ایک بار ایک ہاتھی جنگل میں گھومنے کے لیے نکلا۔ ہاتھی بہت ہی زیادہ رحم دل اور اچھی عادتوں والا تھا۔ وہ ہاتھی اپنی دُم ہلاتا، آنکھیں مٹکاتا، جھومتا، گاتا چلا جا رہا تھا۔
جب وہ ندی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ چوہے کا ایک چھوٹا سا بچّہ پانی میں ڈوبا جا رہا ہے۔ وہ بچّہ زور زور سے بچاؤ بچاؤ بھی چلاتے جا رہا تھا۔ ہاتھی کو اس پر رحم آ گیا وہ فوراً پانی میں اترا اور چوہے کے بچّے کو اپنی سونڈ میں اٹھا کر باہر نکال لایا اور وہاں سے چلنے لگا۔
چوہے کے بچّے نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیا اور بائے بائے کہہ کر اپنی بِل کی طرف چل دیا۔ ایک چڑیا درخت پر بیٹھی ہوئی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس کو خود اپنا انڈہ سیتنا بھاری پڑ رہا تھا وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھی کہ کوئی صورت نکل آئے کہ میں انڈے سے اٹھ کر کہیں اڑ جاؤں۔
وہ ہاتھی کو دیکھ کر ہنستے ہوئے اس سے بولی:’’ کہو! ہاتھی بھائی کہاں جا رہے ہو؟‘‘
ہاتھی بولا :’’ ’’ بس بہن! ذرا جنگل کی سیر پر نکلا ہوں۔‘‘
چڑیا بولی:’’ ہاتھی بھائی! میں نے دیکھا تم بہت رحم دل ہو، ابھی ابھی تم نے چوہے کے ایک چھوٹے سے بچّے کی جان بچائی، واقعی یہ ایک بہت اچھا کام کِیا تم نے۔ میرا بھی ایک کام کر دو گے۔‘‘
ہاتھی نے کہا :’’ بولو بہن! کیا کام ہے؟‘‘ چڑیا بولی:’’ میں کل سے بھوکی پیاسی یہاں بیٹھی ہوں، گھونسلے کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتی، کیوں کہ گھونسلے میں میرے انڈے ہیں۔ اگر تم کچھ دیر اس کی دیکھ بھال کرو تو میں اپنے کھانے کا کچھ انتظام کر لیتی ہوں۔ میرے آنے تک تم انڈے کو سیتے رہنا۔‘‘
ہاتھی بولا:’’ کیا پھر تم مجھے اپنے بچّے کے ساتھ کھیلنے دو گی؟‘‘
’’ہاں ہاں ! کیوں نہیں ؟‘‘چڑیا کہنے لگی۔
بچّے کو دیکھنے اور اس کے ساتھ کھیلنے کے لالچ میں بے چارا ہاتھی مان گیا۔ چڑیا نے سوچا کہ ہاتھی انڈے کو سیتا بھی رہے گا اور اس کے گھونسلے کی نگرانی بھی ہوتی رہے گی۔ اور وہ گھومتی پھرتی اور موج مستی اڑاتے رہے گی۔
بے چارہ سیدھا سادا ہاتھی انڈے پر بیٹھا اسے سیتا رہا اور بے فکر چڑیا نہ جانے کہاں کہاں موج مستی اڑاتے پھرتی رہی۔ ہاتھی اس انتظار میں تھا کہ انڈے سے کب بچّہ نکلے اور میں اس کے ساتھ کھیلوں۔ کئی دن گذر گئے انڈے سے بچّہ بھی نہ نکلا اور چڑیا بھی نہیں آئی۔
وہاں سے جو بھی جانور گذرتے وہ ہاتھی کا مذاق اڑاتے کہ :’’ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ہاتھی کے سینے سے انڈے سے بچّہ نکلا ہو؟‘‘ ہاتھی بے چارا سنتا اور چُپ رہ جاتا اور اسی طرح انڈے کو سیتا اور گھونسلے کی حفاظت کرتا رہا۔ لیکن کئی دن بیت جانے کے باوجود چڑیا نہیں آئی۔
ایک دن سرکس والوں نے ہاتھی کو دیکھا وہ اسے پکڑ کر سرکس میں لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن ہاتھی بچّے کے انتظار میں ٹس سے مس نہ ہوا۔ سرکس والوں نے جب یہ دیکھا تو اسے گھونسلے سمیت اٹھا کر لے گئے۔ ہاتھی انڈے پر بیٹھا ہی رہا وہ کسی بھی طرح سے کھڑا نہ ہوا۔ سرکس والوں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ کوئی کرتب دکھائے لیکن ہاتھی بیٹھا ہی رہا۔اور وہ جو بھی کرتا بیٹھے ہی بیٹھے کرتا۔ وہ انڈے پر بیٹھے بیٹھے ہی بینڈ بجاتا اور لوگوں کو ہنساتا۔
یہ بھی لوگوں کے لیے ایک حیرت انگیز اور دل چسپ بات بن گئی کہ ہاتھی انڈے پر بیٹھا ہوا اُسے سیت رہا ہے۔ دیکھیں بچّہ نکلتا ہے یا نہیں ؟
ایک دن انڈہ ہِلنے لگا۔ ہاتھی گھبرا گیا کہ یہ کیا ہوا؟ انڈہ چٹکا اور ٹوٹ گیا۔ انڈے سے بچّہ باہر نکلا تو سب لوگ حیران رہ گئے کہ انڈے سے ایک چھوٹا سا خوب صورت عجیب و غریب بچّہ نکلا جو آدھا ہاتھی جیسا اور آدھا چڑیا جیسا تھا۔ یہ تو لوگوں کے لیے ایک اچھا خاصا عجوبہ ہو گیا۔ ہاتھی اور وہ بچّہ دونوں مل کر خوب کھیلتے کودتے اور سرکس میں طرح طرح کے کرتب دکھا کر لوگوں کو لطف اندوز کرتے۔ ہاتھی اور اس کے بچّے کی وجہ سے اُس سرکس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ یہاں تک کہ جنگل میں بھی اس سرکس کے اس عجیب و غریب بچّے کی خبر پہنچ گئی۔
جب بے فکر چڑیا کو اس بات کا پتا چلا تو وہ بھی ایک دن سرکس دیکھنے کے لیے شہر میں آئی۔ اڑتے اڑتے جب وہ سرکس میں گھسی تو ایک نظر میں اس نے ہاتھی کو پہچان لیا۔ کھیل ختم ہونے کے بعد جہاں ہاتھی بندھا ہوا تھا وہاں جا کر چڑیا نے اس سے کہا :’’ اے بھائی ہاتھی ! مجھے پہچانا کہ نہیں ؟ میں وہی چڑیا ہوں جس کے انڈے سے یہ بچّہ نکلا ہے۔‘‘
ہاتھی نے کہا :’’ ہاں ہاں ! تجھ جیسی بے فکر چڑیا کو کون بھول پائے گا؟ جسے خود اپنے انڈے اور بچّے کا خیال نہ ہو۔‘‘
چڑیا نے بہانا بنایا کہ :’’ میں راستا بھٹک گئی تھی، اب بہت دنوں بعد جنگل میں پہنچی ہوں کہ مجھے تمہارے سرکس کی خبر ملی سو میں یہاں آ گئی۔ اب مجھے میرا بچّہ واپس کر دو۔‘‘
چڑیا کی یہ بات سُن کر ہاتھی کو دکھ پہنچا کہ انڈے کے پاس چھوڑ کر یوں مجھ سے دور چلی گئی اور اب بچّے پر حق جتانے آ گئی۔ اس نے کہا کہ :’’ اس معاملے میں مَیں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا بل کہ بچّے سے پوچھا جائے کہ وہ کس کے ساتھ رہے گا؟‘‘
جب بچّے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا:’’ اصل ماں تو میری ہاتھی ہی ہے کیوں کہ اسی نے انڈے سے نکلتے تک میری حفاظت کی اور مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا۔ اے چڑیا! تُو تو انڈہ دینے کے بعد اس کو سینے کی تکلیف سے نجات پانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔ اب جا یہاں سے میں تیرے ساتھ ہر گز ہرگز نہیں جاؤں گا، بل کہ میں ہاتھی ہی کے ساتھ رہوں گا۔ ‘‘
اتنا سُن کر ہاتھی بہت خوش ہوا جب کہ بے فکر چڑیا وہاں سے منھ لٹکائے چُپ چاپ چلی گئی۔