اتوار قریب تھا اور ہم رہے گھومنے پھرنے کے شوقین جبکہ ابا میاں اپنے دورے پر شہر سے باہر تشریف لے گئے تھے لہٰذا ہم نے اپنے پورے اودبلا ؤ کے ہجوم یعنی اپنے دوستوں کے کانوں میں پھونک دیا کہ سیر و تفریح کے لیے چلا جائے اور یوں زندگی میں پہلی دفعہ ہم تمام بارہ دوست ایک بات پر متفق ہو گئے اور تمام لوگوں کو تو کوئی پریشانی نہ تھی مگر ہم دو ہفتے پہلے ہی امی سے دو سو روپے لے چکے تھے۔ ہم نے اپنی اس مشکل سے دوستوں کو آگاہ کیا۔ راشد نے مشورہ دیا کہ ‘’ تم اپنے دادا ابو سے بات کرو’‘ مگر ہم نے کہا کہ ‘’وہ تو خود امی سے مانگتے ہیں ۔’‘ شہاب نے خاصی دیر تک سوچنے کے بعد کہا۔
‘’یار وہ تمہارے فرخ کب کام آئیں گے۔ ان کو تو آنٹی بہت پیار کرتی ہیں لہٰذ ان کی بات وہ کبھی نہیں ٹالیں گی۔’‘ شہاب ہمارا لنگوٹیا یار تھا لہٰذا وہ ہمارے گھر کی تمام کمزوریوں اور خوبیوں سے واقف تھا۔ اتنی زبردست ترکیب سن کر ہم اپنی کلاس کی بنچ پر سے اچھل پڑے اور قریب تھا کہ کمرہ جماعت کی چھت سے معانقہ کر آتے ہمارے دوستوں نے ہمارے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے ہماری ٹانگوں پر قبضہ جما لیا اور ہمیں واپس اوقات میں لے آئے۔ ہم گھنٹی کی آواز سن کر شہاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سب کو فرشی سلام کرتے ہوئے F-16کی طرح گھر روانہ ہوئے۔ آدھے راستے پر یاد آیا کہ ہم اپنی گیس یعنی سائیکل تو اسکول میں ہی بھول آئے ہیں لہٰذا واپس گئے اور اپنی جدید ماڈل کی کھٹارا پر شاہی سواری اپنے محل میں وارد ہوئی۔
گھر پہنچتے ہی سائیکل کو باغ میں چھوڑا اور خود اپنے بھائی کے کمرے کی راہ لی۔ بدقسمتی سے ہم یعنی کاشف اور فرخ دونوں کہنے کو تو جڑواں ہیں لیکن بہرحال ہم اپنے آپ کو فرخ کا ایکسرے کہتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ فرخ نے بڑے مسکراتے ہوئے ہم سے کہا تھا کہ تمہیں دیکھ کر لوگ یہی کہتے ہوں گے کہ پاکستان میں قحط پڑ گیا ہے۔’‘ تو ہم نے فوراً جواب دیا ۔
‘’ اور تمہیں دیکھ کر وجہ بھی پتہ چل جاتی ہو گی۔’‘ یعنی ہم دونوں میں اتنا اختلاف ہے جتنا چیونٹی اور ہاتھی میں اور امی فرخ کو ان کی جسامت ہی کی وجہ سے زیادہ پسند کرتی ہیں ۔ ہمارے بھیا جی کے کمرے کا دروازہ بھی ان کی جسامت کے حساب سے نوشیرواں عادل کے محل کے صدر دروازے جیسا ہے جس میں سے فرخ اٹک اور پھنس کر ڈانس کرتے ہوئے برآمد ہوتے ہیں لہٰذا جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو حسب معمول فرخ پرلی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے جہازی سائز بستر پر بھرے ہوئے بیٹھے تھے اور ان کی گود میں ایک پلیٹ تھی جس میں تین برگرز رکھے ہوئے تھے۔ چوتھا ان کے ہاتھ میں تھا جس میں سے تقریباً آدھا ان کے منہ کے اندر اور باہر موجود تھا۔ ابلتی ہوئی آنکھوں سے وہ اسے ہضم کرنے میں کوشاں تھے۔ ہم بڑے لاڈ سے فرخ کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے کہا ‘’یار فرخ آپ ایک کام کر دیں ۔’‘ فرخ نے بھاڑ سا منہ کھولتے ہوئے کہا۔ ‘’ کیا؟’‘ اور ہم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنے اندر کی چیزوں کو باہر آنے سے روکا جو فرخ کے منہ میں مچلتے برگر کو دیکھ کر خود بھی باہر آنے کو مچل رہی تھیں ۔ ہمارے کہنے سے قبل ہی فرخ نے منہ بند کر لیا اور برگر جلدی جلدی سٹکنے لگے۔ جب بس نہ چلا تو منہ سے نکال کر پلیٹ میں رکھ دیا۔ ہم نے فوراً اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ فرخ نے ہمارے ناتواں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ ‘’ کیا بات ہے کاشف؟’‘ ہم نے بڑی مشکل سے ان کو پورا ماجرا سنایا۔ فرخ نے اپنا ناریل ہلاتے ہوئے کہا۔
‘’ ہم آپ کا کام کر دیں گے لیکن آپ کو ہمارا کام کرنا پڑے گا۔’‘ ہم نے بے تاب ہو کر کہا۔
‘’ضرور ضرور مگر وہ کیا کام ہے؟’‘ فرخ نے کہا ۔
‘’ آپ کو ہمیں باغ میں موجود تمام جھولے جھلانے ہوں گے۔’‘ ہم نے فوراً رضا مندی دکھا دی اور فرخ برگرز کو حسر ت بھری نگاہ سے تکتے ہوئے باہر بڑھنے لگے۔ مگر دروازے تک پہنچ کر اٹک گئے۔ اتنی قلابازیاں لگائیں باہر نکلنے کے لیے لیکن سب بے سود۔ حالانکہ ابو جی نے ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے لال قلعے کا دروازہ ان کے کمرے میں لگوایا تھا۔ مگر کیا کیا جائے فرخ کا زمین کے مخالف پانچ فٹ چار انچ بڑھ کر مستقل زمین کے متوازی بڑھ رہے تھے۔ خیر دھکم پیل کر کے ان کو باہر نکالا اور ایک لالچی نگاہ پلیٹ میں رکھے برگرز پر ڈالنی چاہی مگر پلیٹ میں رکھا برگر کا کچومر دیکھ کر مجبوراً باہر آنا پڑا۔
تھوڑی ہی دیر بعد فرخ ہنستے مسکراتے ہاتھ میں دو سو روپے کے نوٹ پکڑے امی کے کمرے سے نمودار ہوئے اور تقریباً پندرہ منٹ تک دروازے سے الجھ کر ہمارے پاس آئے اور فخریہ انداز میں نوٹ ہمیں پکڑا دیئے۔ ہم نے ہُرا کا نعرہ لگایا اور باہر کی سمت بھاگے مگر محسوس ہوا کہ ہماری پینٹ کا واحد سہارا گیلس دو مہربان ہاتھوں کی گرفت میں ہے اور یہ مہربان ہاتھ ہمارے مہربان بھائی فرخ کے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔ ‘’بھائی کاشف.... ہمارا والا کام؟’‘ ہم فوراً پلٹے۔
‘’او ہاں .... کیوں نہیں آئیے ابھی چلیں ۔’‘ ہم دونوں باغ کی طرف روانہ ہو گئے۔
خراماں خراماں اس کرم خوردہ باغ میں پہنچے جہاں اس وقت باوا آدم کے زمانے کے تین جھولے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ ایک تو ‘’سی سا’‘ تھا۔ دوسرا گول گول گھومنے والا اور تیسرا ہنڈولے والا ۔’’ سی سا’‘ کے قریب بچوں کا زیادہ ہجوم تھا۔ فرخ نے پہلے سی سا میں جھولنے کا فیصلہ کیا اور اس جھولے کی طرف بڑھ گئے۔ جھوم جھوم کے بچوں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہ پڑی۔ وہ فرخ کو دیکھ کر خود ہی ہٹ گئے۔ ہم نے شاہانہ انداز میں اپنی ہڈی پسلی اکڑائی۔
‘’ پہلے ہم بیٹھیں گے۔’‘ فرخ بھائی نے ناریل تسلیم خم کیا۔ ہم سی سا کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ پھر انداز بے نیازی سے ایک ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ‘’اب آپ بیٹھیں ۔’‘ فرخ بے تابی سے آگے بڑھے اور .... ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم غلطی سے کسی راکٹ میں بیٹھ گئے ہیں اور راکٹ بغیر گنتی کے اوپر اٹھ گیا ہے جب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ہم فضا میں پہنچے ہوئے ہیں ۔ ہم نے ٹانگیں چلاتے ہوئے چیخ کر فرخ سے نیچے اترنے کو کہا۔ وہ بجلی کی تیزی سے نیچے اترے اور ہم.... سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں آسمان سے زمین تک پہنچ چکے تھے۔ صحیح معنوں میں سی سا کا مزا آ گیا تھا۔ ابھی ہم زمین بوس ہوئے ہی تھے کہ فرخ نے ہاتھ پکڑ کر ہمیں اٹھا یا تو ہمیں اپنے جینے کا یقین آیا۔ فرخ کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے ہم اپنی ہڈیاں گننے لگے کہ کہیں ان میں اضافہ تو نہیں ہو گیا۔ اتنے میں فرخ بولے ۔
‘’ بھئی یہ جھولا تو اچھا نہیں ہے چلو دوسرا چل کر جھولیں ۔’‘
ہم نے کراہ کر کہا ‘’مگر آپ اکیلے بیٹھیں گے اور ہم صرف تماشا دیکھیں گے۔’‘ یہ کہتے ہوئے ہم گول گول گھومنے والے جھولے کی طرف بڑھے وہاں سے بھی بچہ پارٹی ہم لوگوں کو دیکھ کر ہوا ہو گئی۔ فرخ جاتے ہی جھولے کے ایک ڈولے میں بیٹھ گئے۔ جھولے والے نے اس ڈولے کو دھکیلنا چاہا مگر وہ بھی ہماری طرح کانگڑی پہلوان تھا۔ زور لگانے سے اس کی تمام ہڈیاں اتنی باہر نکلتیں کہ ہمیں ڈر لگنے لگتا کہ اب یہ کھال پھاڑ کر باہر آ موجود ہوں گی لہٰذا ہم نے بھی زور لگانا شروع کر دیا۔ ڈولا ایک زناٹے سے اوپر اٹھا اور دوسرا ڈولا ہم دونوں کو اٹھانے کے لئے ہماری طرف بڑھا۔ مگر خدا بھلا کرے جھولے والے کا کہ جس نے ہمیں مہلت ہی نہ دی کہ ہم بغیر سر کے کھڑے سوچتے رہ جاتے۔ اس نے فوراً ہمیں کھینچ لیا۔ ورنہ دوسرا ڈولا کم از کم ہمارے سر کو تو جھولا ضرور جھلاتا۔ ہوش آنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ فرخ کا ڈولا سب سے اونچائی پر پہنچا ہوا تھا اور وہ خوب اچھل کود کر رہے تھے۔ وہیں سے مکے لہرا لہرا کر جھولے والے کو دھمکا رہے تھے۔ قبل اس کے کہ ہم ان کو منع کرتے۔ اس خستہ حال جھولے کا صبر جواب دے گیا۔ اور وہ ایک زبردست گڑگڑاہٹ کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا۔ لہٰذا فرخ بھائی بغیر کسی زحمت کے براہ راست نیچے آ گئے۔ ہم نے کن اکھیوں سے جھولے والے کو دیکھا تو وہ منہ کھولے ہونق بنا فرخ کو دیکھ رہا تھا جو جھولے کے ملبے میں سے ہنستے مسکراتے نکل کر آ رہے تھے اور جب اس نے محسوس کیا کہ مکھیوں نے بلا ٹکٹ منہ میں آنا جانا کر رکھا ہے تو اس نے منہ بند کر لیا اور حلقوں سے باہر نکلی ہوئی خوفزدہ آنکھوں سے فرخ کو گھورنے لگا۔ ہم نے جھولے والے کو خوب صلواتیں سنائیں کہ بچوں کے لئے اتنا خستہ حال جھولا لاتے ہو۔ ہم نے وہ بیس روپے جو گزشتہ سو روپوں سے بچے تھے۔ اس کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے پکڑا دیئے۔ اتنے میں فرخ جھومتے جھامتے آئے اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہنڈولے والے جھولے کی طرف بڑھ گئے۔ ہنڈولے والے جھولے کا جھولے والا بھی بہت پہلوان آدمی تھا مگر فرخ سے پھر بھی کم ہی تھا۔بہرحال فرخ جاتے ہی جھولے میں بھر گئے۔ (ان کی جسامت اور جھولے کے سائز کو دیکھتے ہوئے بیٹھنے کے بجائے بھرتا ہی کہا جائے تو مناسب ہو گا) بہرحال جھولے والے نے جھولے کو دھکا دیا ۔ جھولا بڑھتا چلا گیا اور اوپر اور اوپر.... یہاں تک کہ جھولے کا اسٹینڈ وہیں کھڑا رہ گیا اور جھولا فرخ بھائی سمیت فلائنگ ساسر کی طرح اڑتا ہوا دور جا گرا۔ جھولے کی حالت زار دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا کہ فرخ کا قل پڑھ لینا چاہیے لیکن .... وہ حسب معمول اس ملبے سے بھی ہنستے مسکراتے نکلے۔ ان کو دیکھتے ہی ہمیں ہوش آیا اور ہم چیخے ‘’فرخ بھاگ’‘ ہمارے ناگہانی جملے کے ساتھ ہی فرخ نے حواس باختہ ہو کر دوڑ لگا دی۔ ہم نے بھی عالمی ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی۔ مگر کچھ دور جا کر محسوس ہوا کہ ہماری گیلس پھر دو ہاتھوں میں ہے مگر وہ ہاتھ مہربان نہیں تھے کیونکہ وہ ہاتھ فرخ کے نہیں بلکہ لال لال آنکھوں والے پہلوان بھائی کے تھے۔ لہٰذا ہم نے گیلس کو اتارنا ہی مناسب سمجھا۔ مگر اب ہماری قمیض ان ہاتھوں میں تھی۔ قمیض کے ساتھ بھی گیلس والا سلوک کیا۔ مگر اب کیا کیا جائے کہ اگر گردن ہی ان ہاتھوں میں چلی جائے۔ بہت ترکیبیں سوچیں ، گردن اتارنے کی مگر کیا کیا جائے۔ خاموش کھڑے اپنی شرٹ کی اس جیب کو گھورنے لگے۔ جس میں ہمارا سرمایہ حیات یعنی 200 روپے تھے۔ یکدم پہلوان کی قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان کو بریک لگ گئے۔ یقیناً وہ ہماری نظریں تاڑ گئے تھے لہٰذا فوراً قمیص کی تلاشی لے کر پیسے برآمد کر لیے اور ہماری قمیص اور گیلس ہمیں تھما کر ہمیں گھورنے لگا۔ ہم اس کا مطلب سمجھ گئے اور گردن جھکا کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ ہمیں کچھ خیال نہ تھا کہ ہمارے آگے پیچھے بچے تالیاں بجاتے بھاگ رہے ہیں اور لوگ ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنسی ضبط کر رہے ہیں اور خواتین ہمیں دیکھ دیکھ کر اپنے پورے پورے دوپٹے اپنی ہنسی روکنے کے لیے منہ میں گھسا رہی ہیں بلکہ ہم تو اس وقت یہ سوچ رہے تھے کہ فرخ صاحب اس وقت امی کی گود میں لیٹے کیا کیا سنا رہے ہوں گے اور گھر میں ہماری کس چیز سے خاطر تواضع ہو گی اور کل بروز اتوار جب تمام دوست جانے کے لئے جمع ہوں گے تو ہم کیا بہانہ کریں گے؟ کوئی حل ہے آپ کے پاس؟
٭٭٭