03:23    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1905 0 0 00

گوشۂ عافیت - ڈاکٹر محمد حسن

ایک ایکٹ میں ایک طربیہ

کردار:

بیگم:بیس پچیس سال کی خوبصورت دوشیزہ جس کی شادی کو ابھی زیادہ مدت نہیں گزری ہے۔

انور:تیس بتیس سال کا متوسط طبقے کا ایک نوجوان۔

اختر:انور کا دوست جو تقریباً ہم عمر ہے مرنجان مرنج  اور خوش طبع نوجوان ہے۔

بوڑھا:۶۵یا۷۰ برس کا چھوٹے قد کا بوڑھا۔ اس کی خضاب سے رنگی داڑھی،  اور  شرارت سے بھری ہوئی آنکھیں اس کی کمینگی  اور  چالاکی کی غماز ہیں۔

پیر صاحب:ادھیڑ عمر کے درویش نما بزرگ جن کی داڑھی  اور  سر سیاہ ہے۔ لیکن تقدس سے زیادہ کھلنڈرا پن نمایاں ہے۔

چند پڑوسی ادھیڑ، جوان  اور نوجوان۔

زمانہ موجودہ۔ دوسرے پنج سالہ منصوبے کے مکمل ہونے سے پہلے جب ہندوستان میں مکان کا مسئلہ حل ہونے کی صورت نظر نہیں آئی ہے۔ جگہ، ہندوستان کا کوئی شہر۔

پہلا منظر

پہلا منظر

(نہایت خستہ حال، گندے  اور مختصر مکان کا کمرہ۔جس کی دیواروں پر برسوں سے قلعی نہیں ہوئی ہے چھت نیچی ہے۔ دیواروں پر مختلف لکیریں  اور کارٹون بنے ہوئے ہیں۔ فرش کہیں کہیں کچا ہے  اور  کہیں اینٹیں دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس کمرے مین دو پلنگ بچھے ہوئے ہیں ایک کا رخ اسٹیج کی طرف ہے  اور دوسرا اسٹیج کے بائیں طرف اسٹیج کی لمبائی میں بچھا ہوا ہے ، اسی طرح جو جگہ کمرے میں نکالی گئی ہے اس میں ایک چھوٹا سا غالیچہ بچھا دیا گیا ہے  اور اس پر ایک چھوٹی سی اخروٹ کی لکڑی بنی ہوئی میز  اور  دو کرسیاں بچھی ہوئی ہیں یہ دونوں قیمتی  اور  اچھی حالت میں ہیں۔ اسٹیج کے بیچ میں پہلے پلنگ کے ٹھیک اوپر ایک کھڑکی ہے جس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ لکڑی کا پالش کہیں کہیں سے اڑ گیا ہے کچھ حصہ دیمک نے کھا لیا ہے۔ شیشے بھی بد رنگ ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کھڑکی کے نچلے حصہ پر بھی پھوٹے چھوٹے پردے لٹکائے گئے ہیں پردے خوشنما ہیں لیکن اس کھڑکی پر عجیب  بے جوڑ سے لگتے ہیں۔ بائیں طرف دوسرے پلنگ کے سرہانے چند بکس رکھے ہوئے ہیں ایک بکس کے اوپر میز پوش بچھا کر پاندان رکھ دیا گیا ہے دونوں پلنگوں پر صاف ستھرے بستر بچھے ہوئے ہیں مگر کمرے کی فضا پر بھی ملگجی، دھندلی  اور دھوئیں سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے بائیں طرف کپڑے ٹانگنے کی کھونٹیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ بیچ کی میز پر گل دان رکھا ہوا ہے جس میں پھول بھی موجود ہیں ان میں سے کچھ مرجھا گئے ہیں ظاہر ہے کہ یہی کمرہ بہ یک وقت سونے کا کمرہ بھی ہے  اور ڈرائنگ روم بھی۔

اس کمرے کے دو دروازے ہیں اسٹیج کی دائیں طرف کا دروازہ باہر جاتا ہے اس پر رنگین پردے لٹکائے گئے ہیں بائیں طرف کا دروازہ مختصر سے صحن  اور باورچی خانے کی طرف جاتا ہے۔

جب پردہ اٹھتا ہے انور کرسی  پر بیٹھا جوتے کے بند کھولتا دکھائی دیتا ہے بکھرے ہوئے بال  اور گرد آلود چہرے سے ظاہر ہے کہ کافی دور گھوم گھام  کر آیا ہے۔ چیک کا گرم کوٹ اتا کر کھونٹی پر ٹانگ چکا ہے ، جوتے کے بند کھول کر جرابیں اتارتا ہے  اور ایک پاؤں گھٹنے پر رکھ کر اسے دباتا ہے معلوم ہوتا ہے بہت تھکا ہوا ہے پھر انگڑائی لیتا ہے  اور نکٹائی کھولنے لگتا ہے ابھی کھول ہی رہا ہے کہ بیگم دائیں دروازے سے داخل ہوتی ہے۔)

بیگم:آ گئے شہزادہ گل فام؟کہئے کچھ مکان کا بندوبست ہوا۔

(بیگم غرارہ جمپر  اور  دوپٹہ پہنے ہوئے ہیں لباس سے ان کی خوش مذاقی ظاہر ہوتی ہے۔)

انور:ابھی تھک ہار کر آیا ہوں۔ دم تو لینے دو۔ نہ چائے کو پوچھا نہ پانی کو۔ بس آتے ہی مکان کا سوال شروع ہو گیا۔

بیگم:میں کہہ چکی ہوں مجھ سے اس کمرے میں نہ گھٹا جائے گا۔ میں کل ہی اپنے میکے چلی جاؤں گی۔ نہیں تو کسی ٹھکانے کے مکان کا انتظام کرو۔

انور:یہی بات تمہاری سمجھ میں آ جاتی تو پھر رونا کا ہے کا تھامیں کہتا ہوں اسی زمانے میں چا ہو تو کولمبس کی طرح نئی دنیا ڈھونڈ نکالو مگر مکان نہیں مل سکتا۔

بیگم:آخر شہر  بھرا پڑا ہے مکانوں سے۔ دنیا جہان کے لوگ رہتے ہیں ہر کوئی تمہاری طرح کونے کھدروں میں پڑا رہے توبھلا کیسے کام چلے۔

انور:بیگم، جی جلانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مکان نہیں ملے گا، نہیں ملے گا، نہیں ملے گا۔

بیگم:تومیں کہتی ہوں ایسی نوکری کو جھونکو  بھاڑ میں۔ صاف صاف تم اپنے دفتر والوں سے کہہ کیوں نہیں دیتے کہ ’’اگر تمہیں نوکر رکھنا ہے تو مکان دیں نہیں تو بابا، پھٹ پڑے وہ سونا جس سے  ٹوٹیں کان۔ یہ لو اپنی نوکری۔

انور:جی ہاں !ایسے ہی تو وہ میرے عزیز دار لگتے ہیں کہ میرے ناز نخرے اٹھائیں گے۔

بیگم:جب اپنی گوں اٹکے گی تو ہزار  بار اٹھائیں گے۔ میں تو پہلے ہی جانتی ہوں تم مکان کے لئے دوڑ دھوپ ہی نہیں کرتے۔ یہ تم تو سدا سے چاہتے ہو کہ میں گھبرا کے میکے چلی جاؤں۔

انور:بیگم!بیگم!!خدا کے لئے رحم کرو مجھ غریب پر۔ دیکھ رہی ہو آج تین دن سے مارا مارا پھر رہا ہوں۔ پنواڑی، سائیکل کا پنکچر بنانے والے۔ اخبار والے بھی سے کہہ آیا ہوں  اور تم کہتی ہو کہ میں دوڑ دھوپ نہیں کرتا۔ اب کیا اپنی جان دے دوں؟

بیگم:(دوسرے پلنگ پر بیٹھ جاتی ہیں) میں بھی توسنوں کیا کہتے ہیں یہ سب لوگ؟

انور:(کچھ دیر گھبرا کر خاموش ہو جاتا ہے۔پھر یکایک جیسے کچھ یاد آ گیا ہو) ہاں خوب یاد آیا۔ اختر نے اس وقت آنے کو کہا تھا۔ وہ ضرور مکان کا کوئی انتظام کر کے لائے گا۔

بیگم:دیکھ چکی ہوں تمہارے سارے دوستوں کو۔ سب چولھے میں ڈالنے کے قابل ہیں۔ کام کے نہ کاج کے۔ دشمن اناج کے۔ ویسے انور میاں کہتے منھ سوکھتا ہے  اور کام کے وقت ادھر رخ بھی نہیں کرتے۔

انور:جی ہاں۔ میں برا۔ میرے دوست برے۔ میری قدرت میں ہوتا تو الہ دین کا چراغ کہیں سے لے آتا۔ چٹکی بجاتے میں مکان کا فراہم ہو جاتا۔ مگر افسوس انسان ہوں الہ دین نہیں ہوں۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ دستک کی آواز سن کر بیگم پہلے برا سا منہ بناتی ہے پھر سر پر دوپٹہ ٹھیک کر کے پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے  اور پاندان اٹھا کر چھالیہ کاٹنے لگتی ہے۔)

انور:کون؟

(اختر کے کھنکھارنے کی آواز آتی ہے۔)

انور:اختر۔ آؤ بھی اندر آ جاؤ۔ خدا کی قسم بڑی عمر ہے تمہاری۔

(اختر اندر داخل ہوتا ہے۔ گرم سوٹ پہنے ہوئے ہے چھوٹی چھوٹی مونچھیں ہیں۔ ٹائی شوخ رنگ کی ہے اس کی چال  اور  چہرے سے اس کی بشاشت  اور ظرافت طبع کا اندازہ ہوتا ہے۔)

انور:ابھی تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا۔

اختر:آداب عرض ہے بھابھی۔ کہئے کچھ چائے وائے کا بندوبست ہے۔

بیگم:(آداب عرض سے خوش ہو گئی ہے مگر جلی کٹی سے باز آنے والی نہیں) آتے دیر نہیں چائے کی رٹ لگ گئی۔ اب بتاؤ اتنے سے کمرے میں تم لوگوں کو بٹھاؤں یا چائے کے برتن لگاؤں یا۔۔۔

اختر:(بات کاٹ کر) بس بس رہنے دیجئے صاحب۔ مکان کی تکلیف ہے آپ کو؟ تویوں کہئے نا۔

بیگم:تو کیا کوئی مکان مل گیا ہے؟

اختر:ایسی معمولی بات ہے مکان ملنا؟جناب بھابھی صاحبہ۔ دفتر کے چپراسی کو ترکی کی بنی ہوئی اعلیٰ ترین ایک چھوڑ دو سگریٹیں پلائی ہیں اس نالائق کے کندھے پر ہاتھ رکھا مکان ملنے پر انعام دینے  کا وعدہ کیا تب کہیں خدا خدا کر کے۔۔۔

انور:(بے صبری سے بات کاٹ کر) کہو کہو رک کیوں گئے۔

بیگم:تو کیا مل گیا مکان؟

اختر:جلدی کام شیطان کا۔ بھابھی اب میرے پاس کوئی جادو کا ڈنڈا تو ہے نہیں کہ گھمایا  اور مکان حاضر۔ نہ  علاؤ الدین کا چراغ ہے کہ ذرا سا گھسا  اور جن نے ایک سکنڈ میں محل چن دیا۔

بیگم:خدا کے لئے !کیا اب ساری الف لیلیٰ یہیں پر ختم ہو جائے گی یا کچھ  اور  بھی بات کرو گے۔

اختر:اچھا مٹھائی کا وعدہ کیجئے تو بتائیں۔

بیگم:وعدہ بابا، پکا وعدہ کرتی ہوں۔ کچھ کہو تو سہی۔

اختر:تو سنئے  جگر تھا م کے سنئے

اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی

کہ جناب اس چپراسی کا بیان ہے کہ ایک مکان خالی ہوا ہے  اور  آپ کو کرایہ پرمل سکتا ہے۔

بیگم/انور:(بے اختیار ہو کر) کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ کرایہ کتنا ہے؟

اختر:آرڈر! آرڈر!!ذرا صبر سے کام لو بھائی۔

بیگم:اختر! ڈراما ختم کرو۔ سچ سچ بتاؤ مکان کہاں ہے  اور کیسا ہے؟

اختر:یہی تو بتا رہا ہوں۔ یہی کوئی یہاں سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر ہو گا کپڑا مل سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ویسے ہے کافی بڑا۔ تین کمرے ہیں باورچی خانہ، غسل خانہ وغیرہ وغیرہ  اور چھوٹا سا صحن بھی ہے۔آبادی اس طرف ذرا کم ہے نیچے والے حصے میں مالک مکان خود رہتے ہیں اس پار چار پانچ مکان ہیں۔

بیگم:پانچ چھ میل!

انور:وہاں تو گویا ذرا دور ہے مگر خیر کیا ہوا؟ہے تو  مکان۔

بیگم:ہر  مہینے تھوڑی بچت کر کے قسطوں پر ایک سائیکل خرید لینا۔

اختر:ایک بات  اور ہے مالک مکان خبطی قسم کا بوڑھا ہے۔ عمر بھی کوئی ۷۰ سال کے قریب ہے۔ کرایہ داروں کو بہت پریشان کرتا ہے۔

بیگم:خبطی ہو تو ہوا کرے۔ ہمارا کیا کرے گا؟اپنا کرایہ لے گا کوئی جان تھوڑا ہی لے گا۔

اختر:میں نے بتا دیا۔

انور:مالک مکان کو مارو گولی۔ یہ بتاؤ کہ کمرے کتنے ہیں اس مکان میں؟

اختر:میں نے کہانا؟تین کمرے ہیں بڑے ! بیچ میں پردہ ڈال کر دو کمرے  اور  نکل سکتے ہیں۔

انور:بس تو ٹھیک ہے۔ بھئی ایسا کریں گے بیگم کہ ایک کمرہ مردانہ بنا لیں گے وہاں ایک کمرے میں قالین  اور دری چاندنی کا فرش کرا دیں گے  اور  دوسری طرف صوفہ سیٹ  اور دیوان۔

بیگم:یہ سمجھ لیجئے کہ میں آپ کی نشست کا کمرہ  اور پڑھنے کا الگ الگ نہیں کرنے دوں گی۔ بس ایک کمرہ آپ کے قبضے میں ہو گا۔ چاہے اس میں بیٹھئے چاہے بٹھالئے۔

انور:نہیں بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پڑھنے لکھنے کا کمرہ تو الگ ہونا چاہئے۔ تمہیں دو کمروں کا کیا کام۔

بیگم:یہ لیجئے۔ مجھے کمروں کی بھلا کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی خوب کہی بھئی۔ آپ کے ملنے والے آئیں تو سونے  اور قالین پر بیٹھیں  اور  میری سہیلیاں آئیں گی تو کیا ان کو کیا سونے کے کمرے میں بٹھاؤں گی۔

انور:بھئی تم تو نا حق خفا ہونے لگیں۔ ایسا کرو کہ اس کمرے میں ایک طرف بیڈروم بنا لو اور پردہ ڈال کر ایک طرف سنگھار کا کمرہ  بنا لو۔ وہیں کرسیاں  اور تخت ڈال کر دوسری طرف۔۔۔

بیگم:(بات کاٹ کر) آہا۔ دوسروں کو ترکیبیں بتانا کوئی ان سے سیکھے۔ تمہیں اپنے کمرے میں پردہ ڈال کر اسٹڈی کا کمرہ کیوں نہیں نکال لیتے !

اختر:بھئی اچھی خاصی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ پہلے کمرہ کو دیکھ لو پھر طے کرنا کس کے حصے میں کون سا کمرہ آئے گا۔

بیگم:نہیں صاحب ابھی طے ہو جانا چاہئے ایک کمرہ آپ کو ڈرائنگ روم  اور  اسٹڈی کے لئے ملے گا دوسرا کھانے کا کمرہ ہو گا  اور  تیسرے میرے لئے۔

انور: اور بیڈ روم؟ سونے کا کمرہ  کدھر گیا؟

بیگم:اس کا بھی کچھ ہو جائے گا۔ یہ سب بعد میں طے ہو گا۔

اختر: اور ہاں یہ  بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ اس میں ایک چھوٹا سا برآمدہ بھی ہے۔

انور:بہت خوب بیگم، اب توہم گھر سے رنگین پردے بھی لیتے آئیں گے۔

بیگم: اور صحن میں گلاب کی کیاریاں لگائیں گے۔

اختر:مگر بھابھی وہ تو اوپری منزل پر ہے کچی زمین آپ کو کہاں ملے گی؟

انور:گملوں میں سہی۔ پھولوں کے گملے ہمارے یہاں ہونے چاہئیں۔ مجھے تو گلاب سے عشق ہے۔ ہمارے ملک میں تو پھولوں کا شوق ہی مٹتا جا رہا ہے۔ آدمی بالکل کاروباری ہو گیا ہے۔

بیگم:تمہاری بیٹھک میں کچھ تصویریں بھی ہونا ضروری ہیں۔

انور:خدا کی قسم کیا بات کہی ہے بیگم!!میرے ہاتھ بنائی ہوئی وہ خوبصورت تصویریں پڑی ہوئی ہیں کہ بس نہ پوچھو۔ جب سے کم بخت مکان کا چکر شروع ہوا ہے اس وقت سے ان تصویروں کا خیال ہی ذہن سے نکل گیا۔ ان سب کو پھر سے فریم کرا کے ڈرائنگ روم میں لگاؤں گا۔

بیگم:(اختر سے)اچھا بھیا۔ اب یہ بتاؤ کہ مکان کا کرایہ کیا ہے؟

اختر:پچھلا کرایہ دار تو پینتیس روپیہ دیتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ وہ کرایہ کچھ بڑھانا چاہتے ہیں۔

بیگم:زیادہ ہے کرایہ!

انور:بس اب لگیں تم باریکیاں نکالنے۔ پیسہ دانت سے پکڑو گی تو بس مل چکا مکان۔ کوئی روز روز آتے ہیں یہ موقع۔ بھئی دیکھو صبح ناشتے میں روغنی ٹکیاں کم کر دینا کسی طرح تو بچت کرنی ہو گی۔

بیگم:خیر!اللہ مالک ہے۔

اختر:تو پھر کیا ارادہ ہے۔

انور:ارے میاں۔ ارادہ کیا ہوتا۔ چلو میں گھڑی کی چوتھائی میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ذرا مجھے مالک مکان سے تو ملا دو۔ سب ٹھیک کئے لیتا ہوں۔

اختر:بیگم برادر، وہ آدمی ذرا خبطی قسم کا ہے۔

انور:تم چلو تو سہی میں اس سے بڑا خبطی ہوں۔

اختر:(اٹھتے ہوئے) اچھا چلو۔

بیگم:خدا کرے کامیاب ہو کر لوٹو۔ سرخرو آؤ۔

(انور کھونٹی پرسے کوٹ اتار کر پہنتا ہے ٹائی لگاتا ہے جوتوں کی گرد جھاڑتا ہے  اور دائیں طرف کے دروازے سے دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)

دوسرا منظر

دوسرا منظر

(لکڑی کا جنگلہ اسٹیج کے تین طرف لگا ہوا ہے اس کا صدر دروازہ اسٹیج کے بائیں طرف ہے جنگلے کے پاس ہی ایک زبردست قسم کا کتا ٹہل رہا ہے کبھی ٹہلتا ہے  اور کبھی آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔ دائیں طرف اسٹیج کے بالکل آخر میں دو منزلہ مکان کا کچھ حصہ دکھائی دیتا ہے۔ سامنے میدان میں دو یا تین مونڈھے  اور ایک آرام کرسی پڑی ہوئی ہے ان میں سے ایک مونڈھے کے نیچے مرغیاں بند ہیں  اور  ایک دوسرے مونڈھے کے نیچے ایک مرغا بند ہے۔

جب پردہ اٹھتا ہے تو ایک مونڈھے پر بوڑھا بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے اس وقت اس کی خاکی پتلون کے علاوہ  اور کوئی کپڑا دکھائی نہیں دے رہا ہے اس کے جوتے بغیر پالش کئے ہوئے سیاہ بوٹ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اسٹیج کے بائیں کنارے پر جنگلے کے صدر دروازے پر انور اور اختر دکھائی دیتے ہیں انور جنگلے کا دروازہ کھولتا ہے  اور  کتا ایک دم اس کی طرف آتا ہے  اور بھونکتا ہے  اور انور خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

انور:ارے ارے۔۔۔ میاں اختر۔ یہ تو کاٹ کھائے گا۔

(کتا پھر بھونکتا ہے۔)

انور:کھڑے کھڑے دیکھ رہے ہو اسے مارتے نہیں۔

اختر:تم اپنے آپ اسے مارو نا۔

(کتا پھر بھونکتا ہے انور داخل ہونا چاہتا ہے پھر جھجک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

انور:(کتے کی طرف دوبارہ بڑھتے ہوئے) ارے تم کیا مارو گے اسے۔ وہ تو کاٹ کھائے گا۔

اختر:ٹھہرو ابھی خبر لیتا ہوں۔

(اخبار میں جنبش پیدا ہوتی ہے  اور اخبار تہہ کر کے بوڑھا فوراً صدر دروازے کی طرف بڑھتا ہے بوڑھا ٹھنڈی خاکی پتلون پر سیاہ صدری  اور  کالی ٹوپی پہنے ہوئے ہے داڑھی خضاب سے رنگی ہوئی ہے۔ آنکھوں پر پتلی کمانی کا چشمہ ہے جس کے شیشے  اور کمانیاں میلی ہیں چہرے پر غصے کے آثار ہیں۔)

بوڑھا:خبردار جواس پر ہاتھ اٹھایا۔ نہایت بدتمیز معلوم ہوتے ہو آپ لوگ میرے گھر میں گھس کر میرے ہی کتے پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ کہاں کی شرافت ہے؟

انور:بڑے میاں آپ بھی الٹا ہمیں پر خفا ہونے لگے۔ کتے کو  کیوں باندھ کر نہیں رکھتے۔

بوڑھا:آپ میرے گھر میں مجھے مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں۔ میرا کتا ہے چاہے اسے کھلا رکھوں چاہے باندھوں۔ آپ سے مطلب؟

اختر:(جو ابھی تک پیچھے دروازے ہی پر کھڑا ہے آگے بڑھتا ہے) آداب عرض ہے۔ معاف کیجئے گا ہم ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

بوڑھا:مجھ سے ملنے آئے تھے؟میں آپ کی صورت تک سے ناواقف ہوں۔ غالباً آپ غلط مکان میں چلے آئے ہیں۔

اختر:نہیں جناب، ہم لوگ یعنی میں  اور مسٹر انور۔۔۔ ہاں ان کا تعارف کرانا تو میں بھول ہی گیا۔ یہ میرے دوست مسٹر انور ہیں یہاں سرکاری ملازمت میں ہیں ابھی حال ہی آپ کا تقرر اس جگہ پر ہوا ہے۔ نہایت عمدہ اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مصوری سے بھی دلچسپی ہے موسیقی کا بھی آپ کو مذاق ہے۔

بوڑھا:اچھا ہو گا!مگر آپ پہلے اپنی تعریف تو بیان کیجئے۔

انور:(اختر کھسیانا ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے  اور  آگے بڑھتا ہے) یہ میرے دوست مسٹر اختر ہیں سرکاری ملازمت میں نہیں ہیں مگر اس کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے نہایت عمدہ  اور  شریف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مصوری سے دلچسپی نہیں ہے البتہ گانا سننے کا شوق ہے  اور گانے رونے دونوں میں ماہر ہیں۔

بوڑھا:آپ کے یہاں آنے کا مقصد؟

انور:آپ کو کھڑے کھڑے تکلیف ہوتی ہو گی۔ آپ چل کر بیٹھک میں تشریف رکھیں  اور  اپنا مقصد بیان کریں۔

بوڑھا:بیٹھک میں میری بطخوں نے انڈے دیئے ہیں۔ بس اب بچے نکلنے والے ہیں۔ ہاں باہر بٹھایا جا سکتا ہے۔

انور:بہت خوب۔ دراصل عرض یہ کرنا تھا۔

بوڑھا:(مونڈھے پر بیٹھے ہوئے) فرمائیے فرمائیے۔

انور:تو وہ بات یہ تھی۔۔۔ (پھر کچھ سوچ کر ٹھہر جاتا ہے) تمہیں کہہ دو نا میاں اختر۔

اختر:جناب دراصل آپ کے مکان کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے تھے۔

بوڑھا:’’گوشہ عافیت‘‘ کے بارے میں؟

اختر:جی نہیں۔ جو آپ کے مکان کے اوپر کا حصہ خالی پڑا ہے سنا تھا اس کو آپ کرائیے پر اٹھانا چاہتے ہیں۔

بوڑھا:جی ہاں اسی کا نام ’’گوشہ عافیت‘‘ ہے۔ آپ شوق سے اسے دیکھ لیجئے کرایہ چالیس روپیہ ماہوار ہو گا۔ بجلی کا بل، دھوبی، نائی وغیرہ کے اخراجات آپ کو خود ادا کرنے ہوں گے۔ لیکن ٹھہرئیے ، پہلے ایک بات بتائیے۔

اختر:جی فرمائیے۔

بوڑھا:آپ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ؟

انور:اگر گستاخی نہ ہو تو پہلے یہ بتا دیجئے کہ آپ شادی شدہ کو مکان دینا چاہتے ہیں یا غیر شادی شدہ کو۔

بوڑھا:دیکھے میں ایسے شادی شدہ کو مکان دینا چاہتا ہوں جس کے بچے نہ ہوں۔

انور:اتفاق سے ہم لوگ شادی شدہ بھی ہیں  اور ابھی تک باپ بننے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

بوڑھا:اس کے علاوہ مکان میں رہنے کے لئے ایک شرائط نامہ بھی ہے۔ ٹھہرئیے میں لاتا ہوں۔ میں نے احتیاطاً اس کی کچھ کاپیاں نقل کروا کر رکھ لی ہیں۔ بات یہ ہے صاحب کہ صاف بات ٹھیک ہوتی ہے۔ میں ابھی لاتا ہوں۔ اسے سن کراس پر دستخط کر دیجئے پھر آگے بات چیت ہو گی۔

(اٹھنے لگتا ہے۔)

اختر:جی ہاں ، ضرور۔

(کتا پھر بھونکتا ہے  اور اختر کی طرف آتا ہے۔)

انور:مگر معاف کیجئے گا جناب آپ اپنے کتے کو اپنے ساتھ لیتے جائیں۔

بوڑھا:(پھر بیٹھ جاتے ہیں۔) دیکھئے حضرت۔ یہ  عہد نامے کی پہلی شرط ہے۔ آپ کو اس کتے کے بارے میں کچھ بھی کہنے سننے کا حق نہ ہو گا۔ اس کے بھونکنے پر آپ کبھی اعتراض نہیں کریں گے کبھی اس کو مارنے پیٹنے کا ارادہ نہیں کریں گے  اور نہ اس کو روٹی وغیرہ کے ٹکڑے ڈال کر اپنے اوپر ہلائیں گے۔

انور:مگر صاحب یہ تو بڑی زیادتی ہے  اور اگر کتا کاٹنے کو دوڑ پڑے۔۔۔

بوڑھا:تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں کرایہ دار رکھوں تو وہ میرے گھر کے معاملات میں دخل دے۔ مجھے کتا پالنے کا بھی مجاز نہیں رہا۔ نہیں صاحب مجھے ایسے کرایہ دار کی ضرورت نہیں۔

انور:آپ تو خوامخواہ خفا ہوئے جا رہے ہیں میں نے صرف یہ عرض کیا تھا کہ آپ اپنے کتے کو زنجیر سے باندھ کر رکھا کریں۔

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ یعنی پھر گھرکی حفاظت میں اپنے آپ کروں۔ یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ کو شرط منظور ہو تو مکان میں رہئے ورنہ کوئی دوسرا مکان تلاش کر لیجئے۔

انور: اور کوئی شرط۔

(اختر بور ہو کر اخبار اٹھا لیتا ہے۔)

بوڑھا:جی ہاں وہ دوسری شرط یہ ہے کہ کرایہ پیشگی ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو صبح ۷ بجے ادا کرنا ہو گا۔ تیسری یہ کہ کرایہ کی کوئی رسید نہ دی جائے گی  اور  آپ کو رسید مانگنے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ چوتھی یہ کہ آپ بیڑی یا سگریٹ پیتے ہوئے گنگناتے ہوئے یا شعر پڑھتے ہوئے اپنے زینے پر سے نہ گزریں گے۔

انور:سبحان اللہ شعر پڑھنا بھی جرم۔

بوڑھا:میاں صاحبزادے مجھے بحث کرنے کی مہلت نہیں۔’’گوشہ عافیت‘‘ چاہئے تو یہ شرط ہے۔

انور:مگر بیڑی سگریٹ پینے یا شعر پڑھنے سے آپ کا کیا تعلق۔ یہ ہمارا ذاتی فعل ہے آپ کو میرے گھریلو معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں بڑے میاں۔

بوڑھا:واہ صاحب واہ، میاں ایسے ویسے کرایہ داروں کو رکھ کر میں اپنے بچوں کا ستیاناس مار لوں !؟میرے بچوں کے اخلاق پرکیا اثر پڑے گا۔

اختر:(اخبار پڑھتے پڑھتے ایک دم بول اٹھتا ہے) خیر اب کوئی  اور شرط تو باقی نہیں۔

بوڑھا:پانچویں شرط یہ ہے کہ اس مکان کی صفائی مرمت کرانے کے لیے آپ تقاضہ نہیں کریں گے  اور اگر آپ مرمت کرائیں گے تو مجھ سے اجازت لے لیں گے۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ آپ کے دوست  اور مہمان سات بجے شام کے بعد  اور  نو بجے سے پہلے نہ آئیں گے۔ ساتویں شرط یہ ہے کہ آپ اگر  گراموفون بجانے  اور کوئی چیز  کوٹنے سے پہلے اطلاع کر دیا کریں گے۔

(اختر پھر اخبار پڑھنے لگتا ہے۔)

انور:آپ نے تو پوری نادر شاہی بنا رکھی ہے۔

بوڑھا:نادر شاہی؟نادر شاہی کیسی جی؟!میں نے آپ کے گلے پر چھری تو رکھی نہیں کہ آپ مکان لے لیں ، آپ کو ہزار بار غرض پڑے تو ’’گوشہ عافیت‘‘ کا رخ کیجئے ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔

انور:آپ نے کرایہ دار کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ آخر کوئی حد ہے اس دھاندلی بازی کی۔

بوڑھا:برخوردار۔ پگڑی میں نہیں لیتا۔ کسی قسم کی زبردستی نہیں کرتا۔ کرایہ دار رکھ کر اپنے بچوں کے اخلاق کاستیا ناس مارنا نہیں چاہتا۔ میں صاف آدمی ہوں۔

انور:جی ہاں اس میں کیا شک ہے کہ آپ صاف آدمی ہیں۔

اختر:(اخبار تہہ کر کے رکھ دیتا ہے) مگر آپ جانتے ہیں بڑے صاحب کہ میرے دوست کو گانے کا بے حد شوق ہے۔

بوڑھا:جناب اس علاقے میں تو گانا نہیں ہو سکتا۔ آپ چاہیں تو اپنا شوق سنیما ہال میں پورا کر سکتے ہیں۔ میرے یہاں ناممکن ہے۔

اختر:اچھا تو آپ کا عہد نامہ ختم ہوا مکان دیکھ لینے کے بعد کچھ عرض کریں گے۔

بوڑھا:جی نہیں میرا عہد نامہ ختم کہاں ہوا ہے۔ آٹھویں شرط یہ ہے کہ میں جس وقت چا ہوں گا پندرہ  روز پہلے اطلاع دے کر مکان خالی کرا سکوں گا لیکن اگر  آپ خالی کرنا چاہیں گے تو دو مہینہ پہلے اطلاع کرنا ضروری ہو گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرے کچھ عزیز جلد ہی آنے والے ہیں ممکن ہے اس وقت آپ کو مکان خالی کرنا پڑے۔ ابھی سے بتائے دیتا ہوں میں صاف آدمی ہوں۔

اختر:کیا جلد ہی عزیز آنے والے ہیں؟

انور:لیکن یہ تو مذاق ہوا بالکل۔ ایک مہینے بعد ہم کو مکان خالی کرنا پڑا تو۔۔۔

بوڑھا:(بات کاٹ کر) یہ تو خدا ہی  بہتر جانتا ہے میرا فرض تھا کہ آپ کو آگاہ کر دوں۔ عہد نامے کی باقی شرطیں آپ خود پڑھ لیجئے گا۔

انور:بہتر ہو تو مکان کو ایک نظر دیکھ لیں۔

بوڑھا:ٹھیک ہے چلئے۔

(اٹھنے کے لئے انور مونڈھا کھسکاتا ہے مرغیوں کی فوج مونڈھے کے نیچے سے نکل بھاگتی ہے  اور اسٹیج پر ہر طرف دوڑنے پھر نے لگتی ہے۔)

بوڑھا:ارے ارے۔۔۔ آپ نے تو سارا معاملہ گڑبڑ کر دیا۔ مونڈھے کے نیچے مرغیاں بند تھیں۔(جھنجھلا کر) اوہ ہو آپ سے کس نے کہا تھا کہ اس زور سے مونڈھا گھسیٹئے۔ بس یوں ہی اٹھ جاتے۔ اسے ہلانے جلانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بتائیے کون پکڑ کر بند کرے گا اسے۔ لاحول ولاقوۃ۔

انور:معاف کیجئے گا۔

بوڑھا:اچھا معاف کیجئے گا!آپ تو زبان ہلا کر خاموش ہو گئے یہاں جان ضیق میں ڈال دی آپ نے۔

(اختر گھبرا اٹھتا ہے تو اس مونڈھے کے نیچے سے مرغا بھی نکل بھاگتا ہے۔)

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ خوب ہیں آپ کے دوست بھی۔ انھوں نے مرغ کو بھی کھول دیا۔ بڑا سرکش مرغا ہے۔ اب بتائیے کون بند کرے گا اسے۔ آپ لوگوں کو ذرا احتیاط برتنا نہیں آتا۔

اختر:ارے تو صاحب آپ غور فرمائیے بھلا مونڈھوں کے نیچے مرغیاں بند کرنے کی کوئی تک ہے۔

بوڑھا:میں کہتا ہوں آپ کے مونڈھا کھینچنے کی کیا تک تھی۔ آپ نے میری جان عذاب۔۔۔ میں ڈال دی۔ اچھا بیٹھئے آپ کرسی پر میں ان مرغیوں کو پکڑ لوں۔

(یہ کہتے ہوئے بوڑھا مرغیوں کے پیچھے لپکتا ہے  اور دیر تک کڑی، کڑی، ڈربے ، ڈربے ، ڈربے ، کور، کور کی آوازیں آتی رہتی ہیں ایک بار مرغیوں کا پیچھا کرتے کرتے بائیں طرف اسٹیج سے باہر چلا جاتا ہے۔)

انور:(بوڑھے کو جاتا دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے پھر آہستہ سے اختر سے مخاطب ہوتا ہے) ارے بھئی اختر۔ اب بولو۔ کیا کہتے ہو دوست۔ یہ انیس شرطوں کا عہد نامہ کون پورا کرے گا۔

اختر:میری سنو تو مکان لے لو۔

انور:مکان تولے لوں مگر یہ عہد نامہ  اور مہینے بھر بعد ان کے عزیزوں کو کون بھگتے گا۔

اختر:وہ سب بھگت لیا جائے گا۔ تم آٹھ رہ کر دیکھ لینے کو کہو۔ باقی میں سنبھال لوں گا۔

بوڑھا:(ہنستا ہوا مرغ پکڑے ہوئے بائیں طرف سے اسٹیج پر آتا ہے) ارے جلدی اٹھے ، مونڈھے پرسے بڑی مصیبت سے قبضے میں آیا ہے یہ کم بخت۔ میرا تو سانس پھول گیا اصیل ہے اصیل۔(انور مونڈھا اٹھاتا ہے۔ بوڑھا اس کے نیچے مرغ کو بند کر  کے مونڈھا سنبھال کر کھڑا ہو جاتا ہے) جناب دیکھئے خدا کے لئے مونڈھے پر جمے بیٹھے رہئے گا۔

(مرغا مونڈھے کے نیچے اذان دیتا ہے۔)

انور:آپ فکر نہ کریں اب میں ہلوں گابھی نہیں۔

بوڑھا:آپ کا نام بھولا۔

اختر:جی۔ خاکسار کو اختر کہتے ہیں۔

بوڑھا:تومیں نے کہا ذرا مرغ پکڑنے میں۔ مدد کرو۔ نوکر کم بخت کو خضاب لینے شہر بھیجا  تھا وہیں مر کر رہ گیا  اور آج کل کے لڑکے تم جانو بالکل نالائق ہوتے ہیں دو کوڑی کام کے نہیں۔

اختر:جی صحیح فرمایا آپ نے۔ اکبر مرحوم نے اسی لئے تو کہا تھا:

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

بوڑھا:ارے اکبر کی باتیں چھوڑئیے۔ اکبر بادشاہ کو تو لال قلعہ بنوانے  اور  شعر لکھنے کے سوا کام ہی کیا تھا۔ اسی لئے تو ایسی آوارہ اولاد اٹھی ہاں تو اختر صاحب ذرا مرغیاں گھیرئیے نا۔

اختر:(ذرا ہنس کر) عجیب اتفاق ہے جناب آپ کے یہاں آتے ہوئے پاؤں میں درد محسوس ہوا اب اس وقت اچھا خاصا شدید ہو گیا ہے غالباً نزلے کا اثر ہے۔ مجھے معاف کیجئے البتہ۔۔۔

انور:میں ذرا جلدی میں ہوں دفتر سے ذرا دیر کی چھٹی لے کر چلا آیا تھا ورنہ میں آپ کا ہاتھ ضرور بٹاتا۔

بوڑھا:اچھا۔ اچھا۔ لیکن آپ ذرا دیر اسی مونڈھے پر جمے رہئے۔ ارے دیکھئے اسے ٹیڑھا مت کیجئے۔ آپ ذرا آگے جھک گئے تو مرغا نکل بھاگے گا۔

انور:بہت خوب۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں نے سوچا مکان کے بارے میں بات پکی کر لی جائے۔

بوڑھا:آپ کا مطلب ہے ’’گوشہ عافیت‘‘ کے بارے میں۔

انور:جی ہاں۔ جی ہاں۔

بوڑھا:تو آپ  کو  ساری شرطیں منظور ہیں نا ا ور وہ ہاں وہ ایک شرط عہد نامے میں نقل کرانا بھول گیا۔

اختر:وہ کیا۔

بوڑھا:وہ شرط یہ ہے کہ آپ ’’گوشہ عافیت‘‘ کواپنا مکان نہ کہہ سکیں گے خط و کتابت میں بھی نہ لکھیں گے  اور اگر ان شرائط میں سے کسی کی خلاف ورزی کریں گے تو مجھے مکان کو فوری طور پر خالی کرا لینے کا حق ہو گا۔

انور:تو پھر کہئے تو عہد نامے پر دستخط کر دوں۔ خیال یہ ہے کہ پہلے ایک مہینے کے لئے رہ کر دیکھوں گا۔ اگر  آپ کی  اور ہماری بنے گی تو رہوں گا ورنہ کوئی  اور انتظام کر لوں گا۔

بوڑھا:مگر اس صورت میں بھی کرایہ تو ایک مہینے کا پیشگی دینا ہی ہو گا۔

انور:(روپئے نکال کر بوڑھے کو دیتے ہوئے) اچھا تو یہ لیجئے پیشگی کرایہ۔ میں کل ہی سے مکان میں آ جاؤں گا۔

بوڑھا:بہت خوب۔

انور:اچھا تو اب اجازت دیجئے۔ دفتر کو دیر ہو رہی ہے۔ آداب عرض۔

بوڑھا:آداب عرض، دیکھئے ذرا احتیاط سے اٹھئے گا مرغا نہ نکل جائے۔

(انور  اور اختر بہت احتیاط سے اٹھتے ہیں کتے سے بچتے بچاتے صدر دروازے تک پہنچتے ہیں۔)

تیسرا منظر

تیسرا منظر

(گوشہ عافیت، کا ایک کمرہ جو زینے کے بالکل قریب ہے زینے کی دو ایک سیڑھیاں اسٹیج کے بائیں طرف دکھا دیتی ہیں کیونکہ زینے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اسی کمرے میں منٹل پیس پر ایک لیمپ جل رہا ہے کمرے میں ایک بڑا گھنٹہ ٹنگا ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ کمرے کی فضا میں ترتیب  اور بے ترتیبی دونوں موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ حال ہی میں اس مکان میں منتقل ہوئے ہیں  اور ابھی پوری طرح سامان  اور گھر سلیقے سے نہیں سجایا گیا ہے مثلاً وہ کرسیاں  اور میز جو پہلے منظر میں دیکھی گئی تھی یہاں بھی موجود ہے قالین بھی وہی ہے البتہ بکسوں میں سے صرف ایک بکس یہاں اسٹیج کے دائیں طرف بے ترتیبی سے پڑا ہوا ہے  اور اس کے برابر چھوٹا موٹا سامان بھی پڑا ہوا ہے جس میں جوتے ، خالی شیشیاں ، خالی ڈبے فلٹ، ایک پرانا ہیٹ  اور ایک ہارمونیم بھی ہے چند کتابیں بھی یہاں دکھائی دیتی ہیں کچھ مینٹل پیس پر رکھ دی گئی ہیں۔ یہاں کچھ کپڑے  اور چادریں بھی بے ترتیبی سے پڑی ہوئی ہیں۔ برابر ایک پلنگ بچھا ہوا ہے جس میں بستر موجود ہے۔ دیوار پر ایک ڈھولک بھی لٹک رہی ہے۔

(جس وقت پردہ اٹھتا ہے اختر کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا ہے۔ سلیپنگ سوٹ پہن رکھا ہے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر سگریٹ سلگاتا ہے اتنے میں انور دائیں کی طرف کے دروازے سے داخل ہوتا ہے یہ دروازہ دوسرے کمرے کی طرف جاتا ہے جبکہ اسٹیج کی بائیں طرف کا دروازہ زینے کے دروازے کے قریب ہے انور بھی شب خوابی کے لباس میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیگم بھی داخل ہوتی ہیں۔ ملگجا سا غر ارہ قمیض  اور دوپٹہ پہنے ہوئے ہیں سویٹر بھی پہن رکھا ہے۔)

اختر:(ڈرامائی انداز میں کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہوئے۔)

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

انور:شہ۔۔۔ خاموش۔ ارے بھئی بڑے میاں سن لیں گے کہ تم گنگنا رہے ہو  اور  اس مکان کا اپنا  گھر کہہ رہے ہو تو ابھی مکان سے نکال باہر کر دیں گے۔

اختر:بڑے میاں نکالیں یا رکھیں اس وقت تو یہ کمرہ میرا ہے۔ آپ لوگ اپنے کمرے سے اس کمرے میں آئے ہیں تو گویا ہم اپنے بھائی بھابھی کا استقبال بھی نہ کریں۔ کیا بالکل پھاوڑے ہی ہو جائیں۔

بیگم:اچھا مکان لیا ہے تو کیا سچ مچ ناک کان کٹا کر رہنا پڑے گا۔

اختر:نہیں بھابھی ہرگز نہیں۔ دیکھو تو میں کیا گل کھلاتا ہوں مگر ایک شرط ہے کہ تم ذرا اپنا دل مضبوط کر رکھنا کچھ وہم دل میں نہ لانا۔

بیگم:آخر سنوں توکیا کرنے والے ہو۔

(انور اشارے سے منع کرتا ہے۔)

اختر:اجی نہیں سننے کی بات نہیں دیکھنے کی بات ہے۔

بیگم:اے ہو گی۔ تمہاری باتیں تو سدا بے تکی ہوتی ہیں۔ میں تو یہ پوچھنے آئی تھی کہ چائے  اور لو گے یا نہیں۔ آج دن بھر سامان ٹھیک کرنے میں تو تھک کر چور ہو گئی ہوں۔ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔ میں تو جاتی ہوں سونے کو سخت نیند آ رہی ہے مگر تمہارے بھائی کو نیند نہ جانے کیوں غائب ہو گئی ہے۔

اختر:آپ آرام کیجئے۔ مردوں کی نیند زیادہ تھکن میں غائب بھی ہو جاتی ہے۔

بیگم:اچھا بھئی میں تو چلی۔

اختر:خدا حافظ۔

انور:ہاں بھئی ٹھیک ہے تم جا کر سوؤ۔ میں اختر سے دو باتیں کر کے ابھی آتا ہوں۔ خدا حافظ۔ شب بخیر۔

(بیگم باہر سونے کے کمرے کے دروازے سے چلی جاتی ہے۔)

اختر:(کچھ وقفے کے بعد) تو بھئی سارا انتظام مکمل ہے۔

انور:ہاں سب ٹھیک ہے۔ اس لڑکے سے بھی کہہ دیا ہے۔

اختر:تو پھر شروع کریں پروگرام۔ یار بہت دنوں بعد اداکاری کا موقع آیا ہے کیا پتہ تھا کہ کالج کے ڈراما کلب کے کمالات اس طرح کام آئیں گے۔

انور:مگر کمال کی اداکاری ہو تب تو بات ہے ورنہ پڑیں گی بے بھاؤ کی۔

اختر:ذرا  انسپائر کرو۔ دیکھو ذرا وہ  چادر اٹھاؤ۔ پرانا ہیٹ پہنو(انور ڈھیر سے چادر اٹھاتا ہے)اسے اوڑھ کر ذرا مردے کی طرح کمرے میں چکر تو لگاؤ جیسے ہی میں چیخ ماروں تم بھی چادر پھینک کر میری طرح چیخ مارنا۔

(انور چادر اوڑھ کر ہیٹ پہن کر مردے کی طرح لنگڑاتا ہوا کمرے کا گشت لگاتا ہے۔)

اختر:(زور سے چیختا ہے)بچاؤ۔بچاؤ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  بچاؤ۔

(انور بھی یہ سب الفاظ دہراتا ہے۔)

اختر:ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہوہو۔۔۔ ہاہا۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔ ارے کوئی بچاؤ۔۔۔ اے مرا۔۔۔ مرے اللہ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔

(بیگم گھبرائی ہوئی دائیں طرف کے دروازے سے داخل ہوتی ہیں۔)

بیگم:کیا ہوا؟اختر بھائی!کیا ہوا۔

انور:کیا بات ہے؟

اختر: بھائی آپ جائیے۔ انور بھیا۔ وکیل صاحب کو بلائیے۔ میرا دم نکلا جا رہا ہے میں مر جاؤنگا۔ میری آنکھوں نے اسے دیکھا ہے۔۔۔  افوہ۔۔۔  ارے کوئی بچاؤ۔۔۔  وہ مار ڈالے گا مجھے۔

انور:تم انھیں سنبھالو۔ میں ابھی وکیل صاحب کو بلا کر لاتا ہوں۔

(انور نیچے جاتا ہے بائیں طرف دروازے زینے کی طرف جاتا نیچے سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اختر کی بے قراری  اور  چیخ پکار بدستور جاری ہے۔)

اختر:ارے محلے والو مر گئے کیا؟۔۔۔  یہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔ ہائے۔۔۔  ہائے۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  مرے اللہ بچاؤ۔۔۔  میری جان لے لے گا۔۔۔

بیگم:اختر بھیا ذرا صبر سے کام لیجئے۔

اختر:بھابھی۔ آپ اپنے کمرے میں چلی جائیے۔ وکیل صاحب آتے ہوں گے۔۔۔ ہائے کیسے چپ ہو جاؤں میری آنکھوں میں اسی کی صورت ناچ رہی ہے۔۔۔ (پھر چلانے لگتا ہے۔) ہائے۔۔۔  مار ڈالا۔۔۔  وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔۔  وہ مجھے مار ڈالے گا۔

(انور بائیں طرف کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔)

انور:(تیز قدموں سے آتا ہے۔) آ جائیے۔ وکیل صاحب۔

(بیگم دائیں طرف کے دروازے سے چلی جاتی ہے۔)

اختر:ارے محلے والو مر گئے کیا؟۔۔۔  یہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔ ہائے۔۔۔  ہائے۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  مرے اللہ بچاؤ۔۔۔  میری جان لے لے گا۔۔۔

(بوڑھے کا لباس وہی ہے فرق یہ ہے کہ پتلون کی جگہ پاجامہ پہنے ہوئے ہیں جو گرم ہے  اور مٹیالے رنگ کا ہے  اور سر پر کنٹوپ پہنے ہوئے ہیں جو کانوں کو ڈھکے ہوئے ہے۔)

بوڑھا:کیا بات ہے بھائی۔ کیا تکلیف ہے؟

اختر:وکیل صاحب!آپ کے گھر میں بھوت !

بوڑھا:(حیرانی  اور پریشانی میں خود بھوت کی سی شکل اختیار کر لیتا ہے)بھوت میرے گھر میں بھوت!!

اختر:جی ہاں بھوت۔ آپ کے گھر میں بھوت!!میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے دیوار پر بیٹھا  تھا مجھے دیکھ کر مسکرایا پھر میری طرف بڑھا۔(پھر چیخنے لگتا ہے۔) ہائے مجھے بچاؤ۔۔۔  وکیل صاحب کے مکان نے میری جان لے لی۔۔۔  مجھے بچاؤ ہائے۔۔۔  ہائے !!!

(شور سن  کر چند ہمسایہ زینے پر دستک دیتے ہیں  اور دستک دے کر تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہ پڑوسی مختلف قسم کے ہیں  اور  مختلف لباس پہنے ہوئے ہیں جو عام طور پر لوگ سوتے وقت پہنتے ہیں سب کے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند سے اٹھ کر آ رہے ہیں۔ ان میں ایک پیر صاحب بھی ہیں جو گیروا کپڑے پہنے ہوئے ہیں  اور  تسبیح گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔)

ایک ہمسایہ:کیا ہوا؟کیا بات ہے؟

اختر:(چلا کر) بھوت!وکیل صاحب کے گھر میں بھوت!!

بوڑھا:میں کہتا ہوں اس مکان میں پینتیس سال سے رہتا ہوں کبھی میں نے بھوت نہیں دیکھا۔

اختر:میں نے تو اپنی دونوں آنکھوں سے۔ (آنکھوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔) دیکھا ہے وکیل صاحب۔

دوسرا ہمسایہ:کہاں دیکھا!کہاں تھا؟کیسا تھا؟

اختر:جناب سوتے سوتے میری آنکھ کھل گئی پیشاب کرنے کے لئے اٹھا صحن میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دیوار پر سفید کپڑے پہنے بیٹھا ہے بھوت!(پھر چلانے لگتا ہے)اللہ! اللہ کی پناہ!!بھوت!

تیسرا ہمسایہ:تو جناب پھر کیا ہوا؟

اختر:مجھے دیکھ کر مسکرایا پھر میری طرف بڑھا۔

پہلا ہمسایہ:مسکرایا؟!

دوسرا ہمسایہ:جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔

بوڑھا:جھوٹ ہے بالکل جھوٹ ہے۔

اختر:آپ تو کہیں گے ہی۔ آپ کے مکان میں جان دینے نہیں آئے ہیں ہم۔

تیسرا ہمسایہ:پھر کیا ہوا؟

اختر:اس نے مجھ سے کہا۔

پہلا ہمسایہ:اس نے بات بھی کی؟!

دوسرا :کیا بات کی اس نے۔

اختر:جی ہاں اس کی نذر نیاز نہیں ہوئی ہے نہ قوالی کرائی گئی ہے یہ لوگ اسے ترساتے ہیں اسی لئے اس کی روح بھٹکی بھٹکی پھر تی ہے۔

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ میں کہتا ہوں سب فضول کی باتیں ہیں۔

انور:جی ہاں ، آپ کی نظر میں ہوں گی فضول کی باتیں؟ایسا ہی ہے تو آپ ذرا اس مکان میں آ کر رہئے۔

پہلا ہمسایہ:ہاں بھئی جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔

دوسرا ہمسایہ:کون رہے گا اس مکان میں۔ کس کی جان فالتو ہے؟!

بوڑھا:میں کہتا ہوں بھیڑ کیوں لگا رکھی ہے آپ لوگوں کوکس نے بلایا ہے کوئی  تماشا ہو رہا ہے یہاں !بے کار کی باتیں لگا رکھی ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔

پیر جی:(جو ابھی تک خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے تھے)جناب بد ارواح  اور  جنات کا وجود  تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔(اختر سے مخاطب ہو کر) حضت آپ بسم اللہ کیجئے آج ہی رات کو قوالی کا  انتظام کر لیجئے۔ انشاء اللہ ساری زحمت رفع ہو جائے گی۔

بوڑھا:اجی سب ضعیف الاعتقادی کی باتیں ہیں۔

پیر جی:بھوت نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے اسی طرح ترسایا  گیا تو میں محلے والوں کو بھی پریشان کروں گا۔

پہلا پڑوسی:محلے کے  اور گھروں میں بھی جائے گا؟!

دوسرا :کیا کہا؟محلے والوں کو پریشان کرے گا؟!

پیر جی:حضت آپ قوالی کا انتظام کیجئے۔

بوڑھا:میرے گھر ہرگز ہرگز قوالی وغیرہ نہیں ہو گی۔

کئی  ہمسائے :یہ سارے محلے کی خیریت کا سوال ہے۔

اختر: اور بھوت!!۔۔۔ ہائے میرے اللہ۔ ابھی تک میری آنکھوں میں بھوت کی شکل گھوم رہی ہے بھوت!!

(پھر چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے۔)

انور:وکیل صاحب ہم لوگ تو صبح کو اپنا سامان باندھ لیں گے۔ صاحب۔ آپ کا مکان آپ کو مبارک۔ یہاں اس چکر میں ایک آدھ کی جان چلی جائے گی۔

کئی آدمی:ہاں صاحب ٹھیک بھی توہے۔

بوڑھا:ارے انور میاں ، خدارا کہیں ایسا بھی نہ کیجئے گا بھئی جیسے تمہارے گھر کی خیریت ویسے ہی میرے گھر کی خیریت اس میں کوئی غیرت کی بات تو ہے نہیں۔

انور:نہیں صاحب میں بھر پایا ایسے مکان سے۔ بیگم کا ڈر کے مارے برا حال ہے۔

اختر:میں تو چلا واپس۔ ہر گز اس گھر میں نہ رہوں گا۔

بوڑھا:ایسی بات نہیں کرتے اختر بیٹا۔ ایسا ہی ہے تو قوالی کرالو۔

اختر:میں کیوں کرالوں؟قوالی تو مالک مکان کی طرف سے ہونی چاہئے۔

(باقی لوگ آپس میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔ کچھ غور سے اس گفتگو کو سن رہے ہیں  اور  اختر کی حمایت میں سر ہلا رہے ہیں۔)

بوڑھا:جی نہیں۔ میرے پاس اتنا فالتو روپیہ نہیں ہے۔

انور:ٹھیک ہے لیکن ہم تو ایک پل بھی اس بھوت گھر میں نہیں رہ سکتے۔ ہمارا سلام لیجئے۔

پیر صاحب:وکیل صاحب۔ قوالی کا خرچہ تو واقعی آپ ہی کو کرنا چاہئے۔ کوئی سو دو سو روپیہ کا سوال توہے نہیں۔ بس نذر فاتحہ کے لئے کچھ مٹھائی، کچھ سگریٹ پان کا خرچہ  اور قوالوں کو جو کچھ دیں۔ بس اللہ اللہ  خیر صلا۔

بوڑھا:مگر اس وقت قوال کہاں ملیں گے۔

ایک ہمسایہ:یہ تو سارے محلے کا سوال ہے۔

دوسرا ہمسایہ:محلے کے لئے وکیل صاحب کو اتنی قربانی تو کرنی ہی چاہئے۔

تیسرا ہمسایہ:وکیل صاحب، مان جائیے نہیں تو ہمیشہ مکان خالی پڑا رہے گا۔

پی رصاحب:اجی پیسہ کیا ہاتھ کا میل ہے۔ خدا کا فضل چاہئے۔ یوں بھی قوالی سے خدا کا فضل ہی ہو گا۔

بوڑھا:پیسے کی کیا بات ہے۔ چلئے میں ہی دیدوں گا مگر اب قوال کہاں ملیں گے۔

انور:وکیل صاحب۔ اس وقت ہم سب مل کر قوالی گالیں گے۔ ہارمونیم تو یہاں موجود ہے ڈھولک یہ رہی۔

پیر صاحب:بسم اللہ!بسم اللہ!!

اختر:حضرات تشریف رکھیں۔

(اختر میز  اور کرسیاں ہٹا کر ایک کنارے رکھ دیتا ہے  اور قالین پر سب لوگ بیٹھنے لگتے ہیں۔ بوڑھا کافی دیر ناگواری سے ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے۔)

پیر صاحب:اس وقت زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں۔ لائیے ہارمونیم مجھے دیجئے۔ ڈھولک مرزا صاحب لے لیں گے۔

(ڈھولک اتار کر ایک پڑوسی کے سپرد کر دی جاتی ہے ، پیر صاحب ہارمونیم لے کر بیٹھتے ہیں۔)

انور:(اختر سے) پارٹنر۔ ذرا سگریٹ پلاؤ۔

اختر:(سگریٹ نکال کر دیتا ہے۔)یہ لو اور دوسروں کو بھی پلاؤ۔

بوڑھا:یعنی لاحول ولاقوۃ۔ سگریٹ بھی پینا ضروری ہے۔

پیر صاحب:آخر حرج ہی کیا ہے وکیل صاحب جس روح کو جو چیز  پسند ہو اسی پر نیاز دلا کر استعمال کرنا چاہئے۔

بوڑھا:میں کہتا ہوں کیا  غدر مچا رکھا ہے ان سب لوگوں نے۔

انور:دیکھئے وکیل صاحب جی تھوڑا نہ کیجئے نیت کا بھی بڑا اثر پڑتا ہے۔

بوڑھا:مگر صاحب، میرے گھر میں کبھی یہ نوبت نہیں آئی۔

اختر:سب کچھ اسی کا فتور ہے وکیل صاحب۔ بس قوالی ہونے دیجئے دیکھئے چند دنوں میں یہ گھر گلزار ہو جائے گا۔

پیر صاحب:صحیح فرمایا آپ نے۔ قوالی میں بڑی برکت  اور بزرگوں کی ارواح مقدسہ کا سایا سر پر ہو تو واللہ کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اچھا حضرات! شروع کرتا ہوں۔

(پیر صاحب! ہارمونیم بجاتے ہیں۔ ایک پڑوسی ڈھولک بجانا شروع کرتا ہے باقی انور، اختر  اور چند لوگ تالی بجاتے ہیں قوالی شروع ہوتی ہے پہلے دو رباعیاں پڑھی جاتی ہیں۔)

گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں

دشت و دریا دیکھوں

ہر جا تری قدرت کے لاکھوں جلوے

حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

اس کے بعد پیر صاحب غزل شروع کرتے ہیں انور لے ملاتا ہے اختر تال دیتا ہے اختر بار بار بوڑھے کو اشارہ کرتا ہے کہ آپ بھی تال دیجئے مگر بوڑھے کے چہرے پر تھوڑی  دیر ناگواری کے آثار قائم رہتے ہیں پھر تال دینے لگتا ہے۔

۔۔۔ قوالی۔۔۔

قوالی کے انتخاب کا معاملہ مکمل طور پر ڈرامے کے پروڈیوسروں کے مذاق پر چھوڑا جاتا ہے۔

(قوالی کے منظر کو مختلف ترکیبوں سے حقیقی  اور دلچسپ بنانا چاہئے۔ کبھی کبھی  پیر صاحب پر حال کے اثرات بھی ظاہر کئے جا سکتے ہیں مگر جلد ہی پھر ہارمونیم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لوگ فرمائش کرتے ہیں گانے والے کو نذر بھی دی جاتی ہے جو پہلے بوڑھے کو پیش کی جاتی ہے  اور  بعد کو انور کی جیب میں پہنچ جاتی ہے۔)

ایک پڑوسی:سبحان اللہ!سبحان اللہ!!جناب غزل کا پہلا شعر پھر عنایت ہو۔

انور:جناب!ٹھہرئیے۔ قوالی میں مالک مکان کو بھی  ضرور شریک ہونا چاہئے کار خیر ہے  اور پھر۔

بوڑھا:میں؟میں گاؤں؟!

انور:جی ہاں۔ تو کیا ہوا؟

وہی پڑوسی:بسم اللہ!بسم اللہ!!

دوسرا پڑوسی:جی ہاں۔ آپ کی شرکت ضروری ہے۔

بوڑھا:کیا   شعر ہے۔(انور شعر دہراتا ہے۔ پھر بوڑھا بھی وہ شعر اپنی انتہائی بھدی آواز میں گاتا ہے اس کے بعد پیر صاحب اسے دہراتے ہیں پھر سب دہراتے ہیں۔)

(ایک پڑوسی اتنے میں پان  اور سگریٹ لئے داخل ہوتا ہے بوڑھا اسے بڑی ناگواری کے ساتھ سر سے پاؤں تک دیکھتا ہے۔ا س کے آنے کے کچھ دیر بعد تک قوالی جاری رہتی ہے پیر صاحب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں سب لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔)

انور:اب سب حضرات اپنے اپنے حصہ کی سگرٹیں  اور پان لے لیں  اور  دھواں اڑاتے ہوئے مرحوم کی روح کو ثواب پہونچاتے ہوئے اپنے گھر جائیں۔ آپ سب حضرات کا میری طرف  اور  وکیل صاحب کی طرف سے بہت بہت شکریہ۔

(بوڑھا چلنے لگتا ہے تو انور اسے روک لیتا ہے ، باقی لوگ رفتہ رفتہ چلے جاتے ہیں۔)

انور:وکیل صاحب۔ مجھے آپ سے ایک بات عرض کرنی ہے۔

بوڑھا:کیا بات ہے میاں انور؟

انور:بات یہ ہے جناب کہ صاف صاف ہی کیوں نہ کہدوں کہ ہم اس مکان میں شاید نہ رہ سکیں گے۔

بوڑھا:پھر وہی بات؟ اسی کے لئے سب کچھ کیا ہے  اور پھر تم کہہ رہے ہو کہ نہ رہ سکوں گا۔

انور:جی نہیں۔ بھوت پریت کے خوف سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ مجھے آپ کے عہد نامے کی شرطیں منظور نہیں  ہیں۔

بوڑھا:تمہیں جو شرط منظور نہ  ہو میں اسے کاٹ دوں۔

انور:مجھے آپ کا کتا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ رات میں دیر سے لوٹنے کا عادی ہوں  اور پھر گانا، پان سگریٹ دونوں میری عادت میں داخل ہیں  اور  پھر مہینے بھرمیں عزیز بھی آنے والے ہیں۔

بوڑھا:کیسی باتیں فرما رہے ہیں آپ میاں انور۔ تم تو میرے بیٹے کے برابر ہو واللہ آج ہی سے کتے تو زنجیر میں باندھ کر رکھوں گا۔ رہا گانا  اور  سگریٹ یہ تو بھئی اپنا اپنا شوق ہے  اور تم کیا میرے عزیزوں سے کم ہو۔ اب تو میرے کتنے ہی عزیز کیوں نہ آئیں تم سے مکان خالی نہ کراؤں گا۔

 انور: اور پھر مکان کا کرایہ بھی زیادہ ہے۔

بوڑھا:ارے بھئی تم خواہ مخواہ شرمندہ کر رہے ہو۔ اچھا چلو دس روپیہ کم کر لو۔ اس قسم کا آدھا  کرایا دے دیا کرو۔ بس اب تو خوش۔

انور:کیا عرض کروں وکیل صاحب۔ یہ رقم بھی ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو صبح ۷بجے پیشگی دینا میرے لئے مشکل ہو گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں دوسرے مکان کی تلاش۔

بوڑھا:(بات کاٹ کر) لاحول ولاقوۃ۔ میں نے ایسا تکلف کرنے والا انسان نہیں دیکھا کون مردود تم سے پیشگی کرایہ مانگتا ہے جب مرضی ہو کر ایہ دے دینا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح تمہارے چلے جانے سے پھر کوئی کرایہ دار میرے مکان میں نہ آئے گا۔

انور:پھر آپ کا عہد نامہ؟!

بوڑھا:بھاڑ میں جھونکو عہد نامے کو میں تمہارے سامنے پھاڑ کر جلائے دیتا ہوں۔

انور:بہت خوب۔ اب آپ مجبور کرتے ہیں تو اور بات ہے۔ بزرگ کی بات ٹالی نہیں جا سکتی۔

بوڑھا:اچھا بھئی اب مجھے اجازت دو۔ نیند آ رہی ہے۔

(بوڑھا چلا جاتا ہے۔)

(اختر پڑوسیوں کے ساتھ باہر چلا گیا تھا داخل ہوتا ہے۔ انور کمرے کو پھر سے ٹھیک ٹھاک کر رہا ہے  اور قالین پرسے کاغذ کے ٹکڑے  اور  سگریٹ کے ٹکڑے ہٹا رہا ہے انھیں ہٹا کر کرسیاں  اور میز پھر سے جماتا ہے۔)

اختر:(قہقہہ لگاتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔) کہو دوست۔ مانتے ہو کیسا  رام کیا بڈھے کو۔

انور:واہ بھئی واہ۔ عہد نامہ منسوخ۔ کرایہ آدھا۔ گانے کی آزادی۔ کتے سے چھٹکارا۔ اب تو بس عیش کریں گے عیش۔ ہالا استاد۔

اختر:اس کو کہتے ہیں ’’گوشۂ عافیت‘‘۔

انور:بوڑھے کوتو اب عمر بھر بھوت نظر آئیں گے۔ مکان خالی ہو جانے سے تو وہ ڈر ہی رہا ہے خوف اسے اس بات کا بھی ہے کہ بھوت خود اس کے گھر میں نہ گھس آئیں۔

اختر:اچھا سبق ملا ہے بڑے میاں کو۔ بہت دنوں تک یاد رکھے گا ظالم۔ بہت افلاطون  اور قانون داں بنتا تھا  اور  یہ بھابی کہاں چلی گئیں۔ (آواز دیتا ہے۔)بھابھی۔

(بیگم برقعہ پہنے ہوئے داخل ہوتی ہے۔)

انور:ارے یہ تم برقعہ اوڑھے کیوں چلی آ رہی ہو۔ کیا کہیں کی تیاری ہے۔

بیگم:سامان باندھ رہی تھی تم لوگ بھی تیاری کرو۔

انور:آخر بات کیا ہے۔

بیگم:مجھ سے اس گھر میں ایک سیکنڈ بھی نہیں رہا جائے گا۔

انور:تو کیا تم سچ مچ سمجھ رہی ہو کہ اس گھر میں بھوتوں کا اثر ہے۔ بھابھی۔ وہ تو فقط ذرا مالک مکان کو ڈرانے دھمکانے کو ڈرامہ کھیلا تھا۔

بیگم:یہ تومیں بھی سمجھتی ہوں۔

انور:تو پھر کیا بات ہے تم سے تو پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ جی میں وہم نہ لانا۔

بیگم:مگر میری آنکھوں میں تو وہی کم بخت بھوت ناچ رہا ہے۔ طبیعت میں بڑی وحشت ہے نا بابا نا۔ مجھ سے اس گھر میں ذرا دیر بھی نہ رہا جائے گا۔

انور:بچوں کی سی باتیں نہیں کیا کرتے۔ تھوڑے دنوں میں پریشانی دور ہو جائے گی بھوت پریت پر اعتقاد نہیں کیا کرتے۔

بیگم:کون اعتقاد رکھتا ہے ، مگر بھوت پریت(چیخ مارتی ہے۔) وہ دیکھو کون ہے۔کتنے بڑے بڑے دانت نکالے کھڑا ہے سفید کپڑے پہنے ہوئے۔

انور:توبہ، توبہ۔ وہ تو دیوار  پر پچھلی مرمت کا نشان ہے۔

بیگم:میں پاگل ہو جاؤں گی خدا کے لئے یہاں سے چلو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے تم تو یونہی چاہتے ہوتا کہ میں گھبرا کر اپنے  میکے چلی جاؤں۔ مجھے ساتھ رکھنا ہے تو ٹھکانے  کا مکان ڈھونڈو۔ مجھ سے یہاں نہیں رہا جائے گا۔ہر گز نہیں رہا جائے گا۔ میں تو ڈر کے مارے مر جاؤں گی۔

انور:اچھا بابا۔ جیسی تمہاری مرضی۔ اختر چلو سامان باندھو۔

(دونوں کے چہروں پر مردنی چھا جاتی ہے  اور دونوں کرسی میں دھنس جاتے ہیں۔)

***

ماخذ: ’’میرے اسٹیج ڈرامے ‘‘، ادارۂ فروغ اردو نمبر،۳۷امین آباد پارک

لکھنؤ

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔