کملا بائی نے ایک نیولا پالا تھا۔ جو اُس کی چھوٹی سی جھونپڑی میں کملا بائی کے آگے پیچھے گھومتا پھرتا رہتا تھا، اور کملا بائی کے چھوٹے بچّے کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ نیولے پر کملا بائی بہت زیادہ مہربان تھی وہ اُسے بہت چاہتی تھی۔ اُس کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتی تھی۔ پاس پڑوس کے بچّے نیولے کو دیکھنے کے لیے کملا بائی کے گھر آتے اور کہتے :
’’نیولے راجا، نیولے راجا باہر آؤ باہر آؤ ہم کو اپنا چہرا دکھاؤ۔‘‘
نیولا گھر سے نکل کر اُن لڑکوں کے دلوں کو لُبھاتا، بچّے اُس کو دیکھ کر بے حد خوش ہو جاتے۔
کملا بائی کے گھر سے گاؤں کا کنواں دوری پر تھا۔ پانی لانے کے لیے جب کملا بائی کنویں پر جانے لگتی تو اپنے چھوٹے بچّے کو جھونپڑی میں سُلا دیتی تھی اور جھونپڑی کا دروازہ بند کر دیتی تھی۔ ایمان دار نیولے کے ہوتے ہوئے مجھے خطرہ کس بات کا؟ …یہ سوچتے ہوئے کملا بائی چین سے کنویں پر جاتی اور پانی بھر بھر کر لاتی۔ کملا بائی روزانہ کی طرح آج بھی کنویں پر آئی، اور جب گھر واپس آئی تو اُسے بہت عجیب و غریب لگا، اُس نے اپنے پاوں سے جھونپڑی کا دروازہ کھولا۔ نیولا ایک لمبی چھلانگ لگا کر اُس کے قریب آیا اور پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کملا بائی نے کیا دیکھا کہ اُس کے منہ سے خون ٹپک رہا ہے اور اس کے جسم پر جگہ جگہ خون کے دھبّے ہیں ۔ کملا بائی کو حیرت ہوئی۔ اُس نے یہ سمجھاکہ نیولے نے اُس کے چھوٹے بچّے کو مار ڈالا ہے اور یہ خون اُسی کا ہے۔ کملا بائی کو بہت غصّہ آیا اور اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے سر پر رکھے ہوئے پانی کے ہنڈے سے کو نیولے کے سر پر زور سے مار دیا اور چلّانے لگی : ’’ہائے میرا بچّہ! ہائے میرا بچّہ! لیکن پھُرتیلا نیولا کملا بائی کے ارادے کو بھانپ کر جلدی سے دوسری طرف ہٹ گیا۔ کملا بائی نے دوبارہ اُسے مارا، اب کی بار نیولے کو چوٹ آ گئی اور وہ ادھ مَرا ہو کر بے ہوش ہو گیا۔ کملا بائی نے نیولے کو بڑی حقارت سے ٹھوکر مار کنارے کیا اور جلدی جلدی جھولے کی طرف بڑھی، لیکن کیا دیکھتی ہے کہ بچہّ آرام سے سورہا ہے اور پاس ہی ایک خطرناک زہریلا سانپ بھی مرا پڑا ہے۔
کملا بائی کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی وہ گھبرائی گھبرائی نیولے کی طرف بڑھی۔
ہوا یوں تھا کہ جب کملا بائی کنویں پر گئی تو ایک سانپ اس کی جھونپڑی میں گھس گیا قریب تھا کہ وہ ننھّے بچّے کو نقصان پہنچائے نیولے نے اُس کو کاٹ کاٹ کر مار ڈالا اور اپنی مالکن کے بچّے کی جان بچا کر وفاداری نبھائی۔
کملا بھائی نے نیولے کی طرف دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور خود سے کہنے لگی: ’’ یہ میں نے کیا کِیا؟… ایسی کیسی میں ناسمجھ اور بے وقوف؟ … میرے ننھّے بچّے اور میری جھونپڑی کے رکھوالے وفادار نیولے کو میں نے مار دیا، آہ آہ! … یہ کیسا میرے دل نے ظلم کیا، آہ آہ! …
یکایک اس نے دیکھا کہ نیولے نے اپنی آنکھ کھول دی، جلدی سے کملا بائی نے اُس کے منھ پر پانی کا چھینٹا مارا اور اس کے زخموں کو صاف کر کے دوائی لگا دی اور روتے روتے کہتے جاتی کہ:’’ میرے وفادار نیولے مجھے معاف کر دے، میرے وفادار نیولے مجھے معاف کر دے۔‘‘
٭٭٭