قلعہ پھروالہ (یا پھرہالہ) مشہور گکھڑ سردار، سلطان کیگوہر نے ۱۰۰۸ئ سے ۱۰۱۵ئ کے دوران تعمیر کیا تھا۔ یاد رہے کہ سلطان کیگوہر دراصل اس علاقے کا حکمران تھا جو اب بلتستان کہلاتا ہے لیکن اپنے خلاف ایک بغاوت کے نتیجے میں اسے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی جس کے بعد اس نے غزنی پہنچ کر امیر سبکتگین کے پاس پناہ حاصل کر لی۔ وہ ایک عرصہ تک وہیں مقیم رہا لیکن ہندوستان پر محمود غزنوی کے دوسرے حملے کے دوران وہ بھی اس کے ہمراہ یہاں آگیا۔ سلطان نے واپس جاتے ہوئے اسے دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے کی حکمرانی بخش دی۔ صدیوں تک یہ قلعہ اس علاقے میں گکھڑوں کے اقتدار کی علامت بنا رہا تاوقتیکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔
بعض محققین کے نزدیک اس قلعے کی بنیاد کسی اور کے ہاتھوں رکھی گئی تھی لیکن اس اختلاف سے قطع نظر اس قلعے کی قدامت امرِ مسلّمہ ہے۔ ’پاکستان کے آثار قدیمہ، کے مصنف راجہ محمد عارف منہاس کے الفاظ میں ’’اس کا ذکر متعدد بار تاریخی کتب میں آیا ہے. بلبن نے منگولوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے کوہستان نمک سے لے کر دریائے اٹک تک متعدد چوکاخں بنوائیں اور پہلے سے موجود قلعوں کو ازسرِنو مستحکم کیا۔ ان قلعوں اور چوکیوں کے ناظم اعلیٰ کی رہائش یہاں ہوتی تھی۔ دوسری بار اس قلعہ کا ذکر علاؤالدین خلجی کے دور میں آیا۔ علاؤ الدین خلجی نے اس قلعہ کو اپنی سرحدی فوج کا ہیڈکوارٹر قرار دیا تھا. تیسری بار فرؤوز شاہ تغلق کے عہد میں یوں ذکر آیا کہ فیروزشاہ نے دودہ شاہ حقانی کے مزار پر حاضری دی، مقبرہ بنوایا اور قلعہ پھر والہ میں قیام کیا۔‘‘ تزک بابری سے اس قلعے میں بابر کی آمد بھی ثابت ہے۔ اسی طرح ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھائی تو وہ پھر والہ ہی آنا چاہتا تھا مگر اس نے اپنے بھائی کامران مرزا سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ادھر آنے کے بجائے سندھ کا رخ کر لیا۔ کئی سال کی جلاوطنی کے بعد جب ہمایوں واپس آیا تو روایت کے مطابق اس نے اسی قلعے میں شہزادہ کامران کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا کراُسے اندھا کیا تھا۔
قلعہ پھروالہ کی اسی تاریخی اہمیت کے پیش نظر میں اسے اپنی اولیں فرصت میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن سچ پوچھیں تو مجھے قطعاً علم نہ تھا کہ یہ قلعہ اسلام آباد سے بمشکل سوا گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہ تو اﷲ بھلا کرے قربان کا جنھوں نے بیٹھے بٹھائے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ ’’میرے بہت عزیز دوست ہیں ، سید نجابت حسین شاہ فوجی فاؤنڈیشن میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ انہیں ساتھ لے چلیں گے تو وہاں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔‘‘ یوں ایک روز ہم تینوں محفوظ آباد سے ہوتے ہوئے اس مقام پر جا پہنچے جہاں پختہ سڑک ختم ہو جاتی ہے اور قلعہ پھروالہ کی پرشکوہ عمارت دیکھتے ہی ظہیرالدین بابر کا وہ بیان یاد آ جاتا ہے جس کے مطابق ’’پھروالہ ایسی جگہ پر واقع ہے جس کے دونوں طرف بڑے بڑے کھڈ ہیں اور برابر آدھ میل تک ان کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا ہے۔ چار پانچ جگہ تو یہ کھڈ نالے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔‘‘
’’آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘ ہمیں کار سے اترتے دیکھ کر ایک راہ گیر نے سوال کیا۔
’’اسلام آباد سے‘‘ میں نے جواب دیا ’’قلعہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن یہاں آ کر احساس ہوا کہ قلعے میں داخلے کا صحیح راستہ شاید کوئی اور ہے۔‘‘
’’ویسے تو آپ ادھر سے بھی جا سکتے ہیں لیکن آپ دیکھ رہے ہیں نا، پہلے اترائی ہے، پھر ندی کے بیچ میں سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد قلعے تک پہنچنے کے لیے کافی چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ اگر آپ ہمت کر سکیں تو میرے ساتھ آ جائیں ، میں وہیں جا رہا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے آپ شاید اتنا تردّد نہ کر سکیں۔‘‘
’’گاڑی کا کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا؟‘‘ قربان نے پوچھا۔
’’جی ہے لیکن اس کے لیے آپ کو سواں کہوٹہ روڈ پر علیوٹ سے مڑنا پڑتا ہے۔ علیوٹ سے اس قلعے تک سڑک نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام راستہ پتھریلا ہے اس لیے یہ سفر صرف اچھی جیپ کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔، ،جواب ملا۔
’’یہ پروگرام تو کسی چھٹی کے روز ہی بن سکتا ہے۔ ‘‘ نجابت نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ’’صبح صبح گھر سے چل کردوپہر سے پہلے قلعے پہنچا جا سکتا ہے اور شام تک واپسی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ضرور بنائیں یہ پروگرام اور مجھے قبل از وقت بتا دیں تو آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘‘ مسافر نواز نے جواب دیا۔
’’لیکن آپ سے رابطہ کیسے ہو گا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میرا نام سلطان مسعود ہے۔ میرا فون نمبر لکھ لیں۔ بس ایک روز پہلے بتا دیں تو میں آپ کا منتظر رہوں گا۔‘‘
اس کے بعد سلطان مسعود نے ہم سے اجازت طلب کی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑی سے اتر کر بہتی ہوئی ندی کو عبور کیا اور پھر چڑھائی چڑھتے ہوئے قلعے کی بھول بھلیوں میں غائب ہو گیا۔
’’اتنا آسان کام تھا۔ خواہ مخواہ اس نے ہمیں ڈرا دیا۔‘‘ قربان نے کہا ’’ ہم اس قلعے کا ٹنٹنا آج ہی ختم کر سکتے تھے۔‘‘
’’قلعے کا ٹنٹنا ختم کرتے کرتے ہم اپنا ٹنٹنا ہی نہ ختم کر بیٹھیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ہم بھول رہے ہیں کہ یہ شخص یہیں کا رہنے والا ہے اس لیے وہ تو چھلاوے کی طرح ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے لیکن ہم اگر ایک بار یہ کھائی پار کر بھی گئے تو واپسی آسان نہ ہو گی۔‘‘
ایک مشکل سے راستے سے ہوتے ہوئے ہم ایک بہت بڑی چٹان پڑ بیٹھ گئے جہاں سے قلعے کا منظر اور واضح ہو گیا تھا۔
’’کاش ہم اپنے ہمراہ کیمرہ لے آتے تو اس خوبصورت منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر سکتے تھے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’خیال ہی نہیں رہا۔‘‘ قربان نے جواب دیا ’’ورنہ یہ تو کوئی ایسی مشکل بات نہ تھی۔‘‘
سفر خواہ مختصر ہو یا طویل اور آسان ہو یا مشکل، مسافر کو تھکا ہی دیتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا تھا۔
’’ہم اس تھکن کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔‘‘ نجابت نے خوشخبری سنائی ’’میں آتے ہوئے چکن سینڈوچز اور چائے کا سامان ساتھ لے آیا تھا۔ ‘‘
ہم ان سینڈوچز سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ کسی اجنبی نے بہ آواز بلند سلام کر کے ہمیں چونکا دیا۔ ’’میر انام راجہ گل اصغر ہے۔ پھر والہ کا رہنے والا ہوں ‘‘ اس نے بتایا اور پھر پوچھنے لگا ’’آپ یہاں کیسے بیٹھے ہیں ؟‘‘
جب ہم نے اس کو تفصیلی جواب دیا تو وہ کہنے لگا
’’آپ دن کو آتے تو اس قلعے کی سیر سے کماحقہ لطف اندوز ہو سکتے تھے۔‘‘
’’اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔ اﷲ نے چاہا تو ہم یہ قلعہ اندر سے دیکھنے کے لیے دوبارہ آئیں گے۔‘‘
’’ضرور، لیکن مجھے میزبانی کا موقع دینا نہ بھولیے۔‘‘ پھر اس نے کہا ’’آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم آج بھی بہت مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تو غنیمت ہے کہ یہاں تک سڑک بن گئی ہے لیکن اگلا راستہ خاصا مشکل ہے۔ برسات میں سواں کا پانی چڑھ جاتا ہے تو جان کو خطرے میں ڈالے بغیر یہاں سے گزرا نہیں جا سکتا۔ کاش! حکومت یہاں پل بنا دے اور اگر وہ پختہ پل کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی تو رسوں کے پل سے بھی کام چل سکتا ہے لیکن کوئی کچھ کرے تو سہی۔‘‘
’’اسمبلی میں اپنے نمائندے کے ذریعے یہ مطالبہ اوپر پہنچائیں۔‘‘ نجابت نے تجویز دی۔
’’سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے، لیکن کوئی ہماری نہیں سنتا۔ آپ شاید جانتے ہوں گے کہ اس گاؤں نے کئی معتبر افراد کو جنم دیا ہے لیکن وہ بھی شہروں ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ مجھے نہیں یاد ان میں سے کوئی کبھی یہاں آیا ہو حالانکہ ان کے آباؤ اجداد کی ہڈیاں اسی مٹی میں دفن ہیں۔‘‘ گل اصغر کے لہجے میں شکوہ تھا۔
جب ہم پھر والہ کی طرف رواں دواں گل اصغر کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کر رہے تھے تو ایک بار پھر احساس ہوا کہ قلعہ پھروالہ کی فصیل اونچے نیچے پہاڑوں پر کس شان سے دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور اگرچہ جزئیات زیادہ واضح نہیں ہیں ، اندازہ ہو رہا ہے کہ اپنے محلِ و قوع کے اعتبار سے یہ قلعہ واقعی ناقابل تسخیر ہو گا۔
’’میں نے پڑھا ہے کہ اس قلعے کے چھ دروازے ہیں ، ہاتھی دروازہ، قلعہ دروازہ، لشکری دروازہ، زیارت دروازہ، باغ دروازہ اور بیگم دروازہ ،اور یہ کہ اس قلعے میں ہر وقت سوہاتھی، پانچ ہزار گھوڑے اور دس ہزار پیادہ فوج موجود ہوا کرتی تھی۔‘‘ میں نے اپنے رفیقان سفر کو بتایا ’’لیکن اب اس کی فصیل گر رہی ہے اور دروازے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ آثار قدیمہ والوں کی اس طرف توجہ ہے نہ کسی اور کو اس جگہ کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے۔ بنانے والوں کا کمال دیکھیں کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود قلعہ ابھی تک قائم ہے ورنہ جس طرح یہ عمارت نظرانداز ہوتی رہی ہے اسے بہت پہلے صفحۂ ہستی سے مٹ جانا چاہیے تھا۔‘‘ ’’کیا لکھا ہوا ہے کتابوں میں ؟‘‘ قربان نے سوال کیا۔
’’فصیل اور دروازوں کے علاوہ کوئی پرانی عمارت اب پورے طور پر باقی نہیں ہے۔ گاؤں کے سارے گھر زمانہ حال ہی میں تعمیر ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے جواباً کہا۔
ہمیں افسوس تھا کہ ہم نہ تو یہ قلعہ اندر سے دیکھ سکے اور نہ وہ مسجد اور مزار جو دریائے سواں کے اسی پار قدرے بلندی پر واقع ہیں۔ ہمارے راستے میں تو تنگی وقت حائل تھی، آپ کو تو ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے لہٰذا آپ یہ قلعہ ضرور دیکھیے لیکن جائیں سواں کہوٹہ روڈ کی طرف سے۔
اگر ہم قلعہ پھروالہ سے واپس جی ٹی روڈ پر آ جائیں تو روات پہنچ جاتے ہیں جو ایک قدیم آبادی کا نام ہے۔
بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ روات کا پررونق بازار ہی اس کی پہچان نہیں بلکہ اس کی اصل پہچان وہ قلعہ ہے جو جی ٹی روڈ کے دائیں ہاتھ واقع ہے۔
یہ قلعہ سڑک سے نظر نہیں آتا لیکن یہاں پہنچنا چنداں مشکل نہیں۔ اگر روات کے مرکزی بازار میں سے گزر کر ذرا پیچھے چلے جائیں تو پرانے وقتوں کی ایک پُرشکوہ عمارت نظر آتی ہے۔
یہی قلعہ روات ہے جبکہ بعض محققین کے نزدیک یہ عمارت دراصل سرائے کے طور پر تعمیر ہوئی تھی اور اس کا نام سرائے رباط ہوا کرتا تھا جو بگڑتے بگڑتے روات بن گیا۔
٭٭
’پاکستان کے آثار قدیمہ، کے مصنف راجہ محمد عارف منہاس کے الفاظ میں ’’قلعہ روات کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو چاروں طرف ڈھائی ضرب ڈھائی مربع گز کی کوٹھڑیاں ہیں۔ تین اطراف، شمال، جنوب اور مشرق میں بیس بیس کوٹھڑیاں ہیں۔ اس کے تین گیٹ ہیں۔ جنوبی گیٹ پتھروں سے بند کر دیا گیا ہے. تاہم شمالی اور صدر دروازہ اصلی حالت میں ہیں مگر ان کی ڈاٹیں ، محرابیں اور طاق ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں . صدر دروازے سے داخل ہوں تو. دونوں طرف . دو کمرے ہیں . دونوں کمروں میں پہریدار رہا کرتے تھے۔ پوری عمارت. پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ بعض دیواروں ، محرابوں ، گنبدوں ، ڈاٹوں اور طاقوں میں چھوٹی اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔‘‘ اس قلعے کی سب سے قابل دید چیز وہ رفیع الشان مزار ہے جو ناک نقشے میں ملتان کے بعض مشہور مزارات سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ ہشت پہلو گنبد دار مزار جو کسی وقت خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہو گا اب اپنی تمام شان و شوکت کھو چکا ہے۔ اور تو اور قبر کا نشان بھی مٹ چکا ہے اور اس کی چھت ابابیلوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے تاہم اس کے در و دیوار وقت کے بے رحم تھپیڑوں کا انتہائی ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس مزار کے خدوخال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کوئی اہم شخصیت دفن ہے۔
’’معلوم نہیں یہ مزار ہے کس کا۔‘‘ قربان نے کہا۔
’’اس سوال کا صحیح جواب دینا مشکل ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’لیکن میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ یہاں پر سلطان سا رنگ آسودۂ خاک ہے۔‘‘
سلطان سا رنگ تھا کون، یہ جاننے کے لیے یاد رکھنا ہو گا کہ جب ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں شکست ہوئی تو اس نے اپنے بھائی، کامران سے مدد چاہی۔ کامران اس وقت پنجاب کا گورنر تھا چنانچہ ہمایوں نے اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ پنجاب کا رخ کیا تاکہ وہ کامران کی مدد سے شیر شاہ سوری کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کر سکے لیکن کامران نے اس کی مدد سے صاف انکار کر دیا۔ اس طرف سے مایوس ہو کر ہمایوں نے دان گلی کے مقام پر سلطان سارنگ سے رجوع کیا جس نے اس آڑے وقت میں بصدق دل ہمایوں کی ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا۔
اس اثنا میں شیر شاہ سوری کی فوجیں ہمایوں کا تعاقب کرتے ہوئے کسی بڑی مزاحمت کے بغیر لاہور پر قابض ہوچکی تھیں اور کامران اس حملے کی تاب نہ لا کر کابل کی طرف بھاگ چکا تھا لہٰذا ہمایوں نے خوشاب کے والی، حسین سلطان سے فوجی مدد حاصل کرنا چاہی۔ جب شیر شاہ سوری کو علم ہوا تو اس کی فوج نے خوشاب پر دھاوا بول دیا چنانچہ ہمایوں مجبوراً اُچ اور بھکر سے ہوتا ہوا سندھ کا صحرا عبور کر کے ایران چلا گیا۔
جب شیر شاہ سوری کو پتا چلا کہ ہمایوں اور کامران، دونوں ملک سے فرار ہو گئے ہیں تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے ہمراہیوں کو انعام و اکرام سے نوازا اور ان میں سے بعض کو مقبوضہ علاقے میں جاگیریں بھی عطا کیں۔
اب اس نے اپنا ایک ایلچی سلطان سارنگ کے پاس بھیجا تاکہ اسے اپنے ساتھ ملایا جا سکے۔ اس تعاون کے بدلے شیر شاہ سوری نے سارا پنجاب اس کے سپرد کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن سلطان سارنگ نے ہمایوں کے ساتھ اپنے وعدے کی وجہ سے ایلچی کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا۔
شیر شاہ سوری سلطان سارنگ کے اس رویے سے بے حد ناراض ہوا اور اس نے اپنے جرنیل خواص خان کی کمان میں ایک بڑا لشکر اسے سبق سکھانے کے لیے بھیجا۔ سلطان نے بھی مقابلے کے لیے اپنی فوجیں تیار کیں۔ ۲۴۵۱ئ میں روات کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی جس میں بالآخر سلطان کو شکست ہوئی اور وہ اپنے سولہ بیٹوں سمیت میدان جنگ میں داد شجاعت دیتا ہوا مارا گیا۔ ان ہی دنوں شیر شاہ سوری کو اطلاع ملی کہ بنگال کے گورنر خضر خان ببرک نے بغاوت کر دی ہے چنانچہ وہ خود تو یہ بغاوت فرو کرنے کے لیے اودھ چلا گیا اور خواص خان کو پھےص چھوڑ کر اسے جہلم سے کوئی دس میل شمال مغرب کی طرف گکھڑوں کی روک تھام کے لیے ایک قلعہ بنانے کا حکم دیاجو اب قلعہ رہتاس کے نام سے مشہور ہے۔ ہمایوں اپنی طویل جلاوطنی کے بعد واپس آیا تو اس نے پھروالہ کے مقام پر سلطان سارنگ کے بیٹے، آدم خان کے مہمان کی حیثیت سے قیام کیا۔ ہمایوں نے اس کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کی تجدید کی، فوج کومنظم کیا اور بالآخر اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
آدم خان نے پوٹھوہار کا حاکم بنتے ہی سلطان سارنگ کی قبر پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کیا۔ مقبرے کی تعمیر میں سنگِ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھر استعمال کیے گئے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے یہ سارے پتھر اکھاڑ کر مقبرے کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔
ہمایوں اور سلطان سارنگ نے جس دوستی کی بنیاد رکھی تھی وہ اکبر اور اس کے بعد بھی قائم رہی تاوقتیکہ خود مغلیہ سلطنت طوائف الملوکی کا شکار ہو گئی اور سکھ گکھڑوں کے علاقے پر قابض ہو گئے۔ چونکہ یہ قلعہ صرف فوجی اغراض کے لیے استعمال ہوتا تھا اس لیے اس میں رہائشی تعمیرات نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے یہ قلعہ، قلعہ رہتاس اور اسی نوعیت کے دوسرے قلعوں سے مختلف ہے۔
ہشت پہلو مزار کے علاوہ اس قلعے کی ایک قابلِ دید چیز یہاں کی تین گنبدوں والی مسجد ہے۔ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ مسجد شدید بے حرمتی کا شکار ہوئی اور اس کی چھت اڑا دی گئی۔ اہل روات نے حالیہ برسوں میں اسے دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ یوں اس کی قدامت کو تو شدید صدمہ پہنچا ہے تاہم اس کے در و دیوار سے اب بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسجد اپنے وقت میں فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہو گی۔ قلعے کے صحن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آدھے حصے کو آج کل بچے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ باقی نصف حصہ قبروں سے اٹا پڑا ہے لیکن ان میں سے کسی قبر پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ اب تک کوئی قبر کسی ’’بابے‘‘ کی طرف منسوب نہیں ہوئی چنانچہ نہ کسی قبر پر دیا جلتا ہے نہ کوئی جھنڈا نصب ہے۔ یہ بے نام قبریں یقینا ان ہی لوگوں کی ہوں گی جو خواص خان اور سلطان سارنگ کے درمیان جنگ میں کام آئے ہوں گے۔
قلعے کے اندر کھیل کے میدان کی موجودگی گرد و نواح کے بچوں کے لیے باعثِ کشش ہے اور مسجد کی وجہ سے نماز باجماعت ادا کرنے والوں کی آمد و رفت یہاں رہتی ہے لیکن پھر بھی اس کے در و دیوار بربادی و ویرانی اور بے ثباتی زمانہ کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
روات سے ایک سڑک جو لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک سے منسوب ہے ان کے آبائی گاؤں ، موضع پنڈوری سے چک بیلی خان ہوتی ہوئی ضلع چکوال کے قصبہ ڈھڈیال میں جا نکلتی ہے۔ جنگ ستمبر کے ایک ہیرو، ان ہی اختر حسین ملک کے چھوٹے بھائی تھے جو بعداز وفات پنڈوری میں دفن ہوئے۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک کا ذکر کر رہا ہوں جنہوں نے چونڈہ کے محاذ پر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی میں اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
حالیہ مرمت اور توسیعی کے بعد اختر حسین ملک روڈ بہت بہتر ہو چکی ہے۔ اگر آپ بھی لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک ایسے سپوت کی قبر پر حاضری دینا چاہیں تو میرے ساتھ رہیے، پھر ایسا موقع نہ جانے کب ملے۔
٭٭٭