05:55    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ڈرامے

1907 0 0 00

مولسری کے پھول - ڈاکٹر محمد حسن

مولسری کے پھول

مولسری کے پھول

بڑے سرکار:عبداللہ تم نے منگلا تانگے والے سے کہہ دیا ہے نا۔ کہیں ایسا نہ ہو گاڑی کا وقت نکل جائے۔ آج چھوٹے میاں کو لکھنؤ جانا ہے۔

عبداللہ:ہاں سرکار۔ منگلو تو اب آتا ہی ہو گا۔ لکھنؤ کی گاڑی تو پھر بھی رات گئے جاوے ہے۔ ابھی تو دیر ہے۔

بڑے سرکار:ہاں بھئی ریل کا معاملہ ہے۔ حقہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

عبداللہ:ابھی بھرکے لاتا ہوں۔ اوپلا تو دبا آیا تھا۔

بڑے سرکار:نہیں رہنے دو۔ پر چوکس رہنا۔ ذرا سامان وامان ٹھیک کر دینا۔

عبداللہ:اب چھوٹے سرکار کب  آویں گے؟

بڑے سرکار:اب یہ کوئی اپنے بس کی بات ہے عبداللہ۔ اونچی پڑھائی پڑھنے جا رہے ہیں۔ جب چھٹی ملے گی تبھی آئیں گے  اور بھئی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ماں باپ جو سینے پر پتھر رکھ اولاد کو جدا کرتے ہیں۔ تو یہی سوچتے ہیں کہ لڑکا پڑھ لکھ کر قابل ہو جائے۔ دو تین سال بعد انگریزی کی سند لے آئے گا تو کہیں تحصیل داری ڈپٹی کلکٹری کی سند لے آئے گا۔ گھر بھر کی روٹیوں کا سہارا ہو جائے گا۔

عبداللہ:پر سرکار۔ چھوٹے میاں کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ ساری عمر تو کبھی  گھر سے پاؤں نہیں نکالا۔ اکیلے اتنے بڑے شہر میں ماں باپ سے دور کیسے رہیں گے؟

بڑے سرکار:جب تک زمینداریاں تھیں بات ہی  اور تھی عبداللہ(حقہ گڑگڑاتے ہیں) حقہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا کم بخت۔زمیندار کے بچے کو لکھ پڑھ کر کرنا ہی کیا  تھا وہی کنواں کھودنا وہی پیٹ بھرنا۔ اب تو تعلیم نہ ہو گی تو کوئی بھیک بھی نہ دے گا۔ سچ کہا ہے کسی نے :

؂ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

عبداللہ:بڑا برا زمانہ آن لگا مالک۔ چودھویں صدی ہے سنا تھا۔ اولاد ماں باپ سے بچھڑ جائے گی بھائی  بھائی سے الگ ہو گا۔ ماں جائے سے مایا جایا جدا ہو گا۔ سو وہی ہو رہا ہے۔ جو کچھ ہو جاوے تھوڑا ہے۔

بڑے سرکار:ہاں عبداللہ۔ جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا۔

حفیظن:چھوٹے میاں کو اندر بلاوے ہیں۔ چھوٹے میاں !

بڑے سرکار:کون پکار رہا ہے۔

عبداللہ:حفیظن  بوا حویلی سے آئی ہے۔ چھوٹے میاں کو پکار رہی ہے۔

بڑے سرکار:کہہ دو یہاں نہیں ہیں۔ وہ اندر گھر میں اپنا سامان ٹھیک کر رہے ہوں گے۔(Change Over) 

بیگم:اے ہے بچے اب ہو چکا سامان ٹھیک۔ خدا کے لئے دو گھڑی کے لئے میرے پاس آ بیٹھ۔ اب اتنے دنوں کے لئے نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ تجھے کیا معلوم کیسے سینے پر پتھر رکھ کر تجھے لکھنؤ بھیج رہی ہوں۔

چھوٹے میاں :ابھی آیا امی۔۔۔ بولو کیا بات ہے۔

بیگم:دیکھ یہ حفیظن  بوا تجھے ڈھونڈتی پھر رہی ہیں باہر مردانے تک میں آوازیں دے آئیں۔ چچی نے بلایا ہے دو قدم  پر توہے ہی حویلی سلام کرنے تو جانا ہی ہے۔

چھوٹے میاں :نہیں امی اس وقت تو بہت کام پڑا ہوا ہے۔ جاتے میں تانگہ رکوا کر تھوڑی دیر کے لئے وہاں اتر جاؤں گا۔

ریحانہ:اب بتاؤ امی۔ یہ جرابیں کسی کومل سکتی تھیں بھلا۔ کتابوں کے بیچ میں رکھی ہوئی ہیں۔ میلے کپڑے ڈھونڈتے ڈھونڈتے  مر گئی۔تم ہی بھیا کی بڑی طرفداری کرتی ہو اب بتاؤ صبح سے یہ وقت آ گیا۔ قمیص جوتوں میں پڑا ہوا ملا۔ میلا بنیائن تخت کے نیچے پڑا ہوا ہے۔

بیگم:ارے تو کیا ہوا آخر بہن ہے اتنا کام  تو کرنا ہی چاہئے۔ سہرا باندھتے وقت حق بھی تو تو ہی لے گی۔

ریحانہ:ارے یہ کیا حق دیں گے۔ صاف آنکھیں پھیر لیں گے۔

چھوٹے میاں :امی یہ تو بے صبری ہے بے صبری اے تو تم ابھی سے حق وق دلا کر کسی اسے ویسے کے سر باندھ کر چلتا کرو۔

ریحانہ:دیکھ لینا امی۔ یہ تو لکھنؤ جا  کر سارے کپڑے ادھر ادھر  کھو دیں گے۔ وہاں کون ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ یہ ٹھہرے لاٹ صاحب وہاں جا کر معلوم ہو گی ریحانہ کی قدر۔

بیگم:ہاں بیٹی۔ یہ تو ٹھیک کہتی ہے۔ پر جیسی پڑتی ہے بھرنی ہی ہوتی ہے کیوں حفیظن  بوا۔

حفیظن:ہاں بیٹا تمہارے جی کو شاباش ہے بیگم صاحب کے اکلوتے لال کو آنکھوں سے اوجھل کر کے کالے کوسوں پڑھنے کو بھیج رہی ہو بھلا نوابوں کے خاندان میں اتنی پڑھائی کون پڑھے ہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کون جدا کرے ہے۔

بیگم:لیکن بوا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ پہلے کبھی کسی نے ہمارے گھر خاندان میں نوکری کا نام بھی نہ سنا تھا اب اس کے بغیر گذارا مشکل ہے۔

حفیظن:ہائے ہائے کیا زمانہ آن لگا۔ اچھے تھے جو اپنی مزے میں گذار گئے۔ بیگم صاحب۔ ذرا ایک چٹکی تمباکو دینا۔ خدا تمہارا بھلا کرے۔ اے لو میں تو بھول ہی گئی۔ ہماری بیوی جی نے اپنے بھتیجے کے لئے یہ امام ضامن بھیجا ہے۔

بیگم:ارے یہاں کا ہے کو بھیج دیا۔ وہ خود ہی سلام کرنے جاتا۔ اپنے ہاتھ سے باندھ دیتیں۔

حفیظن:چلتے چلتے کہہ دیا تھا کہ حفیظن اپنے ہاتھ سے بچے کے بازو میں باندھ دینا  اور  نذر اتار کر آنا۔

چھوٹے میاں :اب کتنے امام ضامن بندھیں گے میرے۔ بھلا دیکھو تو سارا ہاتھ تو جکڑ کر رہ گیا ہے۔

بیگم:چھوٹے میاں ان باتوں میں بولا نہیں کرتے۔

چھوٹے میاں :اچھا لو باندھ دو۔  اور دو۔ چار۔ چھ۔ جتنے امام ضامن چا ہو باندھ لو۔ جو ایک حرف زبان سے نکالوں تو جو چور کی سزا وہ میری۔

ریحانہ:ابھی تومیں بھی امام ضامن باندھوں گی بھیا۔

چھوٹے میاں :چل چڑیل۔

ریحانہ:میں تو باندھوں گی۔ امی دیکھو۔۔۔

چھوٹے میاں :اچھا چل باندھ جلدی۔ ہر وقت کترنی کی طرح زبان چلتی ہے۔ شریر کہیں کی۔ تجھے تو ایسے سے بیا ہوں گا کہ کبھی میکے بھیجے ہی نہیں۔

ریحانہ:دیکھو امی۔۔۔

چھوٹے میاں :(نقل اتار کر) دیکھو امی۔ ارے دیکھو امی، کیا تو تو بڑی اچھی بہن ہے ہماری۔ میں تو جب بھی لکھنؤ سے آؤں گا تیرے لئے اچھے اچھے دوپٹے۔ جمپر اور سینڈل خرید کر لاؤں گا ہاتھوں کے لئے خوبصورت خوبصورت چوڑیاں  اور جب پاس کر کے تحصیلدار ہو جاؤں گا  اور  پھر تو ہو جائے گی تحصیلدار صاحب کی بہن پانچوں انگلی گھی میں  اور  سر کڑھائی میں۔۔۔ کیا سمجھی۔

(ہنستی ہے۔)

بیگم:اے لو وہ تو باغ باغ ہوئی جا رہی ہے کیا کیا وعدہ وعید ہو رہے ہیں بہن بھائی میں۔۔۔ اچھا اب چلو ریحانہ ذرا بھیے کے لئے کھانا نکال کر لے آؤ۔ گاڑی کا وقت آن لگا ہے۔ بھوک تو اس وقت کیا لگی ہو گی پھر بھی دو نوالے پیٹ میں ڈال کرپانی پی لے سہارا ہو جائے گا۔ پتہ نہیں راستے میں کھانا ملے نہ ملے۔

ریحانہ:ابھی لائی۔۔۔ امی۔

حفیظن:اچھا بیگم صاحب تو پھر میں چلوں۔

بیگم:ہاں میرا سلام کہنا اپنی بیوی جی سے  اور کہہ دینا کہ ان کا بھتیجا ابھی آ رہا ہے سلام کرنے  اور ہاں ناہید تو اچھی ہے۔

حفیظن:ناہید بیٹا(آہ) ہاں اچھی ہی ہے۔ بچاری کا روتے روتے  برا حال ہے۔ تم جانو دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ بچپن سے کبھی ساتھ نہیں چھوٹا۔ اس نے روتے روتے آنکھیں سجائی ہیں۔ماں نے جب کل ڈانٹ بتائی تو کہیں آنکھ کا آنسو رکا۔

بیگم:ہاں پہلی بار یہ دونوں الگ ہو رہے ہیں۔ خدا جلد پھر ملائے۔

حفیظن:آمین۔ مگر ایمان کی بات یہ ہے بیگم صاحب کہ غریب بچی ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے در نجف ہے۔ عادت کی۔ خصلت کی۔ اچھی شکل و صورت۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ تمہارے گھر میں تو ایسے گھل مل جائے گی جیسے بچپن سے یہیں ہی رہو۔ اپنا خون اپنا کنبہ تمہیں تو  خدا نے بن مانگے موتی دے دیا۔ اپنے ہاتھ سے جوڑی بنائی ہے اللہ میاں نے۔

بیگم:میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ حفیظن بوا۔ ذرا تعلیم سے نبٹ جائے لڑکا تو سیدھی چچی کی چوکھٹ پر پہنچوں گی۔ ریحانہ کھانا نکال لیا تو نے ، ارے تو چپکا بیٹھا بیٹھا ہماری باتیں کیا سن رہا ہے۔ میرا لڑکا بھی بڑا بھولا ہے۔ شادی بیاہ کی باتوں سے لڑکیوں کی طرح شرماتا ہے۔

ریحانہ:یہ لو کھانا آ گیا۔

حفیظن:اللہ نظر بد سے بچائے۔ خدا شہر والوں کی آنکھوں میں خاک ڈالے۔ لاکھوں میں ایک لڑکا ہے۔ مگر دیکھنا بھیا۔ شہر والے  تو سنتی ہوں حرفوں کے بنے ہوتے ہیں۔ ان سے ذرا ہوشیار رہنا۔ بیگم صاحب تمہیں یاد ہو گا۔ نیازو میری بھانج بہو کا لڑکا اچھا خاصا تھا۔ شہر گیا تھا بس جو شہر کی ہوا لگی تو اس نے یقین مانو کینچلی بدل لی۔ اب تو وہ نیازو ہی نہیں رہا۔ سر میں تیل پھلیل۔ آنکھوں میں کجرا۔ ٹیڑھی مانگ نکالے۔ سوٹ بوٹ ڈاٹے ،  مونچھ داڑھی منڈا وہ تو پورا جنٹلمین ہو گیا وہ  تو بہن میری کوڑی کام  کا نہیں رہا۔

چھوٹے میاں :میں تو وہاں پڑھنے جا رہا ہوں حفیظن  بوا۔ کوئی جادو سیکھنے تھوڑا ہی جا رہا ہوں۔

حفیظن:میرا تو بھیا اسی دن سے شہر کے نام سے جی دھک دھک کرنے لگے ہے۔ طرح طرح کی تو چڑیلیں اپنی صورتیں بنائے پھر ے ہیں۔آڑی مانگیں نکالے ہیں۔ اونچی ایڑی کا وہ کیا ہو وے ہے کیا نام اللہ تمہارا بھلا کرے ، سینڈل پہنے پھر ے ہیں کہ پاؤں ذرا رپٹ جائے تو منہ  کھڑاؤں ہو جائے  اور جی لبھانے کے گر یاد ہیں کم بختوں کو کہ شریف آدمی کا بچ نکلنا مشکل ہو وے ہے۔ اللہ رحم کرے توبہ اللہ میری توبہ۔

بیگم:لو تم کھانا شروع کرو۔

حفیظن:اچھا تو میں چلی بیگم صاحب۔ سلام کہہ دوں گی  اور ناہید بیٹا کو پیار کر دوں گی تمہاری طرف سے۔

بیگم:ہاں  اور کہہ دینا۔یہ ابھی آ رہا ہے سلام کرنے۔

حفیظن:اچھا تو میں چلی۔

چھوٹے میاں :میرا بھی سلام کہہ دینا حفیظن بوا چچی جان  اور۔۔۔

حفیظن:اچھا تو بیگم صاحب سلام۔

بیگم:چھوٹے میاں ، سنا تم نے حفیظن کیا کہہ رہی تھی؟

چھوٹے میاں :ہاں امی۔

بیگم:پھر کیا رائے ہے تمہاری۔ مجھے تو بھیا تیری مرضی کا بھی دھیان ہے ناہید بچاری ہے تو غریب مگر اپنا خاندان ہے اپنا خون ہے پھر بچپن سے تیرے ساتھ پلی ہے۔

چھوٹے میاں :اب میں کیا کہوں گا امی۔

بیگم:میں نے تو کہہ دیا ہے کہ تعلیم پوری ہو جائے۔ ابھی سے لڑکی مانگے لیتی ہوں۔ ادھر تیری نوکری پکی ہوئی ادھر بیاہ  کا بندوبست ہو جائے گا۔

چھوٹے میاں :جیسا تم سمجھو۔

ریحانہ:اب کیسے شرمائے بیٹھے ہیں بچارے (ہنستی ہے)مگر سمجھ لو لکھنؤ سے پہلے میرے لئے دوپٹہ لانا ہو گا نہیں تو ناہید باجی  کا دوپٹہ چھین لوں گی۔

باہر سے آواز:چھوٹے میاں تانگہ آ گیا؟

چھوٹے میاں :ابھی آیا منگلو دادا۔

بیگم:کم بخت نے بچے کے دو نوالے بھی چین سے نہ کھانے دیئے۔ ارے تو نے کھایا ہی کیا ہے؟یہ لے شامی کباب تو ایک  اور  لے لے۔

چھوٹے میاں :بس بس امی۔

بیگم:دیکھو بیٹا۔ ہر روز خط لکھنا۔ میں روز تیرے خط کا انتظار کروں گی۔ ہوشیاری سے رہنا خرچہ بھی دیکھ بھال کے کرنا تو تو جانتا ہی ہے۔ آج کل تیرے ابا کا ہاتھ تنگ ہے  اور شہر کے اللوں تللوں سے ہوشیار رہنا۔ میرے بچے تیرے اوپر سارے گھر بارکو سنبھالنے  کا بار پڑے گا۔

چھوٹے میاں :امی تم اطمینان رکھو۔

بڑے سرکار:ارے بھئی چھوٹے میاں اب جلدی کرو۔ تانگہ کب کا ڈیوڑھی پر لگ گیا۔ بیگم تم ذرا پردہ میں ہو جاؤ تو عبداللہ آ  کر سامان اٹھا لے۔

بیگم:اچھا۔ ریحانہ تھوڑی دیر کے لئے دالان میں آ بیٹھو۔

بڑے سرکار:چھوٹے میاں !

چھوٹے میاں :ابا جان۔

بڑے سرکار:تم سے گھرکی حالت چھپی نہیں بیٹا۔ اپنا پیٹ کاٹ کر جمع  جتھا نکال کر تمہیں پڑھنے بھیج رہا ہوں۔ تمہاری اماں کے زیور کا ایک ایک چھلا بیچ کر تمہاری تعلیم میں خرچ کر دوں گا مگر اب اس گھرکی پتوار تمہارے ہاتھ ہے۔ چھوٹے میاں۔ جی لگا کر پڑھنا۔ یہ سمجھ کر پڑھنا کہ تم کسی کی امانت ہو اور تمہارے اوپر سارے گھر کا بوجھ ہے۔ یہ ساری نیا تمہارے ہی سہارے پھر پار لگے گی دیکھو میرے بیٹے کہیں بہک نہ جانا۔ جی جان لڑا دینا۔ میری بوڑھی ہڈیوں میں اب  اور کس بل بھی نہیں ہے۔

چھوٹے میاں :ابا جان آپ سے دور رہ کر بھی آپ کے پاس ہمیشہ رہوں گا۔

بڑے سرکار:بیٹا۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اچھا اب اپنی ماں  اور بہن سے بھی رخصت ہو آؤ۔

عبداللہ:سارا سامان رکھ دیا ہے بڑے سرکار۔ منگلو بیلوں کے لئے بھوسا مانگ را ہے۔

بڑے سرکار:دے دیا ہوتا۔

عبداللہ:میں نے کہا سرکار سے پوچھ لوں۔ گاڑی کا وقت قریب آن لگا ہے۔

بڑے سرکار:اچھا تو کہہ  دو لوٹتے میں لے جائے گا۔ چلو چھوٹے میاں گاڑی کا وقت ہو گیا۔

چھوٹے میاں :آیا ابا جان۔

عبداللہ:چلو بھئی منگلو سوار ہو۔ اب دکھلا اپنی چال  اور دیکھ تیری حویلی کے سامنے دو منٹ کو روک لیجو۔ چھوٹے میاں اپنی چچی اماں کو سلام کرنے جائیں گے۔ یہ چل۔ بسم اللہ۔ بسم اللہ۔

ناہید:(آنسوؤں کو روک کر)گاڑی جانے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے کیا؟

چھوٹے میاں :کون؟ناہید۔ ارے تم۔ زینے کے نیچے والے کمرے میں کیا کر رہی ہو؟

ناہید:(سسکی) مجھے انتظار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے کیا۔

چھوٹے میاں :چچی جان کہاں ہیں۔

ناہید:اوپر ہیں۔

چھوٹے میاں :کوئی تمہیں یہاں دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔

ناہید:یہی کہے گا کہ تمہیں رخصت کرنے آ گئی تھی۔ تم اتنے بہت سے دنوں کے لئے باہر جا رہے ہونا۔

(سسکی)

چھوٹے میاں :لیکن ذرا دیکھ  تو حالت کیا بنا رکھی ہے اپنی۔ بال بکھرے ہوئے ہیں۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اسی شکل پر انتظار کرے گی میرا۔ ادھر آ۔ ٹھہر۔ لامیں تیرے بال ٹھیک کر دوں۔یہ دیکھ ایسے۔ (بالوں کی لٹ چہرے پرسے ہٹا دیتا ہے) ہت تیرے کی پھر وہی لٹ چہرے پر آ گئی۔

(ناہید کی ہنسی)

ناہید:میں تمہاری راہ دیکھو گی پردیسی۔ تم مجھے بھولو گے تو نہیں۔

چھوٹے میاں :کوئی اپنے کو کبھی بھول سکتا ہے دیوانی۔

ناہید:میری قسم؟

چھوٹے میاں :لا ہاتھ لا۔ میرا ہاتھ خوب کس کے پکڑنا۔ اس موم بتی کی لو کے اوپر رکھ کر ہم دونوں قسم کھاتے ہیں کہ دونوں زندگی کے سارے دکھ درد ساتھ جھیلیں گے۔ ہمیشہ کے لئے سدا کے لئے۔

ناہید:ہائے۔ کیسا داغ  لگا لیا ہے اپنے ہاتھ میں۔ ہائے میرے اللہ۔ بڑی جلن ہو رہی ہو گی۔

چھوٹے میاں : اور تیرے ہاتھ میں جلن نہیں ہو رہی ہے۔

ناہید:میں بہت خوش ہوں۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ لاؤ مجھے اپنا ہاتھ دو۔

چھوٹے میاں :بس اب اچھی بچی بن جاؤ۔ آنسو پونچھو۔ میری واپسی کا انتظار کرنا میری کامیابی کی دعا کرنا۔ میں چچی جان سے ملنے جاتا ہوں۔

ناہید:وہ پوچھیں گی ہاتھ کیسے جل گیا۔

چھوٹے میاں :کہہ دوں گا آپ کی صاحبزادی نے جلایا ہے۔ بس۔

(ناہید کی ہنسی)

ناہید:شریر کہیں کے؟!

چھوٹے میاں :اچھا میں چلا۔ خدا حافظ۔ چچی جان سے مل کر رخصت ہو جاؤں گا۔ خدا حافظ۔

ناہید:خدا حافظ۔

(تانگے کی آوازChange Over   ریل گاڑی کا شور۔ شہر کی ہلچل، اخبار والوں کی آوازیں۔ بسوں  اور موٹروں کی آوازیں۔)

رمیش:(قہقہہ)کیا کہا پارٹنر۔ تمہیں ہماری جان کی قسم۔ ذرا ایک بار پھر بتانا۔ تمہیں گھرکے لوگ کس نام سے پکارتے تھے۔

چھوٹے میاں :چھوٹے میاں کہتے تھے۔

رمیش:(قہقہہ) ارے سن رہا ہے۔ رونالڈ کالمین کے بچے۔ مسٹر جاوید  کو گھر پر لوگ چھوٹے میاں کہتے تھے۔

مجید:ہاں ہاں سن رہا ہوں تو اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ہیرو۔

رمیش:دیکھو مسٹر جاوید۔ برا مت ماننا۔ اس مجید کے بچے کو رونالڈ کالمین کہتا ہوں نا۔ مونچھوں کا بالکل وہی کٹ۔ قسمت کا ذرا ہیٹا نکل  گیا کم بخت نہیں تو کہیں ہالی وڈ میں عیش کر رہا ہوتا۔ زوں سے فرسٹ کلاس بیوک پر نکلتا تو مارے خوشبو کے راستے چلنے والے بے ہوش ہو جاتے۔ ہائے ہائے ایم اے ، ایل ایل بی میں جھک مار رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں۔ زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت۔

مجید:ارے ہیرو کی دم کبھی تو موقع کا شعر پڑھ دیا کر۔ اس رمیش کی باتوں میں نہ آنا جاوید میاں۔ یہ ہنسی مذاق بہت کرتا ہے۔ مگر دل کابرا نہیں ہے۔ گو دل نے اسے بری جگہ اٹکا دیا ہے۔

رمیش:میاں جاوید اب تم سے کیا چوری ہے ہمارے کلاس میں جسٹس ڈیسائی کی نور نظر مس  لیلا ڈیسائی پڑھتی ہے۔ مائی ڈیر غضب کی خوبصورت ہے بالکل ایوا گارڈنر ہے بنی بنائی۔

چھوٹے میاں :پھر کیا کہتی ہے وہ؟

رمیش:ہائے ہائے کیا بھولے پن کی بات کہی ہے تم نے پارٹنر؟!بھلاوہ کیا کہتی۔ کچھ کہتی ہی تو نہیں۔ یہی تو غضب ہے۔

مجید:چچا غالب کا شعر پڑھا ہے تم نے۔ چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے۔ وہ اگر  چاہیں تو پھر کیا چاہئے۔

رمیش:ہائے مشاعرہ لوٹ لیا ظالم نے۔ واہ واہ۔ اچھا رونالڈ کالمین۔ اب ذرا اسی بات پر جلدی سے تیار ہو  جاؤ آج میوزک کنسرٹ ہے۔ یہاں سے پہلے پکچر چلیں گے پھر ایک پیالی کافی پئیں گے کافی ہاؤس میں  اور  وہاں سے سیدھے میوزک کنسرٹ میں۔ آج وہ بھی تو ناچیں گی۔ یعنی کہ وہ۔ بس سمجھ جاؤ۔

مجید:سمجھا۔ چلو مسٹر جاوید۔

رمیش:لیکن دیکھو یار۔ بھگوان قسم یہ ا چکن۔ پاجامہ نہیں چلے گا۔ آج تم میرا گرم سوٹ پہن لو بھڑکیلی ٹائی لگا لو کہ جدھر سے گزرو دو چار لڑکیاں آنکھ ماریں۔ میں کہتا ہوں یار یہ کیا رٹ رٹ  کر سارے کمرے کا ٹمپریچر زیروZero   کئے رہتا ہے۔ ظالم۔ دوچار A-1   قسم کے سوٹ سلوا لو۔ عیش کر پارٹنر عیش زندگانی پھر کہاں !

چھوٹے میاں :اب کے منی آرڈر آئے گا تو ہو جائے گا ایک سوٹ۔

مجید:ہاں ہاں مگر اس وقت تو تیار ہو جاؤ۔

رمیش:ذرا پرواہ مت کر بادشاہ ہو۔ مجید۔

مجید:پھر کچھ  اور مصیبت۔

رمیش:میں سوچتا ہوں۔ زندگی یہی کچھ Student Days   کی ہے یار۔ باقی سب بکواس ہے اس سے پہلے لڑکے کو کچھ تمیز نہیں ہوتی۔ گدھے کی طرح کتابوں پر جٹا رہتا ہے  اور اس کے بعد جب نوکری کے چکر میں پڑتا ہے۔ تو نون تیل لکڑی سب کچھ بھلا دیتی ہے گھر میں چیاؤں  پیاؤں دس عدد بچے تگنی کا ناچ نچاتے ہیں۔ بیوی الگ ناک میں تیر پہناتی ہے  اور قرضدار، دفتر کا Boss   ، رشتے دار ناتے دار سب سالے گلا دبانے آ جاتے ہیں۔ اب تو عیش ہے عیش سب سمجھتے ہیں لونڈا پڑھ لکھ کر کلکٹر بن جائے گا۔

مجید:تجھے اب پتہ لگا ہے یہاں جو پیر مرد تین سال سے فیل ہو رہے ہیں تو اسے تو نے مذاق ہی سمجھ لیا ہے میری جان۔ زندگی بڑی ظالم ہے۔ یہاں یونیورسٹی ہوسٹل کی چھت کے نیچے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ہاتھ بڑھا کر ستاروں کو چھو سکتا ہوں۔ یہاں وہی گھاٹے میں رہتا ہے جو چھوٹی باتوں پر قناعت کر لیتا ہے۔ یہاں میں نے ہرچیز کو اپنی دسترس میں پایا۔ مجھے ایسا لگا ہے کہ سب لوگوں کی طرح میرے پاس بھی کل موٹر ہو سکتی ہے۔ بنگلہ ہو سکتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ  اور مالدار بیوی ہو سکتی ہے  اور زندگی کی ساری نعمتیں میرے ہاتھ میں ہیں۔

چھوٹے میاں :یہ بڑی عجیب دنیا ہے مجید بھائی۔

مجید:ہاں جاوید۔ عجیب دنیا ہے لیکن اس دنیا کے باہر نکل کر یہ سارے ستارے فضا میں کہیں گم ہو جاتے ہیں  اور میں اپنے قصبے کی اندھیری گلیوں میں چھوٹی سی نوکری کے لئے مارا مارا پھر تا ہوں۔ یہاں سب کچھ مل سکتا ہے  اور بہت کچھ کھویا جاتا ہے۔

رمیش:جاوید یہ  رونالڈ کالمین فلمی ڈائلاگ بول رہا ہے۔ اسے بولنے دو۔ میری بات مانو تو صرف ایک گر یاد رکھو۔ پہلی فرصت میں ایک عدد عشق کر ڈالو۔ زندگانی پھر کہاں۔

مجید:میاں جاوید۔ اس نے تو عشق کی ایجنسی لے رکھی ہے اس کی باتوں میں نہ آنا۔

چھوٹے میاں :نہیں مجید بھائی میرا عشق وشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

رمیش:ہاہاہا کیا کہنے ہیں شہزادہ گل فام کے۔ کبھی آئینہ میں صورت ملاحظہ کی ہے صاحبزادے۔ اسی شکل پریہ غلط فہمی ہے۔ گویا ابھی آپ عشق کا ارادہ ظاہر کریں گے۔ ادھر رانی پدمنی تخت و تاج چھوڑ کر آپ کے قدموں میں سر جھکانے آئے گی  اور کہے گی ’’ہے پربھو۔ مجھے اپنے چرنوں میں جگہ دو۔‘‘ابھی چند دن کی بات ہے کہ آپ قصبے سے تشریف لائے ہیں۔ یہاں پر آپ کا ایسا ہے جیسے تھیلوں میں شترمرغ کو بند کر دیا ہو۔ ویسے کسی لکھ پتی خاندان کے چشم و چراغ بھی نہیں آپ کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ ابھی گریجویٹ ہونے والے ہیں  اور  دماغ۔۔۔  کیا خوب:

اسی کو کہتے ہیں بلی کے سر میں چھچوندر کا تیل

چھوٹے میاں :رمیش بابو!

مجید:ابے ہیرو۔ کیوں Leg pulling   کرتا ہے یار خوامخواہ۔

رمیش:شہزادہ گل فام کے۔ اگر ۶مہینے کے اندر اندر یونیورسٹی کی کسی حسین لڑکی کو اپنے سے بات کرنے پر آمادہ کر لو تو یہ  رونالڈ کالمین سی مونچھیں چیل کے پیشاب میں منڈوا دوں۔

چھوٹے میاں :آپ بھول رہے ہیں رمیش بابو۔ میں بھی آپ سب کی طرح انسان ہوں۔ آپ سب کی طرح نوجوان ہوں۔

رمیش:(طنز سے) ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔

مجید:ابے کیا ہیرو کی دم بنا پھر تا ہے۔ اگر مرد ہے تو ہاتھ  ملا شرط باندھتا ہوں کہ ۶ہفتے کے اندر اندر  جاوید سچ مچ شہزادہ گل فام ہو گا۔ اس یونیورسٹی پر تمہارے حضرت گنج  پر تمہارے Gladdar   والی سوسائٹی پر دیکھتے دیکھتے چھا جائے گا۔

رمیش:اچھا جی!

چھوٹے میاں :میوزک کنسرٹ کا ارادہ نہیں ہے کیا؟

رمیش:یار سارا موڈ اس عود بلاؤ نے تباہ کر دیا۔

مجید:چل بے میوزک کنسرٹ چل رہے ہیں۔

(بھیڑ کا شور، بات چیت، آہستہ آہستہ Fade Out Change Over  ، وقفہ۔ بارہ بجنے کی آواز۔)

رمیش:(دروازہ کھٹکھٹاتا ہے)شہزادے گل فام۔ دروازہ کھولو۔

مجید:مسٹر جاوید۔ دروازہ کھولو۔ مائی ڈیر۔

چھوٹے میاں :رات کے بارہ بجے آپ لوگوں کو گدگدی ہوئی ہے۔ میں نہیں کھولتا دروازہ سخت نیند آ رہی ہے۔

(جماہی)

رمیش:نہیں کھولے گا دروازہ۔ اچھا صبح کو مزا چکھاؤں گا۔

مجید:ابے آج اس کی کامیابی کی رات ہے ہیرو ہو گیا ہے ہیرو۔ چلو سونے دو۔

چھوٹے میاں :شب بخیر۔ گڈ نائٹ۔

 (پھر جماہی)

(Change Over)

ثریا:میں نے آپ کو بلایا تھا۔

چھوٹے میاں :شکریہ۔ مس ثریا بیگم۔

ثریا:شکریہ تو مجھے ادا کرنا ہے۔ آپ نہ ہوتے تومیں سوچ نہیں سکتی کیا کچھ ہو جاتا۔

چھوٹے میاں :جی نہیں۔ آپ پر کوئی احسان نہیں کیا میں نے۔

ثریا:آپ بہت عجیب ہیں۔

چھوٹے میاں :میں بالکل عجیب نہیں ہوں آپ لوگ جو تہذیب کے شیش محلوں میں رہتے ہیں مخملی قالین جگمگاتے فانوس  اور  ریشمی پردوں کے پیچھے رہتے ہیں۔ انھیں باہر کی دنیا کی  ہر بات عجیب لگتی ہے۔

ثریا:مجھے عجیب آدمی اچھے لگتے ہیں۔

ثریا:مسٹر جاوید۔ آپ نے بڑی دیر کر دی۔ ہم سب پک نک (Picnic)   پر آپ کا انتظار کر رہے تھے۔

چھوٹے میاں :لیجئے میں آ گیا۔

چھوٹے میاں :آئیے اس مولسری کے پیٹر تک چلتے ہیں۔ دیکھیں کون پہلے پہنچتا ہے۔ ون۔ ٹو۔تھری۔ اسٹارٹ، (دوڑتے ہیں) رہ گئیں نہ پیچھے۔ یہ مولسری کے پھول میں نے تمہارے لئے کتنے بہت سے پھول چنے ہیں۔

ثریا:ان کا ایک چھوٹا سا کلپ بنا کر میں اپنے بالوں میں لگاؤں گی۔

ثریا:اوہ۔ مسٹر جاوید۔ بڑی دیر کر دی آپ نے۔ میں کتنی دیر سے آپ کی راہ دیکھ رہی ہوں۔

چھوٹے میاں :معاف کیجئے گا ذرا دیر ہو گئی۔

ثریا:بھئی کمال ہے۔ آج ہماری سالگرہ کی پارٹی میں بھی آپ دیر سے آئے ہیں۔ حد ہو گئی۔

چھوٹے میاں :میری طرف سے یہ تحفہ قبول کرو۔ بہت حقیر تحفہ ہے۔ مگر بڑے خلوص سے یہ نذر پیش کر رہا ہوں۔

ثریا:میرے لئے تمہارا چھوٹے سا چھوٹا تحفہ بھی سب سے زیادہ قیمتی ہو گا۔

چھوٹے میاں :شکریہ۔

ثریا:لاؤ مجھے دو۔ دیکھوں تو کیا ہے یہ انگوٹھی۔۔۔ (حیرت، تعجب  اور صدمے سے) انگوٹھی!! یہ تم نے کیا کیا جاوید۔ یہ تم نے کیا کیا۔

نوکر:جاوید صاحب کو کوئی باہر بلا رہا ہے۔

چھوٹے میاں :کون ہے؟

نوکر:میں کیا جانوں سرکار۔ کوئی بوڑھا سا آدمی ہے۔

چھوٹے میاں :اچھا میں دیکھتا ہوں۔

چھوٹے میاں :ابا جان!آپ!

بڑے سرکار:ہاں بیٹا۔ تمہارا امتحان ختم ہو گیا۔ تو بھی تم نہیں آئے۔ تمہاری ماں نے رو رو کر برا حال بنا لیا ہے۔ ریحانہ سر ہو گئی۔ میرے پیچھے پڑ گئی تو مجھے  آنا ہی پڑا۔

چھوٹے میاں :ہاں ابا۔ مجھے دیر ہو گئی۔

بڑے سرکار:اب تمہارا یہاں کیا کام ہے بیٹا۔ چلو گھر چلیں۔ اب کاروبار سنبھالو۔ نوکری ڈھونڈو(خاموش ہو کر)  اور ناہید بیٹا کب سے تمہاری راہ تک رہی ہے اب تو تمہارا کام یہاں ختم ہو گیا ہے۔

چھوٹے میاں :ہاں کام تو ختم ہو گیا ہے لیکن وہاں اس قصبے میں میرا دل نہ لگے گا۔ یہیں کوئی نوکری ڈھونڈھ لوں گا۔

بڑے سرکار:دل نہیں لگے گا!ہمیشہ وہیں پلے بڑھے ہو اب دل کیوں نہیں لگے گا۔

چھوٹے میاں :مجھے معلوم نہیں۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔ شاید ا س سے پہلے میں نے ایسی زندگی کے خواب نہیں دیکھے تھے۔ مجھ سے ایک اجاڑ گاؤں میں دفن ہو کر نہ رہا جائے گا۔ میں وہاں خوش نہ رہ سکوں گا۔

بڑے سرکار: اور ناہید کا کیا ہو گا۔ وہ تو ایک مدت سے تمہارے سہارے بیٹھی ہے۔

چھوٹے میاں :اس کے لئے  اور بہت سے رشتے مل جائیں گے۔

بڑے سرکار:(غصے سے) چھوٹے میاں !

چھوٹے میاں :جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں ابا جان۔ میں ایک جاہل ان پڑھ دیہاتی لڑکی کے لئے اپنی زندگی تباہ نہیں کر سکتا۔

بڑے سرکار:تجھے یہ لفظ کہتے شرم نہیں آئی۔ اس پاکیزہ لڑکی کی تو نے یہ قدر کی ہے۔ میں تجھے کبھی نہیں بخشوں گا چھوٹے  یہ تو نے ہماری شرافت پر طمانچہ مارا ہے۔ میں اس سے کس منہ سے یہ بات کہوں گا یہ تیری زبان یہ بات کہنے سے پہلے کٹ کر نہ گر پڑی۔

چھوٹے میاں :میں مجبور ہوں ابا جان۔

بڑے سرکار:خبردار جو مجھے  ابا جان کہا۔ سمجھ لے آج سے میں تیرا کوئی نہیں ہوں۔ میں تیرے لئے مرگیا۔

نوکر:سرکار۔ جاوید صاحب۔

چھوٹے میاں :کیا ہے؟

نوکر:ثریا بی بی نے ڈبہ دیا ہے  اور یہ پرچہ بھیجا ہے۔

چھوٹے میاں :مس صاحب نے۔ اچھا لاؤ۔

(پڑھتا ہے۔)

’’ڈیر جاوید۔ تمہارا تحفہ واپس بھیج رہی ہوں۔ یہ تم نے کیا کیا۔ انگوٹھی کا تحفہ  اور تم سے؟میں تمہاری قدر کرتی ہوں تمہیں اپنا دوست سمجھتی ہوں لیکن تمہارا تحفہ قبول کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔ معاف کرنا۔ ثریا۔‘‘

چھوٹے میاں :(طنز کے ساتھ دو قہقہے)بولو جاوید۔ بولو۔ اب کدھر جاؤ گے۔ ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہو۔ چاند کو ہتھیلی میں پکڑنا چاہتے ہو۔ مولسری کے پھولوں سے پیاس بجھانا چاہتے ہو۔ چمکتی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہو۔ اب کون ہے تمہارا۔ کون ہے تمہارا۔ جو تمہاری تھی اسے تم ٹھکرا چکے جس دنیا تک تم اڑ کر جانا چاہتے ہو۔ اس نے تمہیں ٹھکرا دیا۔ بولو اب کدھر جاؤ گے۔ دیوانہ جاوید!ستم زدہ جاوید! دونوں دنیاؤں میں اکیلا تنہا جاوید۔۔۔ !

(دیوانہ وار قہقہہ لگاتا ہے۔)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘

مکتبۂ دین و ادب

لکھنؤ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔