میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لئے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتہ دیتی تھی۔ ہاں ! اب مجھے یاد آیا۔ دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لئے آنے والا تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے ہاں جا کر انہیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لئے خود ہی آ جایا کرتا تھا اور راکھی بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کر وہ اپنی بیوہ بہن کو یہی یقین دلاتا تھا کہ اگرچہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے،اس کی رکھشا، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق کر دی۔ گنا چوستے ہوئے اس نے کہا: ’’بابا! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔؟‘‘ میں نے اپنے پوتے کو پیارسے گود میں اٹھا لیا۔ بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سریلی تھی۔ جیسے کنول کی پتیوں کی نزاکت اور سپیدی گلاب کی سرخی اور بلبل کی خوشی الحافی کو اکٹھا کر دیا گیا ہو۔ اگرچہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منہ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ تاہم میں نے زبردستی اس کے سرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کر دی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’بھولے۔۔۔تیرے مامو جی۔۔۔تیری ماتا جی کے کیا ہوتے ہیں؟‘‘ بھولے نے کچھ تامّل کے بعد جواب دیا۔ ’’ماموں جی!‘‘ مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا میں نے بار ہا مایا کو اچھے کپڑے، پہننے، ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروانہ کرنے کے لئے کہا تھا۔ مگر مایا نے از خود اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع کر لیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔ مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔ہری ہر ہری ہر، ہری ہر، ہری میری بار دیر کیوں اتنی کری پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہا: ’’بھولے۔۔۔تم ننھی کے کیا ہوتے ہو؟‘‘ ’’اسی طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں۔‘‘ بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہو سکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے بابا جی کے بھی ماموں جی ہیں۔ بھولے نے اس مخمصے میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا سننے کے لئے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا۔ اور پھر جوہڑ کے کنارے اگی ہوئی دوب کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر غور کیا کرتا۔ مجھے دوپہر کو اپنے گھر سے چھ میل دور اپنے مزارعوں کو بل پہنچانے تھے۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا، جوانی کے عالم میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا۔ مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمر توڑ دی تھی۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔ رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ کے لئے آواز دی۔ میں اپنی بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سینکڑوں دعائیں دیتے ہوئے میں نے کہا: ’’مجھ بوڑھے کی اتنی پرواہ نہ کیا کرو بیٹا۔‘‘ ۔۔۔بھولا ابھی تک نہ سویا تھا۔ اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا۔ بولا: ’’بابا جی! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا؟‘‘ ’’نہیں بیٹا۔‘‘ میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں آج بہت تھک گیا ہوں۔۔۔کل دوپہر کو تمہیں سناؤں گا۔‘‘ بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ میں تمہارا بھولا نہیں بابا۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔ بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ’’بھولا بابا جی کا ہے اور ماتا جی کا نہیں۔‘‘ مگر اس دن ہلوں کو کندھوں پر اٹھا کر چھے میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ تھکتا اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤس میں ٹیسیں نہ اٹھتیں۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی۔ میں آسمان پر ستاروں کو دیکھنے لگا۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح روشن تھا۔ غور سے دیکھنے پر وہ مدھم سا ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سو گیا۔ صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا ہو گا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا: ’’میں نہیں آؤں گا۔۔۔تیرے پاس بابا!‘‘، ’’کیوں بھولے؟‘‘ ’’بھولا بابا جی کا نہیں۔۔۔بھولا ماتا جی کا ہے۔‘‘ میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا اور چند ہی لمحات میں بھولا بابا جی کا بن گیا اور میری گود میں آ گیا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔مایا ہری ہراستوتر پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنوئیں کے صاف پانی سے چھاچھ کی کھٹاس کو دھو ڈالا۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لئے سیر کے قریب مکھن تیار کر لیا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا: عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، خاوند بچے سب سے وہ بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پر بھی وہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے۔ مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا: ’’بابا تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔۔؟‘‘ ’’کس بات کا۔۔۔بیٹا؟‘‘ ’’تمہیں آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔‘‘ ’’ہاں بیٹا۔۔۔!‘‘ میں نے اس کا منہ چومتے ہوئے کہا۔ یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لئے نہیں بلکہ اپنی کہانی سنانے کے چاؤ سے۔ میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی آخری نوالا میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ہلکی سے جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنوئیں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے لئے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے۔ پھر نہیں۔ دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا۔ بھولا چارپائی کے چاروں کی طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور خود پائنتی میں پاؤں اڑا کر چارپائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔اگرچہ بھولے کا مجھے اصرار سے جلد روٹی کھلانا اور بستر بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔۔۔ ’’آخر مایا ہی کا بیٹا ہے نا۔۔۔ایشور اس کی عمر دراز کرے۔‘‘ میں نے پٹواری سے کہا۔ تم خانقاہ والے کنوئیں کو چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لئے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑ گیا جیسے گزشتہ شب کو آسمان کے ایک کونے میں مشعل کی مانند روشن ستارہ مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔ مایا نے کہا: ’’بابا جی، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔۔۔آپ کم سے کم آرام تو کر لیں۔‘‘ ’’اوہوں ‘‘ میں نے زیر لب کہا۔ ’’پٹواری چلا گیا تو پھر یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔‘‘ مایا خاموش ہو گئی۔ بھولا منہ بسورنے لگا۔ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اس نے کہا: ’’بابا میری کہانی۔۔۔میری کہانی۔۔۔‘‘ ’’بھولے۔۔۔میرے بچے۔‘‘ میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔ ’’دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔‘‘ ’’راستہ بھول جاتے ہیں؟‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’بابا تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔میں بابا جی کا بھولا نہیں بنتا۔‘‘ اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہ تھا اور پندرہ بیس منٹ آرام کے لئے نکال سکتا تھا، بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چارپائی کی پائنتی پر رکھی اور اپنی دبتی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید با مشقت سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا۔ بھولا پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا: ’’اب کوئی مسافر راستے کھو بیٹھے۔۔۔تو اس کے تم ذمے دار ہو۔‘‘ ۔۔۔اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آ کر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے۔ مگر میں نے اس روز بھولے کے منہ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ ایک افسردہ سا منہ بنائے خفیف طور پر کانپتا رہا۔ اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنوئیں پر انتظار کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکار پیدا کرنے والی جریب جیب میں ڈال کر کہیں اپنے گاؤں کا رخ نہ کر لے۔ میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کو تیل لگا دیا تھا تاہم وہ نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔ شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی سے دالان سے صحن میں اور صحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔ وہ لکڑی کے ایک ڈنڈے کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔ ’’چل ماموں جی کے دیس۔۔۔رے گھوڑے، ماموں جی کے دیس۔‘‘ ماموں جی کے دیس، ہاں ہاں ! ماموں جی کے دیس۔ گھوڑے۔۔۔ جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا بھولے نے اپنا گانا ختم کر دیا اور بولا۔ ’’بابا۔۔۔آج ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔؟‘‘ ’’پھر کیا ہو گا بھولے۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ماموں جی اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلو(کتا) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکئی کے بھٹوں کا ڈھیر ہو گا نا بابا۔ ہمارے یہاں تو مکئی ہوتی ہی نہیں بابا۔ اور تو اور ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔‘‘ میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے ’’خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ ’’جیتا رہی‘‘ میں نے دعا دیتے ہوئے کہا۔ ’’بہت ذہین لڑکا ہو گا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔‘‘ شام ہوتے ہی بھولا دروازے پر جا بیٹھا تاکہ ماموں جی کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔ دئیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا دیؤں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی۔ متفکرانہ لہجے میں مایا نے کہا۔ ’’بابا جی۔۔۔بھیا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘ ’’کسی کام کی وجہ سے ٹھہر گئے ہوں گے۔‘‘ ’’ممکن ہے کوئی ضروری کام آ پڑا ہو۔۔۔راکھی کے روپے ڈاک میں بھیج دیں گے۔۔۔‘‘، ’’مگر راکھی؟‘‘ ’’ہاں راکھی کی کہو۔۔۔انہیں اب تک تو آ جانا چاہئے تھا۔‘‘ میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پرسے اٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا: ’’ماتا جی۔۔۔ ماموں جی کیوں نہیں آئے؟‘‘ مایا نے بھولے کو گود میں اٹھاتے ہوئے اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ ’’شاید صبح کو آ جائیں۔ تیرے ماموں جی۔ میرے بھولے۔‘‘ پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’میرے ماموں جی تمہارے کیا ہوتے ہیں؟‘‘ ’’جو تم ننھی کے ہو۔‘‘، ’’بھائی؟‘‘ ’’تم جانو۔۔۔‘‘ ’’اوربنسی(بھولے کا دوست) کے کیا ہوتے ہیں؟‘‘ ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ ’’بھائی بھی نہیں؟‘‘، ’’نہیں ‘‘۔۔۔۔۔۔اور بھولا اس عجیب بات کو سوچتا ہوا سو گیا۔ جب میں اپنے بستر پر لیٹا تو پھر وہ مشعل کی مانند چمکتا ہوا ستارہ آسمان کے ایک کونے میں میرے گھورنے کی وجہ سے ماند ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے پھر بھولے کا چہرہ یاد آ گیا جو میرے خانقاہ والے کنوئیں کو جانے پر تیار ہونے کی وجہ سے یوں ہی ماند پڑ گیا تھا۔ کتنا شوق ہے بھولے کو کہانیاں سننے کا۔ وہ اپنی ماں کو استوتر بھی پڑھنے نہیں دیتا۔ اتنا سا بچہ بھلا گیتا کو کیا سمجھے۔ مگر صرف اس وجہ سے کہ اس کے ادھیائے کا مہاتم ایک دلچسپ کہانی ہوتا ہے۔ وہ نہایت صبر سے ادھیائے کے ختم ہونے اور مہاتم کے شروع ہونے کا انتظار کیا کرتا ہے۔ ’’مایا کا بھائی ابھی تک نہیں آیا۔ شاید نہ آئے۔‘‘ میں نے دل میں کہا۔ ’’اسے اپنی بہن کا پیار سے جمع کیا ہوا مکھن کھانے کے لئے تو آ جانا چاہئے تھا۔‘‘ میں ستاروں کی طرف دیکھتے دیکھتے اونگھنے لگا۔ یکایک مایا کی آواز سے میری نیند کھلی۔ وہ دودھ کا کٹورا لئے کھڑی تھی۔ ’’میں نے کئی بار کہا ہے۔ تم میرے لئے اتنی تکلیف نہ کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا۔ دودھ پینے کے بعد فرط شفقت سے میرے آنسو نکل آئے۔ حد سے زیادہ خوش ہو کر میں مایا کو یہی دعا دے سکتا تھا کہ وہ سہاگ وتی رہے۔ کچھ ایسا ہی میں نے کہنا چاہا۔ مگر اس خیال کے آنے سے اس کا سہاگ تو برس ہوئے لٹ گیا تھا۔ میں نے کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے اپنی رقت کو دباتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹی۔۔۔تمہیں اس سیوا کا پھل ملے بغیر نہ رہے گا۔‘‘ پھر میرے پہلو میں بچھی ہوئی چارپائی پر سے بھولا ننھی کو جو کہ اس کے ساتھ ہی سورہی تھی پرے دھکیلتے ہوئے اور آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا۔ اٹھتے ہی اس نے کہا۔ ’’بابا۔۔۔ماموں جی ابھی تک کیوں نہیں آئے؟‘‘ ’’آ جائیں گے۔۔۔بیٹا، سو جاؤ، وہ صبح سویرے آ جائیں گے۔‘‘ اپنے بیٹے کو اپنے ماموں کے لئے اس قدر بیتاب دیکھ کر مایا بھی کچھ بے تاب سی ہو گئی۔ عین اس طرح جس طرح ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہو جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بھولے کو لٹا کر تھپکنے لگی۔ مایا کی آنکھوں میں بھی نیند آنے لگی۔ یوں بھی جوانی میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور پھر دن بھر کام کاج کر کے تھک جانے کی وجہ سے مایا گہری نیند سوتی تھی۔ میری نیند تو عام بوڑھوں کی نیند تھی۔ کبھی ایک آدھ گھنٹے تک سو لیتا۔ پھر دو گھنٹے جاگتا رہتا۔ پھر کچھ دیر اونگھنے لگ جاتا اور باقی رات اختر شماری کرتے گزار دیتا۔ میں نے مایا کو سوجانے کے لئے کہا اور بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا۔ ’’بتی جلتی رہنے دو۔ صرف دھیمی کر دو۔۔۔میلے کی وجہ سے بہت سے چور چکار ادھر گھوم رہے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے سوئی ہوئی مایا سے کہا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس دفعہ میلے پر جو لوگ آئے تھے ان میں ایسے آدمی بھی تھے جو کہ ننھے بچوں کو اغواء کر کے لے جاتے تھے۔ پڑوس کے ایک گاؤں میں دو ایک ایسی وارداتیں ہوئی تھیں اور اسی لئے میں نے بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا تھا۔ میں نے دیکھا، بھولا جاگ رہا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے بتی کو دیوار پرنہ دیکھا۔ گھبرا کر ہاتھ پسارا تو میں نے دیکھا کہ بھولا بھی بستر پر نہ تھا۔ میں نے اندھوں کی طرح در و دیوار سے ٹکراتے اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے تمام چارپائیوں پر دیکھا۔ مایا کو بھی جگایا۔ گھر کا کونا کونا چھانا، بھولا کہیں نہ تھا۔ ’’مایا ہم لٹ گئے۔‘‘ میں نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔ مایا ماں تھی۔ اس کا کلیجہ جس طرح شق ہوا یہ کوئی اس سے پوچھے۔ اپنا سہاگ لٹنے پر اس نے اتنے بال نہ نوچے تھے جتنے کہ اس وقت نوچے۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا اور وہ دیوانوں کی طرح چیخیں مار رہی تھی۔ پاس پڑوس کی عورتیں شور سن کر جمع ہو گئیں اور بھولے کی گمشدگی کی خبر سن کر رونے پیٹنے لگیں۔ میں عورتوں سے زیادہ پیٹ رہا تھا۔ آج میں نے ایک بازی گر کو اپنے گھر کے اندر گھورتے بھی دیکھا تھا۔ مگر میں نے پرواہ نہ کی تھی۔ آہ! وہ وقت کہاں سے ہاتھ آئے۔ میں نے دعائیں کیں کہ کسی وقت کا دیا کام آ جائے۔ منتیں مانیں کہ بھولا مل جائے۔ وہی گھر کا اجالا تھا۔ اسی کے دم سے میں اور مایا جیتے تھے۔ اس کی آس سے ہم اڑتے پھرتے تھے۔ وہی ہماری آنکھوں کی بینائی، وہی ہمارے جسم کی توانائی تھا۔ اس کے بغیر ہم کچھ نہ کرتے تھے۔ میں نے گھوم کر دیکھا مایا بے ہوش ہو گئی تھی۔ اس کے ہاتھ اندر کی طرف مڑ گئے تھے۔ نسیں کھچی ہوئی اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور عورتیں اس کی ناک بند کر کے اک چمچے سے اس کے دانت کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں سچ کہتا ہوں ایک لمحے کے لئے میں بھولے کو بھی بھول گیا۔ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ایک ساتھ گھر کے دو بشر جب دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے چلے جائیں تو اس وقت دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ میں نے لرزتے ہوئے ایشور کو برا بھلا کہا کہ ان دکھوں کو دیکھنے سے پیشتر اس نے میری ہی جان کیوں نہ لے لی۔ آہ! مگر جس کی قضا آتی ہے اس کے سوا کسی اور کا بال تک بیکا نہیں ہوتا۔ قریب تھا کہ میں بھی مایا کی طرح گر پڑوں کہ مایا ہوش میں آ گئی۔ مجھے پہلے سے کچھ سہارا ملا۔ میں نے دل میں کہا، میں ہی مایا کو سہارا دے سکتا ہوں اور اگر میں خود اس طرح حوصلہ چھوڑ دوں تو مایا تو کسی طرح نہیں بچ سکتی۔ میں نے حواس جمع کرتے ہوئے کہا۔ ’’مایا بیٹی!۔۔۔دیکھو! مجھے یوں خانہ خراب مت کرو۔۔۔حوصلہ کرو۔ بچے اغواء ہوتے ہیں مگر آخر مل بھی جاتے ہیں۔ بازی گر بچوں کو مارنے کے لئے نہیں لے جاتے۔ پال کر بڑا کر کے کسی کام میں لانے کے لئے لے جاتے ہیں۔ بھولا مل جائے گا۔‘‘ ماں کے لئے یہ الفاظ بے معنی تھے۔ مجھے بھی اپنے اس طرح صبر کرنے پر گمان ہوا گویا میں اس وجہ سے چپ ہو گیا ہوں کہ مایا کے مقابلے میں بھولے سے بہت کم پیار ہے۔ مگر ’’نہیں ‘‘ میں نے کہا ’’مرد کو ضرور کچھ حوصلہ رکھنا چاہئے۔‘‘ اس وقت آدھی رات ادھر تھی اور آدھی ادھر جب ہمارا پڑوسی اس حادثے کی خبر تھانے میں پہنچانے کے لئے جو گاؤں سے دس کوس دور شہر میں تھا، روانہ ہوا۔ باقی ہم سب ہاتھ ملتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگے۔ تاکہ دن نکلنے پر کچھ سجھائی دے۔ دفعتاً دروازہ کھلا اور ہم نے بھولے کے ماموں کو اندر آتے دیکھا۔ اس کی گود میں بھولا تھا۔ اس کے سر پر مٹھائی کی ٹوکریاں اور ایک ہاتھ میں بتی تھی۔ ہمیں تو گویا تمام دنیا کی دولت مل گئی۔ مایا نے بھائی کو پانی پوچھا نہ خیریت اور اس کی گود سے بھولے کو چھین کر اسے چومنے لگی۔ تمام اڑوس پڑوس نے مبارکباد دی۔ بھولے کے ماموں نے کہا۔ ’’مجھے کسی کام کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی۔ دیر سے روانہ ہونے پر رات کے اندھیرے میں، میں اپنا راستہ کم کر بیٹھا تھا۔ یکایک مجھے ایک طرف سے روشنی آتی دکھائی دی۔ میں اس کی جانب بڑھا۔ اس خوف ناک تاریکی میں پرس پور سے آنے والی سڑک پر بھولے کو بتی پکڑے ہوئے اور کانٹوں میں الجھے ہوئے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میں نے اس وقت اس کے وہاں ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا۔۔۔کہ بابا جی نے آج دوپہر کے وقت مجھے کہانی سنائی تھی اور کہا تھا کہ دن کے وقت کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ تم دیر تک نہ آئے تو میں نے یہی جانا کہ تم راستہ بھول گئے ہو گے اور بابا نے کہا تھا کہ اگر کوئی مسافر راستہ بھول گیا تو تم ذمے دار ہو گے نا۔۔۔!!‘‘
٭٭٭