مہاتما بدھ نے پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑتے پتّوں سے مٹھی بھری اور آنند کی اور دیکھا:
’’اے آنند! کیا سارے پتّے میری مٹھی میں آ گئے ہیں؟‘‘
آنند جھجکا۔ پھر بولا، ’’تتھاگت! یہ رُت پت جھڑ کی ہے۔ جنگل میں اتنے پتّے جھڑتے ہیں کہ اُن کی گنتی نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
مہاتما بدھ بولے، ’’اے آنند! تُو نے سچ کہا ہے پت جھڑ کے اَن گنت پتّوں میں سے مَیں بس مٹھی بھر ہی سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، مَیں نے اُن کا پرچار کیا، پر سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔
سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں۔ ‘‘
مٹھی بھر سچائیاں۔ کُل کا کُل موجود۔ مگر آشکارا، بس تھوڑا تھوڑا سا ہی۔ سب کچھ عیاں ہے مگر جو نظر میں آ جائے۔ عقل میں سما جائے، وہ سب کچھ کہاں ہے؟ ہمیں ملنے والا یہ ادھورا سچ ہی دراصل زندگی کا سب سے بڑا بھید ہے۔ سب سے بڑا تلاطم ہے۔ یہ ساری رنگا رنگی۔ یہ کثرت میں وحدت۔ یہ وحدت میں کثرت۔ یہ بوقلمونی۔ یہ تنوع۔ یہ سب کچھ اسی بنا پر تو ہے کہ ہمیں ’’کل‘‘ کی خبر نہیں۔ یہ خوشیاں۔ یہ مسرتیں۔ یہ راحتیں۔ یہ میلے ٹھیلے۔ یہ گہماگہمی۔ یہ دھوم دھام۔ یہ رونق۔ یہ ہنگامہ۔ یہ اُداسیاں۔ یہ آلام۔ یہ مصائب۔ یہ غم۔ یہ رنج و الم۔ یہ مسکراہٹوں کے جھرنے۔ یہ آنسوؤں کی جھڑیاں۔ یہ دُکھوں کا میٹھا میٹھا درد۔ یہ زمین کے موسموں کے ساتھ ساتھ من کے موسموں کا اُلٹ پھیر۔ یہ سب مٹھی بھر ہاتھ آنے والی سچائیوں کی ہی تو کرشمہ سازی ہے۔ مجھے، آپ کو اور اِس کُل جہاں کو پیدا کرنے والے نے یہ کارخانہ بھی خوب بنایا ہے۔ اور پھر اس کارخانۂ جہاں میں ہمارا وجود۔ کل کو کہیں چھپا دیا۔ ہمیں علم ادھورا دیا۔ اس حکم کے ساتھ کہ غور و فکر کرو۔ زیادہ علم کی دعا مانگو۔ معرفت حاصل کرو۔ مہلت کم رکھی اور کارِ جہاں دراز کر دیا۔
مٹھی بھر سچائیوں کے ساتھ تخئیل کی صلاحیت عطا کر دی۔ بیان کا علم دے دیا۔ بولنا سکھا دیا اور لحن بھی دے دیا۔ حرف اور لفظ عطا کر دیے۔ حسِ جمال دے دی اور خطاطی کا فن سکھا دیا۔ سکھا کیا دیا۔ سیکھنے کا تجسّس دے دیا۔
راجا نے وزیر سے کہا: مجھے خطاطی سکھا دے۔ وزیر نے کہا: جہاں پناہ! خطاطی سیکھنے کے لیے رقاص بننا ضروری ہے۔ تو پھر چل، پہلے نرت سکھا دے۔ راجا نے کہا۔ وزیر نے کہا: مگر عالم پناہ! رقص جاننے کے لیے مصور ہونا ضروری ہے۔ تو کوئی بات نہیں۔ مصوری ہی سیکھتے ہیں۔ راجا بولا۔ مگر وزیر نے کہا: لیکن ظلِ الٰہی! مصور تو وہی ہو سکتا ہے، جو اچھا معمار ہو۔ راجا کو بڑا غصہ آیا۔ یہ کیا بکواس ہے۔ اچھا یوں ہی سہی۔ آج سے معماری سیکھنا شروع کرتا ہوں۔ وزیر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر بولا: ملجا و ماویٰ! عالی جاہ! لیکن معمار تو وہی ہو سکتا ہے جو مہندس ہو۔ ٹھیک ہے۔ کہیں سے تو بات شروع ہو گی۔ راجا نے ہنس کر کہا۔ مَیں مہندس بننے کو تیار ہوں۔
اُستاد نے تجسّس پیدا کرنے والی خاموشی اختیار کی۔ پھر رُک رُک کر بولے۔ وزیر نے جواب دیا۔ ظلِ سبحانی! مہندس بننے کے لیے نرتک ہونا ضروری ہے۔ اور نر تک وہی ہو سکتا ہے جو خطاط ہو۔
استاد نے زیرِ لب لہجے میں کہا: پھر جیسے ایک دو دم تک سانس روکے رہے تھے۔ لمبی سانس لے کر بولے۔ انسان کا وجود غیر منقسم ہے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ جسم کہاں ختم ہوتا ہے اور روح کہاں شروع ہوتی ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ جو سُن نہیں سکتا، وہ زیادہ اچھا دیکھ سکتا ہے؟ لیکن جو سُن نہیں سکتا، وہ بول نہیں سکتا اور جو بول نہیں سکتا، وہ گا نہیں سکتا۔ لیکن وہ ناچ سکتا ہے۔
سات سُروں کے درمیان کوئی دیوار نہیں۔ ساتوں سُر آپس میں حل ہوکر ایک بھی ہو سکتے ہیں اور الگ الگ بھی سنائی دے سکتے ہیں۔ یہ سب فن انسانی وجود ہیں۔ اور انسانی وجود کی تمثیل سات سُر۔ ستّر رنگ۔ اور سات سو زاویے ہیں۔ ٭۱
بات بظاہر تو بس اتنی سی ہے کہ خطّاط ہونے کے لیے آدمی کا خطّاط ہونا ایک بنیادی شرط ہے۔ بات تو ’’ہونے‘‘ کی ہے۔ لیکن اس ایک ’’ہونے‘‘ کے لیے آدمی کو کیا کیا ہونا پڑتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک الف لیلہ ہے۔ ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے۔
آدمی خطّاط ہو یا رقّاص۔ مصوّر ہو یا معمار۔ مہندس ہو یا نرتک۔ خونِ جگر کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ نہاں کو عیاں ہونے کے لیے خونِ جگر سے ہی نمود کرنی ہوتی ہے۔ آدم کو مٹی کے پُتلے سے سری لنکا کے پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھنے تک کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ یہ تو بس آدم ہی جانتے ہیں۔ نوح کو نو سو سال تک اپنی قوم کی کیا کیا باتیں نہ سہنی پڑی ہوں گی۔ لکڑی کے تختوں کو جوڑتے ہوئے۔ کشتی میں تمام جانوروں کے جوڑوں کو اکٹھا کرتے ہوئے۔ سیلابِ عظیم کی بے رحم لہروں میں کھیلتے ہوئے اور آخرکار ارارات کی چوٹی جودی پر پاؤں دھرتے ہوئے، خونِ جگر کی کتنی بوندیں بہانی پڑی ہوں گی۔ یہ تو صرف نوح ہی بتا سکتے ہیں۔ ابراہیم کو اُبھرتے، ڈوبتے چاند سورج کے مشاہدے سے لے کر آتشِ نمرود میں بے خطر کودنے تک قلب و نظر کی کن کن کیفیتوں کو جھیلنا پڑا۔ خونِ جگر کے کتنے تلخ و شیریں گھونٹ پینے پڑے۔ یہ بھلا ہم جیسے عاصی کیا سمجھیں؟ یوسف کو کنویں کی تنہائیوں، گہرائیوں اور قید خانے کی تاریکیوں سے گزر کر عزیزِ مصر کے خزانوں تک آنے تک خونِ جگر کے کون کون سے رنگ دیکھنے کا تجربہ ہوا یہ تو صرف یوسف کی آنکھوں کی دھنک ہی بیان کر سکتی ہے۔ غرض کس کس کا ذکر کریں؟ کہاں کہاں کا کھوج لگائیں؟ کیسا کیسا بھید کھولیں؟ بات لوٹ پھیر کے ایک ہی جگہ آ تھمتی ہے۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
معجزۂ فن کی خونِ جگر سے نمود ہونا کیوں مشروط ہے؟ معجزۂ فن کا خونِ جگر سے کیا رشتہ؟ کیا تعلق؟ کیا بندھن ہے؟ نقش ہیں سب ناتمام۔ خونِ جگر کے بغیر۔ آخر کیوں؟ نغمہ ہے سودائے خام۔ خونِ جگر کے بغیر۔ اس کی کیا معنویت ہے؟ کیا علّت ہے؟ اگر میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ، تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ کوئی نہ کوئی تو بھید ہو گا ہی کہ جس کی بنا پر ہے۔ میری تمام سرگزشت۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو۔
کھوئے ہوؤں کی جستجو ہمیں کہاں کہاں نہ لے جائے گی؟ یہ کھوئے ہوئے صرف لوگ ہی تو نہیں ہیں۔ یہ کھوئے ہوئے خواب بھی ہیں۔ خیال بھی ہیں۔ یہ خواہشیں بھی ہیں۔ آرزوئیں بھی ہیں۔ تمنائیں بھی ہیں۔ حسرتیں بھی ہیں۔ یہ معجزۂ فن کی مختلف جہتیں ہیں۔ سمتیں ہیں۔ زاویے ہیں۔ بے شمار صورتیں ہیں۔ اور ان سب کی ہے خونِ جگر سے نمود۔
اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصے۔ ’’میری یونی ورسٹیاں ‘‘ میں گورکی نے ایک ایسے نوجوان کا ذکر کیا ہے جو دل سے شاعر تھا اور مچھلی پکڑنے کے بہانے رات بھر وولگا (Volga) کے کنارے بیٹھا رہتا تھا۔ وہ نوجوان فن کار تھا۔ آخرکار مارنے کے لیے دھوکا دیتی ہوئی سرنگ کے پاس جا کر مر گیا۔ اوّل و آخر فنا۔ خونِ جگر سے نمود۔
The fruitless thought of what I might have been, haunting me
ever, will not let me rest
A cold north wind has withered all my green
My son is in the west.
- Christina Rozetti.
I look
After and before
And pine for what is not
I fall upon the thorns of life
I bleed----.
--- Shelley
یہ مضمون، بشرطے کہ آپ اسے مضمون کہیں۔ جسے پڑھنے کا آپ آغاز کر چکے ہیں اُس با ثمر تاریکی کے بارے میں ہے جس کے بطن سے صبح کی سرخی جنم لیتی ہے۔ انسانی تخئیل اور اُس کی تخلیقی کاوشوں کو ماضی کے دھندلکوں میں کھوجنے کی خواہش اس مضمون کا بنیادی محرک ہے۔ یہ بات ابتدا ہی میں واضح کر دینا بہتر ہے کہ اس مضمون کا اسلوب تصنیفی سے زیادہ تالیفی ہے۔ یہ تجسّس اور تلاش کا ایک سفر ہے۔ مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا مکمل شعور و اعتراف ہے۔ انتشار و خلفشار کے اس دور میں خیالات کا منطقی ربط و تسلسل میری بساط میں نہیں۔ اس لیے اگر آپ اس مضمون سے علمی سطح پر کسی بھی بلند درجے کے انکشاف کی اُمید رکھتے ہیں تو شروع میں ہی معذرت قبول فرمایئے۔ اس مضمون کا تناظر اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ہمہ گیر نہیں ہے۔ یہ انسانی تخئیل اور انسان کی تخلیقی صلاحیت کی اُس جہت کو تلاش کرنے اور کھوجنے کا عمل ہے جس کے تحت اُس نے ایک مثالی انسان۔ اُسوۂ حسنہ۔ Excellent Model کے Prototype کو سوچنے اور تراشنے کی کوشش کی۔ اپنے تصور اور خیال میں ایک مکمل انسان Perfect Person کی تجسیم Personification کی۔ اس مضمون کا بنیادی دعویٰ Basic Premise یہ ہے کہ جس طرح آج کے دور میں ہونے والے سائنسی اکتشافات یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک با شعور جان دار کا وجود اس کائنات کے بنیادی خصائص میں سے ایک ہے او ر ہم انسان نہایت گہرے اور بامعنی انداز میں اس کائنات میں موجود فطری قوانین (Natural Laws) کی بُنت میں شامل ہیں۔ بالکل اُسی طرح ایک محبوب اور مثالی انسان کی حیثیت سے حضرت محمد ﷺ کی ذات (Muhammad (SAW) in Person) انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت (Symbol) کے طور پر انسانی ذہن کی ساخت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ تخئیلی (Imaginative) اور تخلیقی (Creative) سطح پر انسان نے جب بھی ایک مکمل انسانی پیکر کو تراشا، دراصل اُس نے آپ ہی کی ذات کے کسی ایک یا ایک سے زیادہ خصائص کو انسانی زندگی کے تہذیبی حوالے سے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آپ کے اس دنیائ اُ ن احمد زخمؔتابوں کی فائلوں کے لئے بھی بات کریں۔ں ای میل کر چکا ہوں اکادمی کے ای میل پں۔ خوشدل، پہلا شمارہ کہاں ہے؟ے فانی میں آنے سے پہلے کی اُنھی کوششوں اور تخلیقی کاوشوں کی تلاش کا سفر ہمارے اس مضمون کا بنیادی موضوع ہے۔
اسلام کا ظہور زوالِ تہذیب کے ایک کائناتی لمحے میں ہوا تھا اور یہ ظہور ایک ایسے علاقے میں ہوا تھا جو اُس وقت کی انسانی تہذیبوں اور مذاہب کے دائرے کے عین درمیان میں ایک تہذیبی خلا کی صورت میں تھا۔ اسلام کے پاس تہذیبی مواد صرف ایک ہے اور وہ ہے ’’لفظ‘‘ ۔ عرب دنیا میں شاعری کے علاوہ اور کوئی تہذیبی میڈیم نہیں تھا۔
اِس سرزمین پر اسلام کے ظہور کی غالباً غایتِ اولیٰ ہی یہی تھی کہ اصول اپنی اوّلین حیثیت میں کسی زمینی لازمے سے مخلوط نہ ہونے پائے، مگر اُس کے اردگرد ایک ایسا دائرہ ضرور ہے جس پر اُس اصول کے مختلف اطلاقات (Applications) ہو سکیں۔ چناں چہ دورِ اوّل میں یعنی بعثتِ نبوی سے ریاستِ مدینہ کے قیام تک کوئی ایسی چیز پروان چڑھتی دکھائی نہیں دیتی جسے ہم تہذیب و ثقافت کے اہم مظاہر میں گنتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب شاعروں کی زبانیں بھی یکایک خاموش ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت مذہبی اور کائناتی نقطۂ نظر سے کوئی معمولی وقت نہیں ہے۔
اللہ آخری بار انسان سے براہِ راست خطاب کر رہا ہے، لہٰذا پوری کائنات گوش بر آواز ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں کوئی بڑا اور قابلِ ذکر تہذیبی عمل نہیں ہو رہا ہے۔ ہر انسانی تخلیقی عمل معطل کر دیا گیا ہے۔ کوئی ایسی تہذیب نہیں ہے جو اپنے قوسِ عروج کا سفر کر رہی ہو۔ ایرانی اور بازنطینی تہذیبیں اپنے زوال کی آخری حدوں پر ہیں۔ چینی تہذیب ایک خاص سطح پر آ کر رُک گئی ہے۔ ہندو سناتن دھرم اپنے بڑے تہذیبی کارناموں کی تکمیل کر چکا ہے۔ مصر، عراق اور یونان میں تہذیب کے عہد کو گزرے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ اس عالم میں عرب کی سرزمین میں ’لفظ‘ کا نزول ہو رہا ہے۔ اور نفوس صرف ایک آواز کو جذب کر رہے ہیں۔ یہ انجذاب اس قدر قوی ہے کہ نفوس خود اصول بن گئے ہیں۔ مدینے کا یہ معاشرہ صرف تہذیب کی نمائندگی نہیں کر رہا، بلکہ اصولِ تہذیب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٭۲
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اُس مدَنی معاشرے میں تہذیبی مواد صرف ’’لفظ‘‘ ہے اور اُس تہذیب کا واحد مظہر صرف ایک object ہے۔ اور وہ ہے ذاتِ رسولﷺ۔ اور اُس ایک ذاتِ اقدس میں انسانی تہذیب کی تمام تر عقلی، عملی اور تخئیلی جہتیں یک جا ہو گئی ہیں۔
نبی یا رسول اپنی اصل میں ’’خبر‘‘ لانے والا ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ نے انسانی نفوس کے لیے خبر کو تجربہ بنا دیا۔ خبر کو تجربہ بنانے کا یہ عمل انسان کی تمام تر تخلیقات کا واحد سبب بن گیا۔ خبر کے تجربہ بننے کے اس عمل نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کو نبی اور رسول کی حیثیت میں ہی نہیں، بلکہ انسان کی حیثیت سے بھی نفوسِ انسانی کے لیے ’’محبوب‘‘ کی صورت میں ڈھال دیا۔ ایک ایسے محبوب کا روپ جو اپنی ذات میں ایک تاریخی اور زندہ حقیقت ہو صرف ایک تہذیبی مواد ’’لفظ‘‘ کی موجودگی میں تمام تر علومِ انسانی کا سرچشمہ بن جانا، انسانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے اور انسانی تہذیب کی یہ علامت جو اپنے ظاہری پیکر کی صورت میں چھٹی صدی عیسوی میں رونما ہوئی، اپنی اصل اور حقیقت میں انسانی تخئیل (Human Imagination) کے ایک بنیادی عنصر (Basic Element) کے طور پر ہمیشہ سے مذاہب اور عقائد کے تمام تر تنوع کے باوجود، انسان کی تخلیقی کاوشوں کا حصہ رہی ہے۔
ادب خلا میں کبھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہر انسان کی تخلیقی کاوش جب اپنا اظہار کرتی ہے تو دراصل وہ اپنے ایک طویل ماضی اور لامحدود مستقبل کی انفرادی اور درمیانی کڑی ہوتی ہے۔
کوئی شاعر، کوئی فن کار خواہ وہ کسی بھی فن سے تعلق رکھتا ہو، تن تنہا اپنی کوئی مکمل حیثیت نہیں رکھتا۔ اُس کی اہمیت اور اُس کی بڑائی اِسی میں مضمر ہے کہ پچھلے شعرا اور فن کاروں سے اُس کا کیا رشتہ ہے؟ الگ رکھ کر اُس کی اہمیت متعین نہیں کی جا سکتی۔ اُسے پچھلے شعرا اور فن کاروں کے درمیان رکھ کر تقابل و تفاوت کرنا ہو گا۔ یہ اصول محض تاریخی تنقید کا ہی نہیں بلکہ جمالیات کا بھی بنیادی اُصول ہے۔ یکسانیت اور مطابقت کا یہ تقاضا یک طرفہ نہیں ہے۔ ایک نیا فن پارہ جب تخلیق ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ ہوتا ہے جو بہ یک وقت اُن فن پاروں کے ساتھ عمل میں آیا تھا جو پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ یہ موجودہ فن پارے خو دہی اپنا ایک مثالی نظام بنا لیتے ہیں اور جس میں کسی حقیقی نئے فن پارے کی تخلیق سے خود ہی ردّ و بدل ہو جاتا ہے۔ یہ موجودہ نظام نئے فن پارے کے وجود میں آنے سے قبل مکمل ہوتا ہے لیکن اُس نئے فن پارے کے وجود میں آنے کے بعد اِس نظام کی زندگی کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ سارے کے سارے موجودہ نظام میں تغیر و تبدّل پیدا ہو۔ خواہ یہ تبدیلی کتنی ہی خفیف کیوں نہ ہو۔ اس طرح اس فن پارے کے رشتے اور اقدار پورے نظام میں ایک نئے سرے سے ترتیب پا لیتے ہیں۔ نئے اور پرانے کے درمیان یہی اصل مطابقت ہے جو بھی نظام کے اس خیال سے اتفاق کرتا ہے اور ادب کی اس نوعیت کو سمجھتا ہے اُس کے لیے یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ جس طرح ماضی حال کو متعین کرتا ہے اُسی طرح حال ماضی کو بدلتا رہتا ہے۔ اور وہ فن کار جو اِس بات سے بخوبی واقف ہے وہ ساری مشکلات اور زبردست ذمّے داریوں کو بھی خوب سمجھتا ہے۔ ہر دَور کا فن کار اگر وہ واقعی ایک تخلیقی اور منفرد فن کار ہے، مخصوص معنی میں اس بات سے بھی واقف ہو گا کہ اُس کی تخلیقات کو لازماً ماضی کا ذکر کیا گیا ہے، قطع برید کے لیے نہیں کہا گیا۔ پرکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم یہ دیکھیں کہ آیا وہ ماضی کے معیاروں سے پرکھا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہاں پرکھنے کے فن کاروں سے بہتر ہے یا بدتر ہے یا اُن کے برابر درجہ رکھتا ہے اور نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس کی تخلیقات کو پچھلے ناقدوں کے مسلّم احکام کی روشنی میں دیکھا جائے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ اور ایسا تقابل ہے جس میں دو چیزیں ایک دوسرے سے ناپی جاتی ہیں۔ نئے فن پارے کے لیے یہ مطابقت رکھنا ہی کافی نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دراصل یہ سرے سے مطابقت ہی نہیں ہو گی اور اس طرح نہ تو اُسے ’’نئے‘‘ کا نام دیا جا سکے گا اور نہ وہ درست معنی میں ’’فن پارہ‘‘ کہلائے جانے کا مستحق ہو گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نئی چیز زیادہ وقیع ہوتی ہے کیوں کہ وہ بالکل موزوں رہتی ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ یہی خوبی اُس کی قدر و قیمت کا معیار ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ ایک ایسا معیار ہے جسے آہستہ آہستہ احتیاط کے ساتھ برتنا چاہیے کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی قطعی طور پر فیصلہ دینے کا اہل نہیں ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مطابقت پائی جاتی ہے اور اس میں شاید انفرادیت بھی ہے یا اس میں انفرادیت نظر آتی ہے اور یہ پرانے فن پاروں سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
ماضی کے ساتھ فن کار کے تعلق کی اور زیادہ واضح تشریح کے لیے یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ وہ نہ تو ماضی کو کوئی جامد چیز یا پتھر سمجھ کر قبول کر سکتا ہے، نہ وہ اپنی ذات کی کلّی طور پر تعمیر ایک یا دو نجی پسندیدگیوں پر کر سکتا ہے۔ اور نہ وہ اپنی ذات کی تعمیر کلیتاً اپنے کسی پسندیدہ دَور پر کر سکتا ہے۔ فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ مرکزی اور اصل میلان سے واقف ہو اور ضروری نہیں ہے کہ یہ میلان ممتاز شہرت کے حامل اساتذہ ہی میں نظر آئے۔ فن کار کو اس واضح حقیقت سے بھی واقف ہونا چاہیے کہ فن کسی چیز کو آگے نہیں بڑھاتا، لیکن فن کا مواد کبھی بھی بالکل ایک سا نہیں ہوتا۔ اُسے اِس بات سے بھی واقف ہونا چاہیے کہ انسان کا ذہن وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے مگر اپنی بنیادی ساخت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ذہن تبدیل ضرور ہوتا ہے اور یہ تبدیلی ایک ایسا ارتقا ہے جو راستے میں کسی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ جو نہ تو شیکسپیئر (Shakespeare) یا ہومر (Homer) کو از کارِ رفتہ قرار دیتا ہے اور نہ ۳۵۰۰۰ سال پہلے کے فرانس کے علاقے گارگاس (Gargas) کے غاروں کے اندر بنے ہوئے مصوری کے نمونوں کو۔ اور یہ کہ یہ ارتقا جسے آپ شاید لطافت (Elegance) کا نام دے سکتے ہیں اور جسے آپ وثوق کے ساتھ پیچیدگی (Complexity) کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں۔ فن کار کے نقطۂ نظر سے یقیناً کوئی ترقی نہیں ہے۔ ماہرِ نفسیات کے نقطۂ نظر سے بھی اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا یا کم از کم اس حد تک نہیں کہا جا سکتا جس حد تک ہم اُسے ترقی خیال کرتے ہیں۔ اور قطعی ممکن ہے کہ آخر میں یہ ترقی معاشیات اور مشین پر مبنی کوئی پیچیدگی ثابت ہو۔ لیکن حال اور ماضی میں فرق یہ ہے کہ شعوری حال، ایک طرح سے اور کسی حد تک ماضی کی آگاہی کا نام ہے جسے ماضی کا شعور بذاتِ خود ظاہر نہیں کر پاتا۔ ٭۳ اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ تبحرِ علمی اور اصول پرستی کے بغیر نظریہ سازی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے فن کاروں کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالنے ہی سے ردّ کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کے تجزیے سے یہ بھی پتا چلے گا کہ زیادہ علمیت فن کارانہ احساس و ادراک کو کند کر دیتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی زور دیں گے کہ فن کار کو اس حد تک حصولِ علم ضرور کرنا چاہیے جہاں تک اُس کی فطری قبولیت پذیری (Absorbility) اور کاہلی (Lethargy) پر اثر نہ پڑے۔
یہ بات مناسب نہیں ہے کہ علم کو امتحان، ڈرائنگ روم یا پھر تشہیر کے لمبے چوڑے طریقوں تک محدود رکھا جائے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو علم کو جذب کر سکتے ہیں۔ سست ذہن لوگوں کو اس کے لیے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ شیکسپیئر نے تاریخ کی اتنی معلومات صرف پلوٹارک (Plutarch) کے مطالعے سے حاصل کر لی تھیں، جتنی بہت سے لوگ سارے برٹش میوزیم کو پڑھ کر بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ جس بات پر مَیں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اب تک مانا یہی گیا ہے کہ فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کا شعور حاصل کرے یا اُسے ترقی دے اور پھر ساری عمر اپنی تخلیقات میں اُسے پروان بھی چڑھاتا رہے۔ جس طرح آج کا بڑا تخلیق کار آئندہ پر اپنے تخلیقی اثرات مرتسم کرتا ہے، اُسی طرح وہ ماضی کے شعوری اور غیر شعوری اثرات سے بے گانہ بھی نہیں ہوتا۔
Paolo اور Francesea کی داستان میں مخصوص قسم کے جذبات نظر آتے ہیں لیکن شاعری کی گیرائی اس سے بالکل مختلف چیز ہے، جس قسم کی گیرائی اور گہرائی (Depth And Hold) کا تاثر وہ مفروضہ تجربہ کو بہم پہنچاتی ہے۔ اس داستان میں ماضی کے شعور کے حوالے سے جو گیرائی نظر آتی ہے وہ یولیسس (Ulysses) کے چھبیسویں کینٹو (th 26Canto) سے زیادہ وسیع ہرگز نہیں ہے جس میں یولیسس کے بحری سفر کا ذکر کیا گیا ہے اور جس کا انحصار براہِ راست کسی ایک جذبے پر نہیں ہے۔ عظیم تنوع جذبات کی قلبِ ماہیت کے عمل سے پیدا ہوتا ہے۔ آگاممنون (Agamemnon) کا قتل اور اوتھیلو (Othello) کا ذہنی کرب، دانتے (Dante) کے منظروں کی بہ نسبت فن کارانہ تاثر پیدا کرنے میں اصل روح سے بظاہر زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب تمام تر تخلیقی تنوع کے باوجود ماضی، حال اور مستقبل کے ناقابلِ تقسیم تسلسل کے ساتھ انسانی ذہنی ساخت کی ہمہ گیریت اور مثال پسندی کے حوالے سے یکسانیت ہے۔ یہ واحد دلیل ہے اس بات کی کہ فن اور واقعہ کا فرق ہمیشہ کامل ہوتا ہے۔ ٭۴
فن کارانہ تخلیق اور ماضی کے حوالے سے جب بھی انسان کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے تو عموماً افلاطون اور ارسطو کے اُس بیان سے جڑی ہوئی ہوتی ہے کہ نقل کرنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔
ابتدائے آفرینش سے آج تک انسان اپنی اس بنیادی جبلت کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس کرۂ ارض پر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے درمیان اختلافِ رائے ہوا جو بعد میں شدت اختیار کر کے ایک نزاع کی صورت میں ڈھل گیا اور اسی نزاع کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں قتل و خون کا اوّلین واقعہ رونما ہوا۔
’’اور ذرا انھیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اُس نے کہا: مَیں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے کہا: اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھائے گا تو مَیں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اُٹھاؤں گا۔ مَیں اللہ ربّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے۔
آخرکار اُس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اُس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اُسے مار کر اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا، ’’افسوس مجھ پر! مَیں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا۔ ‘‘ اُس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔ ٭۵
قرآنِ حکیم کے بیان کر دہ اس واقعے میں انسان کے نقل کرنے کی جبلت کا ایک واضح اظہار موجود ہے۔
نقل کرنے کی جبلت کے بارے میں ارسطو کا بیان بھی قابلِ غور ہے وہ کہتا ہے:
نقل کرنا بچپن ہی سے انسان کی جبلت ہے۔ اسی باعث وہ دوسرے تمام جانوروں سے ممتاز ہے کہ وہ سب سے زیادہ نقال ہے اور اِسی جبلت کے ذریعے وہ اپنی سب سے پہلی تعلیم پاتا ہے۔ اسی طرح تمام آدمی قدرتی طور پر نقل سے حظ حاصل کرتے ہیں۔ فنونِ شبیہی کے نمونوں کو دیکھ کر ہم جو محسوس کرتے ہیں اُس سے یہ صاف ظاہر ہے۔ کیوں کہ اُن میں ہم خوشی سے دھیان لگا کے۔ اور جتنی ٹھیک نقل کی گئی ہو اتنی ہی زیادہ خوشی سے۔ ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو اگر اصلی ہوں تو انھیں دیکھ کر ہمیں تکلیف ہو، جیسے ذلیل ترین اور انتہائی نفرت انگیز جانور، لاشیں اور اسی طرح کی چیزیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکھنے میں ایک قدرتی خوشی ہے جو محض فلسفیوں تک محدود نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ ٭۶
انسانی فطرت میں دوسری اہم ترین صفت اظہارِ ذات کی جبلت ہے۔ ہر انسان میں اپنی ذات کے اظہار کی خواہش فطری لازمہ ہے۔ ایک انسان جو کچھ دیکھتا ہے دوسروں کو بھی دکھانا چاہتا ہے۔ وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے، لوگوں کو اُن محسوسات میں شریک کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ سوچتا ہے اَوروں کو سُنا کر داد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے دُکھ اور سکھ، رنج و راحت اور خوشی و غم کا اظہار کر کے نفسیاتی طور پر ایک نوع کا سکون و طمانیت حاصل کرتا ہے۔ انسان کیوں کہ اپنی فطرت میں ایک سماجی حیوان ہے۔ اس لیے اُس کی انفرادی اور سماجی فطرت اِس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ لوگوں سے اپنے مشاہدات، خیالات، تجربات، جذبات، احساسات اور کیفیات کا اظہار کرے۔ وہ فطرتاً مجبور ہو کر ان تمام باتوں کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھ سکتا۔ اُس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان طاری رہتا ہے اور ابلاغ کی ایک مسلسل خواہش اُبھرتی رہتی ہے۔ اظہارِ ذات کی جبلت انسانی ذہن کی صحت، درستی اور اصلاح کے لیے اُسی قدر لازمی ہے، جیسے انسانی جسم کی پرورش و پرداخت کے لیے غذا اور سلامتی اور حفاظت کے لیے کوئی جائے پناہ ایک حیاتیاتی ضرورت ہے۔
اپنی ذات کا اظہار انسان عام طور پر تین مختلف طریقوں سے کرتا رہا ہے:
٭ جسمانی اشارات و حرکات کے ذریعے جن میں رقص، ڈراما اور گلوکاری وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں دیگر فنونِ ادائیگی (Performing Arts) کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔
٭ کسی مادّی وسیلے سے اظہارِ ذات کی صورتوں میں مصوری، موسیقی اور مجسمہ سازی وغیرہ شامل کیے جاتے ہیں۔
٭ زبان یا لفظ کی معرفت اظہارِ ذات ادب (Literature) کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔ اس میں نثر پارے اور شاعری کی تمام اقسام کو شمار کیا جاتا ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہﷺ سے فرمایا کہ:
’’اے رسول اللہﷺ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ عربوں کے وفدوں سے ایسی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں جس کا بیش تر حصہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’ادبنی ربی فاحسن تادیبی و ربیت فی بنی سعد۔۔۔ مجھے میرے رب نے تعلیم دی ہے اور بہترین تعلیم دی ہے۔ پھر مَیں نے قبیلہ بنو سعد میں پرورش پائی ہے۔ ‘‘ یہاں پر آپ نے ’’ادبنی‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے ’’ادب‘‘ کا لفظ پہلی دفعہ عربی زبان میں آپ ہی کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے۔ اس سے پہلے ان معنی میں ادب کا لفظ غالباً استعمال نہیں ہوا۔ جس کے معنی بہرحال ادب یا تہذیب سکھانے کے نہیں ہیں۔ کیوں کہ خود قرآن کا فیصلہ ہے کہ ’’انک لعلی خلق عظیم‘‘ یعنی آپ بڑے بلند اخلاق کے مالک ہیں۔ یہاں ’’ادبی‘‘ سے مراد ’’علمنی‘‘ ہے یعنی مجھے تعلیم دی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صدرِ اسلام میں تادیب بمعنی تعلیم کے لیے جاتے تھے۔ چناں چہ مؤدّب بمعنی معلّم بولا جاتا تھا۔ ‘‘ ٭۷
انسانی تجربات و خیالات کو الفاظ کے جامے میں پیش کرنے کا ذریعہ جب سے ہمارے ہاتھ آیا ہے، اُس سے پہلے بھی انسان سوچتا تھا، محسوس کرتا تھا۔ اُس کے دل میں مختلف النوع کیفیات وارد ہوتی تھیں۔ اُس کے ذہن میں خیالات و ہیجانات کی لہریں اُبھرتی تھیں۔ اصوات کے ذریعے وارداتِ قلب و نظر کا اظہار ازمنۂ قدیم میں بھی ہوتا تھا۔ اصوات کو رسم الخط کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لانے، خیالات کو رنگ و روغن کے ذریعے صفحۂ قرطاس پر دکھانے، سنگ و خشت کے ذریعے اپنی عظمت کے محل اور اپنے تخئیل کے تاج محل بنانے سے قبل جب انسان ادب و فن کے جدید وسائلِ اظہار سے ناآشنا تھا۔ اُس وقت بھی آواز و صوت، اشارات اور حرکات و سکنات کا وسیلۂ اظہار اُسے دستیاب تھا۔ انھی تمام وسائلِ اظہار نے انسان کے اوّلین فنون کو جنم دیا۔
یہاں تک کی گفتگو سے یہ بات تو شاید کسی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ انسان نے اظہارِ ذات کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی فن کو اپنا وسیلہ بنایا۔
انسانی تخئیل اور اُس کی تخلیقی کاوشوں کی جس کھوج میں ہم روانہ ہوئے ہیں اُس کی راہیں نسبتاً واضح اور ہموار ہو جائیں گی اگر ہم آگے بڑھنے سے پہلے ’’فن‘‘ یعنی Art کی کوئی تعریف متعین کر لیں۔
کسی بھی لفظ یا اصطلاح کی ایک تعریف متعین کرنے کا کم سے کم ایک فائدہ تو ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بات کو تہذیب و تنظیم کی باقاعدگی میں جاری رکھا جا سکتا ہے۔ یورپ اور امریکا کے ان دانش وروں جنھوں نے اپنے طور پر نظریہ سازی کی ذمّے داری اُٹھا رکھی ہے، نے فن کی تعریف کرنے کا ایک مخصوص طریقۂ کار اپنایا ہوا ہے۔ وہ لفظ آرٹ اور اُس کے لغوی معنی سے بحث کرتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں آرٹ کے جوہر کی ایک تعریف متعین کر دیتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے دریافت کیے ہوئے آرٹ کے قدیم نمونوں کے تجزیے اور دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں میں پائے جانے والے آرٹ کی تشریح و تحسین کے سلسلے میں تو یقیناً یہ ایک نہایت عملی اور مفید طریقہ ہے، لیکن ہم اپنے سلسلۂ کلام کو جن جہتوں میں جاری رکھنے کی نیت رکھتے ہیں اُس کے لیے یہ طرزِ استدلال شاید کام نہ آ سکے۔ لہٰذا ہم یہاں دوسرا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم یوں کرتے ہیں کہ اُس پورے عرصۂ عمل کو جس پر مختلف تہذیبوں اور زمانوں میں اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے نگاہ میں رکھ کر ایک ایسی تعریف متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو صرف آرٹ کے جوہر سے ہی نہیں بلکہ اُس کی عملی صورت سے بھی بحث کرتی ہو۔ ممکن ہے کہ اس طرح ہم کچھ بہتر نتائج پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
مفہوم کے اعتبار سے لفظ آرٹ خاصی وسعت رکھتا ہے۔ ہم اپنے سلسلۂ کلام کو جاری رکھنے کے لیے ’’فن‘‘ یعنی آرٹ کی یہ تعریف متعین کرتے ہیں کہ فن دراصل انسانی عمل کی اُن تمام جہتوں پر محیط ہے جن میں انسان ساختوں، صورتوں اور اشکال کے ذریعے خوب صورتی کو تلاش کرتا ہے، اُس کا ادراک کرتا ہے یا اُس کا ابداع کرتا ہے۔
ہماری اس تعریف پر دو اعتراضات ہو سکتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہ ہو سکتا ہے کہ فن کی تخلیق میں ساخت، صورت یا شکل کو تخلیقی عنصر کے طور پر فن کا لازمی حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً جیکسن پولاک (Jackson Pollock) تجریدی اظہاریت (Abstract Expressionism) کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دس ہزار سال کی مصوری کی تاریخ میں صرف ایک چیز مشترک ہے، شے۔ لہٰذا اب ایک نیا آرٹ تخلیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شے سے جان چھڑا لی جائے۔ اس سلسلے میں ہم یہی عرض کریں گے کہ شے سے چھٹکارا پانے کے بعد انسانی عمل اور فنی مواد، چاہے وہ الفاظ ہی کیوں نہ ہوں، کے تعامل سے جو کچھ بھی وجود میں آئے گا وہ کسی نہ کسی ساخت میں تو بہرحال ہو گا۔ چناں چہ یہ تو ہمیں بہرحال ماننا ہی پڑے گا کہ اس سہ ابعادی کائنات (Three Dimensional Universe) میں رہتے ہوئے فن کا ظہور شے کے بغیر ممکن نہیں ہے، خواہ وہ شے ادنیٰ سے ادنیٰ درجے پر ہی کیوں نہ موجود ہو یا وجود میں آئے۔ شے کے ساتھ ساخت کا تصور جزو لاینفک کے طور پر اس صورت جڑا ہوا ہے کہ ان کا الگ الگ فہمِ انسانی حواس سے بالاتر ہے۔ ساخت اپنی سب سے موہوم شکل میں ادبی متن (Literary Text) کی صورت میں ہوتی ہے۔ لیکن:
’’ادب کی گفتگو صرف متون کے سلسلوں، ادبی پیرایوں، منجمد ہئیتوں یا صنفوں کے نہ بدلنے والے مجموعے کے طور پر نہیں کی جا سکتی۔ کسی بھی شے یا بنائی ہوئی چیز کی جمالیاتی قدر کا احساس ایک سماجی عمل ہے، جو دراصل رائج آئیڈیالوجی سے یکسر بے تعلق نہیں ہوتا۔ سماجی تبدیلیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی کئی اشیا جو اوّلاً کوئی جمالیاتی قدر نہیں رکھتی تھیں بعد میں جمالیاتی قدر کی حامل سمجھی جانے لگیں، مثلاً مذہبی نوعیت کے نشانات، گھریلو استعمال کے یونانی ظروف، فوجی حفاظت کے زرّہ بکتر اور خود (ہندوستانی ثقافت سے اس کی ہزارہا مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جن پر گندھارا اور بدھ آرٹ کی بنیاد ہے۔ قدیم چھوٹی بڑی مورتیاں، مجسمے، نیز اجنتا، ایلورا کی نقاشی اور بت تراشی اور کونارک اور دوسرے قدیم مندروں کی مجسمہ سازی جو بنیادی طور پر پوجا وغیرہ کے لیے تھی) آج انھیں آرٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ‘‘ ٭۸
دوسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ جمال کی تلاش، اُس کا ادراک یا اُس کی تخلیق فن کے لازمی جزو کے طور پر تسلیم کیا جانا ضروری نہیں ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں رونما ہونے والی کتنی ہی تحریکیں ایسی ہیں جو خوب صورتی، حسن اور جمال کو اپنا مطمحِ نظر قرار نہیں دیتیں۔ ڈاڈا ازم (Dadaism) کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ فی الوقت دنیا بھر کے آرٹ میں ایسے رجحانات پائے جاتے ہیں جن کو ہم مسلکِ قبح (Cult of Ugliness) میں شامل کر سکتے ہیں لیکن اگر اس نوعیت کی فنی تحریکوں کا ذرا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو چیز یہ تحریکیں ردّ کرتی ہیں وہ فی نفسہٖ جمال نہیں ہے، بلکہ تصورِ جمال ہے۔ ان تحریکوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم جس چیز کو قبیح کہتے ہیں اُس میں بھی جمال موجود ہوتا ہے، لیکن ذرا مختلف انداز میں اور حسن و قبح چوں کہ اضافی صفات یا قدریں ہیں، اس لیے جمال کی تلاش یا تخلیق ایک متعینہ دائرے میں رہ کر کرنا ہی غلط ہے۔ ہم اس موقف سے اتفاق کریں یا نہ کریں، موقف بہرحال یہی ہے۔ اس طرح یہ اعتراض بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ انتہائی مجرد سطح پر بھی فن کی تعریف میں جو چیزیں یعنی ساخت اور جمال داخل ہیں، تو اب آگے کی ساری گفتگو انھیں کے گرد گھومے گی اور انھیں دو عناصر کے مختلف مرکبات (Combinations) سے بحث کرے گی۔
چلیے اب کسی حد تک یہ بات تو طے ہو گئی کہ ہم نے فن کے جوہر اور عرض (Essence And Attribute) کا تعین کر لیا۔ جوہر یعنی تلاشِ جمال، ادراکِ جمال یا تخلیقِ جمال اور عرض یعنی جمال کو تخئیل کی مدد سے کسی ہیئت، شکل یا ساخت میں ڈھالنا۔ ہیئت یا ساخت کے بارے میں گفتگو تو ہم ان شاء اللہ ذرا آگے جا کر کسی مناسب موقع پر کریں گے، فی الحال یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جسے ہم جمال یا خوب صورتی کہتے ہیں، یہ کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ نوعیت کیا ہے؟ اور اس کا انسانی تخئیل اور انسان کے تخلیقی عمل سے کیا تعلق ہے؟٭۹
سیّد عابد علی عابد نے فن کی تعریف کا تعین کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر کا قول نقل کیا ہے اور پھر اُس قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
فطرت پر انسان کے تصرف کا نام آرٹ ہے۔ یہ محض فن کا ذکر ہے، فنونِ لطیفہ کا نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ فطرت، آرٹ کے خام مواد کی طرح ہے۔ انسان اس خام مواد کو اپنے تخئیل سے خوب صورت پیکروں میں ڈھال کر فنونِ لطیفہ کے نمونے پیش کرتا ہے٭۱۰
لغتِ فلسفہ میں مورو (Morrow) نے ارسطو کے متعلق یہ بیان دیا ہے:
ارسطو کے نظام میں آرٹ اُس اصلِ اصول کا علم یا مطالعہ ہے جس پر حسین یا مفید اشیا کی تخلیق مبنی ہوتی ہے۔
ون توری (Venturi) نے نسبتاً جو مفصل تر نوٹ لکھا ہے، اُس میں وہ کہتا ہے کہ آرٹ اپنے معانیِ مخصوصہ میں فنونِ لطیفہ سے عبارت ہوتا ہے اور ادب سے بھی۔ ون توری کے اس بیان سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ صرف شاعری ہی کو یہ عزت حاصل نہیں ہے کہ وہ فنونِ لطیفہ کی صف میں شامل ہو بلکہ تخلیقی نثر بھی فنونِ لطیفہ کی حد تک پہنچی ہوئی مل جاتی ہے۔ تخلیقی نثر کے فنی خصائص کے بارے میں نسبتاً تفصیلی گفتگو ہم اس مضمون کے اُس حصے میں جاcکر کریں گے جہاں ہم عالمی ادب کی چیدہ چیدہ مثالوں کا جائزہ لیں گے۔
آرٹ کی یہ تعریف مان لینے کے بعد یہ انسان کی فطرت پر تصرف کا نام ہے۔ ہمیں لازماً اس اہم سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اُن فنون میں وہ خام مواد کیا ہے، جس پر انسان تصرف کرتا ہے؟
مصور تو رنگ اور خطوط سے کام لیتا ہے، سنگ تراش کسی دھات سے یا سنگِ مرمر سے اور بعض اوقات مٹی یا لکڑی سے، معمار سنگ و خشت سے، مغنی یاe نواگر صوتِ معین سے۔ یہاں تک تو مسئلہ صاف ہے مگر شعر اور تخلیقی نثر کے معاملے میں بات اُلجھنے لگتی ہے۔
ادب میں وہ خام مواد کیا ہے جس پر انسان اور اُس کی تخئیلی قوتیں تصرف کرتی ہیں؟۔۔۔ کیا الفاظ؟ اگر یہ جواب صحیح تسلیم کر لیا جائے کہ الفاظ ہی ادب کا موادِ خام ہیں تو پھر ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے اُس کے مطابق منطقی طور پر الفاظ کا بامعنی ہونا ضروری نہیں۔ صرف یہ کافی ہے کہ وہ اپنی نشست کے اعتبار سے اور آہنگ و ترنم کے پیشِ نظر حسن کا شعور پیدا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔
اگر ہم ذرا کی ذرا اس بات پر غور کر لیں کہ عام فنون کی تخلیقات اور فنونِ لطیفہ کی تخلیقات میں کیا بیّن فرق ہے اور یہ کس طرح ایک دوسرے سے متمیّز کی جاتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ملے گا کہ فنونِ لطیفہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ انسان کے شعورِ حسن کو اور حسِ جمال کو اُکسائیں۔ اس کے برخلاف دوسرے فنون افادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ٭۱۱
حسن یعنی جمال کو فطرتِ کائنات کا جوہر کہا جاتا ہے۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو حسن فطرتِ کائنات کے جوہر کے طور پر ازلی و ابدی حقیقت قرار پاتا ہے۔ اور اس اعتبار سے یہی ایک قائم بالذات شے ہے، باقی سب عرض ہی عرض ہے۔ (عرض: Attribute) یہی وجہ ہے کہ فطرت کا تخلیق کر دہ ہر پارہ ایک حسن پارہ نظر آتا ہے۔ منفرد و یکتا۔۔۔ ہر نقش کسی دوسرے نقش کے ساتھ مشابہت رکھنے کے باوجود اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہستی کے ہر نقش میں کچھ ایسے خصائل ہوتے ہیں جو ناقابلِ محسوس ہونے کے باوجود اُسے دوسرے نقوش سے منفرد رکھتے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس انفرادیت میں کثرت اور مشابہت میں انفرادیت کا اظہار ہی تو دراصل حسن ہے۔
حسن جب معروضی (Objective) لحاظ سے صورت پذیر ہوتا ہے تو اُن محسوس اشیا (Objects) میں جاذبیت و دل کشی پیدا کر دیتا ہے اور ہم اُن اشیا کو خوب صورت کہتے ہیں اور جب یہی حسن کسی پیکرِ حیات میں موضوعی صورت (Subjective) اختیار کر کے اپنا اظہار کرتا ہے تو ہم اسے لذت و حظ، نشاط و طرب، سکینت و طمانیت اور راحت و مسرت جیسے ناموں سے پکارتے ہیں۔
حسن معروضی طور پر ظاہر ہو یا موضوعی طور پر اپنی اصل میں دل کش (Attractive) اور باعثِ تسکین (Satisfying) ہوتا ہے۔ فرق معنی و مفہوم میں نہیں بلکہ الفاظ میں ہے۔ معروضی حسن (Objective Beauty) اور موضوعی حسن (Subjective Beauty) کے اس نازک فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں فنونِ لطیفہ اور جمالیات (Aesthetics) میں چند ایسے مکاتیبِ فکر پیدا ہوئے جن کی وجہ سے انسانی فکر کو سوائے انتشار اور ژولیدگی کے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔
جمال یعنی حسن کی نوعیت، ماہیت اور حقیقت کو فکری سطح پر جاننے کی کوشش و جستجو کا نام جمالیات ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جمالیات دراصل فلسفے کا ہی ایک ذیلی شعبہ ہے مگر حقیقتاً اپنی وسعت و گیرائی میں یہ انسانی زندگی کی تقریباً تمام جہتوں پر محیط ہے۔ انسانی علم اور تخلیقی کاوشوں کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو جمالیات کے دائرۂ خیال میں نہ آتا ہو۔ جمالیات اپنی گہرائی اور گیرائی میں اپنے اندر وہ سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے جو انسانی فکر و نظر کی طلب و جستجو کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔
جمالیات یعنی Aesthetics یونانی زبان کے لفظ Aisthetiki سے اخذ کیا گیا ہے اور اسے آج کل کے مروّجہ مفہوم میں سب سے پہلے الیگزنڈر جی بام گارٹن (Alexander G.Baumgarten) نے ۱۷۳۵ء میں استعمال کیا تھا اور اُس نے اس کا مفہوم متعین کرتے ہوئے لکھا تھا:
بام گارٹن کی اس تعریف سے جمالیات صرف ہمارے حسّی ادراک تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ مگر لوڈونگ وٹگن اسٹائن (Ludwig Wittgenstein) جمالیات کو ذرا واضح انداز میں بیان کرتا ہے:
Philosophical study of the qualities that make something an object of aesthetic interest and of the nature of aesthetic value and judgment. It encompasses the philosophy of art, which is chiefly concerned with the nature and value of art and the principles by which it should be interpreted and evaluated. Three broad approaches to the subject have been taken, each distinguished by the types of questions it treats as foremost: (1) the study of aesthetic concepts, often specifically through the examination of uses of aesthetic language; (2) the study of the states of mind-responses, attitudes, emotions-held to be involved in aesthetic experience; and (3) the study of objects deemed aesthetically interesting, with a view to determining what about them makes them so.
جمالیات کسی چیز کے اُن خواص کا فلسفیانہ مطالعہ ہے جو اُسے جمالیاتی طور پر دل کش بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جمالیات میں جمالیاتی قدروں اور ذوقِ جمال کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس میں فن کا فلسفہ جس کا تعلق فن کی نوعیت اور ماہیت سے ہوتا ہے اور وہ اصول جن کے تحت فن کی ترجمانی کی جاتی ہے اور فن کی قدر و قیمت کو پرکھا جاتا ہے، بھی شامل ہے۔ جمالیات کے علم کو تین مختلف نقطہ ہائے نظر سے بیان کیا جا سکتا ہے جو دراصل تین مختلف نوعیت کے سوالات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ (۱) اُن جمالیاتی تصورات کا مطالعہ جو اپنی اصل میں جمالیات میں استعمال ہونے والی زبان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ (۲) اُن ذہنی حالتوں، روّیوں اور احساسات و جذبات کا مطالعہ جو جمالیاتی تجربہ کے ردّ عمل میں پیدا ہوتے ہیں۔ (۳) اُن اشیا کا براہِ راست مطالعہ جو جمالیات کے تحت زیرِ غور آتی ہیں کہ آخر اُن میں وہ کیا خواص ہیں جو اُن اشیا کو جمالیات کا موضوع بناتے ہیں۔ ٭۱۲
جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ جمالیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جو اصولی طور پر فن کی ماہیت اور فنی بصیرت کے معیارات کا تعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سلسلۂ کلام کو آگے بڑھانے سے پہلے اگر ہم چند بنیادی تصورات (Basic Concepts) کی تعریف متعین کر لیں تو شاید جمالیات کو اپنے نقطۂ نظر سے بیان کرنے میں کچھ سہولت میسر ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم جمالیات کی بنیادی قدروں (Basic Aesthetic Values) کی وضاحت کرنا چاہیں گے۔
مغربی تہذیب جمالیات کی بنیادی قدروں کا تعین کس طرح اور کن اصولوں پر کرتی ہے اس کی تفصیل تو ان شاء اللہ ہم آپ کو ذرا آگے جا کر بتائیں گے۔ فی الحال ہم قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں جمالیات کی اساسی قدروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس کے لیے مغربی تصورِ جمال کے چند اہم نقطہ ہائے نظر کا ذکر کرنا ضروری ہو گا۔
جمالیات میں حسن کے متعلق جتنے نظریات مشہور و معروف ہیں، انھیں آسانی سے دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ گروہ جو حسن کو موضوعی (Subjective) نقطۂ نظر سے قابلِ مشاہدہ خیال کرتا ہے اور حسن کی نوعیت و حقیقت کو اسی لحاظ سے سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔ دوسرے گروہ کے خیال میں حسن معروضی (Objective) ہوتا ہے۔ اگر اس بات کو مبالغہ نہ سمجھا جائے تو بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں گروہوں کے ذیلی طور پر بے شمار مکاتیبِ فکر موجود ہیں۔
حسن کو موضوعی طور پر بیان کرنے والے مفکرین اور دانش ور اس بات کے قائل ہیں کہ حسن خارجی دنیا میں کہیں موجود نہیں، بلکہ انسان کے اپنے اندر ہے۔ حسن قلب و نظر کی کیفیت کا نام ہے اور قلب و نظر میں موجود حسن کا اظہار ہی دنیا کی حسین اور دل کش چیزوں میں حسن پیدا کرتا ہے۔
سوداؔ جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
کیا جانیے تُو نے اُسے کس حال میں دیکھا
٭
دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
حسن کے موضوعی نقطۂ نظر کے بالکل برعکس حسن کے معروضی نقطۂ نظر کے حامیوں کا کہنا یہ ہے کہ حسن صرف خارجی دنیا میں موجود ہوتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک چوں کہ حسن امرِواقعی ہے اس لیے اُس کے احساس و شعور کے لیے حسِ جمال، ذوقِ جمال یا کسی بھی نوعیت کی باطنی قوت کی ضرورت نہیں ہے۔
جمالیات میں وہ نظریات جو حسن کو اظہار کا مرہونِ منّت خیال کرتے ہیں اظہاری نظریات کہلاتے ہیں۔ یہ نظریات جو حسن (Beauty) کو اظہار (Expression) کا پابند کرتے ہیں تعداد میں خاصے زیادہ ہیں، مگر ہم اُن میں سے چند نظریات کے متعلق ہی بات کریں گے۔ ان میں سے چند نظریات موضوعی ہیں اور چند معروضی۔
موضوعی نظریات کے پس منظر میں سقراط (Socrates-469-399 B.C) سے پہلے کی یونانی فکر اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ اُس فکر نے بعد کے اَدوار پر بہت اہم اثرات ڈالے ہیں۔
کسی بھی قوم کے مذہبی عقائد اُس قوم کی ثقافت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور ثقافت اُس قوم کے جمالیاتی شعور کی نمائندہ ہوتی ہے۔ عہدِ قدیم میں یونانی اپنی عبودیت کا اظہار شعر، رقص اور سرود کے واسطے سے کیا کرتے تھے۔ اگرچہ ابتدا میں وہ اَن دیکھے خدا کی ہی پرستش کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ بعض داخلی اور خارجی مؤثرات کے باعث انھوں نے مظاہرِ قدرت کو اپنا معبود بنا لیا اور یوں وہ حقیقت کے باطنی پہلو کے منکر ہوتے چلے گئے۔ یونانیوں کی شہود پرستی آخرکار صنم پرستی کا سبب بن گئی۔ چوں کہ وہ لوگ فطرت کو الوہیت کا حسنِ مطلق کا مظہر تصور کرتے تھے اس لیے حسنِ فطرت ہی اُن کے نزدیک ذاتِ الٰہی کا پرتو تھا۔ لہٰذا حسن کا تسکین آفرینی، مسرت انگیزی اور کیف پروری ہی حسن کی پہچان مقرر ہوئی۔ دل کش بات یہ ہے کہ یونانی حسنِ فطرت کو معرفت اور تذکر کا سرچشمہ خیال کرتے تھے اور یہی بات اُن کے نقطۂ نظر کو موضوعی بنا دیتی ہے۔
قدیم یونانی عقیدے کی رُو سے ہر انسانی روح حقیقت اور ممکناتِ زندگی سے آشنا ہوتی ہے کیوں کہ یہ اپنی اصل میں عالمِ ارواح سے جو عالمِ حقیقت ہے، تعلق رکھتی ہے۔ لیکن جب یہ روح انسانی جسم میں مقید ہو جاتی ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہے۔ اس بھولی ہوئی حقیقت و واقعیت اور ممکناتِ زندگی کو خارجی اور داخلی غور و فکر سے دوبارہ یاد میں لانے کو تذکر کہتے ہیں۔ انگریزی میں تذکر کے لیے مناسب ترین لفظ Reminiscence ہے۔ عورفیسی (Orphic) مذہب کے جو کتبے مقبروں سے دریافت ہوئے ہیں وہ سقراط، افلاطون اور ارسطو سے پہلے کے یونانی عہد کے شعورِ حسن پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اُن کتبوں کے مطالعے سے اس بات کا سراغ ملا ہے کہ وہ لوگ حسنِ مطلق کے وصال ہی میں، جو اُن کے نزدیک فنا فی الذات کے مترادف تھا، انسان کی نجات کو مضمر سمجھتے تھے۔ یعنی اس دنیا میں اگر حسنِ فطرت اُن کا معبود تھا تو آخرت میں بھی وہی اُن کی نجات کا بحرِ مسرت تھا۔ جس میں فنا ہوکر وہ خود بھی حسنِ مطلق بن جانا چاہتے تھے۔ حسن ہی چوں کہ اُن کا مطمحِ نظر اور مقصودِ زندگی تھا، اس لیے اُس کی عملی صورت کو وہ ’’خیر‘‘ ، ’’صداقت‘‘ ، ’’حسن‘‘ کی حالتوں میں ایک ہی حقیقت کے تین پہلو تصور کرتے تھے۔ ستیم۔ شیوم۔ سندرم۔
سقراط اور افلاطون کے خیال میں موجودات میں حسنِ مطلق کا اظہار اُس کے حسن کی وجۂ حقیقی ہے۔ دوسرا نظریہ رواقیوں (Stoics) کا ہے۔ کرائی سپس (Chrysippus) کے نظریۂ جمال کو اگر رواقیت (Stoicism) کا نمائندہ مان لیا جائے اور ایسا نہ ماننے کی بظاہر کوئی وجہ بھی موجود نہیں۔ تو پھر بہت وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رواقیوں کے نزدیک مسرت اور افادیت کے مکمل ترین اظہار کا نام حسن ہے۔
آگے بڑھنے سے پیش تر یہ بتا دینا شاید مناسب ہو گا کہ ارسطو کے بعد یونان پر اجتہادِ فکر و نظر کے دروازے ایک مدّت کے لیے بند ہو گئے۔ یہ بندش افلاطونس (Plotinus- 204-270 B.C) کے آنے تک مانی جا سکتی ہے۔ ارسطو کے مکتبِ فکر کو مشائیت (Peripatetic School) بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح افلاطونس کے مکتبِ فکر کو اشراقیت یا نوافلاطونیت (Plotinism) کہتے ہیں۔
بات یوں بنی کہ ارسطو سے افلاطونس کے دور تک تین مکاتیبِ فکر کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ تشکیکیت (Skepticism) ، ابیقوریت (Epicureanism) اور رواقیت (Stoicism) ۔ ان تینوں مکاتیبِ فکر میں تمام تر تنوع کے باوجود جمالیاتی نقطۂ نظر کا اشتراک موجود ہے۔
افلاطونس کے نظریۂ جمال کی ابتدا اس کائنات میں عقلِ کل کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے ہوتی ہے۔ افلاطونس کا جمالیات سے متعلق نظریہ اس امر کا حق دار ہے کہ اُس کا مختصراً جائزہ لیا جائے۔
اس نظریے کا آغاز تین روحانی چیزوں سے ہوتا ہے جنھیں بعض عیسائی مفکرین متبرک تثلیث یا اقانیم ثلاثہ (Holy Trinity) بھی کہتے ہیں۔ یہ تین عناصر ہیں۔ الواحد (One) ، نفس (Nous) اور روح (Spirit) ۔
الواحد کا تصور ذرا مبہم سا ہے۔ یہ بہ یک وقت خدائے برتر و اعلیٰ بھی ہے اور ’’الغیر‘‘ بھی۔ یہ عقلِ کُل بھی ہے اور حقیقت و کمال کا منتہا بھی۔ یہ نور و حسن بھی ہے اور اُن کا سرچشمہ بھی۔
نفس سے مراد دل و دماغ کی وہ قوتیں ہیں جن کے مجموعے کو قلب بھی کہتے ہیں۔ دل سے مقصود قوتِ انفعال اور دماغ سے قوتِ تعقل و ادراک ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے ہم یہاں مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
Nous جس کا تلفظ ’’ناؤز‘‘ کیا جاتا ہے، عربی کے ’’نفس‘‘ سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’ناؤز‘‘ تعریب کا جامہ پہن کر ’’نفس‘‘ ہو گیا۔ اسی طرح نوئٹک (Noetic) اور ناطق اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریب سمجھا جا سکتا ہے۔ چناں چہ رینان اور روزی نے نفسِ ناطقہ کو ’’نوئٹک ناؤز‘‘ کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ناطق‘‘ نطق سے نہیں ہے بلکہ ’’نوئٹک‘‘ کی تعریب ہے، جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیشِ نظر رکھے گئے تھے۔ نفس عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا ہے اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی اصل قرار دیا ہے۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفسِ ناطقہ کی ترکیب اختیار کر لی اور یہ تعریب خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی۔ (جلد اوّل، ص۱۵۱) ٭۱۳
روح اگرچہ رُتبے میں نفس سے کم تر ہے، مگر عالمِ موجودات کی خالق یہی ہے۔ یہ عقلِ مطلق کی نوع سے ہے۔ روح کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کی توجہ کا مرکز نفس ہے اور دوسرا وہ جس کی توجہ خارجی دنیا پر ہوتی ہے۔ مؤخر الذکر کا تعلق اُس نشیبی حرکت سے ہوتا ہے جس میں روح اپنا مثیل یا بروز پیدا کرتی ہے اور جسے فطرت یا کائنات کہتے ہیں۔
موضوعی نظریۂ جمال کے چار بڑے مکاتیبِ فکر ہیں۔ پہلے مکتبِ فکر میں رابرٹ وشر (Robert Visher) ، لپس (Lipss) اور والکیٹ (Volket) قابلِ ذکر مفکرین ہیں۔ اُن کے مطابق خارجی اشیا میں نظر آنے والا حسن اُن کا ذاتی وصف نہیں ہوتا، بلکہ مشاہدہ کرنے والے شخص کی ہم دردی اور شوق کے تحت الشعوری جذبات جب کسی شے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں، تو وہ حسین و دل کش نظر آنے لگتی ہے۔ چناں چہ مشاہدہ کرنے والے کا سوزِ دروں ہی حسن کی صورت میں مشہود میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
دوسرا نظریہ اُن مفکرین کا ہے جو مشاہدہ کرنے والے کے جذبات و احساسات کے مکمل اظہار کو حسن سے تعبیر کرتے ہیں۔ بام گارٹن (Baumgarten) اور کروچے (Croce) اس مکتبِ فکر کے نمایاں مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔
تیسرا نقطۂ نظر خالص نفسیاتی ہے اور اس کا بانی سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) ہے۔ اس کے نزدیک حسن کا مبدا جنسی جبلت ہے۔
چوتھے گروہ میں شامل مفکرین بھی پہلے دو مکاتیبِ فکر سے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ حسن کو انسان کے نہاں خانے میں ہی تلاش کرتے ہیں۔
حسن کو موضوعی نقطۂ نظر سے دیکھا یا پرکھا جائے یا جمالیات کی اساس معروضی نقطۂ نظر پر رکھی جائے۔ دونوں نقطۂ ہائے نظر میں ادھورے پن اور نقص کا احساس ہوتا ہے۔ ان دونوں جمالیاتی نظریوں کو ایک دوسرے سے الگ اور بے تعلق کر کے دیکھا جائے تو بات کسی صورت مکمل نہیں ہو پاتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ جمالیاتی تجربے میں معنی، صورت اور احساس یا مواد و ہیئت اس طرح شیر و شکر ہوتے ہیں کہ اُن کی تقسیم ناممکن ہے۔
انسان کی ایک دنیا یہ عالم زمان و مکان ہے اور دوسری اُس کے قلب (قلب = دل +دماغ) کی دنیا ہے۔ وہ نہ تو داخلی دنیا سے باہر نکل سکتا ہے اور نہ خارجی دنیا ہی سے۔ جب یہ دونوں جہاں اُس کے ہیں اور وہ اِن میں رہنے پر مجبور ہے تو پھر اپنے جمالیاتی تقاضوں کی تشفی کے لیے اُسے ان دونوں جہانوں کو حسین بنانا ناگزیر ہے۔ انسان کی یہ سچی آرزو ہے جس کے پورا کرنے میں اُس کی اپنی ذات کی تکمیلِ مسلسل کا راز مضمر ہے۔ انسان کو کمال کی آرزو ہے اور کمالِ متناہیت پر نہیں بلکہ کمالِ نو کے نقطۂ آغاز پر دلالت کرتا ہے۔ زندگی، حسن اور کمال ہمیشہ حالتِ ارتقا میں رہتے ہیں۔ کیوں کہ تینوں کا یہ خاصہ ہے:
کل یوم ہو فی شان O
ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔ (الرحمن۔ ۲۹)
ربنا اتمم لنا نورنا O
اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے (التحریم۔ ۸)
حقیقت محض اپنی مجازیت میں موضوعی اور معروضی ہوتی ہے ورنہ وہ اپنی مطلق حیثیت میں صرف موضوعی ہے اور اُس کی موضوعیت کے ادراک و احساس کا جو ذریعہ ہے وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قلب۔ قلب کے معروضی رُخ کا نام حواس ہے۔ قلب و حواس کے رشتہ و پیوند پر ان شاء اللہ ہم آگے کہیں بات کریں گے۔ قلب انسان کی ایسی موضوعی قوتوں کا سرچشمہ ہے جو اپنی نوعیت میں فعلی اور انفعالی دونوں ہیں۔ انفعالی قوتوں کے مبدا کو دل کہا جاتا ہے۔ فعلی قوتوں کا ماخذ دماغ ہے۔ دماغ بہت سی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ تذکر۔ تفکر۔ تعقل۔ تصور اور تخئیل وغیرہ۔
قوتیں فعلی ہوں یا انفعالی۔ تعلق دونوں اقسام کا بہرحال قلب سے ہی ہے اور قرآن کی جمالیات قلب کی اسی حیثیت پر استوار ہے۔ مگر یہ بات ذرا وضاحت طلب ہے۔
حواشی
٭۱۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں۔ شمس الرحمن فاروقی
٭۲۔ تہذیب اور فنونِ لطیفہ۔ سراج منیر۔ روایت ۲۔ ص۴۴۔ ۴۳
٭۳۔ T.S.Eliot- Selected Essays
٭۴۔ T.S.Eliot - Tradition and the Individual Talent
٭۵۔ سورۂ المائدہ۔ ۳۱۔ ۲۷۔ ترجمہ سیّد ابواالاعلیٰ مودودیؒ
٭۶۔ بوطیقا۔ ارسطو۔ ص۴۲، انجمن ترقی اردو (ہند)
٭۷۔ ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات۔ گوپی چند نارنگ، ۱۰۳
٭۸۔ اسلوب۔ سیّد عابد علی عابد، ص۳
٭۹۔ اسلوب۔ سیّد عابد علی عابد، ص۴
٭۱۰۔ Ludwing Wittgenstein- Lectures and conversations on Aesthetics, Psychology, and Religious Belief - 1966, P-111
٭۱۱۔ آرزوئے حسن۔ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر
٭۱۲۔ E.M. Bartlett- Types of Aesthetic Judgment
٭۱۳۔ W.Proudfoot Begg- The Development of Taste, and other studies in Aethetics
٭ یہ بے ثمر سوچ کہ مجھے کیا ہونا چاہیے تھا،
مجھے سدا کرب میں مبتلا رکھتی ہے۔
ز مستانِ شمال کی بادِ سرد نے
اُجاڑ دیا ہے میرا چمن۔
اور میرا بیٹا کہیں کھو گیا ہے
سرزمینِ مغرب میں۔
(کرسٹینا روزیٹی)
٭ میں گزرتے روز و شب پر
ڈالتا ہوں نظر
اور لاحاصل کا دُکھ بے چین رکھتا ہے مجھے
خار زارِ زندگی میں، خوں چکاں میرا وجود
(شیلے)
٭ Prototype۔ اصل۔ مثالیہ۔ پہلا نمونہ
An original thing or person of which or whose copies, imitations, improved forms, representations, etc. are made.
(Reader's Digest Oxford Wordfinder-1993)
٭ Personification۔ تجسیم۔ تمثیل۔
The act of personifying a person or thing viewed as a striking example of a quality. (Reader's Digest Oxford Wordfinder-1993)
٭ Basic Premise۔ بنیادی دعویٰ۔ بنیادی قضیہ۔
The basic statement or argument from which an inference is made.
٭ Dadaism۔ فن مصوری کا ایک جدید انداز۔ ایک طرزِفکر
Dadaism is a modern art movement founded in Zurich in 1916 which, against the background of disillusionment with world war I, attacked traditional artistic values. The name, which is French for "rocking horse" was chosen at random from dictionary. The founders included poets such as Tristan Tzara (1887-1966) . As well as artists such as Hans Arp (1887-1966) .
٭ Cult of Ugliness۔ مسلکِ قبح۔ بدصورت بھی خوب صورت ہے۔
Cult of Ugliness, Ezra Pound's phrase, powerfully summarizes the ways in which modernists such as Pound, T.S.Eliot, Wyndhan Lewis, and T.E Holme- the self styled "Men of 1914" responded to the "horrid or sordid or disgusting" conditions of modernity by radically changing aesthetic theory and literary practices. Only the representation of "Ugliness", they protested, would produce the new, truly "beautiful" work of art.
٭ Canto۔ رزمیہ مثنوی کی ایک ذیلی تقسیم۔
Cant is a sub-division of an Epic-comparable to a chapter in a novel outstanding examples of its use are to be found in Dante's Divina Commedia, Spenser, Faerie Queene, Pope's The Rape of the Lock and Byron, Childe Harold.
(عربی ادب کی تاریخ، جلد اوّل، ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی، بحوالہ: فی الادب الجاہلی، ڈاکٹر طہٰ حسین)
٭ The science of how things are known via the senses.
٭٭٭
تشکر: غلام ربانی فداؔ، جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید