حضرت علامہ و مولانا محمد سعید اعجازؔ کامٹوی رحمۃ اللہ علیہ بجا طور پر فصیح اللسان، ساحر البیان اور قاریِ خوش الحان جیسے مہتم بالشان القاب کا استحقاق رکھتے تھے۔ آپ اپنے مخصوص، منفرد اور مترنم لب و لہجے میں جب قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے یا حمدِ باریِ تعالیٰ، نعت و سلام اور مناقب گنگناتے تو محفل پر ایک روحانی سماں چھا جاتا اور سامعین کیف و سرورکے عالم میں بے ساختہ جھوم جھوم اُٹھتے تھے۔ آپ کے وعظ و ارشاد کی نورانی و عرفانی مجالس کی روشن و تاب ناک یادیں اب بھی حاشیۂ ذہن و قلب میں تر و تازہ ہیں، آپ کی غنائیت اور نغمگی سے آراستہ و مزین آواز اب بھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی اپنے عہد کی ایک ممتاز اور ہر دل عزیز شخصیت کا نام ہے۔ آپ بہ یک وقت کئی خوبیوں اور صفات کا مجموعہ تھے۔ آپ عالم، حافظ، قاری، شاعر، ادیب، خطیب، طبیب، محقق، دانش و ر، مدرس، مصلح، مفکر، مدبر، تاجر، سیاح اور ان سب سے بڑھ کر پُر کشش شکل و صورت کے مالک ایک اچھے اور مقبول انسان تھے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب کی ان گوناگوں اور متنوع خوبیوں میں سے ایک نمایاں وصف آپ کی شعر گوئی ہے جو اس وقت راقم کی تبصراتی کاوش کا عنوان بننے جا رہی ہے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ زود نویسی اور زود گوئی میں آپ اپنے عہد کے شاعروں میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ آپ کے یہاں آمد آمد کا وہ چشمۂ جاری رواں دواں رہا کرتا تھا کہ بارہا مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ آپ کے اجلاس اگر ایک دن میں تین مختلف اوقات اور مقامات پر ہیں تو تینوں جگہوں پر آپ نیا نعتیہ کلام اور تازہ ترین سلام پیش فرمایا کرتے تھے۔ افسوس صد افسوس! کہ اب تک آپ کا کوئی وقیع شعری مجموعہ منصۂ شہود پر جگمگا نہیں سکا۔ ہاں ! چند نعتوں اور سلام پر مشتمل ایک مختصر سا کتابچہ تقریباً ۸۰ ؍ کی دہائی میں مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن واقع دفتر آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔ آپ کے متوسلین اور صاحب زادگان کو چاہیے کہ حضرت اعجازؔ صاحب کے نعتیہ کلام اور سلام و مناقب کو یک جا کر کے منظر عام پر لائیں تاکہ عوام و خواص آپ کی شاعرانہ خوبیوں اور کلامِ بلاغت نظام سے لطف اندوزہوسکیں۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی تا عمر رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے گن گاتے رہے۔ حتیٰ کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب تاج دارِ مدینہ کانفرنس، ممبئی میں درود و سلام اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے ہی آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور آپ اس دارِ ناپائدار سے رخصت ہوئے۔ وصال سے دو روز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد نہال نگر کے پاس منعقدہ ایک جلسۂ عام میں اپنی مخاطبت کے دوران آپ نے ایک قطعہ سنایا جسے اس مقام پر درج کرنا راقم مناسب خیال کرتا ہے ؎
خدانخواستہ پھر یہ گھڑی ملے نہ ملے
یہ نیک لمحہ تمہیں پھر کبھی ملے نہ ملے
نبی کی بزم ہے پڑھتے رہو دُرود و سلام
پھر اس مقام پہ یہ زندگی ملے نہ ملے
کسے خبر تھی کہ اب اہل سنت کا یہ فصیح اللسان اور ساحر البیان خطیب و شاعر اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے والا ہے۔ حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے وصال کی خبر سُن کر بار بار یہ مصرعے ذہن و قلب میں گونجتے رہے اور یہ احساس پروان چڑھنے لگا کہ حضرت اعجازؔ صاحب کامٹوی کو اس امرِ ربی کا کسی نہ کسی درجے میں کشف ہو گیا تھا۔ حضرت اعجازؔ صاحب کی ذات میں جو عاجزی، انکساری، ملنساری، شفقت و محبت اور خلوص و للہیت تھی وہ اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔ مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن کے اجلاس میں آپ بارہا تشریف لاتے تھے۔ ناچیز وہیں تعلیم حاصل کرتا تھا جب جب مَیں نے اعلا حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے کلام کے بعد آپ کا مرقومہ کلام سنایا آپ نے حوصلہ افزائی اور پذیرائی فرماتے ہوئے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازا۔ اعجازؔ صاحب کی طرح دیگر با وقار علمائے اہل سنت کی نوازشات کا صدقہ ہے کہ مجھ جیسا بے بضاعت اور کم علم دین کی خدمت کے لائق بن سکا۔
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی نے اپنے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا وسیلہ نعت گوئی کو بنایا اور میدانِ شعر و ادب میں فکر و فن کے وہ اجلے اور روشن نقوش ثبت فرمائے کہ دل سے بے ساختہ سبحان اللہ ! کی داد نکلتی ہے۔ آپ نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعہ امام احمد رضا محدث بریلوی کے مسلکِ حق و صداقت اور پیغامِ عشقِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے استحکام اور فروغ و ارتقا کا کام بھی لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وصال سے چند روز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد کے پاس ایک جلسۂ عام میں آپ نے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں ایک خوب صورت اور دل کش نعت پیش کی جس کا ایک شعر یوں تھا کہ ؎
مسلکِ حق کے تحفظ کی ضمانت ہے یہ نام
اس لیے دوستو! مَیں نامِ رضا لیتا ہوں
اسی طرح ایک قطعہ بھی ارشاد فرمایا جس میں مرکزِ اہل سنت بریلی شریف کا بڑی عقیدت و محبت سے ذکر کیا گیا ہے ؎
چراغِ عقیدت جلا کے تو دیکھو
اُجالے کی دنیا میں آ کے تو دیکھو
یہیں سے مدینہ نظر آئے گا
بریلی کا سرمہ لگا کے تو دیکھو
متذکرۂ بالا شعر اور قطعہ سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ کہ آپ نے اخیر عمر تک مسلکِ اعلا حضرت اور مرکزِ اہل سنت بریلی شریف سے اپنی گہری قلبی و فکری وابستگی کا برملا اظہار بھی کیا ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے نعتیہ کلام کی عدم دست یابی کے سبب محض چند نعتوں اور سلام پر مشتمل پیشِ نظر مجموعہ اور حافظ محمد شاہد کاملی (خطیب و امام اولیا مسجد نہال نگر، مالیگاؤں ) اور حافظ محمد شاہد رضوی ابن قاری محمد سعید نوری(امام حاجی دوست محمد مسجد، مالیگاؤں )کے ذریعہ موصولہ چند کلام کو سامنے رکھ کر مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی سعادت افروز نعتیہ و سلامیہ شاعری پر یہ مختصر سا مضمون سپردِ قرطاس کر رہا ہوں وگر نہ آپ کی وسیع تر شعری کائنات طویل ترین تبصرے کی متقاضی ہے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا دل کش اور دل نشین طرزِ اظہار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو قلب و نظر کو صیقل و مجلا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جذبات و خیالات اور محسوسات کی جو بلندی، شگفتگی اور پاکیزگی آپ کے کلام کی زیریں رَو میں پنہاں ہے وہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں آپ کے مخلصانہ اور مومنانہ رویّوں کی غمازی کرتی ہیں، چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
کون کہتا ہے کہ مرقد میں اندھیرا ہو گا
وہ جو ہوں گے تو اُجالا ہی اُجالا ہو گا
صدر اس کے مرے سرکارِ دو عالم ہوں گے
اُن کے دیوانوں کا محشر میں بھی جلسہ ہو گا
غمِ دوراں کی کڑی دھوپ سے بچنے کے لیے
سایۂ گیسوے سرکار میں آلوں تو چلوں
مرے ذوقِ نظر پر ہو گئی رحمت محمد کی
مدینہ دور ہے آنکھوں میں ہے صورت محمد کی
جہاں ہوتی ہے انساں کو ندامت اپنے عصیاں پر
اسی منزل کا شاید نام ہے رحمت محمد کی
میرا دل بے نیازِ صلہ ہے، دل میں کوئی تمنا نہیں ہے
جب سے دیکھا ہے باغِ مدینہ، سر میں جنت کا سودا نہیں ہے
سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب نے اپنے شعروں میں لفظ و بیان، جذبہ و تخیل اور فکر و فن کے جو جادو جگائے ہیں وہ اسلوبیاتی لحاظ سے بھی بڑی عمدگی اور نفاست کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ انوکھی لفظیات کے انسلاکات، تراکیب اور پیکرات کا فن کارانہ استعمال آپ کی قادرالکلامی کو عیاں کرتے ہوئے آپ کے ایک صاحبِ فکر و نظر اور لب و لہجے کے شاعر ہونے کا اشاریہ بھی ہیں۔ علم و فن کی گہرائی و گیرائی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و سچائی سے مملو آپ کے نعتیہ اشعار میں جو دل آویز کیفیتیں پیدا ہو گئی ہیں وہ متاثر کن ہیں۔ خیال آفرینی اور مضمون آفرینی کی سطح پر بھی آپ کی شاعری ندرتِ اظہار اور جدتِ ادا کے جواہر پارے اپنے اندر سموئے ہوئے فصاحت و بلاغت کا دل کش مجموعہ بن گئی ہے ؎
ہیں محوِ خرام آقا اب میرے تصور میں
اے عمرِ رواں میری للہ ٹھہر جانا
بس عشقِ محمد کے شانے کی ضرورت ہے
مشکل نہیں گیسوئے دوراں کا سنور جانا
محفلِ نور شبِ غم میں سجا لیتا ہوں
دل کی آواز سے آواز ملا لیتا ہوں
صبح کے وقت بہ فیضانِ نسیمِ طیبہ
اپنے سرکار کے دامن کی ہَوا لیتا ہوں
شبِ غم نیند بھی آئی تو اِس امید پر آئی
کہ شاید خواب ہی میں دیکھ لوں صورت محمد کی
معجزانہ کرم کے تصدق، آپ کی ہر عنایت پہ قرباں
سر پہ امت کا سایا ہے لیکن، جسمِ انور کا سایا نہیں ہے
روحِ پیغامِ سرورِ عالم
عین میم اور لام کیا کہیے
جامِ کوثر کی آرزو نہ رہی
ان کی نظروں کا جام کیا کہیے
ان کے رندوں کے نام آتا ہے
زاہدوں کا سلام کیا کہیے
حالِ اعجازؔ سے ہیں وہ واقف
پھر کسی سے پیام کیا کہیے
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک قابلِ لحاظ پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے اردو زبان، محاورات اور روزمرہ کے استعمال کے ساتھ عربی، فارسی اور پوربی بولی کے انسلاکات سے اپنے کلام کو متنوع رچاؤ کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ کئی نعتیں تو مکمل پوربی بولی میں ہیں اور بعض نعتوں میں اردو اورفارسی لفظیات کے ساتھ پوربی بولی کی ادیبانہ آمیزش کی ہے، جو آپ کے پیرایۂ زبان و بیان کی ایک مخصوص لَے ہے۔ جاننا چاہیے کہ آپ نے جن بحروں کا انتخاب کیا ہے وہ اپنے اندر بلا کی نغمگی، غنائیت اور موسیقیت لیے ہوئے ہیں۔ آپ جب خود اپنے نعتیہ کلام کو مخصوص طرزِ ادا اور مترنم آہنگ کے ساتھ سناتے تھے تو مجمع پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی لوگ دیر تک آپ کی متاثر کن ترنم ریزی کے سبب جھومتے رہا کرتے تھے۔ زبان و بیان کے متنوع رچاؤ اور پوربی بولی کے چند اشعار نشان خاطر فرمائیں ؎
جانے کیا بات ہے گل زار بہت مہکت ہے
پھول کا کیا کہوں ہر خار بہت مہکت ہے
تمہرا دیس تو سرکار سمندر وہی پار
پر یہوٗ پار بھی وہوٗ پار بہت مہکت ہے
ہائے سدھ بدھ نہ رہی ساری فکر بھول گیوں
اپنا گھر بھول گیوں اپنا نگر بھول گیوں
موری ای بھول پہ یادَن بھی نچھاور اعجازؔ
آیوں طیبہ میں تو نکلے کی ڈگر بھول گیوں
مورکھ ہے حیاتِ آقا میں کچھ شک جو کوئی دکھلاوت ہے
تیرہ سو برس کے بعد بھی اُوٗ امت پہ کرم فرماوت ہے
سرکار میں تم کا مان گیوں، مختار کا مطلب جان گیوں
ای چاند اُدھر جھک جاوت ہے جَے ہَے پور اشارا پاوت ہے
………
مدت سے یہ دل ہے بے تابِ ہجراں، بے تابِ ہجراں
سنسان دن ہے تو راتیں ہیں ویراں، راتیں ہیں ویراں
ایک ایک لمحہ ہے محشر بداماں، محشر بداماں
کیسے کٹے جیون کی لمبی ڈگریا
تم بِن اے آمنہ کے لال
چرخِ نبوت کے تم ماہِ اختر، تم ماہِ اختر
تم سے ہی چمکے ہیں مانندِ اختر، مانندِ اختر
صدیق و فاروق و عثمان و حیدر، عثمان و حیدر
چاروں رکھیں پلکن پہ تمہرا چرنوا
پائن عروج و کمال
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ پیش کرنا اہلِ عقیدت و محبت کا شیوہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود اللہ جل شانہٗ اور اس کے مقرب فرشتوں کا بھی یہ معمول ہے، چناں چہ ارشادِ پاک ہے : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے دُرود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر تو اے ایمان والو! تم بھی دُرود بھیجو اور خوب سلام(سورہ احزاب)۔
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو جملہ اعمال میں دُرودِ پاک کی فضیلت اور اہمیت ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک نعت نگار شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ سلام پیش نہیں کرے گا وہ میرے نزدیک ناقص نعت گو شاعر کہلائے گا۔ اعلا حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلام ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
تو آفاقی شہرت اور مقبولیت کا حامل ہے۔ بیش تر شعرائے گرامی نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ سلام نچھاور کرتے ہوئے اپنی عقیدت مندی اور سعادت مندی کا ثبوت دیا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صیقل کیا ہے۔ مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کا یہ انفرادی اور توصیفی پہلو ہے کہ آپ نے مختلف ہیئتوں اور ٹیکنک کا استعما ل کرتے ہوئے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عظمت نشان میں صلاۃ و سلام کا تحفۂ خلوص و محبت لٹایا ہے۔ عقیدے اور عقیدت کی خوب صورت پرچھائیوں کے جِلو میں فکر و فن کے جو دل کش نقوش صنفِ سلام میں آپ نے اُبھارے ہیں ان سے بھی آپ کی شاعرانہ صلاحیتیں نکھر نکھر کر سامنے آئی ہیں۔
صنفِ سلام سے آپ کا والہانہ اور فطری لگاؤ قابل تحسین تھا۔ میرا بارہا مُشاہدہ رہا ہے کہ آپ ہر اجلاس میں ایک نیاسلام لے کر حاضر ہوا کرتے اور اپنی بھرپور مترنم آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی زنبیلِ شاعری میں ایسے نہ جانے کتنے سلام جگمگ جگمگ کر رہے ہوں گے اس کا حتمی علم نہیں۔ حضرت کے معتقدین کو چاہیے کہ آپ کے کلام کی اشاعت کی کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور پیدا کریں۔ سعید اعجازؔ کامٹوی کے مرقومہ مختلف سلام سے بہ طورِ نمونہ ذیل میں کچھ بند خاطر نشین فرمائیں ؎
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
جو وفا کی راہ میں کھو گیا اُسی گم شدہ کا سلام لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
ترے آستاں کی تلاش میں، تری جستجو کے خیال میں
اے شہ زمن، دل و جانِ من، اے سراپا رحمتِ ذوالمنن
جو لٹا چکا ہے متاعِ دل، اُسی بے نوا سلا م لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
………
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
رہبرِ اعظم نورِ مجسم
آپ کا عالم، کیا کہیے کیا کہیے
قامتِ زیبا، روئے مصفّا
حُسن میں یکتا کیا کہیے کیا کہیے
آپ کا جلوہ جلوۂ حق
باطل کا چہرہ ہے فق
رحمتِ یزداں، زیست کے عنواں، درد کے درماں
اک نگاہِ فیضِ عام، لیجیے سب کا سلام السلام
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
………
ہے سارے غلاموں کی یہ صدا
السلامُ علیک رسول اللہ
ہم پر ہو نگاہِ لطف و عطا
السلامُ علیک رسول اللہ
اے آمنہ بی بی کے دل بر، یا نبی یا رسول
اے سارے غلاموں کے سرور، یا نبی یا رسول
اے جملہ رسولوں سے برتر، یا نبی یا رسول
معراج میں تھے مہمانِ خدا
السلامُ علیک رسول اللہ
………
صلِ علا سیدنا خیر الانام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
لطف و کرم کی آس لگی ہے
دھوپ ہے غم کی پیاس لگی ہے
بہرِ خدا اب ہو عطا کوثر کا جام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
صلِ علا سیدنا خیرالانام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
………
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ سے بگڑی بنی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ ہی ذات پر آپ ہی کے نام پر
ختم ہوئی پیغمبری آپ پہ لاکھوں سلام
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوں سلام
………
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
وہ آدم و مسیح ہوں یا ذبیح ہوں یا خلیل ہوں
کلیمِ حق طراز ہوں کہ یوسفِ جمیل ہوں
وہ عالمِ ملائکہ کے صدر جبرئیل ہوں
سب کے آپ امام، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
حضور اپنے گھر کی زندگی کا صدقہ دیجیے
حضور اپنے در کی روشنی کا صدقہ دیجیے
حسن حسین و فاطمہ علی کا صدقہ دیجیے
سب ہوں شاد کام، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
………
مصطفی مجتبیٰ پہ کروروں سلام
سرورِ انبیا پہ کروروں سلام
چاند ٹکڑے ہوا، سورج اُلٹے پھرا
قدرتِ مصطفی پہ کروروں سلام
اس سے روشن ازل، اس سے روشن ابد
شمعِ غارِ حرا پہ کروروں سلام
………
آپ کا کہنا ہی کیا آپ ہیں خیرالانام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
آپ شہِ مشرقین آپ شہِ مغربین
فاتحِ بدر و حنین جدِ امامِ حسین
آمنہ کے نورِ عین، قلبِ غریباں کے چین
تاجِ شہی آپ کے قدموں کی ٹھوکر کا نام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
ہستیِ قطرہ کہاں، وسعتِ دریا کہاں
فرش کا ذرّہ کہاں، عرش کا تارا کہاں
میرا نصیبہ کہاں، آپ کا روضہ کہاں
آپ کی جالی کے پاس آپ کا ادنا غلام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
نعت و سلام کے علاوہ سعید اعجازؔ صاحب نے مناجات و دعا اور مناقب بھی قلم بند فرمائے ہیں آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے مختلف اجلاس میں مَیں نے بیش تر مناقب سماعت کی ہیں۔ آپ کی مرقومہ مناقب میں آپ نے اپنے اسلافِ کرام سے والہانہ محبت و الفت کا اظہار و ابلاغ شاعرانہ نزاکتوں اور عقیدت مندانہ لطافتوں کے ساتھ کیا ہے، جن سے آپ کی اپنے بزرگوں کے تئیں مخلصانہ شیفتگی اور وارفتگی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کے خامۂ مشک بار سے نکلی ہوئی ایک مناجات تو شہرت و مقبولیت کے افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کی بزرگی اور مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا صدقہ طلب کرتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں استغاثہ و فریاد کا یہ انداز آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہے۔ اعجازؔ صاحب کی مقبولِ خاص و عام مناجات ذیل میں ملاحظہ ہو ؎
یا خدا صدقہ کبریائی کا
صدقہ اُس نورِ مصطفائی کا
سیدھا رستہ چلائیو ہم کو
پیچ و خم سے بچائیو ہم کو
مرتے دم غیب سے مدد کیجو
ساتھ ایمان کے اُٹھا لیجو
جب دمِ واپسیں ہو یا اللہ
لب پہ ہو لااِلٰہ الا اللہ
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کو سچا خراجِ عقیدت یہ ہو گا کہ ان کے متوسلین، معتقدین، منتسبین اور صاحب زادگان ان کے منتشر کلام کو یک جا کر کے منصۂ شہود پر جلوہ گر کر دیں اُن کے اس امر سے حضرت اعجازؔ صاحب کی روح کو یقیناً خوشی حاصل ہو گی۔
۱۵؍ شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ بمط ۱۸؍ جولائی ۲۰۱۱ء بروز پیر بعد نمازِظہر2:32
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید