صیدون کا بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا ۔ تمام وزیر و مشیر حاضر تھے کہ ایک غلام نے حاضر ہو کر عرض کی۔ ‘’اخی اب کا ایلچی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔’‘
‘’حاضر ہو۔ ‘‘ بادشاہ نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ایلچی حاضر ہو کر آداب بجا لایا اور ایک خط بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کیا۔
بادشاہ نے خطبہ پڑھا اور قریب بیٹھی شہزادی ازابیل کی طرف بڑھا دیا۔ شہزادی نے خط پڑھ لیا تو بادشاہ نے پوچھا کیا خیال ہے بیٹی؟ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ جب میں شادی کر کے وہاں جاؤں تو محل میں جانے سے پہلے مندر جا کر بعل (جو کہ بنی اسرائیل اور اہل کنعان کا بت تھا)کے بت کو سجدہ کروں ۔’‘‘’اخی اب کو آپ کی تمام شرائط منظور ہیں شہزادی۔’‘ایلچی بولا۔ ٹھیک ہے جب بعل کا بت تعمیر ہو جائے تو اخی اب سے کہنا بارات لے کر آ جائے ۔ بادشاہ نے کہا اور ایلچی آداب بجا لا کر واپس پلٹ گیا۔
٭....٭
بعل کے دیوتا کے مندر کی تعمیر بڑے زور و شور سے ہو رہی ہے۔ شہر کا ہر چھوٹا بڑا بخوشی اس میں حصہ لے رہا ہے۔ اخی اب بذات خود تعمیری کام کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔ رعایا بھی سونے چاندی نظر کر رہے ہیں ۔ کچھ لوگ البتہ ایسے بھی ہیں جو مندر کی تعمیر کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ کے جانشینوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ ایک بڑی حماقت کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن ان کی بات کو اہمیت دینے والا کوئی نہ تھا۔ ایک دن بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ بعل کا دیوتا مکمل ہو چکا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی اور وہ فوراً اٹھ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ بعل کے دیوتا کے لئے عظیم الشان قربان گاہیں اور ہیکل بھی بنائے گئے تھے۔ یہ مندر اس قدر اہمیت حاصل کر گیا کہ بادشاہ نے شہر کا نام تبدیل کر کے بت کے نام پر ‘’بعلبک’‘ رکھ دیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ہیکل کو مقفل کر دیا جائے جب تک ہماری بیوی بعل کو سجدہ نہیں کرتی۔ اس کو عوام کے لئے نہیں کھولا جا سکتا۔
٭....٭
‘’بعلبک ‘‘شہر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا ۔ جشن کا سماں تھا ۔ اہل شہر نے رنگ برنگ کپڑے زیب تن کر رکھے تھے۔ بعلبک کا بادشاہ اخی اب صیدونیوں کی شہزادی کو بیاہ کر لا رہا تھا۔ جونہی بادشاہ کی سواری بعل کے مندر کے سامنے رکی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ قفل توڑا گیا۔ جب شہزادی نے بعل کے خوبصورت سونے سے تیار شدہ بت کو دیکھا تو بے اختیار سجدہ میں گر پڑی اور اپنے شوہر کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ بادشاہ اور ملکہ کی دیکھا دیکھی عوام بھی بعل کے سامنے سر بسجود ہو گئے اور دعائیں مانگی جانے لگیں ۔ ایسے میں اچانک ایک شخص ظاہر ہوا اس نے ایک اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر چلا چلا کر کہنا شروع کیا کہ
‘’اے اہل بعلبک!! کیا تم شریعت موسوی کو بھول گئے؟ کیا تم سامری کو بھول گئے؟ اس نے بھی تو بعل جیسا سونے کا مجسمہ بنایا تھا پھر تم جانتے ہو موسیٰ نے اس کے اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اے اہل بعلبک....! کیا تم موسیٰ کی آخرت کی دعوت کو بھول گئے ہو؟ کیا تم پچھلی امتوں اور ان کے انجام.... ابھی وہ بزرگ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اچانک مجمع میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے بزرگ کو زمین پر گرا کر مارنا شروع کر دیا ۔ بزرگ نے بچنا چاہا تو چررر.... کی آواز کے ساتھ ان کی قمیض پھٹتی چلی گئی۔ برچھیاں نکل آئیں اور ایک برچھی بزرگ کے دل کے مقام پر اندر گھستی چلی گئی۔ ایک کربناک چیخ برآمد ہوئی جو شیطانی قہقہوں میں دب کر رہ گئی اور بزرگ خدا کی وحدانیت کی شہادت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ شریعت موسوی کے آخری توحید پرست بزرگ تھے۔
٭....٭
کئی سال بیت گئے ہر طرف کفر و شرک اور طاغوت و شیطانیت کے جھکڑ چلنے لگے۔ بعل دیوتا کے سب سے بڑے پجاری بروشوس کے کہنے پر دیوتا کو انسانی جانوں کی بھینٹ دی جانے لگی۔ ہر مہینے بعل دیوتا کی خوشنودی کے لئے رقص و سرور کی محافل منعقد کی جانے لگی۔ یکایک اﷲ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور ‘’جلعاد’‘ کے علاقے سے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور وہ کھلے عام بعل دیوتا کے خلاف تبلیغ کرنے لگا جسے سن کر کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔ بادشاہ اخی اب اور کاہن بروشوس کو اپنے اقتدار کی موت نظر آنے لگی انہوں نے حکومتی اور مذہبی سطح پر آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ اﷲ کے بزرگ و برتر نبی حضرت الیاس تھے جن کو اﷲ نے نبوت دے کر بعلبک کی طرف روانہ کیا تھا ۔ تورات میں آپ کا نام ایلیاہ ہے۔
٭....٭
کیوں نہ الیاس سے کوئی معجزہ طلب کر لیا جائے۔ اخی اب نے بروشوس سے کہا اور اگر اس نے معجزہ دکھا دیا.... تو!! بروشوس نے خدشات کا اظہار کیا۔ پھر دیکھا جائے گا۔ جیسے آپ کی مرضی بروشوس بولا۔ ایک کھلے میدان میں بادشاہ کاہن اور شہر کے بہت سے لوگ جمع ہیں حضرت الیاس بھی وہاں موجود ہیں ۔ ایک بیل کو ذبح کر کے اس پر لکڑیاں رکھ دی گئیں تو بادشاہ نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر آسمان سے آگ اتر کر اس بیل کو جلا دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ورنہ تمہیں سزا بھگتنی ہو گی۔ حضرت الیاس بارگاہِ الٰہی میں عرض کرنے لگے اے باری تعالیٰ یہ لوگ معجزہ مانگتے ہیں شاید ایمان لے آئیں اپنی رحمت سے آگ بھیج دے جوان لکڑیوں کو جلا دے ابھی دعا ختم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ آسمان سے آگ ظاہر ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بیل اور بکریاں جل کر راکھ ہو گئیں ۔ معجزہ دیکھ کر اخی اب ایمان لے آیا اور اقرار کرنے لگا کہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں ۔ بادشاہ کو دیکھ کر بہت سے لوگ ایمان لے آئے۔ لیکن کاہن بروشوس نے بادشاہ اور لوگوں کو بہکانا شروع کر دیا کہ یہ معجزہ نہیں نظر بندی ہے اگرلیاس سچے نبی ہوتے تو اکثریت ان پر ایمان نہ لے آتی ان کے پیروکاروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ حضرت الیاس نے خبردار کیا۔ اے لوگو !میں اﷲ کا نبی ہی نہیں رسول بھی ہوں ویسا ہی جیساکہ نوح ، لوط اور موسیٰ تھے ۔یاد رکھو! اگر تم نے میرا انکار کیا تو ایک معینہ مدت کے بعد اﷲ تم پر عذاب کا کوڑا برسا دے گا۔ کیا ہود، لوط، نوح اور موسیٰ اور ابراہیم کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ تھی؟ اس پر تم خود ہی غور کرو۔ اخی اب سے دوبارہ ملنے کا کہہ کر الیاس وہاں سے روانہ ہو گئے۔ جب بروشوس نے بات بگڑتی دیکھی تو فوراً شہزادی ازابیل کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت (نعوذ باﷲ) ایک جادوگر سے متاثر ہو کر ایمان لے آئے ہیں اور بعل کے مندر کو توڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لہٰذا اب آپ ہی کچھ کر سکتی ہیں ۔ جب بادشاہ محل میں داخل ہوا تو ملکہ نے کہا کہ یہ میں کیا سن رہی ہوں ۔ تم ایمان لے آئے ہو ۔ یاد رکھو اگر تم نے اپنا دین چھوڑا تو میں واپس صیدون چلی جاؤں گی۔ اور اپنے باپ سے کہہ کر تم پر لشکر کشی کروں گی۔ بادشاہ یہ سن کر بڑا پریشان ہوا۔ وہ کسی صورت بھی ملکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا اس نے اعلان کرا دیا کہ میں نے (نعوذ با اﷲ) جذبات میں بہہ کر ایمان قبول کرنے کا اقرار کیا تھا لیکن اب میں جادو کے اثر سے نکل آیا ہوں ۔ لہٰذا بعل دیوتا کو اپنا رب تسلیم کرتا ہو ں ۔ یہ سن کر وہ لوگ بھی مرتد ہو گئے۔ جو کہ بادشاہ کے ساتھ ایمان قبول کر چکے تھے۔ حضرت الیاس لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ انہوں نے بادشاہ سے ملاقات کرنا چاہی مگر بروشوس نے ان کو محل کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا۔ حضرت الیاس لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے مگر چند لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نہ لایا تو انہوں نے خبردار کیا کہ اب پانی کا ایک قطرہ بھی نہ برسا کرے گا۔ تمہاری کھیتیاں خشک ہو جائیں گی اور تم سخت عذاب میں مبتلا ہو جا ؤ گے مگر لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا اور آخر کار وہ اﷲ کے حکم سے اپنے ماننے والوں کو لے کر اس بستی بعلبک سے نکل آئے اور دوسرے ہی لمحہ اﷲ کا عذاب قہر بن کر ٹوٹا ۔ ساری بستی نیست و نابود ہو گئی ۔ہر طرف گردو غبار چھا گئی ۔ آسمان سے مٹی کے بڑے بڑے تودے گرنے لگے۔ چیخ و پکار آہ و بکا مچ گئی۔ آواز اس قدر شدید تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی جو لوگ گھروں میں تھے باہر نہ نکل سکے اور باہر والے اندر نہ جا سکے۔ چند لمحوں بعد ہی صرف ‘’بعلبک’‘ کے کھنڈرات اپنی بے بسی پر ماتم کرتے نظر آنے لگے آج بھی یہ کھنڈرات اﷲ کے عذاب کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔
(ماخذ : قرآن مجید، قصص القرآن، تدبر القرآن ، از امین احسن اصلاحی)
٭٭٭