اس سال بھی قازوں کا سردار ژان سے تسو قازوں کا ایک جھنڈ لے کر اس دلدلی جگہ پر آیا۔ ژان سے تسو تو ایک قاز کا نام ہے، کیوں کہ اس کے دونوں سرمئی پروں پر ایک ایک سفید نشان ہوتا ہے، اس لیے شکاری اسے ژان سے تسو کہتے ہیں۔
ژان سے تسو کے معنی موسم بہار تک پہاڑ پر باقی رہ جانے والی برف ہے۔ ژان سے تسو وہاں پر جمع ہونے والی قازوں کا سردار ہے۔ وہ بہت چالاک ہوتا ہے۔ جب دوسری قازیں غذا کی تلاش میں مصروف ہوں تو وہ احتیاط سے پہرا دیتا ہے اور شکاریوں کو قازوں سے اتنی دور رکھتا کہ ان کی بندوق کی گولی قازوں تک نہ پہنچ سکے۔ بوڑھا دائزو ان دلدلی مقامات پر شکار کیا کرتا تھا، مگر جب سے ژان سے تسو نے یہاں آنا شروع کیا بوڑھا دائزو ایک بھی قاز نہ مار سکا، اس لیے وہ ژان سے تسو کو ناپسند کرتا تھا۔ جیسے ہی اس سال بوڑھے دائزو کو یہ معلوم ہوا کہ ژان سے تسو آ گیا ہے۔ اس نے قازیں پکڑنے کے لیے پہلے سے ایک خاص منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ جہاں قازیں کھانے کے لیے اترتی ہیں وہاں کھونٹے لگا کران سے کانٹے بندھی ہوئی ڈوریں باندھ دیں۔ پھر کانٹے میں گھونگے پھنسا دیے۔ بوڑھے دائزو نے رات بھر بہت سے کانٹے کھونٹے کی ڈوری کے ساتھ باندھے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس بار میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
اگلے دن دوپہر کے قریب بوڑھا دائزو خوش خوش دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ وہاں پہنچا، جہاں پچھلی رات اس نے کانٹے باندھے تھے۔ اس نے ایک پھڑپھڑاتی ہوئی چیز دیکھی۔ بوڑھا دائزو "واہ وا" کہتے ہوئے جھپٹ کر پہنچا۔
"بہت خوب! شاندار!"
بوڑھا دائزو بے اختیار بچے کی طرح چلّا اٹھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ صرف ایک قاز ملی تھی، مگر قاز کو پا کر وہ بہت خوش ہوا۔
اس نے سوچا کہ قاز بہت زور سے پھڑپھڑائی ہوگی، کیوں کہ ارد گرد زیادہ پر بکھرے ہوئے تھے۔ قازوں کے جھنڈ نے اس جگہ کو خطرناک محسوس کیا اور اپنے دانہ کھانے کی جگہ بدل دی۔ اس لیے وہاں اطراف میں ایک بھی قاز نظر نہ آئی۔ مگر بوڑھے دائزو نے سوچا، "وہ آخر پرندے ہیں۔ ایک رات میں یہ بات بھول کر اگلی صبح پھر آ جائیں گے۔"
اس نے اگلے دن کے لیے اور زیادہ کانٹے باندھے۔
اگلے دن بوڑھا دائزو پھر اسی وقت پر گھر سے نکلا۔ خزاں کا خوبصورت دن تھا۔ جب وہ اس جگہ پر پہنچا تو پھڑپھڑاہٹ کی ایک زور دار آواز کے ساتھ قازوں کا جھنڈ اڑ گیا۔
"ارے! یہ کیا ہو گیا؟" بوڑھے دائزو نے یہ سوچتے ہوئے اپنی گردن جھکا لی۔
کھونٹے، ڈوری اور کانٹے والی جگہ پر قازوں کے پنجوں کے نشان یہ بتا رہے تھے کہ قازوں نے یہاں دانہ کھایا ہے۔ اس کے باوجود آج ایک بھی قاز کانٹے میں نہ پھنسی۔
"یہ کیسے ہوا؟"
غور سے دیکھا تو سارے کانٹوں کی ڈوریاں تنی ہوئی تھیں۔ قازوں نے پچھلے دن کی ناکامی سے سیکھا ہوگا اور گھونگے کو جھٹ سے نہیں نگلا ہوگا۔ پہلے چونچ کی نوک سے گھونگے کو کانٹے سے نکالا ہوگا اور جب یقین ہو گیا ہوگا کہ کوئی خطرہ نہیں تو پھر کھایا ہوگا۔ یہ بات یقینی تھی کہ یہ ترکیب بھی ژان سے تسو نے سکھائی ہوگی۔ بوڑھے دائزو کے منہ سے بے اختیار حیرت کے ساتھ "اف" کی آواز نکلی۔
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قازیں یا بطخیں دیگر پرندوں کی نسبت کم چالاک ہوتی ہیں، مگر ایسی بات نہیں ہے۔ بوڑھے دائزو نے محسوس کیا کہ ان کے چھوٹے سے سر میں بڑا ذہن ہوتا ہے۔
٭٭٭
اس کے اگلے سال بھی ژان سے تسو بڑے جھنڈ لے کر آیا۔ ہمیشہ کی طرح دلدلی زمینوں پر سب سے کھلی ہوئی جگہ کو دانہ کھانے کے لیے منتخب کیا۔ بوڑھا دائزو بڑی فکر مندی کے ساتھ گرمیوں کے موسم سے ہر روز تھوڑے تھوڑے گھونگے چنتا رہا تھا۔ اس کے پاس گھونگوں کی پانچ بوریاں ہو گئیں۔ پھر اس نے قازوں کی پسندیدہ جگہ پر ان کو بکھیر دیا۔
"اب دیکھیں کیا ہوتا ہے؟" یہ سوچتے ہوئے وہ رات کے وقت وہاں گیا تو اس کے خیال کے مطابق قازوں نے وہاں جمع ہو کر خوب دانہ کھایا تھا۔ دوسرے دن بھی اسی جگہ پر بہت سے گھونگوں کو بکھیر دیا۔ اگلے دن اور اس کے اگلے دن بھی یہی عمل دہرایا۔ قازوں کو دلدلی زمینوں میں یہ جگہ سب سے زیادہ پسند آئی، کیوں کہ چار پانچ دن انہوں نے وہاں خوب دانہ کھایا تھا۔ بوڑھا دائزو خوشی سے مسکرا دیا۔
اب اس نے رات کو اس جگہ کے نزدیک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی اور اس میں چھپ گیا اور جھاڑیوں سے نکل کر اس جگہ آنے والی قازوں کا انتظار کرنے لگا۔
سورج تھوڑا سا ابھرا۔ جھونپڑی کے اندر ایک خوشگوار احساس کے ساتھ ہلکی ہلکی روشنی چھنتی ہوئی آئی۔ دلدلی زمینوں کی طرف آنے والی قازوں کا جھنڈ دور آسمان پر ایک سیاہ نقطے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ سب سے پہلے آنے والا یقیناً ژان سے تسو ہو گا۔ جھنڈ اور نزدیک آ گیا۔
"اچھا! اچھا! مگر تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔ اس جھنڈ پر بندوق چلا کر اب میں انہیں سبق سکھاؤں گا۔" بندوق کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے بوڑھے دائزو کے جبڑے اکڑ گئے تھے، لیکن ژان سے تسو احتیاط سے زمین کو دیکھتے ہوئے جھنڈ لے کے پہنچا۔ اس نے دانہ کھانے کے لیے اپنے پرانے اڈّے پر اچانک ایک جھونپڑی بنی ہوئی دیکھی جو کل تک نہیں تھی۔ شاید ژان سے تسو نے یہ سوچا ہو گا کہ راتوں رات بدلی ہوئی اس جگہ کے قریب نہ جائے۔ جھنڈ نے یکایک اپنا رخ بدلہ اور اس کشادہ دلدلی جگہ کے مغربی سرے پر اتر گیا۔ وہ کچھ اور نزدیک آتے تو گولی ان تک پہنچ جاتی، مگر ایک بار پھر ژان سے تسو کی وجہ سے ایک بھی قاز نہیں مل سکی۔ بوڑھا دائزو کشادہ دلدلی زمین کی دوسری طرف گھورتے ہوئے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔
٭٭٭
پھر اس دلدلی جگہ پر قازوں کی آنے کا موسم آ رہا تھا۔ بوڑھا دائزو ایک بڑے پیالے میں چھوٹی چھوٹی زندہ بام مچھلیاں بھر کر مرغی کے ڈربے کی طرف گیا۔ بوڑھے دائزو نے جیسے ہی ڈربے کا دروازہ کھولا ایک قاز پھڑپھڑاتی ہوئی اس کی طرف لپکتی ہوئی آئی۔
یہ قاز وہی تھی جسے دو سال پہلے بوڑھے دائزو نے کانٹے سے پکڑا تھا۔ اب وہ بوڑھے دائزو سے ہل گئی تھی۔ کبھی کبھی بوڑھا دائزو اسے گھمانے پھرانے کے لیے مرغی کے ڈربے سے باہر نکالتا تھا، مگر جب بوڑھا دائزو منہ سے سیٹی بجا کر اسے بلاتا تو وہ کہیں بھی ہوتی فوراً اس کے آس پاس آ جاتی اور اڑ کر اس کے کندھے پر بیٹھ جاتی۔
پیالے سے بام مچھلیاں کھاتی ہوئی قاز کو گھورتے ہوئے بوڑھے دائزو نے خود سے کہا، "اس سال اسے استعمال کروں گا۔"
بوڑھے دائزو کو برسوں کے تجربے سے یہ پتا چل گیا تھا کہ قازیں پہلے اڑنے والی قاز کے پیچھے اڑتی ہیں، اس لیے بوڑھا دائزو اس قاز کے ملنے کے بعد سے یہ سوچتا رہا تھا کہ میں ژان سے تسو کے ساتھ آنے والی قازوں کو پکڑنے کے لیے اسے دھوکے کی چڑیا کے طور پر استعمال کروں گا۔
پھر ایک دن بوڑھے دائزو نے سنا کہ ژان سے تسو کا جھنڈ آ گیا ہے تو وہ دلدلی زمینوں کی طرف گیا ہے۔
پچھلے سال جہاں بوڑھے دائزو نے جھونپڑی بنائی تھی وہاں سے بندوق کی مار سے تقریباً کافی فاصلے پر قازوں نے دانہ کھانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں گرمیوں کے موسم کے سیلاب کی وجہ سے ایک بڑا تالاب بن گیا تھا اور قازوں کے لیے غذا کی بہت افراط تھی۔
بوڑھے دائزو نے سوچا، "اس بار مجھے کامیابی حاصل ہوگی۔" وہ صاف نیلے آسمان کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
اس رات اپنی پالتو قاز کو اس جگہ پر چھوڑ کر وہ پچھلے سال بنائی ہوئی جھونپڑی میں چھپ گیا اور قازوں کا انتظار کرنے لگا۔
مشرقی افق پر سرخی پھیلی اور صبح نمودار ہوئی۔
ژان سے تسو ہمیشہ کی طرح جھنڈ کے سب سے آگے آگے خوبصورت صبح کے آسمان کی وسعتوں کو چیرتا ہوا پہنچا۔ ذرا سی دیر میں قازوں کا قافلہ زمین پر اترتا ہوا نظر آیا۔ قیں قیں کی پر شور آوازیں میدان میں پھیل گئیں۔ بوڑھے دائزو کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ تھوڑی دیر کے لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے دل کے پرسکون ہونے کا انتظار کیا اور ٹھنڈی ٹھنڈی بندوق کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بوڑھے دائزو نے اپنی آنکھیں کھول لیں۔
"اب آج ہی میں ژان سے تسو کو حیرت اور گھبراہٹ کا شکار کروں گا۔"
بوڑھے دائزو نے آہستہ سے اپنے ہونٹوں پر دو تین بار زبان پھیری اور اپنی قاز کو بلانے کا انداز میں سیٹی بجانے کے لیے اپنے ہونٹ سکیڑے۔ اسی وقت ایک زوردار پھڑپھڑاہٹ کی آواز کے ساتھ قازوں کا پورا جھنڈ ایک ساتھ اڑ گیا۔
"ارے! کیا ہوا؟"
بوڑھا دائزو جھونپڑی سے باہر نکل آیا۔ قازوں کے جھنڈ کی طرف سفید بادل کے ٹکڑے جیسی کوئی چیز نیچے آتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ ایک باز تھا۔ ژان سے تسو کے پیچھے قازوں کا جھنڈ پلک جھپکتے باز کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
"اف! ایک قاز پیچھے رہ گئی۔" وہ بوڑھے دائزو کی قاز تھی۔
بہت دنوں تک آدمی کے پاس رہنے کی وجہ سے اس کے جنگلی اطوار بدل گئے تھے۔ وہ قاز باز کی نظروں سے نہ بچ سکی۔ بوڑھے دائزو نے منہ سے سیٹی بجائی۔ ایسی خطرناک حالت میں بھی قاز نے اپنے پالنے والے کی سیٹی کی آواز پہچان لی اور وہ اس کی طرف مڑی۔ باز نے اس کا راستہ روک لیا اور ایک پنجہ مارا۔ سفید پر سرخ شفق میں چمک کر بکھر گئے۔ قاز کا بدن ایک طرف جھک گیا۔ جیسے ہی باز نے دوسری بار جھپٹنے کی تیاری کی فوراً ہی ایک بڑا سایہ آسمان پر نمودار ہوا۔ یہ ژان سے تسو تھا۔
بوڑھے دائزو نے بندوق کو اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے ژان سے تسو کا نشانہ لیا۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر بندوق نیچے کر لی۔
ژان سے تسو کے سامنے اب نہ تو آدمی تھا اور نہ باز۔ اس کے سامنے صرف ایک ساتھی تھا۔ جسے اس نے بچانا تھا۔ یکایک وہ دشمن کی طرف بڑھا اور اپنے بڑے بڑے پروں سے دشمن پر ضرب لگائی۔
اچانک حملے کی وجہ سے باز فضا میں گھبرا گیا، مگر وہ طاقتور تھا۔ فوراً بدن کو سنبھالتے ہوئے ژان سے تسو کے سینے پہ حملہ آور ہوا۔
پھڑ پھڑ!
بہت سے پر سفید پنکھڑیوں کی طرح شفاف آسمان پر بکھر گئے۔
ژان سے تسو اور باز دونوں ایک دوسرے سے بھڑے ہوئے دلدلی زمین پر آ گرے۔ بوڑھا دائزو ان کی طرف دوڑا۔
دونوں پرندے ابھی تک زمین پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے، مگر باز نے جیسے ہی انسانی صورت دیکھی تو فوراً لڑائی چھوڑ کر ڈگمگاتا ہوا اڑ گیا۔
ژان سے تسو کا سینہ لہولہان تھا اور وہ نڈھال ہو چکا تھا، مگر ایک دوسرے دشمن کو نزدیک آتے ہوئے دیکھ کر اپنی بچی کھچی طاقت سمیٹ کر گردن اوپر اٹھائی اور بوڑھے دائزو کے مقابل ہو کر اسے گھورنے لگا۔ وہ صرف پرندہ تھا مگر اس نے ایک سردار کی جرات کا مظاہرہ کیا۔
بوڑھے دائزو نے اپنے ہاتھ ژان سے تسو کی طرف بڑھائے مگر ژان سے تسو اب ساکن ہو چکا تھا۔ بوڑھے دائزو نے محسوس کیا کہ ژان سے تسو یہ سمجھنے کے باوجود کہ اس کا آخری وقت آ گیا ہے اپنی سرداری کے وقار کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بوڑھے دائزو کے دل پر اس کا اثر ہوا اور وہ یہ بھول گیا کہ وہ اس وقت ایک پرندے کے سامنے ہے۔
٭٭٭
ژان سے تسو نے بوڑھے دائزو کے پنجرے میں جاڑے کا ایک موسم گزارا۔ بہار کا موسم آتے آتے اس کے سینے کا زخم بھی ٹھیک ہو گیا اور بدن کی طاقت بھی بحال ہو گئی۔
یہ بہار کی ایک خوش گوار صبح کی بات ہے۔ بوڑھے دائزو نے پنجرے کا پٹ پورا کھول دیا۔ ژان سے تسو نے اپنی لمبی گردن جھکائی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے سامنے پھیلی ہوئی دنیا دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہے، مگر پھڑ پھڑ کی خوش کن آواز ابھری۔ اس نے سیدھے آسمان کی طرف اڑان کی۔ آلو بخارے کا پورا کھلا ہوا پھول ژان سے تسو کے پر سے ٹکرا کر برف کی طرح ہولے ہولے بکھر گیا۔
"اے قازوں کے سورما! تمہارے جیسے اونچی اڑان والے پرندے بزدلانہ طریقے سے نہیں پکڑنے چاہئیں۔ ہاں! اگلے جاڑے میں بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر دلدلی زمین پر آؤ! ہم پھر بہادرانہ جنگ لڑیں گے!"
پھولوں کے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے بوڑھے دائزو نے اونچی آواز میں قاز کو پکارا۔ ژان سے تسو کا رخ شمال کی جانب تھا۔ بوڑھا دائزو خوشی سے کھلے ہوئے چہرے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بڑی دیر تک ٹکٹی باندھے اسی طرف دیکھتا رہا۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، جولائی ١٩٩١ء سے لیا گیا۔