’’ اردو میں حمد و مناجات‘‘ محترم ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کا ایک ایسا منفرد تحقیقی کارنامہ ہے۔ جس کے سبب آپ کی شخصیت دنیائے اردو ادب میں حمدیہ و مناجاتی شاعری کے اولین، باضابطہ محقق و ناقد کے روپ میں سامنے آئی ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے اپنے اس جائزے میں بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ موصوف کی یہ کوشش یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ (۱) اردو میں حمدیہ شاعری: تاریخ و ارتقا (۲) اردو کی حمدیہ شاعری میں فلسفیانہ رجحان (۳) اردو کی متصوفانہ حمدیہ شاعری (۴) قرآن کا اثر اردو کی حمدیہ شاعری پر (۵) اردو کی مناجاتی شاعری - جیسے ابواب کے توسط سے سید یحییٰ نشیط نے اردو کے قدیم و جدید شعرا کے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے ان میں موجود ادبی و فنی اور دینی و علمی خوبیوں کو تلاش کیا ہے۔ ’’اردو میں حمدیہ شاعری : تاریخ و ارتقا ‘‘ باب میں انھوں نے مذاہبِ عالم میں خدا کے تصور پر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پر خدا کے تصور کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کا تصور بھی موجود ہے۔ روم و یونان، عراق و مصر،ہندوستان اور کالڈیا کے علاوہ عیسائیت اور اسلام میں خدا کے تصور اور خدا کی تعریف و توصیف کی توضیح کے ساتھ موصوف نے اس بات کا بھر پور خیال رکھا ہے کہ اردو میں حمد یہ شاعری کا ارتقا قارئین کی نظروں میں آ جائے۔ ادب میں اس صنف کا تعین کرنے اور سمت و رفتار کا جائزہ لگانے کے لیے موصوف نے عربی و فارسی ادب میں حمدیہ شاعری کا اجمالی جائزہ بھی اس باب میں لیا ہے۔
ڈاکٹر سیدیحییٰ نشیط اس بات کے اظہار میں حق بہ جانب ہیں کہ حمد و مناجات کا وجود اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہو چکا تھا۔ آپ نے اردو میں حمدیہ و مناجاتی شاعری پر متذکرۂ بالا ابواب کے ضمن میں تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے متعدد حمدیہ دواوین، نعتیہ مجموعوں اور دیگر اصناف کی شعری کتب سے اردو کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شاعر کی حمد و مناجات میں صفاتِ خداوندی، تسبیح و تمجید، قرآنی اثرات،فلسفیانہ رجحانات، تصوفانہ رنگ و آہنگ اور خدا کے حضور شعرا کی عاجزی و انکساری وغیرہ کو واضح کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں موصوف جابہ جا قرآنی آیات، احادیث کے حوالے اور تنقیدی تبصرے بڑے ہی معروضی، معتدل اور منطقی طرزِ استدلال کو بروئے کار لا کر بیان کرنے میں کام یاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ۲۶۴؍ صفحات کی اس کتاب میں تیسرے باب ’’اردو کی متصوفانہ شاعری‘‘ کے علاوہ جملہ چاروں ابواب میں حوالوں کی مجموعی تعداد ۳۹۸ ہے، علاوہ ازیں جن کلیات و دواوین سے حمدیہ و مناجاتی اشعار اس کتاب میں درج کیے گئے ہیں ان کی تعداد فاضل مصنف نے ۹۹ شمار کرائی ہیں، تنقید و تاریخ کی ۱۸، اور ۸ رسائل و جرائد کے ساتھ ’’برہان‘‘ دہلی ’’ نعت رنگ ‘‘ کراچی اور ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے مختلف شماروں کو اس کتاب کی تیاری میں بہ طورِ حوالہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کتاب میں حوالوں کی یہ کثرت کتاب کے بلند معیار کا پتا دیتی ہے۔
تاہم ’’ اردو میں حمد و مناجات‘‘ کے مطالعہ کے بعد ہمیں حیرت و استعجاب لازماً ہوتی ہے کہ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط جیسے معتدل روش کے حامل مانے جانے والے محقق نے اپنی اس کتاب میں حسان الہند امام احمد رضا قادری برکاتی، ان کے برادرِ اصغر استاذِ زمن شاگردِ داغ مولانا حسن رضا حسنؔ بریلوی، فرزندِ اکبر علامہ حامد رضا قادری برکاتی بریلوی، فرزندِ اصغر علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور امام احمد رضا کے دیگر شاگردوں اور متبعین نعت گو شعر ا کی حمدیہ و مناجاتی شاعری کو نہ جانے کن امور کی بنا پر جگہ نہیں دی۔ جب کہ ان شعرا نے جہاں نعتِ رسول ﷺ کے خوب صورت گل بوٹے چمنستانِ نعت میں کھلائے ہیں وہیں حمد و مناجات کی ایسی دل کش لہلہاتی فصلِ بہاری بھی اگائی ہے کہ اُس کی سر سبزی و شادابی سے قلب و روح صیقل و مجلا ہونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر نشیط صاحب کے جملہ ابواب سے ہم رشتہ اشعار ان شعرا کے دواوین اور مجموعوں سے یقیناً قارئین اپنی تسکین کا سامان فراہم کرسکتے ہیں۔
علامہ حسن رضا حسنؔ بریلوی کے دیوان ’’ ذوقِ نعت ‘‘ کا دروازۂ سخن جن حمدیہ نظموں سے وا ہوتا ہے وہ بالترتیب ۱۱؍ اور ۳۲؍ اشعار پر محیط ہے، اسی طرح اس دیوان میں شامل ایک مناجات ۵۵؍ اشعار پر پھیلی ہوئی ہے۔ جناب حسن رضا بریلوی نے اپنی حمدیہ نظموں میں خداوندِ قدوس کی تعریف و توصیف، صفاتِ خداوندی، اختیارات و تصرفات کو قرآنی مفہوم سے اخذ کرتے ہوئے اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ ان نظموں کی زیریں رَومیں آپ کا احساسِ ندامت اور عاجزی و درماندگی بھی پنہاں ہے۔ فرمانِ خداوندی ولو ان مافی الارض من شجرۃاقلام و البحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحرما نفدت کلمات اللہ (سورہ لقمان ۲۷) کے مصداق اللہ عزوجل کی حمد و ثنا کا کوئی بھی بندہ حق ادا نہیں کرسکتا اور اس کے مقام و مرتبے کو کوئی بڑے سے بڑا افصح البیان بھی صحیح طور پر بیان نہیں کرسکتا،خدا کی تعریف و توصیف خاک کے پتلے کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی حمدِ باریِ تعالیٰ وہ مقام ہے جہاں عقل و خرد کچھ کام کرسکے ؎
فکر اسفل ہے مری مرتبہ اعلا تیرا
وصف کیا خاک لکھے خاک کا پتلا تیرا
ہے پاک رتبہ فکر سے اس بے نیاز کا
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام امتیاز کا
نحن اقرب الیہ الورید، اللہ شہ رگ سے بھی قریب تر ہے لیکن نگاہوں سے چھپا ہوا ہے، اس مضمونِ قرآنی کا ایک خو بصورت شعر کلامِ حسنؔ رضا بریلوی سے ؎
شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب
کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا
این ماتولوا فثم وجہ اللہ، کی معنویت ؎
طور پر ہی نہیں موقوف اجالا تیرا
کون سے گھر میں نہیں جلوۂ زیبا تیرا
خالص تصوفانہ رنگ و آہنگ میں رچا بسادل کش اظہاریہ ؎
ہر شَے سے ہے عیاں مرے صانع کی صنعتیں
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا
حسن رضا بریلوی کی یہ دونوں حمدیہ نظمیں شعریت اور فنی اعتبار سے بھی بلند معیار کی حامل ہیں۔ ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ۵۵؍ اشعار پر مبنی ایک مناجات تو بڑی ہی پُر اثر اور شاعر کے سوزِ دروں اور عاجزی و انکساری کی غماز ہیں، اس مناجات میں چنداسمائے حسنیٰ کی رعایتِ لفظی سے اپنی التجا کا انداز بھی قابلِ دید اور شاعرانہ فن کاری ہے ساتھ ہی کہیں کہیں قرآنی آیات کی آمیزش کلام میں چار چاند لگا دیتی ہے ؎
لاج رکھ لے گناہ گاروں کی
نام رحمن ہے ترا یارب
عیب میرے نہ کھول محشر میں
نام ستار ہے ترا یارب
بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل
نام غفار ہے ترا یارب
اور نشانِ خاطر کیجیے ان اشعار میں آیتِ کریمہ ادعونی استجب پر یقینِ کامل کا والہانہ انداز ؎
کر کے گستر وہ خوانِ ادعونی
تو نے بندوں کو دی صلا یارب
آستاں پر ترے ترا منگتا
سن کر آیا ہے یہ صدا یارب
نعمتِ استجب سے پائے بھیک
ہاتھ پھیلا ہوا مرا یارب
رب العزت جل شانہ کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے جائے گی اور اللہ اپنے بندوں کے ظن کے قریب ہوتا ہے۔ ان قرآنی مفاہیم کے توسط سے اللہ عزوجل کی رحمت کاملہ و عامہ پر یقین و اعتماد کی پختگی اور اپنے دردِ دل کی دوا کا شعری اظہاریہ کلامِ حسن بریلوی سے خاطر نشین ہو ؎
سبقت رحمتی علیٰ غضبی
تو نے جب سے سنادیا یارب
آسرا ہم گناہ گاروں کا
اور مضبوط ہو گیا یارب
ہے انا عند ظن عبدی بی
میرے ہر درد کی دوا یارب
یہ اور اس قبیل کے مزید اشعار علامہ حسن رضا بریلوی کی حمدو مناجات میں مل سکتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ’’ اردو میں حمد و مناجات ‘‘جیسے تحقیقی مقالے میں کلامِ حسن رضا بریلوی جگہ نہ پا سکا۔
اسی طرح امام احمد رضا بریلوی کہ جن کا نام اردو نعت گوئی میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے، موصوف کے مجموعۂ کلام ’’ حدائقِ بخشش‘‘ میں بھی حمد و مناجات اپنی پوری انفرادی شان سے جلوہ گر ہیں لیکن ’’اردو میں حمد و مناجات‘‘ کتاب میں سید یحییٰ نشیط نے ان نظموں کا بھی کہیں کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔
اللہ عزوجل کی کسی تخلیق کی اس طرح خوبی بیان کرنا کہ اس میں اللہ کے لیے متشکرانہ اسلوب اختیار کیا جائے تو یہ بھی خداوندِ قدوس ہی کی حمد کہلائے گی جیسے یہ شعر ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
بھی حمد ہی ہے کہ اس میں شاعر نے انسانوں کے کام آنے والی خالقِ کائنات کی ایک مخلوق گائے بنانے پر اس کا شکر ادا کیا ہے۔ امام احمد رضا نے حمدِ باریِ تعالیٰ کا جو اسلوب اپنایا وہ آپ کے تخیلی تحت الشعور میں نقشِ اولیں کی طرح محجر جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ شریفہ کے آستانۂ مبارک اور آپ کی جود و سخا کے جلو میں ربِ کائنات کی حمد کا گن گان ہے، کہتے ہیں ؎
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا
ہوسکتا ہے ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کو یہ انداز نہ بھایا ہواسی لیے امام احمد رضا کی اس منفرد حمد نگاری کا ذکر انھوں نے نہ کیا اسی طرح امام احمد رضا کے موئے قلم سے نکلی ہوئی شاہ کار مناجات ؎
یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہ مشکل کشا کا ساتھ ہو
یا الٰہی گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کے پیارے منہ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کاساتھ ہو
کو ایسی شہرتِ دوام اور مقبولیت عام حاصل ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں جہاں جہاں اردو داں طبقہ موجود ہے وہاں کی مساجد و مدارس میں جمعہ و عیدین اور سیرت و میلاد خوانی کی مجالس کے اختتام پر اس مناجات کو بڑے ہی رقت آمیز انداز میں اہلِ محبت پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اس مناجاتِ رضا ؔ کا خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں حضرتِ رضا بریلوی نے قرآنی فرمان یاایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلہ کو مد نظر رکھ کر رب العزت جل شانہٗ کی بارگاہِ عزت نشان میں اُس عظیم ذات کا وسیلہ پیش کیا ہے جو باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں اور جن کے وجودِ مسعود کے لیے رب نے فرمایا کہ :’’ اگر آپ کو پیدا کرنا مقصد نہ ہوتا تو مَیں اپنی ربوبیت ظاہر نہ کرتا۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ محترم یحییٰ نشیط صاحب کو امام احمد رضا کی یہ خوش عقیدگی سے معمور مناجاتی اسلوب بھلا نہ لگا ہو اور وہ اس طرزِ اظہار کو ’’آدابِ دعا‘‘ کے منافی تصور کرتے ہوں۔ اس لیے اپنی معرکہ آرا کتاب کو اس مناجات کے ذکرِ خیر سے خالی رکھا۔جیسا کہ موصوف کے نزدیک اقبال کی ’’بانگِ درا ‘‘ میں شامل چند مناجات اقبال کی متلون مزاجی کی غماز اور آدابِ دعا کے منافی لگتی ہیں، موصوف لکھتے ہیں :
’’ بانگِ درا ‘‘ میں اقبال کا مناجاتی اسلوب بڑا ہی متلون دکھائی دیتا ہے۔ کبھی تو وہ مناجات میں شکایات کے دفتر کھول دیتے ہیں اور آہ و زاری کی جگہ زور و شکوہ سے کام لیتے ہیں کبھی اولیائے عظام کے آستانے پر کھڑے ہو کر ان سے ہی التجا کرتے ہیں، کبھی حضور رسالت مآب ﷺ میں اپنا دکھڑا سناتے ہیں۔ دعاؤں میں اقبال کی یہ متلون مزاجی ’’آدابِ دعا ‘‘ کے منافی ہے۔ ‘‘ ( ص ۲۳۵)
محولہ بالا اظہارِ خیال میں یہ جملہ ’’ کبھی تو وہ مناجات میں شکایات کے دفتر کھول دیتے ہیں اور آہ و زاری کی جگہ زور و شکوہ سے کام لیتے ہیں۔‘‘ تو ایک حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے یہاں یہ انداز ملتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے کہ و ہ ’’کبھی اولیائے عظام کے آستانے پر کھڑے ہو کر ان سے ہی التجا کرتے ہیں، کبھی حضور رسالت مآب ﷺ میں اپنا دکھڑا سناتے ہیں۔ دعاؤں میں اقبال کی یہ متلون مزاجی ’’آدابِ دعا ‘‘ کے منافی ہے۔ ‘‘ دراصل جسے یحییٰ نشیط صاحب متلون مزاجی کہہ رہے ہیں وہ اقبال کی خوش عقیدگی ہے۔
اولیائے کرام سے استمداد و توسل اور ان کے آستانوں پر جا کر التجا کرنا یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے اس میں علمائے دیوبند و بریلی کے درمیان نزاع ہے۔ لیکن جہاں تک بارگاہِ رسول ﷺ میں اپنا دکھڑاسنانے کی بات ہے تو اس صف میں تنہا اقبال ہی نظر نہیں آتے بل کہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم، اولیا و صوفیہ رحمہم اللہ اور اکابرِ امت کے شانہ بہ شانہ بعض علمائے دیوبند بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے حضرات جن میں حضرت مالک بن النمط، حضرت مالک بن عوف، حضرت امام زین العابدین، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شرف الدین بوصیری، حضرت امام ابن حجر عسقلانی، عبدالمقتدر تھانیسری، حضرت مولانا جلال الدین رومی، حضرت سعدی شیرازی، حضرت عبدالرحمان جامی،حضرت جان محمد قدسی، حضرت مولانا امداد اللہ مہاجر مکی، مولوی قاسم نانوتوی، مولوی اشرف علی تھانوی، الطاف حسین حالی وغیرہ شخصیات کے کلام بہ طورِ مثال ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں ؎
ذکرت رسول اللہ فی مخمۃ الدجیٰ
ونحن با علیٰ رحرحان وصلدد
اعطی اذا ماطالب العرف جاء ہ
وامضیٰ بحد المشرق فی المہند
(حضرت مالک بن النمط)
(۱) ہم نے رسول اللہ ﷺ کو سخت تاریک رات میں یاد کیا۔ جب کہ ہم کشادہ بلندیوں پر پھنسے تھے۔
(۲) جو بخشش حضور کے پاس آئی اس کو جب طالب نے مانگا دے دی گئی اور اس کو مشرقی مہندی کی حد سے گذار دیا۔( المدیح النبوی: یٰٓس اختر اعظمی، ص ۴۴)
ماان رایت ولا سمعت بمثلہ
فی النا س من کلہم بمثل محمد
اوفی واعطی للجزیل اذا اجتدی
ومتی تشاء یخبرک عما فی غد
(حضرت مالک بن عوف رضی اللہ عنہ)
(۱) تمام لوگوں میں محمد ﷺ جیسا نہ دیکھا نہ ہی سنا۔
(۲) جب حاجت مند نے مختصر کا سوال کیا تو پورا بھر دیا اور تم جب چاہو کل کی خبر دیں گے۔ ( المدیح النبوی: یٰٓس اختر اعظمی، ص ۴۸)
یا رحمۃ للعالمین ادرک لزین العابدین
محبوس اید الظالمین فی المرکب والمزدہم
(حضرت امام زین العابدین)
اے رحمۃ للعالمین!زین العابدین کی دستگیری فرمائیے، جو بھیڑ اور ازدحام میں ظالموں کے ہاتھوں گھرا ہوا ہے۔ (تذکرۂ مشائخِ قادریہ، ص ۱۲۴)
یا سید السادات جئتک قاصداً
ارجوا رضاک واحتمی بحماک
یارسول یا خیرالخلائق ان لی
قلبا مشوقا لایروم سواک
(حضرت امام اعظم ابوحنیفہ )
(۱) یارسول اللہ غلام حاضرِ دربار ہے، آپ کی خوش نودی اور حفظ و اماں درکار ہے۔
(۲) میرے پہلو میں اے خیرالخلائق ایسا دل ہے، جو آپ کا شیدا اور غیر سے بے زار ہے۔ (الخیرات الحسان ترجمہ جواہر البیان، شیخ شہاب الدین احمد بن حجر مکی ص ۱۹۴)
یااکرم الخلق مالی من الوذوبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
ولن یضیق رسول اللہ جاہک بی
اذالکریم تجلی باسم منتقم
(حضرت شرف الدین بوصیری)
(۱)اے بہترین کریمِ عالم ! آپ کے سوا میرے لیے کوئی جگہ نہیں جہاں پناہ لوں مصیبتوں کے عام نزول کے وقت۔
(۲)حضور کی عظمت و شان کی پناہ میرے لیے تنگ نہ ہو گی، بروزِ قیامت منتقمِ حقیقی کے نام سے اپنی شان ظاہر فرمائیں گے۔
نبی اللہ یا خیر البرایا
بجاہک اتقی فصل القضاء
وارجوا یاکریم العفو عما
جنۃ یدای یارب الحیاء
(حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی)
(۱) اے رسولِ خدا، اے سب سے برگزیدہ انسان، آپ کے طفیل اللہ سے حشر کے دن رسوائی سے پناہ مانگتا ہوں۔
(۲) اے بہترین معاف کرنے والے، امیدوار ہوں کہ میرے کرتوت کو آپ نظر انداز کر دیں گے، اے شرم و حیا کے مالک۔( المدیح النبوی: یٰٓس اختر اعظمی، ص ۱۰۲)
خل الا حادیث عن لیلیٰ وجارتہا
وارحل الی السید المختار من ادد
ولیس فی الدین والدنیا واٰخرتی
سوی جناب رسول اللہ معتمدی
(عبدالمقتدر تھانیسری)
(۱) لیلیٰ اور لیلیٰ کی پڑوسیوں کی بات چھوڑو اور سیدِ مختار کے حضور چلو جو خاندانِ ادد سے ہیں۔
(۲) دین و دنیا اور آخرت میں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ (نعتیہ شاعری کا ارتقا، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزادؔ فتح پوری، ص۲۱۲)
اے دارے دردِ دل وے حلِّ ہمہ مشکل
وے فاضل و اے عاقل از مات سلام اللہ
اے آدمِ مشتاقاں وے عیسیِ غم ناکاں
وے مہدیِ ہر پاکاں ازمات سلام اللہ
(مولانا جلال الدین رومی، نقوش رسول نمبر ج ۱۰، ص ۳۱۷)
یا شفیع المذنبیں بارِ گناہ آوردہ ام
بردرت ایں بار پشت دو تا آوردہ ام
چشمِ رحمت بکشا موے سفید منگر
گرچہ از شرمندگی روے سیاہ آوردہ ام
(مولانا عبدالرحمن جامی،ماہ نامہ آستانہ، دہلی، جنوری ۱۹۸۲ء ص ۴)
چشمِ رحمت بکشا سے من انداز نظر
اے قریشی لقبی ہاشمی و مطلبی
(جان محمد قدسی،نعتیہ شاعری کا ارتقا، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزادؔ فتح پوری، ص۳۵۱)
کر کے نثار تم پر گھر بار یارسول
اب آپڑا ہوں آپ کے دربار یارسول
دونوں جہاں میں مجھ کو وسیلہ ہے آپ کا
کیا غم ہے گرچہ میں ہوں بہت خوار یارسول
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،نقوش :رسول نمبرج۱۰ص۶۵۴)
اگر جواب دیا بے کسوں کو تو نے بھی
تو کوئی اتنا نہیں جو کرے کچھ استفسار
مدد کر اے کرمِ احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسمِ بے کس کا کوئی حامیِ کار
( مولوی قاسم نانوتوی، قصائدِ قاسمی ص ۸۰)
مولوی اشرف علی تھانوی نے نشر الطیب ص ۴۱ ۲پر ایک عربی نعت قلم بند کر کے توسل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
یا شفیع المذنبیں خذبیدی
انت فی الاضطرار معتمدی
یا رسول اللہ بابک لی
من غمام الغموم ملتحدی
(۱) اے لوگوں کے شفیع میری دست گیری کیجیے، کشمکش میں تمہیں میرے معتمد ہو۔
(۲) یارسول اللہ مَیں ہوں اور آپ کا دروازہ، مجھ کو اب غم کے بادل نہ گھیریں۔
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
(حالیؔ)
متذکرۂ بالا حضرات نے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اپنا دردِ دل پیش کرتے ہوئے استغاثہ وفریاد طلب کی ہے۔ ان حضرات کا مناجاتی اسلوب بھی شاید نشیط صاحب کو آدابِ دعا کے منافی لگے۔ لیکن اہلِ عقیدت و محبت کو تو یہ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاء ُک فاستغفرو اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوااللہ توابا رحیما کے قرآنی حکم کا پرتو اور مظہر نظر آتا ہے۔
علامہ حسن رضا بریلوی اور امام احمد رضا بریلوی کی طرح حمد و مناجات اور نعت و سلام کی فضائے بسیط میں جو بادِ بہاری علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی (فرزندِ رضا ؔ بریلوی) کے مشک بار قلم نے چلائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اپنے وقت کے عارف باللہ اور صوفیِ با صفا بزرگ تھے، ذکرِ الٰہی، محبتِ الٰہی، خشیتِ الٰہی اور فنائیتِ الٰہی میں آپ مقامِ بلند پر فائز تھے۔ آپ کو علما و فقہا اور صوفیہ و مشائخ کی ایک بڑی تعداد نے ’’ قطبِ زمانہ ‘‘ اور ’’ غوثِ وقت‘‘ تسلیم کیا ہے اس لحاظ سے آپ کے حمدیہ و مناجاتی کلام کی زیریں لہروں میں جو تصوفانہ رنگ و آہنگ، اللہ عزوجل کی ذات و صفات کے اثرات اور قرآنی آیات کی آمیزش ہے وہ بڑا ہی دل پذیر ہے۔ ’’اردو میں حمد و مناجات ‘‘ کے جملہ ابواب پڑھتے وقت جگہ جگہ راقم کو اس بات کی تشنگی محسوس ہوتی رہی کہ یہاں حضرت نوریؔ بریلوی کی ان حمدیہ نظموں کی تمثیلات کو فاضل محقق پیش کر سکتے تھے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش ‘‘کی دو ابتدائی حمدیہ نظمیں اذکارِ توحید باری اور قرآنی اثرات سے اس قدر آراستہ و مزین ہیں کہ پڑھنے کے بعد دیدہ و دل روشن و تاب ناک ہو جاتے ہیں۔ حمدِ باریِ تعالیٰ، مدحتِ رسول ﷺ، مناجات، اذکارِ توحید، اسما و صفات، عقائدِ توحید اور تصوفانہ خیالات سے مملو یہ نظمیں بالترتیب ۲۰؍ بندوں اور ۹۹؍ بندوں پر مشتمل ہیں اور یہ دل کش نظمیں خوش آہنگی و ترنم ریزی، غنائیت اور نغمگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ منظر کشی کاحسن اور تصویریت کا جمال ہر جگہ نمایاں ہے۔ لفظ لفظ میں اذکارِ توحید، اسماو صفات کی جلوہ گری ہے اور حرف حرف میں توحید ِ باری تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور تصوفانہ مضامین کا کیف آگیں بیان ہے۔ مذکورہ حمدیہ نظموں کے تقریباً ہر بند میں قرآنی آیات کے گہرے اثرات مرتسم ہیں۔ اگر ان نظموں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مضمون طویل شکل اختیار کر جائے، اختصار کے پیشِ نظر سرسری جائزہ خاطر نشیں ہو۔
ایک صوفیِ با صفا اور عارفِ باللہ کے نزدیک خدائے وحدہٗ لاشریک کے علاوہ دنیا کی ساری اشیا معدوم ہیں، اور موجودِ حقیقی صرف اور صرف ذاتِ باریِ تعالیٰ ہے، جسے اصطلاحِ تصوف میں ’’ فلسفۂ وحدۃ الوجود ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے والدِ گرامی امام احمد رضا کی طرح حضرت علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی بھی اسی نظریے کی قائل ہیں جیسا کہ آپ نے اپنی حمدیہ نظم کے مختلف بندوں میں اس کا اظہار کیا ہے ؎
لا موجود الا اللہ
لا مشہود الا اللہ
لا مقصود الا اللہ
لا معبود الا اللہ
صوفیہ کا یہ مسلک بھی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں، سب اسی خدائے واحد کے مظاہر اور پرتو ہیں، نوریؔ بریلوی کی حمدیہ نظم میں یہ تصوفانہ خیال اس طرح جلوہ گر ہوا ہے ؎
تیرا جلوہ ہے ہر سو
تو ہی تو ہے تو ہی تو
عالم میں ہر طرف اسی ربِ ذوالجلال والاکرام کا جلوہ نہاں ہے نور و نظر میں اسی کی جلوہ نمائی ہے۔ چاند، سورج، ستارے ابر، کوہ سار اور موتی سب میں اسی کا پرتو جھل مل جھل مل کر رہا ہے۔ شعلہ و شرر میں بھی وہی ہے۔ شجر، تخم، شاخ، ثمر، خشک و تر، سو ز وساز، ناز و انداز، معشوق کے حسن اور عاشق کے عشق سب میں اسی کا نور جھلکتا ہے۔ جز و کل، رنگ و بوئے گل اور بلبل کی فغاں اور قلقل کی نغمہ سنجی میں بھی وہی ہے۔ قرآنی آیت این ما تولو فثم وجہ اللہ۔ کی تصریح دیکھیے ؎
نور میں وہ ہے نظر میں وہ
شمس میں وہ ہے قمر میں وہ
ابر میں وہ ہے گہر میں وہ
کوہ میں وہ ہے حجر میں وہ
پروانہ میں پر میں وہ
شمع میں وہ ہے شرر میں وہ
داء و دوا و اثر میں وہ
نفع میں وہ ہے ضرر میں وہ
تخم میں وہ ہے شجر میں وہ
شاخ میں وہ ہے ثمر میں وہ
ماہ میں وہ ہے بدر میں وہ
بحر میں وہ ہے بَر میں وہ
سوز میں وہ ہے ساز میں وہ
ناز میں وہ انداز میں وہ
حسنِ بت طناز میں وہ
عشق کے راز و نیاز میں وہ
جز میں وہ ہے کل میں وہ
رنگ و بوئے گل میں وہ
افغانِ بلبل میں وہ
نغماتِ قلقل میں وہ
بے شک خداوند ِ قدوس کی ذات یکہ و تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔نہ ذات میں نہ صفات میں۔ نہ افعال میں۔ نہ احکام میں۔ اور نہ اسمامیں۔ وہی ہمارا معبودِ برحق ہے۔ اس کے علاوہ کو ئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں۔ صرف اور صرف وہی پرستش کے قابل ہے۔ اس کی بارگاہِ جلالت مآب کے سوا کسی اور کی بارگاہ میں سرِخم ہو ناروا نہیں۔ ہر ایک کی وہی سنتا ہے۔ ہر سانس ہر دھڑکن اس کی دستِ نگر ہے۔ عالم کی ہر شَے اس کی محتاجِ کرم ہے۔ جب کہ اسے کسی کی احتیاج نہیں وہ بے ہمتا ہے۔ ’’وحدانیت ‘‘ کی یہ تمام باتیں قرآنِ حکیم ہی سے ماخوذ ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی فرماتے ہیں ؎
اﷲ واحد و یکتا ہے
ایک خدا بس تنہا ہے
کوئی نہ اس کا ہمتا ہے
ایک ہی سب کی سنتا ہے
خداوندِ قدوس کی ذات وحدہ لاشریک ہے وہ ہر طرح کی حرکت، سکون، صورت اور اجسام سے پا ک و منزہ ہے۔ اس کے ہر فعل میں حکمتِ بے بہا پوشیدہ ہے۔ وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر، وہی ہر چاہے پر قادر ہے۔ اس قرآنی عقیدے کے جلوے نوری بریلوی کی حمدیہ نظم کے بند میں ملاحظہ کیجیے ؎
وہ ہے منزہ شرکت سے
پاک سکون و حرکت سے
کام ہے اس کے حکمت سے
کرتا ہے سب قدرت سے
علمائے اسلام نے جس قدر بھی توحیدِ باری تعالیٰ جل شانہ کی تعریفیں پیش کی ہیں اور عقیدۂ توحید کا بیان کیا ہے وہ تمام بیانات و ارشادات اور اقوال سورۃاخلاص کا خلاصہ و نچوڑ ہیں یا اس کی تشریح و تفسیر ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی چوں کہ علومِ اسلامیہ کے افق کے ایک روشن و تابندہ ستارہ ہیں۔علمِ قرآن وتفسیرِ قرآن پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اور عقیدۂ توحید کی عظمت و جلالت آپ کے قلب و ذہن پر ثبت تھی۔ سورۃ اخلاص کو اپنے ایک بند میں بیان کرتے ہوئے آپ اﷲ رب العزت کے آٹھ اسمائے صفات کو اس حسن و خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور توحید ِ باری کی اس مشک باری سے مشامِ جان و ایمان معطر و معنبر ہو جاتی ہے فرماتے ہیں ؎
اﷲ الٰہ و ربُّ واحد
فرد و واحد و تر و صمد
جس کا والد ہے نہ ولد
ذات و صفات میں بے حد و عد
قرآنِ پاک کی تعلیم ہے کہ صحیح راستے کی ہدایت دینے والا خدائے قادر و قیوم ہی ہے۔ اور وہی حق ہے۔ نوریؔ بریلوی اُس ’’ہادیِ برحق‘‘ وحدہٗ لاشریک کی اس خوبی پر باطل پرستوں کے چہرے کے متغیر ہوتے رنگ اور وحدانیت کی باتوں سے ان کے دلوں کے پھٹنے اور ایک سچے مومن و موحد کے دل میں نوری شعاعوں کے ابھرنے کو شاعرانہ فن کاری سے یوں بیان کیا ہے ؎
انت الہادی انت الحق
رنگِ باطل اس سے فق
قلبِ مبطل سن کر فق
قلبِ مسلم کی رونق
قرآن کریم میں ہے لیس کمثلہٖ شیئُ ُ یعنی ذاتِ باری تعالیٰ کی کوئی مثل نہیں، اور لم یکن لہ کفواً احد اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں، حضرت مفتیِ اعظم علامہ نوریؔ بریلوی کا بند دیکھیں ؎
لیس کمثلہٖ شیئُُ ُ
لیس لہ کفواً احد
اس سے بن ہے وہ نہیں بن
ابصر اسمع دیکھ اور سن
سورۃ ناس اور سورۃ فلق سے اس طرح استعارہ سازی کی ہے ؎
حق ہو حق ہو حق ہو حق
ربِّ ناس و ربِ فلق
غیر نہیں تیرا مطلق
بھولوں گا میں نہ یہ سبق
خدائے واحد کی طرح کوئی دوسرا نہیں۔ اسی سے یہ کائنات قائم ہے۔ سب کچھ اسی کی ملکیت ہے۔ وہ زمان و مکان سے پاک ہے۔ لیکن نزدیک اتنا کہ رگِ جاں سے قریب ہے نحن اقرب الیہ الورید۔ وہ ایسا سمیع و بصیر ہے کہ ہر عیاں کو دیکھتا ہے۔ جسم و جسمانیات سے منزہ ہے لیکن وہ پست سے پست آواز مسموع کر لیتا ہے، مہین سے مہین کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس کی ذات و صفات ایسی ہے کہ وہ احا طۂ بیا ن سے ما ورا اور ورا ء الورا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اس امر کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎
ساجھی اس کا نہ کوئی شریک
وہی مَلَک ہے وہی مَلیک
پاک مکاں سے اور نزدیک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھے سُنے پست و باریک
روح نہیں ہے اور نہ وہ جسیم
مُقسم ہے نہ وہ قِسم و قسیم
اس کے صفات و اسم قدیم
یہ ہے اپنا دینِ قویم
کائنات کا خالق و مالک وہی ہے۔ دنیا جہان کی تمام اشیا اسی نے خلق فرمائی ہے۔ درخت اور سبزہ اگانے والا وہی ہے۔ باغِ عالم کو اسی نے کھلایا ہے۔ یَانتم تزرعون نحن الزارعون۔ مردہ اور بنجر زمینوں کو زندگی اور سرسبزی و شادابی بھی وہی دیتا ہے۔ فاحیا بہ الارض بعد موتہا۔نوریؔ بریلوی نے کس حسنِ ادا اور صداقت و سچائی سے رب العزت جل شانہٗ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے ان امور کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے ؎
بُن کو بنایا ہے اس نے
بُن کو جما یا ہے اس نے
بن کا اگایا ہے اس نے
باغ کھلایا ہے اس نے
وہ ہے مقیت و معز و مذل
وہ ہے حفیظ و نصیر اے دل
باد و آتش و آب و گِل
سب کا وہ ہی ہے فاعل
مادے اس نے پیدا کیے
اس کے امرِ کن سے بنے
دور و تسلسل کے جھگڑے
امرِ حق سے قطع ہوئے
علاوہ ازیں وحدانیت کے قرآنی مفاہیم : کان اللہ بکل شیئٍ محیطا۔… وما کان معہ من الٰہ اذا لذہب کل الٰہ بما خلق ولعلا بعضہم بعض۔… لا تاخذہٗ سنۃ الیوم۔ لم یلد ولم یولد۔… کل یومٍ ہو فی شان۔… من اصدق منہ قیلا۔… من اصدق منہ حدیثا۔ کی خوب صورت پرچھائیاں کلامِ نوریؔ میں جس خوش اسلوبی سے ابھرتی ہیں وہ آئینہ قلب و روح کی تطہیر کا ساماں پیدا کرتی ہیں۔ ملاحظہ ہو گراں قدر شہ پارے ؎
وہ ہے محیطِ انس و جاں
وہ ہے محیطِ جسم و جاں
وہ ہے محیطِ کل از ماں
وہ ہے محیطِ کون و مکاں
ایک نہ ہوتا گر اللہ
کیسے رہتے ارض و سما
ہوتا نہ اک محتاج اک کا
کس لیے یہ اس سے ملتا
سوتا پیتا کھاتا نہیں
اس کا رشتہ ناتا نہیں
اس کے پِتا اور ماتا نہیں
اس کو جورو جاتا نہیں
نت نئے جلوے ہیں ہر آں
کل یومٍ ہو فی شاں
خود ہی درد و خود درماں
خود ہی دست و خود داماں
من اصدق منہ قیلا
من اصدق منہ حدیثا
کیسا کیسا رب نے کہا
منکر ایک نہیں سنتا
جیسا کہ راقم نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ نوریؔ بریلوی کی اس شاہ کار حمدیہ نظم کے تقریباً ہر بند میں قرآنی آیات کے گہرے اثرات مرتسم ہیں۔جاننا چاہیے کہ یہ اور اس طرح کی اور بھی درجنوں مثالوں سے اس مضمون کو سجایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ان مضامینِ قرآنیہ کے حضرت نوریؔ بریلوی نے اپنی اس حمدیہ نظم میں اﷲ رب العزت کے اسمائے حسنیٰ کے گوہر ہائے آبدار سے ایسا خوش نما ہار تیار کیا ہے جو ہمیں کیف اندوز کرتا ہے۔ فرماتے ہیں ؎
منعم و حق و سمیع و بصیر
باقی باری برّ و خبیر
جامع مانع منار و کبیر
رافع نافع حیّ و قدیر
حَکَم و عدل و علی و عظیم
دیّان و رحمن و رحیم
قدوس و حنّان و علیم
فتّاح و منّان و کریم
والی ولیّ و متعالی حکیم
وہّاب و رزّاق و علیم
مالکِ یومِ دین و جحیم
مالکِ مُلک و خلد و نعیم
وہ ہے عزیز و مجیب و شکور
وہ ہے بدیع و قریب و صبور
وہ ہے متین و حبیب و غفور
وہ ہے معین و رقیب ضرور
وہ ہے مقدِّم اور غفار
وہ ہے مہیمن اور جبار
وہ ہے مؤخر اور قہّار
وہ ہے باسط اور ستّار
نور مصوّر اور ظاہر
باطن اول اور آخر
واجد ماجد اور قادر
مومن متکبّر و قاہر
توّاب و مغنی ہادی
مقسط محیی ممیت و غنی
منتقم و قیوّم و قوی
مقتدر و واسع مُہی
مبدی جلیل و حفیظ و مجید
معطی و وکیل و سلام و معید
وہ ہے لطیف و ودود وحید
اور شہیدُ وحید و رشید
وہ ہے جوّاد و عفوُ عطوف
ازلی ابدی ہے معروف
یصرف عنا جمیع صروف
مولی الکل وہو رؤف
اس مقام پر پہنچ کر مَیں ایک بار پھر یہ کہنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے آخر کن وجوہات کی بنا پر’’ اردو میں حمد و مناجات ‘‘جیسی اپنی معرکہ آرا تصنیف میں اتنی خوب صورت، قرآنی اثرات سے مملو، تصوفانہ رنگ و آہنگ میں رچی بسی حضرت رضا بریلوی، حضرت حسن رضا بریلوی اور حضرت نوریؔ بریلوی کی حمدیہ شاعری سے روگردانی برتی ہے ؟ ویسے محترم ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ جو بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اس پر مبارک باد پیش کرنا میرا دینی و ملی اور علمی و ادبی فریضہ،لہٰذا موصوف کے لیے ہدیۂ تبریک کے ساتھ قلم روکتا ہوں ؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید