01:42    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1293 1 0 00

ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

علامہ قمر الزماں اعظمی کی نعت گوئی

مفکرِ اسلام علامہ قمر الزماں خاں اعظمی دام ظلہ العالی دنیائے اسلام کے فعال اور متحرک مبلغ و داعی ہیں۔ جنہیں اپنے کردار و عمل، علم و یقین، تدبر و تفکر، تقویٰ و طہارت، سادگی و متانت، تواضع و انکساری، بصیرت و بصارت، حسنِ گفتار اور دل کش و دل آویز طرزِ خطابت کے سبب پوری دنیا میں ہر دل عزیز اور مقبول و محبوب ہستیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔  آپ کی علمی، تبلیغی، اصلاحی خدمات اور ادبی قدر و منزلت سے انکار ممکن نہیں۔ موصوف نے برطانیہ کی سرزمین پر اسلامی تعلیمات کو جس مستحکم انداز میں روشناس کرانے کی سعیِ بلیغ فرمائی ہے اور جس خوب صورتی سے تبلیغِ دین کا کام انجام دے رہے ہیں وہ ہر اعتبار سے لائقِ ستایش اور قابلِ تقلید ہے۔ 

       علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کا تعلق ہندوستان کے تاریخی شہر اعظم گڑھ سے ہے ؛ جو علمی و ادبی اعتبار سے بڑا زرخیز ہے یہاں کی مٹی میں یہ خصوصیات رچی بسی ہیں کہ ہر زمانے میں اس دھرتی میں دین و ملت کی قابلِ احترام شخصیات نے جنم لیا ہے۔ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب قبلہ ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ خالص پور میں ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئے۔  و الدین نے مکمل اسلامی طرز پر تربیت کا فریضۂ خیر انجام دیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اعلا تعلیم جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں حاصل کی۔ جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کی فیض بخش آغوشِ تربیت میں رہ کر علومِ دینیہ کی تکمیل کی۔ شہزادۂ اعلا حضرت حضور مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ اور فیضانِ عزیزی و نوری کے زیرِ سایا آپ نے اپنا رہِ وارِ فکر تبلیغِ دین، تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کی طرف موڑا؛ اپنے مواعظِ حسنہ اور ملفوظاتِ عظیمہ کے ذریعہ پوری دنیا میں آپ بے پناہ مقبول ہیں۔ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کی ذات گوناگوں خصوصیات کا عطر مجموعہ ہے۔  آپ صاحبِ قلم بھی ہیں اور شعلہ بیان مقرر بھی۔ مفکر و مدبر بھی اور بافیض معلم و ادیب بھی۔ ساتھ ہی ساتھ بلند پایہ شاعر بھی……

       آپ کی شاعری کا مجموعہ ’’خیابانِ مدحت‘‘ کے نام سے مکتبۂ طیبہ، سنی دعوتِ اسلامی ممبئی کے زیراہتمام ۲۰۰۷ء میں طبع ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہو چکا ہے۔  اس مجموعۂ کلام میں حمد و مناجات، نعت و سلام اور مناقب و منظومات شامل ہیں۔ ۱۰۴؍ صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ کلام علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کی وارداتِ قلبی کا اظہاریہ ہے۔  اس میں شامل کلام میں شعر کی تینوں خصوصیات سادگی، اصلیت اور جوش بہ درجۂ اتم موجود ہیں۔ جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ شاعرِ محترم کی فکر و نظر میں وسعت اور بانکپن ہے،  اور یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار و بیان کے لیے اپنی شاعری کو محض عقیدت و محبت کا آئینہ دار نہیں بنا یا ہے بل کہ آپ کے کلام میں شعری و فنی محاسن کی تہہ داریت ہے جو کہ بڑی پُر کشش اور دل آویز ہے۔ آپ کے شعروں میں داخلیت کا حسن اور خارجیت کا پھیلا و دونوں موجود ہے۔  لفظیات میں تنوع اور بلا کی گہرائی و گیرائی ہے،  آپ کا سلیقۂ بیان عمدہ اور دل نشین ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔  عقیدت و محبت کے ساتھ شعریت اور فنی محاسن کی سطح پر بھی آپ کے کلام میں ایک سچی اور باکمال شاعری کی جو خوب صورت پرچھائیاں ابھرتی ہیں وہ متاثر کن اور بصیرت نواز ہیں۔ ’’خیابانِ مدحت‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں   ؎

 

میں اڑ کے آؤں طوافِ حرمِ ناز کروں

بہ نامِ اذن ملیں مجھ کو با ل و پر آقا

 

تمہارے حسن کی خیرات مل گئی ورنہ

وجودِ ذرّہ کہاں اور آفتاب کہاں

 

قدم رنجہ جو فرمائیں تو گلشن میں بہار آئے

اگائے ہیں شجر امید کے مژگاں کی شبنم

 

تمہارے در سے نہ ملتی یقین کی دولت

گماں کے دشت میں پھرتا میں بے خبر تنہا

 

عروجِ آدمیت جن کی تعلیمات کا حاصل

ہے وجہِ افتخارِ دائمی اس در کی دربانی

 

       یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ عشقِ رسول  ﷺ ایمان کی شرطِ اولین بل کہ جانِ ایمان ہے ؛ اور نعت گوئی اسی عشق کا اظہاریہ ہے اور یہ اظہاریہ جتنا زیادہ پُر خلوص اور والہیت سے پُر ہو گا اتنا ہی اثر پذیر اور متاثر کن ہو گا۔ لیکن یہ بھی شرط ہے کہ نعت گوئی میں عشق رسول  ﷺ کے اظہار و ابلاغ کے لیے صداقت و سچائی اور حزم و احتیاط کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹنے دیا جائے۔  من گھڑت اور موضوع روایتوں، بے باکانہ اندازِ بیان، غیر محتاط رویوں اور خیالات کی بے راہ روی کا اس میں ذرا بھی دخل ہو گیا تو یہ شاعر کے لیے باعثِ نقصان ہے۔  ’’خیابانِ مدحت‘‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کے یہاں نعت گوئی کی جملہ شرطیں بہ درجۂ احسن پائی جاتی ہیں، آپ نے جو کہا ہے،  وہی آپ کا روز و شب ہے۔  آپ نے شاعرانہ حسن کے لیے لفظ و بیان کے جادو نہیں جگائے ہیں بل کہ ان کا حال اور قال دونوں یک ساں ہے۔  آپ کی شاعرانہ ریاضتیں اور فنی مشقتیں سلامِ عقیدت پیش کرنے کی متقاضی ہیں۔ ’’خیابانِ مدحت‘‘ کی شاعری دماغ کی شاعری نہیں بل کہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی صدائے محبت معلوم ہوتی ہے جو دلوں میں سوز و ساز، روح میں کیف و سرور اور فکر میں بالیدگی و تازگی پیدا کرتی ہے۔  شاعرانہ لطافتوں اور فنی دل آویزیوں سے آراستہ و مزین ’’خیابانِ مدحت ‘‘کے یہ اشعار دیکھیں      ؎

 

چشم محرومِ تماشا ہے مگر دل میں ہیں آپ

محفلِ زیست میں غائب بھی ہیں موجود بھی ہیں

 

وہ بلا جہت تھا معاینہ بلا کیف و کم تھا مشاہدہ

وہ تعینات سے بھی پرے ہر اک امتحاں سے گذر گئے

 

بخشا ہے تیرے درد نے اک کیفِ سروری

لذت کشید کرتے ہیں سوزِ نہاں سے ہم

 

جو پتھروں کو شعور بخشے جو سنگ ریزوں کو نور بخشے

جو تپتے صحراؤں کو بھی گلشن بنا رہا ہے مرا نبی ہے

 

       علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کا دل ہر لمحہ امتِ مسلمہ کی رو بہ زوال عظمتوں اور رفعتوں پر تڑپتا رہتا ہے۔  آپ کا یہ والہانہ سوزِ دروں اور دردِ جگر خطبات و مواعظ سے تو جھلکتا ہی ہے ساتھ ہی آپ کے اشعار کی زیریں رَو میں بھی آپ کا یہ احساس پنہاں نظر آتا ہے۔  آپ کی نعتوں میں عصری حسیت نمایاں ہے جو اپنے جلو میں کچھ ایسے تجربات اور حقائق لیے ہوئے ہے جن سے صرفِ نظر کرنا بیدار مغز ناقدین کے لیے ممکن نہیں۔ انقلابِ امت اور اصلاحِ معاشرہ کی سچی تڑپ اور لگن سے مملو آپ کا کلام براہِ راست درِ دل پر دستک دیتا ہے۔  آپ نے امتِ مسلمہ کی ناگفتہ بہ صورتِ حال پر گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنا دردِ دل بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں پیش کیا ہے۔  استغاثہ و فریاد میں جو کربیہ آہنگ ہے وہ ہمیں بھی ایک عجیب کسک سے ہم کنار کرتا ہے۔ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب نے ایسے موقع پر بھی زبان و بیان میں شگفتگی اور نغمگی پیدا کر دی ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے   ؎

 

ہے تار تار قبائے شرافتِ انساں

کرم کہ آج مصیبت میں ابنِ آدم ہے

 

وہ نینوا کی زمیں ہو کہ ساحتِ اقصیٰ

امیدوارِ کرم از رسولِ اکرم ہے

 

ہمارے اپنے طرزِ زندگی پر کفر خنداں ہے

مرے ہادی مسلماں کو شعورِ زندگی دیدیں

 

مسلماں منتشر ہے متحد ہے کفر کی دنیا

شہا مسلم کو ربط و اتحادِ باہمی دیدیں

 

کاش! امت کی قیادت کریں اب ایسے لوگ

آستینوں میں ہوں جن کے یدِ بیضا پنہاں

 

وہ نظر باعثِ تبدیلیِ قبلہ جو ہوئی

پھر اٹھا دیں کہ بدل جائے نظامِ دوراں

 

       علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کی شاعری کا ایک توصیفی پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے مشکل زمینوں، قافیوں اور ردیفوں کو شاعرانہ مہارت اور ادیبانہ چابک دستی کے ساتھ نبھایا ہے۔  صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات، محاورات و ضرب الامثال، پیکرات اور تراکیب کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔ آپ کے اسلوبیاتی اور لسانی حسن میں عربیت اور فارسیت کا گہرا رچاٍؤ چار چاند لگا دیتا ہے،  مشکل ردیفوں میں لکھی گئی چند نعتوں کے مطلعے خاطر نشین ہوں     ؎

 

آپ حامد بھی ہیں حماد بھی محمود بھی ہیں

آپ شاہد بھی شہادت بھی ہیں مشہود بھی ہیں

 

حضور آپ کے در سے جو اشک بار چلے

سند نجات کی لے کر گناہ گار چلے

 

تمہارا عالمِ ایجاد میں جواب کہاں

یہ مہر و ماہ کہاں حسنِ لاجواب کہاں

 

ہر ایک بزم میں بے مثل و لاجواب ہوا

جو بارگاہِ رسالت سے فیض یاب ہوا

 

یہ میری آبلہ پائی یہ رہِ گذر تنہا

سہارا دے گی مجھے آپ کی نظر تنہا

 

میرے افکار ہوں محرومِ ضیا ناممکن

وہ سکھائیں نہ مجھے طرزِ ادا ناممکن

 

       کہا جاتا ہے کہ بلیغ اور وسیع مفہوم کے اظہار میں ترکیبیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کی لفظیات میں تراکیب اور اضافتوں کا جو دل کش انداز ہے وہ آپ کی شاعری کو محض عقیدت و محبت کے اظہار کا وسیلہ نہیں بل کہ ایک ستھری اور شفاف لب و لہجہ کی حامل اور زبان و بیان کے نئے اور اچھوتے برتاؤ کا اشاریہ بھی بناتی ہے۔  ’’خیابانِ مدحت‘‘ میں نت نئی اور عمدہ تراکیب کی جو فصلِ بہاری لہلہا رہی ہے اگر اس کا تجزیاتی محاکمہ کیا جائے تو صفحات کے صفحات پُر کیے جا سکے ہیں۔ یہاں چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے ’’خیابانِ مدحت‘‘ کے براہِ راست مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے  ؎   

 

جبینِ عشق کے تابندہ گوہر

بساطِ زیست کے شہ کارِ اعظم

 

وہ نقشِ اولینِ کلکِ قدرت

نبوت اور رسالت کے وہ خاتم

 

غبارِ راہِ اقدس غازۂ روئے تمدن ہے

غسالہ جن کے قدموں کا ہے آبِ روئے انسانی

 

آپ کی جلوہ گری صبحِ سعیدِ انساں

آپ شہ کارِ خدا مطلعِ انوار ہیں آپ

 

صادق الوعد الامیں ہے ان کی ذات

نازشِ صدق و امانت ہیں حضور

 

صد کہکشاں غبارِ خرامِ رسول ہیں

سیاحِ لامکاں تو تنہا حضور ہیں

 

خسروے بزمِ قدسیاں نازش و فخرِ محرماں

آپ کی ذاتِ پاک ہے محرمِ رازِ کائنات

 

عالمِ قدس کے مکیں بزمِ وفا کے نازنیں

مفتخرِ زمانہ ہے آپ کی ذاتِ پُر صفات

 

       علامہ قمر الزماں اعظمی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہو کر آپ کی نعت گوئی پر یہ چند سطریں لکھ کر میں دلی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ دعا ہے کہ رب عزوجل رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل آپ کے سایۂ علمی کو تا دیر سلامت رکھے (آمین بجاہِ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ و سلم)……

مشمولہ : تجلیاتِ قمر:۲۰۱۱ء، مطبوعہ ممبئی

٭٭٭

الطافؔ سلطانپوری کی نعت گوئی

مری خاک کے  بطن میں سو رہے ہیں

نامعلوم چرخ اور افلاک کتنے

 

کئی وارثانِ گلیمِ پیمبر

کلہ دار و آئین و فتراک کتنے

                                                       (بدر القادری مصباحی)

 

       سرزمینِ مالیگاؤں گہوارۂ علم و ادب ہے۔ یہاں علم و فن اور شعر و سخن کی بہت سی نابغۂ روزگار ہستیوں نے جنم لیا ہے اور بعض علاقۂ اودھ و روہیل کھنڈ وغیرہ سے ہجرت کر کے مالیگاؤں آئے اور یہیں پر مستقل سکونت اختیار کر کے تا عمر علم و فن اور شعر و ادب کی خدمت کرتے رہے، اور اب اسی سرزمین پر آرام فرما رہے ہیں۔ ان حضرات میں شاعرِ اسلام مداحِ رسول مرحوم الطافؔ انصاری سلطان پوری ثم مالیگانوی کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کی ولادت ۱۹۲۸ء میں ہوئی، اصل نام عبدالرزاق ہے، مگر آپ کا تخلص ’’الطاف‘‘ اس قدر مشہور ہوا کہ آپ کے اصل نام سے شاید و باید ہی کوئی واقف ہو۔ تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کی۔ ناسازگار حالات کے سبب وطنِ مالوف سے مالیگاؤں تشریف لائے اور اب یہیں آپ کا مدفن ہے۔

        الطافؔ انصاری سلطان پوری علم و فن اور شعر و ادب کی اک ایسی متحرک اور فعال شخصیت کا نام ہے جس نے شاعری کی کئی اصناف؛ غزل، نظم، ہزل، مرثیہ، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نعت، منقبت، سلام وغیرہ میں طبع آزمائی فرمائی۔ لیکن ان میں نعت گوئی کا وصف سب سے ممتاز و نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے تا دمِ زیست اپنے پیارے نبی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں نعتیہ نغمات زیبِ قرطاس کیا، ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی زبان و قلم اور فکر و نظر کا محور و مرکز بناتے ہوئے اپنے جذباتِ عشق و محبت کا اظہار کرتے رہے۔ آپ یقیناً ایک خوش عقیدہ عاشقِ رسول(ﷺ) تھے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت اور تعظیم و توقیر کے جذبات و احساسات میں آپ کی والہانہ وا رفتگی اور فدا کارانہ سرمستی کو دیکھتے ہوئے دنیائے اردو ادب نے آپ کو ’’شاعرِ اسلام‘‘ اور ’’مدّاحِ رسول‘‘ جیسے معتبر القاب و اعزاز سے سرفراز کیا۔ آپ نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی مقدس شان میں جو نعتیہ نغمات پیش کیے ہیں اُن کی صحیح تعداد کا تعین ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیوں کہ آپ نے ایک جگہ بہ طورِ تحدیثِ نعمت یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے کہ     ؎

میں بھر چکا ہوں اے الطافؔ نعتِ سرور

بہ فضلِ کبریا اب تک ہزارہا کاغذ

       متذکرہ بالا شعر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ آپ نے ہزاروں کاغذ نعتِ پاک سے مزین و آراستہ کیا ہے ؛ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ تمام کے تمام شہ پارے محفوظ ہیں یا نہیں ؟

       اس وقت میرے پیشِ نظر الطافؔ انصاری سلطان پوری کا اوّلین نعتیہ دیوان ’’روٗدِ بخشش‘‘ ہے۔ جو آپ کی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ وارفتگی، پُر خلوص عقیدت و محبت اور با ہوش ادب و احترام کے ساتھ ساتھ آپ کے شاعرانہ اوجِ کمال، فنی باریکیوں سے گہری واقفیت اور زبان و بیان پر عالمانہ و فاضلانہ دست رس پر دلالت کرتا ہے۔ آپ کا کلام پڑھتے  وقت ایک سچے مومن اور عاشقِ صادق کے دلی جذبات و محسوسات کا پاکیزہ عکسِ جمیل اُبھر کر قارئین کو شگفتگی اور شادابگی سے ہم کِنار کرتا ہے ؛ چند اشعار خاطر نشیٖن ہوں      ؎

 

ہم تو ہیں گرویدۂ نورِ مجسّم آج بھی

تیرگی سے ہم کو نسبت ہے نہ ظلمت سے غرض

 

بعد از خدا ہیں لائقِ توصیف آپ ہی

مدحت سرا ہے آپ کا، قرآں شہِ حجاز

 

ہم ایسے غلاموں کا ایماں ہے اس پر

کہ جنت سے افضل ہے کوئے محمّد

 

آپ کو بخشی خدا نے دو جہاں کی رہِ بری

آپ ایسے رہِ نُما ہیں تاج دارِ کائنات

 

اپنی ضَو سے مہ و خورشید کو شرمائے ہے

تپ کے سوزِ غمِ احمد میں نکھرنے والا

 

قبر کی تیرگی مٹائے گا

سرورِ دیں کی عاشقی کا چراغ

 

آپ کے روئے حسیٖں کے سامنے

ہیچ ہے حق کی قسم حُسنِ گلاب

 

        الطافؔ انصاری سلطان پوری کے نعتیہ دیوان ’’روٗدِ بخشش‘‘ کے نام ہی سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ آپ بھی اُسی نورانی و عرفانی اور ملکوتی صفات کے مظہر قافلۂ عشق و محبت کے شرکائے سفر میں شامل ہیں جس کی زمامِ قیادت حسان الہند امام احمد رضا محدثِ بریلوی نور اللہ مرقدہٗ(کہ جن کے مجموعۂ کلام کا نام ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے، اور اسی مناسبت سے آپ کے متوسلین اپنے دواوین کے نام میں لفظ ’بخشش‘ کا استعمال کرتے ہیں ) کے دستِ مبارک میں ہے۔ اس پس منظر میں الطافؔ صاحب کی نعتوں میں جذباتِ عشقِ رسول(ﷺ)کی صداقت و سچائی، خیالات کی پاکیزگی، افکار کی بلندی، جذبے کا التہاب اور شعری و شرعی حُسن کا ایک لہریں لیتا دریا موج زن ہونا فطری امر ہے، جس کا نظارا آپ کے کلام میں جا بہ جا کیا جا سکتا ہے ؛ چند مثالیں خاطر نشیٖن ہوں     ؎

 

لاریب! اب بھی آپ ہیں مختارِ کائنات

جنت بھی ملکیت ہے رسالت مآب کی

 

اے شہنشاہِ مدینہ آپ کی کیا بات ہے

زیٖنتِ محراب و منبر رحمتِ عالم ہیں آپ

 

مانگنے والو! مدینہ کبھی جاؤتو سہی

سارے ارمان نکل جائیں گے ان شآء اللہ

 

مرے سرکار نے کتنوں کو عطا کی جنت

آپ کے نام سے منسوب ہے جنت دیکھو!

 

کِیا تھا حق نے جن کو خاص اپنے نور سے پیدا

انھیں کے نور سے معمور ہے ارضِ حرم اب تک

 

وہ پھیلائے کیوں ہاتھ غیروں کے در پر

ہو جس کا درِ مصطفی سے تعلق

 

قاسمِ نعمت بنایا ہے جسے اللہ نے

سب کی وابستہ ہے اس آقائے نعمت سے غرض

 

مجمع گناہ گاروں کا میدانِ حشر میں

ہو گا اکٹھا شافعِ روزِ جزا کے پاس

 

ہے کرم الطافؔ یہ اللہ کا

یارسول اللہ کی ہے لب پہ رٹ

 

جب وسیلے سے نبی کے ہاتھ پھیلاتے ہیں لوگ

جو طلب کرتے ہیں وہ اللہ سے پاتے ہیں لوگ

 

        الطافؔ انصاری سلطان پوری فنِ نعت کے جملہ لوازمات اور باریکیوں سے کماحقہٗ واقف ہیں۔ آپ نے روح و قلب کی گہرائیوں سے ادب کے گہرے دریا کی شناوری کرتے ہوئے عظمتِ رسول(ﷺ)کا پاس و لحاظ؛ اور عبد و معبود کا فرق ملحوظ رکھ کر ہوش و خرد کے ساتھ، اس گہرے دریا سے ایسے ایسے گوہر ہائے آب دار چُنے ہیں جو قرآن و سنت کے متقاضی ہیں۔ آپ کی زبان و قلم شایستہ، ذہن و فکر پاکیزہ، جذبہ و تخیل اعلا اور افکار و رجحانات میں طہارت ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی زیریں رَو میں افراط و تفریط اور کذب آمیز مبالغہ آرائی کو کہیں بھی جگہ نہیں مل سکی      ؎

 

جس سے ٹھہرے ذاتِ احمد ہم سرِ ذاتِ خدا

واعظو! اس قسم کی شعلہ بیانی ہے غلط

 

ہے تقاضا یہ ادب کا با وضو ہوں پہلے ہم

نامِ اقدس لیں زباں سے تب رسول اللہ کا

 

آپ سے کی ہے خلّاقِ کونین نے

خلق کی ابتدا صد سلام آپ پر

 

جب خالقِ کونین ہے خود آپ محافظ

پھر کیوں نہ بھلا شانِ رسالت رہے محفوظ

 

       اسی طرح مرحوم الطافؔ انصاری سلطان پوری صاحب نے اُمتِ مسلمہ کے دردو کرب، مصائب و آلام، دکھ درد، زبوں حالی اور شکست خوردگی کونا صرف محسوس کیا ہے بل کہ ان کے اسباب و علل پر بھی اپنے کلام کے وسیلے سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مداوا کا اظہارو ابلاغ بھی کیا ہے۔ آپ کے کلام میں انقلابِ اُمت، اصلاحِ معاشرہ، اخلاقی قدروں کے تحفظ، سنت و شریعت کی پیروی اور سوئی ہوئی قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے جیسے عناصر جا بہ جا ملتے ہیں۔ آپ نے سنت کی پابندی، تصلب فی الدین، مسلک پر استقامت اور اخلاقیات کا درس بڑے موثر اور دل کش پیرایۂ اظہار میں آسان اور سہل زبان میں کیا ہے۔ اس لحاظ سے الطافؔ انصاری سلطان پوری کی نعت گوئی اصلاحی اسلوب کی حامل پیغاماتی شاعری کے جملہ اوصاف سے متصف ہے    ؎

 

صرف وہ انعامِ باری سے نوازے جائیں گے

جو سدا رکھتے ہیں شاہِ دیں کی سنت سے غرض

 

راہِ حق سے اے مسلماں تو نہ ہٹ

ہر گھڑی نامِ محمد کی ہو رٹ

 

دامنِ محبوبِ داور چھوڑ کر

دامنِ دنیا سے ناداں مت لپٹ

 

چاہتا ہے تو اگر اپنی فلاح

اک ذرا ماضی کی جانب تو پلٹ

 

بیچ کر ایمان جو حاصل ہو بزمِ دہر میں

اے مسلمانو! وہ عزت اور شہرت ہے عبث

 

اے خالقِ کونین مسلمانوں کے دل میں

اسلام پہ مر مٹنے کی ہمّت رہے محفوظ

 

       سچا مومن وہی ہے جو تا دمِ مرگ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنا تعلق و رشتہ استوار رکھے، احادیث و سُنن پر سختی سے عمل پیرا رہے ؛ جب کہ آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو محبت کا دعوا تو کرتے ہیں مگر سنتِ مصطفوی(ﷺ) سے کوسوں دور رہتے ہیں، اگر ایسا ہے تو ان حضرات کا یہ دعوا سراسر باطل اور غلط ہے       ؎

 

سرکارِ کائنات کا عاشق ہے تُو اگر

سرکارِ کائنات کی کوئی ادا نہ چھوڑ

 

دعویِٰ عشقِ نبی سچ ہے تو بہتر ہے مگر

ورنہ یارو! دعویِٰ اُلفت زبانی ہے غلط

 

جو نہ گذرے پیرویِ ہادیِ کونین میں

یہ حقیقت ہے کہ ایسی زندگانی ہے غلط

 

       آج کا مسلمان تارکِ سنتِ مصطفیٰ(ﷺ) ہو کر غیروں کی تقلید میں مصروف و مشغول ہے،  اسی سبب سے پریشاں حالی اس کا مقدر بنتے جا رہی ہے ؛ الطافؔ صاحب کا اصلاحی تیور ملاحظہ ہو     ؎

 

غیر کی تقلید کرنے والو! آؤ ہوش میں

تھام لو دامن خدارا اب رسول اللہ کا

 

       اسی طرح سچے مسلمان کی پہچان بتاتے ہوئے الطافؔ صاحب راقم ہیں کہ       ؎

 

وہ مسلماں قابلِ صد رشک ہیں

ہیں جو عشقِ مصطفی سے فیض یاب

 

       مسلمانانِ عالم کی حالیہ پستی و نکبت اور دن بہ دن زوال پذیر قدر و منزلت کے اسباب و علل اور اس عظیم مرض کے علاج کا ذکر الطافؔ صاحب نے بڑے والہانہ کرب و درد سے کیا ہے جس سے آپ کا اہلِ اسلام کے تئیں سوزِ دروں عیاں ہوتا ہے، مثالیں خاطر نشین فرمائیں      ؎

 

فرمانِ مصطفی پہ جو کرنے لگیں عمل

ہو جائیں پھر عزیز جہاں کی نظر میں ہم

 

اسوۂ شہِ دیں کو آج ہم اپنا لیں جو

چار چاند لگ جائیں پھر ہماری شہرت میں

 

اے مسلماں اس طرح کر تُو سکونِ دل تلاش

دامنِ احمد میں کر عرفان کی منزل تلاش

 

       ہمارے اس دعوے پر کہ’’ الطافؔ انصاری سلطان پوری کی نعت گوئی اصلاحی اور پیغاماتی ہے ‘‘ذیل کی’’ نظم نما نعت شریف‘‘ مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے ؛ مکمل نعت پڑھتے جائیے اور الطافؔ صاحب کے اُمتِ مسلمہ کے تئیں گہرے درد و کسک اور اصلاحِ اُمت و انقلابِ ملّت کے جذبات کا عکسِ جمیل ملاحظہ کرتے جائیے، یہ نظم مشاہدے، فکر اور اسلوب ہر لحاظ سے لائقِ تحسین ہے ؛ خاطر نشیٖن ہو گراں قدر جوہر پارہ       ؎

 

کیا کھو گیا تجھ سے اے مسلمان ذرا سوچ

کیوں پیچھے پڑا ہے ترے شیطان ذرا سوچ

کر غور ذرا خود پہ تُو کر دھیان ذرا سوچ

کیا تُو ہے حقیقت میں مسلمان ذرا سوچ

دولت کے عوض بیچ دے ایمان بھی اپنا

کیا ہے یہی اللہ کا فرمان ذرا سوچ

تھے صاحبِ کردار وہ ماضی کے مسلماں

کیا تُو بھی ہے ویسا ہی مسلمان ذرا سوچ

کیا تیرا بھی سرکار کی سُنّت پہ عمل ہے ؟

کیا راہ نُما ہے ترا قرآن ذرا سوچ

اسلاف کی مانند ہے کیا دل میں ترے بھی

اسلام پہ مر مٹنے کا ارمان ذرا سوچ

احکامِ شریعت کا بھُلا بیٹھا ہے دل سے

یہ کیسی حماقت ہے اے نادان ذرا سوچ

واللہ! یہ تنبیہ ہے تنقید نہیں ہے

کیا جھوٹ ہے کیا سچ ہے تُو کر دھیان ذرا سوچ

 

       اسی قبیل کے اور بھی بہت سارے اشعار ’’روٗدِ بخشش‘‘ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں الطافؔ صاحب کے نعتیہ دیوان ’’روٗدِ بخشش‘‘سے مزید چند شہ پارے ملاحظہ فرمائیں جو اہلِ ذوق و شوق کے قلوب و اذہان کو ضرور متاثر کریں گے     ؎

 

طالب ہوں میں تو نکہتِ زلفِ رسول کا

بے کار ہے مرے لیے خوش بُو گلاب کی

 

جب شہِ کونین کے دامن میں آ جاتے ہیں لوگ

بھول کر ہر غم، سکونِ دائمی پاتے ہیں لوگ

 

کاش لب پر مرے ہو نامِ نبی

جب بجھے میری زندگی کا چراغ

 

رہِ روِ راہِ وفا ہیں ہم فدایانِ نبی

ہے یقیں کر لے گی اک دن خود ہمیں منزل تلاش

 

خیالِ رسالت مآب  آ رہا ہے

یہ کیسا حسیٖں انقلاب آ رہا ہے

 

تصور میں ہے روئے فخرِ دو عالم

نظر ہیچ حُسنِ گلاب آ رہا ہے

 

مدینہ کے دلکش نظاروں میں گم ہیں

مجھے سبز گنبد کا خواب آ رہا ہے

 

ادب سے جھکا لو! سر اے حاجیو! تم

دیارِ رسالت مآب آ رہا ہے

 

       غر ض یہ کہ الطافؔ انصاری سلطان پوری کے اس مختصر سے نعتیہ دیوان میں عقیدے و عقیدت کے ساتھ ساتھ فکر و فن، جذبہ و تخیل، خیال آفرینی، نُدرتِ اظہار، طرزِ ادا کا بانکپن، ترکیب سازی، پیکر تراشی، صنائع و بدائع جیسے قیمتی فنی موتی بکھرے ہوئے ہیں، جو آپ کے ماہرِ فن اور قادر الکلام شاعر ہونے پر دال ہیں۔ یہ جواہر پارے اہلِ نقد و نظر کو دعوتِ مطالعہ دیتے ہیں۔ الطافؔ صاحب کی فکری پختگی اور شعری و فنی مہارت کو اہلِ نظر یقیناً بہ نظرِ استحسان دیکھیں گے۔

       بہ ہر کیف! شہرِ عزیز مالیگاؤں کی دھرتی پر آرام فرما اس عظیم شاعرِ اسلام اور مدّاحِ رسول کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے راقم نے یہ مختصر سا مضمون قلم بند کرنے کی طالبِ علمانہ کوشش کی ہے، ویسے آپ کی شعری کائنات کا کماحقہٗ تعارف کرانا تو اہلِ علم و دانش کا کام ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ عز و جل، رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل الطافؔ انصاری سلطان پوری کے مراتب کو مزید بلند تر فرمائے اور ان کے شاعرانہ فیوض سے خوش عقیدہ مسلمانانِ عالم کو مالا مال فرمائے (آمین)؛ الطافؔ صاحب ہی کے اک شعر پر قلم روکتا ہوں       ؎

 

نعتیہ دیوان ہے الطافؔ کا باغ و بہار

حمدِ رب کے ساتھ شاہِ دیں کی عظمت مجتمع

                                  (اردوٹائمز، ۳؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء، بروز اتوار)

 

٭٭٭

’’گلزارِ نعت‘‘ پر ایک نظر

جنوبی ہند کے نو عمر و تازہ کار نعت گو شاعر و ادیب، عالم و صحافی مولانا غلام ربانی فداؔ صاحب نے دنیائے ادب کے لیے اپنی تقدیسی شاعری کا اولین دل کش و دل نشین تحفہ ’’گلزارِ نعت‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔  جو اپنے دامن میں الفت و عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے خوش نما گوہر ہائے آب دار لیے ہوئے ہے۔ فدا ؔ صاحب نے ’’گلزارِ نعت‘‘ کا انتساب جہانِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ڈوب کر طلوع ہونے والے درخشاں ستاروں کے نام کرتے ہوئے اپنے اولین و حسین گلدستۂ عقیدت و محبت کو ان مقدس ہستیوں کے نام نذرانۂ عقیدت کیا ہے جن کی آنکھیں حسرتِ دیدارِ گنبدِ خضرا میں خاموش و پُرسکوں راتوں میں اشکوں کے گوہرِ نایاب لُٹا تی ہیں۔ فداؔ صاحب کا یہ والہانہ اظہاریہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور دربارِ مدینہ کی حاضری کے لیے بے قرار دلوں کے تئیں ان کے مخلصانہ سوزِ دروں کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔  فدا ؔ صاحب کا یہ خوب صورت اور پاکیزہ تصور و تخیل آپ کے سچے عاشقِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) اور مخلص خادمِ نعت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ 

       نعت گوئی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ؛ بل کہ یہ شرف اسی سعادت مند کو حاصل ہوتا ہے جس پر فضلِ خداوندی اور فیضِ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی پُر نور چادر سایا کناں ہوتی ہے۔  سچ کہا ہے کہنے والوں نے کہ نعت گوئی کسبی نہیں بل کہ وہبی چیز ہے۔  اچھے اچھے نام ور شعرا بھی اس میدان میں اپنا فکری و فنی اظہاریہ پیش کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ فداؔ صاحب لائقِ تحسین و آفرین ہیں کہ انھوں نے انتہائی قلیل عمری میں میدانِ نعت گوئی میں قدم رکھا اور کامیابی کی منزلیں پار کر رہے ہیں ؛ جس کا ثبوت پیشِ نظر مجموعۂ کلام ’’گلزارِ نعت ‘‘ ہے۔  ۱۹۸۸ء میں آنکھ کھولنے والا یہ نوعمر شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں جن شاعرانہ نزاکتوں اور فنی لطافتوں کے ساتھ نغمہ سرا و نوا سنج ہے۔  ان کو دیکھتے ہوئے عقل متحیر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ کہیں کہیں زبان و بیان کی خامیاں راہ پا گئی ہیں لیکن کہیں کہیں یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ اتنی کچی عمر کے شاعر کا کلام ہے یا بڑی عمر کے کسی کہنہ مشق شاعر کا …

       ’’گلزارِ نعت ‘‘ میں شامل نعتیہ کلام شاعرِ محترم کی ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے الفت و عقیدت کے اظہار میں محتاط رویوں کا حامل نظر آتا ہے۔  آپ نے نعتیہ شاعری کے اصول و ضابطہ کو فنی و شعری مہارت کے ساتھ برتنے میں کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے۔  چوں کہ آپ نے نعتیہ ادب کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔ نعتیہ ادب پر جاری کتابی سلسلوں کو گہرائی سے پڑھا اور پرکھا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ خود بھی ہندوستان سے حمد و نعت کے حوالے سے پہلے معیاری ادبی رسالہ سہ ماہی ’’جہانِ نعت‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ مذکورہ رسالہ میں نعت، آدابِ نعت، تنقیدِ نعت، نعتیہ کلام میں موضوع روایتیں اور نعتیہ ادب میں احتیاط کے تقاضے وغیرہ جیسے روشِ عام سے منفرد اور جداگانہ موضوعات پر مضامین و مقالات کی کہکشاں سجی رہتی ہے۔  جس شاعر و مدیر کی ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ میں اس قسم کے مضامین کی اشاعت عمل میں آتی ہو اس کے کلام میں حزم و احتیاط کا پایا جانا ضروری ہو جاتا ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے خود عمل کرنا بہتر ہوتا ہے۔  بہ ایں سبب جب ہم ’’گلزارِ نعت ‘‘ کا انتقادی جائزہ لیتے ہیں تو یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے عقائد و نظریات اور جذباتِ محبت و الفت کے بیان میں موضوع و من گھڑت واقعات و قصص سے اجتناب برتا ہے۔  ’’گلزارِ نعت‘‘ کو وارداتِ قلبی اور اظہارِ عشق میں نعتیہ ادب کی قابلِ احترام اور پاکیزہ روایتوں کی علم برداری کا اشاریہ بنانے میں فداؔ صاحب کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں۔

       غلام ربانی فداؔ نے اپنی نعتوں کے حوالے سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی پاکیزگی و نفاست، حسن اخلاق، اسوۂ حسنہ، جلال و جمال، معجزات و کمالات، اختیارات و تصرفات، جود و سخا، عفو و درگزر، لطف و عطا کے علاوہ فراقِ حبیب (ﷺ)، ہجرِ دربارِ رسول(ﷺ)، آپ سے استغاثہ و فریاد، احساسِ گناہ، شفاعت طلبی، اصلاحِ معاشرہ، انقلابِ امت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔  ’’گلزارِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ مناقب و قصائد کی فصلِ بہاری بھی مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے،  فداؔ نے اپنے بزرگوں کے ساتھ جس ارادت و عقیدت کا شاعرانہ اظہار کیا ہے اس کے پُر خلوص ہونے سے انکار ممکن نہیں ہے۔ 

       بہ اعتبارِ مجموعی فداؔ صاحب کی نعت گوئی تصنع و بناوٹ، افراط و تفریط اور مبالغہ آرائی سے پاک و  صاف ہے۔  آپ کے اشعار عقیدت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے آئینہ دار ہیں۔ بعض بحریں دل آویز و مترنم ہیں۔ الفاظ و تراکیب کا رکھ رکھاؤ بھی دل کش و دل نشین ہے۔  آپ کی یہ شعری کاوش قابلِ ستایش ہے۔  اتنی کم عمری میں ایسا عمدہ ذخیرۂ نعت و منقبت اہلِ علم و دانش کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں یقیناً کامیابی حاصل کرے گا۔ کتاب معنوی لحاظ سے خوب صورت تو ہے ہی، صوری لحاظ سے اسے دیدہ زیب بنانے میں مزید کوشش کی جا سکتی تھی۔ کمپوزنگ اور سیٹنگ کی طرف سے بے اعتنائی نہ برتیں تو بہتر ہو گا۔ قاری کو کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جمالیاتی پہلو بھی متاثر کرتا ہے۔  مجھے یقین ہے کہ آیندہ اس سمت بھی توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ بہ ہر کیف! میں فداؔ صاحب کو ’’گلزارِ نعت‘‘ کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ شاعرانہ نزاکتوں اور لطافتوں کو مشق و ریاضت سے مزید نکھارتے ہوئے اظہارِ عقیدت و محبت میں فدا ؔ صاحب مستقبل کے بہترین نعت گو شاعر کی حیثیت سے دنیائے ادب میں مقامِ اعتبار حاصل کرتے ہوئے سرخ رُو ہوسکیں ؛ یہی میری دلی تمنا اور دعائے قلبی ہے۔ اخیر میں ’’گلزارِ نعت‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر کرتے ہوئے لطف و سرور حاصل کریں      ؎

 

ہم نے بزمِ خیال سے اپنی

لذّتِ یادِ  مصطفا مانگی

 

دل میں یہ آرزو لیے زندہ ہوں آج تک

سرکار میرے گھر میں ہوں، ایسی بھی شام ہو

 

جو شمع یادِ نبی کی جلائی جاتی ہے

تو روشنی کی کرن دل پہ چھائی جاتی ہے

 

صرف ہو شوقِ عبادت نہ رہے زر کی ہوَس

اور دل سے نہ کبھی اُلفتِ سرور جائے

 

نیچی نظریں کیے دربار میں ہم آتے ہیں

غم کے مارے ہیں لیے سیکڑوں غم آتے ہیں

 

ہم کو سرکار بچا لیجے کہ ظالم انساں

ہم پہ کرنے کے لیے مشقِ ستم آتے ہیں

 

تاریک جو راہیں ہیں ہو جائیں گی وہ روشن

سرکار کی یادوں کو ہم راہِ سفر رکھیے

 

نظر کے سامنے جب گنبدِ خضرا رہے گا تو

زباں خاموش ہو گی اور یہ دل بولتا ہو گا

 

عشقِ احمد میں ہوئے گم تو حقیقت یہ ہے

نعت گوئی میں عجب ہم کو مزا ملتا ہے

 

پڑھتے رہتے ہیں عقیدت سے درود اور سلام

غنچۂ حسرت و ارمان کھِلا ملتا ہے

 

میں جب بیٹھتا ہوں فداؔ نعت لکھنے

تو موتی سے جھڑتے ہیں نوکِ قلم سے

 

ان کا غلام ہوں میں اعزاز کم نہیں ہے

آقا کا میرے مجھ پر کس دم کرم نہیں ہے

 

کیا ان کی بڑائی کا ہو ذکر فداؔ ہم سے

بس بعدِ خدا ان کا رتبہ ہی بڑا دیکھا

 

دونوں جہاں کے وہ قاسم ہیں، پھر بھی چٹائی کا بستر

فاقوں میں مُسکانے والے،  میرے آقا میرے حضور

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔