دیکھو موسم گرمی آیا
فطرت نے سردی کو بھگایا
دھوپ نے یہ ہم کو ہے بتایا
پھر گرمی کا موسم آیا
کیسی فضاؤں میں ہے حدّت
توبہ ، یہ گرمی کی شدّت
گلشن میں ہر گل کملایا
پھر گرمی کا موسم آیا
آم لگے ہیں پیلے پیلے
کتنے میٹھے اور رسیلے
اس پھل نے ہے دل کو لبھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
بھاپ سے اب بنتے ہیں بادل
کر دیں گے برسات میں جل تھل
قدرت نے کیا کھیل دکھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے کرتی ہیں اب نفرت
چھاؤں سے ہے سب کو اُلفت
موسم کی پلٹی ہے کایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے اب تپتا ہے میداں
گرمی سے ہے پھول پریشاں
ملتا نہیں میداں میں سایا
پھر گرمی کا موسم آیا