06:09    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

2267 0 0 00

جگّا ڈاکو اور جادوئی غار

پہاڑیوں کے بیچ مستان پور نامی ایک خوش حال ریاست تھی۔ وہاں جگّا نامی ایک ڈاکو بھی رہتا تھا۔ وہ پہاڑیوں کے پاس سے گذرنے والے مسافروں اور بیوپاریوں کو اپنا شکار بنا کر لوٹ لیتا تھا۔ جگّا کو زندہ یا مُردہ گرفتاری کروانے پر راجا نے ڈھیر سارے انعامات کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہ بھیس بدلنے میں بہت ماہر تھا اسی لیے آج تک آزاد گھوم رہا تھا۔

          ایک بار بھولا نام کا ایک لڑکا دو عربی گھوڑے لے کر جا رہا تھا کہ اچانک جگّا نے اس کا راستہ روک لیا اور تلوار نکال کر کڑکتے ہوئے لہجے میں بولا:’’ اے چھوکرے! اگر جان کی سلامتی چاہتا ہے تو یہ گھوڑے مجھے دیدے۔‘‘

          مشہور ڈاکو جگّا کو اپنے سامنے اس طرح تلوار لیے ہوئے کھڑا دیکھ کر بھولا پہلے تو بُری طرح سہم گیا لیکن پھر اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے پوری ہمت جٹا کر بولا:’’ سردار!ایک گھوڑا تو مَیں دے سکتا ہوں لیکن دوسرا گھوڑا مَیں کسی بھی قیمت پر نہیں دوں گا۔‘‘

          ’’کیوں نہیں دو گے؟‘‘ جگّا نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔

          ’اگر دونوں گھوڑے دے دیا تو پھر مَیں دو گُنا کیسے کروں گا؟‘‘بھولا نے سہم کر کہا۔

          ’’کیسا دو گُنا؟‘‘ جگّا نے جھٹ سے پوچھا۔

          ’’تھوڑی دور پر ایک جادوئی غار ہے، مَیں روز اُس کے اندر ایک گھوڑا بھیجتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ دو گُنا ہو کر آ جاتا ہے۔ اُس میں سے ایک گھوڑا مَیں شہر لے جا کر بیچ دیتا ہوں۔‘‘بھولا نے جگّا کو تفصیل سے بتایا۔

          جگّا کو بھولا کی باتوں پر بھروسہ نہیں ہوا۔وہ اپنی بات پر اَڑا رہا کہ مجھے دونوں گھوڑے دیدے ورنہ مَیں تیری گردن کاٹنے سے دریغ نہیں کروں گا۔بھولا نہ مانا اس نے کہا ایک گھوڑا لے لو، دوسرا میرے پاس دو گُنا کرنے کے لیے رہنے دو۔تھوڑی دیر بعد جگّا نے کچھ سوچ کر کہا کہ :’ ’ چل چھوکرے! مجھے بھی وہ جادوئی غار دکھا دے۔‘‘

          وہاں سے ۵؍ میل دور ایک سُنسان علاقے میں پہاڑی کی ڈھلوان پر ایک غار تھا۔ بھولا نے اپنا ایک گھوڑا اس غار میں بھیج دیا۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ گھوڑا واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک اور گھوڑا تھا۔

          جگّا ڈاکو کو بہت تعجب ہوا۔اُس نے پوچھا :’’اس جادوئی غار میں اگر دو گھوڑے بھیج دیے جائیں تو کیا ہو گا؟ ‘‘

          ’’پتا نہیں مَیں نے کبھی یہ کوشش ہی نہیں کی مَیں ہمیشہ اس غار میں ایک ہی گھوڑا بھیجتا رہا ہوں۔ ‘‘ بھولا نے بڑے ہی بھولے پن سے جواب دیا۔

          ’’چلو! آج کوشش کرتے ہیں جگّا نے جواب دیا اور اُس نے غار میں دو گھوڑے داخل کر دیے۔

          آدھے گھنٹے بعد چار گھوڑے واپس آ گئے۔ یہ دیکھ کر بھولا اپنے منہ پر طمانچے مارتے ہوئے زور زور سے چلانے لگا کہ :’’ مَیں پاگل ہوں، مَیں پاگل ہوں۔‘‘

          ’’مَیں نے آج تک صرف دو گھوڑے بنائے ہیں، جب کہ اس جادوئی غار میں دو کے چار، چار کے آٹھ، آٹھ کے سولہ اور سولہ کے ۔۔۔۔۔۔ گھوڑے بن سکتے ہیں۔ ہائے ہائے! اگر پہلے اس بات کا پتا ہوتا تو مَیں تو کب کا کروڑ پتی بن چکا ہوتا۔ ‘‘بھولا اپنے بال نوچتے ہوئے بول رہا تھا۔

          ’’کوئی بات نہیں بچّے! اب چار کے آٹھ، پھر سولہ، بتیس اور چونسٹھ گھوڑے بنا لے۔‘‘ جگّا نے ہنستے ہوئے بھولا کو سمجھایا۔

          یہ سُن کر بھولا کے اوپر پاگل پن کا مزید دورہ پڑ گیا۔ وہ اپنی چھاتی پیٹتے ہوئے اور زیادہ زور زور سے رونے لگا۔ ’’اب کیا ہو گیا؟‘‘ جگّا نے پوچھا۔

          ’’جِس سادھو نے مجھے اِس غار کا پتا بتایا تھا اُس نے کہا تھا کہ اس جادوئی غار میں صرف گیارہ مرتبہ گھوڑے دو گُنے ہوسکتے ہیں۔ مَیں دس بار گھوڑے دو گُنے کر چکا ہوں اب صر ف ایک ہی موقع بچا ہے۔‘‘ یہ بات بتاتے ہوئے بھولا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔

          یہ بات سُن کر جگّا کا چہرہ بھی اُتر گیا۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے بھولا سے کہا :’’ کوئی بات نہیں ہم اب بھی کافی پیسا کما سکتے ہیں۔ ‘‘-’’ وہ کیسے ؟‘‘بھولا نے فوراً پوچھا۔

          جگّا بھولا کو اپنا منصوبہ سمجھانے لگا، جسے سُن کر بھولا بہت خوش ہو گیا۔جگّا یہ راز کسی اور کو بتانا نہیں چاہتا تھا اور اُسے بھولا جیسے بھولے بھالے لڑکے سے کوئی ڈر نہ تھا۔ جگّا اور بھولا دونوں نے شہر جا کر جگّا کی تمام تر جمع شدہ دولت سے ڈھیر سارے گھوڑے خرید لیے اور ان گھوڑوں کو لے کر دونوں اُس جادوئی غار کے قریب آئے۔

          ایک ایک کر کے دونوں نے سارے گھوڑے غار میں داخل کر دیے۔ دھیرے دھیرے کئی گھنٹے گذر گئے دو گُنا ہونا تو دور کی بات جتنے گھوڑے اندر گئے تو وہ بھی واپس نہیں آئے۔ جگّا پریشان ہو اُٹھا۔

          ’’چلو! اندر چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ بھولا نے رائے ظاہر کی۔

          دونوں غار کے اندر گھس گئے۔ وہ بہت لمبا تھا۔ چلتے چلتے دونوں کافی دور تک نکل گئے۔ لیکن گھوڑوں کا کچھ بھی پتا نہ چلا۔ اچانک ایک سرے پر انھیں روشنی دکھائی دی۔ ’’ارے ! یہ تو غار نہیں بل کہ سرنگ ہے۔‘‘جگّا روشنی دیکھ کر چونک پڑا۔

          ’’اور ہم نے تمہیں پکڑنے کے لیے اِس سرنگ کا سہارا لیا ہے۔‘‘ بھولا نے ہنستے ہوئے کہا۔

اسی کے ساتھ اندھیرے میں چھپے بھولا کے گاؤں کے درجنوں نوجوان لاٹھی ڈنڈا لیے جگّا پر پِل پڑے اور اس کو زندہ گرفتار کر لیا۔ جگّا سمجھ گیا کہ جب وہ ایک یا دو گھوڑے اندر ڈالتے تھے تو بھولا کے گاؤں والے اس سے دو گُنا گھوڑے باہر نکال دیتے تھے۔

          اس طرح بھولا کی عقل مندی سے خطرناک ڈاکو جگّا گرفتار ہو گیا، لوگ اسے پکڑ کر راجا کے دربار میں لے گئے راجا نے بھولا کو خوب خوب انعام سے مالا مال کر دیا۔( ڈی۔ جی۔ سنجے )

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔