اپنے ہوں یا ہوں بیگانے
کوئی جانے یا نہ جانے
ٹوٹ بٹوٹ ہے سب کا یار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار
گورا ہو یا کوئی کالا
چھوٹا ہو یا داڑھی والا
سب کرتے ہیں اس سے پیار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار
بھائی بہنوں کو ترسائے
جو مل جائے خود ہی کھائے
نقد ملے یا ملے اُدھار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار
یوں تو سب سے وہ لڑتا ہے
ہاتھ لگے تو رو پڑتا ہے
کرتا ہے وہ چیخ پکار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار
سبق سنو تو چُپ رہتا ہے
پیسے دیکھے تو کہتا ہے
دو اور دو ہوتے ہیں چار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار
جس نے ٹوٹ بٹوٹ نہ دیکھا
اُس نے دنیا میں کیا دیکھا
اُس کا جینا ہے بیکار
ٹوٹ بٹوٹ بڑا ہشیار