04:21    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

2105 0 0 00

سانپ - عصمت چغتائی

سانپ

(ایک ایکٹ کا ڈرامہ)

افراد

رفیعہ:ہلکی پھلکی تیتری کی مانند، بھوری جاندار آنکھیں  اور بات کے ساتھ جنبش کرنے والی بھویں ، موٹے ، موٹے ابھرے ہوئے ہونٹ  اور  چپٹی سی ناک مگر رنگ نہایت شفاف، چہرے پر بوقت ضرورت غصہ  اور  معصومیت دونوں اپنا اپنا رنگ دکھا سکتے ہیں۔ لوگ اسے حسین کہتے ہیں۔

سید:رفیعہ کا بھائی۔ گورا رنگ۔ درمیانہ قد۔ سریع الحس  اور زود رنج لیکن جلد ہی من جاتا ہے مگر چہرے کی  اور آنکھوں کی بناوٹ ہی کچھ ایسی کہ پتہ نہیں چلتا کہ رفیعہ سے چھوٹا ہے یا بڑا یقیناً دونوں توام تو نہیں۔

خالدہ:گورا بدن۔ اگر احتیاط نہ کرے گول مٹول ہو جائے۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں جنھیں وہ جان کر نیم باز رکھتی ہے۔ گندمی رنگ، پاؤڈر کی مدد سے  ذرا کھلتا  ہوا سنہرا۔ پھولے ہوئے گال جن سے معصومیت ٹپکتی ہے  اور  غصہ تو گویا آتا ہی نہیں۔

تراشے ہوئے بال گچھوں کی صورت میں شانوں پر پڑے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ  اور بادامی ناخن، چلنے میں بار بار معصومانہ غرور سے دونوں شانوں کو دیکھتی ہے۔

غفار:نہایت حسین  اور نازک۔ اس کے باوجود دراز قد، شاعرانہ چال  اور  مصوروں کے سے صاف  اور ستھرے ہاتھ۔ ہندوستان میں اتنے دلکش چہرے بہت کم نظر آتے ہیں۔ یہ رفیعہ کی خوش قسمتی ہے کہ غفار سے اس کی منگنی ہو گئی تھی  اور اب شادی میں زیادہ کچھ دیر نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا۔ دادی جان کے اصول کے مطابق اپنے گھر  اور کالج کے علاوہ آج تک قسم لے لو کہیں نہیں گیا۔ ہاں سسرال آ جاتا ہے۔ یہاں اسے شرم اس قدر آتی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رفیعہ سے بے تکلف بھی نہیں۔

نوکر:ایسا جیسے عام نوکر ہوا کرتے ہیں فرمانبردار، محنتی، ڈانٹ برداشت کرنے والا۔

وقت:صبح آٹھ بجے گرمی کا دن۔

لباس:بہترین فیشن۔

اسٹیج:صرف ایک کمرہ جس میں سید رہتا ہے  اور امیرانہ ٹھاٹھ کا ڈرائنگ روم۔

سید کا کمرہ:(کمرے میں دائیں  اور بائیں ایک ایک دروازہ  اور پشت پر ایک دروازہ  اور کھڑکی۔ جس میں باغ  اور پیڑ وغیرہ  نظر آتے ہیں۔ ایک طرف ایک پلنگ  اور چند کرسیاں  اور میزوں پر کتابیں رکھی ہیں۔ ایک آرام کرسی پر سید آگے کو جھکا ہوا شیو کر رہا ہے۔ شیو کا سامان ایک بہت ہی چھوٹی میز پر رکھا ہوا ہے جس پر سے کوئی چیز اٹھانے میں بڑی مہارت کی ضرورت ہے۔ ورنہ دو تین چیزیں  اور ٹکی چلی آتی ہے۔ سید کے چہرے پر کسی تازہ غم کے آثار ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے وہ بہت چھپا رہا ہے۔ ذرا میلا سا رات کا لباس پہنے ہے  اور بے انتہا سنجیدہ، بھویں چڑھائے ہوئے بیٹھا ہے۔)

سین نمبر(۱)

رفیعہ:(ایک بادامی رنگ کے کوٹ کے بازو پر ایک پٹی ٹانکتی ہوئی آہستہ آہستہ آتی ہے)لو سید(دانت سے تاگا توڑتے ہوئے)لاؤ اس دودھیا کوٹ کو ٹھیک کر دوں !

سید:(شیو روک کر بھنا کر کھڑا ہو جاتا ہے)ہیں !ٹھیک کر دو ٹھیک کر دو گی؟ (عاجز آ کر)۔۔۔ آخر یہ میرے ہر کوٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو (کوٹ چھین کر) چھوڑو ادھر آخر یہ کیوں؟

رفیعہ:(سنجیدگی سے ڈورے میں گرہ لگاتے ہوئے) ہوں تو تمہارا ارادہ ہے کہ ابا جان کے انتقال کے بعد ذرا بھی اظہار غم نہ کرو۔ آخر دنیا کیا کہے گی کہ ایک ذرا سا ٹکڑا لگانا بھی دشوار ہے۔ لاؤ دودھیا کوٹ کہاں ہے؟

سید:کیا کہے گی دنیا؟ بکنے دو مجھے یہ  دکھاوٹ پسند نہیں۔

رفیعہ:تم تو۔۔۔ بس دیوانے ہو۔ آخر اس میں کیا برائی ہے؟

سید:ہونے دو مجھے دیوانہ۔ کیا دنیا میں ہمیں ڈگی پیٹنی ہے کہ بھئی ہمارے باپ کا انتقال ہو گیا ہے جس کا ہمیں بہت ہی صدمہ ہے یقین نہ آئے تو دیکھ لو کالی پٹی۔

رفیعہ:یہ میرا مطلب نہیں۔

(کرسی پر بیٹھ کر ناخون سے تاگا سوت رہی ہے۔)

سید:پھر آخر تمہارا مطلب کیا ہے۔ یہ جو تم نے سیاہ کپڑے پہنے ہیں ، خوب جانتا ہوں ، کیوں پہنے ہیں !

رفیعہ:کیوں پہنے ہیں ، ذرا بتانا تو سہی۔

سید:اس لیے کہ ذرا گوری نظر آؤ۔

رفیعہ:پاگل کیا میں ویسے نہیں پہن سکتی!

سید:(کچھ نہ سن کر تولیہ سے منھ رگڑتے ہوئے)  اور دوسرے اس لیے کہ کالج کے لڑکے سوچیں کہ بڑی۔۔۔  فرمانبردار بیٹی۔ دیکھو نا کیسا ماتمی لباس پہن رہی ہے بچاری!

رفیعہ:(نفرت سے)اوہو۔۔۔ قطعی نہیں۔

سید:پھر شاید اس لیے کہ لوگوں پر ظاہر کر دوکہ تمہارا مذاق اس معاملے میں شیلا، خالدہ وغیرہ سے بلند ہے ، وہ کبھی اتنے میچنگ ماتمی لباس نہیں پہن سکتیں ، جتنے تم پہن سکتی ہو۔

رفیعہ:جھوٹ، بالکل غلط، شیلا  اور خالدہ دونوں کے باپ زندہ ہیں۔

سید:(لاپرواہی سے) تو مائیں مری ہوں گی۔

نوکر:(دروازے میں آ کر دو ایک  بار کھنکارتا ہے  اور کوٹ کا کالر پکڑ کر کھینچتا ہے۔)ہم سرکار۔۔۔ غفار میاں آئے ہیں۔

سید:(غصہ سے کرسی ڈھکیلتا ہے) اونھو!لاحول ولاقوۃ!

رفیعہ:کیوں آخر اترانے کیوں لگے۔

سید:(ویسے ہی چڑ کر) یہ کہاں کی رسم ہے کہ ایک تو انسان ویسے ہی پریشان ہو اور اوپر سے لوگ آ کر جان کھائیں۔

(ڈریسنگ گاؤن پہن لیتا ہے۔)

رفیعہ:مگر سید غفار ہیں۔

سید:(گھٹی ہوئی آواز میں) غفار نہیں ، اس کا باپ بھی ہو تو کیا کروں ، مجھے ان پرسہ دینے والوں سے چڑ ہے۔ بار بار گویا چھیڑنے چلے آ رہے ہیں۔

رفیعہ:(طعن سے)صبح سے نہ جانے کون کون تمہارے دوست چلے آ رہے ہیں تو کچھ نہیں اب غفار کے آنے سے جل گئے۔

سید:(جھلا کر) تم  اور مجھے جلا رہی ہو۔ جو بھی آ رہے ہیں بے وقوف ہیں مانا کہ غفار تمہارا منگیتر ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہر وقت سر پر سوار رہے۔

رفیعہ:(چڑ کر)اوہ شرم نہیں آتی۔ سب کے سامنے منگیتر کہہ دیا کرتے ہو۔

سید:اوہو تو گویا آپ شرماتی ہیں نا اپنے منگیتر سے۔

رفیعہ:یوں تو نہ کہو کافی شرماتی ہوں۔

سید:(منہ سکیڑ کر) کافی شرماتی ہو۔ میں کہتا ہوں جب تمہیں اس سے شادی ہی نہیں کرنی تو پھر اس سے چالیں کیوں چلا کرتی ہو۔

رفیعہ:اے ہے باولے نہ بنو(آہٹ سن کر) شش۔ چپ۔

(آہستہ سے پردہ ہلتا ہے  اور غفار اندر آتا ہے۔ حسین  اور بھولے چہرے کو غم  اور گھبراہٹ نے  اور بھی معصوم بنا دیا ہے۔ تھوڑی دیر تک بے تکی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ تینوں خاموش ہیں۔ سید کو بھی غصہ ہے۔)

غفار:(سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے ہمت کر کے)اف!کس قدر اداسی چھائی ہوئی ہے۔

سید:(کٹتے ہوئے لہجہ میں) معاف کرنا۔۔۔  غفار!یہی بالکل یہی جملہ تم صبح دہرا چکے ہو۔

غفار:(سٹپٹا کر رحم طلب نگاہوں سے رفیعہ کو دیکھتا ہے جو سید کو تنبیہاً گھورتی ہے ، ہمت کر کے)رفیعہ!آپ کا ارادہ تعلیم جاری رکھنے کا ہے؟

سید:(رفیعہ کے بولنے سے پہلے ہی) کیوں؟بھلا ایسی کیا خوشی کی بات ہوئی ہے جو یہ پڑھنا چھوڑ بیٹھیں گی۔ خوب!

غفار:(گھبرا کر) یہ میرا مطلب نہیں۔۔۔  میرا مطلب ہے کہ اماں جان تنہا ہو جائیں گی۔

سید:ہونھ!جیسے یہ ان کے پہلو ہی سے لگی بیٹھی رہتی ہیں۔

غفار:انھیں ایک غمخوار  اور ہمدرد کی تو ضرورت ہو گی۔

سید:(جل کر)کس قدر بے وقوف ہو تم۔ بھلا یہ بیگم صاحبہ اماں جان کی کیا دلجوئی کریں گی۔بھئی ان کے شوہر کا انتقال ہوا ہے  اور یہ قطعی نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔

رفیعہ:(تنبیہاً) سید!!

غفار:(مردہ آواز میں)بھئی سید!نہ میں تمہاری طرح چالاک ہوں  اور نہ چرب زبان!

سید:پھر آپ کو پرسہ دینے کی آفت کیا پڑی ہے۔

رفیعہ:(ڈانٹتے ہوئے) سید تم  تو انسان کے پیچھے پڑ جاتے ہو۔

سید:(لڑائی کے لہجہ میں) تم کون غفار کی حمایت لینے والی۔ اس کے منہ میں زبان نہیں ہے۔

رفیعہ:زبان توہے تمہاری طرح منہ میں تلوار نہیں ہے میں کیوں نہ لوں حمایت!

غفار:(ذرا سنبھل کر) اگر  رفیعہ میری حمایت بھی لیں تو تمہیں کیا اعتراض ہے یہ ان کی مہربانی ہے۔

سید:(جل کر)حمایت۔۔۔ تم۔۔۔ تمہیں اس سے بہت مہربانیوں کی امید ہے۔

رفیعہ:(بے زاری سے) سید دیکھو تم نے پھر میرے دل دکھانے کی باتیں کیں۔ ابا جان کے انتقال کے بعد سے تم بہت ہی وہ ہو گئے۔

سید:اونھ! یہ سب مکاری ہے۔

رفیعہ:(روہانسی ہو کر) ہر وقت میرے پیچھے ہی پڑے رہتے ہو۔

سید:(جل کر)تمہارے۔۔۔ تمہارے !ارے کیوں۔۔۔  بس۔۔۔  یہ سب ہمدردی وصول کرنے کے لیے ہے۔۔۔  (اسے واقعی رونے پر تیار دیکھ کر)اچھا بھئی غفار شروع کرو تم اپنی تقریر۔۔۔ ہاں کیا کہہ رہے تھے۔۔۔  کہ بڑی۔۔۔ وہ اداسی چھا رہی ہے۔۔۔  ہاں  اور کیا؟

(غفار کھسیانی ہنسی ہنستا ہے۔)

(تھوڑی دیر پھر وہی بے تکی خاموشی۔)

غفار:(ہمت کر کے)رفیعہ تمہیں اتنا رنج نہ کرنا چاہئے۔

سید:(جلدی سے) اتنا۔ کتنا؟

(رفیعہ رومال سے آنسو نہیں آنکھیں پونچھتی ہے۔)

غفار:(سید کی موجودگی کو بھولنے کی کوشش کر کے) رونا نہیں چاہئے رفیعہ مرحوم کو دکھ ہو گا۔

(سید زور سے ہنستا ہے  اور بڑے آئینہ کے پاس جا کر تولیہ سے منھ پونچھتا ہے  اور اپنی شکل  اور بال دیکھتا ہے۔)

غفار:(بڑی مستعدی سے)رفیعہ تمہاری صحت پر اثر پڑنے کا ڈر ہے۔

(سید بے تاب ہو کر جلدی سے غسل خانہ میں چلا جاتا ہے۔ غفار کو بہت ناگوار گزرتا ہے۔)

غفار:(جو تنہائی کو بہترین موقعہ سمجھتا ہے۔) رفیعہ!تمہیں رنجیدہ دیکھ کر جانتی ہو میرا کیا حال ہوتا ہے؟

رفیعہ:(بڑی معصوم آواز میں) اب رنج کرنا نہ کرنا تو اپنے بس کی بات نہیں ہے۔

غفار:(سرگوشی میں)رفیعہ!(گویا اس کے نام میں مزا ہے۔ ایسے منھ میں زبان پھیرتا ہے۔) رفیعہ! صبر کرنا چاہئے صبر نہ کرے تو تم جیسا انسان کیا سے کیا ہو جائے۔

سید:(واپس آ  کر آخری جملہ سن کر) ہوں !پھر وہی نخرے !

(رفیعہ کو اعتراض کی نظر سے دیکھتا ہے۔)

غفار:(پہلی دفعہ غصہ ہونے کی کوشش کر کے)کیا !

(سید ناک سکیڑ کرسوں سوں کرتا ہے  اور چھوٹی میز پرسے سنبھال کر کچھ چیزیں اٹھا کر بڑی میز پر رکھ آتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے۔ تینوں پر جھنجھلاہٹ  اور بے تکا پن چھا جاتا ہے۔ سید انگلیوں سے کوئی بے سری گت گھٹنوں پر بجا رہا ہے۔ رفیعہ بار بار رومال کا کونہ بدل رہی ہے۔ غفار اپنی انگشتری والی شاعرانہ انگلی کے ناخن کو گھبرا گھبرا کر دانتوں سے ٹٹول رہا ہے۔)

غفار:(ادھر ادھر دیکھ کر) اچھا تو اب اجازت ہے۔

سید:(چونک کر تیزی سے) بڑی خوشی سے۔

غفار:(ٹکڑا توڑ جواب سے مردہ دل ہو کر) میں۔۔۔ میں !

سید:(غفار کے جانے کے بعد) ہونھ! مکار!

رفیعہ:(بل کھا کر) دیکھو سید تمہاری حرکتیں۔۔۔

سانپ

منظر

منظر:(ڈرائنگ روم میں رفیعہ بیٹھی شیشے کے مرتبان میں مچھلیوں کو توس ڈال رہی ہے۔ سید بہت سے خط  اور پیکٹ لیے آتا ہے۔ ایک ایک کو بار بار دیکھتا ہے  اور الٹ پلٹ کرتا ہے۔)

سید:ہم۔۔۔ الہ آباد سے جواب ہی نہیں آیا۔

رفیعہ:(مڑ کر) ڈاک آ گئی۔ کوئی میرا خط؟

سید:(صوفے پر خطوں کو ڈالتے ہوئے) سب تمہارے ہی ہیں۔ میرا تو ایک آیا ہے۔۔۔  یہ مکھن والے کابل۔

(رفیعہ جلدی سے خط اٹھاتی ہے  اور کھول کربڑی تیزی سے پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔ بار بار ہنستی ہے۔)

سید:رفیعہ!کس طرح کا خط ہے؟

(رفیعہ سنتی ہی نہیں۔ پڑھنے میں مشغول ہے۔)

سید:(زور سے) میں کہتا ہوں کس کا خط ہے؟

رفیعہ:(سر ہلا کر ٹالتے ہوئے) ایک کا ہے۔

سید:آخر وہ ایک ہے کون؟

(رفیعہ دوسرا خط پڑھ کر  اور بھی زور سے ہنس دیتی ہے۔)

سید:(بے تاب ہو کر)میں کہتا ہوں آخر تمہارے پاس اس قدر خط کیوں آتے ہیں؟

رفیعہ:یہ ڈاکیے سے پوچھو۔ وہی لاتا ہے۔

(مشغول ہے۔)

سید:نہ جانے کس کس کے خط  اور ایسے بے ہودہ بے ہودہ، میں کہتا ہوں بے حیائی کی بھی کوئی حد ہے۔

رفیعہ:تم۔۔۔ تمہیں کون منع کرتا ہے۔ تم بھی خط منگوا لو۔ اس سے بھی بے ہودہ خط۔۔۔ !

سید:مگر میں یہ باتیں پسند نہیں کرتا۔

رفیعہ:(چمکار کر) تم بڑے اچھے بیٹے ہو۔

سید:(غصہ سے) میں واقعی مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ مجھ سے کئی لوگوں نے کہا۔۔۔ کہ۔۔۔

رفیعہ:(بے تکلفی سے) ہوں۔۔۔ کیا کہا۔

سید:تمہیں شرم نہیں آتی، مگر میں تو ذلیل ہوتا ہوں۔ اچھا تم اسے عبدالرحمن کو کیوں خط لکھتی ہو؟

رفیعہ:(سادگی سے)چند ضروری باتیں پوچھنا تھیں۔ اس لیے۔

سید:وہ ضروری باتیں میں جانتا ہوں کیا ہیں۔

رفیعہ:جب جانتے ہی ہو تو میرا دماغ کیوں چاٹ رہے ہو؟

سید:مجھ بڑی شرم آتی ہے  اور وہ عبدالرحمن تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

رفیعہ:اوہو! تب تو بڑی اچھی بات ہے۔

سید:کیسے بنتی ہو جیسے تمہیں معلوم ہی نہیں۔

رفیعہ:ارے بے وقوف معلوم ہی ہوتا تو میں اس کے چھ خطوں کا جواب کیوں گول کر جاتی۔ آج۔۔۔  یہ دیکھو لکھا ہے۔’’یہ ساتواں خط ہے۔‘‘ دیکھو نا۔۔۔  اگر مجھے معلوم ہوتا تو یقیناً۔۔۔

سید:تم اس سے شادی کرو گی!

رفیعہ:دیکھو زور زور سے نہ کہو، غفار سن لے گا تو بس۔

سید:بکو مت۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کیا۔۔۔ تم۔۔۔ اس سے شادی کرو گی؟

(ایک ایک لفظ صاف کہتا ہے۔)

رفیعہ:اب اس کا جواب کیسے دے سکتی ہوں۔

سید:کیوں ابھی سے کیا۔ رفیعہ۔۔۔ مگر یاد رکھو، اگر تم نے اس بڈھے گھاگ سے شادی کی تو بس۔۔۔

رفیعہ:تو بس۔۔۔  کیا؟تو تم غصہ میں آ کر چمن بی سے بیاہ کر لینا۔ بس مزا تو رہے گا سید۔ ابا جان کے بعد گھر کس قدر۔۔۔

سید:چپ رہو۔ تواب تم اسے خط نہ لکھنا۔

رفیعہ:کیوں۔ واہ!

سید:نہیں۔ آخر فائدہ۔ تم اس سے شادی تو کر نہیں رہی ہو۔

رفیعہ:کیا معلوم۔۔۔  قسمت کی کس کو کیا خبر؟ فرض کرو، غفار مجھ سے شادی نہ کرے  اور جیسے کہ تم کہتے ہو ظفر میرے اوپر تھوکے بھی نہیں ، تو پھر یہ۔۔۔  ٹھیک رہے گا۔۔۔  روپیہ بہت ہے سید پھر دونوں۔۔۔

سید:(غصہ سے بھنا کر) کم بخت چپ رہ،  اور پھر کہتی ہے تجھے کچھ نہ کہوں۔

رفیعہ:آخر کیوں؟میں کرتی کیا ہوں۔

سید: اور پھر پوچھتی ہو ’’کیا کرتی ہوں ‘‘یہ تم اتنا کیوں اتراتی ہو؟

رفیعہ:کون میں اتراتی ہوں؟

سید: اور خصوصاً غفار کو دیکھ کر۔

رفیعہ:(ذرا۔۔۔ جل کر) اچھا جاؤ۔ اتراتے ہیں۔ پھر تمہارا کیا۔ تم کیوں جلے مرتے ہو؟

سید:مجھے غفار پر ترس آتا ہے۔

رفیعہ:اوہو بڑا ترس آتا ہے۔ جیسے اسے کوئی کھائے ہی جا رہا ہے۔

سید:کھائے ہی جا رہا ہے  اور نہیں تو پھر کیا۔

رفیعہ:(خط اٹھاتے ہوئے) تم تو پاگل ہو۔۔۔ یاد ہے وہ باؤلا کتا جس نے تمہیں کاٹا تھا تو کسولی گئے تھے۔ جو نہ کرو کم ہے۔

سید:ارے مجھ سے جلتی ہو۔ آخر کو تمہارا بڑا بھائی ہوں۔

رفیعہ:تو تم ہی بتا دو۔ میں نے غفار کے ساتھ کیا ظلم و ستم کیے۔

سید:تم اسے پھانسنے کی کوشش کرتی ہو۔

رفیعہ:(متحیر ہو کر) سید کوئی بھائی اپنی بہن سے ایسی بے ہودہ بات کہتا ہو گا۔ پتہ ہے یہ گالی ہے۔

سید:(ہاتھ گھما کر)سچی بات میں گالی بھی ہو تو کیا کیا جائے۔

رفیعہ:اچھا کھاؤ قسم کہ میں غفار کو۔۔۔ توبہ توبہ پھانستی ہوں۔

سید:(اطمینان سے) پھانستی ہی نہیں بلکہ پھانس چکیں  اور اب ظفر پر دانت تیز کر رہی ہو۔

رفیعہ:دیکھو سید تم بڑی بے ہودگی پر اتر آئے ہو۔ میں برداشت نہیں کر سکتی، واہ، واہ یہ بھی کوئی بات ہے۔

سید:تو پھر تم کیوں ایسی حرکتیں کرتی ہو۔ آخر اس میمنہ کا خون چوسنے میں کیا مزا آتا ہے ہاں ظفر اور چیز ہے۔

رفیعہ:(جلدی سے)  اور چیز۔۔۔   اور چیز سے تمہارا کیا مطلب ہے۔

سید:(ایک اخبار کو موڑتے ہوئے)۔۔۔  میرا مطلب ہے ظفر تم سے بھی زیادہ مکا رہے وہ الٹا تمہیں مزہ چکھا دے گا۔ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے نا۔

رفیعہ:(بگڑ کر) دیکھو تم گھما پھر ا  کر کسی نہ کسی بہانے سے مجھے مکار کہہ ہی جاتے ہو، تمہاری خالدہ بڑی معصوم ہے نا!

سید:خالدہ! لفظ معصوم کے ساتھ تمہیں خالدہ کیسے یاد آ سکتی ہے ، ارے وہ؟۔۔۔ وہ تو تمہاری بھی  استاد ہے ، اسی نے تو تم کو بگاڑا ہے۔

رفیعہ:(دھمکا کر) اچھا کہوں گی خالدہ سے۔

سید:(بد مزاجی سے) لاحول ولاقوۃ، ایک دفعہ نہیں لاکھ دفعہ کہہ دینا۔

رفیعہ:پھر دیکھنا وہ تمہاری کیا گت بناتی ہے۔ صورت بھی نہ دیکھے گی۔

سید:ارے وہ مبارک دن آئے بھی کبھی جب وہ میری صورت دیکھنے  اور  اپنی دکھانے سے باز آئے۔

رفیعہ:(حیرت سے) کیا سچ کہہ رہے ہو تم؟

سید: اور نہیں  تو کیا جھک ما رہا ہوں۔

رفیعہ:تمہیں دوڑ، دوڑ کر وہاں جاتے ہو اس کی جوتی بھی پرواہ نہیں کرتی۔

سید:جوتی پرواہ نہ کرتی ہوتی تو بھلے ہی دن تھے۔ جوتی میں خالدہ سے زیادہ انسانیت ہے۔ مگر وہ تویوں (پنجہ گھما کر) مجھے شکنجے میں کسے ہوئے ہے۔۔۔

رفیعہ:کون منع کرتا ہے نکل آؤ نہ شکنجہ میں سے۔

سید:(جھلا کر) ارے وہ نکلنے بھی دے جب نا۔ وہ ایک پہنچی ہوئی ہے نکلنے کب دے گی، جوں ہی نکلنے کی کوشش کرتا ہوں اڑنگا لگا دیتی ہے۔

رفیعہ:بودے ہو تم۔ یوں کہو۔

سید: اور کیا۔ بودا نہ ہوتا تو وہ مجھ پرچھا سکتی تھی۔

(دائیں دروازے کا پردہ ہلتا ہے  اور خالدہ ایک سیاہ ساری  اور  سنہری چھوٹی سی صدری پہنے داخل ہوتی ہے۔)

خالدہ:(دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک طرف سر ڈال کر) رفی!

رفیعہ:(دوڑ کر اس سے لپٹتے ہوئے)خلو!

سید:(جانے کے لیے کھڑے ہو کر نقل میں)اترانا!

خالدہ:(چونک کر) ارے رفی!ابھی کون چوں سے بولا تھا؟(کان پر ہاتھ رکھ کر)کہیں۔۔۔  بھئی مجھے چوہوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔

سید:(دانت بھینچ کر) بلیاں ہی چوہوں سے نہ ڈریں گی تو کون ڈرے گا۔

خالدہ:(مڑ کر مسرت سے) سید ڈیئر!

(سید جیبوں میں ہاتھ ڈالے تھوڑی سینے پر ٹکائے کھڑے گھورتے ہیں۔)

خالدہ:(جیسے نڈھال ہو کر کرسی پر گر جاتی ہے۔)رفی! میں سید سے بہت خفا ہوں۔

سید:(ویسے ہی تنے ہوئے) شکریہ!

خالدہ:(تعجب سے) شکریہ؟رفی  سید سے  پوچھو آج میرے غصہ پر شکریہ کیسا؟

سید:(نقل میں)رفی!خالدہ سے کہہ دو مجھے اس کے غصہ کی رتی بھر پروا نہیں۔

خالدہ:ان سے کہو اترائیں نہیں۔

سید:رفی!ان سے کہہ دو دبتے نہیں تم سے۔

خالدہ:(سنجیدگی سے)رفی ان سے کہہ دو خدا کے لیے ہاتھ اپنی جیبوں سے نکال لیں۔ بالکل ربڑ کا گڈا لگ رہے ہیں۔

(سید جلدی سے جیبوں میں سے ہاتھ نکال لیتا ہے ، مگر فوراً ہی شرمندہ ہو جاتا ہے ، رفیعہ  اور خالدہ ایک دوسرے پر گر کر لوٹ جاتی۔۔۔  اور  بے بات ہنستی ہے۔)

سید: اور تم۔۔۔ تم جیسے موم کی پتلیاں۔ منوں پوڈر تھوپ لیا  اور  بن گئیں حسین۔

خالدہ:(چہرے کے پاؤڈر کو احتیاط سے تھپتھپاتے ہوئے) رفی! میں پاؤڈر لگاتی ہوں۔

رفیعہ:(جھوٹ بول کر) نہیں تو۔

خالدہ:(ڈانٹ کر) پھر۔۔۔  پھر سید نے کیسے کہا؟

رفیعہ:(خوشامد سے)غلطی ہوئی بچارے سے۔

سید:بالکل نہیں۔ تم دونوں پاؤڈر لگاتی ہو اور بھویں بھی اکھیڑتی ہو۔

رفیعہ:آہا۔۔۔ (مذاق اڑاتے ہوئے) اکھیڑتی!

خالدہ:ہاں۔’’اکھیڑتی ہیں۔‘‘ بھویں نہ ہوئیں خیمے ہو گئے جو اکھیڑے جائیں۔

سید:(کھسیا کر)  اور کیا۔۔۔

خالدہ:رفی یہ سراسر بہتان ہے نہ ہم پاؤڈر لگائیں نہ بھویں اکھیڑیں ہم قطعی اتنے ہی حسین ہیں جتنے نظر آتے ہیں۔۔۔   اور سید کو خدا کے لیے سمجھاؤ کہ ہماری بھویں پیدائشی کمان جیسی کھنچی ہوئی ہیں۔

سید:(ہاتھ جھٹک کر) ہوں گی  ضرور ہوں گی۔ کمان نہیں توپ کے گولے ہوں گی۔ بس!

خالدہ:تو گویا آپ کوشک بھی ہو سکتا ہے۔ رفی!سید کتنے  بد مذاق ہیں ، دنیا اپنے محبوب کی شان میں قصیدے کہتی ہے  اور مٹھوس خواہ پاؤڈر لپ اسٹک کا ذکر کرتے ہیں۔ تمہیں کیا ہم کچھ لگائیں دکھائی  تو خوبصورت دیتی ہیں۔

سید:تم لوگ بے شرم ہو۔

(لاپروائی سے کھڑکی میں سے جھانکنے لگتا ہے۔ خالدہ  اور  رفیعہ چپکے چپکے ا سکیم بناتی ہیں۔)

رفیعہ:اچھا تو میں ذرا دوپہر کے کھانے کے لیے باورچی کو بتاؤں (رعب سے) سید، خالدہ کا دل نہ گھبرانے پائے۔

سید:(گویا سنا ہی نہیں۔)

(خالدہ دبے پیر سید کے پیچھے جاتی ہے۔ وہ کچھ نوٹس نہیں لیتا  اور  برابر باہر  غور سے جھانک رہا ہے۔ خالدہ کچھ چڑ کر ہاتھ تول کر گال پر تھپڑ مارتی ہے۔)

خالدہ:(بھولپن سے ہاتھ دیکھتی ہے۔ گویا کچھ  ڈھونڈ رہی ہے۔) کہاں گیا، یہ موٹا سا  مچھر تھا، اڑ گیا۔

سید:(بھنا کر مڑتا ہے  اور گال پر ہاتھ رکھ کر) لاحول ولاقوۃ۔

خالدہ:سچ کہتی ہوں۔ مچھر تھا یہ بڑا سا  اڑ گیا۔

سید:معاف کیجئے آئندہ سے آپ میرے منھ پر  مچھر کا شکار نہ کیجئے کاٹنے دیجئے مچھروں کو۔

خالدہ:(معصوم آنکھیں بنا کر لچکتی ہوئی آواز میں) واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے میرا دل کیسے مانے گا کہ مچھرکو کاٹتے دیکھوں گی۔ تمہاری تکلیف۔۔۔

سید:میری تکلیف؟(رکھائی سے) معاف رکھو اپنی ہمدردی سے۔

(دور کرسی  پر بیٹھ جاتا ہے۔)

خالدہ:واہ یہ کیسے (آ  کر کرسی کے  ہتے  پر بیٹھ جاتی ہے۔) یہ کہیں ہو بھی سکتا ہے میں تمہاری تکلیف کا خیال نہ کروں تو پھر کون کرے سید؟پھر کون تمہاری خبرگیری کرے۔ تمہارے اوپر مکھیاں بھنکنے لگیں تو کیا میں نہ اڑاؤں۔

سید:(کچھ جلا ہوا) ہوں۔ بکواس جو کوئی تمہاری سنے۔

خالدہ:تم پر تو ہر وقت بھوت سوار رہتا ہے۔

سید:(ترشی سے) ہوں۔ جانتی ہو یہ بھوت آتا کہاں سے ہے !

خالدہ:ہا۔۔۔ آں۔۔۔  ارے ٹھہرو(کان پر ایسے چٹکی لیتی ہے گویا کوئی کیڑا پکڑ رہی ہے۔) اے ہے جوں !توبہ ہے سید! (بال پکڑ کر ہلا کر) سر منڈواؤ۔ یہ پٹیاں پارنے کا کیا شوق ہے۔ کانوں پر تو جوئیں رینگ رہی ہیں۔۔۔ ی۔۔۔ ق۔۔۔

(گھن کھاتی ہے۔)

سید:(تڑپ کر دوسری کرسی پر زور سے جا بیٹھتا ہے۔)کیا مطلب ہے تمہارا خالدہ!اس ذرا سی دیر میں مذاق ہی مذاق میں تم نے ایک تھپڑ ٹکا دیا۔ چٹکی بھر لی  اور بال نوچ ڈالے۔ کہاں ہے جوں ذرا میں بھی تو دیکھوں۔

خالدہ:لو تو کیا میں تمہاری جوئیں سینت کر رکھتی ہوں۔ پھینک بھی دی میں نے۔

سید:(تاڑ کر) ہاں ضرور پھینک دی۔

خالدہ:اے ذرا سی جوں کا جھگڑا کھڑا کر لیا  اور نہیں تو کیا میں نے کھا لی دیوانے۔

(روٹھ  کر کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔)

سید:میں پوچھتا ہوں تمہیں مزا کیا آتا ہے؟

خالدہ:کا ہے میں؟

سید:لوگوں کو دکھ پہنچانے میں۔

خالدہ:(خوشی سے کھل کر) دکھ پہنچانے میں ، تمہیں دکھ پہنچتا ہے۔ سید میں سمجھتی تھی تم بالکل مٹی کے تودے ہو(محبت سے)جسے نہ کوئی دکھ پہنچ سکتا ہے نہ سکھ۔جو نہ روتا ہے نہ ہنستا ہے۔(دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر) یا اللہ تیرا شکر ہے کہ سید میں بھی جان ہے۔

سید:(غصہ سے پہلو بدل کر)تم بڑی مکار ہو۔

خالدہ:(ایک دم سنجیدہ ہو کر)تمہاری زبان بڑی گندی ہو گئی ہے سید!

سید:جو بات ہو گی وہ ضرور کہوں گا۔

خالدہ:کیا بات ہے آخر، میں نے تمہارے ساتھ کیا مکاری کی؟جو ہر وقت کہتے رہتے ہو۔

سید:یہ مکاری نہیں تو پھر کیا ہے کہ خود۔۔۔  خود تو میرے  سر پر چڑھ  کر آتی ہو  اور  اپنی سہیلیوں سے کہتی پھرتی ہو سید میری جوتیاں چاٹتا پھر تا ہے ، ہنہ۔۔۔

خالدہ:بالکل غلط۔ ٹامی اگر تمہیں میری جوتیاں چاٹتے دیکھ لے تو چاب ڈالے ، ناممکن، میں ایسی بے ہودہ  اور غلط بات کہہ ہی نہیں سکتی۔

سید:(تیزی سے) تم نے نہیں کہا کہ میں تمہارے پیچھے پیچھے لگا پھر تا ہوں۔

خالدہ:(اطمینان سے سر ہلا کر) ہاں ، یہ تومیں نے کہا، تو اس میں کیا عیب ہے۔ لڑکوں کے لیے تو یہ بات باعث فخرہے کہ وہ خوبصورت لڑکیوں کے پیچھے دوڑیں۔ دیکھ لو سبھی یہ۔۔۔  کرتے ہیں۔

سید:ہو گا باعث فخر اوروں کے لیے مگر میرے لیے تو ذلت ہے۔ میں یہ بے ہودگی پسند نہیں کرتا۔

خالدہ:اوہو، بڑے وہ ہونا۔ خوب جانتے ہیں تمہیں شیلا کے ساتھ۔۔۔

سید:لاحول ولاقوۃ۔ وہ میری کلاس میٹ تھی۔ کبھی کبھی بات کر لیتا تھا تو سنا ہے آپ نے اس سے الٹی سیدھی باتیں کیں۔

خالدہ:میں نے کیا الٹی باتیں کہیں؟میں نے بھی کہا کہ تم بڑے چلتے ہوئے ہو۔

سید:جھوٹی۔ یہ نہیں کہا تم نے

خالدہ:جھوٹے ہو گے تم۔ پھر کیا کہا میں نے۔۔۔  اچھا وہ منگنی والی بات!

سید:ہاں۔

خالدہ:تو کیا ہوا؟

سید:تم نے کہا کہ میری تمہارے ساتھ منگنی ہو گئی!

خالدہ:ہاں کہا تو پھر۔

سید:تمہارا مطلب کیا تھا یہ کہنے سے۔ جب کہ۔۔۔ جب کہ۔۔۔  تم۔۔۔

خالدہ:اے سید سچ مچ۔ دیوانے ہو۔ اے ہے یونہی کہہ دیا تھا تا کہ وہ تم سے فلرٹ نہ کرے۔

سید:تم کون ہوتی ہو۔ تمہیں اس سے کیا۔ کوئی کچھ کرے !

خالدہ:تواب میں نے یہ بھی تو مشہور کر دیا کہ منگنی ٹوٹ گئی۔ بس بدلہ نکل گیا۔

سید:ارے خالدہ۔ انتہا کرتی ہو۔ تم نے منگنی ٹوٹنے کے قصہ میں بھی مجھے ہی ذلیل کیا۔

خالدہ: اور کیا پاگل!خود اپنے  آپ کو کچھ کہہ دیتی۔

سید:مگر اب جو میں شیریں سے ملتا ہوں تو کیوں جلتی ہو؟

خالدہ:کچھ بھی ہو سید، تم کیسے نالائق یا بد ہیئت کیوں نہ ہو، مگر کوئی لڑکی یہ کبھی پسند نہیں کرتی کہ اسے پسند کرنے والا کسی دوسری لڑکی کو پسند کرنے لگے۔سمجھے !

سید:خواہ وہ خود اسے رتی بھر نہ پدھارتی ہو۔

خالدہ:نا چاہے رتی بھر نہ پدھارتی ہو۔

سید:بے شرم۔

خالدہ:کیوں؟

سید: اور یہ تم مجھے اس وقت دق کرنے نہیں آئیں۔ کیوں؟

خالدہ:خاک۔ میں تو پرسہ دینے آئی تھی۔

سید:ہاں ،  اور یہ جب سے تم میری جان کو پرسہ ہی تودے رہی ہو یا بیٹھی بیٹھی مجھے دل رہی ہو۔

خالدہ:اونھ، اب تمہیں کون سمجھائے۔

سید:سمجھاؤ تو جب کہ میں خود سمجھتا ہوں۔ یہ تم نے رفیعہ کو کیوں ٹرخا دیا۔ اسی لیے کہ مجھے گھیر کر میرا خون چوسو۔

خالدہ:اگر تم ایسی باتیں کرو گے تومیں ابھی چلی جاؤں گی۔

سید:(مردہ آواز میں) کاش تم اپنی دھمکیوں کو کبھی سچ کر دکھاتیں۔

خالدہ:توکیا تم چاہتے ہو کہ میں چلی جاؤں۔

سید:یقیناً(پھر جلدی سے) نہیں نہیں اگر تمہیں شبہ بھی ہو جائے گا کہ میں چاہتا ہوں تم چلی جاؤ، تم سارے وقت میرے سر پر سوار رہو گی۔ تمہیں میری ہر بات سے ضد ہو جاتی ہے۔

خالدہ:(ہنستے ہوئے اس کی طرف بڑھ کر) تم بہت عقل مند ہو گئے ہو سید۔

سید:(ترشی سے) حالانکہ تمہیں پختہ یقین ہے کہ تم مجھے بے وقوف سمجھتی ہو۔ (اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر) یہ میری طرف پھر عنایت ہو رہی ہے۔ اگر تم چاہتی ہو تو وہ  رہا دروازہ!

خالدہ:(مصنوعی حیرت سے) ارے تم تو واقعی ہوشیار ہوتے جا رہے ہو۔

سید:ہا۔ ہاں مگر تم بڑے آرام سے اس کرسی پر بیٹھ سکتی ہو۔

(دور کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔)

خالدہ:(پیار سے) آؤ سید ملاپ کر لیں۔

سید:معاف ہی رکھو۔ کیا پھر کوئی  مچھر وچھر نظر آ گیا؟

خالدہ:(نرمی سے) نا سید اب کے کچھ نہیں۔ جو کچھ بھی کروں تو جو سزا چا ہو دینا۔(آ  کر کرسی کے ہتے  پر بیٹھ جاتی ہے۔) لو اسی بات پر تم میرا ہاتھ چوم سکتے ہو۔

سید:(تیوریاں چڑھائے منھ پھلائے) ہنہ!

(رفیعہ پردے کے آڑ سے جھانکتی ہے ،  اور خالدہ کو آنکھ سے اشارہ کرتی ہے۔)

خالدہ:(اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں سے لگا کر)لو۔

(چمکارتی ہے۔)

(رفیعہ اندر سے آتی ہے  اور سید کو اعتراض کی نظروں سے دیکھتی ہے۔)

رفیعہ:(کٹتی ہوئی آواز میں) آج کل کے لڑکے اس قدر بدمعاش ہو گئے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔شریف لڑکیوں کا تو گھر آنا ہی  دشوار ہے۔

(سید جل کر خالدہ کو ہتے  پرسے ڈھکیلنا چاہتا ہے۔ جو  پہلے ہی ہٹ چکی ہے  اور کھڑکی میں سے باہر جھانک رہی ہے۔)

رفیعہ:(ڈانٹ کر جس سے سید کو نفرت ہے) کیا بات ہے سید۔

خالدہ:(معصوم آواز میں) کچھ نہیں ان کے کان پر جوں رینگ رہی تھی، یہ موٹی بھینس کی بھینس۔ میں نے پکڑ کر پھینک پھانک دی اب کہتے ہیں۔۔۔ (سید کو اٹھتا دیکھ کر جلدی سے کھڑکی کے باہر جھانکنے لگتی ہے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔)

(سید بھنا کر اٹھتا ہے  اور باغ کی طرف جو دروازہ ہے اس میں سے چلا جاتا ہے۔ خالدہ  اور  رفیعہ زور زور سے ہنستی ہے۔)

سانپ

سانپ

منظر:(سید اور رفیعہ ایک ہی صوفہ پر بیٹھے ہیں۔ دونوں ذرا بہتر  اور  مہذب نظر آ رہے ہیں رفیعہ البم میں تصویریں لگا رہی ہے  اور سید ٹانگ پر ٹانگ رکھے اخبار دیکھ رہے ہیں۔)

رفیعہ:چھٹیوں نے تو سید تھکا دیا۔ جی ہی نہیں لگتا۔

سید:ہوں۔ بوٹنگ کو چلتی ہو؟

رفیعہ:ہاں خلو کو بھی  بلا لیں گے۔

سید:نا بھئی خلو ٹلو کا جھول ہے۔

رفیعہ:اوہو خلو بغیر چاہے کچھ مزا نہ آئے خود کو بھی۔

سید:کسے ، مجھے توبہ کرو۔ سارے وقت تو مجھ سے الجھتی رہتی ہے تمہیں کہہ دو انصاف سے اس دن اس نے میرا جینا دو بھرکر دیا تھا کہ نہیں۔

رفیعہ:اچھا اب میں اسے منع کر دوں گی آج میں نے خالدہ، ظفر اور غفار کو کھانے پر بلایا ہے۔ خلو تو چائے بھی یہیں پئے گی۔

نوکر:(دروازے ہی میں سے جھک کر)ظفر میاں آئے ہیں آپ کو بلا رہے ہیں۔

سید:یہ کیا بے ہودگی ہے واہ کہ دروازے میں سے کوے کی طرح کھڑے گردن جھکا جھکا  کر چلا رہے ہیں۔

نوکر:(اندر آ  کر کھسیانی آواز میں) ظفر میاں آئے ہیں۔

سید:کتنی دفعہ کہا کہ ایسے زور سے نہ چلایا کرو۔ گویا۔۔۔ کہ۔۔۔ یہ کوئی طریقہ نہیں۔

نوکر:(اور بھی مردہ آواز میں) ظفر میاں آئے ہیں۔

سید:(جل کر) بس بکے چلے جانا۔۔۔  ٹرٹر۔ٹرٹر۔ کہہ دو آتے ہیں۔

رفیعہ:(البم سمیٹ کر) نہیں۔ ظفر میاں کو یہاں  بلا لو۔ یہیں بھیج دو۔

سید:نہیں ٹھہرو۔

(نوکر آدھا جا کر لوٹ آتا ہے۔)

رفیعہ:(نوکر کو ڈانٹ کر) جاؤ میں کہتی ہوں۔ کہہ دو سید کام کر رہے ہیں۔

سید:ٹھہرو، بدتمیز(نوکر منھ بنا کر لوٹتا ہے)یہی مجھے کام ہے ہم دونوں جا رہے ہیں موٹر خریدنے ظفر کے لیے۔

رفیعہ:(کھڑے ہو کر نوکر کو ڈانٹتی ہے)جاتے ہو کہ نہیں۔ کہہ دو نہیں آتے سید۔

(نوکر بھاگتا ہے تو اندر داخل ہوتے ہوئے ظفر سے ٹکرا جاتا ہے۔ بے طرح ڈر کر بھاگتا ہے۔)

ظفر:ارے بھئی آتے کیوں نہیں تھے۔ چلو گے؟

(سگریٹ سلگاتا ہے۔)

سید:ہا۔ ہاں۔ چلو۔

رفیعہ:ٹھہرو ظفر! اماں جان نے کہا ہے کہ تم مجھے فلاسفی پڑھانے آیا کرو۔

ظفر:(ناک سکیڑ کر)فلاسفی!میرے باپ نے فلاسفی نہیں پڑھی تو تمہیں کیا خاک پڑھاؤں گا۔

رفیعہ:تو خیر اکنامکس پڑھا دینا۔

ظفر:کیا بک رہی ہو۔ یہ نبیوں والے مضمون میں کیا جانوں۔ میں سائنس اسٹوڈنٹ ہوں۔

رفیعہ:بکو مت۔ اماں جان نے کہا ہے۔ شرم نہیں آتی ان کا کہنا ٹالتے۔

سید:(ہاتھ ہلا کر) نہیں ظفر، اماں جان نے قطعی نہیں کہا۔ دل سے گڑھ رہی ہے۔

ظفر:مگر بھئی مجھے آئے بھی جب ہی تو پڑھاؤں  یا ویسے ہی۔

رفیعہ:اچھا پوئٹری (Poetry)   پڑھا دیا کرو۔ (ہنس کر) اب بچ کر کہاں جاؤ گے۔

سید:کچھ نہیں جی جھوٹ بول رہی ہے ، اسے ضرورت بھی نہیں۔

رفیعہ:میں نے کیا جھوٹ بولا۔

سید:یہی کہ اماں جان نے کہا کہ کوئی نہ کوئی الٹا سیدھا مضمون ضرور ہی ظفر سے پڑھو(ظفر سے) جب اس کا دل کسی کام کے کرنے کو چاہتا ہے تو میرے یا اماں جان کے سر تھوپ دیتی ہے  اور کچھ ایسا پھندا ڈالتی ہے کہ بس ہی نہیں چلتا۔

رفیعہ:(تیزی سے)  اور جو میں نے پچھوا لیا تو!

سید:کس سے پچھوا دو  گی؟

رفیعہ:خلو سے۔ دوسرے ظفر تمہارا ہی فائدہ ہے۔

ظفر:فائدہ!میرا کیا فائدہ ہے۔ نہ پڑھو گی نہ کچھ۔ جان ضیق میں رکھو گی سینکڑوں دفعہ لڑائی ہو گی۔ خواہ مخواہ بھلا کیا فائدہ۔

رفیعہ:تمہارا یہ فائدہ کہ تمہیں بہانہ ڈھونڈ کر مجھ سے ملنے نہ آنا پڑے گا۔مزے سے ایک بہانہ موجود رہے گا،  اور غفار کو بھی اعتراض نہ ہو گا۔ کیوں؟

سید:(تڑپ کر) او۔۔۔ ہ۔۔۔ بس۔۔۔ ظفر میں نے کتنا  کہا تجھ سے کہ اس بلا سے بچا رہیو۔۔۔ مگر تو بھی نرا چغد ہی نکلا۔ اب دیکھ تجھے کیسی جوتیاں کھلواتی ہے۔

ظفر:اجی کھلوائیں جوتیاں۔ میں جیسے اس کی چالوں میں آ ہی  تو جاؤں گا۔

رفیعہ:لو ظفر اب تمہیں بھی۔۔۔ روٹیاں لگیں  اور سید کی طرح اترانا شروع کیا۔ان کی صحبت نے تمہیں کوڑی کام کا نہیں رکھا۔

سید:میری صحبت۔ میری صحبت کیا بری ہے۔ تم اپنی کہو۔ تمہیں خالدہ کی صحبت نے جنگلی بنا دیا ہے بالکل۔

(خالدہ منھ پھلائے آتی ہے  اور بالکل سید کے قریب بیٹھ جاتی ہے۔)

خالدہ:ہر وقت میرا ذکر۔ ہر وقت میرا ذکر۔ تمہارے خیالوں کی دنیا میں ، میں ہی چھائی ہوئی ہوں۔

سید:(منھ بنا کر) ضرور!

رفیعہ:لو اب  پچھوائے دیتی ہوں۔ کیوں خلو۔۔۔

ظفر:(بات کاٹ کر) کیوں۔۔۔ ٹھہرو۔ خلو تمہارے سامنے اماں جان نے کہا کہ رفیعہ کو پڑھاؤں۔

خالدہ:(سنجیدگی سے) کتنی مرتبہ کہا کہ ظفر میرا نام اس قدر پیار سے نہ لیا کرو سید کو رشک ہوتا ہے۔ کیوں سید؟

سید:(برا مان کر) لاحول ولاقوۃ۔

رفیعہ:توکل سے ضرور مجھے پڑھانے آیا کریں گے۔

ظفر:نہیں ، قطعی نہیں۔۔۔ میں۔۔۔

رفیعہ:خیر تو میں محمود صاحب کو لکھوں گی وہ پڑھا دیا کریں گے۔

سید:جی نہیں۔ محمود سے نہیں۔ ہمارے یہاں ان کی آمدورفت نہیں۔

رفیعہ:آمدورفت نہیں تواب ہو جائے گی۔

سید:جی نہیں۔ نہیں ہو گی۔

رفیعہ:(چڑ کر)یہ بھی تمہاری دھونس ہے۔ ظفر پڑھائیں نہیں ، محمود صاحب کی آمدورفت نہیں۔ کیوں ان کے پڑھانے میں کیا اعتراض ہے آپ کو؟پوئٹری ان سے اچھی کون پڑھا سکتا ہے۔

ظفر:اجی وہ ہے زمانے بھرکا لوفر۔

سید:جی نہیں۔ یہ بات نہیں (طعن سے مسکرا کر) ان سے بڑھ کر کون لوفر ہو گا۔

رفیعہ:(چونک کر) کون؟

سید:جی آپ۔ خالدہ وغیرہ وغیرہ۔

خالدہ:ہوش میں سید، تمہاری وغیرہ وغیرہ ہوں گی لوفر۔ ہم کیوں ہوتے۔

سید:جی نہیں۔ آپ تو سب سے بڑھ کر خدا بچائے۔

خالدہ:(حیرت  اور  رنج سے) سن رہی ہو رفیعہ!

رفیعہ:سن رہی ہوں ، روز سنتی ہوں۔ سید تو خیر پاگل ہیں ہی، مجھے تو ظفر پر حیرت ہو رہی ہے کہ اماں جان کی بات نہیں سنتے۔

ظفر:میں کہتا ہوں اماں بچاری کو خبر بھی نہیں ، تم دل سے بنا رہی ہو۔

رفیعہ:(آہٹ سن کر) شش!لو اماں جان خود ہی آ رہی ہیں۔

(ظفر سگریٹ پھینک کر ٹھیک سے بیٹھ جاتا ہے۔ خالدہ جلدی سے سید کے پاس اٹھ کر دور بیٹھ جاتی ہے۔ پردہ گھلتا ہے  اور سیاہ شیروانی  اور  تنگ پاجامہ پہنے غفار داخل ہوتا ہے۔)

رفیعہ:(حیرت سے)ارے !

(سب زور سے قہقہہ گلاتے ہیں۔ خالدہ واپس سید کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔ ظفر نیا سگریٹ سلگا لیتا ہے۔ سید ترش روئی سے گھٹنا ہلا رہا ہے۔)

(سب پھر زور سے ہنستے ہیں۔)

سید:چغد!

غفار:(مجرمانہ انداز  سے) کون؟

ظفر:اونھ۔۔۔ ہم۔۔۔ سب (بات ٹال کر) تم اپنی کہو۔

غفار:(سب کی طرف سے بے توجہ ہو کر) رفیعہ طبیعت تو  اچھی ہے؟

رفیعہ:(نیم باز آنکھوں سے سید کو دیکھ کر لو اب کیا جواب دوں) ہاں ، مگر میری طبیعت تھی کب خراب؟

غفار:میرا مطلب ہے مزاج  تو اچھا ہے۔

رفیعہ:میں بدمزاج کبھی تھی ہی نہیں۔

غفار:(تھک کر)یہ تومیں نے نہیں کہا کہ تم بدمزاج ہو۔

رفیعہ:پھر؟

غفار:(پشیمان ہو کر) میں نے تو ویسے ہی پوچھا تھا۔

رفیعہ:(دبی زبان سے) رسماً۔

غفار:ہاں رسماً ہی سمجھ لو اب۔

سید:ارے کانٹوں کی جھاڑی سے کیوں الجھ رہے ہو!

(تھوڑی دیر بے تکی خاموشی رہتی ہے۔)

رفیعہ:(ایک دم سے) اے ہے ، زعفران دنیا تو بھول ہی گئی۔ میں آج شاہی ٹکڑے پکا رہی ہوں۔

سید:چل جھوٹی کبھی باورچی خانہ میں جھانکتی بھی نہیں۔

رفیعہ:تم کون سید۔

(چلی جاتی ہے۔)

خالدہ:(باغ کی طرف دروازے سے جاتے ہوئے) سید ذرا یہاں  آؤ تم سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔

سید:(منھ پھلائے) کیا بات! پھر کوئی مچھر وچھر۔۔۔

خالدہ:نہیں ، نہیں تم آؤ تو سہی۔

(سید اٹھ کر جاتا ہے۔ خالدہ اس کے بازو میں ہاتھ ڈال کر اسے کھینچتی ہوئی چلی جاتی ہے۔)

ظفر:(جیسے خواب میں)افوہ!یہ لڑکیاں !!

غفار:کیوں ، کون لڑکیاں؟

ظفر:سب لڑکیاں ، ایکو ایک۔۔۔ ناگنیں ہیں۔

غفار:(غیر شاعرانہ گفتگو سے متنفر ہو) میں تو نہیں سوچتا۔ یہ کیوں؟

ظفر:(بہت سا دھواں ہوا میں پھیلا کر) ہوں۔ تم بے چارے سوچتے ہی کیا ہو۔

غفار:(برا مان کر) کیوں مجھ میں بے چارے پن کی ایسی کیا بات ہے !

ظفر:۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کہ تم۔۔۔ تم۔۔۔  جانے بھی دواب۔

غفار:آخر کچھ  کہو بھی۔

ظفر:کہوں کہا(کچھ جل کر) تم بچے  ہو بچے ،  اور  رفیعہ ناگن۔

غفار:(بگڑ کر) قطعی نہیں۔ کم از کم رفیعہ کے بارے میں تمہیں غلط فہمی ہوئی، وہ اس قدر۔۔۔

ظفر:(طعن سے جملہ پورا کرے) بھولی ہے !کیوں؟

غفار:یقیناً۔

ظفر:(زور سے ہنستا ہے  اور مصنوعی کھانسی کھانستا ہے)بھولی!ضرور!!

غفار:(ذرا سختی سے)تم یہ بھی جانتے ہو یہ تم کس کے سامنے کہہ رہے ہو؟

ظفر:(جل کر بھویں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے) شاید آپ کے سامنے۔

غفار: اور شاید یہ بھی جانتے ہو کہ۔۔۔

ظفر:کہ جناب کو رفیعہ سے محبت ہے  اور اسے چاہتے ہیں۔

غفار:یقیناً ایک فرشتہ خصلت لڑکی کے لیے میں۔۔۔

ظفر:رفیعہ۔فرشتہ خصلت!

غفار:بے شک۔ کیوں نہیں۔۔۔ آخر۔۔۔

ظفر:(بات کاٹ کر اپنی تیز زبان میں)تم شاید ان بیوقوفوں میں سے ہو جو آنکھ میچ کر ہر لڑکی کو حسین، معصوم  اور نیک قرار دیتے ہیں (ایک دم ذرا اٹھ کر)غفار تمہارا ارادہ میرا مطلب رفیعہ سے شادی کرنے کا ہے۔

غفار:یہ بات عرصہ ہوا طے ہو چکی۔

ظفر:تو تم ٹھکانے لگ چکے۔

(واپس کرسی پر لیٹ جاتا ہے۔)

غفار:(کچھ نہ سمجھ کر)یعنی۔

ظفر:(تھوڑی دیر غفار کو گھور کر) اٹھو!تم نہیں سمجھتے۔ تم کچھ نہیں سمجھتے۔ تم سمجھ ہی نہیں سکتے۔

غفار:نہ جانے کیا بک رہے ہو۔

ظفر:(کچھ نہ سن کر) تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ یہ سب۔۔۔ بلیاں ہیں۔ تم نے دیکھا ہے ایک چوہے کوبلی کیسی جھنجھوڑیاں دیتی ہے۔ کبھی اس ران کو دبایا۔ کبھی اس پنجہ پر کچلی ماردی۔ کبھی کمر میں گدگدایا۔۔۔   اور  کبھی پورا ہڑپ کر گئیں۔

غفار:(متحیر ہو کر) صنف نازک کے بارے میں تمہارے بڑے لچر خیالات ہیں۔

ظفر:(جلدی جلدی) صنف نازک، صنف نازک۔ اوہ کس قدر بے معنی لفظ ہے۔۔۔  نہ جانے کن بیوقوفوں نے انھیں صنف نازک کا خطاب دیا ہے۔

غفار:(ظفر کی بیوقوفی پر مسکرا کر)تو تمہارے خیال میں عورتیں صنف نازک کہلانے کی مستحق نہیں۔

ظفر:مستحق!مستحق ہونے کی خوب رہی۔ اجی یہ دنیا کے سارے آرام  اور  چین اٹھانے کی مستحق ہیں۔ کولھو کے بیل کی طرح جت کر ہم کام کریں۔ سر   پھٹوائیں۔ دنیا بھر کی آفتیں اٹھائیں ہم  اور یہ صنف نازک بن کر ہمارے اوپر بھوت کی طرح سوار ہو جائیں  اور پھر صنف نازک اپنی سی کرنے پر اتر آئیں تو وہ گت بنائیں کہ جینا دشوار کر دیں۔

غفار:میرے خیالات شکر ہے کہ تم سے مختلف ہیں  اور  رہیں گے۔

ظفر: اور پھر ان ہی خیالات کے ہونے پر تم رفیعہ سے شادی کرنے کا دعویٰ رکھتے ہو(ایک دم سے)کبھی تم نے براہ راست بھی رفیعہ کی رائے معلوم کی۔۔۔ میرا مطلب ہے شادی کے بارے میں۔

غفار:ہاں مجھ سے ایک دفعہ یہ غلطی ہو گئی تھی۔

ظفر:(غصہ سے چیخ کر) غلطی! کیا آدمی ہو تم۔۔۔

غفار:ہاں ہاں غلطی (رنجیدہ ہو کر) اس کے والد کے انتقال کے فوراً ہی بعد۔

ظفر:پھر اس نے کیا کہا۔

غفار:کچھ نہیں ، مت یاد دلاؤ ظفر، وہ میری بیوقوفی تھی۔ وہ رونے لگی۔

ظفر:(حیرت سے) رونے لگی۔

غفار:ہاں میری بیوقوفی۔ ایسے موقع پر دل دکھانا۔

ظفر:ہوں۔۔۔ ضرور روئی ہو گی۔ تمہاری بد حواسیوں  پر بار بار  رو چکی ہے مگر دل دکھانے کو تم سے کس نے کہا تھا!

غفار:دل ہی دکھانا ہوا ایسے صدمے کے بعد۔

ظفر:(ہاتھ جھٹک کر) تو پھر قیامت تک کسی لڑکی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اچھا (کچھ سوچ کر رک رک کر)فرض کرو رفیعہ۔۔۔ کو۔۔۔ رفیعہ مر جائے تو تم۔۔۔

غفار:کم از کم میرے سامنے تو ایسی باتیں نہ کرو۔

ظفر:(دونوں ہاتھوں سے کنپٹیاں دبا کر) افوہ کیسے کہوں تم سے غفار (مردہ آواز میں) ہم سب بے وقوف ہیں۔ ہم سب چوہے ہیں۔ میں۔ تم۔ سید۔ سب چوہے ہیں بزدل چوہے۔

غفار:(کچھ نہ سمجھ کر)میں تو یہ نہیں سوچتا۔

ظفر:(بے چین ہو کر) چپ رہو غفار۔ تم مجھے پاگل کر دو گے۔ اوہ۔

غفار:(نہایت سکون سے) میں ذرا اماں جان کے پاس جا رہا ہوں تم بھی چلتے ہو۔

ظفر:(پریشان ہو کر) تم جاؤ میں ذرا دیر میں آؤں گا۔

(غفار جاتا ہے۔ جسے ظفر رحم کی نگاہوں سے تکتا ہے۔ تھوڑی دیر سوچتا ہے پھر اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیتا ہے۔ دو تین کرسیوں میزوں سے بے خیالی میں ٹھوکر لگتی ہے۔ کارنس کے پاس جا کر تصویریں دیکھنے لگتا ہے۔ رفیعہ کی تصویر کو غور سے دیکھتا ہے۔)

(بڑبڑاتے ہوئے۔)

(دیر تک غور سے کبھی پاس سے کبھی دور سے تصویر کو اٹھا کر دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کا سر تصویر کی طرف جھکتا ہے۔ رفیعہ دبے پاؤں داخل ہوتی ہے ، اس کی پشت سے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھتی ہے۔ ظفر تصویر پر اپنے ہونٹ لگا دیتا ہے۔)

رفیعہ:(اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تحکمانہ لہجے میں) دیکھا پکڑے گئے نا! کہو؟

(ظفر ایک دم مڑ کر اسے غصہ سے گھورتا ہے  اور جلدی تصویر پیٹھ کے پیچھے کر لیتا ہے۔)

رفیعہ:اب تو تمہیں مجھے پڑھانے کے لیے آنے میں کوئی اعتراض نہیں۔

(ظفر ایک جھٹکے سے تصویر میز پر رکھ کر آتش دان کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔)

رفیعہ:(اس کی ٹھوڑی چھوکر)بے چارا ظفر بہانے کیا کیا کرتا تھا۔ آج۔۔۔

ظفر:(اس کا ہاتھ جھٹک کر)اونھ!تم واقعی سانپ ہو۔

رفیعہ: اور تم چھچھوندر۔ جسے نہ میں نگلتی ہوں  اور نہ اگلتی ہوں۔ مگر میں کہتی ہوں چھچھوندر کی دیدہ دلیری تو دیکھو سانپ کے منھ لگ رہی تھی۔

ظفر:(مسکرا کر) بھگت تو رہی ہے چھچھوندر اپنے اعمال کی سزا۔

(سید کچھ بھنایا ہوا آ کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ پیچھے پیچھے خالدہ کندھوں کو ہلکی سی جنبش دیتی ہوئی داخل ہوتی ہے۔)

رفیعہ:آہا۔ ایک  اور چھچھوندر!

ظفر:(خالدہ کو دیکھ کر)ایک  اور سانپ بھی۔

خالدہ:ظفر تم سے کس نے بتایا کہ سید نے مجھے سانپ کہا۔

رفیعہ:کسی نے بھی نہیں۔ انھیں تو وحی آتی ہے۔ بے چارے کو ابھی ابھی شہادت کا رتبہ ملا ہے۔

خالدہ:(پژمردہ ہو کر)میں سمجھتی تھی کہ سید ہی اس قدر شاعرانہ بات کہہ سکتا ہے۔ پر اب معلوم ہوا کہ ظفر بھی۔ خیر سید تم کبھی تو کوئی نئی بات نکالا کرو جس سے مجھے فخر کرنے کا موقع ملے۔

(سید منھ بناتا رہتا ہے۔)

(رفیعہ خالدہ کے پاس جا کر اس کے کان میں کچھ کہنا چاہتی ہے۔)

ظفر:(بغاوت کر کے) یہ کانا پھوسی یہاں نہیں ہو گی(رفیعہ کو کھینچ کر) تم لوگ چپکے چپکے باتیں نہیں کر سکتیں !

رفیعہ:خلو!پھر بتاؤں گی اچھا۔

خالدہ: اور میں (سید سے آہستہ سے)بتا دوں سید تمہاری شاعری؟

سید:(اپنی جگہ جھوم کر)بھاڑ میں جاؤ تم  اور تمہاری شاعری؟

خالدہ:رفی(سید کو دیکھتی ہے)میں نے انھیں ایک بات کہنے کے لئے بلایا تو یہ خود ایک بہت ضروری بات کہنے لگے۔ بولے (پیار سے)کہہ دوں سید؟

سید:(پہلی دفعہ مسکرا کر) بے حیا  ہو تم دونوں۔

خالدہ:پھر اتر آئے اپنی اوقات پر۔ پھر تم نے مجھ سے شادی کی درخواست کیوں کی تھی؟

ظفر:اچھا!

رفیعہ:(خوشی سے اچھل کر) اور خلو یہ ظفر اتنی دیر یہاں کیا کرتے رہے۔ دیکھو نا آندھی کی وجہ سے ساری تصویروں پر گرد جم گئی تھی انھوں نے سا۔۔۔  ب چاٹ کر صاف کر دی(اپنی تصویر اٹھا کر)یہ  دیکھو کس قدر چمک گئی۔ ظفر تم چا ہو تو اسے گھر بھی لے جا سکتے ہو۔ اطمینان سے صاف کر لینا۔

(ظفر کھسیانا مسکراتا ہے۔)

رفیعہ:نہیں لیتے؟بس یہی تو مجھے جہالت کی باتیں کھلتی ہیں۔ اچھا کسی دن چھپا کر لے جانا۔ یہ رکھی ہے۔

(ظفر اٹھ کر تصویر لے کر جیب میں ڈال لیتا ہے۔)

سید:رفیعہ تم نے تو طے کر لیا کہ ظفر سے شادی کرو گی؟

رفیعہ:ہاں فی الحال تومیں ظفر ہی سے کر رہی ہوں۔

ظفر:(بگڑ کر)یہ فی الحال سے تمہارا کیا مطلب!(سید سے)یار میں نے ایسی لڑکیاں ہی کہیں نہیں دیکھیں۔ سنا کرتے ہیں بڑی سیدھی سادی ہوتی ہیں۔

خالدہ:اوہو جیسے تم نے دیکھی بھی بہت سی لڑکیاں ہیں۔ لے دے کر ہم دونوں ذرا ڈھنگ کے تمہیں دکھائی دیئے تو تم ہم پرہی پیش ہو گئے  اور سیدھی سادی لڑکیوں کو آج کل کون پوچھتا ہے۔ پڑی گھروں میں روٹیاں پکایا کریں۔

رفیعہ: اور کیا۔ سچ بتاؤ تمہیں وہ ’’گڈے ‘‘ پسند ہیں؟

ظفر:(مسکرا کر سید کو دیکھتے ہوئے) تم سے تو غنیمت ہی ہوں گی۔

خالدہ:(ایک دم سے)لوگو یہ تو بتاؤ جب  رفیعہ ظفر سے شادی کرے گی تو غفار کیا کرے گا؟

رفیعہ:وہ خودکشی کرے گایا ہمیشہ میرے نام  پر کنوارا بیٹھا رہے گا۔

ظفر:کس قدر اتراتی ہو تم۔

خالدہ:بھئی یہ تو عجیب  گڑبڑ ہے۔ میرے خیال میں اسے کل معاملات سے آگاہ کر دیا جائے میں اسے سمجھا دوں گی۔ ابھی بلاتی ہوں۔

(اٹھتی ہے۔)

ظفر:(گھبرا کر) بھئی میں جا رہا ہوں۔

خالدہ:نہیں تمہیں یہیں رہنا چاہئے۔ ورنہ پھر پورا مرحلہ طے نہ ہو گا۔

سید:ہٹو جی سب واہیات ہے چلو جی ظفر یہ دونوں فساد پر تلی ہوئی ہیں۔

رفیعہ:اگر تم دونوں چلے جاؤ گے تو بھئی میں تو صاف مکر جاؤں گی۔

سید:(ایک دم مڑ کر) یعنی؟

رفیعہ:یعنی یہ کہ تم پھر مجھ سے نہ کہنا کہ غفار کو دھوکا دیا۔

سید: اور تم دھوکا دو گی!

رفیعہ: اور کی اور نہ تم مت جاؤ۔

سید:خیر اس میں بھی تمہاری کوئی چال ہے (بیٹھ جاتا ہے) بیٹھو بھئی ظفر۔

خالدہ:تومیں غفار کو بلانے جاتی ہوں۔

(چلی جاتی ہے۔)

سید:تم نے فیصلہ کر ہی لیا کہ رفیعہ سے شادی کرو گے !

ظفر:میں شادی کر رہا ہوں یا رفیعہ مجھ سے شادی کر رہی ہے۔ چہ خوش!

سید:اماں وہ ایک ہی بات ہوئی۔

ظفر:ایک ہی بات کیسے ہوئی چھچھوندر سانپ کو نگلتی ہے یا سانپ چھچھوندر کو نگلے گایا یوں ہی چباتا رہے گا۔

رفیعہ:بالکل غلط۔ سانپ چباتا کب ہے اس کے دانت ہی نہیں ہوتے۔

ظفر:تم دانتوں والا سانپ ہو۔ اجگر۔

(ہاتھ سے جسامت بناتا ہے۔)

رفیعہ:دیکھو سید اب یہ  ظفر ہی بات نکال رہے ہیں۔

(خالدہ  اور غفار آتے ہیں۔)

خالدہ:لو ایک  اور چھچھوندر۔

رفیعہ:(جلدی سے)دیکھو غفار ظفر مجھے سانپ کہہ رہے ہیں۔

غفار:(بے وقوفی سے)یہ کیوں؟

ظفر:یہ یوں کہ یہ سانپ ہے ہی جو۔

(لڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔)

غفار:(بیٹھ کر) یہ ظفر تمہاری غلطی ہے۔

ظفر:(جل کر)  اور تمہاری بیوقوفی!رفیعہ جس شخص سے شادی کرے گی اس بدنصیب کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ ہم لوگ ابھی یہی سوچ رہے تھے۔

رفیعہ:(بناؤٹی رنج سے) اوہ!مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں اس قدر خوفناک ہوں۔

غفار:بالکل غلط۔میں تمہیں خوفناک بالکل نہیں سمجھتا۔

(ایک دم موضوع کے چھڑ جانے سے گھبرایا ہوا ہے۔)

رفیعہ:نہیں میں تمہاری زندگی برباد نہیں کروں گی۔

غفار:(جوش سے) برباد نہیں۔ تم میری زندگی آباد کرو گی۔

رفیعہ:نہیں میں تمہیں نگل ہی جاؤں گی۔ سانپ ہی جو ٹھہری۔

غفار:(شدت جوش سے کانپ کر)کیسی باتیں کرتی ہو۔ تم مجھے نگل بھی جاؤ تو میرے لیے عین راحت ہے۔

خالدہ:مگر اب تو رفیعہ نے فیصلہ کر لیا۔

غفار:(چونک کر) کیا فیصلہ کر لیا۔

خالدہ:یہی کہ وہ تمہیں نہیں نگلے گی۔

رفیعہ:ہاں اب تومیں ظفر کو نگلوں گی۔ یہ ہے تو پھر یہی سہی۔

(ظفر پریشان ہو کر مسکراتا ہے۔)

غفار:(سمجھ کر)تو۔۔۔ تو تمہارا یہ مطلب ہے کہ مجھے ٹھکرا رہی ہو۔

رفیعہ:اونھ!اب تم نے بھی غلط شاعری شروع کر دی۔

غفار:(پریشانی سے انگلیاں چٹخا کر) اور ظفر تم مجھے دھوکا دیتے رہے۔

ظفر:غفار بچے نہ بنو۔ یہ فتنہ تمہارے بس کا نہیں تھا۔ شکر کرو کہ میرے ہی اوپر بیتی  اور تم بچ گئے۔ تم دیکھنا وہ میری گت بنائے گی کہ توبہ ہی بھلی۔

غفار:کاش میری ہی وہ گت بن جاتی۔

خالدہ:مگر غفار سوچو تو۔

غفار:ایک عرصہ دراز سے یہ بات بزرگوں نے کر دی تھی۔

خالدہ:یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آبائی حق تو تمہارا ہے۔ مگر یہاں تو رفیعہ کا معاملہ آن پڑا ہے وہ ایک ضدی ہے۔

غفار:(اندوہگیں ہو کر) میں جا رہا ہوں۔(نہایت اداسی سے)رفیعہ خدا کرے تم خوش رہو۔

(کھڑا ہو جاتا ہے۔)

ظفر:مجھے کوئی دعا نہیں دیتا۔۔۔ (بڑبڑا کر)جیسے رفیعہ کوبڑی دعاؤں کی ضرورت ہے ، لوگ مجھے دعا نہیں دیتے۔

رفیعہ:(غفار کے پاس جا کر پیار سے) غفار تم غصہ تو نہیں ہو۔

غفار:(غصہ سے)نہیں۔

رفیعہ: اور رنجیدہ!

غفار:(رقت سے) نہ رنجیدہ۔

رفیعہ:(ایک دم اس کا حسین چہرہ ہاتھوں میں لے کربڑی محبت سے دیکھتی ہے) تم بڑے پیارے ہو غفار، تم نہیں جانتے ہو مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔

سید:(تنبیہاً) پھر پھیلایا جال۔

رفیعہ:(ویسے ہی اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے) تم کون۔۔۔ ہوتے ہو سید بیچ میں بولنے والے۔(غفار سے) میں تمہیں بچپن سے پسند کرتی ہوں۔ بہت ہی کرتی ہوں۔

(ظفر متحیر آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا ہے۔)

غفار:(امید  بھری آواز میں) رفیعہ!

رفیعہ:(بڑی رومینٹک  آواز میں) ہاں !

غفار:(اس کے بازوؤں پر پاتھ پھیر کر)تم نے ابھی کہا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔

رفیعہ:ہاں  اور ہمیشہ اسی طرح محبت کرتی رہوں گی(اس کا منھ قریب کر کے) تمہیں یاد ہے غفار بچپن میں میں کس قدر تمہاری شرارتیں پسند  کرتی تھی۔

سید:جھوٹی غفار نے کبھی شرارت کی ہی نہیں۔

غفار:(سید کی پرواہ نہ کر کے جوش سے) تو پھر۔ رفیعہ!

رفیعہ:ہاں۔ پھر اب میں نے فیصلہ کر لیا کہ ظفر سے شادی کرنے کے بعد میں فوراً تمہیں گود لے لوں گی۔ کیوں ظفر!

(اس کا چہرہ جھکا کر پیار کرنا چاہتی ہے۔)

(ظفر ایک دبی ہوئی اطمینان کی سانس لینا چاہتا ہے  اور آرام کرسی پر لیٹ جاتا ہے۔)

غفار:(جسم میں ایک دھکا محسوس کرتا ہے  اور خاموش دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)سانپ!!!

(بغیر دوسری نگاہ ڈالے ایک دم پہلے دروازے سے نکل جاتا ہے۔)

رفیعہ:(حیرت سے مسکراتے ہوئے اپنے خالی ہاتھ دیکھتی ہے۔)

(ظفر، سید اور کچھ کچھ خالدہ بھی حیرت سے منھ پھاڑے بیٹھے ہیں۔)

ظفر:(گھٹی ہوئی مردہ آواز میں)سانپ!!!

***

ماخذ:’’نئے ڈرامے ‘‘

پروفیسر محمد حسن

انجمن ترقی اردو(ہند)

دہلی

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔