ہر اک سمت پھیلی ہوئی ہے ہوا
نظر کیوں نہیں آ رہی ہے ہوا
یہ بے رنگ، بے ذائقہ ہے مگر
جگہ واقعی گھیرتی ہے ہوا
بنا ہاتھ کے کام کرتی ہے یہ
بنا پاؤں ہی چل رہی ہے ہوا
یہ عمل تنفس کی بنیاد ہے
ہمیں زندگی دے رہی ہے ہوا
یہ دیتی ہے جلنے میں سب کو مدد
دیاؤں میں خود جل رہی ہے ہوا
پیامی ہے پھولوں کی، خوشبو لیے
یہاں سے وہاں جا رہی ہے ہوا
جو ہے کرۂ ارض اوڑھے اسے
سمندر کو ڈھانپے ہوئی ہے ہوا
ڈھلی ہے جو لہروں میں آواز کی
تو صوت و صدا بن گئی ہے ہوا
پتنگوں کو شانوں پہ اپنے لیے
اڑائے چلی جا رہی ہے ہوا
تھما کر نمی ابر کے ہاتھ میں
زمیں پر برسنے لگی ہے ہوا
کھلے بادباں کی سہیلی بنی
اسی رخ پہ خود بہہ رہی ہے ہوا
لیے ساتھ آبی بخارات کو
پہاڑوں کی جانب چلی ہے ہوا
سبھی کار، موٹر کے پہیوں میں ہے
غباروں میں سب کے بھری ہے ہوا
کسی کی بھی فریاد سنتی نہیں
مخالف اگر ہو گئی ہے ہوا
بپھر کر بنی ہے یہ طوفان یا
پیام اجل بن گئی ہے ہوا