آٹھوں پہر اسے تو ضرورت ہے چائے کی
چھٹتی نہیں ہے، جس کو بھی عادت ہے چائے کی
سرگرم ہُوں جو اپنے مشن میں، مَیں ہر نفس
دراصل مخفی اس میں بھی حدت ہے چائے کی
لگتا ہے بعض وقت دسمبر جو ماہِ جون
اس میں بھی کارفرما کرامت ہے چائے کی
جب چائنا کی اولڈ پروڈکٹ چائے ہے
دو سینچریز قبل ولادت ہے چائے کی
ہم اک برس میں پیتے ہیں اربوں روپے کی چائے
یعنی کہ ساری قوم کو چاہت ہے چائے کی
اس کی دوا نہیں ہے مسیحا کے پاس بھی
ناقابلِ علاج یہ علت ہے چائے کی
چائے نہیں ملے تو سبھی اونگھتے رہیں
ہم جاگتے ہیں یہ بھی عنایت ہے چائے کی
پیتے ہیں اس کو اولیاء اللہ بھی اثرؔ
سچ پوچھئے تو یہ بھی سعادت ہے چائے کی