09:41    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1129 0 0 00

سازش

ا سکول کی چھٹّی کے بعد عدنان جب گھر آیا تو اس نے دیکھا اُس کی والدہ دروازہ پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ بدھوار کا دن ہونے کی وجہ سے اُن کا کام بھی بند تھا جیسے ہی عدنان گھر میں داخل ہوا اُس نے اپنی امّی سے کہا ’’امّی مجھے کھانا دو بہت زور کی بھوک لگی ہے صبح بھی تم نے مجھے بس ایک ہی روٹی دی تھی۔

            اُس کی والدہ نے کہا ’’بیٹا ابھی میں نے کچھ پکایا نہیں ہے تیرے ابّو کا انتظار کر رہی ہوں وہ ہفتے کی خرچی لے کر آئیں گے تو گھر میں سامان آئے گا اور میں کھانا پکاؤں گی۔

            امّی کچھ بھی ہو گا تو مجھے دے دو بھوک سے مجھے چکّر آ رہا ہے۔

            بیٹا تو پانی پی کر یہاں لیٹ جا بس اب تیرے ابّو آتے ہی ہوں گے پھر میں گرما گرم روٹی پکاؤں گی سبزی بناؤں گی اور اپنے لعل کو کھلاؤں گی اور ہاں تیرا نویں جماعت کا سالانہ امتحان کب شروع ہو رہا ہے۔

            امّی سر کہہ رہے تھے کہ اپریل کے پہلے ہفتہ سے امتحان شروع ہو جائے گا دیکھنا امّی اِس سال بھی میں اپنی جماعت میں اوّل آؤں گا۔

            ہاں بیٹا مجھے امیّد ہی نہیں یقین ہے کہ تو ہی کلاس میں اوّل آئے گا آخر رات دن پڑھائی جو کرتا رہتا ہے۔ اﷲ نے تجھے دماغ بھی اچھا دیا ہے۔ تیری رائٹنگ بھی کتنی اچھی ہے۔

            امّی میری رائٹنگ کی سب تعریف کرتے ہیں ! امّی آپ نے رائٹنگ درست کرانے میں میری بہت مدد کی۔

            بیٹا اچھی رائٹنگ سے زیادہ نمبر ملتے ہیں۔ پیپر جانچنے والا اچھی رائٹنگ دیکھ کر ہی خوش ہو جاتا ہے اگر سب کچھ صحیح ہو تو اُسے پڑھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے وہ زیادہ نمبر دیتا ہے۔ اچھی رائٹنگ کامیابی کی کنجی ہے۔

            امّی میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے نوکری کروں گا خوب پیسے کماؤں گا اور تمھیں بہت آرام سے رکھوں گا تم کو کوئی کام نہیں کرنے دوں گا۔ امّی بہت وقت ہو گیا کچھ کھانے کو دونا! دیکھو نا کچھ بچا کچا ہی ہو گا تو مجھے دے دو۔

            اچھا بیٹا۔ رُک میں دیکھتی ہوں ۔ یہ کہہ کر عدنان کی والدہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر کمرے کے اُس حصّے میں آئیں جہاں چولھا بنا ہوا تھا۔ کچھ برتن، جرمن اور اسٹیل کے کچھ ڈبّے الماری میں رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے ڈبّوں کو کھول کر دیکھنا شروع کیا اور پھر خوشی سے کہا ’’بیٹا عدنان یہ دیکھ ڈبّے میں دو مٹھی آٹا ہے تو منھ ہاتھ دھو لے میں تیرے لئے دو روٹیاں ڈال دیتی ہوں اور ٹماٹر کی چٹنی بنا دیتی ہوں تو کھا لینا پھر تیرے ابّو آ جائیں گے تو کرانہ کی دکان سے سامان لے کر آ جانا آج بدھ کا دن ہے میں تیرے لئے پلاؤ پکاؤں گی۔ جا جلدی کر!

             جی امّی بہت اچھا۔

            اتنا کہہ کر عدنان اُٹھا اُس نے جلدی جلدی منھ ہاتھ دھو لیا اس کی امّی نے چولھا جلایا آٹا بھگایا لیکن بڑی مشکل سے اتنے آٹے میں دو روٹیاں ہی بن پائیں۔ پھر انھوں نے ٹماٹر نمک ہری مرچ کو پیس کر چٹنی بنا لی اور عدنان کے سامنے رکھ دی۔

            عدنان کو بھوک ایسی زور کی لگی تھی کہ اس وقت وہ روٹیاں اور ٹماٹر کی چٹنی کسی نعمت سے کم نہیں لگ رہی تھیں جلدی جلدی اس نے کھایا اور ابھی کھا کر پانی بھی نہیں پینے پایا تھا کہ اُس کے والد گھر میں داخل ہوئے۔ وہ شراب کے نشے میں دھُت تھے قدم لڑ کھڑا رہے تھے عدنان پلیٹ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اُس کی امّی چولھے کے پاس بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ چولھا گرم تھا اور چولھے سے ہلکا ہلکا دھواں نکل رہا تھا اُس کے والد نے دونوں پر ایک نظر ڈالی اور خود بھی عدنان کے قریب آ کر بیٹھ گئے نشے سے لڑ کھڑ اتی ہوئی آواز میں انھوں نے کہا ’’لا مجھے بھی کھانے کو دے۔ ‘‘

            عدنان اپنی جگہ سے اُٹھ کر ہاتھ دھونے چلا گیا۔ عدنان کی امّی نے کہا ’’گھر میں نہ چاول ہے نہ آٹا میں نے اب تک کچھ پکایا نہیں ہے۔ تمھارا انتظار کر رہی تھی کہ تم خرچی لے کر آؤ گے تو سودا لائیں گے اور پکائیں گے۔

            عدنان کی والدہ کے منھ سے یہ بات سن کر وہ بھڑ ک اُٹھے ’’کھانا نہیں ہے ، اناج نہیں ہے تو پھر یہ چولھا کیوں جل رہا ہے اور یہ جھوٹی پلیٹ یہاں کیوں پڑی ہے۔ میرے لئے ہی کھانا نہیں ہے ‘‘ پھر اپنی جگہ کھڑے ہو کر انھوں نے پلیٹ کو ایک لات ماری اور چلّا کر کہا ’’میرے لئے ہی کھانا نہیں ہے ، ہفتہ بھر مرمر کر کام کرتا ہوں میں کمائی کرتا ہوں میں اور میرے لئے ہی کھانا نہیں ہے۔

            عدنان کی والدہ نے کہا ’’تم آرام سے بیٹھ جاؤ مجھے پیسے دو میں ابھی تمھارے لئے سبزی اور روٹی تیار کر دیتی ہوں۔ آج پھر تم شراب پی کر آئے ہو اپنے بچے کا تو کچھ خیال کرو۔ اب وہ بڑا ہو رہا ہے۔

            مجھے سبق پڑھاتی ہے۔ میں اپنے بچّے کا خیال کروں اور تو کیا کرے گی تو روٹی پکائے گی خود کھائے گی اپنے بچّے کو کھلائے گی مجھے کون کھلائے گا آں مجھے کون کھلائے گا! تیرا باپ کھلائے گا مجھے۔ مجھے سبق پڑھاتی ہے۔

            عدنان اپنے والد کے قریب آیا۔ اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’ابّوجی آپ آرام سے یہاں بیٹھ جاؤ۔ میں ابھی سودا لے کر آتا ہوں اور ابھی دس منٹ میں کھانا تیار ہو جائے گا۔ لائیے مجھے پیسے دیجئے میں سامان لے کر آتا ہوں۔

            اس کے ابّو نے اُسے زور کا دھکّا دیا عدنان زمین پر گر گیا اس کے والد نے چلّا کر کہا ’’ماں کو پیسے چاہئیے بیٹے کو بھی پیسے چاہیئے سب کو پیسے چاہیئے۔ مجھے کھانا چاہیئے لاؤ پہلے مجھے کھانا دو پھر میں پیسے دوں گا۔ کھانا لاؤ پہلے میرے لئے کھانا لاؤ۔

             عدنان کی والدہ نے عدنان کو اُٹھایا اور اُس کے والد سے کہا ’’گھر میں اناج کا ایک دانہ نہیں ہے میں کیا پکاؤں۔ پیسے دوتو ابھی سب کے لئے پکاتی ہوں۔

            بیٹے کے لئے اناج ہے ، تیرے لئے اناج ہے میرے لئے ایک دانہ نہیں ہے میں کماتا ہوں اور مجھے ہی کھانے کو نہیں ملتا۔ میں ہوٹل میں جا کر کھالوں گا مجھے نہیں رہنا ہے اس گھر میں۔ مجھے نہیں کھانا ہے اس گھر میں۔ ہٹ جاؤ میرے راستے سے۔ دور ہو جاؤ میری نظروں سے۔

            اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگے۔ عدنان کی والدہ نے کہا ’’دیکھو ابھی تم نشے میں ہو ہفتے کی خرچی تمھارے پاس ہے کوئی تمھاری جیب سے پیسے نکال لے گا۔ یہاں آپ آرام سے بیٹھ جاؤ میں دو منٹ میں کھانا تیار کر دیتی ہوں۔

            بس میرے پیسوں کی فکر ہے میری کسی کو فکر نہیں ہے ہٹ جا مجھے جانے دے مجھے نہیں رہنا ہے اِس گھر میں بے وقوف سمجھتی ہے مجھے ، مجھے الّو بناتی ہے ، ہٹ جا۔ اتنا کہہ کر انھوں نے ایک زوردار طمانچہ عدنان کی والدہ کو مارا وہ جا کر چولھے پر گریں۔ عدنان نے جلدی سے اُنھیں اُٹھایا اپنے والد کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’ابّو میری امّی کو نہیں مارنا۔ میری امّی کو ہاتھ نہیں لگانا۔ میں بول دیتا ہوں !

            کیا کرے گا تو ابے کیا کرے گا تو میں ماروں گا۔ اُسے بھی ماروں گا تجھے بھی ماروں گا خود کھانا کھا لیتے ہیں مجھے کھانا نہیں دیتے ہٹ چھوڑ میرا ہاتھ۔ اتنا کہہ کر انھوں نے زور سے عدنان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ عدنان جا کر سامنے کی دیوار سے ٹکرایا سر پر زور کی مار لگی اُس کے والد بھی لڑ کھڑا کر نیچے گر پڑے عدنان کی امّی نے جلدی سے عدنان کو اُٹھایا دیکھا اُس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ پھر انھوں نے عدنان کے ابّو کو اُٹھانا چاہا لیکن جیسے ہی وہ ان کے قریب گئیں انھوں نے ایک زور دار لات عدنان کی امّی کو ماری وہ زمین پر گر پڑیں اُن کے منھ سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی چولھے کے پاس آگ جلانے کی لکڑی پڑی ہوئی تھی عدنان نے وہ لکڑی اُٹھا لی اور اپنے والد کے اوپر ٹوٹ پڑ ا۔ سر پر، ہاتھ پر، پیٹھ پر لگاتار لکڑی کے وار کئے اُس کے والد چلّانے لگے ارے بچاؤ۔ مجھے اِس لڑکے سے بچاؤ۔ اپنے باپ کو مار رہا ہے۔ بچاؤ مجھے

             عدنان کی والدہ نے عدنان کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور اُسی لکڑی سے عدنان کی پٹائی کر دی اور کہا اپنے باپ پر ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ اپنے باپ کو مارتا ہے میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔

            عدنان کے ذریعہ کی گئی پٹائی کی وجہ سے عدنان کے والد کے سر سے خون بہنے لگا تھا۔ خون دیکھ کر اُن کا غصّہ آسمان پر پہنچ گیا۔ انھوں نے عدنان کی والدہ کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور عدنان کو مارنا ہی چاہتے تھے کہ عدنان نے اُن کے ہاتھ سے لکڑی کھینچ کر ایک طرف پھینک دی اور چلّا کر کہا ’’مجھے اِس گھر میں نہیں رہنا ہے۔ میں یہاں نہیں رہوں گا کہیں بھی چلا جاؤں گا‘‘ اتنا کہہ کر وہ بھاگ نکلا۔ گلی سے نکل کر سڑ ک پر آیا، سڑ ک کو دوڑ تے دوڑ تے پار کیا، کھیل کے میدان میں آگیا۔ اُسے پار کیا تو قبرستان میں آگیا۔ اُسے بھی پار کیا تو راستے میں ریلوے لائن تھی ریلوے لائن پر ایک ٹرین کھڑی ہوئی تھی۔ کافی لمبی ریل تھی۔ عدنان کو اُسے پار کرنے کا راستہ نہیں مِلا۔ جہاں وہ کھڑا ہوا تھا ٹرین کے کمپارٹمنٹ کا دروازہ تھا دروازہ کھُلا ہوا تھا۔ وہ کوشش کر کے ٹرین میں چڑھ گیا اندر پورا ڈبہ خالی تھا۔ نہایت نفاست سے بنا ہوا ڈبہ تھا۔ فرسٹ کلاس کا ڈبّہ لگ رہا تھا ابھی وہ باہر نکلنے کا راستہ تلاش ہی کر رہا تھا کہ دوسری سمت کے آگے کے دروازے پر اُسے دو افراد بیٹھے ہوئے نظر آئے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اور دوسرا چودہ پندرہ(۱۴۔ ۱۵) سال کا لڑ کا۔ اُنھیں دیکھ کر وہ جلدی سے سیٹ کے درمیان چھپ گیا۔ بس اُسی لمحہ ریل گاڑی چلنے لگی اور تھوڑی دیر میں ہی گاڑی نے کافی اسپیڈ پکڑ لی عدنان جہاں چھپا ہوا تھا وہیں چھُپ کر بیٹھ گیا۔ گاڑی اپنی پوری رفتار سے دھائیں دھائیں کرتی چلی جا رہی تھی۔ عدنان کو وہاں چھُپ کر بیٹھے زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ اُس نے دیکھا کھڑ کیوں کو پکڑ کر پہلے ایک آدمی اور پھر اس کے پیچھے دوسرا آدمی چلتی ٹرین سے آگے بڑھتے گئے۔ بڑھتے بڑھتے وہ اُس دروازہ پر آ پہنچے جہاں ادھیڑ عمر کا آدمی اور نوجوان لڑ کا بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی وہ ڈبّے میں داخل ہوئے وہ دونوں آنے والے لوگوں کو حیران نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن اس سے پہلے کہ وہ ان سے کچھ پوچھتے ، کچھ بولتے آنے والے دونوں آدمیوں نے اپنی جیبوں سے چاقو نکال لئے ایک نے لڑکے کو اور دوسرے نے آدمی کو بے دردی سے مار دیا۔ ٹرین اپنی پوری رفتار سے چلی جا رہی تھی۔ اُس کی آواز میں ان کی چیخیں دب کر رہ گئیں۔ عدنان سیٹوں کے بیچ میں چھپ کر بیٹھا ہوا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اُسی وقت گاڑی ایک ندی کے پُل پر سے گزری دونوں غنڈوں نے نوجوان اور ادھیڑ عمر والے آدمی کی لاشیں اُٹھا کر ندی میں پھینک دیں اور جس راستے سے آئے تھے اُسی راستے سے واپس چلے گئے۔ ٹرین اسی رفتار سے چلتی رہی عدنان مارے خوف کے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اب ڈبّے میں سوائے اس کے کوئی موجود نہیں تھا۔ آدھے گھنٹے تک گاڑی تیز رفتار سے چلتی رہی پھر اچانک اُس کی رفتار کم ہوئی اور تھوڑی دیر میں گاڑی رُک گئی۔ گاڑی ایک ویران جگہ پر رُکی تھی جہاں چاروں طرف جھاڑ یاں پھیلی ہوئی تھیں۔ دو منٹ تک جب گاڑی آگے نہیں بڑھی تو عدنان اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اُس جگہ آیا جہاں دروازے پر خون پھیلا ہوا تھا۔ اُسی جگہ اُسے اوپر ایک سوٹ کیس رکھا ہوا نظر آیا۔ عدنان نے سیٹ پر چڑ کر وہ سوٹ کیس اُتار لیا۔ تبھی ٹرین آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی عدنان سوٹ کیس لے کر اُس دروازے کی طرف بڑھا جہاں سے وہ ٹرین پر چڑھا تھا۔ اُس نے جلدی سے سوٹ کیس نیچے پھینک دیا اور خود بھی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹرین سے نیچے کود گیا دوڑ کر اس نے سوٹ کیس اُٹھا لیا۔ تھوڑی دیر میں ٹرین اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی اُس نے اُس جگہ کو دیکھا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا۔ جنگل کی طرح ویران علاقہ تھا دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آتی تھی نہ مویشی نہ انسان بس درخت جھاڑ یاں پودے گھاس! وہ اندازے سے ایک سمت بڑھنے لگا۔ شام ہو چکی تھی وہ جلد از جلد کسی ایسی جگہ پہنچ جانا چاہتا تھا جہاں وہ رات گزار سکے۔ اُس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ ہاتھ میں سوٹ کیس تھا۔ سوٹ کیس بہت خوبصورت، مضبوط اور کافی وزنی تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک مقام پر رُک گیا۔ نیم کا ایک اونچا سا درخت تھا اور آس پاس چھوٹی چھوٹی جھاڑ یاں تھیں۔ وہاں وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور سوٹ کیس کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ کھل نہ پایا۔ وہیں سے اُس نے ایک پتھر اُٹھا لیا اور آہستہ آہستہ اُس مقام پر مارنے لگا تھا جہاں سوٹ کیس کا تالا بنا ہوا تھا۔ تھوڑی سی کوشش سے سوٹ کیس کے تالے ٹوٹ گئے۔ اُس نے سوٹ کیس کھول کر دیکھا اوپر ایک پلاسٹک کی تھیلی میں استری کیے ہوئے چند کپڑے رکھے ہوئے تھے کافی خوبصورت اور قیمتی کپڑے تھے ، اس نے کپڑوں کو اُٹھا کر دیکھا وہ سارے کپڑے لڑکے کے تھے نیچے ایک جوڑا بڑے آدمی کا بھی تھا۔ بڑے آدمی کے کپڑے کو اُس نے اُٹھایا تو اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں نیچے سوٹ کیس میں ہزار۔ پانچ سو اور سو کے نوٹوں کی گڈیوں سے پورا سوٹ کیس بھرا ہوا تھا۔ اُس نے جلدی سے کپڑے اوپر رکھ دئیے اور سوٹ کیس کو بند کر دیا اور چاروں طرف یوں دیکھنے لگا جیسے اُسے کسی نے چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا ہو۔ جب اُسے اطمینان ہو گیا کہ وہاں کوئی موجود نہیں ہے تو اُس نے پھر سے سوٹ کیس کھولا۔ سو روپئے کے نوٹ کی ایک گڈی نکالی اور اُس میں سے تین نوٹ نکال لئے اور اپنی جیب میں رکھ لئے پھر سے اس گڈی کو اُسی جگہ رکھ دیا جہاں سے اُٹھایا تھا۔ سوٹ کیس کو اچھی طرح بند کر دیا۔ اور اُٹھ کر کھڑا ہو گیا پھر اچانک ایک خیال اس کے دل میں آیا۔ کپڑے جس پلاسٹک کی تھیلی میں رکھے ہوئے تھے اُس نے وہ تھیلی نکال لی اور اُس میں ہزار ہزار کے دو بنڈل اور پانچ سو کے نوٹوں کی ایک گڈی رکھ دی اور درخت کی جڑ کے پاس گڑھا کھود کر اُسے اچھی طرح گاڑ دیا۔ اُس پر ایک بڑا سا پتھر لا کر رکھ دیا اور چاروں طرف سے مٹی ڈال دی پھر وہ اُٹھا اور ایک سمت روانہ ہو گیا۔

            اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا وہ تیزی سے اپنے قدم بڑھاتا چلا جا رہا تھا۔ کافی دور آ جانے کے بعد اُسے کھیتیاں دکھائی دیں اور وہیں ایک کسان اپنے بیلوں کو لے جاتا ہوا دکھائی دیا وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور کسان سے کہا ’’دیکھئے میں راستہ بھول گیا ہوں کیا آپ بتا سکتے ہیں گاؤں کس طرف ہے ؟

            کسان نے کہا ’’ٹھیک ہے میرے ساتھ چلو، میں گاؤں میں ہی جا رہا ہوں۔ کس کے گھر جانا ہے۔ ‘‘

            جی مجھے کسی کے گھر نہیں جانا ہے۔ میری بس چھوٹ گئی۔ میں غلطی سے جنگل میں داخل ہو گیا اور بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچ پایا ہوں۔

            تم کو کہاں جانا ہے ؟

            جی مجھے نا سک جانا ہے۔ مجھے بس کہاں ملے گی۔

            چلو میرے ساتھ میں تمھیں بس اسٹاپ تک چھوڑ دوں گا۔ لیکن کیا معلوم نا سک کے لئے بس آئے گی بھی یا نہیں۔ چلو چل کر پوچھ لیتے ہیں۔

            جب وہ گاؤں پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ کسان نے اپنے گھر میں بیلوں کو باندھ دیا اور اُسے لے کر آگے بڑھا کافی دور چلنے کے بعد وہ بس اسٹاپ پر پہنچے وہاں ایک پان ٹھیلے والے سے کسان نے پوچھا۔ ارے اجّو بھیا۔ نا سک کے لئے بس کب آئے گی۔

            پان ٹھیلے والے نے کہا ’’بھیّا۔ نا سک کے لئے تو بس ابھی چلی گئی اب کل صبح  ۹ بجے نا سک کے لئے بس ملے گی۔

            عدنان نے کہا ’’یہاں کہیں رُکنے کی جگہ ہے کوئی سرائے وغیرہ۔

            کسان نے کہا بابو۔ یہاں کہاں سرائے وغیرہ۔ چلو ہمارے گھر چل کر رُک جاؤ صبح اُٹھ کر چلے جانا۔

            عدنان نے کہا ’’نہیں۔ جی آپ کو تکلیف ہو گی ویسے ہی آپ مجھے گاؤں سے اتنی دور لے کر آ گئے ہیں۔ میں کہیں بھی رُک جاؤں گا۔

            بابو ہمارا بڑا گھر ہے آنگن ہے کسی بات کی تکلیف نہیں ہے چلو ہمارے ساتھ۔ اتنا کہہ کر کسان نے اُس کے ہاتھ سے سوٹ کیس لے لیا اور واپس گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔

            عدنان نے کہا ’’نہیں آپ یہ سوٹ کیس مجھے دے دیجئے آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر اُس نے سوٹ کیس کسان کے ہاتھ سے لے لیا اور اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

            تھوڑی دیر میں وہ اُس کسان کے گھر پہنچ گئے۔ کسان نے کنوئیں سے پانی نکالا پانی کی بالٹی اُس کے سامنے رکھ دی اور کہا بابو۔ لو منھ ہاتھ دھولو۔

            اتنا کہہ کر کسان گھر میں چلا گیا۔

            اس مسلسل سفر کی وجہ سے عدنان کافی تھک چُکا تھا۔ اس کے والد کی وجہ سے سر پر جو زخم لگا تھا اُس میں بھی درد ہو رہا تھا۔ جنگل کے راستے کو پار کرتے کرتے وہ تھک چکا تھا۔ منھ ہاتھ دھو لینے کے بعد اُس نے کافی تازگی محسوس کی، تبھی ایک آٹھ نو سال کی لڑ کی اُس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور اُس سے کہا۔ باپو تمھیں بُلا رہے ہیں۔ چلو۔ عدنان نے سوٹ کیس اُٹھایا اور لڑ کی کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا اُس نے دیکھا گھر کے ایک کونے میں چولھا جل رہا تھا۔ ایک عورت چولھے کے پاس بیٹھی ہوئی روٹیاں پکا رہی تھی اور کسان وہیں قریب میں بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا کسان نے کہا ’’آؤ بابو یہیں چلے آؤ۔

            عدنان نے سوٹ کیس دروازے کے پاس رکھ دیا۔ اور کسان کے پاس پہنچ گیا۔ عورت کو اُس نے دھیرے سے نمستے کہا۔

            عورت نے نمستے کا جواب دیا اور کہا۔ آؤ بھیّا یہاں چٹائی پر بیٹھ جاؤ بغیر کسی جھجھک کے عدنان چٹائی پر کسان کے بازو بیٹھ گیا تب عورت نے لڑ کی سے کہا ’’مالتی جاؤ لوٹے گلاس میں پینے کا پانی لے آؤ۔

            لڑ کی جو اب تک بِن بلائے مہمان کو غور سے دیکھ رہی تھی اُس نے لوٹے گلاس میں پانی لا کر چٹائی پر رکھ دیا اور اپنے والد کے بازو بیٹھ گئی اور کہا۔

            باپو۔ کون ہیں یہ کہاں سے آئے ہیں۔

            کسان نے کہا ’’یہ اپنے مہمان ہیں۔ ہاں بابو تم کہاں سے آ رہے ہو۔

            عدنان نے کہا ’’جی میں ناگپور سے آ رہا ہوں راستے میں میری بس خراب ہو گئی کسی نے کہا کہ گاؤں قریب ہے میں چل پڑا اور راستہ بھول گیا اچھا ہوا آپ سے ملاقات ہو گئی۔

            کسان نے کہا ’’ہاں اچھا ہوا مجھ سے ملاقات ہو گئی اور ہمیں آپ کی سیوا کرنے کا موقع مل گیا۔

            اُسی وقت عورت نے پلیٹوں میں سبزی ڈال دی اور گرم گرم روٹیاں سامنے رکھ دیں۔ عدنان کو بہت زور کی بھوک لگی تھی۔ اُس نے سبزی روٹی کھانی شروع کر دی اُس نے سیر ہو کر کھایا۔ پانی پیا اور پھر اُٹھ کر اُس جگہ آگیا جہاں اُس نے سوٹ کیس رکھا تھا وہیں ایک کونے میں ایک چار پائی رکھی ہوئی تھی اُس پر چادر پڑی ہوئی تھی کسان نے کہا ’’بابو رات کافی ہو چکی ہے اور تم کافی تھکے ہوئے بھی لگ رہے ہو جاؤ چار پائی پر سو جاؤ۔

            عدنان نے کہا ’’نہیں میں کہیں بھی زمین پر سو جاؤ ں گا۔

            عورت نے کہا ’’نہیں بھیّا تم ہمارے مہمان ہو تم چارپائی پر سو جاؤ ہم لوگ یہاں بستر بچھا کر سو جائیں گے۔

            عدنان کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی اُس نے اپنا سوٹ کیس اُٹھایا سوٹ کیس چارپائی کے نیچے رکھ دیا اور اطمینان سے چارپائی پر لیٹ گیا۔ دن بھر کے واقعات پر غور کرنے لگا پھر تھوڑی دیر میں ہی نیند کی آغوش میں گُم ہو گیا۔

            صبح جب اُس کی آنکھ کھُلی تو اُس نے دیکھا کہ گھر کے سب لوگ جاگ چُکے تھے وہ بھی جلدی سے چارپائی سے اُٹھا جلدی جلدی اُس نے ضروریات سے فراغت پائی اور کسان کے کہنے پر پھر سے اُسی چٹائی پر بیٹھ گیا جہاں رات میں بیٹھ کر اُس نے کھانا کھایا تھا۔

            عورت نے نہایت اپنائیت سے ، محبت سے اُسے ناشتہ کرایا اُس نے بھی شوق سے کھایا چائے پی اور کسان سے کہا ’’بھیّا آپ نے میری بڑی مدد کی میری اچھی مہمان نوازی کی مجھے ہر تکلیف سے بچایا اور میری خاطر بہت کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا اِن سب کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ اب میں بس اسٹاپ تک چلا جاؤں گا۔ آپ تکلیف نہ کریں۔ اُس نے عورت کا بھی شکریہ ادا کیا لڑ کی کے ہاتھ میں سو روپئے کا ایک نوٹ دینا چاہا لیکن کسان اور عورت نے اُسے نہایت اپنائیت سے منع کر دیا۔ بالآخر ان سے وداع ہو کر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا بس اسٹاپ پر پہنچ گیا۔ پان ٹھیلے والے سے اُس نے پوچھا ’’بھیّا جی نا سک والی بس کہاں رُکے گی۔

            اُس نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ عدنان اُس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا۔

            یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ سمتا پور اُس کا نام تھا۔ عدنان نے اچھی طرح گاؤں کا نام اور پورا نقشہ اپنے دماغ میں اتار لیا، تھوڑی دیر میں نا سک جانے والی بس آ گئی اور وہ اس پر سوار ہو گیا۔ بس روانہ ہو گئی بس میں اُسے بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ کنڈکٹر اس کے قریب آیا تو اس نے نا سک کا ٹکٹ لے لیا جو ایک سو بیس روپئے کا ہوا۔ کنڈکٹر نے اُسے اسّی روپئے واپس کر دئیے وہ روپئے اُس نے جیب میں رکھ لئے۔

            نا سک جانے کا خیال بھی اُس کے دل میں یوں آیا کہ اُس کے ایک چچا نا سک میں رہتے تھے لیکن وہ کبھی ان کے گھر گیا نہیں تھا بس سنا تھا کہ وہ نا سک میں رہتے ہیں ۔ وہ اُس کے گھر دو بار آ چکے تھے لیکن اُس کے والد اور وہ خود کبھی وہاں نہیں گئے تھے کسان نے اُس سے جانے کی جگہ پوچھی تو اس نے بے اختیار نا سک کا نام لے لیا اب اُس کی بس تیزی سے نا سک کی سمت چلی جا رہی تھی۔ بس میں بیٹھ کر اُسے کسان کی یاد آ گئی کتنی محبت سے اُس نے اُسے کھانا کھلایا اور مہمان بنا کر اپنے گھر میں رکھا۔ پھر اُسے اپنے والد کی اور والدہ کی یاد آ گئی ایک ذراسی بات پر اُس نے گھر چھوڑ دیا اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اُس نے تہیہ کر لیا کہ گھر نہیں جائے گا سوٹ کیس میں موجود پیسوں سے کوئی کاروبار کرے گا اور پھر اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا لے گا۔

            اُس کے والد جو پاور لوم پر مزدوری کرتے تھے اُس کی والدہ کانڈی بھرنے کا کام کرتی تھیں دونوں کی ہفتہ بھر کی جو کمائی ہوتی تھی اُس کی زیادہ رقم اس کے والد شراب میں اُڑا دیتے تھے اور جب بھی شراب پی کر آتے تھے ایسی ہی دھوم کرتے تھے جیسی کہ گذشتہ دن انھوں نے گھر میں کی تھی لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ اُس سے ماں پر ظلم برداشت نہیں ہوا اُس نے اپنے والد کی پٹائی کر دی۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

            رُکتے چلتے اُس کی بس شام چھ بجے نا سک پہنچ گئی وہ بس اسٹاپ پر اتر گیا۔ کئی رکشے والے اُس کی طرف بڑھے۔ اب اُسے کہاں جانا تھا۔ کچھ پتہ نہ تھا۔ اپنے چچا کے گھر کا ایڈریس بھی اُسے معلوم نہ تھا۔ وہ سوٹ کیس لے کر تھوڑی دور آیا اور پھر اُس نے ایک آٹو رکشہ کو روکا اور کہا ’’بھیّا یہاں کوئی مسجد ہو گی تو مجھے وہاں چھوڑ دو۔

            ٹھیک ہے بیٹھ جاؤ۔ آٹو رکشہ والے نے کہا اور اُسے لے جا کر ایک بہت بڑی مسجد کے سامنے اتار دیا۔ بیس روپئے کرائے کے لئے اور چلا گیا۔

عدنان سوٹ کیس لے کر وہاں کھڑا ہو گیا تبھی ایک بزرگ مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیئے عدنان نے آگے بڑھ کر بزرگ کو سلام کیا اور کہا ’’حضرت میں ایک مسافر ہوں ناگپور سے آیا ہوں مجھے دو چار دن قیام کرنا ہے یہاں مسجد میں مسافروں کے لئے کچھ کمرے ہیں۔

            بزرگ نے کہا۔ ہاں آؤ۔ میں تمھیں مینجر سے ملا دیتا ہوں۔

            وہ اُسے لے کر مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے دائیں طرف حوض بنا ہوا تھا اور بائیں طرف ایک کمرہ تھا جہاں ٹیبل اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ٹیبل کے سامنے کی کرسی پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا بزرگ نے اُسے سلام کیا اور عدنان کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’اِنھیں دوچار دن کے لئے کمرہ چاہئے۔

            اُس شخص نے عدنان کو اندر بلایا اُسے غور سے دیکھا اور کہا۔ کہیئے کیا نام ہے آپ کا؟

            جی میرا نام۔ عدنان ہے۔ عدنان رفیع

            اچھا کہاں سے آئے ہیں آپ؟

            جی ناگپور سے۔ مومن پورہ ناگپور سے۔

            آپ کے والد کا کیا نام ہے۔

            جی عرفان۔ عرفان رفیع

            اچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔

            جی۔ میں اپنے چچا سے ملنے آیا ہوں !

            آپ کے چچا کہاں رہتے ہیں ؟

            جی وہ پتہ میں بھول گیا ہوں ڈائری میں لکھا ہے ڈائری سوٹ کیس میں ہے کل بتا دوں گا۔

            اچھا ٹھیک ہے آپ کب تک رُکیں گے ؟

            میں بس دو چار دن رکوں گا۔

            ٹھیک ہے۔ یہ لیجئے چابی اور اوپر چلے جائیے روم نمبر ۱۲ میں۔ اور دو دن کا کرایہ سو روپئے جمع کر دیجئے۔

            عدنان نے چابی لے لی اور کہا ’’جی ہاں ابھی میں کرایہ جمع کرا دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چابی لے کر اوپر زینے پر چڑھ گیا۔ تھوڑی دوری پر ہی روم نمبر ۱۲ اُسے نظر آگیا۔ تالا کھولا اندر گیا۔ دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ سوٹ کیس کھول کر سو روپئے کے بنڈل سے پانچ نوٹ نکال کر جیب میں رکھ لئے اور سوٹ کیس کو بند کر دیا نوٹ بالکل نئے اور کڑک تھے اُس نے ہاتھوں سے مسل کر اُسے نرم اور گندہ کر دیا۔ اور نیچے آ کر اُس نے سو روپئے مینجر کو دے دئیے اور پھر اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

            چھوٹا سا کمرہ تھا ایک پلنگ بچھی ہوئی تھی وہ اُس پر جا کر آرام سے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر لیٹا رہا پھر اُسے بھوک کا احساس ہوا۔ اُس نے بازو میں بنے ہوئے باتھ روم میں جا کر منھ ہاتھ دھویا اور کمرے کو تالا لگایا چابی اپنی جیب میں رکھ لی اور پھر باہر نکل کر آگیا۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ اذان ہونے والی تھی۔ وہ تھوڑی دور آیا تو اس نے دیکھا بازار کا علاقہ تھا۔ یہاں زیادہ تر مسلمانوں کی دوکانیں تھیں۔ مکان بھی زیادہ تر مسلمانوں کے ہی تھے اُسے ایک کھانے کی ہوٹل دکھائی دی وہ وہاں چلا گیا۔ اُس نے بیرے کو بریانی لانے کا آرڈر دیا۔ بہت ہی عمدہ بریانی تھی سیر ہو کر کھایا۔ کوکا کولا پیا اور باہر نکل آیا۔ ایک دوکان سے اُس نے تولیہ صابن، سر میں لگانے کا تیل کنگھی آئینہ وغیرہ خرید لیا۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر گھومتا رہا پھر ساڑھے نو بجے کے قریب وہ اپنے کمرے میں آیا اور سو گیا۔

            صبح آرام سے سو کر اُٹھا۔ اچھی طرح نہایا دھویا اور سوٹ کیس کے اندر موجود کپڑوں میں سے ایک سفاری سوٹ نکال لیا اُسے پہن لیا وہ اُسے بالکل فٹ آگیا ان کپڑوں کو پہن کر جب اُس نے آئینہ دیکھا تو اُسے خود اپنی شخصیت کافی اچھی لگی۔ اُس نے زندگی میں کبھی اتنا قیمتی سوٹ نہیں پہنا تھا۔ غریبی کے حالات سے ان کی زندگی گزر رہی تھی اس پر اُس کے والد کو شراب پینے کی لت، جتنی وہ کمائی کرتے تھے اور جتنی اُس کی والدہ کی مزدوری ہوتی تھی اس کا بڑا حصہ شراب کی نذر چڑھ جاتا تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر ان کی گزر بسر ہو رہی تھی۔ ہفتہ میں دو چار وقت کے فاقے ہو جایا کرتے تھے۔ آج اتنے اچھے کپڑوں کو پہن کر وہ خود کو ہی پہچان نہیں پا رہا تھا ایسے میں اُسے اپنی والدہ کی یاد آ گئی اس کی والدہ ایک غریب گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑ کی تھیں۔ ۱۲ ویں پاس تھیں لیکن غربت کی وجہ سے کوئی اچھا رشتہ نہیں آیا۔ پاور لوم پر مزدوری کرنے والے لڑکے سے اُن کی شادی ہو گئی بُری صحبت میں پڑ کر اُس کے والد کو شراب پینے کی عادت پڑ گئی تب سے ساری خوشیاں اُن سے دور ہو گئیں۔ اُس نے سوچا کاش اُس کی والدہ اُسے اس لباس میں دیکھ لیتی۔ بازار سے لایا ہوا تیل اس نے اپنے سر میں لگایا بالوں میں اچھی طرح کنگھی کی اور ہر طریقے سے تیار ہو کر وہ باہر نکلا ان کپڑوں پر اُس کی پرانی گھسی پٹی سلیپر کچھ میل نہیں کھا رہی تھی۔ اُس نے سوچا کہ وہ بازار سے ایک جوڑی اچھا جوتا اور موزہ خریدے گا۔

            اُس نے کمرے کے دروازے کو تالا لگایا چابی اپنی جیب میں رکھ لی اور مسجد سے باہر چلا آیا۔ پہلے تو ایک ہوٹل میں بیٹھ کر اچھی طرح ناشتہ کیا پھر ایک جوتوں کی دوکان سے اپنے لئے ایک جوڑی اچھا سا جوتا خریدا موزہ لیا اور سلیپر کو وہیں چھوڑ دیا، پھر بازار سے ایک چھوٹا سوٹ کیس خریدا کیونکہ اُس کے پاس کے سوٹ کیس کا تالا ٹوٹ چکا تھا۔ وہ پھر اپنے کمرے میں آیا۔ اُس نے ساری رقم نکال کر نئے لائے ہوئے سوٹ کیس میں رکھ لی اُس میں اچھی طرح تالا لگا دیا اور پھر سے آئینے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اُس نے دیکھا کہ سُرمئی رنگ کے سفاری سوٹ کی شرٹ کی دونوں جیبوں پر ایک خاص طریقے کا نشان بنا ہوا تھا۔ بیچ میں ایک عقاب تھا اور دونوں جانب سے دو گھوڑے جو اپنے اگلے پیر اُٹھا کر پچھلے پیروں پر کھڑے ہوئے تھے۔ چمکدار تاروں سے بنا ہوا وہ ڈیزائن تھا جس سے شرٹ کی خوبصورتی کافی بڑھ گئی تھی وہ کافی دیر تک غور سے اُس ڈیزائن کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ کمرے سے نکل کر باہر آگیا دروازے کو اچھی طرح تالا لگا دیا۔ کافی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتا رہا کیونکہ اُسے جوتے پہننے کی عادت نہیں تھی اس لئے پیدل چلنے میں اُسے کافی تکلیف ہو رہی تھی۔ راستے میں جو چیز اُسے اچھی دکھائی دیتی خرید لیتا جو کھانے کو من چاہتا کھا لیتا۔ اپنی زندگی میں اُس نے اتنے پیسے کبھی نہیں دیکھے تھے شائد خواب میں بھی اتنے پیسے اُس نے نہیں دیکھے تھے جو ایک حادثہ کی وجہ سے اُس کے ہاتھ لگ گئے تھے گھومتے پھرتے وہ ایک سینیما گھر کے قریب پہنچ گیا۔ تین بجے کا شو شروع ہونے والا تھا۔ سب سے اونچی ٹکٹ نکال کر سینما گھر میں جا کر بیٹھ گیا تین گھنٹے تک فلم سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ فلم ختم ہوئی تو سینما ہال سے باہر آیا۔ چہل قدمی کے انداز میں ایک ایک چیز کو دیکھتا ہوا سڑ ک کے کنارے کنارے چلا جا رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی دھیرے دھیرے دوکانوں کی روشنیاں جلنا شروع ہو چُکی تھیں۔ اُس نے سوچا کہ کچھ دیر چل کر کمرے پر آرام کرے گا پھر رات کا کھانا کھائے گا اور سو جائے گا۔ یہی سوچ کر وہ مسجد کی طرف چلا جا رہا تھا سواریاں اُس کے قریب سے گزرتی چلی جا رہی تھی تبھی اُسے سامنے سے پولس کی ایک جیپ گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی۔ پولس کی گاڑی کو دیکھ کر اچانک اُسے ایک خوف سا محسوس ہوا وہ تیزی سے کنارے کی طرف کھسک گیا جیپ گاڑی اُس کے قریب سے ہو کر گزر گئی اور پھر اچانک گاڑی کو بریک لگا گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی پھر آہستہ آہستہ گاڑی پیچھے کی طرف آئی، یہ دیکھ کر عدنان کے ہوش گُم ہو گئے چہرہ پر گھبراہٹ کی وجہ سے پسینہ نمودار ہو گیا وہ تیزی سے آگے بڑھ کر نکل جانا چاہتا تھا کہ تبھی انسپکٹر اور دو سپاہی تیزی سے نیچے اترے اور انسپکٹر نے عدنان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ خوف سے اُس کا بدن تھر تھر کانپنے لگا چہرے پر ایک دہشت سی طاری ہو گئی۔ انسپکٹر نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو ایک زوردار طمانچہ اس کے گال پر مارا وہ زمین پر گِر پڑ ا۔ انسپکٹر نے اُسے اُٹھایا اور اس سے پوچھا ’’بتا یہ کپڑے تیرے پاس کہاں سے آئے ؟

            عدنان رونے لگا۔ انسپکٹر نے ڈانٹ کر اس سے کہا ’’یہ سفاری سوٹ تجھے کہاں ملا ہے صحیح صحیح بتا دے ورنہ مار مار کر تیرا بُرا حال کر دوں گا۔

            عدنان نے ہمّت ہار دی اور جلدی سے کہا انسپکٹر صاحب مجھے چھوڑ دو مجھے معاف کر دو میں سب کچھ سچ سچ بتا دیتا ہوں۔

            ٹھیک ہے چل بیٹھ گاڑی میں۔ انسپکٹر نے اتنا کہا اور اُسے گاڑی میں پیچھے بٹھا دیا وہ خود بھی اُس کے قریب بیٹھ گیا پھر انسپکٹر نے اُس سے کپڑے کی بابت دریافت کیا ’’عدنان نے ریل گاڑی میں سوار ہونے سے لے کر مسجد کے کمرے میں پہنچنے تک ساری باتیں اُسے بتا دیں صرف اُس نے اُس رقم کے بارے میں نہیں بتایا جو اُس نے نیم کے درخت کے نیچے گاڑ کر رکھ دی تھی۔

            اُسی وقت پولس کی جیپ جامع مسجد میں پہنچ گئی۔ عدنان کے کمرے کو کھول کر اُس کا سارا سامان پولس نے ضبط کر لیا انسپکٹر نے اس سوٹ کیس کو کھول کر دیکھا جس میں رقم رکھی ہوئی تھیں نوٹ جوں کے توں وہاں موجود تھے۔ انسپکٹر نے اُس میں سے سو کے نوٹوں کی دو گڈیاں نکالیں اور اپنی جیب میں رکھ لیں سوٹ کیس بند کر دیا پھر مسجد کے مینجر کو اطّلاع دے کر عدنان اور سارے سامان کو گاڑی میں ڈال کر ان کی گاڑی ایک سمت تیزی سے دوڑ نے لگی۔

            تقریباً آدھے گھنٹے بعد پولس کی جیپ گاڑی ایک بہت بڑے بنگلے کے سامنے جا کر رُکی عدنان نے دیکھا اس بنگلے کے اوپری حصے پر ویسا ہی نشان بنا ہوا تھا جیسا کہ اُس کے سفاری سوٹ کی شرٹ کی جیب پر بنا ہوا تھا جو وہ پہنے ہوئے تھا۔ ویسے ہی نشانات گیٹ پر اور دروازوں پر بھی بنے ہوئے تھے۔ انسپکٹر نے ایک سپاہی کو ساتھ لیا۔ عدنان کا سارا سامان اور عدنان کو لے کر وہ بنگلے کے اندر داخل ہوئے۔ گیٹ پر ایک دربان کھڑا ہوا تھا۔ انسپکٹر نے اُس سے کہا ’’سیٹھ صاحب سے کہو انسپکٹر جگدیش آیا ہے۔ بہت ضروری کام ہے۔

            دربان اندر گیا اور تھوڑی دیر میں آ کر انسپکٹر سے کہا چلئے صاحب نے آپ کو اندر طلب کیا ہے۔

            انسپکٹر نے سپاہی کو وہیں روک دیا اور عدنان کو اُس کے دونوں سوٹ کیس کے ساتھ اندر لے کر چلا، ایک دو کمروں سے گزرتے ہوئے وہ بیچ کے ایک لمبے چوڑے کمرے میں پہنچے جس کے چاروں طرف قیمتی صوفے اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بالکل سامنے ایک بڑے اور اونچے صوفے پر ایک شخص نہایت قیمتی سوٹ پہنے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔ انسپکٹر نے اُسے سلام کیا۔ اُس نے آنکھ کے اشارے سے اس کا جواب دیا اور ایک خاص فاصلے پر کھڑے رہ کر انسپکٹر نے عدنان کے ذریعہ بیان کی گئی پوری کہانی اُس آدمی کو سُنا دی اور وہ سوٹ کیس جس میں روپئے رکھے ہوئے تھے اس کے سامنے کی میز پر لے جا کر رکھ دیا اُس نے سوٹ کیس کھول کر دیکھا ایک نظر اس رقم پر ڈالی جو سوٹ کیس میں رکھی ہوئی تھی پھر اُس نے سو۔ سو کے نوٹوں کے دو بنڈل انسپکٹر کی طرف اچھال دئیے جسے انسپکٹر نے جھپٹ لیا۔ انسپکٹر اُسے سلام کر کے چلا گیا۔

            انسپکٹر کے چلے جانے کے بعداُس شخص نے عدنان کو اپنے قریب بُلایا اور اُس سے کہا ’’ہاں بچّے کہو تم نے کیا دیکھا۔

            ریل گاڑی کا پورا واقعہ عدنان نے اُسے بتا دیا پھر وہ کس طرح سوٹ کیس لے کر نا سک چلا آیا یہ باتیں بھی اُس نے اُسے تفصیل سے بتا دیں۔

            وہ شخص یہ ساری باتیں سننے کے بعد کچھ دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر اُس نے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور کہا ’’اِسے اندر بند کر دو۔ ‘‘ وہ شخص عدنان کو اپنے ساتھ لے کر گیا اور بنگلے میں بنے ہوئے حوالات جیسے ایک کمرے میں پہنچا دیا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔

            عدنان اس کمرے میں بالکل اکیلا تھا۔ کمرہ چاروں طرف سے بند تھا کھڑ کیوں پر مضبوط لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ اُسی کمرے سے لگا ہوا ایک کمرہ تھا عدنان نے روشن دان سے جھانک کر دیکھا اُس کمرے میں ایک عورت اکیلی ایک پلنگ پر لیٹی ہوئی چھت کو تاک رہی تھی چہرے پر سنجیدگی اور غم کے آثار تھے۔ عدنان فرش پر بیٹھ گیا اور اِس نئی مصیبت میں گرفتار ہونے کے صدمے سے رونے لگا۔ ایک گھنٹہ کے بعد دروازہ کھلا، ایک آدمی اندر آیا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی ٹرے میں کھانا اور پانی تھا اُس نے وہ ٹرے عدنان کے سامنے رکھ دی اور کہا جلدی سے کھانا کھا کر پلیٹیں خالی کر دو۔ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا اور پھر سے اُس نے دروازہ بند کر دیا۔

            عدنان کو بھوک تو نہیں لگی تھی پھر بھی اُس نے تھوڑا کھانا کھایا پانی پیا اور فرش پر لیٹ گیا۔ اُس کی خوشیوں کا دور اتنی جلد گزر جائے گا اُسے اندازہ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہی آدمی اندر آیا اور وہاں سے ٹرے اُٹھا کر چلا گیا۔ عدنان جیسا لیٹا تھا ویسا ہی لیٹا رہا اور تھوڑی دیر میں گہری نیند میں ڈوب گیا۔

            دوسرے دن سویرے جب سوکر اُٹھا تو وہ کمرے میں اکیلا ہی تھا۔ بازو کے کمرے سے اُسے چیخ اور سسکیاں سنائی دے رہی تھیں اُس نے روشن دان سے جھانک کر دیکھا جو عورت پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی اُس کو شاک دیا جا رہا تھا اور درد سے وہ عورت تڑ پ اُٹھتی تھی۔ اس کے منھ سے جھاگ نکل رہا تھا اور پورا بدن پسینے سے گیلا ہو گیا تھا یہ منظر دیکھ کر وہ کانپ اُٹھا اور جلدی سے اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ اُسے ایک آدمی اپنے ساتھ باہر لے کر آیا۔ باتھ روم کا راستہ بتا دیا۔ اچھا صاف ستھرا باتھ روم تھا۔ برش، ٹوتھ پیسٹ، صابن، تولیہ ہر چیز وہاں موجود تھی۔ اُس وقت اُسے اپنی ماں کی بار بار کہی ہوئی یہ بات یاد آ رہی تھی کہ بیٹا مصیبت میں رونے دھونے اور افسوس کرنے سے اچھا ہے کہ ہم یا تو مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کریں اور یہ ممکن نہ ہو تو خود کو حالات کے بھروسے چھوڑ دیں کیونکہ قسمت کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اس بات کے دماغ میں آتے ہی اس نے نہایت اطمینان سے برش کیا اور نہایا۔ باہر نکلا تو اُس نے دیکھا وہ شخص جو اُسے لے کر آیا تھا وہیں کھڑا ہوا تھا۔ اُسے وہ ایک دوسرے کمرے میں لے کر آیا وہاں میز پر ناشتہ رکھا ہوا تھا۔ عدنان نے کرسی پر بیٹھ کر اچھی طرح ناشتہ کیا۔ وہ اُسے لے کر اُس ہال میں آئے جہاں سیٹھ صاحب سے اُس کی ملاقات ہوئی تھی وہ اُسی طرح اپنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُسے دیکھ کر انھوں نے ساتھ کے آدمی سے کہا ’’لے جاؤ اِسے لے جا کر فارم ہاؤس کے جانوروں کے پنجرے میں ڈال دو۔ اتنا کہہ کر انھوں نے ایک چابی اُس آدمی کی طرف اچھال دی۔ جو اُس آدمی نے جھپٹ کر پکڑ لی اُس نے چابی جیب میں رکھ لی اُسے اپنے ساتھ لے کر باہر آیا۔ بنگلے کی ایک سمت گیریج بنا ہوا تھا۔ جس میں کئی گاڑ یاں کھڑی ہوئی تھیں۔ وہیں ایک بڑی سی کوالیس Qualis گاڑی میں ڈرائیور کی سیٹ پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس گاڑی کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھولا ڈرائیور کو چابی دی اور ڈرائیور کے بازو اُس نے عدنان کو بٹھا دیا اور خود اس کے بازو بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے ڈرائیور سے کہا فارم ہاؤس چلو۔ گاڑی وہاں سے روانہ ہوئی۔ عدنان دل ہی دل میں اُس لمحہ کو کوس رہا تھا جب اُس کے والد شراب پی کر گھر آئے تھے اور جس کی وجہ سے اُسے گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اُسے اپنی والدہ کی یاد آ گئی جو اُس سے بے پناہ پیار کرتی تھیں کیوں کہ تین بچوں میں سے وہ اکیلا ہی زندہ بچا تھا باقی دو بچے ابتدائی عمر میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ ماں کی یاد آتے ہی وہ رونے لگا۔ آنسو اس کی آنکھ سے بہنے لگے اور سسکیاں اس کے منھ سے نکلنے لگیں پہلے بازو کے آدمی نے اور پھر ڈرائیور نے اُس کی طرف دیکھا۔ بازو کے آدمی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’بچّے تو نے وہ دیکھ لیا جو تجھے دیکھنا نہیں چاہئے۔ اب ہمیں وہ دیکھنا ہے جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ سب قسمت کا کھیل ہے چُپ ہو جا بچے چُپ ہو جا اور اپنے رب کو یاد کر۔ واہ گرو کے سوا کوئی موت کو زندگی  میں نہیں بدل سکتا۔

            گاڑی اپنی پوری رفتار سے چلی جا رہی تھی تھوڑی دیر میں ہی گاڑی نے شہر کی حد پار کر لی کھیتوں کے کنارے بنی کولتار کی ہموارسڑ ک پر تیزی سے دوڑ نے لگی۔ ایسے میں عدنان کو وہ ساری دعائیں یاد آ رہی تھیں جو اُسے اُس کی والدہ نے یاد کرائی تھیں دل ہی دل میں وہ دعائیں پڑھ رہا تھا۔ سسک رہا تھا اور خدا سے اپنی زندگی بچ جانے کی دعا مانگ رہا تھا۔ ایسے ایک لمحہ میں جب کہ ڈرائیور عدنان کی طرف دیکھ کر کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ سامنے سے تیزی سے آتے ہوئے ایک ٹرک نے اس گاڑی کو زور دار ٹکّر ماری، ٹکّر اتنی زبردست تھی کہ گاڑی ہوا میں اچھل گئی پہاڑی کے کنارے بنی ہوئی کھائی میں جا گری۔ کھائی سے لگ کر ہی ندی بہہ رہی تھی ندی میں کافی پانی تھا۔ ٹرک کی زبردست ٹکّر کی وجہ سے گاڑی کا دروازہ کھل گیا پہلے کنارے بیٹھا ہوا آدمی نیچے گِرا اور اس کے بعد عدنان اُس کے پیچھے سیدھے اُس کے اوپر جا کر گِرا۔ ڈرائیور گاڑی سمیت سیدھے جا کر ندی میں غرق ہو گیا۔ عدنان کا سر ایک چٹان سے ٹکرایا پھر اُس کا پورا وجود گہرے اندھیرے میں غرق ہو گیا۔ وہ چٹانوں پر سے لڑھکتا ہوا ندی کے کنارے کی ریت پر آ کر گِرا۔

            جہاں یہ حادثہ ہوا تھا اُس سے تھوڑے فاصلے پر ایک مندر تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس مندر کے سادھو مہاراج اشنان کرنے اُس ندی میں آئے جب وہ اشنان کر کے جا رہے تھے تو اُنھیں ریت میں پڑا ہوا عدنان دکھائی دیا، وہ تیزی سے چلتے ہوئے وہاں پہنچے۔ انھوں نے اُسے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ آس پاس دیکھا لیکن آس پاس انھیں کوئی چیز دکھائی نہیں دی۔ گاڑی اور دوسرا آدمی بھی ندی کی گہرائی میں سما چکے تھے۔ سادھو مہاراج نے بے ہوش عدنان کو کسی طرح اپنے کاندھے پر اُٹھا لیا اور اُسے لے کر مندر میں آ گئے مندر کے کنارے ان کا کمرہ بنا ہوا تھا انھوں نے اُسے چارپائی پر لٹا دیا۔ ایک لڑ کا مندر کے آنگن کی صفائی کر رہا تھا۔ سادھو مہاراج نے آواز دے کر اُسے بلایا۔ جب وہ لڑ کا کمرے میں آگیا تو انھوں نے اُس سے کہا ’’دیکھو، آکاش یہ لڑ کا ندی کنارے زخمی حالت میں ملا ہے اس کے جسم پر کئی جگہ زخم لگے ہیں خون کافی بہہ گیا ہے تم جا کر فوراً ڈاکٹر رابرٹ کو میرا نام بتانا اور اس لڑکے کی حالت کا ذکر کرنا اور انھیں ساتھ میں لے کر آنا۔ جاؤ فوراً جاؤ۔

            آکاش وہاں سے چلا گیا۔ سادھو مہاراج نے جہاں جہاں گہرے زخم تھے ٹھنڈے پانی کی پٹی باندھ دی تاکہ خون کا بہنا بند ہو جائے۔ اُس کے چہرے اور جسم پر جمے ہوئے خون کو گیلے کپڑے سے اچھی طرح صاف کر دیا۔

            آدھے گھنٹے بعد ایک ایمبولینس آ کر مندر کے پاس رُکی اس میں سے ایک عیسائی ڈاکٹر جو فادر کے لباس میں تھا باہر نکلا۔ اُس کے ساتھ ہی دوائی کا باکس لے کر آکاش بھی نیچے اُترا۔ وہ تیزی سے سادھومہاراج کے کمرے میں داخل ہوئے۔ سادھو مہاراج چار پائی کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ سادھو مہاراج نے ڈاکٹر رابرٹ سے کہا ’’فادر اِسے دیکھو ندی کنارے یہ لڑ کا زخمی حالت میں مِلا ہے۔

            ڈاکٹر نے باکس میں سے آلہ نکالا اُس نے دل کی دھڑ کن اور جسم کے مختلف حصّوں میں دورانِ خون کی رفتار کو دیکھا اور کہا ’’خون کافی بہہ گیا ہے۔ کم سے کم ایک بوتل خون دینا ہو گا۔ ابھی میں اِسے انجکشن لگا دیتا ہوں اور زخموں پر بینڈیج باندھ دیتا ہوں اِس کے خون کا ٹیسٹ کر لیتا ہوں اگر اس کے گروپ کا خون مل گیا تو اِسے کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر خون نہیں ملا تو اِسے اسپتال میں بھرتی کرنا پڑے گا۔

            جلدی جلدی ڈاکٹر نے اُس کے دونوں ہاتھوں میں دو انجکشن لگائے پھر اُس نے اُس کے سارے زخموں کو اچھی طرح صاف کر کے دوائی لگائی، بینڈیج باندھ دی اور سادھو مہاراج سے کہا ’’مہاراج سر میں کافی گہرا زخم آیا ہے۔ اور لگتا ہے کہ پیر کی ایک ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے۔ خطرے کی کوئی بات تو نظر نہیں آ رہی ہے اصل خطرہ کا علم اُسی وقت ہو گا جب لڑ کا ہوش میں آئے گا۔ اگر دماغ اِس کا ٹھیک ہو گا تو پھر خطرے کی کوئی بات نہیں ہو گی۔

            اُسی وقت اُس نے انجکشن سے اس کا خون نکالا مختلف طریقے سے اُس کا ٹیسٹ کیا اور خوش ہو کر کہا ’’چلو اِس کا گروپ کامن ہے اِس گروپ کا خون اسپتال میں موجود ہے۔

            پھر اُس نے آکاش کو ایک چٹھی لکھ کر دی اور اُس سے کہا کہ وہ جائے اور فوراً اسپتال سے خون لے کر آ جائے۔

            آکاش وہاں سے چلا گیا۔ ڈاکٹر عدنان کے قریب میں بیٹھا رہا۔ غور سے اُس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد عدنان کے جسم میں تھوڑی حرکت ہوئی۔ ڈاکٹر نے اُس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور عدنان نے آنکھیں کھول دیں۔ حیران نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا چند لمحے تو اُسے کچھ نظر ہی نہیں آیا جیسے آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی ہو پھر دھیرے دھیرے آنکھوں کا دُھندلا پن دور ہوا اور سارا منظر صاف صاف دکھائی دینے لگا۔ اپنے سامنے ایک سادھو اور ایک فادر کو دیکھ کر وہ حیران ہو ہی رہا تھا کہ ڈاکٹر نے اُس سے کہا ’’ہلو نوجوان۔ کیسا محسوس کر رہے ہو؟

            عدنان نے تھوڑا رُک کر جواب دیا۔ ٹھیک ہوں۔

            ویری گڈ۔ گاڈ نے تمھیں بچا لیا۔ سادھو مہاراج کو تمھارے پاس بھیج کر گاڈ نے تمھیں بچا لیا۔ کیا نام ہے تمھارا؟

            جی میرا نام عدنان ہے۔ عدنان رفیع

            ویری گڈ۔ تمھارا دماغ ٹھیک طرح کام کر رہا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے زخم کافی ہیں۔ اور کافی گہرے ہیں۔ وقت لگے گا لیکن اچھے ہو جاؤ گے ہمّت سے کام لو۔ حوصلہ رکھو۔ اتنا کہہ کر ڈاکٹر نے ایک انجکشن تیار کیا اور وہ عدنان کی کمر میں لگا دیا۔ تھوڑی دیر تک عدنان کمرے کی چیزوں کا جائزہ لیتا رہا اور پھر وہ گہری نیند میں ڈوب گیا۔ تبھی آکاش خون کی بوتل لے کر آگیا۔ اُس کے ساتھ پلاسٹک کی نلی سوئی اور دوسری ضروری چیزیں بھی تھیں۔ ڈاکٹر نے چارپائی کے کنارے کپڑے پھیلانے کی رسّی پر بوتل ٹانگ دی اور اُس کی نلی عدنان کے ہاتھ کی رگ میں داخل کر دیا۔ خون قطرہ قطرہ عدنان کے جسم میں منتقل ہوتا رہا۔ اُسی وقت سادھو مہاراج نے آکاش سے کہا ’’بیٹا جاؤ۔ ذرا میرے لئے اور ڈاکٹر صاحب کے لئے چائے تو بنا لاؤ۔ آکاش بازو کے کمرے گیا اور تھوڑی دیر میں چائے بنا کر لے آیا۔ دونوں نے چائے پی تب تک بوتل کا پورا خون عدنان کے جسم میں داخل ہو چکا تھا۔

            پھر سے ڈاکٹر نے عدنان کا اچھی طرح معائنہ کیا اور کچھ دوائیں اور اُن کو کھلانے کا طریقہ بتایا۔ جاتے جاتے ڈاکٹر نے کہا ’’میں شام میں ہڈی کے ڈاکٹر کو لے کر آؤں گا۔ وہ اس کی ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا دے گا۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ٹھیک ہے اور آپ اس کی فکر نہ کریں ہم اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے رہیں گے۔

            ڈاکٹر نے کہا ’’میں نے اِسے نیند کا انجکشن دے دیا ہے کم سے کم چھ گھنٹے تک یہ سوتا رہے گا۔ اِسے جگانے کی کوشش مت کرنا تب تک میں بھی آ جاؤں گا۔

            ٹھیک ہے۔ سادھو مہاراج نے کہا اور ڈاکٹر اپنی گاڑی لے کر وہاں سے چلا گیا۔

            ڈاکٹر کے چلے جانے کے بعد سادھو مہاراج نے آکاش سے کہا ’’بیٹا۔ صفائی کا کام ہو جائے تو بازار سے سامان لے کر آ جانا میں تب تک اس لڑکے کے قریب بیٹھا رہوں گا۔

            جی بہت اچھا۔ آکاش نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ باہر آ کر اُس نے پورے مندر کے آنگن کی صفائی کی۔ اچھی طرح منھ ہاتھ دھویا اور تھیلی لے کر بازار چلا گیا۔

            پہاڑ کی ترائی میں ندی کے کنارے ایک وسیع و عریض جگہ پر بنا ہوا یہ ایک خوبصورت مندر تھا۔ کسی پرانے راجہ نے اِسے بنوایا تھا۔ شہر سے کافی دور ہونے کی وجہ سے یہاں زیادہ لوگ نہیں آتے تھے بارش اور سردیوں کے موسم میں کافی لوگ پکنک منانے یا فیملی کے ساتھ پکانے کھانے یہاں آ جاتے تھے یہاں ندی کا پھیلاؤ کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے ندی کی گہرائی بھی کم تھی گرمی میں پانی کافی کم ہو جاتا تھا کسی ایک طرف سے پانی بہتا رہتا تھا۔ ایک عرصہ سے سادھو مہاراج اس مندر کی دیکھ بھال کرتے آ رہے تھے۔ ایک بار شہر میں دنگا ہو گیا تھا۔ امن ہو جانے کے بعد سادھو مہاراج شہر میں گئے تھے اُنھیں ایک گھر کے سامنے پڑا ہوا ایک لڑ کا ملا ڈھائی تین سال کا بچہ۔ لا وارث۔ سادھو مہاراج اُسے اُٹھا کر لے آئے لڑ کا دھیرے دھیرے بڑا ہوا۔ اب وہی لڑ کا آکاش مندر اور گھر بار کے کاموں کو ہر طریقے سے پورا کرتا ہے۔

            مندر میں روزانہ اتنے لوگ آ جاتے ہیں کہ ان کے چڑھاوے اور نذرانے سے دونوں کی اچھی طرح گزر بسر ہو جاتی ہے۔ مندر سے تھوڑے فاصلے پر اونچائی پر ایک مشنری Missionary کا اسکول ہے۔ جہاں شہر کے اونچے طبقے کے بچے پڑھنے آتے ہیں اسکول کافی بڑا ہے کم سے کم ہزار بارہ سو بچّے وہاں پڑھتے ہیں۔ا سکول میں ایک اسپتال ہے۔ آس پاس کی آبادی کے لوگ فوری طبّی مدد کے لئے ڈاکٹر رابرٹ کے پاس آ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ فرصت کے وقت مندر میں آ جاتے ہیں اور سادھو مہاراج سے ہندو مذہب اور دیوی دیوتاؤں کی معلومات لیتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ گذشتہ ۲۰ سال سے اِسا سکول سے جُڑے ہوئے ہیں بلکہ مجلسِ انتظامیہ کے اہم رکن ہیں اس لئے مقامی لوگوں سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے۔ انھوں نے مقامی زبان سیکھ لی ہے انھیں ہندی زبان پر مکّمل عبور حاصل ہے اور ہندی میں بات کرنے میں کوئی دقّت نہیں ہوتی۔ چھٹی میں کبھی کبھی اسکول کے بچے بھی مندر کے پاس کی ندی میں نہانے اور ریت میں کھیلنے کے لئے آ جاتے ہیں۔

            بازار سے سامان لانے کے بعد آکاش کچن میں کھانا پکانے میں مصروف ہو گیا تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہو گیا۔ دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔ آکاش کو عدنان کی چارپائی کے پاس بِٹھا کر کمرے کے ایک کونے میں چٹائی بچھا کر سادھو مہاراج لیٹ گئے۔ مندر میں اکّا دکّا پجاری آتے جاتے رہے وقفہ وقفہ سے ہلکی سریلی گھنٹی بجنے کی آواز آتی رہی اور آکاش، عدنان کی چارپائی کے پاس بیٹھا اُس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔

            ۴ بجے کے قریب ڈاکٹر رابرٹ کی گاڑی آ کر مندر کے پاس رُکی۔ تب تک عدنان نیند سے جاگ چکا تھا۔ اُس کے سر میں اور پیر میں کافی درد ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ کے ساتھ ایک اور ڈاکٹر تھا۔ دونوں ڈاکٹروں نے مل کر عدنان کا اچھی طرح معائنہ کیا۔ سر میں کوئی بہت زیادہ زخم نہیں تھا لیکن ٹانگ کے زخم کی وجہ سے اس کا بایاں پیر کافی سوج گیا تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ کے ساتھ آئے ہوئے ڈاکٹر نے پیر پر بندھی ہوئی پٹی کھول دی زخم کو صاف کیا پیر کو ہلا کر دیکھاجس کی وجہ سے عدنان کو کافی درد ہوا پھراُس کے پیر کو سیدھا کر کے اُس کے گرد ایک لیپ لگا دیا اور اُسے اچھی طرح پٹی سے باندھ دیا اور ڈاکٹر رابرٹ سے کہا ’’معمولی کریک Crack ہے ٹھیک ہو جائے گا لیکن پندرہ دن تک چلنا پھرنا بند کرنا پڑے گا۔ پھر اُس نے سادھو مہاراج کو گولیوں کے کئی پیکٹ دیئے اور انھیں کس طرح کھلانا ہے اچھی طرح سمجھا دیا اور تھوڑی دیر رُک کر دونوں ڈاکٹر وہاں سے چلے گئے۔

            آکاش اور سادھو مہاراج باری باری عدنان کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ اُس کے کھانے پینے اور دوا کا ہر طریقے سے خیال رکھتے۔

            جب عدنان کو کچھ آرام ہو گیا تو انھوں نے ایک دن عدنان سے کہا ’’بیٹا تمھارے ساتھ کیا حادثہ ہوا تھا کہ تم پہاڑی سے گر کر ندی کے کنارے آ پڑے۔

            عدنان نے سوچا کہ سارا واقعہ صحیح صحیح بتانا درست نہیں ہے۔ ورنہ پتہ نہیں اُس پر اور کونسی مصیبت آ پڑے ، ویسے ہی سیٹھ کے آدمی اور پولس والے اس کی تلاش کر رہے ہوں گے۔ اُس نے کہا ’’ میں ایک رشتہ دار کے گھر نا سک آیا تھا۔ ایک دن میں نے سائیکل لی اور چلاتے چلاتے اِس پہاڑی کی سڑ ک پر چڑھ گیا اُسی وقت پیچھے سے ایک ٹرک نے میری سائیکل کو ٹکّر ماری اور میں سائیکل پر سے گر کر پہاڑی سے نیچے گر گیا، بے ہوش ہو گیا اور جب ہوش میں آیا تو آپ کے اس کمرے میں موجود تھا۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہو سکتا ہے سائیکل کہیں پہاڑی میں گری ہو گی یا اگر سڑ ک کے کنارے کسی کو ملی ہو گی تو وہ اُسے اُٹھا کر لے گیا ہو گا۔ لیکن تمھارے رشتے دار تمھارے لئے پریشان ہوں گے۔ تم پتہ بتاؤ تو میں آکاش کو بھیج کر اُنھیں اطّلاع دے دیتا ہوں۔

            عدنان نے کہا ’’مجھے یہاں آئے ہوئے دوسرا ہی دن تھا میں محلّے کا نام اچھی طرح جانتا نہیں ، اگر مجھے ایک پوسٹ کارڈ مل جائے تو میں اپنے شہر میں اپنے والد کو خط لکھ آگاہ کر دوں گا۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ٹھیک ہے میں آکاش سے پوسٹ کارڈ منگوا دوں گا۔ تم اپنے گھر خط لکھ کر اُنھیں اپنے حالات سے آگاہ کر دینا۔

            عدنان نے کہا ’’جی مہاراج بہت اچھا۔

            دوسرے دن آکاش نے عدنان کو ایک پوسٹ کارڈ لا کر دیا۔ عدنان نے اپنے حالات یونہی اس میں لکھ دیئے۔ اور پتہ غلط لکھ دیا۔ خط کے آخر میں اپنا نام اور مندر کا پورا پتہ آکاش سے پوچھ کر لکھ دیا۔ تاکہ خط اگر پتے پر نہ پہنچے تو دوبارہ یہاں واپس آ جائے پتہ انگریزی میں اور خط اُس نے اُردو میں لکھا تھا۔ خط لکھ کر اُس نے آکاش کو دے دیا کہ وہ اُسے لیٹر باکس میں ڈال دے ، آکاش نے وہ خط لے جا کر لیٹر باکس میں ڈال دیا۔

            دن اِسی طرح گزرتے رہے۔ ڈاکٹر رابرٹ باقاعدگی سے عدنان کی جانچ کرنے آ جاتے تھے۔ انجکشن اور دوائی دے کر چلے جاتے تھے۔ چھٹے دن عدنان کا لکھا ہوا خط اُسے واپس مل گیا۔ اُس نے سادھو مہاراج سے کہا کہ اُس کے والد کا خط آیا ہے اور انھوں نے لکھا ہے کہ وہ ایک ہفتہ بعد یہاں آ کر مجھے لے جائیں گے۔

            آکاش اور عدنان کی اچھی دوستی ہو گئی تھی وہ اُس کا ہر طریقے سے خیال رکھتا پندرہ دن کے بعد اُس کے پیر کا پلاسٹر کاٹ دیا گیا۔ سر کا زخم بھی اچھا ہو گیا تھا۔ اُسے لکڑی کے سہارے سے چلنے کی مشق کرائی جانے لگی اور دو تین دنوں میں ہی وہ ٹھیک طرح سے اپنے پیروں سے چلنے لگا۔

            ایک دن صبح کے وقت وہ ندی کے کنارے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ عدنان نے آکاش سے کہا ’’آکاش میں آج تجھے اپنی زندگی کی سچّی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔

            آکاش نے کہا ’’تو ابھی تک تو نے جو کچھ کہا کیا وہ سب جھوٹ تھا۔

            ہاں۔ سب جھوٹ تھا۔

            تو سچائی کیا ہے۔

            سچائی یہ ہے کہ میں ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا اور اگر وہ حادثہ نہیں ہوتا جسکی وجہ سے آج میں یہاں ہوں تومیں اب تک زندہ نہیں ہوتا۔

            آکاش نے کہا ’’مجھے پوری کہانی سناؤ۔

            عدنان نے اپنے گھر سے بھاگنے سے لے کر حادثہ ہونے تک کی پوری کہانی آکاش کو سنا دی صرف اُسے وہ بات نہیں بتائی کہ اُس نے سوٹ کیس میں کی کچھ رقم چھپا کر نیم کے درخت کی جڑ کے پاس گاڑ دی ہے۔

            آکاش نے سارے حالات سن لینے کے بعد کہا ’’تمھاری کہانی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آدمی اور لڑ کا جن کا ٹرین میں قتل کیا گیا ان کی اس بنگلے والے سے کوئی گہری دشمنی ہو گی اور اُس نے غنڈوں کے ذریعہ سے ان کا قتل کروا دیا ہو گا اور کیونکہ تم نے انھیں قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اس لئے وہ تمھیں بھی مروا ڈالنا چاہتا تھا۔

            عدنان نے کہا ’’لیکن یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں اِس پر وہی نشان بنا ہوا ہے جو سیٹھ کی حویلی پر اور دروازوں پر بنا ہوا ہے اس لئے وہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہونا چاہیئے۔ جسے کسی وجہ سے اپنے راستے سے ہٹا دینا چاہتے تھے اور انھوں نے ایسا کیا۔

            آکاش نے کہا ’’ہاں تمھاری بات صحیح لگتی ہے۔ پھر وہ غور سے اُس نشان کو دیکھنے لگا جو اُس کے سفاری سوٹ کی دونوں جیبوں پر بنا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر اُنھیں دیکھ کر اُسے ایسا لگا کہ اِس نشان کو وہ پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہے وہ غور کرنے لگا کہ آخر اُس نے اس نشان کو کہاں دیکھا ہے لیکن اُسے کچھ یاد نہیں آیا۔ آخر کار آکاش نے کہا ’’کیوں نہ یہ سارے حالات مہاراج کو بتا دیں ان کے نہ صرف اس شہر میں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی کافی مشہور ہستیوں سے تعلقات ہیں۔

            مہاراج ناراض تو نہیں ہوں گے کہ میں نے اُنھیں غلط بات کیوں بتائی تھی۔ عدنان نے کہا۔

            تم سمجھا دینا کہ پھر سے پکڑے جانے کے خوف سے تم نے یہ بات نہیں بتا ئی تھی۔ آکاش نے دلیل پیش کی۔

            ٹھیک ہے تو آج کوئی اچھا موقع دیکھ کر مہاراج کو سارے حالات مکمّل طور سے بتا دیں گے۔

            یہ طئے کر کے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور مندر کے کنارے بنی ہوئی سادھو مہاراج کی کٹیا میں آ گئے۔

            دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد جب سادھو مہاراج لیٹنے کی تیاری کر رہے تھے تب آکاش نے عدنان کو اشارہ کیا۔ عدنان نے اشارے سے بات چھیڑ نے کے لئے آکاش سے کہا، تب آکاش نے سادھومہاراج کو مخاطب کر کے کہا‘ مہاراج عدنان آپ سے کوئی بات کہنا چاہتا ہے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہاں کہو، کیا بات ہے ؟

            عدنان نے کہا ’’مہاراج میں جس حادثہ میں زخمی ہوا تھا وہ واقعہ میں نے آپ کو غلط بتا یا تھا۔

            اچھا۔ کیوں۔ سچائی کیا ہے ؟ سادھو مہاراج نے کہا

            عدنان نے کہا ’’مہاراج اگر وہ حادثہ نہ ہوتا تو میں مرگیا ہوتا۔

            مہاراج نے کہا ’’وہ کیسے ؟

            عدنان نے کہا ’’یہ کہانی کافی لمبی ہے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ٹھیک ہے مجھے شروع سے سناؤ۔

            تب عدنان نے ٹرین کے حادثہ سے لے کر ٹرک کے حادثہ تک کی پوری داستان سادھو مہاراج کو تفصیل سے سنا دی۔

            عدنان کی کہانی سن لینے کے بعد سادھو مہاراج نے غور سے اُس کے سفاری سوٹ پر بنے ہوئے نشان کو دیکھا اور کہا ’’یہ تو سیٹھ گوند داس کی مِل کا ٹریڈ مارک ہے ان کے تجارتی سامان کا مخصوص نشان ہے اور جس بنگلے کا تم ذکر کر رہے ہو وہ دراصل سیٹھ گوند داس کا ہی بنگلہ ہے میں ان کے بنگلے میں کئی بار جا چکا ہوں۔ اُن کے گھریلو حالات مجھے تفصیل سے معلوم نہیں ہیں ان کا گھریلو ملازم رامو اپنے مندر میں اکثر آتا رہتا ہے۔ لیکن گھر کی اندرونی خبر اُس سے کچھ ملی نہیں ہے ہاں پہاڑی والے معصوم شاہ ولی کی جو درگاہ ہے وہاں کلّو بابا رہتے ہیں وہ اکثر ان کے گھر جاتے رہتے ہیں۔ ان کے گھر کے اندر کی خبر انھیں ہو گی۔ آکاش تو کل صبح کلّو بابا کو بلا کے لے آنا میں اُن سے ساری تفصیل معلوم کر لوں گا کیوں کہ اُس درگاہ میں شہر کے سارے اچھے بُرے لوگ آتے رہتے ہیں اور کلّو بابا کو وہاں بیٹھے بیٹھے ہی پورے شہر کی معلومات حاصل ہو جاتی ہے بڑی پہنچی ہوئی چیز ہے یہ کلّو بابا بھی!

            آکاش نے کہا ’’ٹھیک ہے کل صبح میں کلّو بابا کو بلا کر لے آؤں گا۔ ‘‘

            یہ کہہ کر آکاش اور عدنان مندر کے باہر چلے آئے اور پیپل کے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ سادھو مہاراج چٹائی پر لیٹ گئے۔

            دوسرے دن صبح مندر اور اطراف و جوانب کی صفائی کرنے کے بعد آکاش کلّو بابا کو بلانے چلا گیا۔ یہ پہاڑی شہر سے تقریباً ۱۵ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی بڑی اوبڑ کھابڑ جگہ تھی اس لئے ابھی تک یہاں آبادی بسنے نہیں پائی تھی۔ کسی زمانے میں اِس پہاڑی پر کوئی بزرگ رہا کرتے تھے۔ ان کی کافی کرامات مشہور تھیں۔ ان کے وصال کے بعد اُسی جگہ پر انھیں دفن کر دیا گیا۔ تب سے وہاں ہر سال عرس ہوتا ہے۔ دور دور سے زائرین آتے ہیں اور روزانہ بھی کئی افراد آ کر اُس دربار میں حاضری دیتے ہیں خاص طور سے شہر میں جب بھی کوئی نئی گاڑی خریدتا ہے حاضری دینے کے لئے اور چادر چڑھانے کے لئے حضرت بابا سید معصوم شاہ ولی کی درگاہ پر حاضر ہوتا ہے۔ یہاں پر ہر وقت کوئی نہ کوئی مجاور ضرور رہتا ہے اُس درگاہ کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمّہ داری کلّو بابا کے ذمّے ہے۔

            کلّو بابا ایک عرصہ سے اُس درگاہ میں سکونت پذیر ہیں بڑے ہی دین دار آدمی ہیں اور کیونکہ ندی پر جانے کے لئے مندر کے پاس سے ہو کر گزرنا پڑ تا ہے لہٰذا درگاہ میں آنے والے جب کبھی ندی کی طرف آتے ہیں تو مندر میں بیٹھ کر بھی کچھ دیر آرام کر لیتے ہیں۔ کلّو بابا بھی فرصت کے اوقات میں مندر میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور دین و دنیا کی بہت ساری باتیں پیپل کے درخت کے سائے میں ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح اس پہاڑی پر جہاں ایک طرف چھوٹا سا چرچ ہے وہیں ایک سمت چھوٹا سا مندر ہے ایک طرف درگاہ ہے۔ فادر رابرٹ، کلّو بابا اور سادھو مہاراج عوام میں یکساں مقبول ہیں اور مذہبی معاملات میں کٹّر ہونے کے باوجود ان تینوں میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔

            آکاش جب درگاہ میں پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ کلّو بابا اپنے حُجرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دو چار فقیر و مرشد بھی وہاں موجود تھے ان کا خادم ملّو بھی اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ آکاش کو دیکھ کر کلّو بابا نے اُسے فوراً اندر بلا لیا اور کہا ’’ہاں بیٹا آکاش کہو کیسے آنا ہوا؟

            آکاش نے کہا ’’جی باباجی، مہاراج نے آپ کو یاد کیا ہے۔

            کوئی خاص بات!

            ہاں کسی خاص معاملے میں آپ سے مشورہ کرنا ہے۔

             ٹھیک ہے تم چلو میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں۔ آکاش وہاں سے چلا آیا اور اس نے سادھو مہاراج کو کلّو بابا کے آدھے گھنٹے میں آنے کی خبر دے دی۔

            آدھے گھنٹے بعد کلّو بابا سادھو مہاراج کی کٹیا میں آ گئے۔ سادھو مہاراج نے آکاش کو چائے بنانے کے لئے کہا اور کلّو بابا کو اپنی چٹائی پر اپنے بازو بٹھا لیا اور کہا ’’ہاں کلّو بابا کہو کیا حال ہے شہر کا؟

            ’’امن ہے مہاراج۔ چاروں طرف شانتی ہے۔ سب اپنی روزی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ‘‘

            سادھو مہاراج نے کہا ’’میں سیدھے مطلب کی بات پر آتا ہوں۔ سیٹھ گوندداس کو تو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمھارا ان کے گھر آنا جانا بھی ہے کیا اُن کے گھر میں اِدھر کوئی حادثہ ہوا ہے ؟

            کلّو بابا نے کہا ’’ہاں پندرہ بیس روز پہلے ان کے بڑے بھائی اروند داس اپنے لڑکے کے ساتھ ناگپور گئے تھے۔ اب تک ان کی کوئی خبر نہیں ہے پولس میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ سیٹھ گو وندداس نے لکھوا دی ہے لیکن ابھی تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔

            اچھا! سادھو مہاراج نے کہا ’’کس کام سے ان کے بڑے بھائی ناگپور گئے تھے ؟

            دیکھئے ناگپور میں شکر درہ میں ان کی کافی پرانی زمین تھی۔ ابھی اطراف میں آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے انھیں یہ خطرہ ہوا کہ کہیں اُس زمین پر جھونپڑ پٹی نہ بس جائے یا کوئی اپنا قبضہ نہ کر لے ادھر اُس کو خریدنے کے لئے دوچار بلڈر بھی آ رہے تھے لہٰذا انھوں نے ایک بلڈر کو وہ زمین بیچ دی۔ وہ زمین اُن کے بڑے بھائی سیٹھ اروندداس اور ان کے لڑکے پریم پرکاش کے نام سے تھی۔ ایڈوانس کی رقم تو چیک سے لی گئی تھی لیکن باقی رقم نقدی میں دینا طئے ہوا تھا۔ اُسی زمین کی رجسٹری کروانے کے بعد بیس لاکھ روپئے نقد لے کر وہ رجسٹری آفس سے نکلے تھے لیکن بعد میں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا پولس شدّت سے اُنھیں تلاش کر رہی ہے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’اِدھر ان کے گھر میں دونوں بھائیوں میں پراپرٹی یا کاروبار کو لے کر کوئی جھگڑا تو نہیں چل رہا تھا۔

            کلّو بابا نے کہا ’’ہاں یہ اچھی بات آپ نے پوچھی۔ دراصل پچھلے چند مہینوں سے سیٹھ اروندداس کی بیوی اس بات پر بضد ہو گئی تھی کہ اب دونوں بھائیوں کا کاروبار الگ الگ ہو جانا چاہئے اِس کام کے لئے وہ اپنے شوہر کو بار بار اکساتی تھی اور دونوں بھائیوں میں تھوڑی رنجش پیدا ہو گئی تھی۔

            تو سیٹھ اروند داس اور ان کے لڑکے کے گم ہو جانے کے بعد سیٹھ اروندداس کی بیوی کی کیا کیفیت ہے۔

            مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ اپنے لڑکے اور شوہر کے گُم ہو جانے کے بعد اُس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ سیٹھ گو وندداس اُس کا علاج کرا رہے ہیں۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ایسا تو نہیں ہے کہ کاروبار اور پراپرٹی پر مکمّل قبضہ کرنے کے لئے سیٹھ گوندداس نے اپنے بھائی اور بھتیجے کا قتل کروا دیا ہو۔

کلّو بابا نے کہا ’’جہاں تک سیٹھ گو وندداس کا تعلق ہے وہ پیسوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے بلکہ مجھے بھی شک ہے کہ اُسی نے اپنے بھائی اور بھتیجے کا قتل کروا دیا ہو گا اور گمشدگی کی رپورٹ لکھا دی ہو گی ویسے آج کل سیٹھ گوندداس کافی پریشان رہتے ہیں ابھی پچھلے ہفتے میں ان کے بنگلے پر گیا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا ڈرائیور ببلو اور خاص خادم چرندداس ان کی نئی کوالیس کار لے کر فرار ہو گئے ہیں سیٹھ نے ان کی رپورٹ تو نہیں لکھوائی ہے لیکن اپنے آدمیوں سے ان کی تلاش نہایت سرگرمی سے کروا رہے ہیں۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ کلّو بابا، تمھارا شک بالکل درست ہے دراصل سیٹھ اروندداس اور ان کے بیٹے کا قتل ہو چکا ہے۔

            قتل ہو چکا ہے۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کلّو بابا نے کہا

            میں یہ اس لئے کہہ سکتا ہوں کیونکہ جس لڑکے نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے میں اُس سے مل چکا ہوں۔

            اچھا کون ہے وہ کہاں ہے وہ؟

            وہ یہیں ہے میرے پاس اسی لئے میں نے تمھیں یہاں بلایا ہے اس بات کا علم سیٹھ گو وندداس کو بھی ہو چکا ہے اور پولس بھی یہ بات جانتی ہے لیکن یہ بات راز ہی رکھی گئی ہے تاکہ پولس فائدہ اُٹھاتی رہے اور سیٹھ گو ونداس سزا سے بچتا رہے۔ سیٹھ گو وندداس نے اس لڑکے کو قتل کروانے کی بھی کوشش کی تھی لیکن وہ بچ گیا۔

            اچھا۔ کون ہے وہ۔ مجھ سے اُسے ملواؤ۔

            اُسی وقت سادھو مہاراج نے عدنان کو اپنے کمرے میں بلایا۔ وہ آیا اور ایک طرف ادب سے کھڑا ہو گیا، تب سادھومہاراج نے کہا یہ ہے وہ لڑ کا۔ جس نے سیٹھ ارونداس اور ان کے لڑکے کا قتل ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور سیٹھ گووند داس نے اِسے بھی ختم کروانے کی کوشش کی تھی لیکن اِس کی قسمت اچھی تھی کہ یہ بچ گیا۔

            کلّو بابا نے عدنان کی طرف دیکھا پھر اُسے اپنے قریب بلا کر بٹھا لیا اور غور سے اس کے کپڑوں کو دیکھنے لگے پھر عدنان سے پوچھا ’’یہ کپڑے تمھیں کس نے دیئے۔

            عدنان سادھو مہاراج کی طرف دیکھنے لگا تو سادھو مہاراج نے کہا ’’یہ کپڑے سیٹھ اروندداس کے لڑکے پریم پرکاش کے ہیں۔ اتفاق سے ان کا سوٹ کیس اور اس میں موجود رقم اس لڑکے کے ہاتھ لگ گئی تھی لیکن اِن کپڑوں کی وجہ سے یہ پکڑ لیا گیا۔ انسپکٹر جگدیش سیٹھ گو وندداس سے ملا ہوا ہے۔

            پھر سادھو مہاراج نے عدنان سے کہا کہ وہ کلّو بابا کو اپنی پوری کہانی شروع سے سنا دے۔ عدنان گھر سے بھاگنے سے لے کر مندر میں آنے تک کی پوری کہانی کلّو بابا کو سنا دی۔ ساتھ میں اُس نے یہ بات بھی بتا دی کہ سیٹھ گو وندداس کے بنگلے میں جب اُسے قید کیا گیا تھا تو بازو کے کمرے میں بھی ایک عورت بستر پر پڑی ہوئی تھی جسے صبح بجلی کا شاک دیا جا رہا تھا۔

            کلّو بابا نے کہا ’’وہ ضرور سیٹھ اروندداس کی بیوی ہو گی اور شاک دے دے کر اُسے پاگل بنایا جا رہا ہو گا۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’پراپرٹی اور کاروبار پر قبضہ کرنے کے لئے سیٹھ گوندداس نے جو ذلیل حرکت کی ہے۔ اِس لڑکے کے ذریعہ سے قدرت نے اُس کا پردہ فاش کر دیا ہے اب ہمیں سیٹھ گو ونداس کو اُس کے گناہوں کی سزا دلانی ہے۔

            کلّو بابا نے کہا ’’مہاراج۔ سیٹھ گوندداس کوئی معمولی مجرم تو ہے نہیں کہ ہم اُسے آسانی سے قید کروا لیں گے وہ بڑے اثر رسوخ والا آدمی ہے۔ منتریوں تک سے اُس کے قریبی تعلقات ہیں۔ غنڈوں کو اُس نے پال رکھا ہے اگر ذرا بھنک بھی اُسے لگ گئی کہ یہ لڑ کا یہاں موجود ہے تو پھر اُسے مرنے سے کوئی بچا نہیں پائے گا اور کیونکہ پولس بھی اس سے ملی ہوئی ہے لہٰذا پولس سے بھی ہمیں کسی قسم کی امید رکھنا فضول ہے۔

            ’’پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ‘‘ سادھو مہاراج نے پوچھا۔

            سیٹھ گوندداس جیسے شاطر آدمی کو گرفتار کروانے کے لئے ٹھوس ثبوت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ سوچوکہ ہمیں اور ثبوت کہاں سے مل سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا لڑ کا ہے عدالت میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں پائے گا اور سیٹھ گوندداس کسی بھی وقت اس کا کام تمام کروا سکتا ہے۔

            اچانک کلّو بابا کے ذہن میں کوئی بات آئی اور انھوں نے عدنان سے پوچھا ’’کیا تم اُس پُل کا پتہ بتا سکتے ہو جہاں دونوں کی لاشیں پُل پر سے ندی میں پھینکی گئی تھیں۔

            عدنان نے کہا ’’ہاں کیوں نہیں میں بتا سکتا ہوں لیکن اس کے لئے مجھے ناگپور سے اُسی ٹرین میں بیٹھنا پڑے گا۔ وقت سے اندازہ لگا کر میں اُس جگہ کو آسانی سے پہچان لوں گا کیونکہ پُل کو پار کرنے میں گاڑی کو کم سے کم تین منٹ لگے تھے۔

            اچھا تم کونسی گاڑی میں بیٹھے تھے کلّو بابا نے پوچھا۔

            جی مجھے گاڑی کا نام تو یاد نہیں ہے لیکن وہ چار اور ساڑھے چار کے بیچ وہاں سے روانہ ہوئی تھی۔

            کلّو بابا نے کہا ’’میں سمجھ گیا ودربھ ایکسپریس گاڑی ہے جو چار بجے ناگپور ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہے اور جس پُل کا تم ذکر کر رہے ہو وہ وردھا ندی پر بنا ہوا پُل ہے۔ تقریباً ایک سے سوا گھنٹے میں گاڑی وہاں پہنچتی ہے۔

            عدنان نے کہا ’’ جی آپ نے بالکل ٹھیک اندازہ لگایا۔

            اس پر کلّو بابا نے کہا ’’ہمیں وردھا ندی کے اطراف جا کر معلومات کرنی ہو گی کیونکہ ایک ساتھ ندی میں دن کے اجالے میں دو لاشیں ندی میں گری ہوں گی تو اطراف کے لوگوں نے اُسے دیکھا ہو گا۔ یا بعد میں ندی میں لاش ملی بھی ہو گی۔ وہاں سے ہمیں بہت کچھ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں کب کی بات ہے یہ؟

            عدنان نے کہا ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ بدھ کا دن تھا۔ آج سے بیس دن پہلے کی بات ہے۔

            اُسی وقت سادھو مہاراج کے کمرے میں لگے کیلنڈر کو دیکھ کر کلّو بابا نے کہا ’’ آج سے بیس دن پہلے جو بدھوار آیا تھا وہ مارچ کی ۲۰ تاریخ تھی۔ اسی تاریخ میں لاش ندی میں پھینکی گئی تھی اس کا پتہ آسانی سے لگ جائے گا لیکن وہاں جا کر معلوم کرنا ہو گا مجھے تو ابھی عُرس کی تیاری کرنا ہے میں یہاں سے جا نہیں سکتا۔

            آکاش نے کہا ’’بابا جی آپ فکر مت کرو میں اور عدنان وہاں چلے جائیں گے اور پوری معلومات حاصل کر کے واپس آ جائیں گے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’آکاش دیکھو عدنان کا خیال رکھنا اور بہت ہوشیاری سے یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

            جی ہاں میں پوری ذمّہ داری سے اور خاموشی سے یہ کام انجام دوں گا۔

            کلّو بابا نے کہا ’’دیکھو وردھا جاؤ گے تو مجھ سے مل کر جانا۔ وہاں ندی کنارے ایک درگاہ ہے سیّد بابا کمپل پوش کی درگاہ۔ وہاں کے مجاور نثار بابا میرے بہت اچھا دوست ہیں اُن سے تمھیں آس پاس کی کافی معلومات مل جائیں گی اور کوئی تکلیف نہیں ہونے پائے گی۔ رات میں سونے اور کھانے کا بھی وہیں انتظام ہو جائے گا جب جاؤ گے تو مجھ سے چٹھی لے کر جانا۔

            پھر کلّو بابا اپنی جگہ سے اُٹھے انھوں نے عدنان کے سر ہاتھ پھیرا۔ کوئی دعا پڑھ کر اُس پر پھونکی اور کہا ’’خدا تمھارے ذریعہ سے ظالم کو اُس کے انجام تک پہنچائے گا۔ خدا تمھاری مدد کرے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے۔

            ان کے جانے کے بعد سادھو مہاراج نے آکاش سے کہا ’’کل صبح کی گاڑی سے تم وردھا چلے جاؤ اور ہر طریقے سے معلومات کر کے ہی واپس آنا اگر کوئی خاص بات ہو جائے تو ڈاکٹر رابرٹ کے دوا خانے میں فون کر دینا مجھے خبر مل جائے گی۔

            آکاش نے کہا ’’جی بہت اچھا۔

            پھر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

            دوسرے دن دونوں نے اپنا مختصر ساسامان لیا اور صبح آٹھ بجے وردھا جانے کے لئے مندر سے نکل پڑے سادھو مہاراج نے ٹکٹ اور راستے کے خرچ کے لئے انھیں ایک ہزار روپئے دیئے تھے۔ وہ مندر سے نکلے تو درگاہ میں آئے کلّو بابا نے اُسی وقت سید بابا کمبل پوش کے مجاور نثار بابا کے نام سے ایک چٹھی لکھ دی کہ کچھ ضروری کام سے یہ وہاں آئے ہیں ان کی ہر طریقے سے مدد کرنا اور کھانے پینے اور رہنے سہنے کا اچھا انتظام کر دینا۔ چٹھی کے ساتھ کلّو بابا نے دو سو روپئے بھی اُنھیں راستے کے خرچ کے لئے دیئے اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ انھیں رخصت کیا۔ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ ڈاکٹر رابرٹ کے دوا خانے میں آئے ڈاکٹر صاحب موجود نہیں تھے۔ وہاں سے انھوں نے اسپتال کا فون نمبر لیا اور ریلواسٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے۔

            بس سے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ گیارہ بجے کی ٹرین ناگپور جاتی تھی اُسی میں سوار ہو گئے اور شام میں چھ بجے وردھا پہنچ گئے وہاں سے وہ ایک رکشہ کر کے سیّد بابا کمبل پوش کی درگاہ پہنچ گئے وہاں نثار بابا سے ملاقات کی اور انھیں کلّو بابا کا خط دیا، نثار بابا نے کلّو بابا کا خط پڑھا تو نہایت عزّت سے اُنھیں بٹھایا ناشتہ کرایا اور وہیں ایک طرف بنے ہوئے ایک کمرے میں ان کے ٹھہرنے رہنے سہنے کا انتظام کر دیا۔ شام کے سات بج رہے تھے سفر کی تھکان تھی۔ رات میں درگاہ میں انھوں نے شام کا کھانا کھایا اور وہیں سو گئے۔

            سویرے اُٹھے ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ وہاں سے روانہ ہوئے۔ پوچھتے پوچھتے وہ اُس پلیا کے پاس پہنچ گئے جو ندی کے اوپر بنا ہوا تھا۔ کافی بڑا اور مضبوط پُل تھا۔

            آکاش نے عدنان سے پوچھا ’’اُن دونوں کی لاشیں کس طرف پھینکی گئی تھیں ؟

            عدنان نے کہا ’’گاڑی جب چل رہی تھی تو دائیں طرف کے دروازے سے لاشیں پھینکی گئی تھیں۔

            آکاش نے کہا ’’ناگپور سے نا سک جانے والی گاڑی مغرب کی جانب سفر کرتی ہے یعنی کہ پُل کی شمالی طرف لاشیں پھینکی گئی ہیں۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

            دونوں آگے بڑھے اور پوچھتے پوچھتے پُل کی شمالی سمت ، ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ پل کے نزدیک پانی کافی زیادہ تھا۔ اطراف میں کنارے پر چٹانیں زیادہ تھیں اُن چٹانوں کے درمیان سے ندی کا پانی آبشار کی طرح گر رہا تھا حالانکہ بلندی زیادہ نہیں تھی وہاں سے آگے بڑھے تو چٹانیں کم اور ریت کا ڈھیر زیادہ ہوتا چلا گیا وہاں سے کافی آگے بڑھنے پر کنارے کئی دھوبی اُنھیں نظر آئے جو چٹّانوں پر پٹک پٹک کر کپڑے دھو رہے تھے۔ عدنان اور آکاش ایک سیدھے سادے سے نظر آنے والے ادھیڑ عمر کے دھوبی کے پاس رک گئے۔ وہ کام چھوڑ کر ان کے طرف دیکھنے لگا۔ آکاش نے اُسے نمستے کیا اور کہا ’’کاکا، ہم لوگ نا سک سے آئے ہیں۔ آج سے بیس اکیس دن پہلے ہمارے رشتے داروں کا ٹرین میں قتل ہو گیا تھا اور لاشیں اسی ندی میں پھینک دی گئی تھیں کیا ان لاشوں کو کسی نے دیکھا یا پولس میں کسی نے اِس کی اطّلاع دی تھی؟

            دھوبی نے کہا ’’کیا نام ہے تمھارا؟

            آکاش نے کہا ’’کاکا ، میرا نام آکا ش ہے اور یہ میرا دوست ہے عدنان۔

            وہ تمھارے کون تھے ؟

            جی ایک میرے کاکا تھے اور ایک ان کا لڑ کا تھا۔

            اچھا۔ لڑکے کا کیا نام ہے۔

            لڑکے کا نام پریم ہے پریم پرکاش؟

            کتنی عمر ہے اُس کی؟

            اُس کی عمر یہی کوئی چودہ پندرہ سال؟

            اچھا۔ تو کس نے اُنھیں مارکر ندی میں پھینکا تھا۔

            جی وہ غنڈے تھے۔ کاکا کے پاس رقم تھی اُس رقم کو حاصل کرنے کے لئے انھوں نے دونوں کو مار ڈالا اور ندی میں پھینک دیا۔

            کتنی رقم تھی ان کے پاس؟

            تقریباً دس پندرہ لاکھ روپئے۔

            اچھا۔ وہ رقم لے کر غنڈے فرار ہو گئے ؟

            جی ہاں۔

            اچھا لڑکے نے کپڑے کیسے پہنے تھے۔

            عدنان نے کہا ’’گہرے کتھئی رنگ کا سفاری سوٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کی جیب پر ایسا نشان بنا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر اُس نے اپنی شرٹ پر بنے ہوئے نشان کی طرف اشارہ کیا۔ دھوبی نے غور سے اُس نشان کو دیکھا اور کہا

            ’’اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آیا۔ وہ شام پانچ بجے کی بات ہے میرے سارے ساتھی یہاں سے چلے گئے تھے میں اکیلا ہی گھاٹ پر تھا میں نے ٹرین سے دو لاشیں پانی میں گرتی ہوئی دیکھیں۔ پہلے آدمی کی لاش پھر بچّے کی لاش۔ میں نے اپنا کام چھوڑ اور ندی میں چھلانگ لگا دی۔ اتفاق سے بچے کی لاش کنارے کی طرف گری تھی اُس کا سر ایک چٹان سے ٹکرایا اور وہ ریت میں پھنس کر رہ گیا۔ میں اُسے تیرتے تیرتے کنارے لے آیا۔ آدمی کی لاش لگتا ہے پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے آگے نکل گئی۔ میں نے دیکھا لڑکے کے سر سے اور پیٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ میں جلدی سے اُسے کنارے لے آیا اور اپنے ایک دوست کے ساتھ اُسے لے کر سرکاری اسپتال پہنچا۔ پولس نے پہلے تو میرا پورا بیان لکھا پھر لڑکے کو بھرتی کر لیا۔ فوراً اُس کا آپریشن کیا گیا ہم رات تک وہاں رہے۔ اپنا نام پتہ لکھا کر وہاں سے آ گئے۔ پھر صبح ہم اسپتال گئے تو معلوم ہوا کہ آپریشن کامیاب ہوا اور لڑ کا بچ گیا لیکن بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ تین دن کے بعد اُسے ہوش آیا لیکن نہ تو اُسے اپنا نام یاد تھا اور نہ ہی اُسے اپنی پچھلی زندگی کی کوئی بات یاد تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے اِس کا دماغ متاثر ہوا ہے اور اُس کی یاد داشت گم ہو گئی ہے۔

            آکاش نے جلدی سے پوچھا ’’ابھی وہ لڑ کا کہاں ہے ؟

            ایک ہفتہ پہلے اسپتال سے اُس کی چھٹی ہو گئی ہے اور میں اُسے اپنے گھر لے آیا ہوں اِس وقت وہ میرے گھر میں ہی ہے۔ ویسے پولس کی طرف سے اُس کی فوٹو اور ملنے کی خبر اخبار میں دی گئی تھی لیکن کوئی اُسے لینے نہیں آیا۔ اچھا ہوا تم لوگ آ گئے اُسے لے کر چلے جاؤ بڑی عجیب اُس کی حالت ہے ؟

            آکاش نے کہا ’’کاکا، آپ نے جو کام کیا ہے بڑے پنیہ (ثواب) کا کام ہے بھگوان اس کا آپ کو بہت اچھا بدلہ دے گا۔ اُس کی موت کی خبر سن کر اُس کی ماں پاگل ہو گئی ہے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے بچے کو دیکھ لے گی تو اچھی ہو جائے گی۔ چلو جلدی سے ہمیں اُس لڑکے سے ملا دو۔

            دھوبی نے کہا ’’ٹھیک ہے تم رُکو، یہ تھوڑا سا کام باقی ہے اسے پورا کر کے میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر دھوبی اپنے کام میں لگ گیا اور یہ دونوں ریت پر آ کر بیٹھ گئے۔ آکاش نے عدنان سے کہا ’’ہمیں پریم سے ایسا سلوک کرنا ہو گا جیسے ہم اُس کے رشتے دار ہیں۔ دوست ہیں تاکہ کسی کو کوئی شک نہ ہو اور کیونکہ پریم کی یاد داشت گُم ہو چکی ہے لہٰذا وہ کسی کو پہچان نہیں سکے گا۔

            عدنان نے کہا ’’ہاں میں سمجھ گیا۔

            آکاش نے کہا ’’اور یہ پریم کے کپڑے یا تو تو پہننا بند کر دے یا پھر اُس پر بنا ہوا مونو گرام نوچ کر پھینک دے ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے پھر تو کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے۔

            ٹھیک ہے۔ ابھی درگاہ میں چل کر ہم اُس مونوگرام کو نکال پھینکیں گے۔

            دھوبی کا کام ختم ہونے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اُس نے کپڑے دھوکر ریت پر پھیلا دیئے اور کچھ دوری پر کام کر رہے اپنے ساتھی سے کہا ’’چندو میں ذرا ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ کپڑے سوکھ جائیں گے تو اِسے بھی اپنے کپڑوں کے ساتھ لے کر آ جانا۔

            چندو نے کہا ’’ٹھیک ہے دادا تم جاؤ۔ میں لے آؤں گا۔

            وہ وہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں آکاش نے دھوبی سے پوچھا۔ کاکا تمھارا نام کیا ہے اور جس گاؤں میں تم رہتے ہو اُس گاؤں کا کیا نام ہے ؟

            دھوبی نے کہا ’’میرا نام دشرتھ راؤ تاکوتے ہے اور میرے گاؤں کا نام ودّیا نگر ہے۔ سبھی دھوبی سماج کے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ ہم لوگ زیادہ تر اسپتالوں کے اور بڑی بڑی ہوٹلوں کے کپڑے دھوتے ہیں وہ تو اچھا ہوا ڈاکٹروں سے ہماری جان پہچان کام آ گئی ورنہ وہ لڑ کا بچتا ہی نہیں کیونکہ اُس کا خون بہت زیادہ بہہ گیا تھا۔ آپریشن کے بعد ۵ بوتل خون لگا۔ اچھا ہوا اِس کے گروپ کا خون وہیں خون کے بینک میں موجود تھا اور ہمارا بھی کچھ زیادہ پیسہ خرچ نہیں ہوا۔

            کاکا یہ سمجھ لو کہ اس لڑکے کو بچا کر تم نے ایک عورت کی زندگی بچا لی ہے یہ آپ کا بہت بڑا احسان ہے بھگوان اس نیکی کا تم کو بدلہ دے گا اور بہت اچھا بدلہ دے گا۔

            بیٹا۔ وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے دَن دَن دو آدمیوں کو ندی میں گرتے دیکھا تو میرے تو ہوش اڑ گئے پھر مجھ میں ایک عجیب سا جذبہ پیدا ہوا اور میں بنداس ندی میں کود گیا اور اس طرح وہ لڑ کا بچ گیا ہمیں تو آج تک نہ اس کا نام معلوم ہوا نہ پِتا کا نام۔ نہ اُس کا پتہ وہ خاموش اداس بیٹھا رہتا ہے۔ اچھا ہوا تم لوگ یہاں آ گئے۔ ویسے تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ ٹرین میں ان کا قتل ہوا تھا۔

            بس۔ اتفاق سے ایک لڑکے نے اُنھیں قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اُس نے اپنے کسی رشتہ دار کو یہ بات بتائی تھی ان کے ذریعہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی اور ہم ایک دھندلی سی امید لے کر یہاں آ گئے اور اچھا ہوا کہ ایک کھویا ہوا بچّہ مل گیا امیّد ہے کہ اُس کی مدد سے قاتل پکڑے جائیں گے۔

            ہاں۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب لڑکے کی یادداشت واپس آ جائے۔ کیونکہ ابھی تو اُسے اپنا نام ہی یاد نہیں ہے تو وہ کیا کسی کو قاتلوں کا نام پتہ اور حلیہ بتائے گا۔

            اسی طرح باتیں کرتے ہوئے وہ گاؤں میں پہنچ گئے۔ بستی میں ایک طرف ایک جھونپڑے کی طرف دشرتھ راؤ آگے بڑھے۔ وہیں جھونپڑی کے سامنے ایک نیم کا بڑا درخت تھا اور درخت کے تنے کے گرد مضبوط چبوترہ بنا ہوا تھا اور چبوترہ پر ایک لڑ کا بیٹھا ہوا تھا اور سامنے ہی ایک نو دس سال کی لڑ کی چکر بلّا کھیل رہی تھی وہ غور سے اُس لڑ کی کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس کی باری آئی تو وہ بھی چکر بلّا کھیلنے لگا۔ ایک عجیب سی معصومیت اس کے چہرے پر تھی اُس نے سفید کرتا سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا اس لباس میں لڑ کا نہایت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا عدنان نے اُسے پہچان لیا کہنی مار کر آکاش سے اشارے میں کہا کہ یہی ہے۔ دونوں تیزی سے اُس کی طرف دوڑ پڑے اور اُس کے قریب پہنچ کر آکاش نے کہا ’’پریم، میرے بھائی پریم تو کہاں تھا اتنے دنوں سے ہم تجھے تلاش کر رہے تھے اچھا ہوا تو مل گیا کاکی تیری یاد میں دن رات روتی رہتی ہیں۔

            لڑکے نے حیرت سے دونوں کی طرف خالی خالی نگاہوں سے دیکھا پھر دشرتھ راؤ جی کی طرف دیکھنے لگا۔ انھوں نے لڑکے کی طرف دیکھ کر کہا بیٹا۔ یہ تیرے رشتے دار ہیں۔ تجھے لینے آئے ہیں۔ یہ آکاش ہے تیرے چچا کا لڑ کا اور یہ ہے تیرا دوست عدنان۔ لڑ کی حیرت سے ان لوگوں کی طرف دیکھنے لگی۔ دشرتھ راؤ نے کہا ’’یہ میری بیٹی رُکمنی ہے یہ اُس کے ساتھ کھیلتی رہتی ہے اور اُس کا دل لگا رہتا ہے۔ پریم ان دونوں کی طرف اس انداز سے دیکھنے لگا گویا انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو اُس کا چہرہ ہر طریقے کے جذبات سے عاری تھا۔ وہ اپنی جگہ کھڑا کا کھڑا رہا اور ایسے تاثرات اس کے چہرے پر نمودار ہوئے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہو کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے !

            اُسی وقت آکاش نے نہایت گرم جوشی سے اُسے گلے لگا لیا اُسے زور سے بھینچ لیا۔ اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ایسی ہی کچھ کیفیت عدنان کی بھی ہوئی وہ ان دونوں سے لپٹ گیا اور دونوں کی آنکھیں محبت کے غیر یقینی جذبہ کی وجہ سے آنسو بہانے لگیں لڑ کی دوڑ کر سامنے کے مکان میں چلی گئی۔

            دشرتھ راؤ نے تینوں لڑکوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انھیں اپنے ساتھ لے کر اپنے جھونپڑے میں آئے ، کافی کشادہ جھونپڑا تھا۔ جب وہ جھونپڑے میں داخل ہوئے تو اندر کے کمرے سے ایک عورت نکل کر اُس کمرے میں آئی جہاں یہ لوگ موجود تھے اُن کے ساتھ رکمنی بھی تھی دشرتھ راؤ نے کہا ’’جانکی یہ دیکھ اپنے بابو کے رشتے دار آئے ہیں۔ یہ اِسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک پہنچ گئے۔

            عورت نے جلدی سے شطرنجی بچھا دی سب لوگ اُس پر بیٹھ گئے تو دشرتھ راؤ نے اپنی بیوی سے کہا ’’جلدی سے کچھ ناشتہ تیار کر دے یہ بابو کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اور وہ کپڑے بھی لے آ جو بابو پہنے ہوئے تھا۔

            عورت اندر گئی کتھئی رنگ کا سفاری سوٹ جو اچھی طرح دھو کر استری کیا ہوا تھا لا کر دشرتھ راؤ کے ہاتھ میں دے دیا۔ انھوں نے لڑکوں کو وہ کپڑا دکھایا جہاں چاقو لگا تھا وہاں کپڑے میں سوراخ ہو گیا تھا اور نیچے گِرنے سے بھی ایک دو جگہ سے کپڑے پھٹ گئے تھے۔ اُس کی شرٹ پر بنے ہوئے نشان کو دشرتھ راؤ نے عدنان کی شرٹ پر بنے ہوئے نشان سے ملایا اور ادھر سے مطمئن ہو کر انھوں نے کپڑے آکاش کو دے دئیے۔

            پھر دشرتھ راؤ نے کہا ’’اتنا سیدھا سادا اور شریف لڑ کا ہے کہ کچھ نہ پوچھو، عجیب سی اُس کی کیفیت ہو گئی ہے۔ جہاں بیٹھا رہتا ہے بس خیالوں میں گُم رہتا ہے پتہ نہیں کیا سوچتا رہتا ہے کچھ سوچتا بھی ہے یا نہیں۔ بات نہیں کرتا کچھ بولتا نہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے دھیرے دھیرے سب سمجھنے لگے گا۔ بھیّا ہم لوگ بھی غریب آدمی ہیں اِس کا علاج تو کرا نہیں سکتے۔ بس جو کچھ ہمارے گھر میں پکتا ہے بچے کو کھلا دیتے ہیں ہماری بیٹی رکمنی اس کا بہت خیال رکھتی ہے۔ا سکول سے آ کر اسی کے ساتھ کھیلتی رہتی ہے ہمیں اس کی بہت فکر تھی کہ اگر اِس کا ٹھیک سے علاج نہیں ہوا تو کہیں یہ لڑ کا پاگل نہ ہو جائے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ تم لوگ یہاں آ گئے۔

            آکاش نے کہا ’’کاکا بس بھگوان کو یہی منظور تھا بالکل اتفاق سے کل ہی ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ لاش اس ندی میں پھینکی گئی تھی اور صرف یونہی معلومات کرنے کی غرض سے ہم یہاں آ گئے اور دیکھو کیسا چمتکار (کرشمہ) ہو گیا جِسے ہم مرا ہوا سمجھ رہے تھے وہ ہمیں زندہ اور صحیح سلامت مل گیا۔ یہ بھگوان کی لیلا ہے پربھو کی لیلا  اپرم پار ہے۔

            اتنے میں دشرتھ راؤ کی بیوی نے گرما گرم بھجیئے لا کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔ گلاس میں پانی لا کر رکھ دیا۔ دشرتھ راؤ جی نے کہا ’’لو کھاؤ۔ سنکوچ(تکلّف) مت کرو۔

            اِس درمیان پریم پرکاش ہر ایک کی صورت تاک رہا تھا گویا اُس کی کچھ سمجھ میں نہ آ رہا ہو اور ان کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو ایک ایک کی صورت دیکھتا تھا سب لوگ بھجیئے کھانے لگے تو اُس نے بھی کھانا شروع کر دیا۔

            کھانے سے فارغ ہو کر وہ جانے لگے تو دشرتھ راؤ نے کہا ’’مجھے اپنا پتہ لکھ کر دے دو تاکہ کبھی پولس کچھ پوچھنے آ جائے تو میں اُنھیں تمھارا نام اور پتہ بتا سکوں۔

            عدنان نے آکاش کا نام اور مندر کا پتہ لکھ کر دشرتھ راؤ جی کو دے دیا۔ اُن کی پتنی نے اپنے پاس بلا کر پریم کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور سو روپئے کا ایک نوٹ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ نوٹ کو حیرت سے دیکھنے لگا پھر دشرتھ راؤ نے نوٹ اُس کی جیب میں رکھ دیا۔ دشرتھ راؤ اور ان کی پتنی سے رخصت لے کر جب وہ باہر جانے لگے تو رکمنی بلک بلک کر رونے لگی اور دونوں ہاتھوں سے اپنی ماں کو مارنے لگی۔ اُس کی ماں نے بڑی مشکل سے اُسے سنبھالا۔ پریم پرکاش حیرت سے اُسے روتا ہوا دیکھتے رہے۔ وہاں سے نکل کر وہ سیدھے درگاہ میں آئے اور اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئے سب سے پہلے تو آکاش نے عدنان کی شرٹ پر بنے ہوئے مونو گرام کو نہایت صفائی سے نکال کر پھینک دیا تھوڑی دیر میں نثار بابا بھی وہاں آ گئے اُس لڑکے کے متعلق دریافت کیا؟

            عدنان نے مختصراً اُنھیں بتا دیا کہ جِسے ہم تلاش کرنے آئے تھے وہ یہی لڑ کا ہے اور آسانی سے مل گیا۔ کل صبح ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔

            نثار بابا نے کہا ’’اچھا ٹھیک ہے میں تمھاری ٹکٹ کا بندوبست کر دوں گا ریلوے اسٹیشن کا ایک بابو وکاس ٹھا کرے یہاں روزانہ آتا ہے وہ تمھیں نا سک کی طرف جانے والی گاڑی میں بٹھا دے گا کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔

            آکاش نے کہا ’’جی بہت اچھا۔ بابا جی ‘‘ہم ذرا شہر سے گھوم پھر کر آ جاتے ہیں۔

            ٹھیک ہے شام میں آ جانا۔ آج یہاں پر نیاز ہے۔ کھانا ہمارے ساتھ ہی کھانا۔

            عدنان نے کہا ’’جی بہت اچھا۔ یہ کہہ کر وہ تینوں اُٹھ گئے اور بستی کی جانب روانہ ہو گئے۔

            بستی میں طرح طرح کی دکانیں موجود تھیں۔ ہاتھ ٹھیلوں پر بھی لوگ مختلف قسم کی چیزیں فروخت کر رہے تھے۔ زندگی کی دوڑ بھاگ ہر سمت جاری تھی پریم اِس پورے ماحول کو اس طرح دیکھ رہا تھا گویا کسی غیر آباد جزیرہ سے شہر میں ابھی ابھی وارد ہوا ہے اور ہر چیز جو اُس کے سامنے آتی ہے اُس کے متعلق پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے ؟

            عدنان اور آکاش اُسے ایک ایک چیز کی معلومات دیتے رہے اور خاص طور سے کھانے پینے کی کسی چیز کی طرف بھی اُس کی رغبت دکھائی دیتی تو وہ اُسے دلا دیتے تھے ایک جگہ آئس کریم پارلر نظر آیا۔ تینوں دوست وہاں رک گئے پریم کو آئس کریم اتنی پسند آئی کہ پریم چار کپ آئس کریم کھا گیا پھر بھی اُس کی طلب کم نہیں ہوئی تھی۔ عدنان اور آکاش اُسے کھینچ کر آگے بڑھے۔

            اسی طرح گھومتے پھرتے شام ہو گئی اور وہ درگاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ درگاہ میں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک طرف جو سائبان بنا ہوا تھا وہاں دیگ چڑھی ہوئی تھی نیچے آگ جل رہی تھی بازو میں ایک گنج میں کوئی چیز پک رہی تھی اور درگاہ میں بہت سارے لوگ اپنے سروں پر رومال باندھے فاتحہ اور درود و سلام پڑھنے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ اپنے کمرے میں آئے وہاں کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ نثار بابا درگاہ شریف میں موجود تھے اور نذرانہ وصول کر رہے تھے زائرین کے لئے فاتحہ پڑھ رہے تھے اور مورچھل سے بنے ہوئے مور جھل سے زائرین کو آشیرواد دے رہے تھے۔ آدھے گھنٹے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سب لوگ فاتحہ اور دعا سے فارغ ہو گئے تو درگاہ شریف کے سامنے بنے ہوئے سائبان میں خوبصورت انداز سے لگے ہوئے ٹھنڈے ٹھنڈے ماربل کے فرش پر بیٹھ گئے۔ شہر سے دور الگ سلگ پر سکون جگہ پر بنی ہوئی اِس درگاہ میں عدنان کو ایک عجیب طرح کا سکون محسوس ہوا۔ ایک عجیب طرح کی مسرت محسوس ہوئی مسرّت کے ساتھ ہی عقیدت کا ایک جذبہ اُس کے اندر پیدا ہوا اس نے آکاش اور پریم کو اشارہ سے کہا ’’دعا مانگنا ہے ؟‘‘ وہ تینوں پانی کی ٹاکی کے پاس آئے جس میں نل لگے ہوئے تھے عدنان نے وضو بنایا آکاش اور پریم نے بھی اُسی کی طرح منھ ہاتھ اور پیر دھوئے۔ سر پر رومال باندھا اور درگاہ شریف میں داخل ہوئے اور حضرت بابا سیّد کمبل پوش کی مزارِ اقدس کے سامنے عقیدت سے کھڑے ہو کر دعا میں مصروف ہو گئے نثار بابا نے اپنے مورچھل سے انھیں برکت کی دعا دی اور تینوں وہاں سے نکل کر وہاں آئے۔ جہاں زائرین بیٹھے تھے خود بھی ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ رات کے تقریباً آٹھ بج چکے تھے اُسی وقت خادم نے نثار بابا کے کان میں آ کر کہا کہ نیاز تیار ہے۔ نثار بابا درگاہ سے نکل کر آئے ایک پلیٹ میں کھانا ایک پیالی میں دال نکالی گئی ایک کٹوری میں زردہ رکھ دیا گیا وہاں پر چند اگر بتیاں جلا دی گئیں نثار بابا نے دعا پڑھنے کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے اِسی کے ساتھ تمام زائرین بھی اُس دعا میں شامل ہو گئے۔ دعا کے ختم ہونے کے بعد تمام لوگوں کو قطار میں بٹھا دیا گیا اور نیاز کا کھانا ہر ایک کے سامنے رکھا جانے لگا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا حوض پر آ کر ہاتھ دھوئے پانی پیا، کچھ وقت لوگ اِدھر اُدھر ٹہلتے رہے پھر بازو میں بنی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی تمام لوگ مسجد کی طرف چلے عدنان بھی مسجد کی طرف چلا تو پریم اور آکاش اُس کے ساتھ آنے لگے۔ اُس نے کہا میں نماز پڑھ کر آتا ہوں تم لوگ رُکو۔ آکاش نے کہا ’’کیوں ہم نماز نہیں پڑھ سکتے۔ ہم بھی نماز پڑھیں گے عدنان نے کہا تمھاری مرضی ، اُن تینوں نے تمام لوگوں کے ساتھ عشا کی نماز پڑھی نماز کے بعد وہاں ایک قوال اپنے سازوسامان کے ساتھ بیٹھ گیا اور قوّالی گانے لگا۔ بڑا ہی پر اثر اُس کا کلام تھا نہایت اچھی اس کی آواز تھی اور نہایت اچھی طرز سے وہ گا رہا تھا۔ سامعین پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی یہ نیاز شہر کے کسی بڑے آدمی کی طرف سے تھی لہٰذا اچھی اچھی ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ قوّال کے کلام پر موجود لوگوں نے حسبِ استطاعت و حیثیت اپنی جانب سے قوّال کو نذرانے پیش کئے۔ بارہ بجے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آکاش عدنان اور پریم بھی سامعین میں بیٹھے ہوئے لطف اندوز ہو رہے تھے پھر نیند کی شدت سے اُن کی آنکھوں کے پپوٹے بھاری ہونے لگے تو آکاش نے عدنان کو اشارہ کیا وہ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے تو نثار بابا نے ایک آدمی سے ان کی ملاقات کرائی’’ یہ وکاس بابو ہیں۔ ریلوے کی ٹکٹ اور تمھیں ریل کے ڈبے میں بٹھانے کی ذمہ داری ان کی ہے کل ریلوے اسٹیشن پر ان سے مل لینا۔ ‘‘ تینوں نے وکاس بابو سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئے۔ چٹائی پر شطرنجی بچھائی اور تینوں آرام سے لیٹ گئے اور جلد ہی نیند کی نفیس اور دبیز آغوش میں گم ہو گئے۔

وہ سویرے بہت جلد بیدار ہو گئے منھ ہاتھ دھو کر باہر نکلے اور درگاہ کے احاطے کی پتھروں سے بنی دیوار پر بیٹھ گئے۔ سامنے دور تک ہرے بھرے کھیت تھے اور درگاہ کے کنارے اوپر سے وردھا ندی دھیمی رفتار سے بہہ رہی تھی ایک طرف چراگاہ میں مویشی چر رہے تھے گوالے ہاتھوں میں لٹھ لئے ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی موسم بے حد خوش گوار تھا۔ وہ قدرت کے اس حسین نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ خادم نے ان سے کہا۔ چلئے ناشتہ تیار ہے وہ کمرے میں آئے انھوں نے دیکھا چٹائی پر ناشتے کی چیزیں موجود تھیں۔ تینوں نے شکم سیر ہو کر کھایا۔ چائے پی۔ پھر اچھی طرح وضو بنا کر فاتحہ پڑھی اور اپنے کمرے میں بیٹھ گئے تبھی نثار بابا بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور آکاش کو مخاطب کر کے کہا ’’آکاش بیٹا۔ یہ لو تم تینوں کا ٹکٹ ہے وکاس بابو نے بھجوایا ہے وہاں پلیٹ فارم نمبر تین پر ٹھیک سوا نو بجے ممبئی کی طرف جانے والی گاڑی آئے گی اُس کی بوگی نمبر H14 میں تمھارے بیٹھنے کے لئے جگہ بنا دی جائے گی۔ وہاں تمھیں وکاس بابو ملیں گے میں نے رات میں تم سے اُن کی ملاقات کرا دی تھی۔ وہ تمھیں سیٹوں پر بیٹھا دیں گے۔ پھر انھوں نے ایک پوٹلی دی اور کہا اس میں تمھارے سفر میں کھانے کا سامان ہے دوپہر میں بھوک لگے گی تو کھا لینا اور کلّو بابا کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا۔ یہاں کے جو حالات تم نے دیکھے ہیں کلّو بابا کو سنا دینا۔ اور یہ ایک ٹفن میں زردہ اور نیاز کا کھانا موجود ہے یہ بابا کو دے دینا۔ پھر بہت ساری دعائیں دے کر نثار بابا نے انھیں رخصت کیا۔ عدنان نے انھیں سلام کیا تو پریم نے بھی سلام کیا پھر آکاش نے نثار بابا کے پیر چھوئے تو پریم نے بھی ان کے پیر چھوئے بابا نے دعائیں دیں اور اُنھیں رخصت کیا۔

            پیدل چلتے ہوئے وہ لوگ ریلوے اسٹیشن کی جانب روانہ ہوئے صبح کا سہانا وقت تھا۔ منظر بڑا ہی خوبصورت تھا۔ شہر آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ پلیٹ فارم نمبر تین پر انھیں وکاس بابو دکھائی دیئے وہ دوڑ کر ان کی طرف آئے اور اپنے ساتھ لے جا کر انھیں ایک جگہ کھڑا کر دیا، تھوڑی دیر میں گاڑی وہاں آ کر رُکی۔ وکاس بابو جلدی سے ڈبہ میں داخل ہو گئے۔ اور انھوں نے ان کی مخصوص سیٹوں پر انھیں بٹھا دیا۔ پانچ منٹ رُک کر گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔ نثار بابا کی محبت اور کلّو بابا کے تئیں اُن کی عقیدت نے آکاش اور عدنان کو بے حد متاثر کیا۔ پھر ان کا سفر جاری ہوا۔

            ابھی گاڑی کے سفر کو صرف دو گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ ایک ویران علاقے میں گاڑی اچانک رُک گئی بریک اتنی تیزی سے لگے تھے کہ مسافر ایک دوسرے پر گرنے لگے اوپر رکھا ہوا سامان نیچے گرنے لگا۔ کئی لوگ خوف کے مارے چلّانے لگے کہ کہیں کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا پھر اُسی وقت گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں کچھ لوگوں نے دروازوں سے کھڑ کیوں سے جھانک کر دیکھا اور صرف ایک منٹ میں پوری ریل گاڑی میں یہ بات پھیل گئی کہ ریل گاڑی کو ڈاکوؤں نے روک لیا ہے وہ ہر ایک ڈبے میں گھس گھس کر مسافروں سے روپئے پیسے مال و اسباب چھین رہے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ڈبّو میں دہشت اور خوف کی ایک لہر دوڑ گئی کئی لوگ اپنے اپنے سامان اٹھا کر ریل گاڑی سے کودنے لگے جس کو جدھر راستہ ملا اُدھر بھاگنے لگا۔ بھاگتے ہوئے کچھ لوگوں پر ڈاکوؤں نے گولیاں بھی چلائیں۔ کئی لوگ ان گولیوں سے زخمی ہوئے کچھ مر گئے۔

            جس ڈبے میں آکاش، عدنان اور پریم بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی افراتفری مچ گئی جس کے پاس کم سامان تھا وہ ڈبے سے اتر اتر کر بھاگنے لگے۔ عدنان نے آکاش کو اشارہ کیا۔ وہ بھی پریم کو لے کر تیزی سے نیچے اترے اور ایک سمت بھاگنے لگے ایک دو گولیاں ان کے قریب سے بھی سنسناتی ہوئی گزر گئیں۔ آکاش اور عدنان پریم کا ہاتھ پکڑ کر دوڑ تے چلے جا رہے تھے کہ ایک مقام پر پریم کا پیر پھسل گیا اور وہ منھ کے بل چٹان پر گر گیا۔ عدنان اور آکاش نے اُسے گرتے دیکھا تو وہ رک گئے جلدی سے انھوں نے اُسے جھاڑ یوں کی جھنڈ میں کھینچ لیا اور زمین پر بٹھا دیا۔ خون اُس کے سر سے بہہ رہا تھا۔ آکاش نے جلدی سے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اُس کے سر پر جہاں زخم تھا کَس کر پٹی باندھ دی۔ پریم بے ہوش گیا تھا یہ دونوں بھی جھاڑ یوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکو وہاں سے بھاگ گئے۔ کچھ زخمی اور کچھ لاشیں وہاں موجود تھیں ڈبوں سے رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں میدان میں دونوں طرف بہت سارے لوگ جھاڑ یوں میں چھپے ہوئے تھے ڈاکوؤں کے چلے جانے کے بعد وہ ایک ایک کر کے نکل کر آئے اور اپنے اپنے ڈبوں کی طرف دوڑ نے لگے جو لوگ مارے گئے تھے یا زخمی ہوئے تھے ان کے رشتے داروں کی چیخ و پکار سے ویران علاقہ گونج رہا تھا۔ اُسی وقت گارڈ کی ہدایت پر سارے لوگوں کو گاڑی کے ڈبوں پر چڑھا لیا گیا۔ عدنان اور آکاش نے بھی بے ہوش پڑے ہوئے پریم کو اُٹھایا اور جس ڈبے میں وہ بیٹھے تھے اُس میں چڑھا دیا اور خود بھی وہیں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں گاڑی وہاں سے روانہ ہوئی۔ جب گاڑی اگلے اسٹیشن پر پہنچی تو اسٹیشن پر ہزاروں کی بھیڑ موجود تھی جلدی جلدی زخمیوں کو اور لاشوں کو اتارا گیا ایمبولینس گاڑ یاں موجود تھیں انھیں اسپتال بھجوا دیا گیا۔ پولس نے ڈرائیور سے ، گارڈ سے اور چند مسافروں سے پوچھ تاچھ کی ان کے بیانات لکھے اور پھر گاڑی آگے روانہ ہو گئی۔

            پریم کے سر میں بھی کافی گہرا زخم آیا تھا وہ بے ہوش پڑا ہوا تھا لہٰذا عدنان اور آکاش نے اُسے بھی ایک ایمبولینس میں سوار کر دیا اور خود بھی اس کے ساتھ اسپتال پہنچ گئے جلد ہی پریم کو ایک وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک ڈاکٹر آیا اس نے پریم کا اچھی طرح معائنہ کیا پھر اُس کو بلا کر کہا ’’اِسے فوراً آپریشن تھیٹر میں لے چلو‘‘ اُسی وقت اُسے ایک اسٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا۔ عدنان اور آکاش آپریشن تھیٹر کے باہر بچھی بینچ پر بیٹھ گئے دو گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور پریم کو ایک وارڈ میں پہنچا دیا گیا۔ عدنان اور آکاش بھی ساتھ ساتھ ہی وارڈ میں پہنچے اور اُس کی پلنگ کے بازو بیٹھ گئے۔

            نرس نے کہا ’’تم لوگ اس کے ساتھ ہو؟

            آکاش نے کہا ’’ہاں ۔ کیا ہوا اُسے۔

            سر پر گہری چوٹ لگی ہے دماغ متاثر ہوا ہے۔ دو گھنٹے بعد ہوش میں آئے گا تب پتہ چلے گا کہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ خبر دار اُسے جگانے کی کوشش مت کرنا۔ خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو یہ کوئی حرکت کرے تو فوراً مجھے آ کر خبر دینا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر نرس وہاں سے چلی گئی۔ عدنان اور آکاش نے خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اطمینان سے وہاں بیٹھ گئے دونوں باری باری سے اُس کے پاس بیٹھتے رہے دو گھنٹے بعد پریم نے تھوڑی حرکت کی، ہاتھ پیر ہلائے اور آنکھیں کھول دیں آکاش نے دوڑ کر نرس کو خبر دی وہ دوڑی دوڑی اُس کے پاس آئی اس کی نبض دیکھی۔ تب تک پریم پوری طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ نرس نے اُسے ایک گولی کھانے کو دی اُس نے گولی منھ میں رکھی اور پانی سے نگل لی۔ نرس نے اُس سے پوچھا، ہاں کیسا لگ رہا ہے ؟

            پریم نے کہا ’’بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔ سر میں درد ہے۔

            اُس نے کہا ’’ٹھیک ہے کمزوری جلد ہی دور ہو جائے گی سر درد بھی ختم ہو جائے گا۔ پھر اُس نے پریم کے ہاتھ میں ایک انجکشن دیا آکاش اور عدنان کی طرف دیکھ کر کہا ’’فکر کی کوئی بات نہیں ہے اس کا دماغ نارمل ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر نرس وہاں سے چلی گئی۔ پریم حیرت سے آکاش اور عدنان کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے پوچھا ’’میں کہاں ہوں ؟ آکاش نے کہا ’’تم اِس وقت آکولہ کے اسپتال میں ہو؟

            میں یہاں کیسے آیا؟ تم کون ہو؟

            آکاش نے کہا ’’ہم ساری باتیں تمھیں تفصیل سے بتائیں گے۔ تم اچھے ہو جاؤ۔ یہ سن کر اُس نے آنکھیں بند کر لیں عدنان اور آکاش اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے رہے پھر آہستہ آہستہ پریم پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ گہری نیند میں ڈوب گیا۔

            نرس تھوڑی دیر بعد وہاں آئی اور اُس نے دونوں سے کہا ’’میں نے اُسے نیند کا انجیکشن دے دیا ہے بیدار ہو گا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

            شام کے پانچ بج رہے تھے یہ دونوں دوست پریم کی بدلی ہوئی حالت سے کافی پریشان تھے۔ آکاش نے کہا ’’مجھے لگتا ہے کہ سر پر چوٹ لگنے سے پریم کی کھوئی ہوئی یاد داشت واپس آ چکی ہے۔ ہمیں نہایت اطمینان سے ساری باتیں اُسے سمجھانی ہو گی۔

            عدنان نے کہا ’’ہاں۔ اب تو وہ ہمیں بھی نہیں پہچان رہا ہے لگتا ہے کہ پہلے حادثہ کے بعد کے سارے واقعات اس کے دماغ سے صاف ہو گئے ہیں۔

            ہاں اب ہمیں اُسے ریل گاڑی کے پہلے حادثہ کے بعد کی کیفیات کو بتانا ہو گا ہم اُسے یہی بتائیں گے کہ ہم نے ہی اُسے بچایا تھا۔ پھر اُس کے والد کی موت اور چاچا کی دشمنی سے بھی اُسے آگاہ کرنا ہو گا۔ دیکھیں ہوش میں آنے کے بعد اُس کی حالت کیسی رہتی ہے۔

            ابھی وہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ پریم نے آنکھیں کھول دیں۔ اسپتال کے کمرے کو غور سے دیکھنے لگا اور پھر اُس کی نظر عدنان اور آکاش پر پڑ ی۔ اُس نے ان دونوں کو دیکھا اور مسکرادیا۔ پھر اُس نے اپنا ہاتھ اپنے پیٹ کے اُس حصّہ پر ڈالا جہاں چاقو لگا تھا۔ وہاں زخم نہ پا کر وہ بہت حیران ہوا۔ اپنے ہاتھ پیر ہلا کر دیکھے ہر طرح سے مطمئن ہو کر پھر اُس نے آکاش کی طرف دیکھا اور کہا ’’آپ کون ہیں مجھے یہاں کس نے لایا۔ میں یہاں کب سے ہوں۔ ‘‘

            آکاش نے کہا ’’پریم بابو، یہ ایک لمبی کہانی ہے ہم بہت دنوں سے تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تمھارے دوست ہیں۔ میرا نام آکاش ہے اور یہ ہمارا دوست عدنان ہے !

            عدنان کی طرف دیکھ کر وہ مسکرا دیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ عدنان نے اُس سے مصافحہ کیا اور کہا ’’کہیئے پریم بابو ابھی آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟

            بس سب کچھ ٹھیک ہے صرف سر میں ہلکا ہلکا درد ہے ؟

            اُسی وقت ڈاکٹر آگیا۔ اُس نے اچھی طرح اس کا چیک اپ کیا اور ہر طرح سے مطمئن ہو کر اُس نے کہا ’’خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ لوگ کل صبح اِسے لے جا سکتے ہیں۔ پھر اُس نے نرس کو کچھ ہدایتیں دیں اُس کے سرہانے ٹنگے ہوئے چارٹ پر کچھ تحریر کیا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ نرس نے اُس کے ہاتھ میں ایک انجکشن دیا۔ ایک خوراک دوا کھلائی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ دونوں دوست اُس کی پلنگ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔

            تبھی کوئی منِسٹر اُس وارڈ میں آئے ان کے ساتھ بہت سے سیاسی رہنما اور عام لوگ بھی تھے۔ سرکاری عملہ پولس کے سپاہی اور ڈاکٹر بھی ان کے ساتھ تھے۔ زخمیوں کی مزاج پرسی کرتے کرتے منتری جی پریم کے پاس آئے انھوں نے اُس کا حال دریافت کیا اُس نے کہا ٹھیک ہوں۔ سر میں درد ہے۔

            ڈاکٹر نے بتایا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے کل ان کو چھٹی دے دیں گے اُسی وقت پریم کا نام پتہ لکھا گیا اور اُسے فوری امداد کے طور پر دو ہزار روپئے نقد دیئے گئے۔ اور وہ لوگ وہاں سے چلے گئے پریم نے وہ رقم آکاش کی طرف بڑھائی۔ آکاش نے کہا نہیں آپ اُسے اپنے پاس رکھے رہو!

            پریم نے کہا ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پیسہ اِدھر اُدھر ہو جائے گا۔ تم اُسے اپنے پاس رکھو۔ پلیز۔

            آکاش نے وہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لئے اور اُس کی پلنگ پر بیٹھ گیا۔ عدنان نے کہا ’’میں ذرا باہر سے آتا ہوں۔ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔ باہر سے اُس نے کچھ فروٹ خریدے اور اُسے لے کر اسپتال میں آگیا فروٹ کاٹ کر اُس نے پریم کو دیئے۔

            رات تک پریم کی طبیعت میں کافی سدھار آگیا تھا۔ اطمینان سے کھانا کھایا کافی پی اور اِس طرح اُس کی طبیعت کافی حد تک اچھی ہو گئی۔ پھر اُسے نیند آ گئی شائد رات کی دوائی میں نیند کی گولی بھی شامل تھی۔ وہ سو گیا تو آکاش اور عدنان ورانڈے میں آ کر سو گئے۔ لوگوں کی آمدورفت کے شور سے سویرے بہت جلد وہ نیند سے بیدار ہو گئے کمرے میں آ کر انھوں نے دیکھا پریم گہری نیند میں تھا۔ دونوں منھ ہاتھ دھو کر اسپتال سے باہر نکلے ایک ہوٹل میں ناشتہ کیا اور پریم کے لئے بریڈ بسکٹ اور فروٹ لے کر اسپتال میں آ گئے۔ جب وہ اسپتال میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ پریم بھی جاگ چکا تھا۔ ان کے آنے کے بعد وہ باتھ روم گیا تر و تازہ ہو کر آگیا۔

            ابھی تک وہ انھیں کپڑوں میں تھا جو دشرتھ راؤ جی کے گھر میں اُسے پہنائے گئے تھے۔ سفید سفید کپڑوں میں اُس کی شخصیت کافی نکھری نکھری نظر آ رہی تھی وہ آ کر اطمینان سے اپنے پلنگ پر بیٹھ گیا اور کہا ’’میں سو کر اُٹھا تو تم دونوں غائب تھے۔ میں سمجھا میرے روپئے لے کر تم دونوں بھاگ گئے۔ اتنا کہہ کر اُس نے ہنس دیا۔

            آکاش نے کہا ’’ہاں تمہاری رقم کے لئے ہی تو ہم تمھارے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ لو یہ ناشتہ کر لو۔ ‘‘ان کی لائی ہوئی چیزوں کو اُس نے کھایا عدنان نے اُسے کافی لا کر دی کافی اس نے پی اور اُسے تازگی اور فرحت محسوس ہوئی۔ پھر اُس نے کہا ’’ٹرین کے اندر مجھے اور میرے والد کو دو غنڈوں نے چاقو مارا تھا۔ پیٹ پر زخم کا نشان تو موجود ہے لیکن یہ سر کی چوٹ ابھی تک تازہ کیسے ہے۔

            آکاش نے کہا ’’تم ٹرین سے سفر کر رہے تھے دو غنڈوں نے تمھیں اور تمھارے والد کا چاقو مار کر ندی میں پھینک دیا اور واپس چلے گئے اتفاق سے اُسی گاڑی میں عدنان بھی چھپ کر بیٹھا ہوا تھا اُس نے یہ پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک جگہ گاڑی رکی تو اُس نے تمھارا سوٹ کیس اُٹھایا اور اسے لے کر نا سک پہنچ گیا۔ سوٹ کیس میں موجود تمھارا سفاری سوٹ اس نے پہن لیا اس کی جیب پر بنے ہوئے مونوگرام کی وجہ سے پولس نے اُسے پکڑ لیا اور تمھارے چاچا سیٹھ گوند داس کے پاس لے کر گئے۔ تمھارا سوٹ کیس اور عدنان کو ان کے سپرد کر دیا انھوں نے پولس والے کو اُسی سوٹ کیس میں سے بیس ہزار روپئے دیئے اور انسپکٹر کو چلتا کر دیا اور عدنان کو اپنے پالتو خونخوار جانوروں کے پنجرے میں ڈالنے کے لئے کوالس گاڑی میں بٹھا دیا۔ اتفاق سے گاڑی کا ایکسی ڈینٹ ہو گیا اور عدنان مندر کے پاس آ کر ندی کنارے گرا۔ زخمی حالت میں ، میں نے اور سادھو مہاراج نے اس کی دیکھ بھال کی۔ یہ اچھا ہو گیا تو اس نے ہمیں سارے معاملات سے آگاہ کیا۔ ہم نے سوچا کہ ندی کنارے تمھارے اور تمھارے والد کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات تو ضرور ملے گی ، ہم وردھا آئے اور ایک دھوبی دشرتھ راؤ سے ملاقات ہوئی انھوں نے ہی ندی سے تمھیں نکالا تمھارا علاج کرایا اور تم اچھے ہو گئے تو انھوں نے تمھیں اپنے گھر میں رکھ لیا تھا لیکن سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے تم اپنی یاد داشت کھو بیٹھے تھے انھیں پورے حالات بتا کر ہم تمھیں ٹرین سے اپنے ساتھ لے جا رہے تھے تو ٹرین پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا، تم ہمارے ساتھ بھاگ رہے تھے کہ تم ایک چٹان پر گر پڑے تمھارے سر پر گہری چوٹ لگی جس کی وجہ سے تمھاری یاد داشت واپس آ گئی اور تب سے تم اس اسپتال میں ہو۔

            یہ کہانی سن لینے کے بعد اُس نے عدنان کو دیکھا اور اُس کے کپڑوں کو دیکھ کر کہا ’’ہاں تبھی میں اِس سفاری سوٹ کو دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ میرا بھی ایسا ہی ایک سفاری سوٹ تھا لیکن اس پر وہ مونوگرام موجود نہیں ہے۔ ‘‘

            آکاش نے کہا ہم نے اُسے نکال کر پھینک دیا کیونکہ اُسی کی وجہ سے عدنان پولس کی گرفت میں آیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ پھر سے کوئی مصیبت نہ آ جائے اس لئے ہم نے اُس مونو گرام کو نکال کر پھینک دیا۔

            میرے چاچا نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ پریم نے پوچھا

            پراپرٹی کا جھگڑا ہے۔ وہ پراپرٹی کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے تھے اور تمھاری ماتا جی اُس کو دونوں بھائیوں میں تقسیم کرانے پر بضد تھیں۔ اس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے تمھارے چاچا نے یہ سازش رچی۔ عدنان نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور تم اتفاق سے بچ گئے۔

            تم کو اتنا سب کچھ کیسے معلوم ہوا؟ پریم نے پوچھا۔

            مونوگرام کی وجہ سے تمھاری فیملی کا پتہ چل گیا اور اس سلسلے میں ہم نے تمھارے گھر کی ساری تفصیل جان لی اِس وقت تمھاری ماتا جی بہت مصیبت میں ہیں اُنھیں وہاں سے چھڑ انا بہت ضروری ہے۔

            پریم نے کہا ’’کیا ہوا میری ماں کو چاچا نے اُن کے ساتھ کیاسلوک کیا۔

            آکاش نے کہا ’’تمھارے چاچا نے اُنھیں قید کر کے رکھا ہوا ہے۔ لیکن تم گھبراؤ مت ہم اُنھیں چھڑا لیں گے تمھارے چاچا کو ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تم زندہ ہو ورنہ وہ اب تک تمھیں بھی ختم کروا دیتے۔

            پریم نے کہا۔ تم لوگوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔

            آکاش نے کہا ’’نہایت خاموشی سے ہم مندر جائیں گے سادھو مہاراج اور کلّو بابا کے مشورہ سے آگے کا کام کریں گے۔

            تھوڑی دیر میں وہاں ڈاکٹر آگیا اُس نے پریم کا معائنہ کیا اور کہا ’’ینگ بوائے۔ تم بالکل ٹھیک ہو۔

            پھر اُس نے ایک چٹھی پر کچھ دوائیاں لکھ کر دیں اور اُس سے کہا ’’ایک ہفتہ تمھیں اِن دوائیوں کا استعمال کرنا ہے۔ ‘‘ نرس سے کہہ کر اُس نے پھر سے اُس کے سر پر بنڈیج بندھوا دی دوا کی چٹھی اور ڈسچارج کارڈ اُسے دے کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔

            عدنان، پریم اور آکاش تینوں اسپتال سے باہر آئے۔ باہر آ کر پہلے تو انھوں نے ایک ہوٹل میں ناشتہ کیا اور پھر وہیں سے آٹو رکشہ کر کے ریلوے اسٹیشن پر آ گئے وہاں معلوم ہوا کہ ممبئی جانے والی گاری دو بجے آئے گی وہ لوگ اسٹیشن پر بنی بینچ پر بیٹھ گئے اور گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ ٹھیک دو بجے گاڑی پلیٹ فارم پر رکی۔ ایک خالی ڈبہ میں تینوں بیٹھ گئے اور دس منٹ رُک کر گاڑی آگے چلی۔ منماڑ ریلوے اسٹیشن پر اتر کر تینوں بس اسٹاپ گئے اور بس کے ذریعہ سے نا سک پہنچ گئے۔ نا سک پہنچ کر سب سے پہلے انھوں نے کلّو بابا سے ملاقات کی نثار بابا نے جو ٹفن دیا تھا وہ کلّو بابا کے حوالے کیا اور وردھا میں نثار بابا کی مہمان نوازی کا ذکر کیا پھر پریم کے ملنے کی بات اُنھیں تفصیل سے بتائی، پریم کی یاد داشت واپس آنے کا واقعہ بھی انھیں تفصیل سے بتایا۔ پریم کے بچ جانے کی خبر سن کر کلّو بابا نہایت خوش ہوئے اُسی وقت انھوں نے پریم کے سر پر ایک ہرے رنگ کا رومال باندھا اور تینوں لڑکوں کو لے کر حضرت بابا معصوم شاہ کی مزار کے سامنے کھڑا کر دیا اور بہت دیر تک دعا کرتے رہے تینوں لڑکوں کو تبرک دیا اور مورچھل سے انھیں برکت کی اور مصیبتوں سے محفوظ رہنے کی دعا دی اور پھر انھوں نے آکاش سے کہا ’’تم سب مندر میں سادھو مہاراج سے جا کر ملو اور خبر دار کسی کے سامنے پریم کے بچ جانے یا مل جانے کا ذکر نہیں کرنا۔ اس کی جان کو بے حد خطرہ ہے۔ یہ بات کہہ کر انھوں نے پریم کی طرف دیکھا سفید کپڑوں میں وہ کسی مسلمان لڑکے جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ انھوں نے الماری میں سے ایک ٹوپی نکالی اور پریم کو پہنا دی اور ہرا رومال اس کے گلے میں باندھ دیا اور کہا اب کوئی اِسے دیکھے گا تو سمجھے گا کہ یہ کوئی مسلمان لڑ کا ہے۔ اگر سیٹھ گوندداس کو اس کے بچنے کی ذرہ برابر بھی بھنک لگ گئی تو اپنا آخری حربہ بھی استعمال کر کے اِسے مروا ڈالے گا جاؤ تم لوگ جلدی جاؤ تھوڑی دیر میں ، میں بھی وہیں پہنچ رہا ہوں۔

            اُسی طرح سروں پر رومال باندھے وہ نیچے اتار کی طرف روانہ ہوئے اور تھوڑی دیر میں ہی مندر کے اُس مکان میں پہنچ گئے جہاں سادھو مہاراج زمین پر چٹائی بچھا کر لیٹے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ان کے آنے کی آہٹ ہوئی وہ جاگ گئے اور چٹائی پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ایک نئے لڑکے کو ساتھ میں دیکھ کر انھیں حیرت ہوئی تب آکاش نے سادھو مہاراج کو پریم کے ملنے کی پوری کہانی سنا دی اور کلّو بابا کی بات بھی انھیں بتا دی۔ ‘‘ سادھو مہاراج نے کہا ’’ہاں کلّو بابا نے درست کہا ہے ابھی تو سیٹھ گونداس عدنان کی تلاش میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ اُس کی گاڑی لے کر اُس کے آدمی کہاں فرار ہو گئے اور جہاں وہ گئے ہوں گے اپنے ساتھ عدنان کو بھی لے گئے ہوں گے۔ اُسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ عدنان کے ذریعہ سے اُسے بلیک میل کرنے کی کوشش کریں گے اِس لئے یہ بات کہ عدنان زندہ ہے اور پریم بھی موت کے منھ میں جا کر واپس آگیا ہے ہمیں راز رکھنی ہو گی۔

            اس طرف سے فرصت پا کر تینوں لڑکے ندی کے کنارے آ گئے۔ آکاش نے کہا ’’میں تو سفر سے بہت تھک گیا ہوں ندی میں نہاؤں گا‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے کپڑے اتارے اور ندی میں چھلانگ لگا دی۔ ندی میں ریت کے بیچ سے صاف ستھرا پانی بہہ رہا تھا۔ پانی کافی زیادہ تھا اور کافی تیزی سے بہہ رہا تھا آکاش کو بچپن ہی سے ندی میں تیرنے کی عادت تھی اس لئے وہ ایک بہت اچھا تیراک بن گیا تھا۔ وہ کافی دیر تک ندی میں نہاتا رہا عدنان اور پریم اُسے دیکھتے رہے۔ ندی کے دوسرے کنارے پر ایک پہاڑی تھی اور پہاڑی پر ایک مندر کا تھا۔ مندر کا کلس دھوپ میں چمک رہا تھا دونوں لڑکے اس خوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

            ان کے کمرے سے جانے کے تھوڑی دیر بعد کلّو بابا مندر کے اس کمرے میں آئے جہاں سادھو مہاراج لیٹے ہوئے تھے۔ کلّو بابا نے آواز دی، ’’ مہاراج کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

            سادھو مہاراج اُٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا ’’ہاں آؤ۔ میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ کلّو بابا آئے اور ان کے پاس چٹائی پر بیٹھ گئے۔ تب کلّو بابا نے کہا ’’مہاراج سیٹھ اروند داس کا لڑ کا بچ گیا ہے اُسے اُس کا حق دلانا ہے ؟

            ہاں حق تو دلانا ہی ہے اُس سے زیادہ اس کی جان کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیٹھ گو ونداس نے اپنے لاپتہ آدمیوں کو تلاش کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔

            ہاں مہاراج آپ نے درست کہا ’’اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ان دونوں لڑکوں کو کس طرح بچائیں اور سیٹھ گو ونداس سے اس کی پراپرٹی کیسے حاصل کریں اور سیٹھ کا اس سازش میں ملوث ہونا کس طرح ثابت کریں ۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’سیٹھ گو وندداس نے اپنے بھائی کو ناگپور بھیجا تھا اور پھر وہیں کسی کو ان دونوں کو ختم کرنے کی سپاری دی ہو گی اگر ہمیں ان غنڈوں کا پتہ چل جائے تو ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنا جرم قبول کر لیا تو سیٹھ گو ونداس کو اُس کے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

            لیکن مجرم اپنا جرم کیوں قبول کرے گا اگراُس نے اپنا جرم قبول کر لیا تو وہ بھی سزا پائے گا۔

            ہاں یہ بات تو درست ہے لیکن اُسے جرم ظاہر کرنے کے لئے سرکاری گواہ بنا لیا جائے تو اُس کی سزا میں بہت کمی آ جائے گی اور سیٹھ گو وندداس پولس کی گرفت میں آ جائے گا۔ ناگپور میں کوئی ایسا آدمی ہو جو اِس سلسلے میں ہماری مدد کرے تو ہماری یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے۔

            کلّو بابا نے کہا ’’ایسا ایک آدمی تو ناگپور میں ہے جو بے حد معتبر اور بھروسے کے لائق ہے اور شہر کے سارے غنڈے بدمعاش اس کے حضور میں آ کر حاضری دیتے ہیں اُس کی بہت عزت کرتے ہیں۔

            کون ہیں وہ نام بتاؤ۔

            کلّو بابا نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ تم بھی اُنھیں جانتے ہو اُن کی ملاقات تم سے بھی ہو چکی ہے یاد کرو ناگپور کی ایسی کون سی ہستی ہو سکتی ہے ؟

            سادھو مہاراج نے کہا ’’کہیں تم حاجی بابا بمبیّا پہلوان کی بات تو نہیں کر رہے ہو!

            ہاں بالکل ٹھیک پہنچانا تم نے ، میں اُنھیں کی بات کر رہا ہوں۔ یہیں اسی مقام پر بیٹھ کر ہم نے کتنی ہی بار ان سے بات چیت کی ہے۔ ہر سال وہ عرس میں یہاں آتے ہیں۔ ہم سب سے مل کر جاتے ہیں۔ سادھو مہاراج نے کہا ’’خوب بہت خوب۔ میرا ذہن ان کی طرف کیوں نہیں گیا۔ حالانکہ میں انھیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب نا سک جیل میں ان سے ملاقات ہوئی تھی!

            کلّو بابا نے کہا ’’مہاراج آپ نا سک جیل کیسے پہنچ گئے تھے یہ بات آپ نے مجھے کبھی نہیں بتائی۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہاں یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں نے B.A. کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ میری تعلیم اور گھر کے خرچ کے لئے میرے پتا جی نے ساہوکار سے کافی قرض لے لیا تھا۔ اُس کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ساہوکار کی نظر ہمارے مکان پر تھی رشوت لینے کے ایک معاملے میں میرے پتا جی کی نوکری چھوٹ گئی تھی، ایک تو تنخواہ نہیں مل رہی تھی دوسرے میری تعلیم کا خرچ، وکیل کی فیس کا خرچ اور گھر کے اخراجات ان سب خرچوں نے میرے پتاجی کو نڈھال کر دیا تھا۔ ساہوکار کے تقاضے سے تنگ آ کر انھوں نے ایک بار مکان بھی بیچنے کو نکالا تھا۔ لیکن میری ماں کسی بھی حالت میں مکان بیچنے اور اُس جگہ کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ تھیں۔ ایسے میں ساہوکار کی بار بار کی آمد اور اُس کا بڑھتا ہوا سود۔ ان سب نے میرے والد کو بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ بیمار ہو گئے۔ بستر پر پڑ گئے ایسے میں ساہوکار نے کُڑکی ضبطی کا ایک مہینے کا نوٹس لا کر دے دیا اور کچھ لوگوں کو ساتھ میں لا کر میرے پتا جی کو دھمکی دی یہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا پرانے زمانے کی گھر میں ایک تلوار رکھی ہوئی تھی غصہ میں آ کر میں نے وہ تلوار نکال لی اور ساہوکار اور اُس کے آدمیوں پر ٹوٹ پڑ ا۔ میرے اس اچانک حملے سے ساہوکار کے دو آدمی مر گئے خود ساہوکار بری طرح زخمی ہوا۔ یہ دیکھ کر میرے پتا جی پر دل کا دورہ پڑا اور ان کا بھی دیہانت ہو گیا۔ اُسی وقت پولس آ گئی میں نے اپنے آپ کو پولس کے حوالے کر دیا۔

            دو آدمیوں کے قتل اور دو لوگوں کو زخمی کرنے کا مجھ پر الزام تھا۔ میری طرف سے کوئی وکیل بھی کھڑا نہیں ہوا اور نتیجہ میں مجھے بیس سال قید با مشقت کی سزا ہو گئی۔ مجھے نا سک جیل میں ڈال دیا گیا مجبوراً میری ماں کو مکان ساہوکار کے حوالے کرنا پڑا وہ اپنے گاؤں چلی گئی اور چند مہینوں میں اُس کا بھی دیہانت ہو گیا۔

نا سک جیل میں میری سزا کے دس سال پورے ہو چکے تھے کہ ایک نیا قیدی ہماری جیل میں آیا۔ اس کے بال ہلکے گھنگھریالے تھے اور ایک آنکھ کانچ کی بنی ہوئی تھی بعد میں معلوم ہوا کہ ناگپور کا بڑا نامی گرامی غنڈہ ہے وہ قیدی ناگپور جیل سے یہاں بھیجا گیا تھا کیونکہ اُس نے وہاں کے جیلر کو مار کر اُس کی پسلی کی تین ہڈیاں توڑ دی تھیں۔ نا سک جیل میں کئی خطرناک قیدی تھے ان میں سے کچھ اُس قیدی کو جانتے تھے مجھے بتایا گیا کہ بمبیّا پہلوان اُس کا نام ہے۔

            جیل میں ابتداء میں کچھ سپاہیوں نے اور جیلر نے ان کے ساتھ عام قیدیوں جیسا رویہ اپنانے کی کوشش کی لیکن اُس کی قلندرانہ طبیعت کو کوئی بدل نہیں سکا اور کچھ پرانے قیدیوں نے بھی اُن سے بھڑ نے کی کوشش کی لیکن اُن کی زبردست قوتِ ارادی اور جسمانی طاقت کے آگے کوئی ٹک نہ سکا اور پھر وہ نا سک جیل کے بے تاج بادشاہ کی طرح رہنے لگے۔ کسی سپاہی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان کو صبح سویرے اٹھا سکے یا اُن سے کوئی کام لے سکے۔ دنیا بھر کی چیزیں نہ جانے کس ذریعہ سے ان کے پاس پہنچ جاتی تھیں۔

            وہیں نا سک جیل میں بمبیّا پہلوان سے میری ملاقات ہوئی رات میں بہت سارے لوگ ان کے گرد بیٹھ جاتے تھے اور دنیا بھر کی باتیں ہوتی تھیں بیڑی سگریٹ کے پاکٹ ان کے سامنے رکھے ہوتے تھے لوگ اپنی ان پسندیدہ چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے اُن کے گرد بیٹھے رہتے تھے اور محفل ختم ہونے پر جا کر سو جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ڈھائی تین سال وہ نا سک جیل میں رہے اور پھر سے اُنھیں ناگپور بھیج دیا گیا۔

            اپنی سزا پوری ہو جانے کے بعد میں جب آزاد ہوا تو میرا اس دنیا میں کوئی بچا نہیں تھا۔ کچھ دنوں تک اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا پھر اتفاق سے ایک دن اس مندر میں آگیا، بے کار تھا کوئی کام نہیں تھا یہیں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا یہاں کے پنڈت جی نے مجھے اداس بیٹھا ہوا دیکھا تو پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا پھر انھوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور مجھ سے کہا کہ بھگوان نے اس مندر میں تمھیں بھیج دیا ہے اب یہیں رہو ان کی عمر بھی کافی ہو گئی تھی میں اُسی مندر میں رہنے لگا۔ ان کے ذریعہ سے دھرم کے سارے کام میں نے سیکھ لئے۔ کئی دھارمک کتابوں کا مطالعہ کیا اور اِس مندر کا ہی ہو کر رہ گیا۔

            میرے مندر میں آنے کے تین سال بعد پنڈت جی کا دیہانت ہو گیا یہیں ندی کے کنارے اُن کی چتا کو میں نے آگ دی اور اسی ندی میں اُن کی استھیوں کا وسرجن کیا۔ تب سے میں یہاں ہوں۔ ایک عرس کے زمانے میں تم حاجی بابا، بمبیّا پہلوان کو یہاں لے کر آئے تو میں نے پہلی نظر میں انھیں پہچان لیا اور نا سک جیل کی ملاقات کا ذکر کیا وہ مجھے فوراً پہچان گئے۔ تب سے جب بھی ان کا نا سک آنا ہوتا ہے تو میرے یہاں ضرور ملنے آتے ہیں۔ کلّو بابا یہ تو بتاؤ کہ بمبیّا پہلوان سے تمھاری دوستی کیسے ہو گئی۔

            کلّو بابا نے کہا ’’آپ کی طرح میری کہانی بھی بڑی درد ناک ہے میں ٹرک ڈرائیور تھا اور ٹرک سے مال لے کر دور دراز علاقوں میں جایا کرتا تھا۔ مجھے شراب پینے کی عادت تھی میری شادی ہو چکی تھی اور ایک لڑ کا بھی تھا۔ ماں باپ کے ساتھ ہم الگ ایک جھونپڑ پٹی کے ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتے تھے۔ میری بیوی مجھ سے بہت پیار کرتی تھی لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شادی سے پہلے اس کا اُسی محلے کے کسی لڑکے سے عشق کا معاملہ تھا۔ شادی ہو جانے کے بعد تو وہ ٹھیک سے رہی لیکن بعد میں میری ماں سے جھگڑ نے لگی اور الگ گھر میں رہنے کی ضد کرنے لگی ان جھگڑوں سے تنگ آ کر دوسری بستی میں ، میں نے ایک جھونپڑا خرید لیا اور وہیں اُس کے ساتھ رہنے لگا مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے کہیں باہر جانے پر یہ اپنے میکے چلی جاتی تھی اور اُس کے پرانے عاشق کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہو گئے تھے اس بات کا بھی علم ہوا کہ میری غیر موجودگی میں وہ بھی اکثر میرے گھر میں آ جایا کرتا تھا اور رات بھر رکتا تھا۔ پہلے تو مجھے لوگوں کی باتوں پر یقین نہیں آیا لیکن ایک بار میں نے اپنی گھر والی کو بتایا کہ میں کلکتہ جا رہا ہوں کم سے کم دس بارہ دن بعد واپس آؤں گا۔ یہ بہانہ کر کے میں وہاں سے نکل گیا اور پڑ وس کے ایک آدمی سے کہا کہ اگر وہ شخص جو میری غیر موجودگی میں آتا ہے کسی بھی وقت آئے تو گیریج میں آ کر مجھے خبر دے دینا۔

            میرے نکلنے کے دوسرے دن رات میں گیارہ بجے وہ آدمی سائیکل سے میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ ابھی ابھی وہ شخص گھر میں داخل ہوا ہے۔ میں نے اُسی کی سائیکل لی اور تیزی سے سائیکل چلاتے ہوئے اپنے گھر پہنچا اور ایک زور دار لات مار کر دروازہ توڑ دیا۔ اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ آدمی وہاں موجود تھا میں غصّے سے بے قابو ہو گیا اس وقت میں نشہ میں بھی تھا۔ بس جیب سے چاقو نکالا اور اُسی جگہ پر اپنی بیوی کو اور اس کے عاشق کو مار ڈالا اور خود سے جا کر پولس اسٹیشن میں ساری بات بتا دی اور اپنے آپ کو پولس کے حوالے کر دیا۔ مجھ پر مقدمہ چلا اور مجھے بیس سال قید با مشقت کی سزا ہوئی۔ جب میں جیل میں تھا تو ایک شخص سے ذراسی بات پر میرا جھگڑا ہو گیا میں نے اُسے اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔ پھر سے مجھ پر مقدمہ چلا اور مزید دس سال کی سزا ہوئی اور مجھے ناگپور جیل بھیج دیا گیا۔ یہاں پر آیا تو میں نے بمبیّا پہلوان کو دیکھا۔ پوری جیل کا کام اُن کی مرضی سے چلتا تھا۔ اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اُن کو کوئی حکم دے سکے ان سے کوئی کام لے سکے۔ ایک بار ایک نیا جیلر جیل میں آیا۔ اُس نے ایک دن صبح جیل کا معائنہ کیا اُس نے دیکھا کہ سارے قیدی جاگ چکے تھے لیکن ایک قیدی کمبل اوڑھے سورہا تھا جیلر نے سپاہیوں سے اُس قیدی کی بابت دریافت کیا۔ سپاہی نے کہا ’’سر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہ بہت خطرناک آدمی ہے۔ جیلر نے کہا ’’جیل میں قاعدہ سب کے لئے برابر ہے اِسے اُٹھاؤ۔

            سپاہی نے کہا ’’سر میں تو اِسے اُٹھا نہیں سکتا آپ ہی اسے اُٹھا سکتے ہیں جیلر نوجوان آدمی تھا اُس نے بمبیّا پہلوان کے جسم پر پڑی ہوئی کمبل ایک جھٹکے سے کھینچ لی۔ پہلوان گہری نیند میں تھے۔ اُنھیں کمبل کھینچے جانے کا کچھ ٹھیک سے احساس نہیں ہوا پھر جیلر نے اُنھیں گالی دی اورزورسے ایک لات ماری، یہ دیکھ کر بمبیّا پہلوان ایک دم اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ جیلر نے گالی دے کر کچھ بات کہنے کی کوشش کی لیکن اُس سے پہلے بمبیّا پہلوان کا گھونسہ اُس کے جبڑے پر پڑ چکا تھا اور پھر انھوں نے جیلر کی بے تحاشہ پٹائی شروع کر دی۔ سپاہیوں نے جیلر کو بچانے کے لئے اپنی پوری طاقت لگا دی یہاں تک کہ انھوں نے بمبیّا پہلوان پر لاٹھیوں کی بوچھار کر دی لیکن اُن کی یہ تمام کوششیں بھی جیلر کو مار کھانے سے نہیں بچا سکیں۔ آخر وہ بے ہوش ہو گیا۔ فوراً ہیڈ کوارٹر میں خبر دی گئی۔ اُسی وقت بمبیّا پہلوان کو کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ جیلر کو اسپتال بھجوا دیا گیا بعد میں دوسری جیل میں اس کا تبادلہ کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک نیا جیلر آگیا۔ اُسے بمبیّا پہلوان کی بابت ہر چیز سمجھا دی گئی دو تین دنوں میں اُس نے اُنھیں کال کوٹھری سے باہر نکال دیا اور پھر سے وہ شاہی انداز سے جیل میں اپنی زندگی گزارنے لگے۔

            مجھے بھی تین سال تک ناگپور جیل میں رکھا گیا اور سزا پوری ہونے کے بعد مجھے رہائی مل گئی۔ لیکن جب آزاد ہوا تو بوڑھا ہو چکا تھا کچھ کام دھندہ کرنے کے لائق نہیں تھا۔ بس اِسی درگاہ میں آ کر بیٹھا رہتا دھیرے دھیرے یہاں کا مجاور بن گیا، تب سے یہاں کی خدمت کر رہا ہوں۔ رہا ہونے کے بعد دو تین بار بابا تاج الدّینؒ کے عرس کے موقع پر ناگپور جانا ہوا وہاں بمبیّا پہلوان سے ملاقات ہوا کرتی تھی۔ پھر جب میں یہاں مجاور بن گیا تو عرس میں حاجی بابا، بمبیّا پہلوان کو بھی بلایا۔ وہ آئے پھر ہر سال آنے لگے۔ اولیاء اکرام کے بڑے عقیدت مند ہیں ہندوستان کی شاید ہی کوئی ایسی درگاہ ہو گی جس کی زیارت انھوں نے نہیں کی ہو گی۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’صرف اولیاءا کرام کے ہی نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ مجھ سے تو بڑی محبت سے پیش آتے ہیں کسی کسی سال تو یہاں آتے ہیں تو ہفتہ ہفتہ بھر میری کوٹھری میں گزار دیتے ہیں۔ ملنگ آدمی ہیں۔ ہندوستان کے بڑے بڑے غنڈے بدمعاش اُنھیں جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں بمبئی کے حاجی مرزا مستان اور حسّو مہاراج نے جب حاجی باوا کا ناگپور جیل میں جلوہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے۔ رہا ہونے کے بعد ان لوگوں نے حاجی باوا کو بمبئی میں اپنے ٹھکانے پر روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کہاں کسی کے دروازے پر ٹِک سکتے ہیں آخر گھوم پھر کر ناگپور آ گئے اور اب بکرا منڈی کی درگاہ ان کی مستقل قیام گاہ بن گئی ہے۔ ناگپور کی تمام زیارت گاہوں سے ان کا قلبی تعلق ہے اور ہر درگاہ والے ان کے بے حد معتقد ہیں۔

            مجھے تو لگتا ہے کہ یہ لڑ کا عدنان بھی شائد انھیں جانتا ہو گا کیونکہ اِس کا رہنا بھی وہیں آس پاس میں ہے جہاں حاجی بابا بمبیّا پہلوان کی بیٹھک ہے۔

            کلّو بابا نے کہا ’’ہاں بکرا منڈی مومن پورہ میں حضرت بابا سید شہاب الدینؒ کا آستانہ حاجی باوا کی مستقل قیام گاہ ہے۔ ناگپور میں کون ہے جو اُن سے واقف نہیں ہے !

            تو اس سلسلے میں تمھارا کیا منصوبہ ہے ؟

            میرے خیال سے میں ان تینوں لڑکوں کو لے کر ناگپور جاتا ہوں اور حاجی بابا کو پورا حال بیان کر دیتا ہوں پھر ان کے ذریعہ سے اُن دونوں کا پتہ لگاتے ہیں جنھوں نے ریل میں باپ بیٹے کو مارنے کا کام کیا تھا۔ اُن میں سے کوئی ایک بھی سچائی بیان کرنے کو تیار ہو گیا تو ہمیں اس کام میں کامیابی حاصل ہو جائے گی۔

            اگر حاجی بابا نے اِس کام میں دلچسپی لی تو ہمارا یہ کام ہو جائے گا۔ کلّو بابا نے کہا۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہاں یہ سب تو درست ہے لیکن پہلے ہمیں پریم کی ماں کو سیٹھ گو وندداس کی قید سے آزاد کرانا ہے ورنہ وہ بے چاری اُس کے ظلم کی شدت سے مر جائے گی۔

            کلّو بابا نے کہا ’’اُس کی ایک ترکیب ہے میرے دماغ میں ؟

            سادھو مہاراج نے کہا ’’وہ کیا؟

            کلّو بابا نے کہا ’’ہم کسی مقام سے فون کر کے سیٹھ گو ونداس کو یہ کہیں کہ وہ لڑ کا جس نے تمھارے بھتیجے اور بھائی کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے ہمارے قبضے میں ہے اُسے لینے کے لئے رقم لے کر فلاں مقام پر آ جاؤ۔ وہ اُسے لینے کے لئے آئے گا اور اِس دوران ہم کسی طرح پریم کی ماں کو اُس کے چنگل سے آزاد کرا لیں گے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہمیں یہ فون اُس کے گمشدہ ڈرائیور کی جانب سے کرنا ہو گا اور کسی ایسی دور دراز جگہ پر بلانا ہو گا کہ اُسے آنے جانے میں تین چار گھنٹے لگ جائیں۔ ‘‘

            کلّو بابا نے کہا ’’ٹھیک ہے تو آج رات اس کام کو انجام دے دیتے ہیں اس کے لئے ہمیں ایمبولنس کی ضرورت پڑے گی یہ کام ہم ڈاکٹر رابرٹ کے ذریعہ سے لیں گے اور انھیں کے اسپتال میں پریم کی ماں کو رکھوا دیں گے۔ ‘‘

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہمیں اُس کے ڈرائیور یا سیٹھ گو وندداس کے اُس آدمی کا نام معلوم ہونا چاہیئے جس کے ساتھ اُس نے عدنان کو گاڑی میں بیٹھا کر روانہ کیا تھا۔

            کلّو بابا نے کہا مجھے اُس کا نام اور ڈرائیور کا نام بھی معلوم ہے۔ ساتھ ہی سیٹھ گو ونداس کے بنگلے کے ایک ایک کمرے کی مجھے معلومات ہے آپ بالکل فکر نہ کریں ہم پریم کی ماں کو آزاد کرالیں گے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر کلّو بابا وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ وہ وہاں سے ڈاکٹر رابرٹ کے اسپتال میں پہنچے اور انھوں نے اُنھیں ساری بات بتانے کے بعد کہا ’’رات ۹ بجے ایمبولینس تیار رکھنا دو آدمی بھی ساتھ ہونا چاہئے

            ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ نے کہا انسانوں کی بھلائی کے لئے ہم ہمیشہ تیار رہنا ہی ہمارا مشن ہے۔

            رات میں ۹ بجے کلّو بابا نے ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ سے ٹیلی فون پر رومال رکھ کر سیٹھ گو ونداس کو خبر دی ’’ممبئی روڈ پر ۱۲۰ کلو میٹر کے پتھر کے پاس ایک دھابے پر آپ کا ڈرائیور ببلو، ساتھ میں جانے والا خاص خادم چرنداس اور مِلا ہوا لڑ کا موجود ہیں آج رات وہ ممبئی جا رہے ہیں اگر انھیں پکڑ نا ہے تو آپ فوراً وہاں پہنچ جائیں۔

            سیٹھ گو ونداس نے پوچھا تم کون ہو۔ اور اس سلسلے میں تمھیں کیا معلومات ہیں ؟

            ادھر سے کلّو بابا نے کہا ’’میں ببلو کا دشمن ہوں میرے ساتھ غدّاری کر کے اُس نے مجھے بہت نقصان پہنچایا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ بھی اُس نے جو غدّاری کی ہے اُس کی سزا اُسے ملے۔ اتنا کہہ کر انھوں نے فون رکھ دیا۔

            ڈاکٹر رابرٹ کی ایمبولینس بنگلے کے قریب ایک جگہ اندھیرے میں کھڑی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بنگلے سے ایک ماروتی اسٹیم اور ایک جیپ گاڑی تیزی سے نکل کر ایک سمت روانہ ہو گئی۔ بس اُسی وقت ایمبولینس گاڑی بنگلے کے دروازے پر پہنچ گئی وہ چار لوگ تھے۔ جس میں آکاش بھی شامل تھا انھوں نے گھر کے نوکروں سے کہا ’’میڈم کو فوراً سیٹی ہاسپٹل لے جانا ہے ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتے انھوں نے پریم کی ماں کو ایک اسٹریچر پر ڈالا اور تیزی سے اُسے لے کر ایمبولینس میں ڈال دیا اور گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں ان کی گاڑی ڈاکٹر رابرٹ کے ہاسپٹل میں تھی۔ انھوں نے فوراً ایک الگ بنے ہوئے کمرے میں پریم کی ماں کو پہنچا دیا۔ ان کی حالت بے حد خراب تھی لگاتار بجلی کے جھٹکوں کی وجہ سے جسم کا رنگ کالا پڑ گیا تھا۔ جگہ جگہ سے جلد ڈھیلی پڑ گئی تھی، پورے بدن کی رگیں نمایاں ہو گئیں تھیں۔

            ڈاکٹر رابرٹ نے فوراً انھیں گلوکوز کی باٹل چڑھا دی اور ایک نرس کی ڈیوٹی لگا کر وہاں سے چلے گئے اپنے کمرے میں آئے تو کلّو بابا وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر رابرٹ نے کہا سارے کام اچھی طرح ہو گئے۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے ہم پریم کی ماں کو ٹھیک کر لیں گے۔

            کلّو بابا نے کہا ’’اچھا فادر ہم چلتے ہیں۔ آپ بھی آرام کرو۔

            ٹھیک ہے بابا۔ جائیے آپ بھی آرام کیجئے ‘‘ کلّو بابا اور آکاش وہاں سے نکلے تو پہلے درگاہ میں پہنچے۔ درگاہ میں دونوں نے کھانا کھایا اور پھر آکاش وہاں سے چلا آیا۔ اُس نے سادھومہاراج عدنان اور پریم کو پریم کی ماں کی رہائی کی پوری داستان سنا دی۔

            پریم کو یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اب اُس کی ماں خطرے سے باہر ہیں۔

            دوسرے دن صبح کلّو بابا مندر میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ آکاش مندر کی صفائی کا کام کر رہا تھا پریم اور عدنان مندر کے ماربل کے فرش پر پوچھا لگا رہے تھے۔ سادھو مہاراج اشنان کر کے آئے تھے اور دھُلی ہوئی دھوتی رسّی پر پھیلا رہے تھے۔ ان کی سفید اور لمبی داڑھی پر پانی کے قطرے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے سر کے سفید اور لمبے بال کاندھے پر لہرا رہے تھے اور نہا کر آنے کی وجہ سے ان کا گورا گورا چہرہ اور بھی سفید اور سرخ ہو گیا تھا جسم پر کے سفید بال چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے سادھو مہاراج کو دیکھ کر کلّو بابا نے آداب کیا اور ان کا اشارہ پا کر اندر بچھی چٹائی پر براجمان ہو گئے۔

            تھوڑی دیر بعد سادھو مہاراج اپنے سارے کاموں سے فراغت پا کر اندر آئے بالوں میں کنگھی کی اور چٹائی پر کلّو بابا کے پاس ہی بیٹھ گئے۔

            کلّو بابا نے سادھو مہاراج سے کہا ’’مہاراج یہ مسلمان لڑکے سے مندر کے فرش کی صفائی کا کام لے کر کیوں اُس کا دھرم نشٹ کر رہے ہیں آپ؟

            کلّو بابا کی یہ بات سن کر وہ مسکرا دیئے اور کہا ’’میں نے اُسے لاکھ منع کیا کہ تو یہ کام مت کر لیکن وہ مانتا ہی نہیں کہتا ہے جیسے مسجدخدا کا گھر ہے ویسے ہی مندر بھی بھگوان کا گھر ہے اگر ہمیں مسجد کی صفائی کرنے سے ثواب مل سکتا ہے تو مندر میں صفائی کرنے سے ثواب کیوں نہیں ملے گا میں ایک مسلمان لڑ کا ہوں پھر بھی آپ مجھے اپنے بیٹے کی طرح چاہتے ہیں تو میں یہ کام کیوں نہ کروں اُس کی اس دلیل اور ضد سے میں بھی مجبور ہوں بھگوان قسم میں اِن بچوں سے کوئی کام لینا ہی نہیں چاہتا لیکن ان کی ضد کے آگے میری ایک نہیں چلتی۔

            ’’میں جانتا ہوں مہاراج آپ کا مزاج ہی ایسا نہیں ہے میں نے تو مذاق میں یہ بات کہہ دی تھی۔ اب ہماری درگاہ میں بھی کرشنا ہے جو پوری درگاہ کی اطراف و جوانب کی صفائی کا کام کرتا ہے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’مذہب تو سچائی اور حق کو پانے کا راستہ ہے اور یہ راستہ مسجد سے ہو کر جاتا ہے۔ مندر سے ہو کر جاتا ہے کلیسا اور گرودوارے سے بھی ہو کر جاتا ہے۔ انسان کی روح جس عقیدت سے شاد ہو جائے ضمیر جس سے مطمئن ہو جائے سمجھ لو بس وہی سچا دین ہے۔ میں تو اِس عقیدے کا قائل ہوں۔

            کلّو بابا نے کہا ’’ہاں آپ نے درست فرمایا ہمارے ولیوں اور صوفیوں نے بھی یہی پیغام دیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ اولیاءا کرام کی مزاروں پر ہر مذہب اور ہر سماج کے لوگ آتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

            اچھا بابا جی اب پریم اور عدنان کے سلسلے میں ہمیں آگے کیا کرنا ہے کیونکہ سیٹھ گو وندداس کے گھر سے پریم کی ماں کو اُٹھا لئے جانے سے سیٹھ گو وندداس بوکھلا گیا ہو گا اور اِس بوکھلاہٹ میں وہ کچھ بھی کام کر سکتا ہے۔ ہمیں یہ قصہ جلد ختم کرنا ہے۔

            بس اب اِن تینوں لڑکوں کو حاجی بابا، بمبیّا پہلوان کے پاس ناگپور بھیج دیتے ہیں۔ وہ خود ان کی مشکل آسان کر دیں گے میں بھی ان کے ساتھ جاتا لیکن اگلے مہینے عرس ہے ساری تیاری مجھے کرنی ہے میرا یہاں رہنا بے حد ضروری ہے۔

            ٹھیک ہے تو تم ایک خط حاجی بابا کے نام سے لکھ دو باقی باتیں یہ لڑکے انھیں سمجھا دیں گے۔

            کلّو بابا نے کہا ’’ٹھیک ہے۔

            اُسی وقت کلّو بابا نے حاجی بمبیّا پہلوان کے نام ایک خط لکھا جس میں ٹرین میں قتل کرنے والوں کا پتہ لگانے اور مظلوم کو انصاف دلانے کی بات کافی تفصیل سے لکھی تھی۔ خط مکمل ہو جانے کے بعدسادھو مہاراج نے لڑکوں کو آواز دی وہ تینوں ادب سے وہاں آ کر بیٹھ گئے۔ تب کلّو بابا نے آکاش کو مخاطب کر کے کہا ’’آکاش تو ناگپور کے حاجی بابا بمبیّا پہلوان کو پہچانتا ہے نا۔

            آکاش نے کہا ’’ہاں کیوں نہیں کتنی ہی بار میں نے ان کی خدمت کی ہے اور انھوں نے ہر طرح سے میری مدد کی ہے۔

            حاجی بابا، بمبیّا پہلوان کا نام سن کر عدنان چونک گیا۔ اُس نے کہا ’’وہ تو میرے بڑے ابّا ہوتے ہیں۔ میرے والد فرصت کے وقت اکثر جا کر بکرا منڈی کی درگاہ میں بیٹھ جاتے ہیں میں اکثر ان سے وہاں جا کر ملتا ہوں میرے ابّو نہیں ملتے تو بڑے ابّا سے ہی پتہ پوچھتا ہوں وہ مجھے روپیہ دو روپیہ دیتے ہیں سبھی بچوں کو پیسے دیتے ہیں۔

            تب تو ٹھیک ہے۔ تم تینوں میری چٹھی لے کر ناگپور چلے جاؤ اور بکرا منڈی کی درگاہ میں حاجی باباسے ملاقات کرو چٹھی دینے کے بعد باقی باتیں تم تینوں اُنھیں تفصیل سے بتا دینا ان کے ذریعہ سے ہمیں قاتل کا پتہ چل جائے گا اور ہو سکتا ہے بزرگانِ دین کے وسیلے سے مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائیں اور پریم کو اُس کا حق حاصل ہو جائے۔

            آکاش نے کہا ’’ٹھیک ہے اب اس معاملے میں دیر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے آپ لوگ اجازت دیں تو ہم آج ہی نکل جاتے ہیں رات تک ناگپور پہنچ جائیں گے۔

            سادھو مہاراج نے کہا ’’ہاں ان اس معاملے کو جلد ختم کرنا ضروری ہے تم لوگ آج ہی ناگپور کے لئے روانہ ہو جاؤ۔

            عدنان ، پریم اور آکاش نے اپنی ضرورتوں کا سامان لیا اور کلّو بابا کا لکھا ہوا خط اپنے پاس رکھ لیا اور اُسی وقت تینوں وہاں سے روانہ ہو گئے بس کے ذریعے سے منماڑ ریلوے اسٹیشن پہنچے اور وہاں سے ناگپور کے لئے ٹرین پکڑی اور شام سات بجے وہ ناگپور پہنچ گئے۔ عدنان کو ناگپور ریلو اسٹیشن اور شہر کی مکمل معلومات تھی لہٰذا اُس کی رہنمائی میں وہ لوگ آگے بڑھے۔ ریلوے اسٹیشن کے مشرقی دروازے سے جب وہ باہر نکلے تو سامنے ہی سنترہ مارکیٹ تھا اور سڑ ک کے کنارے درجنوں دوکانیں سنتروں سے بھری ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ چھوٹے بڑے ہرے پیلے خوش رنگ، خوشبودار سنترے بڑے بڑے ٹوکروں میں سجا کر رکھے ہوئے تھے۔ ایسے بڑے اور دلکش سنترے آکاش نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انھیں دوکانوں کے درمیان میں کچھ کھانے کی دوکانیں اور چائے ناشتے کی ہوٹلیں بھی تھیں۔ ٹرین میں وہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھا پائے تھے انھیں بھوک کا احساس ہوا ایک ہوٹل میں انھوں نے ناشتہ کیا اور ایک جگہ سے بڑے بڑے سنترے لے کر کھائے اور پھر عدنان کی رہنمائی میں پیدل ہی چل پڑے۔ دس منٹ میں ہی وہ بکرا منڈی میں حضرت بابا سید شہاب الدینؒ کی درگاہ کے قریب پہنچ گئے انھوں نے دیکھا کہ درگاہ کے سامنے میدان میں جگہ جگہ بکریوں کے جھنڈ بندھے ہوئے تھے ایک طرف ٹِن کے کئی شیڈ بنے ہوئے تھے اور سامنے کی جانب ایک بڑی سی عمارت تھی جو بکریوں کو ذبح کرنے کا کمیلہ تھا۔ اُسی جگہ سے لگ کر مشرقی سمت میں حضرت بابا سید شہاب الدینؒ کا مقبرہ تھا۔ مقبرہ پر سبز اور سفید رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا اور گنبد کے گرد چاروں طرف مینار بنے ہوئے تھے۔ سامنے ایک حوض بنا ہوا تھا اور حوض کے پاس لکڑی سے بنی ہوئی کابک تھی جن سے کبوتروں کے شور کی آواز آ رہی تھی۔ بالکل سامنے کی طرف ایک کھلا ہوا آنگن تھا اور اُسی سے لگ کر دروازہ تھا جہاں سے حضرت کی آخری آرام گاہ صاف نظر آتی تھی پھر اُس کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ تھا۔ اُس دروازے سے اندر داخل ہوئے تو حاجی بابا، بمبیّیا پہلوان کا حجرہ تھا۔

            جب یہ لوگ درگاہ کے آنگن میں پہنچے تو رات کا وقت تھا سامنے شطرنجیاں بچھی ہوئی تھیں اور اُن شطرنجیوں پر بہت سے نوجوان اور بزر گ بیٹھے ہوئے تھے چلم کا دور چل رہا تھا کثیف دھوئیں کی کھٹی باس کو انھوں نے محسوس کیا عدنان نے آگے بڑھ کر بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کیا اور کہا ’’بڑے ابّا کہاں ہیں ؟

            ایک نوجوان نے کہا ’’کیوں کیا کام ہے ؟ کون ہو تم لوگ؟ کہاں سے آئے ہو؟

            عدنان نے کہا ’’ہم لوگ نا سک سے آئے ہیں کلّو بابا کی چٹھی حاجی بابا کو دینا ہے۔

            اُس نوجوان نے کہا ’’اچھا ٹھیک ہے آؤ میرے ساتھ۔

            تینوں لڑکوں نے لوہے کے دروازے کے پاس بنے زینے کے قریب اپنی چپلیں اتار دیں اور اُس نوجوان کے پیچھے چلتے ہوئے حجرے میں داخل ہوئے اندر انھوں نے دیکھا ایک تکیہ کے سہارے حاجی بابا بیٹھے ہوئے تھے ان کی آنکھیں بند تھیں وہ کسی خیال میں گُم تھے ایک آدمی سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ نوجوان نے کہا باوا! یہ لڑکے نا سک سے آئے ہیں۔ کلّو بابا نے انھیں بھیجا ہے۔

حاجی بابا نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور لڑکوں کی طرف دیکھ کر کہا ’’ارے وہاں کیوں کھڑے ہو آؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔

            تینوں لڑکے سامنے بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ پھر آکاش نے اپنی جیب سے چٹھی نکالی اور حاجی بابا کے ہاتھ میں دے دی۔

            اُسی وقت انھوں نے چٹھی پڑھی اور غور سے اُن لڑکوں کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر عدنان کی طرف غور سے دیکھ کر انھوں نے اس سے کہا ’’تو عرفان کا لڑ کا ہے نا؟

            ہاں بڑے ابّا۔ میں ہی ہوں۔

            تو کہاں بھاگ گیا تھا اپنے باپ کو زخمی کر کے کہاں چلا گیا تھا تو؟

            عدنان نے کہا ’’میں ہی تو ہوں جس نے دونوں کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا یہ اُسی دن کی بات ہے جس دن میں گھر سے بھاگا تھا۔ ٹرین میں سوار ہوا اور وہ حادثہ ہوا۔

            تو پہچانتا ہے ان کو جنھوں نے چاقو مارا تھا۔ ‘‘

            پہچانتا تو نہیں۔ لیکن مجھے ان کی شکلیں اچھے سے یاد ہے پورا حلیہ میں بیان کرسکتا ہوں۔

            ٹھیک ہے۔ بتا ان کی شکلیں کیسی تھیں۔

            عدنان نے کہا ’’بڑے ابّا۔ ایک تو ٹھگنا سا کالا آدمی تھا۔ اُس کے بال حبشیوں کی طرح گھنگھریالے تھے۔ لال لال اُس کی آنکھیں تھیں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس بس۔ ٹھیک ہے۔ سمجھ گیا۔ اور دوسرا۔

            دوسرے کا رنگ گورا تھا۔ کافی اونچا تھا اس کا لمبا چہرہ تھا اور اُس کی ناک کافی لمبی تھی اور سیدھے گال پر گہرے زخم کا نشان تھا۔

            بس بس۔ ٹھیک ہے میں سمجھ گیا کون ہیں۔ اچھا تم لوگوں نے کھانا کھایا کہ نہیں ؟

            آکاش نے کہا ’’کھانا تو نہیں کھائے ہیں ہوٹل میں جا کر کھالیں گے۔

            لڑ کے۔ حاجی بابا نے کہا ’’یہاں آ کر تم لوگ ہوٹل میں کھانا کھاؤ گے تو کلّو بابا اور مہاراج مجھے اپنے قریب بیٹھنے بھی نہیں دیں گے تو آکاش ہے نا سادھو مہاراج کے مندر کا خادم۔

            جی ہاں حاجی بابا۔ آپ نے ٹھیک پہچانا۔ میں آکاش ہی ہوں۔

            ٹھیک ہے تم لوگوں کے کھانے اور ٹھہرنے کا انتظام کر دیتا ہوں پھر کل صبح دیکھیں گے۔ کیا ہو سکتا ہے۔ اُسی وقت انھوں نے اُس نوجوان کو مخاطب کر کے کہا ’’ارے دستگیر دیکھ یہ اپنے مہمان ہیں بہت دور سے آئے ہیں ان کے کھانے اور ٹھہرنے کا انتظام کر دے۔ اوپر کمرے میں ان کو لے جا اور کھانا کھلا کر وہیں ان کے سونے کا بندوبست کر دینا۔

            جی ہاں حاجی باوا۔ آپ فکر مت کرو میں ان کا انتظام کر دیتا ہوں۔ پھر اُس نوجوان نے لڑکوں سے کہا ’’آؤ میرے ساتھ۔

            حاجی بابا کو سلام کر کے وہ اُس حجرے سے نکلے آنگن میں آئے اور وہیں مغربی سمت میں بنی ہوئی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے اور ایک ہال میں پہنچ گئے۔ یہاں پورے ہال میں ایک بڑی سی شطرنجی بچھی ہوئی تھی اور شمالی سمت کی دیوار پر حاجی بابا کی بڑی سی تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ نوجوان نے انھیں وہاں بٹھا دیا پھر سیڑھی پر کھڑے ہو کر آواز دی، اے رفیق ذرا اوپر آنا۔ ایک لڑ کا تیزی سے دوڑ تا ہوا اوپر آگیا دستگیر نے اُس سے کہا ’’دیکھ یہ حاجی باوا کے مہمان ہیں ان کے کھانے کا انتظام کرنا ہے تو میری ہوٹل میں چلے جا اور وہاں سے روٹی سالن بریانی، کچھ سادہ کھانا اور سبزی لے کر آ جا۔ جا جلدی کر۔

            وہ لڑ کا وہاں سے چلا گیا اور آدھے گھنٹے میں کھانا لے کر وہاں آگیا۔ تینوں لڑکوں نے کھانا کھایا اور پھر تھوڑی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور وہیں شطرنجیوں پر سو گئے۔

            سویرے جب سو کر اُٹھے تو گیلری سے انھوں نے دیکھا کہ سامنے کا پورا میدان بکریوں سے بھرا ہوا تھا۔ بیوپاری بکریوں کو دیکھ رہے تھے مول بھاؤ کر رہے تھے۔ خرید رہے تھے۔ بازو میں کمیلے سے کٹے ہوئے گوشت کو ٹھیلوں اور رکشوں سے لے جایا جا رہا تھا۔

            وہ نیچے آئے انھوں نے منھ ہاتھ دھویا اور قریب میں بنی ہوئی ہوٹل میں جا کر ناشتہ کیا اور پھر سے واپس اُسی ہال میں آ گئے جہاں انھوں نے رات گزاری تھی۔

            صبح نو بجے انھوں نے حاجی بابا سے ملاقات کی تو حاجی بابا نے اُن سے کہا جن دو لوگوں کو اس لڑکے نے ٹرین میں قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا ان میں سے ایک گھنگھریالے بال والا تو یہاں نہیں ہے کسی ضروری کام سے بمبئی گیا ہوا ہے اور اس کے جلد آنے کی امید بھی نہیں ہے لیکن دوسرا، حمید جس کا نام ہے وہ ابھی شہر میں ہی ہے ، تاج آباد میں اُس کا رہنا ہے میں اُسے یہیں بلوا لیتا ہوں۔ بات ہو جائے گی وہ ذرا ان دنوں پریشانی میں ہے اس کی لڑ کی کو دل کی بیماری ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر آپریشن کی بات کر رہے ہیں آپریشن میں لمبا خرچ ہے میں بلا کر اُس سے بات کروں گا۔

            آکاش نے کہا ’’حاجی بابا ہم ناگپور آئے ہیں تو حضرت بابا تاج الدینؒ کا دربار دیکھے بنا ناگپور سے نہیں جائیں گے۔ ہمیں وہاں جانے کی اجازت دو!

            ٹھیک ہے تمھیں وہاں بھجوا دیتا ہوں اور حمید کو بھی خبر دے دیتا ہوں دونوں کام ایک ساتھ ہو جائیں گے ‘‘ اتنا کہہ انھوں نے رفیق کو آواز دی وہ آ کر ان کے سامنے ادب سے کھڑا ہو گیا تو انھوں نے کہا ’’جا ایک آٹو رکشہ سے ان لڑکوں کو تاج آباد گھما کر لے آ اور حمید ڈنگر کو میرا نام بتانا کہنا کہ باوا نے بلائے ہیں۔ سمجھ گیا نا۔

            جی ہاں حاجی بابا۔ سمجھ گیا۔

            انھوں نے سو روپئے کا ایک نوٹ نکال کر رفیق کو دیا رفیق تینوں لڑکوں کو لے کر مومن پورہ چوک پر آیا۔ وہاں سے آٹو رکشہ کر کے وہ تاج آباد پہنچے۔ حضرت بابا سید تاج الدینؒ کے دربار سے تھوڑے فاصلے پر وہ آٹو رکشہ سے اتر گئے رفیق کی رہنمائی میں وہ دربار کی طرف بڑھنے لگے ، دربار سے لگ کر مسجد بنی ہوئی تھی مسجد میں وضو بنانے کا حوض بنا ہوا ہے سب نے اُس حوض سے وضو بنایا سروں پر رومال باندھے راستے میں شیرنی پھول اور چادر لے لی یہ نذرانہ لے کر دربار کی طرف چلے ، صبح کا وقت تھا عقیدت مندوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ جس راستے سے گزرتے تھے پیچھے پیچھے مانگنے والے بھی چلے آتے تھے ان سے پیچھا چھڑاتے ہوئے وہ دربار میں پہنچے آکاش اور پریم تو دربار میں بنے ہوئے رنگین کانچ کے خوبصورت کام کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ ایک ایک چیز اتنے سلیقے سے اور خوبصورتی سے بنی ہوئی تھی کہ نظریں وہاں سے ہٹتی نہیں تھیں ، پھر وہ مزارِ اقدس کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں مجاور موجود تھے اپنے ہاتھوں کی شیرنی پھول اور چادر انھوں نے مجاور کے ہاتھ میں دے دی اُس نے اُنھیں ایک طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پھر ان کی چادر اور پھولوں کو مزارِاقدس پر ڈال دیا ان لڑکوں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیئے۔ آکاش نے مزارِاقدس کے اوپر گنبد کے اندرونی حصے میں دیکھا وہاں بھی ویسا ہی خوبصورت رنگین کانچ کا کام کیا ہوا تھا۔ ایک عجیب طرح کا سکون عجیب طرح کی روحانی خوشی اُسے اُس دربار میں محسوس ہوئی۔ دعا کے ختم ہونے پر انھوں نے تبرک کی شیرنی اور پھول لئے اور وہاں سے نکل کر دربار کے دروازے سے باہر نکلے سامنے آ کر چکنے ماربل کے ٹھنڈے اور خوبصورت فرش پر بیٹھ گئے۔ مزارِاقدس کے چاروں طرف احاطے میں پچاسوں لوگ مرد و عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کچھ تو مقامی تھے لیکن زیادہ تر غیر مقامی لوگ تھے جو اپنی منّتیں پوری ہونے کی درخواست لے کر حضرت بابا کے دربار میں آئے تھے انھوں نے دیکھا کہ لوگ جوق در جوق چلے آ رہے ہیں نذرانے پیش کر رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ ابھی انھیں وہاں بیٹھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ دربار کے سامنے ایک اونچا پورا تندرست آدمی فرش پر زور زور سے اپنا سر پٹکنے لگا اور چلّا چلّا کر کہنے لگا ، بابا میری بچی کو بچا لو، اگر میری بچّی نہیں بچی تو میں اپنا سر پٹک پٹک کر یہاں جان دے دوں گا۔ وہ شخص اتنے جوش اور اتنے جنون میں تھا کہ لوگ اس کی طرف دوڑ پرے بڑی مشکل سے لوگوں نے اُسے سنبھالا۔ عدنان نے اُس شخص کو دیکھا تو پہچان لیا یہ وہی شخص تھا جس نے پریم کے والد کو ٹرین کے اندر چاقو مارا تھا انھیں اُٹھا کر ندی میں پھینک دیا تھا۔ عدنان نے رفیق کو اشارہ کیا تو اُس نے کہا ’’ہاں مجھے معلوم ہے تم کچھ نہیں کہنا۔ میں بات کروں گا۔

            کافی دیر کے بعد وہ شخص جب سکون کی حالت میں آیا تو رفیق اُس کے قریب گیا اُسے سلام کیا اور کہا ’’آؤ حمید بھائی آؤ میرے ساتھ اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے کر باہر آیا ایک ہوٹل میں بیٹھ کر پہلے تو اُس نے اُس کا منھ اچھی طرح سے دھلایا پھر اُس نے کہا ’’حاجی بابا نے تم کو یاد کیا ہے بہت ضروری کام ہے۔

            اُس نے کہا ’’ابھی میں کہیں جا نہیں سکتا میری بیٹی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اس کے آپریشن کے لئے مجھے پیسے چاہیئے۔ مجھے ڈیڑھ لاکھ روپئے چاہیئے جب تک پیسوں کا کچھ انتظام نہیں ہو گا میں تاج والے کا دربار چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔

            تم حاجی بابا سے مل لو، ہو سکتا ہے ان کے ذریعے سے پیسوں کا انتظام ہو جائے یہ دیکھو کہ آج تم دربار میں آئے اور آج ہی اُسی وقت ہم بھی حاجی باوا کے حکم سے یہاں پہنچے اس میں اﷲ تعالیٰ کی کچھ مصلحت ہے مجھے لگتا ہے تاج والے نے تمھاری سن لی ہے اور تمھارے لئے پیسوں کا انتظام ہو گیا ہے۔

            رفیق کی ان باتوں کا اُس پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اُس نے رفیق سے کہا کہ مجھے فوراً حاجی بابا کے پاس لے چلو۔ ابھی اسی وقت !

            وہ لوگ وہاں سے اُٹھ کر باہر آئے اُسی وقت آٹو سے وہ مومن پورہ پہنچے اور مومن پورہ سے پیدل چلتے ہوئے حضرت بابا سید شہاب الدینؒ کے آستانے پر پہنچ گئے۔ حمید ڈنگر نے پہلے تو حضرت بابا شہاب الدینؒ کی مزار پر حاضری دی اور پھر بازو کے حجرے میں حاجی باوا کے پاس آ کر چٹائی پر بیٹھ گیا اور حاجی باوا کے ہاتھوں کو عقیدت سے بوسہ دیا، پھر کہا حاجی باوا بتائیے میرے لئے کیا حکم ہے ؟

            تو نے پیسوں کے لئے ایک بے گناہ کو مار ڈالا۔ آج تیری بچی زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اُسے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تو اپنے گناہ کا اعتراف کر لے۔ ‘‘

            حاجی باوا۔ اگر میرے اعتراف کرنے سے میری بچی بچ جائے تو میں اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کو تیار ہوں میں خود اپنے ہاتھ سے پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈال لوں گابس میری بچی بچ جائے۔ حاجی باوا نے کہا ’’تیری بچی بچ جائے گی۔ اُسے کچھ نہیں ہو گا۔ میں کہتا ہوں وہ ٹھیک ہو جائے گی میری بات پر یقین ہے کہ نہیں ؟

            حاجی باوا مجھے تمہاری بات پر پکا یقین ہے لیکن بغیر آپریشن کے وہ اچھی نہیں ہو سکتی اور بنا ڈیڑھ لاکھ روپیوں کے آپریشن نہیں ہو سکتا۔ ’’میں کیا کروں میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔

            تو اپنے گناہ کا اعتراف کر لے پیسوں کا انتظام ہو جائے گا۔ میں کہتا ہوں ہو جائے گا اتنا کہہ کر اچانک حاجی باوا نے عدنان کی طرف رُخ کیا اور کہا ’’کیا بولتا ہے تو پیسوں کا انتظام ہو گا کہ نہیں ؟

            حاجی باوا کے اس سوال پر عدنان بوکھلا گیا اور پھر اعتماد بھرے لہجے میں کہا ’’ہو جائے گا بڑے ابّا بالکل ہو جائے گا کل ہی ہو جائے گا بس ان کے اعتراف کرنے کی دیر ہے۔

            حمید ڈنگر نے یہ سنا تو کہا ’’چلو میں نے اعتراف کیا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ سیٹھ گو ونداس کے کہنے سے ہی میں نے ریل گاڑی میں اُن کے بڑے بھائی سیٹھ ارونداس کا خون کیا تھا اور ان کی لاش وردھا ندی میں پھینک دی تھی میں یہ بات لکھ کر بھی دینے کو تیار ہوں۔ اب بتاؤ میرے پیسے کہاں ہیں ؟

            حاجی باوا نے کہا ’’پیسے تجھے کل شام تک مل جائیں گے جا تو ڈاکٹر سے جا کر بات کر لے اُسے اسپتال میں بھرتی کرا دے ‘‘۔

            ٹھیک ہے باوا میں چلتا ہوں میری بچی کا آپریشن ہو جائے گا تو آپ جہاں کہیں گے میں وہاں اپنے گناہ کا اعتراف کر لوں گا اچھا میں چلتا ہوں ۔

            اتنا کہہ کر حمید ڈنگر وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ حاجی باوا نے عدنان سے کہا ’’اب سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے۔

            عدنان نے کہا بڑے ابّا میں ایک گاڑی کر کے آکاش اور پریم کو لے کر چلا جاتا ہوں اور کل شام تک واپس آ جاؤں گا۔ شائد وہ پیسے خدا نے مجھ سے اِسی کام کے لئے الگ رکھوائے تھے۔

            آکاش اور پریم کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی تب عدنان نے سوٹ کیس میں سے رقم نکال کر زمین میں گاڑ دینے کی بات اُنھیں تفصیل سے بتا دی۔ اِس بات کا علم ہوتے ہی انھوں نے عدنان سے کہا تم فوراً ہمارے ساتھ چلو اور ڈیڑھ لاکھ روپئے لا کر حمید بھائی کو دے دو۔ وہ چل کر تھانے میں اپنے جرم کا اور سیٹھ گو ونداس کی سازش کا خلاصہ پیش کریں گے اور پولس انھیں گرفتار کر لے گی۔

            اُسی وقت حاجی باوا نے نا سک آنے جانے کے لئے ایک بھروسے کے آدمی کی جیپ گاڑی کرائے سے طئے کرا دی اُس میں عدنان، پریم، آکاش، دستگیر اور رفیق کو بیٹھا کر روانہ کر دیا۔

            گاڑی پہلے نا سک پہنچی وہاں سے وہ سمتا پور کے لئے روانہ ہوئی سمتا پور کے بس اسٹاپ پر گاڑی رکوا کر عدنان نے آکاش اور پریم کو اپنے ساتھ لیا اور گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔ گاؤں کو پار کر کے نیم کے اُس درخت کے پاس پہنچا جہاں اُس نے پلاسٹک کی تھیلی میں لپیٹ کر رقم گاڑ دی تھی اُس کا رکھا ہوا پتھر جوں کا توں وہاں گڑا ہوا تھا۔ اُسے کھود کر اُس نے الگ کیا اور تھوڑا گڑھا کرنے کے بعد اُسے وہ پلاسٹک کی تھیلی مل گئی جس میں ہزار ہزار کے نوٹوں کی دو گڈیاں اور پانچ سو کے نوٹوں کی ایک گڈی موجود تھی۔ اُس نے وہ تھیلی پریم کے حوالے کر دی اور کہا ’’یہ لو یہ تمہاری امانت ہے جِسے میں نے لالچ میں آ کر چھپا دیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اس امانت میں خیانت نہ کرسکا اور یہ رقم آج تمھارا حق حاصل کرنے کے کام آ رہی ہے۔ خدا بڑا مُسبب الاسباب ہے۔ وہ اپنے بندوں سے جو چاہتا ہے وہ کام لے لیتا ہے۔

            پریم نے وہ تھیلی آکاش کو دے دی اور کہا ’’اب اِس رقم کی حفاظت کی ذمّہ داری آکاش کی ہے۔ اِس کا استعمال ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کریں گے۔

            آکاش نے تھیلی اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا ’’اب ہمیں فوراً ناگپور پہنچ کر یہ تھیلی حاجی باوا کے ہاتھ میں دے دینا چاہیئے۔ وہی ہمیں راستہ دکھائیں گے۔ سیدھا، سچّا اور صحیح راستہ دکھائیں گے۔

            اتنا کہہ کر آکاش اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں لڑکے بھی کھڑے ہو گئے۔ وہاں سے چلتے ہوئے وہ بس اسٹاپ پر آئے رفیق اور دستگیر بھائی جیپ گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ ہو ٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تینوں بھی ہوٹل میں گئے وہاں انھوں نے ناشتہ کیا اور گاڑی واپس ناگپور کے لئے چل پڑ ی۔

            دوسرے دن رات میں یہ لوگ ناگپور پہنچے۔ حمید ڈنگر حاجی باوا کے پاس ان کے حجرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ لوگ بھی سیدھے حاجی باوا کے حجرے میں گئے اور آکاش نے تھیلی حاجی باوا کے ہاتھ میں دے دی حاجی باوا نے اُس میں سے ڈیڑھ لاکھ روپئے نکال کر دستگیر کو دیئے اور اس سے کہا ’’حمید کے ساتھ جا کر ڈاکٹر کے پاس یہ رقم جمع کرا دے اور رسید لے کر آ جا۔ ‘‘

            دستگیر نے کہا ’’ٹھیک ہے حاجی باوا۔ پھراُس نے حمید ڈنگر کو ساتھ لیا اور وہاں سے نکل گیا۔ حاجی باوا نے جیپ گاڑی والے کا حساب صاف کر دیا اور تینوں لڑکوں کو مخاطب کر کے کہا ’’یہاں تک تو سارے کام ٹھیک طرح سے انجام پا گئے ہیں اب آخری کام رہ گیا ہے کہ حمید کولے کر نا سک جانا ہے وہاں پولس تھانے میں وہ خود کو پولس کے حوالے کر دے گا اور اپنے گناہ کا اعتراف کر کے سیٹھ گوندداس کے خلاف اپنا بیان لکھا دے گا۔ اُس کو چھڑانے اور سزا سے بچانے کے لئے ہم کیس لڑ یں گے اور کوشش کریں گے کہ اُسے کم سے کم سزا ہونے پائے۔

            آکاش نے کہا ’’حاجی باوا، اب جو بھی کرنا ہے آپ کو کرنا ہے ہم کو جو کرنا تھا وہ کام ہم نے کر دیا بس اِس معصوم بچے کا حق اِسے مل جائے اور اُس کی جان پر لہراتا ہوا موت کا خطرہ ٹل جائے یہی ہماری تمنّا ہے۔ عدنان نے جو رقم چھپائی تھی آج وہ ہمارے بے حد کام آ رہی ہے۔

            بیٹا۔ یہ سب کام اوپر سے ہوتا ہے۔ انسان تو ذریعہ بنتا ہے۔ ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس سے جو کام چاہتا ہے لیتا ہے ُاس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ ظالم کو اپنے ظلم کا حساب اسی دنیا میں دینا ہوتا ہے اور گوند سیٹھ کو بھی اپنے گناہوں کا حساب دینا ہو گا۔ اچھا اب تم لوگ جاؤ کھانا کھاؤ اور سو جاؤ۔ حاجی باوا کی بات سن کر وہ لوگ وہاں سے اُٹھ کر باہر چلے آئے۔ ہوٹل میں جا کر تینوں نے کھانا کھایا اور تھوڑی دیر اِدھر اُدھر گھوم پھِر کر درگاہ میں آئے اور اوپر ہال میں جا کر سو گئے۔ صبح میں اُٹھے ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر حاجی باوا کے حجرے میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ حمید ڈنگر وہاں موجود تھا، حاجی باوا نے لڑکوں کو دیکھ کر کہا اچھا ہوا تم لوگ آ گئے۔ ناشتہ کئے یا نہیں ؟

            جی ہاں حاجی باوا ہم ناشتہ کر چکے ہیں ۔

            آکاش نے کہا ’’ٹھیک ہے تو میں نے جیپ گاڑی والے کو بلا لیا ہے یہ حمید بھی یہاں موجود ہے تم اس کے ساتھ چلے جاؤ۔ مہاراج اور کلّو باوا جو کچھ طے کریں گے وہ کام کر لینا اﷲ نے چاہا تو سب اچھا ہی اچھا ہو گا۔ ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ جاؤ اﷲ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ اور ہاں اس تھیلی میں بچی ہوئی رقم ہے یہ رقم مہاراج کو دے دینا گاڑی والے کا کرایہ ادا کر دینا اور باقی پیسے اس کام کے سلسلے میں لگیں تو اِسی میں سے خرچ کریں۔ ویسے وہ خود سمجھدار ہیں تم یہ رقم اُن کے حوالے کر دینا۔ اس تھیلی میں سے پانچ ہزار روپئے میں نے نکال لئے ہیں یہ رقم میں حمید کے گھر بھجوا دونگا تاکہ گھرکا خرچ چلتا رہے۔ پھر عدنان کی طرف دیکھ کر کہا ’’تو بھی جا رہا ہے نا۔ ہاں تیرا جانا بھی ضروری ہے تو ہی تو دونوں کے قتل کا چشم دید گواہ ہے گھبرانا نہیں یہاں تیرے باپ کو میں سب سمجھا دوں گا۔ اچھا جاؤ، نکل جاؤ‘‘۔

            عدنان نے حاجی باوا کو سلام کیا آکاش اور پریم نے ان کے پیر چھوئے انھوں نے دونوں کے سروں پر دستِ شفقت پھیرا اور حمید ڈنگر کے ساتھ وہ باہر آئے۔ بکرا منڈی کے میدان میں بکریوں کی خرید و فروخت جاری تھی اُس مجمع کو پار کر کے وہ سڑ ک پر آئے سڑ ک پر جیپ گاڑی موجود تھی وہ چاروں اُس میں بیٹھ گئے اور جیپ گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔ رات میں آٹھ بجے کے قریب گاڑی نا سک پہنچ گئی پہلے انھوں نے کلّو بابا سے ملاقات کی اور حاجی باوا ، بمبیّا پہلوان سے ملاقات کی ساری تفصیل بتا دی ساتھ میں حمید ڈنگر کی بابت بھی انھوں نے ساری باتیں بتا دیں اُس رقم کے بارے میں بھی بتا دیا جو عدنان نے چھپا دی تھی اور ایک نہایت نیک کام میں استعمال میں آئی۔ کلّو بابا نے جیپ گاڑی والے کو درگاہ میں رُکنے کو کہا اور ان چاروں کو لے کر وہ نیچے مندر کی اُس کٹیا میں پہنچ گئے جو سادھو مہاراج کی آرام گاہ تھی سادھو مہاراج چٹائی پر بیٹھے ہوئے رامائن کا پاٹھ کر رہے تھے اُن لوگوں کو دیکھا تو رامائن بند کر دی اور اُسے کپڑے میں لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور پھر اُنھیں اپنے قریب بلایا۔

            کلّو بابا اور آکاش نے ناگپور کے واقعات کی تفصیل اُنھیں بتا دی ساری باتیں سن لینے کے بعد سب سے پہلے تو انھوں نے جیپ گاڑی والے کو اُس کا کرایہ آکاش کے ہاتھ سے بھجوا دیا اور پھر انھوں نے کہا ’’اب کل صبح ہم پولس تھانے میں چل کر ساری باتیں انسپکٹر کو بتا دیں گے۔ کلّو بابا حمید ڈنگر کو اپنے ساتھ لے کر درگاہ میں چلے گئے۔ عدنان اور پریم وہیں سادھو مہاراج کی کٹیا میں سو گئے۔ بعد میں آکاش بھی وہیں آگیا اور اپنی جگہ وہ بھی سو گیا۔

            سویرے اُٹھ کر سب لوگوں نے ناشتہ کیا اور اوپر درگاہ میں چلے گئے وہاں پہنچ کر انھوں نے فادر رابرٹ کو بھی بلوا لیا اور تھانے جانے کے لئے سب لوگ تیار ہو گئے۔ فادر رابرٹ نے کہا ’’انسپکٹر جگدیش سیٹھ گوندداس سے ملا ہوا ہے اس لئے میں فون کر کے پورے حالات پولس کمشنر کو بتا دیتا ہوں اور کمشنر کی موجودگی میں ہم حمید بھائی کو پولس کے سپرد کریں گے اور پولس کمشنر کے سامنے ہی ان کا بیان دلوا کر انھیں پولس کے حوالے کریں گے۔ پھر ہم کوشش کریں گے کہ جلد ہی ان کی ضمانت بھی ہو جائے۔

            اس تجویزسے سب نے اتفاق کیا اور اسپتال میں آ کر فادر رابرٹ نے پولس کمشنر کو ٹیلی فون کیا، کمشنر سے رابطہ قائم ہو جانے کے بعد فادر نے کمشنر سے کہا ’’کمشنر صاحب میں فادر رابرٹ اپنے اسپتال سے بول رہا ہوں۔ سیٹھ گوندداس کے بڑے بھائی اور ان کا لڑ کا پریم پچھلے بیس پچیس دنوں سے لاپتہ ہیں لیکن دراصل وہ لاپتہ نہیں ہیں بلکہ پراپرٹی پر قبضہ کرنے کے لئے سیٹھ گوندداس نے ان دونوں کا قتل کروا دیا ہے لیکن اتفاق سے ان کا بھتیجا بچ گیا ہے۔ وہ لڑ کا جس نے ٹرین میں قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا وہ بھی ہمیں مل گیا ہے اور جس آدمی نے پیسے لے کر سیٹھ اروندداس کا خون کیا ہے وہ بھی اس وقت ہمارے ساتھ ہے۔ انسپکٹر جگدیش سیٹھ گوندداس سے ملا ہوا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ یہ سارے بیانات اور گرفتاری کا کام آپ کی موجودگی میں ہو۔

            کمشنر نے کہا ’’فادر آپ تو قانون کی بہت بڑی مدد کر رہے ہیں میں اِس کام میں ہر طریقے سے آپ کا ساتھ دوں گا آپ ایسا کرو کہ سب لوگوں کو لے کر ٹھیک ۱۲ بجے پولس تھانے پہنچ جاؤ میں وہیں آپ کو ملوں گا اور سارے کام آپ کی منشا کے مطابق ہو جائیں گے۔

            ٹھیک ہے کمشنر صاحب۔ اتنا کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا۔

            فادر رابرٹ نے کمشنر سے اپنی بات کی تفصیل اُنھیں بتا دی اور کہا ’’ہمیں ساڑھے گیارہ بجے یہاں سے نکلنا ہے اور بارہ بجے تک پولس اسٹیشن میں پہنچ جانا ہے مجھے امید ہے کہ کمشنر صاحب کی موجودگی میں سارے کام ہماری مرضی اور منشا کے مطابق ہو جائیں گے۔ سیٹھ گوندداس فوراً گرفتار کر لیا جائے گا۔

            ساڑھے گیارہ بجے فادر رابرٹ نے کلّو بابا، سادھو مہاراج، حمید ڈنگر، آکاش، پریم اور عدنان کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ٹھیک ۱۲ بجے وہ پولس تھانے میں پہنچ گئے۔ کمشنر نے انسپکٹر جگدیش کو حالات سے آگاہ کر دیا تھا اس لئے جیسے ہی فادر رابرٹ کی گاڑی وہاں رُکی وہ تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ گاری ایک طرف کھڑی کر کے یہ تمام لوگ تھانے کے اندر پہنچے۔ انسپکٹر جگدیش اُن سب کو لے کر حوالات کے بازو بنے ہوئے ایک بڑے کمرے میں آیا جہاں چند کرسیاں اور ایک ٹیبل رکھا ہوا تھا۔ ایک طرف دیوار سے لگ کر ایک بڑا بینچ بھی رکھا ہوا تھا۔ اُس نے سب لوگوں کو غور سے دیکھا اور بیٹھنے کے لئے کہا‘‘ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو انسپکٹر جگدیش نے کہا ’’مجھے کمشنر صاحب کا فون آیا تھا کہ آپ لوگ کسی بہت ہی خاص کام سے یہاں آنے والے ہیں آپ لوگوں کا انتظار ہی کر رہا تھا اچھا ہوا آپ لوگ جلد آ گئے کمشنر صاحب بھی آتے ہی ہوں گے۔ آپ لوگ تشریف رکھیں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ جانا ہی چاہتا تھا کہ حمید ڈنگر نے انسپکٹر جگدیش کو مخاطب کر کے کہا ’’صاحب آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں حمید۔ حمید ڈنگر۔ تاج آباد ناگپور میں میرا مکان ہے ‘‘ اُس کا نام سن کر وہ رُک گیا اور غور سے اُسے دیکھنے لگا۔ پھر حمید ڈنگر نے کہا ’’آپ یہاں نا سک میں کب سے ہیں۔ میری آپ سے ناگپور کے شکر درہ پولس اسٹیشن میں ملاقات ہوئی تھی۔ حمید ڈنگر کی بات سن کر جیسے اُسے کچھ یاد آگیا ہو وہ اچانک حمید ڈنگر کی طرف آگے بڑھا اور کہا ’’ارے حمید بھائی تم یہاں۔ کیسے آنا ہوا تمھارا؟

            حمید نے کہا ’’سیٹھ گوندداس نے اپنے بھائی کو مارنے کی سپاری مجھے ہی دی تھی میں نے اور سمیر باؤلے نے دونوں باپ بیٹوں کو ریل کے ڈبے میں مار کر ندی میں پھینک دیا تھا۔ اتفاق سے یہ لڑ کا بچ گیا اور یہ دوسرا لڑ کا عدنان اِس نے ہمیں خون کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ حاجی باوا۔ بمبیّا پہلوان کے کہنے پر اوراپنی بیماربچی کی جان بچانے کے لئے میں اپنے گناہ کا اعتراف کرنے یہاں چلا آیا۔

            اوفو کیسی عجیب بات ہے۔ تم آج یہاں میرے پاس ہو اور میں نے تمھارا انکاؤنٹر کرنے کا سودا سیٹھ گوندداس سے کیا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے۔ میں تمھارا احسان کیسے بھول سکتا ہوں حمید بھائی۔ تمھارے چہرے پر لگے ہوئے زخم کا نشان مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اُس دن اگر تم نے اپنی جان پر کھیل کر شکیل چنگا اور اس کے ساتھیوں سے مجھے نہیں بچایا ہوتا تو آج میں زندہ نہیں ہوتا۔ آج بھی شکر درہ پولس تھانے کے اَجنی بازار کے اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو خوف سے لرز جاتا ہوں ، شکیل چنگا کے چاروں ساتھیوں سے تم نے اکیلے ہی مقابلہ کیا تھا اُن کے سارے ہتھیاروں کے وار کو تم نے خالی کر دیا۔ میں گاڑی لے کر گر  گیا تھا اُٹھ بھی نہیں سکتا تھا لیکن تمھارے لگاتار حملوں نے اُنھیں وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ لیکن جاتے جاتے اس کے ایک ساتھی نے چاقو سے تمھارے چہرے پر وار کیا تم زخمی ہو گئے خون بہنے لگا اور تم بے ہوش ہو گئے میں نے ہی تمھیں اسپتال میں بھرتی کرایا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی میرا تبادلہ نا سک ہو گیا تم سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ آج اِن حالات میں ملاقات ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے آج تمھارے احسان کا بدلہ اتارنے کا دن آگیا ہے۔

            کمرے میں موجود سارے لوگ حیرت سے اُن کی باتیں سن رہے تھے تبھی باہر کسی گاڑی کے رُکنے کی آواز آئی اور تھوڑی دیر میں پولس کمشنراُس کمرے میں آیا جہاں یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے لیکن وہ اکیلا نہیں تھا اُس کے ساتھ سیٹھ گوندداس بھی تھے۔ کمشنر کے ساتھ سیٹھ گوندداس کو دیکھ کر وہاں موجود سارے لوگ حیران رہ گئے۔ ابھی ان کی حیرانی کم بھی نہ ہوئی تھی کہ پولس کمشنر نے فادر رابرٹ سے کہا ’’فادر میں تمھیں اور تمھارے ان سارے ساتھیوں کو مرحوم سیٹھ اروندداس کی بیوی کو سیٹھ گوندداس کے گھر سے اغوا کرنے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔ ہم نے ابھی ابھی اُس عورت کو تمھارے اسپتال سے نکال کر مرون ہاسپٹل میں بھرتی کرا دیا ہے اُس کو زندہ چھوڑ نے کے لئے تم نے سیٹھ گوندداس سے پچاس لاکھ روپئے کی رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ سیٹھ گوندداس کا لکھا ہوا یہ بیان میرے پاس موجود ہے۔ انسپکٹر جگدیش لو اِسے سنبھال کے رکھو۔ ‘‘ یہ کہہ کر پولس کمشنر نے اپنے ہاتھ کا کاغذ انسپکٹر جگدیش کے حوالے کر دیا۔

فادر رابرٹ نے کہا ’’یہ بات بالکل غلط ہے۔ سیٹھ گوندداس نے سیٹھ اروندداس اور ان کے بیٹے کو ایک سازش کے تحت ٹرین میں قتل کروا دیا لیکن اتفاق سے اس لڑکے عدنان نے انھیں قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور یہ لڑ کا پریم خوش قسمتی سے مرنے سے بچ گیا۔ ہم نے قاتل حمید بھائی کو راضی کر لیا ہے۔ یہ بتائیں گے کہ کس طرح سیٹھ گوندداس نے اپنے بھائی اور بھتیجے کو قتل کرنے کا سودا کیا تھا۔ ‘‘جیسے ہی فادر رابرٹ کی بات ختم ہوئی سیٹھ گوندداس نے آگے بڑھ کر حمید ڈنگر کا گلا پکڑ لیا اس کے منھ پر ایک طمانچہ مارا اور کہا ’’میں نے تجھے اور تیرے ساتھی سمیر باؤلے کو دونوں کو ختم کر کے ندی میں پھینک دینے کے دو لاکھ روپئے دیئے تھے۔ تو نے وہ کام تو کیا لیکن اب تو مجھے ان کے ذریعے گرفتار کرانے کی سازش کر رہا ہے۔ میرے ساتھ غداری کر کے تو زندہ نہیں بچے گا۔ میں تجھے زندہ نہیں جانے دوں گا۔ یہ کہہ کر سیٹھ گوندداس نے حمید ڈنگر کے منھ پر ایک گھونسہ مارا وہ اُسے اور مارنا چاہتے تھے کہ حمید ڈنگر نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوری طرح سے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ انسپکٹر جگدیش نے آگے بڑھ کر حمید ڈنگر کی گرفت سے سیٹھ گوندداس کو آزاد کرایا اور کہا ’’سیٹھ جی آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ ہم ہیں نا۔ حوالات کا کمرہ کس دن کام آئے گا آپ اِسے چھوڑ دیجئے میں اسے سبق سیکھاؤ گا۔ سیٹھ گوندداس وہاں سے ہٹے تو پریم کی طرف جھپٹے اور کہا حرام کے پلّے۔ تیری ماں کو پراپرٹی میں سے آدھا حصہ چاہئے۔ کیا کِیا تھا تیرے باپ نے ! میں نے رات دن محنت کر کے اپنے دماغ کا استعمال کر کے بزنس کو آگے بڑھایا کروڑوں کی دولت جمع کی تیری ماں اُس میں سے آدھے کی حصہ دار کیسے ہو گئی میں تجھے اور تیری ماں ، دونوں کو ختم کر دوں گا مِٹا کر کے رکھ دوں گا میری طاقت کا اندازہ نہیں ہے تجھے۔ کمشنر اِس کتّے کے پلّے کو میرے سامنے ختم کر دو۔

            کمشنر نے کہا ’’سیٹھ جی آپ اطمینان رکھیں آپ کا کام ہو جائے گا۔ یہ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں ان سب کو گاڑی میں بھر کر لے جائیں گے اور گاڑی کو پہاڑی سے نیچے کھائی میں گرا دیں گے ان میں سے ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچے گا۔ آپ فکر نہ کریں گے۔

            نہیں۔ اس لڑکے کو اور اس کمینے دغا باز غنڈے کو میں اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ابھی یہی میرے سامنے انھیں ختم کر دو۔

            کمشنر نے کہا ’’نہیں پولس تھانے میں ہم یہ سب نہیں کرسکتے ہمارے خلاف کیس بن جائے گا سیٹھ جی آپ اطمینان رکھیں ہم انھیں اس طرح ماریں گے کہ ان کی لاشوں کا پتہ بھی کسی کو نہیں چلنے پائے گا۔

            نہیں کمشنر میں اِنھیں مرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں خود انھیں ماروں گا۔ اتنا کہہ کہ سیٹھ گوندداس نے اپنی جیب سے ریوالور نکال لیا اور حمید ڈنگر کا نشانہ لے کر گولی چلانا ہی چاہتا تھا کہ انسپکٹر جگدیش نے تیزی سے جھپٹ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔ بس اُسی لمحے گولی چلی اور گولی جا کر سیدھے کمشنر کی کھوپڑی میں پیوست ہو گئی۔ ایک بھیانک چیخ اس کے منھ سے نکلی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا انسپکٹر جگدیش سیٹھ گوندداس کو چھوڑ کر کمشنر کی طرف بڑھا سیٹھ گوندداس نے دوسری گولی انسپکٹر جگدیش پر چلا دی۔ گولی جا کر انسپکٹر جگدیش کے بائیں کاندھے میں لگی اور اس سے پہلے کہ سیٹھ گوندداس اُس پر ایک اور گولی چلاتا حمید ڈنگر نے ایک چھلانگ مار کر سیٹھ گوندداس کو اپنی گرفت میں لے لیا بس اُسی لمحے انسپکٹر جگدیش نے اپنے سروس ریوالور سے یکے بعد دیگرے تین گولیاں سیٹھ گوندداس پر چلائیں اور تینوں گولیاں سیٹھ گوندداس کے سینے میں جا کر پیوست ہو گئیں۔ حمید ڈنگر نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ دھڑ ام سے زمین پر گر کر ختم ہو گیا۔ یہ سب بس چند منٹوں میں ہی ہو گیا۔ تھانے میں موجود سپاہی گولیاں چلنے کی آواز سن کر اُس کمرے میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ کمشنر صاحب اور سیٹھ گوندداس زمین پر بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے اور انسپکٹر جگدیش کے کاندھے سے خون بہہ رہا تھا۔ انسپکٹر جگدیش نے کمشنر کا دیا ہوا اغوا کے بیان کا کاغذ فادر رابرٹ کے حوالے کر دیا۔

            اُسی وقت ایمبولینس بلوائی گئی۔ انسپکٹر جگدیش کو اسپتال بھجوا دیا گیا اور پنچ نامہ کر کے پولس کمشنر اور سیٹھ گوندداس کی لاشیں بھی اسپتال پہنچا دی گئیں۔

            ڈی آئی جی، اسسٹنٹ پولس کمشنر اور ڈپٹی پولس کمشنر کے علاوہ بہت سے پولس افسران اسپتال پہنچ گئے جہاں پولس کمشنر اور سیٹھ گونداس کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہونا تھا انسپکٹر جگدیش نے اپنے بیان میں لکھوایا کہ فادر رابرٹ، سادھو مہاراج، کلّو بابا حمید ڈنگر، عدنان اور پریم کی شکایت پر ہم نے سیٹھ گوندداس کو پولس تھانے میں طلب کیا اُن سے اُن کے بھائی اور بھتیجے کے قتل کے سلسلے میں سوالات کئے تو وہ بھڑ ک اُٹھے اور انھوں نے کمشنر صاحب کو اپنے ریوالور سے گولی ماردی پھر مجھ پر بھی گولی چلائی جو میرے کاندھے میں لگی اپنی جان بچانے کے لئے میں نے اپنے ریوالورسے سیٹھ گوندداس پر گولی چلا دی جس سے وہ مر گیا نہیں تو وہ اور کئی لوگوں کو مار ڈالتا۔

            پولس کمشنر کے سر میں سے اور انسپکٹر جگدیش کے کاندھے سے نکلی ہوئی گولیاں ایک ہی تھیں اور اُسی ریوالور سے چلائی گئی تھیں جو سیٹھ گوندداس کے ہاتھوں میں ملا تھا۔ اس ریوالور کا لائسنس بھی اُسی کے نام سے تھا۔ سادھو مہاراج، کلّو بابا، فادر رابرٹ اور حمید ڈنگر نے بھی اِسی طرح اپنے بیان لکھوا دیئے۔ اُن کے بیانات اور انسپکٹر جگدیش کے بیان کی وجہ سے سادھو مہاراج، کلّو بابا، فادر رابرٹ، حمید ڈنگر ، عدنان، پریم اور آکاش کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

            یہ لوگ اُس ہاسپٹل میں پہنچے۔ جہاں پریم کی والدہ کو رکھا گیا تھا۔ فادر رابرٹ نے ہاسپٹل کے ڈین سے مل کر اُنھیں اپنی گاڑی میں ڈال کر اپنے ہاسپٹل لے آئے۔ فادر رابرٹ کے ہاسپٹل میں رہتے ہوئے پریم کی والدہ کی حالت میں کافی سدھار آ چکا تھا انھوں نے جب پریم کو دیکھا تو فرطِ محبت سے وہ اُس سے لپٹ گئیں اور بہت دیر تک روتی رہیں۔

            پریم بھی کافی دیر تک سسک سسک کر روتا رہا اور ایسا لگا کہ آنسوؤں کی دھار میں غم کا غبار بہہ کر جسم سے خارج ہو گیا ہے۔

            دوسرے دن پریم اپنی والدہ کے ساتھ بنگلے میں پہنچ گیا۔ سیٹھ گوندداس کی موت کی خبر بنگلے کے تمام لوگوں کو مل چکی تھی اُسی دن پوسٹ مارٹم کے بعد اُن کی لاش مل گئی جس کا انتم سنسکار کر دیا گیا۔

            حمید ڈنگر اور عدنان سادھو مہاراج کی کٹیا میں ہی رُکے ہوئے تھے کہ انتم سنسکارکے دوسرے دن پریم اپنی کار سے کلّو بابا کی درگاہ میں آیا۔ اُن سے ملاقات کی پھر سادھو مہاراج کی کٹیا میں آیا اُس نے حمید ڈنگر اور عدنان سے ملاقات کی۔ سادھومہاراج نے اُس کی بچی ہوئی رقم اُس کے سپرد کر دی اور کہا ’’بیٹا تمھارا کام تو ہو گیا اب ان دونوں کو اجازت دو کہ یہ اپنے گھر چلے جائیں۔

            ہاں اسی لئے میں یہاں آیا ہوں مجھے پہلے چل کر وردھا میں اُس دھوبی سے ملنا ہے جس نے میری جان بچائی تھی۔ اس کے بعد اِن دونوں کو میں ناگپور چھوڑ دوں گا ٹھیک ہے۔

             عدنان نے کہا۔ ہم تمھارا انتظار کرتے ہوئے ابھی تک رُکے ہوئے تھے۔ حمید ڈنگر، عدنان اور آکاش کو لے کر وہ اوپر درگاہ میں آیا۔ کلّو بابا سے مل کر ان کی گاڑی وہاں سے روانہ ہوئی تین بجے کے قریب وہ اُس گاؤں میں پہنچے جہاں دشرتھ راؤ جی کا جھونپڑا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ایک بچی زمین پر بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ یہ لوگ جیسے ہی وہاں پہنچے وہ لڑ کی دوڑ تی ہوئی آئی اور پریم سے لپٹ گئی اور کہنے لگی ’’کہاں چلے گئے تھے تم۔ مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے ‘‘ اتنا کہہ کر وہ آکاش کو مارنے لگی اور رونے لگی۔ تبھی اس کی ماں گھر میں سے نکل کر باہر آئی۔ پریم کے ساتھ عدنان اور آکاش کو دیکھا تواُس نے اُنھیں پہچان لیا اور پریم سے کہا ’’بیٹا تم جب سے یہاں سے گئے ہو رکمنی روزانہ تمھاری یاد کر کے روتی رہتی ہے تمھارے ساتھ روزانہ کھیلتی تھی نا اس لئے تمھارے نہیں ہونے سے اُداس ہو گئی تھی۔ پریم نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اُس کے آنسو پوچھے اور کہا ’’میری پیاری بہن میں آگیا ہوں اب میں ہفتے میں ایک بار تجھ سے ملنے ضرور آیا کروں گا۔ میں حالانکہ تجھے بھول چُکا ہوں ۔ تیرے ساتھ گزارے ہوئے وقت کا ایک ہلکا سا نشان بھی میرے دماغ میں موجود نہیں ہے۔ لیکن تیری بے لوث محبت کو میں ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھوں گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب تجھے کبھی نہیں بھولوں گا۔

            دشرتھ راؤ جی کی بیوی نے سب کو گھر میں بلایا چٹائی پر بٹھایا اور پڑ وس کے ایک لڑکے کو دشرتھ راؤ جی کو بُلانے کے لئے بھیج دیا۔ تھوڑی دیر میں دشرتھ راؤ جی مکان میں داخل ہوئے اور پریم کو دیکھ کر کہا ’’ارے پریم بابو تم آ گئے اچھا ہوا تم آ گئے رکمنی بہت رو رہی تھی۔ پریم اُنھیں حیرت سے دیکھ رہا تھا اور اُن کی بات سن رہا تھا۔ تب آکاش نے پریم کی یاد داشت واپس آنے اور پرانی باتیں بھول جانے کا واقعہ انھیں سنایاتو دشرتھ راؤ جی نے کہا ’’تبھی تو میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بابو میں کتنی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ پریم نے اُن سے کہا ’’کاکا جی آپ نے میری جان بچائی۔ میرا علاج کرایا مجھے اپنے گھر میں اپنے بیٹے کی طرح رکھا میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھُلا پاؤں گا اتنا کہہ کر اُس نے دشرتھ راؤ جی کے پیر چھو لیئے۔

            دشرتھ راؤ جی نے کہا ’’بیٹا اُس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ مجھے یہ سب کرنا پڑا چلو اچھا ہوا تم اچھے ہو گئے۔ تمھیں سب کچھ یاد آگیا ورنہ تم تو ٹھیک سے کچھ بول بھی نہیں پاتے تھے ہماری رُکمنی تمھارا بہت خیال رکھتی تھی۔ پریم نے کہا ’’مجھے ایک بہن مل گئی ہے میں اس سے ملنے ضرور آیا کروں گا اور اب ہم چلتے ہیں اور یہ آپ رکھ لیجئے ‘‘ یہ کہہ کر پریم نے پانچ سو روپئے کی ایک گڈی دشرتھ راؤ جی کی طرف بڑھائی اور ایک کارڈ دیا اور کہا۔ یہ میرا پتہ ہے کبھی بھی مجھ سے آ کر مل سکتے ہو۔

            دشرتھ راؤ جی نے رقم واپس کرتے ہوئے کہا ’’ارے بابو یہ کیا کر رہے ہو نہیں نہیں ہم یہ نہیں لے سکتے ہماری ساری نیکیوں کو نشٹ مت کرو۔ ہمیں معاف کرو ہمیں اوپر بھی کچھ لے جانے دو۔

            پریم نے کہا ’’کاکا یہ آپ کے لئے نہیں ہے۔ یہ میری اس بہن کے لئے ہے اِسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونا چاہئے اس کی ہر خواہش پوری ہونا چاہئے اپنے بیٹے کا تحفہ سمجھ کر آپ اسے رکھ لیجئے ورنہ مجھے بہت دکھ ہو گا۔ آکاش اور عدنان نے بھی پریم کی طرفداری کی تب دشرتھ راؤ جی نے وہ رقم اپنی بیوی کے ہاتھ میں دے دی اور وہ لوگ ناشتہ کر کے وہاں سے نکل پڑے۔ جاتے جاتے پریم نے رُکمنی سے کہا ’’میری پیاری بہن دیکھ اب رونا نہیں میں تجھ سے ملنے ضرور آیا کروں گا۔ نہیں روئے گی نا۔ یہ سن کر رُکمنی نے انکار سے سر ہلایا اور اپنی ماں سے لپٹ کر سسکنے لگی پریم نے اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور وہ لوگ وہاں سے نکلے اور ناگپور کے لئے روانہ ہو گئے۔ ناگپور میں سب سے پہلے وہ اس اسپتال میں گئے جہاں حمید ڈنگر کی بچی کا آپریشن ہونے والا تھا۔ ڈاکٹر سے ملے تو اُس نے بتایا کہ آپریشن ہو چکا ہے اب بچی خطرے سے باہر ہے وہ وارڈ نمبر  ۲۶میں ہے آپ جا کر اُس سے مل سکتے ہیں۔

            وہ وارڈ نمبر ۲۶ میں آئے تو وہاں بیڈ نمبر ۱۴ پر حمید ڈنگر کو اُس کی بیوی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ وہ وہاں گئے تو حمید ڈنگر کی بیوی اپنی جگہ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی حمید ڈنگر نے اپنی بچی کی طرف دیکھا وہ بے ہوشی کی حالت میں بستر پر پڑی ہوئی تھی ہاتھ میں گلوکوز کی بوتل کی سوئی لگی ہوئی تھی۔ اُن کی بیوی نے کہا منی ٹھیک ہے ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ کل صبح تک اُسے ہوش آ جائے گا۔ ‘‘

            پریم نے حمید ڈنگر سے کہا ’’حمید بھائی آپ یہاں رُک جاؤ ہم چلتے ہیں آپ کو ہم نے بہت تکلیف دی چلو اچھا ہوا معاملہ پولس تھانے میں ہی ختم ہو گیا اور بات آگے نہیں بڑھی ہمیں اجازت دو۔

            حمید ڈنگر نے کہا ’’یہ سب بزرگانِ دین کی دعاؤں کا فیض ہے لیکن زندگی بھر مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ میرے ہاتھوں سے وہ کام ہو گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ایک لڑ کا یتیم ہو گیا۔

            پریم نے بیس ہزار روپئے حمید ڈنگر کو بھی دیئے اور وہ وہاں سے کار لے کر نکل پڑے اور سیدھے بکرا منڈی کی درگاہِ آستانئہ، حضرت بابا سید شہاب الدینؒ میں آئے۔ صبح کا وقت تھا۔ حاجی باوا اپنے حجرے میں بیٹھے تلاوتِ کلام پاک میں مشغول تھے۔ آکاش، عدنان اور پریم خاموشی سے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھ گئے۔ اُسی وقت رفیق آگیا۔ وہ بھی وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں حاجی باوا قرآن شریف کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو ان لوگوں نے انھیں سلام کیا انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا ’’ہاں کہو سارے کام ٹھیک سے نپٹ گئے۔

            آکاش نے کہا ’’جی ہاں حاجی باوا۔ آپ کی دعا سے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔

            اچھا بہت خوب مجھے پوری بات تفصیل سے بتاؤ پھر آکاش اور پریم نے مل کر پولس تھانے میں کمشنر اور سیٹھ گوندداس کی موت کا پورا واقعہ تفصیل سے اُنھیں سنا دیا۔ حمید ڈنگر کو اسپتال میں چھوڑ نے کی بات بھی بتا دی۔ یہ سب سن لینے کے بعد حاجی باوا نے کہا ’’چلو اچھا ہوا پریم بابو اب تمھارا کیا پروگرام ہے۔

            پریم نے کہا ’’حاجی باوا جی آپ سے ملنے آ گئے آپ کے آشیرواد سے ہر کام اچھی طرح ہو گیا اور ایک برائی جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی تھی اُس سے چھٹکارہ مل گیا۔ اس درگاہ کی تعمیر کے لئے یہ میری چھوٹی سی بھینٹ سویکار کیجئے۔ اتنا کہہ کر پریم نے ۲۰ ہزار روپئے حاجی باوا کے سپرد کر دیئے۔ اور ان سے اجازت لے کر وہ جانا چاہتے تھے کہ حاجی باوا نے اُن سے کہا ’’جاؤ وضو بنا کر آ جاؤ۔ تینوں لڑکے وضو بنا کر آ گئے تو حاجی باوا نے اُنھیں حضرت بابا شہاب الدینؒ کی مزارِاقدس کے سامنے کھڑا کر دیا۔ سب نے اپنے سروں پر رومال باندھ لئے حاجی باوا نے کافی دیر تک دعا مانگی اور تینوں لڑکوں کو تبرک دیا۔ پھر درگاہ شریف کی ایک چادر پریم کے کاندھے پر ڈالی اور کہا ’’اِسے اپنے گھر میں حفاظت سے رکھنا‘‘۔ پریم نے اقرار میں سر ہلایا اور وہ وہاں سے چلے آئے مومن پورہ چوک کی ایک ہوٹل میں انھوں نے کھانا کھایا اور عدنان سے پریم نے پوچھا ’’ہاں عدنان کہو اب تمھارا کیا پروگرام ہے ؟ عدنان نے کہا ’’مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ لوٹ کے بدّھو گھر کو آئے۔ اب میں بھی اپنے گھر چلتا ہوں دیکھتا میرے گھر کی کیا حالت ہے۔ ویسے تو میں یہ سوچ کر گھر سے نکلا تھا اب کبھی گھر واپس نہیں آؤں گا لیکن حالات مجھے پھرسے یہاں لے آئے دیکھوں میری ماں کیسی ہیں اور میرے ابّو کا کیا حال ہے۔

            پریم نے کہا ’’ٹھیک ہم بھی چلتے ہیں ہمیں بھی اپنے گھر لے چلو۔ عدنان نے کہا ’’ٹھیک ہے چلو بہت چھوٹا سا میرا گھر ہے۔ جیسا بھی ہے ہم تو تمھارے گھر چلیں گے۔ ٹھیک ہے تو چلو۔ عدنان نے یہ کہا، وہ ہوٹل سے نکل کر باہر آئے اور اُس کے ساتھ ساتھ پیدل ہی چلنے لگے تھوڑی دوری پر دائیں طرف ایک گلی میں مُڑ گئے۔ گلی بہت تنگ تھی، چند گھروں کو پار کرنے کے بعد عدنان ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رُک گیا وہ لوگ بھی رُک گئے پھر اُس نے دروازہ پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور ایک عورت نے باہر جھانک کر دیکھا۔ سامنے عدنان کھڑا تھا عورت نے کہا ’’عدنان میرے بیٹے ، میرے لال تو کہاں چلا گیا تھا اور یہ تیرے ساتھ کون لوگ ہیں ؟

            عدنان نے کہا ’’امّی یہ میرے دوست ہیں۔ اس کی امّی نے کہا ’’ارے تو ان کو گھر میں لے کر آنا میں چٹائی بچھا دیتی ہوں ۔ عدنان ، آکاش اور پریم اندر داخل ہوئے اور چٹائی پر بیٹھ گئے پریم نے دیکھا ایک چھوٹا سا مکان جو صرف ایک کمرے پر ہی مشتمل تھا۔ جب وہ لوگ اطمینان سے بیٹھ گئے تو عدنان کی امّی نے کہا ’’کہاں چلا گیا تھا تو ہم نے تجھے کتنا تلاش کیا کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تیرا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ ‘‘

            امّی میں یہاں سے بھاگا تو میرے ساتھ ایک بڑا ہی عجیب واقعہ ہو گیا اور سمجھ لو کہ بہت بڑی مصیبت سے بچ کر یہاں آیا ہوں۔

            پھر عدنان نے ریل گاڑی کے حادثے سے لے کر سیٹھ گوندداس کی موت تک کی پوری کہانی اپنی امی کو سنا دی۔ اُس کی امّی نے کہا ’’چلو یہ اچھا ہوا کہ تیری وجہ سے ایک بہت بڑا جرم سامنے آگیا اور ظالم اپنے انجام کو پہنچے۔ تیرے بھاگنے میں بھی خدا کی مصلحت تھی۔ اُس کی حکمت سے ہی یہ دنیا چل رہی ہے۔ عدنان نے پوچھا۔ امّی ابو کہاں ہے ان کی طبیعت کیسی ہے

             بیٹا تیرے ابو مشین چلانے گئے ہیں تیرے جانے کے بعد اُن کی حالت عجیب سی ہو گئی ہے۔ نہ ٹھیک سے کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں افسوس کرتے رہتے ہیں کہ میری برائی کی وجہ سے میرا اکلوتا بیٹا مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اب تو وہ شراب بھی نہیں پیتے بس خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔

            تبھی اچانک عدنان کے والد گھر میں داخل ہوئے اور عدنان کو دیکھ کر کہا ’’ عدنان میرے بچے ! ابھی ایک شخص نے مجھے بتایا کہ تو گھر آیا ہے میں اپنا کام چھوڑ کر یہاں آیا ہوں۔ کہاں چلا گیا تھا تو۔ ذرا سی بات پر کوئی یوں گھر بار چھوڑ دیتا ہے۔ معلوم ہے ہم لوگوں کو کتنی پریشانی ہوئی۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تجھے۔ میرے بچے تجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا!تجھے اپنے ماں باپ کی کیفیت کا اندازہ نہیں ہے ہم نے کتنی راتیں تیری جدائی میں رو رو کر گزاری ہیں۔ ‘‘

            عدنان نے کہا ’’ابو بس ایک حادثہ ہو گیا اور میں اپنے شہر سے تم لوگوں سے بہت دور چلا گیا ورنہ آپ لوگوں کو چھوڑ کر جانے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔ عدنان نے اِنھیں پوری کہانی سنا دی اُس کے ابو نے کہا ’’بیٹاا سکول سے بھی کئی لڑکے تجھے بلانے کے لئے آئے تھے پھر ہیڈ ماسٹر صاحب اور تیرے کلاس ٹیچر بھی آئے تھے انھوں نے کہا کہ تیری تعلیم پر انھوں نے خاص طور سے دھیان دینے کا فیصلہ کیا تھا اُنھیں امید ہے کہ تو اگر برابر محنت کرے گا تو میٹرک میں میرٹ میں آ سکتا ہے میری وجہ سے تیری پڑھائی کا کتنا نقصان ہوا ہے۔ نہ میں شراب پیتا نہ تیری امّی کو مارتا نہ تو مجھے مارتا اور گھر بار کو چھوڑ کر بھاگتا میں نے تو قسم کھا لی ہے اب کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ آج پھر میں تیری قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کبھی شراب نہیں پیوں گا واقعی شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ امّ الخبائث ہے۔ خدا ہر انسان کو اس سے محفوظ رکھے۔

            پریم نے کہا ’’چاچا تمہارے لڑکے کے ذریعے بھگوان نے ایک بہت بڑے جرم کا پردہ فاش کر دیا۔ ایک بہت گھناؤنی سازش بے نقاب ہو گئی میری جان بچ گئی اور ہمارے سروں پر منڈرانے والا خطرہ ہمیشہ کے لئے ٹل گیا۔ عدنان کے والد نے کہا ’’چلو ٹھیک ہے جو ہوا اچھا ہوا اب بیٹا جاؤ تم بھی اپنے گھر جا کر اپنا گھر بار دیکھو اپنی امّی کی خدمت کرو، پڑھائی لکھائی کرو، زندگی میں یہی سب چیزیں کام آنے والی ہیں۔ ہم نے اپنی تعلیم پوری نہیں کی اب افسوس کرتے ہیں۔

            پریم نے کہا ’’عدنان کی وجہ سے میری ماں کی جان بھی بچ گئی ورنہ میرے چاچا نے اُنھیں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس کا ہم پر بہت احسان ہے۔

             وہ سب تو ٹھیک ہے ، کہو اب تمھارا کیا پروگرام ہے ؟ عدنان کے والد نے پوچھا۔

            پریم نے کہا ’’جی بس اب ہم لوگ نا سک کے لئے روانہ ہو رہے ہیں اور چاچا آپ کو ، چاچی کو اور عدنان کو بھی ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔

             ارے نہیں ، ہم اپنا گھر بار کام دھندہ چھوڑ کر کہاں جائیں گے نہیں نہیں اب تم جاؤ اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو ہم سب یہی ٹھیک ہیں۔

             نہیں میں تمھیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ہماری کپڑا بنانے کی مِلیں ہیں میں وہاں تم کو کام دوں گا۔ اور اپنے گھر میں تم لوگوں کو رکھوں گا تم سب کو میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ میرے ساتھ چلنا ہی پڑے گا۔ پریم نے کچھ اس طرح ضد کی کہ ان کی ایک نہ چلی اور بالآخر عدنان اُس کے والد اور والدہ اُس کے ساتھ آ کر کار میں بیٹھ گئے اپنی ضرورت کا کچھ سامان انھوں نے لے لیا۔ عدنان کے والد نے پڑ وسیوں سے کہا ’’ہم لوگ کچھ دنوں کے لئے نا سک جا رہے ہیں گھر بار کی دیکھ بھال کرنا۔ پڑ وسیوں سے اتنا کہہ کر وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

            نا سک پہنچ کر پریم نے اپنے بنگلے کے بازو میں بنے ایک گیسٹ ہاؤس میں عدنان اور اس کے والدین کے رہنے کا انتظام کر دیا۔

            پھر آکاش سے پریم نے کہا ’’تم بھی یہی میری مِل میں کسی کام پر لگ جاؤ میں تمھیں بھی یہی رکھوادیتا ہوں۔

            آکاش نے کہا ’’شکریہ! مجھے بچپن سے ہی آزاد رہنے کی عادت ہے میں کہیں نوکری نہیں کر پاؤں گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مندر کا کام اور سادھو مہاراج کو چھوڑ کر میں کہیں بھی نہیں جا سکتا۔ وہی میرا ٹھکانہ ہے وہیں میرا آب و دانہ ہے۔ اچھا اب مجھے بھی اجازت دو میں بس سے چلا جاؤں گا۔

            پریم نے کہا ’’تم تو ابھی میرے بس میں ہو بس سے کیسے جا سکتے ہو‘‘۔ اتنا کہہ کر اس نے ۲۰ ہزار روپئے آکاش کو دیئے اور کہا کہ ۱۰ ہزار روپئے کلّو بابا کو اور ۱۰ ہزار روپئے سادھو مہاراج کو دے دینا کہ وہ ان پیسوں کو درگاہ اور مندر کے کام میں لگائیں !

            ٹھیک ہے تو میں چلتا ہوں۔ آکاش نے کہا۔

            پریم نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ وہ آکاش کو پہاڑی والی درگاہ پر چھوڑ کر آ جائے۔ آکاش کار میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔

            دوسرے دن پریم عدنان کے والد کو اپنے ساتھ اپنی کپڑے کی مِل میں لے کر گیا اور وہاں مینجر سے مل کر انھیں سُپر وائزر مقرر کر دیا۔ عدنان کی مرضی سے اُسے وہیں کے ایکا سکول میں داخلہ دلا دیا۔ پریم کی والدہ نے بھی عدنان اور اُس کے گھر کے لوگوں کا ہر طریقے سے خیال رکھا اور پھر سے ایک نئی زندگی کی شروعات ہو گئی، ایک پرسکون اور خوشگوار زندگی کی شروعات !

غیر مطبوعہ، طبع زاد

مصنف :وکیل نجیب

نجیب منزل، نزد لالا سکول

مومن پورہ۔ ناگپور۔ 440018

فون نمبر (گھر) :(0712) 2725137

***

تشکر: مصنف، اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا۔، ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔