عام طور پر جب ہم امریکا کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے صرف شمالی امریکا کے براعظم کا وہ ملک مراد ہوتا ہے جسے ریاست ہائے متحدہ یا انگریزی میں یونائیٹڈ اسٹیٹس کہتے ہیں اور جو اس وقت دنیا کی سُپر پاور کی حیثیت سے مشہور ہے۔ درحقیقت امریکا دو بڑے براعظموں کا نام ہے۔ ایک براعظم شمالی امریکا ہے جس کا سب سے بڑا ملک کینیڈا ہے اور ریاست ہائے متحدہ اور میکسیکو بھی اُسی میں واقع ہیں۔ دوسرا براعظم جنوبی امریکا کہلاتا ہے جو کولمبیا سے ارجنٹائن اور چلی تک پھیلا ہوا ہے۔ شمالی امریکا کے انتہائی جنوبی سرے پر خشکی کی ایک لمبی پٹی ہے جس پر میکسیکو سے لے کر پانامہ تک بہت سے چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں۔ یہ علاقہ اگرچہ شمالی امریکا کے براعظم میں شامل ہے، لیکن اصطلاح میں اِسے وسطی امریکا کہتے ہیں۔ یہاں انگریزی کے بجائے دوسری رومن زبانیں مثلاً اسپینی، پرتگیزی یا فرانسیسی زبانیں بولتے ہیں ، انہیں لاطینی امریکا کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ لاطینی امریکا اور جنوبی امریکا کو ہم معنی سمجھتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے۔ اگرچہ جنوبی امریکا کا پورا براعظم لاطینی امریکا میں شامل ہے لیکن لاطینی امریکا میں میکسیکو بھی داخل ہے جس کا ایک بڑا حصہ شمالی امریکا میں ہے نیز وسطی امریکا کے تمام ممالک بھی لاطینی امریکا کہلاتے ہیں جو زیادہ تر اسپینی زبان بولتے ہیں۔ شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے درمیان بحراوقیانوس (Atlantic Ocean) سے ملا ہوا ایک سمندر ہے جسے بحیرۂ کیریبین (Carrabian Sea) کہا جاتا ہے۔ اس سمندر میں کئی جزیرے ہیں جنہیں جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) کہتے ہیں۔ ان میں سے ہر جزیرہ اب مستقل ملک بن چکا ہے۔ برٹانیکا کے مطابق ان جزیروں کو بھی لاطینی امریکا کی اصطلاح میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
میں ان صفحات میں اپنے جس سفر کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ، وہ جنوبی امریکا کے ملک برازیل، وسطی امریکا کے ملک پانامہ، اور جزائر غرب الہند کے دو ملکوں ٹرینیڈاڈ اور باربے ڈوس پر مشتمل تھا۔ چونکہ وسیع تر معنی میں یہ سارے ممالک لاطینی امریکا کے حصے ہیں ، اس لیے عنوان میں اسے لاطینی امریکا کا سفر قرار دیا گیا ہے۔
تقریباً ڈھائی سال سے پانامہ اور ٹرینیڈاڈ کے بعض مسلمانوں کی طرف سے مجھے ان ممالک کا دورہ کرنے کی دعوت مل رہی تھی لیکن چونکہ یہ ملک ہم سے بہت دور واقع ہیں اور ان کے سفر کے لیے لمبا وقت درکار تھا اس لیے یہ سفر ٹلتا رہا، یہاں تک کہ میں اس سال کے تقریباً تین ہفتے اس سفر کے لیے فارغ کر سکا۔ پہلے پانامہ جانے کا خیال تھا اور اس کے بعد ٹرینیڈاڈ۔ پانامہ جانے کے لیے کئی راستے ممکن تھے لیکن کئی وجوہ سے مجھے برازیل کے راستے جانا زیادہ مناسب معلوم ہوا اور خیال ہوا کہ چند روز برازیل میں بھی گزار لیے جائیں اور اس طرح برازیل بھی اس سفر میں شامل ہو گیا۔ پھر جب باربے ڈوس کے کچھ احباب کو میرے اس سفر کا علم ہوا تو انہوں نے وہاں آنے کے لیے بھی اصرار کیا یوں آخری دو دن وہاں بھی حاضری ہوئی۔
جمعرات صبح ساڑھے دس بجے دبئی سے امارات ایئرلائنز کی پرواز سے برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤپالو کے لیے روانگی ہوئی۔ دبئی سے ساؤپالو کا فاصلہ تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر ہے، اور امارات ایئر لائنز نے ساؤپالو کے لیے براہِ راست پرواز جاری کی ہوئی ہے جو تقریباً ساڑھے پندرہ گھنٹے میں ساؤپالو پہنچاتی ہے۔
ہوائی اڈے پر ہمارے میزبان جناب علی احمد الصیفی استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ اصلاً لبنانی ہیں اور ان کے والد عرصۂ دراز سے برازیل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بڑی محبت سے برازیل کے قیام کے دوران ہماری میزبانی کی۔ ساؤپالو برازیل کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے جو تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔ علی احمد الصیفی صاحب نے اپنے گھر کے قریب ہوٹل نما فلیٹ میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا تھا۔ برازیل جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ملک ہے جو بتیس لاکھ چھیاسی ہزار چار سو ستاسی مربع میل میں پھیلا ہوا ہے اور اس طرح پورے براعظم کا تقریباً آدھا رقبہ اُس کے پاس ہے اور جنوبی امریکا کے ممالک میں سب سے زیادہ آبادی بھی اسی کی ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی تک دنیا کو اس علاقے کا علم نہیں تھا، ۱۵۰۰ئ میں پرتگالی بحریہ کے ایک کمانڈر پیڈرو ایلورس کیبرال(Pedro Alvares Cabral) جو کولمبس اور واسکوڈے گاما کی طرح ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے نکلا تھا، بھٹک کر جنوبی امریکا کی طرف آنکلا اور اُس نے برازیل کا یہ علاقہ دریافت کیا۔ اُس وقت یہاں جو قوم آباد تھی اُس کے حالات نامعلوم ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ غیر متمدن قوم تھی۔ رفتہ رفتہ جب پُرتگالیوں کو معلوم ہوا کہ یہاں قدرتی وسائل بہت ہیں تو انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس ملک کو پرتگال کی نو آبادی قرار دے دیا۔ اسی لیے اس ملک میں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے۔ پرتگال کے تسلط کے بعد اس علاقے کے اصل باشندے دور دراز کے دیہاتی علاقوں تک محدود ہو گئے۔ یہاں آبادی کی بہت بڑی تعداد تو وہ تھی جو پرتگال سے آ کر رہنے لگی تھی، اس کے علاوہ پرتگالی حکومت افریقہ کے بہت سے سیاہ فاموں کو غلام بنا کر یہاں اس لیے لائی کہ اُن سے یہاں کھیتی باڑی کا کام لیا جائے، یوں سیاہ فام افریقیوں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہو گئی۔ ادھر یورپ کے دوسرے علاقوں سے بھی بہت سے سفید فام لوگ آ کر آباد ہوئے اور ان مختلف النسل لوگوں کے درمیان شادی سے ایک ملی جلی قوم پیدا ہو گئی۔ سولہویں صدی سے انیسویں صدی کے آغاز تک برازیل پرتگال کے قبضے میں رہا، یہاں تک کہ اس میں آزادی کی تحریک چلی، اور آخرکار ۷ / ستمبر ۱۸۲۲ئ
÷ کو اُس نے پرتگال سے آزادی حاصل کر کے علیحدٰہ ملک کی حیثیت اختیار کر لی۔ آزادی کے بعد یہاں کے قدرتی وسائل اور تجارت و صنعت کے مواقع کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں سے لوگ ترکِ وطن کر کے یہاں آباد ہوئے جن میں افریقہ کے علاوہ یورپ اور عرب ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔ انہی عرب لوگوں میں سے بہت سے مسلمان بھی تھے جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان میں ساٹھ فی صد کے قریب تعداد برازیلی نومسلموں کی ہے، ان کے بعد زیادہ تر مسلمان عربی النسل ہیں ، ان میں بھی لبنان کے باشندے زیادہ ہیں۔ اب پاکستانیوں کی بھی تھوڑی سی تعداد موجود ہے۔
برازیل میں مرغیوں کے فارم اتنے زیادہ ہیں کہ وہ دنیا بھر میں مرغیوں کا گوشت برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بھی بکثرت مرغیوں کا گوشت برازیل سے جاتا ہے اور اگرچہ اس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ اسلامی طریقے پر ذبح کی ہوئی مرغیوں کا گوشت ہے، لیکن اُس کی حقیقت کے بارے میں ہمیشہ شک و شبہ ہی رہتا ہے، کیونکہ ان ملکوں میں عموماً مرغیوں کو مشین سے ذبح کیا جاتا ہے اور اس میں شرعی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ اس لیے ہم اسے کھانے کا مشورہ نہیں دیتے۔ میں نے پانامہ جاتے ہوئے برازیل کا جو راستہ اختیار کیا، اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شاید اس قیام کے دوران اس سلسلے میں کچھ مزید معلومات حاصل ہوں اور علی الصیفی صاحب سے رابطہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اور ان کے والد اُن چند لوگوں میں سے ہیں جو وہاں مرغیوں کے ذبح کی نگرانی کرتے ہیں اور سند جاری کرتے ہیں۔ میں نے ان سے برازیل پہنچنے سے چند روز پہلے یہ درخواست کی کہ وہ میرے قیام کے دوران اگر ممکن ہو تو کسی مذبح کا دورہ کرانے کا انتظام کریں ، لیکن انہوں نے بتایا کہ یہاں ذبح خانوں کا یہ قانون ہے کہ کسی باہر کے ملک سے آنے والے کو کچھ دن برازیل میں قرنطینہ کر انے کے بعد کارخانے میں داخلے کی اجازت ملتی ہے، اس لیے اس مختصر قیام میں معاینہ ممکن نہیں ہو گا۔ زبانی طور پر انہوں نے بتایا کہ ان کارخانوں میں مسلمانوں کے لیے مرغیاں ذبح کرنے کا جو وقت مقرر ہوتا ہے، اس میں مرغیوں کو مشینی چھری سے ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ چار آدمی اپنے ہاتھوں میں چھریاں لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں ، اور جب مرغیاں اُن کے سامنے سے گزرتی ہیں تو وہ بسم اللہ پڑھ کر انہیں ہاتھ سے ذبح کرتے ہیں۔ یہ وہی طریقہ ہے جو بندہ نے اپنی کتاب ’احکام الذبائح، میں تجویز کیا ہے۔اس سے یہ غلط فہمی تو رفع ہوئی کہ وہاں مشینی چھری سے مرغیاں ذبح ہوتی ہیں یا بسم اللہ کے لیے کوئی ٹیپ لگا دیا جاتا ہے، لیکن علی الصیفی اور احمد الصیفی صاحبان نے دو باتوں کا اعتراف کیا۔ ایک یہ کہ اگرچہ ہم نے ان ذبح کرنے والوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ ہر مُرغی پر بسم اللہ پڑھیں ، اور جب تک اُن کی ڈیوٹی ہے اُس وقت تک کوئی اور کام نہ کریں لیکن بہرحال وہ انسان ہیں اور کبھی اُن کو کھانسی، چھینک وغیرہ آسکتی ہے اور جس تیزی سے مرغیاں اُن کے سامنے سے گزرتی ہیں اُس کے پیشِ نظر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ کچھ مرغیاں اس طرح گزر جائیں کہ اُن پر الگ سے بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔ دوسرے ہمیں ہر مذبح میں ذبح کرنے کے لیے مسلمان میسر آنا مشکل ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ کارخانے شہروں سے دور ایسے علاقوں میں ہیں جہاں مسلمان رہنا پسند نہیں کرتے، اس کے لیے بعض مقامات پر عیسائیوں کو بھی مقرر کیا گیا ہے، اور ان پر یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں۔ اب وہ عملاً اس بات کا کتنا اہتمام کرتے ہیں ؟ اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
اس کے علاوہ ان حضرات کے بیان کے مطابق برازیل میں کم و بیش پچاس کارخانے ہیں جن میں سے ہر ایک میں روزانہ ہزار ہا مرغیاں ذبح ہوتی ہیں اور ان میں نگرانی کر نے اور سند جار ی کر نے والے بھی مختلف ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کن شرائط کا لحاظ رکھتے ہیں۔ جب بازار میں یہ مرغیاں آتی ہیں تو یہ پتا لگانا بہت مشکل ہے کہ یہ کون سے مذبح کی ہیں ، اور کن لوگوں نے اس کے لیے سند جاری کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تفصیل کے معلوم ہونے کے بعد بھی برازیل سے درآمد کی جانے والی مرغیوں کے بارے میں شکوک و شبہات رفع نہیں ہوئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حلال گوشت کی فراہمی کے لیے عالمی سطح پر کوئی قابل اعتماد انتظام کیا جائے۔ افسوس کہ مسلمان ممالک کی حکومتوں کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے لیکن میں نے بعض نجی اداروں سے فرمائش کی ہے کہ وہ مستند علماء کی نگرانی میں اس کا کوئی انتظام کریں اور اس سلسلے میں کچھ ابتدائی قدم اُٹھائے بھی گئے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں۔
ساؤپالو میں قیام کے دوران ہم نے شہر کی بعض مساجد بھی دیکھیں جو ماشاء اللہ بڑی عالی شان تھیں ، ان کے منار دور سے نظر آتے ہیں اور نمازیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ نمازِ جمعہ ہم نے مسجد ابوبکر صدیق میں پڑھی جو اسی محلے میں واقع ہے جہاں ہمارا قیام تھا۔ یہاں ایک مصری شیخ نے عربی میں اچھا خطبہ دیا۔ اسی مسجد کے ساتھ ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے، بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام موجود ہے، ایک مسلمان طعام گاہ بھی ہے اور مسلمانوں کی ضروریات کی ایک دُکان بھی۔
علی الصیفی صاحب نے ہمیں ساؤپالو کی سیر بھی کروائی۔ ساؤپالو بحراوقیانوس کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سرسبز پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ دور تک چلا گیا ہے، ان پہاڑوں کے ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف ان کے دامن میں قدرتی جھیلیں ، چھوٹے چھوٹے آبشار اور خودرو درختوں کے گھنے جنگل پھیلے ہوئے ہیں جن میں آم، کیلے اور کئی مقامی پھلوں کے خودرو درخت بھی شامل ہیں۔ آم کے درخت یہاں خودرو ہیں ، اور آموں سے لدے ہوئے درخت جگہ جگہ، یہاں تک کہ سڑکوں پر بھی نظر آتے ہیں۔ یہ پورا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے جس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم ساؤپالو کی بندرگاہ سانتوز (Santos) سے گزرے جو جنوبی امریکا کی سب سے بڑی بندرگاہ شمار ہوتی ہے، یہاں ایک چھوٹا ساشہر آباد ہے جس میں ایک مسجد بھی ہے۔ پھر آگے ایک اور چھوٹا سا شہر کیوبا ٹاؤ (Cubatao) آیا جہاں گیس کے کنویں اور تیل صاف کرنے کی فیکٹریاں ہیں اور اُس کی وجہ سے یہاں فضا میں تیل اور گیس کی بو بسی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی اسی شہر میں پائی جاتی ہے۔ پھر علی الصیفی صاحب ہمیں ایک خوبصورت ساحلی شہر میں لے گئے جس کا نام گواروجا (Guaruja) ہے اور اس کا ’مئیر‘ بھی ایک مسلمان ہے۔ یہ شہر بحراوقیانوس کے ایک دلآویز ساحل پر آباد ہے جہاں سمندر سرسبز پہاڑیوں سے کھیلتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں اس وقت موسمِ بہار کی آمد آمد تھی اور جگہ جگہ سے سبزہ پھوٹا پڑ رہا تھا۔ ان پرسکون قدرتی نظاروں میں کچھ دیر کے لیے سفر کی تھکن کافور ہو گئی۔
ساؤپالو (جس کا تلفّظ یہاں کے لوگ سوں پالو) کرتے ہیں ، برازیل کا سب سے بڑا تجارتی شہر سمجھا جاتا ہے اور پورے جنوبی امریکا میں سب سے بڑا صنعتی مرکز بھی۔ اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد ۲۵/ جنوری ۱۵۵۴ئ کو عیسائی مُبلّغوں نے رکھی تھی اور چونکہ یہ تاریخ موجودہ بگڑی ہوئی عیسائیت کے بانی سینٹ پال کی برسی کی تھی، اس لیے اس شہر کا نام ہی سینٹ پال کے نام پر رکھا گیا، مگر پرتگیزی تلفظ کے مطابق اُسے ساؤپالو یا سوں پالو کہا جانے لگا۔ اس شہر کی سب سے مرکزی سڑک پالستاایونیو (Paulista Avenue) اپنی شاندار اور فلک بوس عمارتوں کی وجہ سے نیویارک کے ’پارک ایونیو، کی یاد دلاتی ہے۔
ساؤپالو میں دو دن گزارنے کے بعد ہماری روانگی کا وقت قریب آیا تو علی الصیفی صاحب نے کہا کہ اگر آپ برازیلی طرز کی مچھلیاں اور بعض حلال کھانے کھائے بغیر یہاں سے چلے گئے تو گویا آپ نے برازیل ہی نہیں دیکھا، چنانچہ انہوں نے ساؤپالو کے ایک خوبصورت مطعم (ریستوران) میں ہمیں دوپہر کا کھانا کھلایا جس میں واقعی نہایت لذیذ سبزیوں ، چٹنیوں اور مچھلی کی انواع و اقسام کا ایسا مجموعہ تھا جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس کے بعد ہمیں دو دن برازیل کے دوسرے بڑے شہر ریوڈی جینرو میں گزارنے تھے (جسے اختصار کے پیشِ نظر صرف ریو کہا جاتا ہے) اور وہیں سے پانامہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ علی الصیفی صاحب کے ساتھ ایک برازیلی نو مسلم نوجوان کام کرتے ہیں جن کا اسلامی نام ابوبکر ہے۔ علی صاحب نے انہیں ہم سے پہلے ہی ریو بھیج دیا تھا، تاکہ وہ ہمارا استقبال اور وہاں کے قیام میں ہماری راہنمائی کرسکیں۔ وہ ریو ہی کے باشندے ہیں ، مگر ملازمت کے لیے ساؤپالو میں رہتے ہیں۔ ان کی مادری زبان اگرچہ پرتگیزی ہے، لیکن وہ انگریزی بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں ، ورنہ ریو میں انگریزی جاننے والے بہت کم ہیں۔ چنانچہ ہم مغرب کی نماز ہوائی اڈے پر پڑھ کر ٹیم ایئرلائنز کے ایک برازیلی طیارے کے ذریعے ایک گھنٹے میں ریو پہنچے۔ ابوبکر صاحب ہوائی اڈے پرگاڑی لے کر استقبال کے لیے موجود تھے۔ گاڑی سے ریستوران جاتے ہوئے میں نے ان سے ان کے اسلام لانے کا واقعہ پوچھا تو انہوں نے یہ ایمان افروز واقعہ تفصیل سے بتایا:
انہوں نے کہا کہ مجھے انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے انگریزی پہلے سے پڑھ رکھی تھی، ٹیلی وژن پر جو چینل اسلامی معلومات فراہم کرتے ہیں ، انہیں دیکھتا رہا اور کچھ ویڈیوکیسٹیں میں نے حاصل کیں جو انگریزی میں اسلام اور مسلمانوں کے تعارف پر مشتمل تھیں ، جن کے نتیجے میں اسلام کی طرف میری رغبت بڑھتی چلی گئی اور مجھے حضور نبی کریمؐ کی سیرتِ طیبہ پڑھنے کا شوق ہوا۔ اسی دوران ریو کی ایک پرانی مسجد میں سوڈان کے ایک عالم سے میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے میرا شوق دیکھ کر مجھے بذات خود سیرت کا درس دینے کا وعدہ کر لیا۔ اسی زمانے میں اتفاق سے انٹرنیٹ کے ذریعے ساؤپالو کی ایک برازیلی لڑکی سے میری گفتگو (Chat) ہوا کرتی تھی۔ یہ لڑکی کٹر پروٹسٹنٹ عیسائی تھی اور نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعے کی بنا پر اُس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ اُس نے ارادہ کیا تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرے۔ اس غرض کے لیے اُس نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور قرآن کریم کا ترجمہ اور حضور نبی کریمؐ کی سیرت پڑھی۔ اس مطالعے کے نتیجے میں اُس کے دل میں تبدیلی پیدا ہوئی اور اُسے یقین ہو گیا کہ اسلام ہی دینِ برحق ہے۔ ادھر میں سوڈانی عالم سے سیرت پڑھ رہا تھا اور اُدھر وہ لڑکی اپنے طور پر اسلام کا مطالعہ کر رہی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا، صرف انٹرنیٹ پر بات ہوا کرتی تھی۔ اتفاق سے مجھے کسی کام سے ساؤپالو جانا ہوا تو میں نے اُس سے ملنے کا وقت مقرر کیا اور ہم نے آپس میں شادی کا فیصلہ کر لیا۔ بعد ازاں اپنے سوڈانی اُستاذ کے ذریعے میں نے ۴۰۰۲ئ میں اسلام قبول کر لیا اور لڑکی سے تذکرہ کیا تو اُس نے اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ میں پہلے ہی اسلام قبول کر چکی ہوں۔ اس طرح ہماری شادی اس حالت میں ہوئی کہ ہم دونوں مسلمان ہو چکے تھے۔
جس گاڑی کا ہمارے میزبانوں نے ہمارے لیے انتظام کیا وہ دراصل ایک ٹیکسی تھی اور اُس کا ڈرائیور سعید بھی برازیلی نو مسلم تھا مگر پرتگیزی کے سوا کوئی زبان نہیں جانتا تھا، میں نے اُس سے اُس کے اسلام لانے کا واقعہ ابوبکر صاحب کے ذریعے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ دراصل میرا ایک نوجوان لڑکا تھا جو ایک مسلمان استاد سے ملا کرتا تھا، اُن کے ذریعے اُس کے دل میں اسلام کی معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اُس نے کچھ عرصے کے بعد اسلام قبول کر کے مجھے بھی مسلمان ہونے کی دعوت دی، میں نے بھی اسلام کی بنیادی معلومات حاصل کیں اور مسلمان ہو گیا۔ آج کل میرا لڑکا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سوڈان گیا ہوا ہے۔
یہ دو واقعات تو میں نے براہِ راست ان نو مسلموں سے سُنے۔ ابوبکر صاحب نے بتایا کہ یہاں ہر ہفتے اچھے خاصے لوگ مسلمان ہونے کے لیے اسلامی مراکز میں آتے ہیں۔ برازیل میں اگرچہ اکثریت کیتھولک عیسائیوں کی ہے، لیکن لوگ اس مذہب سے بیزار ہوتے جار ہے ہیں اور جس کسی کو اسلام کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے، وہ اسلام لے آتا ہے۔ ابوبکر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہاں کے لوگ متعصب نہیں ، بلکہ کھلے دل کے ہیں اور دوسرے مغربی ممالک کے مقابلے میں مسلمانوں سے زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں ، یہاں تک کہ اگر یہاں کے دس آدمیوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کی جائے تو میرا اندازہ یہ ہے کہ ان میں سے تین چار ضرور اسلام لے آئیں گے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں کے لوگ پرتگیزی کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتے اور پرتگیزی زبان میں انہیں اسلام کی دعوت دینے والے قابل لوگوں کی یہاں شدید کمی ہے۔ چنانچہ جب پرتگال سے ہمارے یہاں تبلیغی جماعتیں آتی ہیں تو ان سے بڑا فائدہ ہوتا ہے ، لیکن دوسرے علاقوں سے آنے والی جماعتیں چونکہ یہاں کی زبان سے واقف نہیں ہوتیں ، اس لیے اُن کا فائدہ محدود ہو جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ جماعتیں دراصل یہاں کے عرب مسلمانوں میں اسی لیے کام کرتی ہیں کہ یہاں کے لوگ دعوت کے لیے تیار ہوں اور وہ پرتگیزی زبان میں کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں نے عرض کیا کہ باہر سے بڑی تعداد میں پرتگیزی جاننے والے علما یا داعیوں کا آنا تو زیادہ مشکل لگتا ہے، لیکن اگر کچھ نوجوان ایسے تیار ہو جائیں جو ہمارے یہاں آ کر تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے ملک جا کر کام کریں تو انشاء اللہ بہت مفید ہو سکتا ہے۔ ابوبکر صاحب کی زبان سے یہ واقعات اور حالات سن کر دل میں یہ احساسِ جرم پیدا ہوا کہ ہم غیر مسلموں کے لیے اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے جس کے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو اسلام کی روشنی دکھانے کا کوئی مؤثر انتظام ہو۔ جماعتیں ، ادارے اور انجمنیں تو بہت ہیں ، لیکن خاص اس مقصد کے لیے کوئی قابلِ ذکر ادارہ عالمی سطح پر موجود نہیں ہے۔ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا کہ برازیل کے کچھ نوجوان ہمارے ہاں تعلیم کے لیے آ جائیں تو بڑا فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن ہماری حکومتوں کی طرف سے دینی مدارس میں باہر کے ممالک سے آنے والے طلبہ پر اتنی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں کہ ان کے لیے تعلیمی ویزا حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے اور اس مسئلے سے ہم شب و روز دوچار رہتے ہیں ، کیونکہ مسلمان حکومتوں کی ترجیحات میں اسلام کی دعوت کی ضرورت کسی نچلی سے نچلی سطح پر بھی کوئی مقام نہیں رکھتی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور اسلام کی مقناطیسی کشش ہے جو ان جیسے لوگوں کو وسائل کے فقدان کے باوجود اسلام کی طرف کھینچ رہی ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف سے کوئی مؤثر کوشش موجود ہی نہیں ہے۔
ریوڈی جینرو شہر میں مسلمانوں کی تعداد ساؤپالو کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سارے علاقے میں کل پچاس مسلم گھرانے آباد ہیں ، اس لیے ابھی تک کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی، البتہ جماعت کے لیے دو ایک عارضی مصلے بنے ہوئے تھے۔
ریوڈی جینرو بڑے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ ابوبکر صاحب نے بتایا کہ ’ریو، کے معنی پرتگیزی زبان میں دریا کے ہیں اور ’جینرو، جنوری کے مہینے کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ جس میں سمندر ایک دریا کی سی صورت اختیار کر گیا ہے، پرتگالیوں نے جنوری میں دریافت کیا تھا، اسی لیے اس کا نام ریوڈی جینرو رکھ دیا گیا جو تقریباً دو صدی تک برازیل کا دارالحکومت رہا ہے، بعد میں جب دارالحکومت کے لیے ایک نیا شہر برازیلیا تعمیر کیا گیا تو دارالحکومت اُدھر منتقل ہو گیا۔ ریو میں قدرتی حسن ساؤپالو سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا قیام اُس کے ایک خوبصورت ساحلی علاقے میں واقع ونڈسر ہوٹل میں ہوا جہاں بائیسویں منزل کے کمرے سے خم کھاتی ہوئی ساحلی سڑک، اُس کے دائیں جانب اُونچی اُونچی عمارتیں اور بائیں طرف ساحل سے ٹکراتی ہوئی بحراوقیانوس کی موجیں ہر وقت نظر کے سامنے تھیں۔ ریو میں اور بھی کئی ساحلی علاقے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنا منفرد حسن رکھتا ہے۔ ہر ساحلی علاقے میں سرسبز پہاڑیاں دور تک پھیلی نظر آتی ہیں۔ ابوبکر صاحب ہمیں ایک ساحلی علاقے پیڈراڈا گاوا (Pedrada Gava) میں لے گئے۔ یہاں سمندر کے کنارے ہر پہاڑی کی ساخت کچھ انوکھی قسم کی ہے۔ کہیں پہاڑی کی چوٹی ایک گنبد کی سی شکل بنائے ہوئے ہے، کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑی کے اوپر تاج رکھا ہے۔ ان پہاڑیوں کی چوٹی سے سمندر ایک ہلالی شکل میں نظر آتا ہے اور اس کے گرد سبزہ و گل سے لدے ہوئے پہاڑ اور وادیاں قدرت کی صنّاعی کا عجیب منظر پیش کرتی ہیں۔ ابوبکر صاحب نے گاڑی ہی میں شہر کا ایک چکر بھی لگوایا اور اُس کی خاص خاص عمارتیں دکھائیں جن میں سے ایک عمارت کے بارے میں جو دور سے عجیب الخلقت نظر آ رہی تھی، یہ بتایا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا فٹ بال اسٹیڈیم ہے۔
برازیل تو پانامہ جاتے ہوئے میرے راستے کی ایک منزل تھا جہاں قدرے فارغ ذہن کے ساتھ چار دن گزارنے کا موقع ملا اور یہ چار دن یہاں کے حالات معلوم کرنے اور دنیا کے چھٹے براعظم کے سب سے بڑے ملک کی سیر میں گزر گئے جس میں اس سے پہلے کبھی جانا نہیں ہوا تھا۔
۳۰ ذیقعد کو، جو اتفاق سے اکتوبر کی بھی ۳۰ تاریخ تھی، میں دن کے ساڑھے بارہ بجے ریوڈی جینرو کے ہوائی اڈے پر ظہر کی نماز پڑھ کر ’کوپاایئرلائنز، کے طیارے میں پانامہ کے لیے روانہ ہوا۔ یہ ساڑھے چھ گھنٹے کا سفر تھا، کوپا ایئر لائنز پانامہ کی قومی ایئر لائن ہے اور وسطی اور جنوبی امریکا کے ممالک میں اُس کا نیٹ ورک خاصا وسیع ہے لیکن جہاز چھوٹے اور خدمت معمولی درجے کی ہے۔ یہ سفر شمال مغرب کی طرف تھا، ساڑھے چھ گھنٹے کی پرواز کا بڑا حصہ برازیل ہی کی سرزمین پر اُڑتے ہوئے گزرا اور آخر میں کولمبیا پر پرواز کر کے جہاز وقت سے کچھ پہلے ہی پانامہ شہر کے ہوائی اڈے پر اُتر گیا۔ یہاں کے وقت کے مطابق شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ (یہاں کا وقت برازیل سے ایک گھنٹہ اور پاکستان سے دس گھنٹے پیچھے ہے۔)میرے میزبانوں نے ہوائی اڈے پر وی آئی پی لاؤنج کا انتظام کیا ہوا تھا، اس لیے ہوائی اڈے پر کوئی دقت پیش نہیں آئی اور نماز عصر بھی آرام سے مل گئی۔ ہوائی اڈے کے اندر اور باہر محبت کرنے والوں کا جم غفیر منتظر تھا اور معلوم ہوا کہ جہاز کے وقت سے پہلے پہنچ جانے کی وجہ سے بہت سے لوگ ابھی راستے میں تھے اور ہوائی اڈے تک پہنچ نہیں پائے تھے۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جنہوں نے اس سے پہلے کبھی مجھے نہیں دیکھا تھا اور میں نے ان کو نہیں دیکھا تھا، لیکن صرف کتابوں اور انٹرنیٹ پر پڑھے اور سنے ہوئے مضامین اور بیانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں تقریباً پندرہ ہزار کلومیٹر دور کے ایک شخص کے لیے محبت ڈال دی تھی جو ظاہر ہے کہ حب فی اللہ تھی اور میرے لیے بڑی سعادت کی بات، لیکن ایسے موقع پر ندامت بھی ہوتی ہے اور دل ہی دل میں دعا بھی کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس محبت اور حسن ظن کا اہل بننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔
پانامہ میں میرے داعی اور میزبان جناب سلیم الدین اور اقبال صاحب تھے ، جو اصلاً پاکستانی ہیں اور عرصۂ دراز سے پانامہ میں تجارت کرتے ہیں اور یہاں کی دینی سرگرمیوں میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ سلیم الدین صاحب کئی سال سے مجھ سے رابطہ رکھے ہوئے تھے، انہی کے مکان پر قیام ہوا اور رات گئے تک ان کے گھر میں محبت کرنے والوں کا پُر کیف اجتماع رہا۔ اس کے بعد میں ایک ہفتہ پانامہ میں مقیم رہا اور یہ پورا ہفتہ انہی محبت کرنے والوں کے درمیان نہایت مصروف گزرا۔
پانامہ وسطی امریکا کا آخری ملک ہے جس کے بعد جنوبی امریکا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ملک تقریباً تیس ہزار مربع میل کے رقبے میں ہے اور اس کا نقشہ بنایا جائے تو انگریزی کے حرف S کی سی شکل بنتی ہے۔ اس کے مشرق میں بحراوقیانوس (Atlantic Ocean) ہے اور مغرب میں بحر الکاہل (Pacific Ocean)۔ پانامہ شہر جواس دارالحکومت ہے، بحر الکاہل کے کنارے واقع ہے۔ یہ انتہائی سرسبز علاقہ پہاڑوں ، سمندروں اور دریاؤں میں گھِرا ہوا ہے اور بحر الکاہل کے کنارے پر خوبصورت اور فلک بوس عمارتوں نے اس کے حسن میں اور اضافہ کر دیا ہے۔پانامہ خط استوا سے بہت قریب ہے چنانچہ یہاں بارشیں بہت ہوتی ہیں اور بارہ مہینے موسم ایک جیسا یعنی ہلکا گرم (تقریباً ۲۵ سے ۳۰ درجے سینٹی گریڈ تک) رہتا ہے اور طلوع و غروب کے اوقات میں بھی بہت کم فرق ہوتا ہے، چنانچہ ہمیشہ بارہ گھنٹے کا دن اور بارہ گھنٹے کی رات۔ نمازوں کے اوقات بھی بہت کم بدلتے ہیں۔ کسی زمانے میں پانامہ مختلف غیرمتمدّن قوموں کا مرکز تھا جنہیں بعد میں ’امریکی انڈین، کا نام دیا گیا۔ سولہویں صدی میں وسطی امریکا کے دوسرے علاقوں کی طرح اسیبھی اسپین نے اپنے قبضے میں لیا اور ۱۸۲۱ئ میں یہ علاقہ اسپین سے آزاد ہو کر جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا میں شامل ہو گیا۔ پھر کولمبیا سے آزادی کی بھی کئی تحریکیں چلتی رہیں اور آخر کار نومبر ۱۹۰۳ئ میں اس نے کولمبیا سے الگ ہو کر ایک مستقل ملک کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس دوران یہاں اسپینی لوگ افریقیوں کو غلام بنا کر لائے اور ان سے زراعت اور دوسرے محنت کے کام لیے، اس لیے یہاں مقامی باشندوں سے زیادہ افریقی نسل کے لوگ، اسپینی اور یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کے لوگ بھی آ کر آباد ہو گئے۔ انیسویں صدی کے آخر میں پانامہ نہر کی تعمیر کے وقت (جس کا تذکرہ انشاء اللہ آگے آنے والا ہے) بنگال اور عرب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں یہاں آ کر آباد ہوئے۔ انہی لوگوں میں مسلمان بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔
۱۹۲۴ئ میں گجرات (ہندوستان) کے کچھ لوگ یہاں تجارت کے لیے آ کر آباد ہوئے اور دوسال بعد گجرات ہی کے ایک تاجر سلیمان بیکو صاحب نے پانامہ میں سکونت اختیار کی اور انہوں نے ہی پانامہ میں سب سے پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر کی جو اس وقت جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد عربوں اور گجرات کے بہت سے خاندان یہاں آباد ہوتے رہے۔ سلیمان بیکو صاحب نے پانامہ میں مسجدوں کی تعمیر اور مکتبوں کے قیام میں بڑا حصہ لیا۔ ۱۹۸۷ئ میں ان کا انتقال ہوا۔ اب پانامہ کی تیس لاکھ کی آبادی میں تقریباً ساڑھے چار ہزار مسلمان ہیں جن میں گجراتی مسلمانوں کی تعداد پانامہ شہر میں زیادہ ہے جبکہ عربوں کی تعداد پانامہ کے دوسرے شہر کولون میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی مسلمانوں کی تعداد میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں کل نو مساجد ہیں جن میں سے دو بڑی مساجد پانامہ شہر میں ہیں۔ ایک جامع مسجد اور دوسری مدینہ مسجد۔ دونوں مساجد بڑی شاندار ہیں اور ان کے منار دور سے نظر آتے ہیں۔ میری قیام گاہ سے قریب تر مدینہ مسجد تھی جس میں بیشتر نمازیں پڑھنے کا اتفاق ہوا اور میرے قیام کے دوران ہر رات عشا کے بعد انہی دو مسجدوں میں سے کسی نہ کسی میں میرا بیان ہوتا رہا۔ یہ بات واضح طور پر نظر آئی کہ ماشاء اللہ یہاں کے مسلمانوں نے اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھنے کی قابلِ تعریف کوشش کی ہے۔ مسجدوں میں حاضری بھی اچھی ہوتی ہے اور ہر بیان میں لوگ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ دور دور سے سفر کر کے شریک ہوئے۔
ماشاء اللہ یہاں کئی باقاعدہ علماء لوگوں کی دینی راہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ ان میں سب سے بڑے اور مقتدر عالم مفتی عبدالقادر صاحب ہیں یہاں کے مسلمانوں کی راہنمائی میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے اور ماشاء اللہ ان کی بات کوسب دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور یہاں کے مسلمانوں میں دینی فضا پیدا کرنے اور برقرار رکھنے میں ان کا کر دار قابلِ تعریف ہے۔ کئی نوجوان علما برطانیہ کے دارالعلوم بری یا لیسٹر میں حضرت مولانا سلیم دھورات صاحب کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں نے انہی علما کی مدد سے شہر سے دور ایک جگہ پر ایک دارالعلوم بھی قائم کیا ہے جس کے معائنے کا بھی اتفاق ہوا۔اس مدرسے میں فی الحال اُردو، دینیات، عربی زبان، تاریخِ اسلام، ابتدائی فقہ اور تجوید کی تعلیم دی جا رہی ہے اور درجہ بدرجہ اسے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس وقت اس میں بیالیس طالب علم مقیم ہیں جن میں سے ایک طالب علم جنوبی امریکا کے ملک چلی اور ایک وینیزویلا کا ہے۔ مولانا افضل پٹیل صاحب نوجوان عالم ہیں اور مطالعے اور تحقیق کا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ میرے ساتھ زیادہ رہے اور ان کی تمام تر گفتگو کسی نہ کسی مسئلے سے متعلق ہی رہی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ان میں علم کی وہ لگن ہے جو ترقی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ دوسرے بعض اساتذہ میں بھی اسی قسم کا جذبہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی۔ یہ حضرات اپنے معاشرے کے مسائل کے بارے میں بھی فکر مند نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت اور ترقی عطا فرمائیں ، آمین۔
شہر کے وسط میں ایک مدرسہ طالبات کے لیے بھی قائم ہے۔ وہاں بھی حاضری ہوئی اور اُن کے نصاب اور نظام کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ماشاء اللہ اُس میں مسلمان بچیوں کی تعلیم کا بہت اچھا نظام موجود ہے۔ کچھ عالمِ خواتین ہندوستان کی طالبات کے مدارس سے پڑھ کر یہاں تعلیم دے رہی ہیں اور کچھ مرد اساتذہ پردے کے اہتمام کے ساتھ طالبات کو پڑھاتے ہیں۔ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بچوں کی تعلیم و تربیت ہے۔ یہ بچے اگر ملک کے عام تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتے ہیں تو وہاں کا نصاب و نظام اور اس سے بھی بڑھ کر وہاں کا ماحول ان کی دینی نشو و نما کے لیے زہرِ قاتل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے جب کبھی ان ممالک میں جانا ہوتا ہے تومیں وہاں کے مسلمانوں سے یہ درخواست ضرور کرتا ہوں کہ وہ اپنی نئی نسل کے تحفظ کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کریں جن میں مروجہ علوم کے ساتھ انہیں ضروری دینی معلومات بھی فراہم کی جائیں اور اس کے ساتھ سکول کا مجموعی ماحول اور وہاں کی عام فضا میں بھی اسلامی رنگ ہو جو مغربی دنیا کی ناقابل برداشت خصوصیات سے بچوں کو محفوظ رکھ سکے۔ پانامہ میں بھی میں نے مختلف خطابات میں اس طرف اپنے بہن بھائیوں کو توجہ دلائی اور پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسی فکر کے تحت یہاں کچھ مسلمانوں نے ایک مسلم سکول کی بنیاد ڈالی ہے۔ اُس کے ذمہ دار حضرات نے اس سکول میں بھی دعوت دی اور وہاں بھی حاضری ہوئی لیکن وہاں کا نظام اور ماحول دیکھ کر اور ذمہ داروں سے بات کر کے یہ اندازہ تو ہوا کہ ان حضرات کو اس مسئلے کی اہمیت کا احساس ہے لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوا کہ سکول کو مطلوبہ معیار پر لانے اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بعد میں یہاں کے بااثر حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق ہوا جو سکول کے ذمہ دار حضرات سے مل کر اس کے نصاب و نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
پانامہ کے دو ہی بڑے شہر ہیں۔ ایک پانامہ سٹی جو بحر الکاہل کے کنارے آباد ہے اور دوسرا کولون جو بحراوقیانوس کے کنارے واقع ہے۔کولون فری پورٹ ہونے کی وجہ سے خالص تجارتی شہر ہے اور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں تجارت میں مشغول ہے جن میں بھاری تعداد عربوں کی ہے جنہوں نے یہاں ایک شاندار مسجد تعمیر کی ہوئی ہے۔ مسجد کے امام و خطیب ایک مصری عالم ہیں۔ میرے میزبان سلیم الدین صاحب ورفقائ کی خواہش تھی کہ میں اس مسجد میں بھی خطاب کروں اور چونکہ یہاں سامعین اکثر عرب ہیں ، اس لیے یہ خطاب عربی میں ہو۔ ان کے ذریعے جب امام صاحب کو میری آمد کا علم ہوا تو انہوں نے ٹیلی فون پر مجھے نمازِ جمعہ کے خطاب کی دعوت دی۔ پانامہ شہر سے احباب کی ایک بڑی جماعت کاروں کے ایک قافلے میں کولون کے لیے روانہ ہوئی اور تقریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کولون پہنچے تو جمعہ کا وقت قریب تھا۔ اس علاقے میں اونچے مناروں والی یہ خوبصورت مسجد دیکھ کر دل خوش ہوا۔ امام صاحب پہلے سے منتظر تھے۔ یہاں جمعہ سے پہلے میرا عربی میں خطاب ہوا۔ عربوں کی مساجد میں یہ عربی تقریر ہی جمعہ کا خطبہ بھی ہوتی ہے۔ یہ چونکہ ایک تجارتی شہر ہے اور اس میں تقریباً سب تاجر حضرات رہتے ہیں ، اس لیے میرے خطاب کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ ایک مسلمان تاجر کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور ایک مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ تجارتی مفادات کی دوڑ میں یہ بھول جائے کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا تھا؟ قرآن کریم نے بار بار مسلمانوں کو متنبّہ فرمایا ہے کہ ان کی مال و دولت انہیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے۔ اسی طرح ایک مسلمان کا فریضہ صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بنا لے، بلکہ اُس کے ذمے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی دینی تربیت کا بھی اہتمام کر کے انہیں دوزخ کی طرف جانے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ لہٰذا میں نے درخواست کی کہ ہرمسلمان اپنی روزانہ کی مصروفیات میں کچھ وقت اس کام کے لیے نکالے کہ سب گھر والے دین کی ضروری معلومات سے باخبر ہوں اور ان کے دلوں میں آخرت کی فکر پیدا ہو۔ اس مسجد میں برصغیر کے کسی شخص کی یہ پہلی تقریر تھی۔ الحمد للہ! یہ گزارشات توجہ سے سنی گئیں۔امام صاحب کی فرمائش پرجمعہ کی نماز بھی میں نے پڑھائی۔ نماز کے بعد مسجد کے ساتھ ملحق اسلامی مرکزی کارگزاری سے بھی آگاہ کیا گیا، کچھ مقامی فقہی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور ان حضرات نے بڑی محبت اور اکرام کا معاملہ فرمایا۔
پانامہ کی ایک اہم خصوصیت جو عالمی شہرت رکھتی ہے، پانامہ نہر ہے، جسے دنیا کے عجائب میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں آنے کے بعد یہ عجوبہ دیکھے بغیر جانا بڑی بد ذوقی ہوتی، اس لیے میرے میزبانوں نے نہر دکھانے کا انتظام بھی پروگرام میں شامل کیا ہوا تھا۔ جناب اسلم پٹیل صاحب میرے قیام کے دوران اکثر اوقات بڑی محبت سے میرے ساتھ رہے تھے، وہی ہمیں اس نہر کے نظارے کے لیے لے گئے۔ اگر آپ دنیا کے نقشے پرنظر ڈالیں تو دنیا کے دو بڑے سمندروں بحراوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے دو بڑے براعظم حائل ہیں اور اس طرح دونوں سمندروں کے درمیان زیادہ تر مقامات پر سیکڑوں اور بعض جگہوں پر ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔ لیکن شمالی اور جنوبی امریکا کے درمیان خشکی کی ایک پتلی سی بل کھاتی ہوئی پٹی نظر آتی ہے جو شمال سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے بتدریج پتلی ہوتی گئی ہے۔ یہ میکسیکو سے شروع ہوتی ہے اور پانامہ پر ختم ہو کرجنوبی امریکا کے براعظم سے مل جاتی ہے۔ اس خشک پٹی پر جا کر بحراوقیانوس اور بحر الکاہل کا درمیانی فاصلہ کم ہو گیا ہے اور پانامہ میں ایک مقام پر یہ فاصلہ صرف پچاس میل رہ گیا ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے اگر کوئی سمندری جہاز امریکا کی مشرقی جانب سے مغرب کے کسی ملک جانا چاہتا تو اسے اس چھوٹے سے خشک فاصلے کی وجہ سے پورے جنوبی امریکا کا چکر لگا کر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا، تب وہ امریکا کے مغربی ساحل تک پہنچ پاتا تھا۔ جن ممالک کو امریکا کے مغرب میں تجارتی سفر کرنے پڑتے تھے ان کے دل میں خیال آیا کہ اگر اس پچاس میل کی خشک پٹی کوکسی طرح جہاز رانی کے قابل پانی میں تبدیل کر دیا جائے تو بحراوقیانوس سے براہِ راست بحر الکاہل میں اُترنے کا آسان راستہ نکل آئے گا۔ اُس وقت پانامہ کا علاقہ کولمبیا کے ماتحت تھا۔ ۱۸۶۹ئ میں فرانس کے ایک انجینئر فرڈیننڈ نے بحیرۂ روم اور بحیرۂ قلزم کو ملانے کے لیے نہر سویز تعمیر کی تھی (جو آج کل مصر کے پاس ہے۔) اس کامیابی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کولمبیا کی حکومت نے ۱۸۷۸ئ میں فرانس کی ایک کمپنی کو یہ علاقہ جہاں دونوں سمندروں کے درمیان نہر بنائی جاسکتی تھی، ننانوے سال کی لیز پر دے کر اُسے نہر تعمیر کرنے کا حق (concession) دیا، اس کمپنی نے فرڈیننڈ کی مدد سے ۱۸۸۴ئ میں اس علاقے میں کام شروع کیا جس میں سترہ ہزار مزدور کھدائی پر مامور کئے گئے۔ یہ مزدور زیادہ تر ویسٹ انڈیز کے تھے، لیکن یہ منصوبہ جس کے لیے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو کام پر لگایا گیا تھا اور جس میں نہر سویز کی کامیابی کے بیش نظر فرانس کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے کمپنی کے حصص خرید کر اندھا دھند سرمایہ لگا دیا تھا، آخرکار ناکام ہوا۔ اس لیے کہ یہ علاقہ جس میں کام ہو رہا تھا، نہر سویز کی طرح خشک علاقہ نہیں تھا، یہاں بارشیں بہت ہوتی تھیں اور چند گھنٹوں کی بارش مہینوں کے کام کو تہس نہس کر دیتی تھی۔ دوسرے اس علاقے میں زرد بخار (Yellow Fever) کی وبا بار بار پھوٹتی اور کام کرنے والوں کی جان لے لیتی۔ یہاں تک کہ یہاں چھ ہزار سے زائد انسانوں کو دفن کرنا پڑا اور آخر کار اس فرانسیسی کمپنی نے ہتھیار ڈال کر کام بند کر دیا۔
۱۹۰۳ء میں پانامہ کولمبیا سے آزاد ہو کر ایک مستقل ملک بن گیا لیکن دونوں سمندروں کو ملانے کی کوشش فرانس کی ناکامی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے ۱۹۰۶ئ میں پانامہ کی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت یہاں نہر تعمیر کرنے کے لیے متعلقہ زمین لیز پر حاصل کی اور فرانسیسی تجربے کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ فرانسیسی کمپنی کا منصوبہ یہ تھا کہ یہاں ایک خندق کھود کر دونوں سمندروں کے پانی ایک دوسرے میں مدغم کر دیے جائیں لیکن چونکہ یہ منصوبہ ناکام ہوا، اس لیے امریکا نے ایک اور منصوبہ بنایا اور وہ یہ کہ دونوں سمندروں کو مدغم کرنے کے بجائے یہاں میٹھے پانی کی ایک مصنوعی نہر تعمیر کی جائے۔ اس علاقے میں ایک قدرتی دریا پہلے سے موجود تھا۔ امریکیوں نے اس دریا پر بند باندھ کر ایک مصنوعی نہر تعمیر کی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جس علاقے میں یہ نہر تعمیر کی گئی وہ دونوں سمندروں کی سطح سے چھبیس میٹر بلند تھا، لہٰذا جہاز اگر بحراوقیانوس میں ہے تو اُسے اس نہر میں لانے کے لیے چھبیس میٹر اونچا کیسے کیا جائے اور جب وہ نہر عبور کر کے بحر الکاہل کے پاس پہنچے تو اُسے سمندر کی سطح تک کیسے لایا جائے؟ یہی مسئلہ ان جہازوں کے لیے بھی تھا جو بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس میں جانا چاہیں۔ اس مسئلے کا جو حل نکالا گیا وہی پانامہ نہر کا عجوبہ سمجھا جاتا ہے۔ حل یہ نکالا گیا کہ جب جہاز بحراوقیانوس میں اُس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں سے نہر شروع ہوتی ہے تو وہاں اُسے ایک ایسے لمبے چوڑے حوض میں داخل کر دیا جاتا ہے جس کے دونوں طرف بڑے بڑے مضبوط دروازے لگے ہوئے ہیں۔ جب سمندر سے جہاز اس حوض میں آ جاتا ہے تو دونوں دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور اُس حوض میں اتنا پانی بھرا جاتا ہے کہ وہ نہر کی سطح کے برابر ہو جائے، اس نئے پانی کے سہارے جہاز خود بخود بلند ہو کر نہر کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔اُس وقت نہر کی طرف کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جہاز نہر عبور کر نے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر جب وہ بحر الکاہل کے قریب پہنچتا ہے تو وہاں پھر ایک حوض میں داخل ہوتا ہے جو داخلے کے وقت نہر کی سطح کے برابر اور سمندر کی سطح سے بلند ہوتا ہے۔ یہاں دونوں طرف کے دروازے بند کر کے اُس حوض سے پانی نکالا جاتا ہے، جس کے ذریعے جہاز نیچے جانا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ سمندر کی سطح پر آ جاتا ہے تو سمندر کی طرف کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جہاز بحر الکاہل میں داخل ہو جاتا ہے۔ جہاز کے اوپر اور نیچے ہونے کا یہ عمل تین مختلف مقامات پر تین مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے اور ہر مرحلے پر وہ کسی بڑے حوض میں داخل ہو کر پانی بھرنے یا نکالنے کا انتظار کرتا ہے جس کے ذریعے اُس کی سطح اونچی یا نیچی ہوتی رہتی ہے۔ان تینوں مراحل سے ہر اُس جہاز کو گزرنا پڑتا ہے جو بحراوقیانوس سے بحر الکاہل میں جانا چاہتا ہو یا بحر الکاہل سے بحراوقیانوس میں۔ اس طرح پچاس میل کا یہ فاصلہ اس مصنوعی نہر کے ذریعے اوسطاً چوبیس سے تیس گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اگر یہ نہر نہ ہوتی تو دوسرے سمندر تک پہنچنے کے لیے اُسے پورے جنوبی امریکا کا چکر لگا کر تقریباً ایک مہینہ خرچ کرنا پڑتا۔
چونکہ یہ نہر جس کا افتتاح نومبر ۱۹۱۴ئ میں ہوا، امریکا نے خاص معاہدے کے تحت بنائی تھی۔ اس لیے وہی ۱۹۹۹ئ تک اُس پر قابض رہا۔ گزرنے والے تمام جہازوں سے نہر کے استعمال کا بھاری معاوضہ وہی وصول کرتا اور پانامہ کو معمولی رائلٹی دیتا تھا۔ پانامہ کی حکومت اور امریکا کے درمیان اس نہر پر کنٹرول کے سلسلے میں عرصے تک تنازعہ چلتا رہا یہاں تک کہ ایک موقع پر دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات بھی توڑ لیے اور پھر مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں امریکا کو قبضہ چھوڑنے کے لیے ۱۳/ دسمبر ۱۹۹۹ئ کی حتمی تاریخ دے دی گئی اور اس کے بعد سے یہ نہر پانامہ ہی کے قبضے میں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک جہاز سے نہر عبور کرنے کا کرایہ دو لاکھ ڈالر وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ طلسماتی گزرگاہ پانامہ کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
سیاحوں کو اس نہر میں جہازوں کے اوپر اُٹھنے اور نیچے جانے کا یہ عمل دکھانے کے لیے نہر کے بیچ والے حوض کے اوپر ایک چبوترہ بنا دیا گیا ہے جہا ں سے نہر کا منظر بھی دور تک نظر آتا ہے اور وہ حوض بالکل سامنے ہوتے ہیں جن میں جہازوں کو دونوں طرف سے بند لگا کر اُوپر اُٹھایا جاتا ہے یا نیچے لایا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک جہاز ا س حوض میں آیا جس کی سطح نہر کے اگلے سے نیچی تھی۔ حوض میں کھڑے ہونے کے بعد دونوں طرف کے دروازے بند کر دیے گئے اور حوض میں کئی نالوں کے ذریعے پانی بھرنا شروع کیا گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں دیکھتے ہی دیکھتے حوض کی سطح بلند ہوئی اور اُس کے ساتھ ہی جہاز اُوپر اُٹھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ نہر کے اگلے حصے کے برابر آگیا۔ ا س موقع پر اُس طرف کا دروازہ کھول دیا گیا اور جہاز پھر روانہ ہو گیا۔ یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے جس میں اس نہر کی پوری تاریخ بتائی گئی ہے اور ایک مقام پر سیاحوں کو ایک جہاز کے ماڈل میں سوار کر کے مصنوعی طور پر اُسے نہر سے گزارنے اور جہاز کو اُوپر اور نیچے لانے کا عمل دکھایا جاتا ہے اور انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ خود جہاز کے ذریعے ا س عمل میں شریک ہے۔
پانامہ انتہائی سرسبز ملک ہے اور خورد رو درختوں کے جنگلوں میں بسا ہوا ہے۔ برازیل کی طرح یہاں بھی آم اور دوسرے پھلوں کے درخت جگہ جگہ خود اُگے ہوئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بہت ہیں۔ ایک علاقے میں بہت اونچے اور ٹھنڈے پہاڑ بھی ہیں۔ ایک طرف بحراوقیانوس اور دوسری طرف بحر الکاہل سے نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی خلیجیں سرسبز پہاڑوں کے درمیان سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔ ساحلی علاقے بھی بہت سے ہیں۔ انہی علاقوں میں سے ایک علاقہ سانتا کلارا کہلاتا ہے۔ ہمارے میزبانوں نے یہاں ایک خوبصورت بنگلے میں ایک رات گزارنے کا پروگرام بھی رکھا تھا۔ یہ بنگلہ ان ہی سلیمان بیکو صاحب مرحوم کی اہلیہ کا ہے جنہوں نے پانامہ میں سب سے پہلی مسجد تعمیر کی تھی اور جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ انہوں نے بڑی محبت سے یہاں ہمیں ایک دن ٹھہرنے کی دعوت دی تھی۔ چنانچہ احباب کے اچھے خاصے قافلے کے ساتھ ہم یہاں پہنچے۔ یہ کشادہ اور خوبصورت بنگلہ ساحلِ سمندر کے سامنے بلندی پر واقع ہے اور یہاں سے بحر الکاہل کی نیلگوں موجوں کا منظر نہایت دلآویز ہے۔ بحر الکاہل دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے گہرا سمندر ہے جو مشرق سے مغرب تک نجانے کتنے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ میں نے سب سے پہلے اس کا نظارا انڈونیشیا اور ملائیشیا میں کیا تھا، پھر سان فرانسسکو اور لاس اینجلز میں ، پھر جاپان میں اور اُس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اور اب پانامہ میں بھی وہی سمندر سامنے تھا۔ ہزاروں میل میں پھیلا ہوا ہی سمندر صدیوں سے قرآن کریم کی اس آیت کی یاد دلا رہا ہے کہ، ترجمہ: ’’اور وہی ہے جس نے سمندر کو کام پر لگایا، تاکہ تم اُس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اُس سے وہ زیورات نکالو جو تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ اُس میں کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں ، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘ (النحل۔۴۱)
ایک پر کیف رات سمندر کے کنارے گزارنے کے بعد اگلے دن ہماری واپسی ہوئی اور اس واپسی کے دوران کئی پروگرام نمٹاتے ہوئے ہم پانامہ شہر پہنچے اور اگلے دن پیر ۲۰/ اکتوبر۲۰۰۸ئ کی صبح ہمیں ٹرینیڈاڈ روانہ ہونا تھا۔ یہ ایک ہفتہ محبت کرنے والوں کے درمیان پلک جھپکتے گزر گیا لیکن ان احباب کے خلوص و محبت کی بنا پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ سالہا سال کی رفاقت ہے۔ رخصت کے وقت تک ہوائی اڈے پر بھی ان حضرات کا مجمع موجود تھا جس نے محبت بھرے جذبات کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو دین و دنیا کی صلاح و فلاح سے نوازیں اور اس محبت کو خالص بوجہ اللہ قرار دے کر جانبین کو اس کی برکات سے سرفراز فرمائیں ، آمین ثم آمین۔
ٹرینیڈاڈ کے لیے روانہ ہوئے تو پانامہ کی وہی کوپا ایئر لائنز تھی مگر جہاز اُس سے بھی چھوٹا تھا جس میں ہم برازیل سے پانامہ آئے تھے۔ البتہ اس مرتبہ پرواز صرف چار گھنٹے کی تھی اور جب ہم ٹرینیڈاڈ کے دارالحکومت پورٹ آف اسپین کے ہوائی اڈے پر اُترے تو عصر کا وقت تھا۔ میزبانوں نے امیگریشن اور کسٹم کے مراحل سے جلدی فارغ کرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ (ٹرینیڈاڈ ان گنے چنے ممالک میں سے ہے جہاں پاکستانیوں کو ہوائی اڈے ہی پر ویزا مل جاتا ہے۔) باہر متعدد مقامی علماء اور میرے اصل داعی جناب شیراز صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر ایک قریبی مسجد میں نمازِ عصر ادا کی اور پھر قیام گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مغرب کی نماز ایک اور مسجد میں پڑھی۔ اُس رات آرام کے سوا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ لہٰذا شیراز صاحب سے یہاں کے حالات معلوم کرنے ہی میں وقت گزر گیا۔ ٹرینیڈاڈ ویسٹ انڈیز کے ممالک میں دوسرا بڑا ملک ہے جو دو جزیروں پر مشتمل ہے۔ ایک کا نام ٹرینیڈاڈ ہے اور دوسرے کا ٹوبیگو۔ اسی لیے ملک کا پورا نام ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۴۹۸ء میں جب کولمبس (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے امریکا کا براعظم دریافت کیا تھا) اپنے تیسرے بحری سفر میں یہاں پہنچا تو یہ اراواک قوم کا مسکن تھا۔ کولمبس کے ذریعے اسپین کی حکومت نے اس پر قبضہ کر کے اس قوم کا بیج ہی مار دیا اور تین سو سال تک ا س کی طرف کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی۔ ۱۷۹۷ئ میں برطانیہ نے اس پر حملہ کیا تو اسپین کی حکومت نے ہتھیار ڈال کر یہ جزیرہ اُس کے حوالے کر دیا۔ چونکہ یہاں کے اصل باشندے فنا ہو چکے تھے اس لیے یہاں تمباکو وغیرہ کی کاشت کے لیے افریقہ سے غلاموں کو لاکر بسایا گیا اور اُن سے کاشت کرائی گئی۔ برطانیہ ٹوبیگو میں بھی اسی طرح اپنی حکومت چاہتا تھا لیکن ۱۷۸۱ئ میں فرانس نے ٹوبیگو پر قبضہ کر کے اُسے اپنی نو آبادی بنا لیا۔ لیکن ۱۸۰۲ئ میں برطانوی حکومت نے فرانسیسیوں کو مار بھگایا اور ۱۸۹۹ئ میں اُسے ٹرینیڈاڈ کا ایک حصہ بنا دیا گیا۔ جب ۰۲۸۱ئ میں رسمی غلامی کا خاتمہ ہوا تو برطانوی حکومت نے یہاں ہندوستان سے بہت سے لوگ درآمد کئے جو یہاں پُر مشقت کام کر سکیں۔ اس طرح یہاں ہندوستانی ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی شروع ہوئی۔ چنانچہ یہاں ہندوستانی اصل آبادی کا اکتالیس فیصد حصہ ہیں۔ ۱۹۲۳ء سے یہاں برطانیہ سے آزاد ہونے کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۲ء میں یہ ملک آزاد ہو کر مستقل ملک کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس دوران یہاں دنیا کے دوسرے خطوں سے بھی لوگ آ کر آباد ہوئے۔ اس وقت ملک کی کل آبادی گیارہ لاکھ ہے جس میں ایک لاکھ پینتیس ہزار مسلمان شامل ہیں۔ اس چھوٹے سے ملک میں ماشاء اللہ ایک سو بتیس مساجد ہیں اور اچھی خاصی آباد رہتی ہیں۔
اسلام قبول کرنے کا اوسط بھی ٹرینیڈاڈ میں قابلِ ذکر ہے۔ خود میرے میزبان جناب شیراز صاحب نومسلم ہیں۔ ان کے والد ہندو تھے لیکن والدہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق دی اور انہی کے زیرِ اثر یہ بھی مسلمان ہوئے اور ملک کی دینی سرگرمیوں میں ان کا بڑا حصہ رہتا ہے۔ اس ملک کی ایک وزیرِ مملکت مادام فاطمہ بھی نو مسلم تھیں اور اپنے اسلام لانے کا عجیب واقعہ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا جو قاہرہ کے رسالے منبرالاسلام میں شائع ہوا تھا۔ ان کا اصل نام مک ڈیوڈسن (Mik Davidson) تھا مگراسلام لانے کے بعد انہوں نے اپنا نام فاطمہ رکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ میں عیسائی خاندان کے طور پرپیدا ہوئی اور ۹ / مارچ ۱۹۵۰ئ کو میرے گھر والوں نے مجھے راہبہ کے طور پر ایک عیسائی خانقاہ میں داخل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اُس دن جب میں صبح کو نیند سے بیدار ہوئی تو میں نے اپنے کانوں میں ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی آواز گونجتی ہوئی سنی۔ اس آواز نے میرے پورے وجود پر لرزہ سا طاری کر دیا۔ مجھے اُس وقت اس آواز کی حقیقت معلوم نہیں تھی لیکن میں نے اس کے بعد عیسائی خانقاہ میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد کئی سال میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی طلب میں گزارے، یہاں تک کہ مجھے قرآن کریم کے ترجمے کا ایک نسخہ مل گیا اور میرے دل نے گواہی دی کہ یہ برحق ہے۔ اسی دوران میری ملاقات پاکستان کے ایک عالم مولانا صدیق صاحب اور ہندوستان کے ایک عالم شیخ انصاری سے ہوئی۔ ان سے میں نے اپنے موجودہ عقائد کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ان عقیدوں کی وجہ سے بفضلہ تعالیٰ تم مسلمان ہو۔ اگرچہ میں نے باقاعدہ اسلام قبول کرنے کا اعلان ۱۹۷۵ئ میں کیا لیکن درحقیقت میں دل سے اُسی وقت مسلمان ہو چکی تھی جب اللہ اکبر کی آواز میرے کانوں میں گونجی تھی اور قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کے بعد میرا دل ایمان کی نعمت سے لبریز ہو چکا تھا اور اس میں حضور نبی کریم ؐ کی محبت اور عظمت کا سکّہ بیٹھ چکا تھا۔ پہلے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ٹرینیڈاڈ میں اسلام صرف ہندوستانیوں کا دین ہے لیکن میرے اسلام لانے کے بعد ٹرینیڈاڈ کی دوسری قوموں ، بالخصوص افریقی نسل کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا۔ یہاں تک کہ آبادی میں مسلمانوں کا اوسط تیرہ فیصد تک پہنچ گیا۔ جبکہ کیتھولک عیسائیوں کا اوسط ۱۳ فیصد، پروٹسٹنٹ کا ۷۲ فیصد اور ہندوؤں کا ۶ فیصد ہے اور باقی ۳۲ فیصد میں دوسرے کئی مذاہب شامل ہیں۔
شیراز صاحب نے بتایا کہ اب بھی لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہراسلامی سنٹر اور مسجد میں وقفے وقفے سے غیر مسلموں کی ایک اچھی خاصی تعداد مشرف بہ اسلام ہوتی ہے اور مفتی وسیم صاحب نے جو ٹی وی چینل جاری کر رکھا ہے اُسے دیکھ دیکھ کر بھی لوگ مسلمان ہو نے کے لیے آتے ہیں۔
ٹرینیڈاڈ میں ماشاء اللہ علمائے دین کی بھی خاصی تعداد ہے۔ ہمارے دارالعلوم کراچی سے بھی کئی علما پچھلے چند سالوں میں فارغ التحصیل ہو کر وہاں پہنچے ہیں لیکن یہاں کے علما میں سب سے زیادہ شہرت مفتی وسیم صاحب کی ہے جن کے آباء و اجداد ہندوستان کے تھے اور انہوں نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے فراغت حاصل کی ہے۔ میرے ٹرینیڈاڈ کے سفر میں ان کی تحریک کو بھی بڑا دخل تھا۔ بلکہ میں نے انہی کے کہنے پر یہاں آنے کی دعوت منظور کی تھی۔ وہ یہاں ایک بڑا دارالعلوم چلا رہے ہیں۔ چنانچہ ٹرینیڈاڈ پہنچنے کے اگلے ہی دن پہلا پروگرام اسی دارالعلوم میں تھا جو پورٹ آف اسپین سے کچھ فاصلے پر ایک پُر فضا مضافاتی علاقے میں واقع ہے۔ یہ دارالعلوم ۱۹۸۴ئ میں مفتی سبیل علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قائم کیا تھا اور ۱۹۹۶ء میں ان کی وفات کے بعدسے مفتی وسیم صاحب اس کے مہتمم ہیں اور اس میں دورۂ حدیث تک دینی علوم کے ساتھ میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کی سطح تک کے تمام مروجہ علوم پڑھانے کا بھی معیاری انتظام موجود ہے اور اس پورے نظام میں دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور کے مشورے اور ہدایات شامل رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک دارالافتاء بھی ہے اور فتویٰ کی تربیت کا بھی انتظام ہے۔ ماشاء اللہ عمارتیں بھی بہت صاف ستھری اور خوبصورت ہیں جن سے حسن انتظام واضح طور پر جھلکتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے یہ نہ صرف ویسٹ انڈیز بلکہ پورے لاطینی امریکا میں سب سے بڑا ادارہ ہے جس میں اس وقت تقریباً پانچ سو طلبہ اور تقریباً ڈیڑھ سو طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں پورے ویسٹ انڈیز کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے طلبہ بھی شامل ہیں۔ مفتی وسیم صاحب کے علاوہ مولانا شیراز علی صاحب اور مولانا عبدالسلام صاحب بھی اس کے سرگرم اساتذہ اور منتظمین میں شامل ہیں۔ دارالعلوم کے تحت نکاح خوانی، حلال گوشت کی نگرانی، رویتِ ہلال وغیرہ کے مسائل میں بھی مسلمانوں کی راہنمائی کا اہتمام مختلف کمیٹیوں کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ مفتی وسیم صاحب نے اپنا ایک ٹی وی چینل بھی جاری کیا ہوا ہے جو لوگوں کو دینی معلومات فراہم کرنے کے لیے مخصوص ہے اور لوگوں نے بتایا کہ یہ چینل نہ صرف یہ کہ مسلمانوں میں مقبول ہے بلکہ جیسے کے پہلے عرض کیا گیا کئی غیر مسلم اس چینل کے ذریعے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کر کے مسلمان ہونے کے لیے آئے اور بفضلہ تعالیٰ مسلمان ہوئے۔
دارالعلوم کی مسجد بڑی شاندار ہے اور جب ہم اس میں پہنچے تو وہ سامعین سے بھری ہوئی تھی۔ اگرچہ یہاں کے مسلمانوں میں اکثریت اُن کی ہے جن کے آباء و اجداد ہندوستان سے آئے تھے لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنی زبان بھول چکے ہیں اس لیے یہاں اُردو سمجھنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دارالعلوم کے طلبہ اور اساتذہ اپنی دینی تعلیم کی بنا پر اُردو سے کچھ آشنا ہیں لیکن بولنے پر انہیں بھی بہت کم قدرت ہے اور چونکہ مجمع عام مسلمانوں کا بھی تھا جو دور دور سے آئے ہوئے تھے اس لیے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں خطاب انگریزی ہی میں ہونا چاہئے۔ چنانچہ یہاں دارالعلوم سمیت ٹرینیڈاڈ کے تمام مقامات پر میرے تمام خطابات انگریزی ہی میں ہوئے۔ بیان کے بعد مفتی وسیم صاحب نے دارالعلوم کے مختلف شعبوں کا معائنہ کروایا اور ان کا حسن انتظام دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی اور احساس ہوا کہ اس ادارے کا وجود اس خطے کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔
میرے میزبان شیراز صاحب نے میری آمد کے موقع پر جب ہوائی اڈے پر خاص انتظامات کرنے چاہے تو کسی محکمے کو میرا تعارفی خاکہ بھی بھیجا تھا۔ یہ تعارفی خاکہ نہ جانے کس طرح ٹرینیڈاڈ کے صدر مملکت پروفیسر میکس ویل رچرڈ کو پہنچ گیا۔ انہوں نے یہ خاکہ دیکھ کر شیراز صاحب کو کہلایا کہ اپنے اس مہمان سے ہماری ملاقات کرائیے اور وزیرِ اعظم کی بھی۔مجھے حیرت تھی کہ وہ مجھ طالب علم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں لیکن انکار کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ چنانچہ بدھ ۲۲/ شوال کو صبح دس بجے ہم ایوانِ صدر پہنچے۔ ایوانِ صدر ایک سادہ سی دو منزلہ عمارت تھی جس میں دور دور شان و شوکت کی کوئی علامت نہیں تھی۔ البتہ اُس کا پائیں باغ بہت خوبصورت اور دلفریب تھا۔ صدر نے ہمیں فوراً بلا لیا اور بڑے اکرام اور خوش اخلاقی سے ملے۔ مجھے ٹرینیڈاڈ آنے پر مبارک باد دی اور رسمی باتوں کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے بارے میں یہ معلوم ہوا تھا کہ اسلام کے مالیاتی نظام کے بارے میں آپ نے خاصا کام کیا ہے اور اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں اس لیے مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں آپ سے اسلام کی معاشی تعلیمات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں اور اس بات کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کہ آج کل ساری دنیا جس معاشی بحران میں مبتلا ہے اُس کے بارے میں کچھ لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ اسلامی مالیاتی ادارے اُس سے سب سے کم متاثر ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات میں اس بحران کا حل موجود ہے۔ میں اس کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
میں نے اس کے جواب میں قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کیا کہ موجودہ بحران اُس سودی مالیاتی نظام کا لازمی نتیجہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ اس نظام کی تین بنیادی خصوصیات ہیں جو اس بحران کا سبب بنی ہیں اور جب تک یہ خصوصیات موجود رہیں گی دنیا وقتاً فوقتاً ایسے بحرانوں سے دوچار ہوتی ہی رہے گی۔ میں نے عرض کیا کہ ان میں سے پہلی بات تو سودی کاروبار پر مبنی وہ نظام زر اور وہ تمویلی نظام (Financial System) ہے جس میں تمویل کے پیچھے حقیقی اثاثے نہیں ہوتے، نیز حقیقی زر (خواہ نوٹ ہی کی شکل میں ہو) کی مقدار کو نظر انداز کر کے محض فرضی اور حسابی زر پیدا کیا جاتا ہے جس کے پیچھے نوٹ بھی نہیں ہوتے وہ محض ہندسے ہوتے ہیں جنہیں زر تصور کر کے سود کا کاروبار چمکایا جاتا ہے اور اس صورتِ حال کو مشتقات (Derivatives) کی تجارت نے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے جس کی وجہ سے زر کی مجموعی رسد میں حقیقی زر کا تناسب بہت معمولی سا رہ گیا ہے۔ اس کے بجائے محض فرضی اور حسابی زر کا پھیلاؤ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ (اس بات کی تفصیل کا یہ سفر نامہ متحمل نہیں ہے، لیکن اس کی تشریح میری کتاب ’’سود پر تاریخی فیصلہ‘‘ کے پیراگراف ۰۷۱ اور اس سے آگے مذکور ہے۔) دوسرا بنیادی سبب قرضوں کی خرید و فروخت ہے جس نے موجودہ بحران میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ تیسرا سبب اسٹاک ایکسچینج میں قبضے کے بغیر خرید و فروخت (Short Sales) اور ملکیت کے بغیر خرید و فروخت (Blank Sales) کا نظام ہے جس نے سٹہ بازی کو سند جواز عطا کی ہے اور یہی سٹہ بازی اسٹاک مارکیٹ میں بار بار جھٹکے لا کر زلزلے برپا کرتی ہے۔
ان نکات کی مختصر تشریح کے بعد میں نے عرض کیا کہ اسلام میں یہ تینوں باتیں ممنوع ہیں۔ سود کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ اور رسول ؐ کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے اور اسلام میں کوئی لین دین ایسا نہیں ہوسکتا جس کی پشت پر حقیقی اثاثے نہ ہوں۔ قرض اسلام میں کوئی تجارتی معاملہ نہیں ہے جس سے نفع کمانا مقصود ہو۔ نفع صرف اشیا کی حقیقی خرید و فروخت ہی پر کمایا جاسکتاہے۔ فرضی، وہمی اور غیر یقینی چیزوں پر نفع نہیں کمایا جاسکتا۔ لہٰذا قرضوں کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔ مشتقات کی خرید و فروخت بھی اور ایسی چیزوں کی خرید و فروخت بھی جو بیچنے والے کی ملکیت اور قبضے میں نہ آئی ہوں۔ موجودہ بحران کی اصل وجہ یہی خرابیاں ہیں اور اگرچہ بحران کی چکی جب ایک مرتبہ چل پڑتی ہے تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے لیکن جن اسلامی اداروں نے اپنے معاملات کو ان خرابیوں سے پاک رکھا ہے وہ ا س بحران سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے عام ادارے متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ موجودہ دنیا نے ابھی تک دو معاشی نظاموں کا تجربہ کیا ہے اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام۔ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ایک تیسری معتدل راہ عطا فرمائی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ جب کبھی اس تیسری راہ کی بات کی جاتی ہے تو مغربی حلقوں کی طرف سے یہ شور مچنا شروع ہو جاتا ہے کہ اسلام کی بات کر نے والے گھڑی کی سوئی کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور اب یہ پروپیگنڈا بھی شروع ہو گیا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے۔ نتیجتاً کسی کو سنجیدگی سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
صدر مملکت پروفیسر میکس ویل رچرڈ نے جو خود قانون اور معاشیات میں اعلیٰ تعلیم رکھتے ہیں یہ باتیں بڑی دلچسپی اور توجہ سے سنیں اور بیچ میں سوالات بھی کرتے رہے اور آخر میں انہوں نے موجودہ معاشی نظام کی ان خرابیوں کا اعتراف کیا لیکن کہنے لگے کہ ان خرابیوں کا ازالہ کسی ایک شخص کے بس میں نہیں ہے لیکن میری خواہش ہے کہ آپ کی ملاقات ہمارے وزیرِ اعظم سے بھی ہو اور ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کم از کم اُس کے کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ (ملک کے وزیرِ اعظم اُس وقت ملک سے باہر تھے اس لیے صدر کی یہ خواہش میرے قیام کے دوران پوری نہ ہوسکی۔)
یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی اور اس سے یہ اندازہ ضرور ہوا کہ موجودہ معاشی بحران نے مغربی دنیا کے اصحاب فکر کو بھی اپنے معاشی نظام کی کمزوریوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مجھے اپنے مرحوم بھائی جناب زکی کیفی رحمۃ اللہ علیہ کی نعت کا یہ شعر یاد آگیا:
تنگ آ جائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
میرے میزبان جناب شیراز صاحب ٹرینیڈاڈ کے مسلمانوں کے لیے غیر سودی اسکیمیں جاری کرنا چاہتے ہیں اور سلسلے کا ابتدائی کام انہوں نے مولانا مفتی وسیم صاحب کی راہنمائی میں انجام دی ہوا ہے لیکن اس سلسلے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے تو انہوں نے پیشہ ور حضرات کی تربیت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس کے کئی پروگرام ہو چکے ہیں۔ دوسرے ان کی اور مفتی وسیم صاحب کی خواہش تھی کہ میں ان کے نظام کا جائزہ لے کر کچھ مشورے پیش کروں۔ اس غرض کے لیے وہ اپنے ادارے میں مجھے لے گئے۔ اور اب تک کے کام کا خلاصہ پیش کیا۔ مختصر وقت میں پورے کام پر ذمہ دارانہ تبصرہ تو مشکل تھا لیکن میں نے اپنی بساط تک کچھ اصولی مشورے پیش کئے جن پر انہوں نے عمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ان کی خواہش تو یہ تھی کہ میں ان کے ادارے کے شریعہ بورڈ کی رسمی ذمہ داری قبول کر لوں لیکن میں اپنی مصروفیات اور دوری کی بنا پر اس بات سے پہلے ہی معذرت کر چکا تھا۔ البتہ مفتی وسیم صاحب ان کی راہنمائی کر رہے ہیں۔
ٹرینیڈاڈ کا قیام اس لحاظ سے بہت مصروف گزرا کہ ہر روز صبح کے وقت کسی ادارے کے معائنے میں صرف ہوا اور مغرب کے بعد کسی نہ کسی مسجد میں بیانات کا سلسلہ رہا۔ یہاں کی مختلف تنظیموں اور اداروں سے واقفیت حاصل ہوئی اور انہیں مشورے دینے کا بھی موقع ملا اور یہ دیکھ کر مجموعی حیثیت سے خوشی ہوئی کہ الحمد للہ یہاں مسلمان خوشحال ہونے کے ساتھ اپنے دین کے تحفظ کی فکر رکھتے ہیں اور تبلیغی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
ٹرینیڈاڈ ویسٹ انڈیز کے خوبصورت ترین جزیروں میں شمار ہوتا ہے جہاں سمندر، پہاڑوں اور آبشاروں کا ایک جہان آباد ہے اور اس وجہ سے یہاں سیاحوں کی بھی خوب آمدو رفت رہتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے دوسرے جزیروں کی طرح یہاں بھی خطِ استوا کا موسم یعنی ہلکی گرمی اور بارشوں کی کثرت مغربی سیاحوں کے لیے خاص دلچسپی کا سبب ہے۔ مجھے اپنی مصروفیات کی وجہ سے جزیرے کے سیاحتی مقامات تک جانے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ایک مقامی دوست کے اصرار پر میرا قیام حیات ریجنسی ہوٹل کی بائیسویں منزل پر رہا جو بڑی پر فضا جگہ پر واقع تھا۔ اُس کے ایک طرف بحیرۂ کیریبین کا دلکش نظارہ ہر وقت سامنے تھا اور دوسری طرف ایک سرسبز پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے شہر کا منظر بھی بڑا دلفریب تھا۔ پیر سے ہفتے کی صبح تک پانچ دن یہاں میرا قیام رہا اور جمعہ کا دن جزیرے کے شمالی شہر میں گزرا جہاں ایک عالیشان مسجد میں جمعہ کا خطاب بھی ہوا جو حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور شام کو مغرب کے بعد وہیں کی ایک اور مسجد سے ملحق ہال میں بھی تقریر ہوئی جس میں شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو خصوصی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ یہ میرے قیام کا آخری دن تھا اور اگلی صبح وہاں سے باربے ڈوس کے لیے روانگی ہو گئی۔
باربے ڈوس بھی ویسٹ انڈیز کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ ۱۹۹۴ء میں یعنی چودہ سال پہلے میں یہاں پانچ دن گزار چکا ہوں جس کا مختصر تذکرہ میری کتاب ’’دنیا مرے آگے‘‘ میں صفحہ نمبر ۱۰۷ سے صفحہ نمبر ۱۱۱ تک موجود ہے۔ یہاں کے کچھ احباب اگرچہ بار ہا مجھے دعوت دے چکے تھے لیکن اس مرتبہ وہاں جانا میرے اصل پروگرام میں اس لیے شامل نہیں تھا کہ برازیل اور پانامہ کے لیے ویزا حاصل کرنے میں اتنا وقت لگ گیا کہ باربے ڈوس کا ویزا میں روانگی سے پہلے حاصل نہیں کرسکا لیکن یہاں کے احباب، بالخصوص مفتی محمود رانا صاحب نے جب ٹرینیڈاڈ تک میرے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے اصرار کیا کہ چاہے ایک ہی دن کے لیے ہو، میں باربے ڈوس ضرور ہو کر جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے خصوصی طور پر بڑی محنت کر کے میرے لیے ویزا حاصل کیا اور اس کی کاپی ٹرینیڈاڈ بھیج دی۔ اس طرح ٹرینیڈاڈ کے پروگرام سے دو دن کم کر کے ہم ہفتے کی صبح باربے ڈوس روانہ ہوئے۔ یہ پینتالیس منٹ کا سفر تھا اور ہم ہوائی اڈے پر اُترے تو ایک جم غفیر استقبال کے لیے موجود تھا۔ چونکہ اتوار کو میری واپسی طے تھی اس لیے اس مختصر وقت میں اسلامک اکیڈمی آف باربے ڈوس کی طرف سے ان حضرات نے صرف دو پروگرام رکھے تھے۔ ایک تو ہفتے کی شام کو باربے ڈوس کے سب سے بڑے کانفرنس ہال میں عشا کے بعد ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے ان حضرات نے پہلے سے اسلام کی معاشی اور مالیاتی تعلیمات کا عنوان تجویز کر رکھا تھا۔ اس سیمینار میں بنیادی تقریر میری ہی رکھی گئی تھی۔ اور اس میں مقامی علما کے علاوہ شہر کے مسلم اور غیر مسلم پروفیسر وکلاء اور دوسرے شعبوں کے لوگ موجود تھے۔ دوسرا پروگرام اتوار کی صبح اکادمی کی طرف سے باربے ڈوس کے علماء کے ساتھ ایک مشاورتی مجلس کا رکھا گیا تھا جس میں مقامی فقہی مسائل پر گفتگو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی۔ میں جب پہلے آیا تھا تو یہاں دو بڑی مساجد تھیں اور اب ماشاء اللہ ان میں ایک اور بڑی مسجد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھ کر تین ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس مرتبہ الفلاح پرائمری سکول کے نام سے ایک باقاعدہ سکول بھی دیکھنے میں آیا جو علما کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔
اتوار کا دن باربے ڈوس میں گزارنے کے بعد ہم مغرب کے بعد برٹش ایئر ویز کے طیارے سے لندن کے لیے روانہ ہوئے اور پیر ۲۷/ شوال کی صبح فجر کے وقت لندن گیٹ وک ہوائی اڈے پر اُترے۔ یہاں ایک بجے دوپہر تک قیام کرنا تھا۔ لیسٹر کے جناب مولانا سلیم دھورات صاحب نے مجھ سے باربے ڈوس ہی میں فون پر فرمایا تھا کہ وہ آج کل لندن ہی میں ہیں اور یہ چند گھنٹے ان کے ساتھ گزارے لیے جائیں۔ وہ ہوائی اڈے پر موجود تھے اور ان کے ایک دوست ڈاکٹر صاحب کا گھر گیٹ وک کے قریب ہی تھا۔ وہاں چند گھنٹے آرام اور مولانا سے پُر لطف ملاقات کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے امارات ایئر لائنز سے دبئی کے لیے روانگی ہوئی۔ رات ساڑھے بارہ بجے جہاز دبئی اُترا اور وہ رات دبئی میں گزار کر علی الصبح کراچی روانہ ہوئے اور بتیس گھنٹوں کے سفر کے بعد کراچی کے وقت سے بارہ بجے کے قریب وطن واپسی ہوئی۔ اس طرح پورے تئیس دن کے بعد یہ طویل سفر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہ عافیّت تکمیل کو پہنچا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urdu-digest.com/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید