حاشیہ کسی عبارت کے سلسلے میں ذیل تحریروں کو کہتے ہیں بعض کتابیں حاشیہ ہوتے ہوئے بھی مستقل کتابوں کے درجہ میں آ جاتی ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے حاشیہ چڑھانا یا حاشیہ لگانا ایک طرح کا مجلسی رو یہ ہے کہ بات کچھ نہیں ہوتی اُس کو اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُسی کو حاشیہ چڑھانا کہتے ہیں اور حاشیہ لگانا بھی کم و بیش اسی معنی میں آتا ہے۔
یہ درباری آداب کا حصّہ ہے بزرگانِ دین کے مزارات بھی جانے کو حاضری دینا کہتے ہیں نوکری بجانا دہلی کا ایک محاورہ ہے اُس کے معنی بھی کسی رئیس یا ادارے کی ملازمت کو پوری توجہ اور محنت سے انجام دینا۔
حاضری میں کھڑا رہنا تابعداری ہے اطاعت ہے پُرانے زمانے میں عبادت بھی کھڑے ہو کر ہی کہی جاتی تھی اسی لئے حاضری دینے کے معنی کسی کے سامنے سر جھکائے ہوئے کھڑے رہنے کے ہیں اور اِس سے ایک طبقہ کے سماجی رویوں کا پتہ چلتا ہے۔
حرام حلال کے مقابلہ کا لفظ ہے یعنی جائز کے مقابلہ میں ناجائز حرام کی کھانا حرام کی روزی حرام کا پیسہ حرام کی کمائی سب اسی ذیل میں آتے ہیں جب کوئی کہتا ہے کہ حرام موت مرنے سے کیا فائدہ تو اس سے مراد ہوتی ہے خواہ مخواہ جان دینا بڑا نقصان اٹھانا ہے۔ ایسے موقعوں پر سماج والے یہ کہتے ہیں کہ وہ تو حرام موت مرا ہے۔ خودکشی کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حرام موت ہے مگر اس میں کوئی طنز یا تعریف شریک نہیں ہے۔ جس طرح حرام موت مرنے میں ہے۔
حرف بات کو کہتے ہیں اور جس طرح بات کے ساتھ بہت سے محاورے وابستہ ہیں جیسے حرف رکھنا اعتراض کرنا۔ حرف اُٹھانا تھوڑا بہت پڑھنے کے لائق ہو جانا۔ حرف شناسی بھی اسی معنی میں آتا ہے حرف پکڑنا غلطی پکڑنے کو کہتے ہیں حرف لانا بھی اسی معنی میں آتا ہے اِس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ الفاظ کا استعمال سماج کی سطح پر کس طرح اپنے معنی اور معنویت کو بدلتا رہتا ہے۔ اُس میں نئے نئے پہلو پیدا ہوتے رہتے ہیں اور نئی نئی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں۔
حشر قیامت کو کہتے ہیں اور حشر کے معنی طرح طرح کے فتنے اُٹھنا، اور ہنگامہ برپا ہونا ہے۔ اسی لئے حشر کے لغوی معنی کے علاوہ محاوراتی معنی بھی سامنے آتے ہیں۔
محشر بھی حشر کو کہتے ہیں اور اِس کے ساتھ بھی بعض محاورات وابستہ ہیں اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لفظوں کے ساتھ معاشرتی اور تہذیبی ماحول میں کیا کیا تصورات اور تاثرات وابستہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور زبانِ فکر و خیال کی کِن کِن راہوں سے گزرتی ہے۔ حشر کا دن کیونکہ قیامت سے وابستہ ہے اس لئے مسلمان حشر کے ساتھ فتنہ اور ہنگامہ کا لفظ وابستہ نہیں کرنا چاہتے اگرچہ یہ محاورہ خود اسلامی کلچر سے وابستگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
حلق گلے کو کہتے ہیں آدمی کی آواز بند کرنے کے لئے اُس کا منہ دبا دیا جاتا ہے گلہ دبایا جاتا ہے۔ اُسے خاموش کیا جاتا ہے یہ مُجرمانہ انداز سے بھی ہوتا ہے کہ قاتل چور اور ڈکیت ایسا کرتے ہیں۔ سماجی اور سیاسی زندگی میں بھی کسی کی آرزو دبائی جاتی ہے اُس کو محاورتاً گلہ دبانا بھی کہتے ہیں۔ اور قصبہ کی زندگی میں یہ محاورہ کسی کو خاموش رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ اپنے ’’حلق چوں ‘‘ اور اس کی آواز کوئی نہ سنے اس کی کوشش کی جاتی ہے حلق سے جب آواز نکالی جاتی ہے تو وہ زیادہ قوت سے اُبھرتی ہے حلق سے باہر آتی ہے اسی لئے جو لوگ یا بچے روتے وقت زیادہ زور سے آواز نکالتے ہیں اُن کے لئے بھی کہا جاتا ہے۔ کہ وہ حلق سے روتے ہیں اسی مناسبت سے حلق چُوں کرنا اور حلق دبانے کا محاورہ آتا ہے۔
حوُر اور پری ہمارے ہاں خوبصورتی اور حُسن کا آئیڈیل ہے جب کسی کو بہت خوبصورت ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ تو اُس کو ’’پری رو‘‘ پری چہرہ، پری تمثال اور پری کا نمونہ کہا جاتا ہے کہ آخری لفظ طنز اور تعریض کے طور پر بھی کسی کم صورت یا بدصورت آدمی کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حُور کا بچّہ کسی خوبصورت بچے یا بچی کے لئے یا زیادہ سے زیادہ کسی حسین مرد یا عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ پُری اولاد ہوتی ہے نہ حُور کے ماں باپ ہوتے یہ آئیڈیل ہیں آئیڈیل یعنی اُن کا رشتہ تخلیق سے وابستہ نہیں ہوتا۔