراؤنڈ کے ساتھ ہے۔ اور ہم اس میں منتقل ہو گئے۔ سبی کالج اب بھی اسی عمارت میں ہے۔ اس وقت اس کالج میں سبی کے علاوہ کچھی انور ڈیرہ مراد جمالی کے طالب علم بھی پڑھا کرتے تھے۔ ان کے لیے ایک ہاسٹل تھا کالج کا ماحول بہت دوستانہ تھا۔ کلاسیں بہت پابندی کے ساتھ لگا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ تقریری مقابلے ڈرامے وغیرہ بھی ہوا کرتے تھے اور میں ڈرامیٹک سوسائٹی کا انچارج تھا۔ ڈرامے میں کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے تھے کیونکہ اس وقت تفریح کے سامان بہت کم ہوا کرتے تھے۔ اس وقت سبی ایک چھوٹا اور خوبصورت شہر تھا جس کی آبادی ریلوے پھاٹک اسٹیشن روڈ اور ہائی سکول روڈ تک محدود تھی۔ غریب آباد اور سبی لونی روڈ پر ابھی کوئی آبادی نہیں تھی۔ مشہور روڈ لیاقت روڈ تھا جس پر دو چار ہی اچھی دکانیں تھیں۔ ساقی ہوٹل کھانے کے لیے سب سے اچھا ہوٹل تھا اور اس کی سپیشل ڈش بٹیر کا سالن تھا۔ چائے والے ہوٹل بہت تھے۔ ایک سینما ہال تھا اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی حالت میں ، اس میں جب کبھی اچھی فلم لگتی، تو ہم بھی دیکھا کرتے تھے۔
گرمیوں میں سبی بالکل خالی ہو جاتا اور سبی کے متعلق یہ تجزیہ بالکل درست تھا کہ گرمیوں میں لیاقت بازار کے ایک سرے سے گولی مارو تو دوسرے سرے تک چلی جائے کسی آدمی کو نہیں لگے گی کیونکہ کوئی آدمی ہوا ہی نہیں کرتا تھا۔ سیروتفریح کے لیے ہم ناڑی گاج جایا کرتے تھے جو کہ پانی کی ایک تقسیم گاہ ہے انگریز کی تعمیر کردہ مضبوط اور خوبصورت۔ جس کے پانی میں ہم تیرتے تھے مچھلیاں بھی تھیں غرض کہ پکنک کا لطف آ جاتا تھا۔
سبی کا گرد و نواح بہت خوبصورت ہے کیوں کہ وہاں پر پانی کی مستقل ندیاں بھی ہیں اور سیلابی پانی بھی آ جاتا ہے۔ میں اکثر ولاری گاؤں جاتا تھا کیونکہ میرے دوست اختیار خان کا یہ گاؤں سبی کے مشرق کی طرف ہے اور دریائے ناڑی کے کنارے واقع ہے۔ اسی کے ساتھ پیرک کی آثار قدیمہ کی جگہ ہے اس وقت وہاں پر فرانسیسی آثار قدیمہ کے ماہر کام کر رہے تھے۔ وہ پیرس کے رہنے والے تھے مئی کے مہینے میں کام میں مصروف تھے۔ ایک پانی کا مشکیزہ چھپر میں ٹنگا ہوا تھا۔ میں ان سے مل کر بہت خوش ہوا اور یہ سوچتا تھا کہ ان میں اپنے کام سے کس قدر لگن ہے کہ اس گرمی میں بھی خوشی خوشی اپنا کام کر رہے ہیں جبکہ سبی کے لوگ کوئٹہ جاتے ہیں اور کام بند کر دیتے ہیں۔ میں سبی میں اگست ۱۷۹۱ئ تک رہا اس کے بعد میرا تبادلہ ڈگری کالج کوئٹہ میں ہوا اور پھر میں مستقلاً کوئٹہ آ گیا۔
اس وقت کالج کے پرنسپل میرے مرحوم استاد خلیل احمد صدیقی صاحب تھے۔ انہوں نے بزور میرا تبادلہ کروایا تھا۔ لیکن پرنسپل سبی انور کھیتران مجھے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے چونکہ میری اپنی دلچسپی کوئٹہ میں تھی۔ لہٰذا انہوں نے مجھے نہیں روکا۔
یہ ۱۹۷۱ءکے مشرقی پاکستان کے بحرانی دور کا واقعہ ہے کہ ہاسٹل کو بیس ہزار روپے فرنیچر کے لیے ملے میں نے ٹھیکیدار کو بلوایا اور اس سے بات کی۔ بہرحال اس کو آرڈر دے دیا اور اس آرڈر کے دو تین روز بعد ہمارے فنڈ جنگ کی وجہ سے منجمد ہو گئے۔ لہٰذا ہم نے آرڈر کینسل کیا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ یہ اللہ نے مہربانی کی اور ایک امتحان سے بچا دیا۔
اس وقت سیاست عروج پر تھی بلوچستان بحران کا شکار تھا۔ یہ ۱۹۷۳ءکی بات ہے کہ طلبا نے ریلوے گارڈ کو اغوا کر نے کا منصوبہ بنایا اور اس کو اغوا کر لیا۔ دوسرے دن مشرق اخبار میں یہ خبر لگی کہ گارڈ کو اغوا کر کے ڈگری کالج کے ہاسٹل میں رکھا گیا ہے۔ پرنسپل نے مجھے بلایا اور اس کی تصدیق چاہی اور میں نے ان سے کہا کہ جناب ایسا بالکل نہیں ہے میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ کالج سے واپس آ کر جب میں نے طلبا سے حقیقت حال معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب ایسا منصوبہ تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ گارڈ کو اغوا کر کے آپ کے ہاسٹل لے جائیں گے۔ ہم نے جواب دیا کہ ایسا بالکل نہیں ہے لیکن وہاں مسئلہ استاد کے لحاظ کا ہے اگر اس نے تھوڑی سی بھی ہم سے شکایت کر دی تو یہ ہمارے لیے بہت شرمندگی کا باعث ہو گا۔ اصل میں یہ سب کچھ استاد شاگرد کے صحیح تعلق کا نتیجہ تھا۔ میرے خیال میں ایک مشفق قابل اور با کردار استاد چاہے بظاہر کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو شاگرد کبھی اس کے سامنے نہیں آتا۔
میں کالج میں اگست ۱۷۹۱ئ سے نومبر ۳۷۹۱ئ تک رہا اس دوران تین پرنسپل گزرے پہلے خلیل صدیقی صاحب تھے جو بعد میں ڈائریکٹر ایجوکیشن بن گئے۔ اس کے بعد سعید الحسن صاحب آئے اور پھر آخر میں سعید رفیق صاحب آئے۔ مرحوم سعید الحسن انگریزی کے پروفیسر تھے۔ بختیار صاحب ان کے بھائی تھے جو بعد میں بلوچستان یونیورسٹی کے کنٹرولر بھی رہے۔ سعید الحسن صاحب بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ آہستگی اور بے تکلفی سے بات کیا کرتے تھے، ان کی شخصیت مسحور کن تھی۔ ایک دفعہ جب میں پرنس روڈ پر کیفے پہلوی کے سامنے کھڑا تھا تو سائیکل پر وہ میرے سامنے سے گزرے، ان کا سادہ سا لباس تھا۔ میں نے انہیں دیکھ کر سلام کیا یہ سلام دل کی گہرائیوں سے تھا اور اس سلام کے بعد میں سوچنے لگا کہ میں اتنے خلوص اور ادب کے ساتھ شاید صدر پاکستان کو بھی سلام نہ کرتا کیونکہ یہ سلام ایک شاگرد کا اپنے سادہ مشفق اور قابل احترام استاد کے لیے تھا۔
نومبر ۱۹۷۳ءمیں بطور لیکچرر پولیٹیکل سائنس بلوچستان یونیورسٹی میں بھرتی ہوا اور اس کے بعد تمام زندگی اسی ادارے میں گزری۔
بلوچستان یونیورسٹی کا قیام ۱۹۷۰ءمیں ہوا اور یہ بلوچستان کے صوبائی حیثیت حاصل کرنے کے بعد کا تحفہ تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی نے ۱۹۷۳ءمیں پولیٹیکل سائنس کا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس سے پہلے یہ شعبہ گورنمنٹ ڈگری کالج سریاب روڈ میں کام کر رہا تھا۔ میں نے اور صلاح الدین صاحب نے لیکچرار پولیٹیکل سائنس کے لیے درخواستیں دیں۔ ہم پہلے ہی گورنمنٹ ڈگری کالج میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر تھے۔ ہم دونوں کا انتخاب ہوا۔ ہمارا مطالبہ چار انکریمنٹس کا تھا اور یونیورسٹی نے ہمیں صرف دو کی آفر کی صلاح الدین صاحب تیار نہیں تھے۔ میں نے ان کو راضی کیا۔ ڈاکٹر ریاض احمد بھی بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر منتخب ہوئے۔ مارچ ۴۷۹۱ئ سے شعبہ سیاسیات نے پہلے داخلے کیے ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر ریاض یونیورسٹی کو خیر باد کہہ کر اسلام آباد چلے گئے۔ اور صلاح الدین کو وظیفہ ملا اور وہ واپس نہ آنے کے لیے امریکہ روانہ ہوئے ان کا تعلق قدوسی برادران سے تھا۔ ابتدا میں پولیٹیکل سائنس کا شعبہ موجودہ اکنامکس کی لائبریری کے ساتھ تھا جو بعد میں موجودہ جگہ پر منتقل ہوا۔
جب میں یونیورسٹی آیا تو یونیورسٹی کے بہت سارے شعبہ جات قائم ہو چکے تھے اور پروفیسر کرار حسین اساتذہ کی تقرری میں بہت محتاط تھے۔ جو سینئر اساتذہ یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے۔ ان کی اپنی ایک انفرادیت تھی نہ صرف وہ تعلیمی میدان میں ممتاز تھے بلکہ زندگی کے معاملات میں بھی انفرادیت رکھتے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ محترم احسن فاروقی تھے۔ یہ شعبہ انگریزی کے سربراہ تھے اور سبک دوشی کے بعد یہاں تشریف لائے تھے۔ اردو کی پروگریسیو تحریک کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ بہت ہی مشہور ناول ’شام اودھ، کے لکھاری تھے۔ ان کے ساتھ میرا گہرا تعلق تھا۔ ایک دفعہ پروفیسر غلام نبی اچکزئی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے ہم لوگ گلستان جا رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ گاڑیاں رکیں تاکہ چائے پئیں۔ اسی دوران میں نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی عمر کیا ہے۔ وہ مسکرائے اور جواب دیا ’’شاہ صاحب! عمر مرنے کے بعد گنی جاتی ہے۔‘‘ بہت سادہ طبیعت کے تھے ان کے پاس سائیکل ہوتی تھی اور اپنا تمام کام خود کیا کرتے۔ اس وقت کوئٹہ میں گیس تھی نہیں مٹی کے تیل کا بحران ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ گیلن ان کے ہاتھ میں ہے، سائیکل پہ سوار ہیں مٹی کا تیل لینے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے ریلوے پھاٹک پر مجھے ملے میں نے کہا سر ڈبا آپ مجھے دیں میں تیل لے آتا ہوں۔ اس وقت میرے پاس فاکس ویگن گاڑی تھی۔ انہوں نے جواب دیا شاہ صاحب آپ کب تک میرے کام کریں گے۔
چونکہ میرا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے اور زیادہ تر وقت بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں گزرا ہے۔ اس لیے تعلیمی نظام پر ایک نظر ڈالنا میرا فرض بنتا ہے۔ یہ کوئی علمی کام نہیں ہے بلکہ ایک مشاہدہ ہے۔ جو میں نے اب تک بلوچستان کی تعلیم سے متعلق حاصل کیا۔
میں نے بچپن میں محسوس کیا کہ بلوچستان میں تعلیم کو اور معلم کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ معلم دو قسم کے تھے ایک سرکاری اور ایک غیرسرکاری۔ غیرسرکاری معلم کو ’ملا، کا نام دیا جاتا تھا لیکن یہ وہ ملا نہیں تھا جس کو آج منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ ہر محلہ میں ایک ملا ہوتا تھا۔ جو کہ اس محلے کا ایک عقل مند آدمی شمار ہوتا تھا۔ یہ نماز پڑھاتا تھا بچوں کو قرآن مجید ختم کرواتا تھا۔ نکاح پڑھاتا تھا دھاگے تعویذ دیا کرتا تھا۔ اور محلے کے لوگ شرعی معاملات میں اس سے رجوع کرتے تھے۔ علاوہ ازیں بھی اس سے مشورے کیا کرتے تھے۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک پڑھا لکھا دانا اور قابل اعتبار شخصیت شمار ہوتا تھا۔ اس کی تعلیم فارسی میں ہوتی تھی۔ اس کے پاس تعلیم کی کوئی رسمی ڈگری نہیں ہوا کرتی تھی۔ اب ایسے ملا دیہاتوں سے معدوم ہو چکے ہیں۔
معلم کی دوسری قسم وہ اساتذہ تھے جو کہ سرکاری ملازم تھے۔ سرکاری سکولوں میں پڑھایا کرتے تھے۔ بلوچ معاشرے میں ان کی بہت عزت ہوا کرتی تھی۔ خاص طور پر اس کاشاگرد اس کی تمام عمر عزت کیا کرتا تھا۔ اس کو تین وقت کا کھانا کسی گاؤں یا محلے کے معزز کے گھر سے آیا کرتا تھا۔ اور یہ کھانا اس عزت و احترام کے ساتھ دیا جاتا تھا۔ جیسے کہ کسی مہمان کو دیا جائے اس کو کبھی بوجھ تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ان اساتذہ کا تعلق زیادہ تر پنجاب سے ہوتا تھا اور وہ بھی ڈیرہ غازی خان سے۔ یہ سال کے بارہ مہینے اپنی پوسٹنگ کی جگہ پر موجود ہوتے تھے۔ بہت کم گرمیوں اور سردیوں کی رخصتوں میں بھی گھر جایا کرتے تھے۔ اس صورت میں ان کا کام صرف پڑھانا ہوتاتھا اور یہ پڑھانا صرف اسکول ٹائم تک محدود نہیں تھا۔ اس وقت سکول کا ایک انسپکٹر سکولز ہوا کرتا تھا۔ جو کبھی کبھار سکولوں کا دورہ کیا کرتا تھا۔ یہ دورہ اکثر اونٹوں پہ ہوتا تھا۔ لیکن ان کا رعب داب اس قدر زیادہ تھا کہ اساتذہ بارہ مہینے اپنے آپ کو اس دورے کے لیے تیار رکھتے تھے۔ نتیجے کی خرابی کی صورت میں استاد کو سزا ملتی تھی اور اس سزا کو بہت کم کوئی سفارش معاف کروا سکتیتھی۔
سکول کم تھے زیادہ تر پرائمری اور مڈل سکول تک محدود ہوتے تھے۔ کہیں یہ خان قلات کے زیر کنٹرول علاقوں میں آتے تھے۔ تو ان کا انتظام اور مالیات کا مہیا کرنا خان آف قلات کی ذمہ داری تھی۔ قبائلی ریاستیں جیسے مری بگٹی مینگل زہری وغیرہ وہ اپنے سکولوں کے خود ذمہ دار تھے۔ سکولوں کا نظم و نسق بھی ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور مالیات بھی خود مہیا کرتے تھے۔ ان کی تعلیم کی طرف توجہ ان کے خلوص پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ وہ علاقے جو کہ براہ راست تاج برطانیہ کے تحت تھے وہاں سکولوں کا انتظام وہ خود کرتے تھے۔ اس وقت کا مشہور سکول کوئٹہ کا سنڈیمن سکول تھا۔ پورے بلوچستان میں صرف ایک کالج تھا۔ جس کو آج کل ڈگری سائنس کالج کہتے ہیں اس کو بھی آزادی سے صرف کچھ سال قبل یعنی ۲۴۹۱ئ میں قائم کیا گیا۔
آزادی کے بعد تعلیم اپنے سابقہ معیار کے مطابق چلتی رہی۔ بلکہ حکومت نے اس کی طرف توجہ مرکوز رکھی۔ تعلیم معیار کافی اچھا تھا اساتذہ مخلص اور محنتی تھے۔ گو کہ ان کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں تھیں۔ وہ باقاعدگی سے کلاسیں لیا کرتے تھے۔ سالانہ نتائج درست ہوا کرتے تھے۔ ان نتائج کی خرابی پر واقعی پوچھ گچھ ہوا کرتی تھی۔ اور سزا بھی دی جاتی تھی۔ جو اکثر انکریمنٹ رکنے کی شکل میں ہوا کرتی تھی۔ ۱۹۶۹ءمیں ون یونٹ ٹوٹ گیا۔ بلوچستان نے صوبائی حیثیت حاصل کر لی۔ ون یونٹ کا ٹوٹنا میرے خیال میں بلوچستان کی تعلیم پر قہر الٰہی بن کے گرا۔ اور یہ سب کچھ سیاست دانوں کے غیر معیاری اور بچگانہ عمل کا نتیجہ تھا۔ بلوچستان کے سیاست دانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان تمام اساتذہ کو جو ون یونٹ کے دوران ملازم ہوئے تھے۔ واپس پنجاب بھیجیں گے لیکن تھوڑے تھوڑے کر کے۔ پنجاب کے چیف منسٹر غلام مصطفی کھر نے کہا کہ اگر بھیجنے ہیں تو ٹرینیں بھر کے بھیجو بات جذباتیت میں چلی گئی اور پنجاب کے تمام اساتذہ کو بھیج دیا گیا۔ تعلیم میں یہ ایسا خلا پیدا ہوا جس کو شاید کبھی بھی بھرا نہ جا سکے۔ ان اساتذہ کی جگہ اپنے علاقے سے اساتذہ لگائے گئے۔ یہ استاد کم تھے قبائلی لوگ زیادہ یعنی یہ کلاس نہ لینا اپنی قبائلی بڑائی سمجھتے تھے۔ اگر کہیں ہیڈماسٹر نان لوکل ہوتا تھا تو پھر اس کی بات جے وی ٹیچر بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ کلاسیں خالی ہوتی تھیں۔ اساتذہ ایک گھنٹے کے لیے سکول تشریف لاتے تھے۔ اپنی کلاس لے کر واپس چلے جاتے تھے۔ اور اگر قبائلی دشمنی ہو تو استاد اپنے ساتھ بندوق بھی لاتا تھا۔ جو اس کی کرسی کے ساتھ رکھی ہوتی تھی۔ ایسا نظارہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ زیادہ تر اساتذہ سفارش پہ بھرتی ہوا کرتے تھے۔ میرے ہی شہر کا قصہ ہے کہ جے وی اساتذہ کے لیے دس نوکریاں آئیں لیکن امیدواروں کی تعداد بیس تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ قرعہ اندازی کریں گے اور قرعہ اندازی میں نام کسی ایسے شخص کا نکلا۔ جو نقل کر کے میٹرک تو کر چکا تھا۔ لیکن چرس پینے اور بیچنے کے جرم میں چھ ماہ کی سزا کاٹ چکا تھا۔ بہرحال وہ ٹیچر بنا۔
انحطاط کا ایک طرف یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک سو فیصد طلباء کامیاب ہوتے تھے۔ یعنی مسئلہ امتحان نہیں تھا بلکہ سال گزرنا اور سالوں کا حساب کتاب ہوتا تھا۔ پرائمری کا امتحان بھی پچھلی ہی طرز پر ہوتا تھا۔ لیکن پرچے اساتذہ خود حل کرتے تھے اور پہلی دوسری تیسری پوزیشن کی بنیاد علمی قابلیت نہیں بلکہ اثرورسوخ ہوا
٭٭٭