01:59    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

3375 1 0 05

الطاف حسین حالی

تمہید

حکیم علی الاطلاق نے اس ویرانۂ آباد نما یعنی کارخانۂ دنیا کی رونق اور انتظام کے لیے انسان کے مختلف گروہوں میں مختلف قابلیتیں پیدا کی ہیں تا کہ سب گروہ اپنے اپنے مذاق اور استعداد کے موافق جدا جدا کاموں میں مصروف رہیں۔ اور ایک دوسرے کی کوشش سے سب کی ضرورتیں رفع ہوں اور کسی کا کام اٹکا نہ رہے۔ اگرچہ ان میں بعض جماعتوں کے کام ایسے بھی ہیں جو سوسائٹی کے حق میں چنداں سودمند معلوم نہیں ہوتے۔ مگر چونکہ قسامِ ازل سے ان کو یہی حصہ پہنچا ہے اس لیے وہ اپنی قسمت پر قانع اور اپنی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ جو کام ان کی کوششوں سے سرانجام ہوتا ہے گو تمام عالم کی نظر میں اس کی کچھ وقعت نہ ہو۔ مگر ان کی نظر میں وہ ویسا ہی ضروری اور ناگزیر ہے جیسے گروہوں کے مفید اور عظیم الشّان کام تمام عالم کی نظر میں ضروری اور ناگزیر ہیں۔ کسان اپنی کوشش سے عالم کی پرورش کرتا ہے۔ اور معمار کی کوشش سے لوگ سردی گرمی، مینہ اور آندھی کی گزند سے بچتے ہیں اس لیے دونوں کے کام سب کے نزدیک عزت اور قدر کے قابل ہیں۔ لیکن ایک بانسری بجانے والا جو کسی سنسان ٹیکرے پر تن تنہا بیٹھا بانسری کی لے سے اپنا دل بہلاتا اور شاید کبھی کبھی سننے والوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچتا ہے گو اس کی ذات سے بنی نوع کے فائدہ کی چنداں توقع نہیں۔ مگر وہ اپنے دلچسپ مشغلہ کو کسان اور معمار کے کام سے کچھ کم ضروری نہیں سمجھتا۔ اور اس خیال سے اپنے دل میں خوش ہے کہ اگر اس کام کو سلسلۂ تمدّن میں کچھ دخل نہ ہوتا تو صانعِ حکیم انسان کی طبیعت میں اس کا مذاق ہر گز پیدا نہ کرتا۔

ہزار رنگ دریں کارخانہ درکارست

مکیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند

شعر کی مدح و ذم

شعر کی مدح و ذم میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر اس کی مذمّت کی گئی ہے وہ بہ نسبت مدح کے زیادہ قرین قیاس ہے۔ خود ایک شاعر کا قول ہے کہ دنیا میں شاعر کے سوا کوئی ذلیل سے ذلیل پیشہ والا ایسا نہیں ہے جس کی سوسائٹی کو ضرورت نہ ہو۔ افلاطون نے جو یونان کے لیے جمہوری سلطنت کا ایک خیالی ڈھانچہ بنایا تھا۔ اس میں شاعروں کے سوا ہر پیشہ اور ہر فن کو لوگوں کی ضرورت تسلیم تھی۔ زمانۂ حال میں بعضوں نے شعر کو 'میجک لینٹرن' سے تشبیہ دی ہے یعنی میجک لینٹرن جس قدر تاریک کمرے میں روشن کی جاتی ہے اسی قدر زیادہ جلوے دکھاتی ہے۔ اسی طرح شعر جس قدر جہل و تاریکی کے زمانہ میں ظہور کرتا ہے اسی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔

شاعری کا ملکہ بے کار نہیں

یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں جو شعر کے برخلاف کہی گئی ہیں۔ ایسی ہیں جو لامحالہ تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ مگر اس بات کا بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی ایسے پیدا ہوئے ہیں جن کو قدرت نے اسی کام کے لیے بنایا تھا اور یہ بلکہ ان کی طبیعت میں ودیعت کیا تھا اگرچہ اکثر نے اس ملکہ کو مقتضائے فطرت کے خلاف استعمال کیا۔ پس ایک ایسے عطیّہ کو جو قدرت نے عنایت کیا ہو صرف اس وجہ سے کہ اکثر لوگ اس کو فطرت کے خلاف استعمال کرتے ہیں کسی طرح عبث اور بیکار نہیں کہا جا سکتا۔ عقل خدا کی ایک گراں بہا نعمت ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو مکر و فریب اور شر و فساد میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح شجاعت ایک عطیّۂ الٰہی ہے مگر بعض اوقات وہ قتل و غارت و رہزنی میں صرف کی جاتی ہے۔ کیا اس سے عقل کی شرافت اور شجاعت کی فضیلت میں کچھ فرق آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ملکہ شعر کسی کے برے استعمال سے برا نہیں ٹھیر سکتا۔

یہ بات تسلیم کی گئی ہے کی شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا وہی شاعر بنتا ہے۔ شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونیِ طبع سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو اشعار بعضے فاضلوں سے موزوں نہیں پڑھے جاتے ان کو بعض ان پڑھ اور صغیر سن بچے بلا تکلف موزوں پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ شاعری کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے بلکہ بعضی طبیعتوں میں اس کی استعداد خدا داد ہوتی ہے۔ پس جو شخص اس عطیّۂ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا۔ ممکن نہیں کہ اس سے سوسائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے۔

شعر کی تاثیر مسلّم ہے

شعر کی تاثیر کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کا اکثر اس سے حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بھاپ سے جو حیرت انگیز کرشمے اب ظاہر ہوئے ہیں ان کا سراغ اوّل اس خفیف حرکت میں لگا تھا جو اکثر پکتی ہانڈی پر چپنی کو بھاپ کے زور سے ہُوا کرتی ہے۔ اُس وقت کون جانتا تھا کہ اس ناچیز گیس میں جرّار لشکروں اور زخّار دریاؤں کی طاقت چھُپی ہوئی ہے۔

ناٹک

ہمارے ملک میں بھانڈ اور نقالوں کا کام بہت ذلیل سمجھا جاتا ہے اور ہولی میں جو سوانگ بھرے جاتے ہیں وہ سوسائٹی کے لیے مضر خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن یورپ میں اسی سوانگ اور نقالی نے اصلاح پا کر قوموں کو بے انتہا اخلاقی اور تمدّنی فائدے پہنچائے ہیں۔

باجا

باجے کے آلات جو ہمارے ہاں ہمیشہ لہو و لعب کے مجمعوں میں مستعمل ہوتے ہیں اور جن کو یہاں کے ملّا محض فضول جانتے ہیں۔ شایستہ قوموں نے ان کے مناسب استعمال سے نہایت گراں بہا فائدے اٹھائے ہیں۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ میدان جنگ میں جب اصول مقررہ کے موافق باجا بجتا ہے تو سپاہ کے دل حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اور افسر کے حکم پر ہر سپاہی جان فدا کرنے کو موجود ہو جاتا ہے۔ اور جب کسی وجہ سے جنگ کے موقع پر باجا بجنے سے رک جاتا ہے تو ان کے دل سرد ہو جاتے ہیں اور افسر کا حکم بہت کم مانا جاتا ہے۔

شعرا کا حسن قبول

تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ملتی ہیں کہ شعرا نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نمایاں حاصل کی ہے۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر ایک چیز یہاں تک کہ اس کے عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں اور لوگ اس بات میں کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ان عیبوں سے متصّف ہو کر دکھائیں۔ بائرن کی نسبت مشہور ہے کہ "لوگ اس کی تصویر نہایت شوق سے خریدتے تھے اور اس کی نشانیاں اور یادگاریں سینت سینت کر رکھتے تھے۔ اس کے اشعار حفظ یاد کرتے تھے اور ویسے ہی اشعار کہنے میں کوشش کرتے تھے۔ بلکہ یہ چاہتے تھے کہ خود بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگیں۔ اکثر لوگ آئینہ سامنے رکھ کر مشق کیا کرتے تھے کہ اوپر کے ہونٹ اور پیشانی پر ویسی ہی شکن ڈال لیں جیسی کہ لارڈ بائرن کی بعض تصویروں میں پائی جاتی ہے۔ بعضوں نے اس کی ریس سے گلو بند (1) باندھنا چھوڑ دیا تھا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

حاشیہ

(1) ۔ لکھنؤ میں میر انیس اور مرزا دبیر نے بھی تقریباً ایسی ہی قبولیت حاصل کی تھی۔ جو لوگ میر انیس کو پسند کرتے تھے، وہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں جہاں تک ہو سکتا تھا، میر انیس کی تقلید کرتے تھے اور جو فریق مرزا دبیر کا طرفدار تھا، وہ ہر ایک بات میں ان کی پیروی کرتا تھا مگر لارڈ بائرن اور ان دونو صاحبوں کی مقبولیت میں اتنا فرق ہے کہ لارڈ بائرن کی عظمت اہل انگلستان کے دل میں صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کو اپنا قومی شاعر سمجھتے تھے اور اسی لیے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونو فرقے اس کو یکساں عزیز رکھتے تھے۔ بخلاف انیس و دبیر کے، ان کی عظمت محض ایک مذہبی شاعر ہونے کی وجہ سے تھی اور اسی لیے ان کی بڑائی اور بزرگی جیسی کہ عموماً ایک فرقہ کے دل میں تھی، ویسی عام طور پر دوسرے فرقہ کے دل میں نہ تھی۔ یہ امتیاز یعنی قومی اور مذہبی حیثیت کا ہمارے اور اہل یورپ کے تمام کاموں میں پایا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

پولیٹکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں

یورپ میں پولیٹکل مشکلات کو وقت قدیم پوئٹری کو قوم کی ترغیب و تحریص کا ایک زبردست آلہ سمجھتے رہے ہیں۔ ایک زمانہ میں ایتھنز اور مگارا والوں میں جزیرۂ سیلمس کی بابت مدّت دراز تک جنگ رہی۔ جس میں ایتھنز والوں کو برابر شکستیں ہوتی رہیں۔ اور رفتہ رفتہ اُن کا حوصلہ ایسا پست ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے لڑائی سے دست بردار ہو گئے۔ اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ جو شخص اس لڑائی کا ذکر کرے یا دوبارہ لڑنے کی تحریک دے وہ قتل کیا جائے۔ اس وقت ایتھنز کا مشہور مقنن سولن زندہ تھا۔ اس کو نہایت غیرت آئی۔ اس نے اہل وطن کو پھر لڑائی پر آمادہ کرنا چاہا۔ وہ دانستہ مجنون بن گیا۔ جب ایتھنز میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سولن دیوانہ ہو گیا ہے اس نے کچھ اشعار نہایت درد انگیز لکھے اور پرانے زدہ کپڑے پہن کر اور اپنے گلے میں ایک رسی اور سر پر پرانی چادر ڈال کر گھر سے نکلا۔ لوگ یہ حال دیکھ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ ایک بلندی پر جہاں اکثر فصحا منادی کیا کرتے تھے جا کھڑا ہوا۔ اور اپنی عادت کے خلاف اشعار پڑھنے شروع کیے، جن کا مضمون یہ تھا "کاش میں ایتھنز میں پیدا نہ ہوتا۔ بلکہ عجم یا بَربَر یا کسی اور ملک میں پیدا ہوتا جہاں اس کے باشندے میرے ہموطنوں سے زیادہ جفا کش، سنگدل اور یونان کے علم و حکمت سے بے خبر ہوتے۔ وہ حالت میرے لیے اس سے بہت بہتر تھی کہ لوگ مجھے دیکھ کر ایک دوسرے سے کہیں کہ یہ شخص اسی ایتھنز کا رہنے والا ہے جو سیلمس کی لڑائی سے بھاگ گیا۔ اے عزیزو! جلد دشمنوں سے انتقام لو۔ اور یہ ننگ و عار ہم سے دور کرو۔ اور چین سے نہ بیٹھو۔ جب تک کہ اپنا چھِنا ہوا ملک ظالم دشمنوں کے پنجہ سے نہ چھُڑا لو" ان غیرت انگیز اشعار سے ایتھنز والوں کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اسی وقت سب نے ہتھیار ہتھیار سنبھال کر سولن کو سپاہ کا سردار اور حاکم مقرر کیا اور سب کے سب ماہی گیروں کی کشتیوں میں سوار ہو کر سیلمس پر چڑھ گئے۔ آخر جیسا کہ تاریخ میں بتفصیل مذکور ہے جزیرۂ سیلمس پر قابض ہو گئے۔ اور دشمنوں میں سے بہت قید ہوئے اور باقی تمام مال و اسباب چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ایک بار پھر غنیم نے بیڑے ساز و سامان کے ساتھ سیلمس پر چڑھائی کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔

مثال2

انگلستان کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈورڈ نے جب ویلز پر چڑھائی کی تو ویلز کے شاعروں نے قومی ہمدردی کے جوش میں نہایت ولولہ انگیز اشعار کہنے شروع کیے۔ تا کہ اہل ویلز کی ہمت اور غیرت زیادہ ہو۔ اگرچہ انگلستان کی سپاہ کے آگے ان کی کچھ حقیقت نہ تھی لیکن شاعروں کے پر جوش کلام نے ان میں حب وطن کا جوش اس قدر پھیلا دیا تھا کہ جب وہ فوج شاہی کے مقابلہ میں کامیابی سے بالکل مایوس ہو گئے تو بھی اطاعت خوشی سے قبول نہ کی۔ شاعروں کے کلام سے ایڈورڈ کی اس قدر مزاحمت ہوئی اور اس کو ایسی دقّتیں اٹھانی پڑیں کہ فتح کے بعد اس نے ویلز کے تمام شاعروں اور نسابوں کے قتل کروا ڈالا۔ اگرچہ شاعری کا نتیجہ ویلز کے شاعروں کے حق میں بہت برا ہوا اور ملک کے لیے بھی مفید نہ ہوا۔ لیکن اس واقعہ سے شعر کا تاثر اور کرامت بخوبی ثابت ہوتی ہے۔

مثال3

لارڈ بائرن کی نظم موسوم بہ "چائلڈ ہیرلڈز پلگریمیج" ایک مشہور نظم ہے۔ جس کے ایک حصہ میں فرانس، انگلستان اور روس کو غیرت دلائی ہے اور یونان کو ترکوں کی اطاعت سے آزاد کرانے پر بر انگیختہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ جو فائدے یونان کے علم و حکمت سے یوروپ نے اور خاص کر فرانس اور انگلستان نے حاصل کیے ہیں اس کا بدلہ آج تک یونان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ اور روس نے بھی جو کہ گریک چرچ کی پیروی کا دم بھرتا ہے یونان کی کسی قسم کو مدد نہیں دی۔ پھر تینوں سلطنتوں کو غیرت دلانے کے لیے یونانیوں کو ترغیب دی ہے کہ غیروں سے کچھ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ بلکہ خود اپنے دست و بازو پر بھروسا کر کے ترکوں کی غلامی سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ 1812ء میں اس نظم کی اشاعت ہوئی جس کے سبب بائرن کی شاعری تمام یوروپ میں دھوم ہو گئی اور انگریز اس کی نظم پر مفتون ہو گئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ فرانس، انگلستان، اٹلی، آسٹریا اور روس میں اس نظم نے وہ کام کیا جو آگ بارود پر کرتی ہے۔ جس وقت یونان نے ترکی سے بغاوت اختیار کی یوروپ کا متفقّہ بیڑا فوراً اس کی کمک کو پہنچا۔ 1827ء میں متفقّہ بیڑے نے ترکوں کے بیڑے کو شکست دی اور ترکی کو یونان کے آزاد کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کی آزادی کو تمام یوروپ نے تسلیم کر لیا۔ اوتھو ایک ڈنمارک کا شہزادہ یونان کا بادشاہ بنایا گیا اور یونان میں پارلیمنٹ قائم کی گئی۔

مثال4

1830ء میں جب کہ چارلس دہم بادشاہ فرانس نے قانون آزادی کے برخلاف کاروائی کرنی شروع کی اور رعایا سے فرانس میں سخت اضطراب اور سراسیمگی پیدا ہوئی۔ اس وقت فرانس میں بھی دو قصیدے ایک منسوب بہ پیرس اور دوسرا منسوب بہ مارسلیز لکھے گئے تھے۔ جو گزر گاہوں اور شاہ راہوں میں طبل جنگ پر گائے جاتے تھے اور جن میں لوگوں کو بادشاہ سے بغاوت اور آزادی کی حمایت کرنے پر اُکسایا گیا تھا۔

 

الغرض یورپ میں لوگوں نے شعر سے بہت بڑے بڑے کام لیے ہیں۔ خصوصاً ڈریمٹک پوئیٹری نے یوروپ کو جس قدر فائدہ ہے اس کا اندازہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ اسی واسطے شکسپیئر کے ڈراموں سے پولیٹکل، سوشل اور مورل ہر طرح کے بیشمار فائدے اہل یوروپ کو پہنچے ہیں۔ یہ بائبل کے ہم پلّہ سمجھے جاتے ہیں۔ بلکہ جو لوگ مذہب کی قید سے آزاد ہیں وہ ان کو بائبل سے بھی زیادہ سودمند اور فائدہ رساں خیال کرتے ہیں۔

ایشیا کی شاعری میں اگرچہ ایسی مثالیں جیسی کہ اوپر ذکر کی گئی ہیں شاید مشکل سے مل سکیں لیکن ایسے واقعات بہ کثرت بیان کیے جا سکتے ہیں جن سے شعر کی غیر معمولی تاثیر اور اس کے جادو کا کافی ثبوت ملتا ہے۔

اعشیٰ کے کلام کی تاثیر

عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس (1) جس کو نابینا ہونے کے سبب اعشیٰ کہتے تھے اس کے کلام میں یہ تاثیر ضرب المثل تھی کہ جس کی مدح کرتا ہے وہ عزیز و نیک نام اور جس کی ہجو کرتا ہے وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے۔ ایک بار ایک عورت اس کے پاس آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں سے ان کو بَر نہیں ملتا۔ اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعہ سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ اعشیٰ نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا۔ جس کی بدولت ان لڑکیوں کی صورت اور سیرت کا چرچا تمام ملک میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے لگے۔ یہاں تک کہ امرا نے بھاری بھاری مہر مقرر کر کے ان سے شادیاں کر لیں۔ لڑکیوں کی ماں جب کوئی لڑکی بیاہی جاتی تھی ایک اونٹ بطور شکریہ کے اعشیٰ کے واسطے ہدیہ بھیج دیتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

حاشیہ

(1) ۔ ایک مخضرمی شاعر یعنی اس نے جاہلیت اور اسلام دونو زمانے دیکھے ہیں، اس نے ایک قصیدہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت میں بھی لکھا تھا اور یہی عرب کا پہلا شاعر ہے جس نے مدح گوئی کا مدار صلہ جائزہ پر رکھا تھا اور محض مداحی کی بدولت دولت مند ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

زمانۂ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر

اس کے سوا زمانۂ جاہلیت کی شاعری میں ایسی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ مثلاً شاعر اپنے قبیلہ کو جب کہ تمام قبیلہ کے لوگ اپنے مقتول کا خوں بہا لینے پر راضی ہیں ملامت کرتا ہے اور قاتل سے انتقام لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ یا کسی رنجش کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے لڑنے یا بدلہ لینے کے لیے بر انگیختہ کرتا ہے۔ یا اپنے پانی کے چشمے یا چراگاہ کے چھن جانے پر قوم سے مدد لینی اور ان میں جوش پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور اکثر اپنی تحریصوں میں کامیاب ہوتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن معدیکرب جو کہ بنی زبید کا سردار تھا۔ ایک روز بنی مازن کی مجلس میں بیٹھا تھا اور شراب پی رکھی تھی کہ مخزوم مازنی کے ایک حبشی غلام نے کچھ اشعار ایک عورت کی تشبیب کے جو کہ بنی زبید میں سے تھی گائے۔ عبد اللہ نے اٹھ کر زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ غلام چلایا۔ بنی مازن نے غیظ و غضب میں آ کر عبد اللہ کو مار ڈالا۔ پھر عمرو بن معدیکرب کے پاس جو کہ عبد اللہ کا بھائی تھا جا کر عذر کیا کہ تمہارے بھائی کو ہم میں سے ایک نادان آدمی نے جو نشہ میں مدہوش تھا مار ڈالا ہے۔ سو ہم تم سے عفو کے خواستگار ہیں اور خون بہا جس قدر چاہو دینے کو تیار ہیں۔ عمرو خون بہا لینے پر آمادہ ہو گیا۔ جب بھائی کی آمادگی کا حال کبثہ بنت معدیکرب کو معلوم ہوا تو اس نے نہایت ملامت آمیز اشعار کہے جن میں عمرو کو انتقام نہ لینے پر سخت غیرت دلائی ہے۔ آخر عمرو بہن کی ملامت سے متاثر ہو کر انتقام لینے کو کھڑا ہو گیا۔ اور مازینوں سے اپنے بھائی کو خون کا بدلہ لے کر چھوڑا۔

رودکی کے کلام کی تاثیر

ایران کے مشہور شاعر رودکی کا قصہ مشہور ہے کہ امیر نصر بن احمد سامانی نے جب خراسان کو فتح کیا اور ہرات کی فرحت بخش آب و ہوا اس کو پسند آئی تو اس نے وہیں مقام کر دیا۔ اور بخارا جو کہ سامانیوں کا اصلی تختگاہ تھا اس کے دل سے فراموش ہو گیا۔ لشکر کے سردار اور اعیانِ امرا جو بخارا میں عالیشان عمارتیں اور عمدہ باغات رکھتے تھے ہرات میں رہتے رہتے اکتا گئے اور اہلِ ہرات بھی سپای کے زیادہ ٹھیرنے سے گھبرا اٹھے۔ سب نے استاد ابو الحسن رودکی سے یہ درخواست کی کہ کسی طرح امیر کو بخارا کی طرف مراجعت کرنے کی ترغیب دے۔ رودکی نے ایک قصیدہ لکھا (1) اور جس وقت بادشاہ شراب اور راگ رنگ میں محو ہو رہا تھا اس کے سامنے پڑھا۔ اس قصیدہ نے امیر کے دل پر ایسا اثر کیا کہ جمی جمائی محفل چھوڑ کر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بغیر موزہ پہنے گھوڑے پر سوار ہو کر مع لشکر کے بخارا کو روانہ ہو گیا۔ اور دس کوس پر جا کر پہلی منزل کی۔

شاید اس قبیل کے واقعات ایشیائی شاعری میں کم دستیاب ہوں لیکن ایسی حکایتیں بیشمار ہیں کہ شعر کسی مناسب موقع پر پڑھا یا گایا گیا ہو۔ اور سامعین کے دل قابو سے باہر ہو گئے۔ اور صحبت کا رنگ دگر گوں ہو گیا۔ اس موقع پر ایک حکایت نقل کی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

حاشیہ

(1) ۔ اس قصیدہ کے اول کے چند شعر یہ ہیں:

بوئے یار مہرباں آید ہمے

یاد جوئے مولیاں آید ہمے

 

ریگ آموئے دو رشتیہائے او

پائے مارا پرنیاں آید ہمے

 

آب جیحون و شگرفیہائے او

ننگ مارا تامیاں آید ہمے

 

اے بخارا شادباش و شاذ دی

شاہ سویت میہماں آید ہمے

 

شاہ مان است و بخارا آسماں

ماہ سوئے آسماں آید ہمے

 

شاہ سر دست و بخارا بوستاں

مرد سوئے بوستاں آید ہمے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر خیام کی رباعی کی تاثیر

نور بائی گائن جس نے اپنے حسن و جمال، خوش آوازی، بذلہ سنجی اور مصاحبت کی عمدہ لیاقت کے سبب محمد شاہ کے تقرب کا درجہ حاصل کیا تھا۔ اور جو تمام امرا دربار کے دلوں پر قابض تھی ایک روز نواب روشن الدولہ کے ہاں بیٹھی تھی اور ہنسی چہل کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں غالباً میراں سید بھیک صاحب کی سواری جن سے نواب کو کمال عقیدت تھی آ پہنچی۔ نواب نے فوراً بائی کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر آگے سے چلمن چھڑوا دی۔ میراں صاحب آئے اور اتفاقاً بہت دیر بیٹھے۔ بائی جو ایک نہایت چلبلی اور بے چین طبیعت کی عورت تھی تنہائی میں زیادہ بیٹھنے کی تاب نہ لا کر بیباکانہ باہر نکل آئی۔ اور شیخ کی حضور میں جھک کر آداب بجا لائی۔ اور عرض کی کہ لونڈی کو حکم ہو تو کچھ گائے۔ میراں صاحب سماع کے عاشق تھے خاموش ہو رہے۔ بائی نے ان کی خاموشی کو اجازت سمجھ کر یہ رباعی نہایت سوز و گداز کی لے میں گانی شروع کی:

شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا مستی

کز خیر گستی و بہ شر پیوستی

زن گفت چنانکہ مینمایم ہستم

تو نیز چنانکہ مینمائی ہستی؟

شیخ کی حالت اس بر محل رباعی کے سننے سے ایسی متغیر ہو گئی کہ بائی کو اپنی جسارت سے سخت نادم ہونا پڑا۔ باوجودیکہ نور بائی کو خاموش کر دیا گیا تھا شیخ کی شورش کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔ وہ زمین پر مرغ بسمل کی طرح لوٹتے تھے اور دیواروں میں سر دے دے مارتے تھے۔ دیر تک یہی حال رہا اور بہت مشکل سے ہوش میں آئے۔

شاعری ناشایستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے

بہرحال شعر اگر اصلیت سے بالکل متجاوز اور محض بے بنیاد باتوں پر مبنی نہ ہو تو تاثیر اور دلنشینی اس کی نیچر میں داخل ہے۔ لیکن شاعری نسبت جو رائیں زمانہ حال کے اکثر محققوں نے قائم کی ہیں ان کا جھکاؤ اس طرف پایا جاتا ہے کہ سویلیزیشن کا اثر شعر پر برا ہوتا ہے۔ جس قدر کہ علم زیادہ محقق ہوتا جاتا ہے اسی قدر تخیل جس پر شاعری کی بنیاد ہے گھٹتا جاتا ہے اور کرید کی عادت جو ترقی علم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ شعر کے حق میں سم قاتل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک سوسائٹی نیم شایستہ اور اس کا علم اور واقفیت محدود رہتی ہے اور علل و اسباب پر اطلاع کم ہوتی ہے اس وقت تک زندگی خود ایک کہانی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی سرگزشت جو کہ بالکل ایک واقعات کا سلسلہ ہوتا ہے اگر ایک نیم شایستہ سوسائٹی میں سیدھے سادے طور پر بھی بیان کی جائے تو اس سے کہیں خوف اور کہیں تعجب اور کہیں جوش خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اور انہی چیزوں پر شاعری بنیاد ہے۔ لیکن جب شایستگی زیادہ پھیلتی ہے تو یہ چشمے بند ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کہیں بند نہیں ہوتے تو ان کو نہایت احتیاط کے ساتھ روکا جاتا ہے تا کہ ان کا مضحکہ نہ اڑے۔

اس رائے کا ایک بڑا حامی یہ کہتا ہے کہ "شعر دل پر ویسا ہی پردا ڈالتا ہے جیسا میجک لینٹرن آنکھ پر ڈالتی ہے۔ جس طرح اس لال ٹین کا تماشا بالکل اندھیرے کمرے میں پورے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح شعر محض تاریک زمانہ میں اپنا پورا کرشمہ دکھاتا ہے۔ اور جس طرح روشنی کے آتے ہی میجک لینٹرن کی تمام نمائشیں نابود ہو جاتی ہیں اسی طرح جوں جوں حقیقت کی حدود اربعہ صاف اور روشن اور احتمالات کے پردے مرتفع ہوتے جاتے ہیں اسی قدر شاعری کے سیمیائی جلوے کافور ہوتے جاتے ہیں کیونکہ دو متناقض چیزیں یعنی حقیقت اور دھوکا جمع نہیں ہو سکتیں۔"

فردوسی کی مثال

اس مطلب کے زیادہ دلنشین ہونے کے لیے ذیل کی مثال پر غور کرنی چاہیے۔ فردوسی نے اپنے ہیرو رستم کی زور مندی اور بہادری کے متعلق جو کچھ شاہنامہ میں لکھا ہے ایک زمانہ وہ تھا کہ اس کو سن کر رستم کی غیر معمولی عظمت اور بڑائی کا یقین دل میں پیدا ہوتا تھا۔ اس کے زور اور شجاعت کا سن کر تعجب کیا جاتا تھا۔ سامعین کے دل میں خود بخود اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کے حریفوں سے بر خلافی کا خیال پیدا ہوتا تھا۔ لیکن اب جس قدر کہ علم بڑھتا جاتا ہے روز بروز وہ طلسم ٹوٹتا جاتا ہے اور وہ زمانہ قریب آتا ہے کہ رستم ایک معمولی آدمی سے زیادہ نہ سمجھا جائے گا۔

شاعری شایستگی میں قائم رہ سکتی ہے

اگرچہ رائے جو شاعری کی نسبت اوپر بیان ہوئی کسی قدر صحیح ہے مگر اس کو بھی بے سوچے سمجھے قبول کرنا نہیں چاہیے۔ جو لوگ اس رائے کے بر خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ علم کی ترقی سے الفاظ کے معنی محدود اور بہت سی باتوں کی واقعیت کے خیال محو ہو گئے ہیں۔ مگر زبانیں پہلے کی نسبت زیادہ لچکدار اور اکثر مقاصد کے بیان کرنے کے زیادہ لائق ہوتی جاتی ہیں۔ بہت سی تشبیہیں بلا شبہ اس زمانے میں بیکار ہو گئی ہیں مگر ذہن نئی تشبیہیں اختراع کرنے سے قاصر نہیں ہوا۔ یہ سچ ہے کہ سائنس اور مکینکس جوشیلے خیالات کو مردہ کرنے والے ہیں لیکن انہی کی بدولت شاعر کے لیے نئی نئی تشبیہات اور تمثیلات کا لازوال ذخیرہ جو پہلے موجود نہ تھا مہیا ہو گیا ہے اور ہوتا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سوسائٹی کے ترقی کرنے سے امیجنیشن یا تخیل کی طاقت ضعیف ہو جاتی ہے بلکہ ان کا اعتقاد ہے کہ ابد کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہے۔ جب تک بے شمار اسباب اور مواقع جن کا انکار نہیں ہو سکتا چاروں طرف سے ہم کو گھیرے ہوئے ہیں، جب تک عشق انسان کے دل پر حکمران ہے اور ہر فرد بشر کی روداد زندگی کو ایک دلچسپ قصہ بنا سکتا ہے، جب تک قوموں میں حب وطن کا جوش موجود ہے، جب تک بنی نوع انسانی ہمدردی پر متفق ہو کر شامل ہونے کے لیے حاضر ہیں اور جب تک حوادث اور وقائع جو زندگی میں وقتاً بعد وقت حادث ہوتے ہیں خوشی کا یا غم کی سلسلہ جنبانی کرتے ہیں تب تک اس بات کا خوف نہیں ہو سکتا کہ تخیل کی طاقت کم ہو جائے گی۔ اور اس سے بھی کم خوف جب تک کہ نیچر کی کان کھلی ہوئی ہے اس بات کا ہے کہ شاعر کا ذخیرہ نبڑ جائے گا۔ ہاں مگر اس میں شک نہیں کہ نیچر کی جو نمایاں چیزیں تھیں۔ وہ اگلے مزدوروں نے چن لیں اور چونکہ ان کے لیے وہ پہلی تھیں اور اس لیے عجیب تھیں۔ اب ان کے تعجب انگیز بیان پر کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ

شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں۔ اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب مناسب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بناء پر صوفیۂ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اور رکن رکین شعر ہے وسیلۂ قربِ الٰہی اور باعثِ تصفیۂ نفس و تزکیۂ باطن مانا گیا ہے۔

شعر کی عظمت

کا ایک محقق کہتا ہے کہ "مشاغل دنیوی میں انہماک کے سبب جو قومیں سو جاتی ہیں شعر ان کو جگاتا ہے اور ہمارے بچپن کے ان خالص اور پاک جذبات کو جو لوثِ غرض کے داغ سے منزہ اور مبرا تھے پھر تر و تازہ کرتا ہے۔ دنیوی کاموں کی مشق اور مہارت سے بیشک ذہن میں تیزی آ جاتی ہے مگر دل بالکل مر جاتا ہے۔ جب کہ افلاس میں قوت لا یموت کے لیے یا تونگری میں جاہ و منصب کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور دنیا میں چاروں طرف خود غرضی دیکھی جاتی ہے۔ اس وقت انسان کو سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اگر اس کے پاس کوئی ایسا علاج نہ ہوتا جو دل کے بہلانے اور تر و تازہ کرنے میں چپکے ہی چپکے مگر نہایت قوت کے ساتھ افلاس کی صورت میں مرہم اور تونگری کی صورت میں تریاق کا کام دے سکے۔ یہ خاصیت خدا نے شعر میں ودیعت کی ہے۔ وہ ہم کو محسوسات کے دائرہ سے نکال کر گزشتہ اور آئندہ حالتوں کو ہماری موجودہ حالت پر غالب کر دیتا ہے۔ شعر کا اثر محض عقل کے ذریعہ سے نہیں بلکہ زیادہ تر ذہن اور ادراک کے ذریعہ سے اخلاق پر ہوتا ہے پس ہر قوم اپنے ذہن کی جودت اور ادراک کی بلندی کے موافق شعر سے اخلاق فاضلہ اکتساب کر سکتی ہے۔ قومی افتخار، قومی عزت، عہد و پیمان کی پابندی، بے دھڑک اپنے تمام عزم پورے کرنے، استقلال کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرنا اور ایسے فائدوں پر نگاہ نہ کرنی جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہو سکیں اور اسی قسم کی وہ تمام خصلتیں جن کے ہونے سے ساری قوم تمام عالم کی نگاہ میں چمک اٹھتی ہے۔ جن کے نہ ہونے سے بڑی سے بڑی سلطنت دنیا کی نظروں میں ذلیل رہتی ہے۔ اگر کسی قوم میں بالکل شعر ہی کی بدولت پیدا نہیں ہو جاتیں تو بلا شبہ ان کی بنیاد تو اس میں شعر ہی کی بدولت پڑتی ہے۔ اگر افلاطون اپنے خیالی کانسٹی ٹیوشن سے شاعروں کو جلا وطن کر دینے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ہر گز اخلاق پر احسان نہ کرتا بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سرد مہر، خود غرض اور مروّت سے دور ایسی سوسائٹی قائم ہو جاتی جس کا کوئی کام اور کوئی کوشش بدون موقع اور مصلحت کے محض دل کے ولولہ اور جوش سے نہ ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ تمام دنیا شعرا کا ادب اور تعظیم کرتی ہے۔ جنہوں نے اس خاتم سلیمانی کی بدولت جو قوت متخیلہ نے ان کے قبضہ میں دی ہے انسان میں ایسی تحریک اور بر انگیختگی پیدا کی ہے جو کہ خود نیکی ہے یا نیکی کی طرف لے جانے والی۔"

شاعری سوسائٹی کی تابع ہے

مگر باوجود ان تمام باتوں کے جو کہ شعر کی تائید میں کہی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ سوسائٹی کے دباؤ یا زمانہ کے اقتضا سے شعر پر ایسی حالت طاری ہو جائے کہ وہ بجائے اس کے کہ قومی اخلاق کی اصلاح کرے اس کے بگاڑنے اور برباد کرنے کا ایک زبردست آلہ بن جائے۔ قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات، اس کی رائیں، اس کی عادتیں، اس کی رغبتیں، اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارادہ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے۔ شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور شاعری کو ہجو گوئی نے برباد کیا۔ اس کا منشا وہی سوسائٹی کا دباؤ تھا۔ اور عبید زاکانی (1) نے جو علم و فضل سے دست بردار ہو کر ہزل گوئی اختیار کی۔ یہ وہی زمانہ کا اقتضا تھا۔ جس طرح خوشامد اور نذر بھینٹ کا چٹخارا رفتہ رفتہ ایک متدین اور راست باز جج کی نیت میں خلل ڈال دیتا ہے اسی طرح دربار کی واہ واہ اور صلہ کی چاٹ ایک آزاد خیال اور جذبیلے شاعر کو چپکے چپکے ہی بھٹئی، جھوٹ اور خوشامد یا ہزل و تمسخر پر اس طرح لا ڈالتی ہے کہ وہ اسی کو کمال شاعری سمجھنے لگتا ہے۔

 

آدمی تھا باوجودیکہ حسن میمندی وزیر سلطان محمود کو اس کے فائدہ یا ضرر پہنچانے میں بہت بڑا دخل تھا مگر وہ اس کو بلکہ خود سلطان کو کچھ خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جب میمدی کی مخالفت کا حال اس کو معلوم ہوا تو اس نے یہ شعر لکھے تھے

من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام

مائل بہ مال ہر گز طامع بہ جاہ نیز

سوئے درِ وزیر چرا ملتفت شوم

چوں فارغم ز بارگاہ پادشاہ نیز

 

اس کی آزادی اور راست گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان کے مزاج کو اس سے متغیر کر دیا گیا۔ کبھی اس کے کلام سے اس کی دہریت پر اور کبھی اعتزال و تشیع پر استدلال کیا گیا اور ساٹھ ہزار بیت کی مثنوی جس کا صلہ فی بیت ایک مثقال طلا قرار پایا تھا۔ اس کے حصے میں سوائے محروم و ناکامی کے اس کو کچھ نہ ملا۔ مگر فی الحقیقت جیسی کہ اس نے اپنے کلام کی داد پائی ہے۔ شاید ہی کسی شاعر کو ایسی داد ملی ہو۔ اس کے شاہنامہ نے تمام دنیا کے دلوں کو مسخر کر لیا اور بڑے بڑے مسلم الثبوت استاد اس کی فصاحت کا لوہا مان گئے اور اس کا سبب اور کچھ نہ تھا۔ سوا اس کے کہ سوسائٹی یا دربار کا دباؤ اس کی آزاد طبیعت پر غالب نہیں آیا۔

 

باقی:۔۔۔

صدر اسلام کی شاعری کا کیا حال تھا

صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح اور جوذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مر جاتا تھا اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفاء و سلاطین کی مہمات اور فتوحات میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔احباب کی صحبتیں جو انقلابِ روزگار سے برہم ہو جاتی تھیں ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے۔ چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہو بہو تصویر کھینچتے تھے۔ اپنی اونٹنیوں کی جفا کشی اور تیز رفتاری ،گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں،جوانی کی عیش اور بچپن کی بے فکریوں کا ذکر کرتے تھے اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالتِ غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی سرگزشت ،واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے، سفر کی محنتیں اور مشقتیں کو خود ان پر گزرتی تھیں بیان کرتے تھے عالمِ سفر کے مقامات اور مواضع شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بنام اور جو بری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے، بیوی بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سرجیون سوتی سب بند کر دیں اور شعرا کے لیے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے جن مین وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کا خوش کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ دوسرےعشقیہ مضامین جن سے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و اُمراء کی مجلسیں گرم کرنے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطالبات و مضحکات واہاجی و ہزلیات کا دفتر کھلا۔ بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ یہی کوچہ اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتداء سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے ہیں جو پچھلوں کے لیے شاعری کا میدان تنگ کر گئے یا ان کے لیے برے نمونے چھوڑ گئے ہیں۔

متوسط اور اخیر زمانی میں اسلامی شاعر کا کیا حال ہو گیا

پچھلوں نے جب آنکھیں کھول کر بزرگوں کے ترکہ مدحیہ قصائد اور عشقیہ غزلوں اور مثنویوں اور اہاجی اور ہزلیات کے سوا اور سامان بہت کم دیکھا تو انہوں نے شاعری کو انہیں چند مضمونوں میں منحصر سمجھا۔ لیکن ان مضمونوں میں بھی جب چڑیاں کھیت چگ گئیں اب کیا دھرا تھا۔ تعریف اگر سچی ہو اور عشق اصلی تو شاعر کے لیے میٹریل کی کچھ کمی نہیں جس طرح کائنات میں دو چیزیں یکساں نہیں پائی جاتیں، اسی طرح ایک انسان کے محاسن دوسرے کے محاسن کے سے اور ایک کی واردات دوسرے کی واردات سے نہیں ملتی۔ لیکن جب تعریف سراسر جھوٹی اور عشق محض تقلیدی ہو تو شعرا کو ہمیشہ وہی باتیں اگلے لکھ گئے ہیں دہرانی پڑتی ہیں۔

شاعری کی تقلید

اب پچھلوں نے جو اگلوں کی تقلید شروع کی تو نہ صرف مضامین میں بلکہ خیالات میں، الفاظ میں، تراکیب میں، اسالیب میں، تشبیہات میں، استعارات میں، بحر میں، قافیہ میں، ردیف میں، غرضیکہ ہر ایک بات اور ہر چیز میں ان کے قدم بقدم چلنا اختیار کیا۔ پھر جب ایک ہی لکیر پیٹتے پیٹتے زندگی اجیرن ہو گئی تو نہایت بھونڈے اختراع ہونے لگے۔ جن پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ " خشکہ یا گندہ بروزہ اگرچہ گندہ لیکن ایجاد بندہ۔"۔

بُری شاعری سے سوسائٹی کو کیا کیا نقصان پہنچتے ہیں

اگرچہ شاعری کو ابتداء سوسائٹی کا مذاق فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغہ سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہیں جس شعر میں زیادہ جھوٹ یا نہایت مبالغہ ہوتا ہے ۔ اس کی شاعری کو زیادہ داد ملتی ہے وہ مبالغہ میں اور غلو کرتا ہے تاکہ اور زیادہ داد ملے۔ ادھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہو جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سروپا باتیں وزن و قافیہ کے دلکش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے۔ حقائق و واقعات سے لوگوں کو روزبروز مناسبت کم ہوتی جاتی ہے ۔ عجیب و غریب باتوں، سو نیچرل کہانیوں اور محال خیالات سے دلوں کو انشراح ہونے لگتا ہے۔ تاریخ کے سیدھے سادے وقائع سننے سے جی گھبرانے لگتے ہیں ۔ جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعیہ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں ۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جھوٹ کے ساتھ ہزل و سُخریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔

بُری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے

سب سے بڑا نقصان جو شاعری کے بگڑ جانے یا اس کے محدود ہو جانے سے ملک کو پہنچتا ہے وہ اس کے لٹریچر اور زبان کی تباہی و بربادی ہے جب جھوٹ اور مبالغہ عام شعراء کا شعار ہو جاتا ہے تو اس کا اثر مصنفوں کی تحریر اور فصحا کی تقریر و خواص ، اہلِ ملک کے روزمرہ اور بول چال تک پہنچتا ہے کیونکہ ہر زبان کا نمایاں اور برگزیدہ حصہ وہی الفاظ و محاورات اور ترکیبیں سمجھی جاتی ہیں جو شعراء کے استعمال میں آ جاتے ہیں ۔ پس جو شخص ملکی زبان کی تحریر یا تقریر یا روزمرہ میں امتیاز حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو بالضرور شعراء کی زبان کا اتباع کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مبالغہ لٹریچر اور زبان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ شعراء کی ہزل گوئی سے زبان میں کثرت سے نا مہذب اور فحش الفاظ داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ لغات میں وہی الفاظ مستند اور ٹکسالی سمجھے جاتے ہیں ۔ جن کی توثیق و تصدیق شعراء کے کلام سے کی گئی ہو۔ پس جو شخص ملکی زبان کی ڈکشنری لکھنے بیٹھتا ہے اس کو سب سے پہلے شعراء کے دیوان ٹٹولنے پڑتے ہیں پھر جب شاعری چند مضامین میں محدود ہو جاتی ہے اور اس کا مدار قوم کی تقلید پر آ رہتا ہے تو زبان بجائے اس کے کہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہو اپنی قدیم وسعت بھی کھو بیٹھتی ہے۔ زبان کا اقل قلیل حصہ جس کے ذریعہ شاعر اپنے چند معمولی مضامین ادا کرتا ہے زیادہ تر وہی مانوس اور فصیح گنا جاتا ہے اور باقی الفاظ و محاورات غریب اور وحشی خیال کیے جاتے ہیں، پس سوا اس کے کہ کچھ ان میں سے اہلِ زبان کی بول چال میں کام آئیں یا لغت کی کتابوں میں بند پڑے رہیں اور کچھ ایک مدت کے بعد متروک الاستعمال ہو جائیں اور کسی مصرف نہیں آتے ۔ مصنفوں کو تحریر میں اور نہ فصحا کو تقریر میں ان سے کچھ مدد پہنچتی ہے۔ قدما کی تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن لفظوں میں بضرورتِ شعر انہوں نے تصرف کیا ہے ان کے سوا کسی لفظ میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا ۔ جو محاورے جس پہلو پر وہ برت گئے ہیں وہ دوسرے پہلو پر ہر گز نہیں برتے جا سکتے ۔ جو تشبیہیں ان کے کلام میں پائی گئی ہیں ان سے سرمو تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض کسی ملک کی شاعری کو اس کے لٹریچر کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قلب کو جسد

کے ساتھ کہ اذا صلح صلح الجسد کلہ و اذا فسد فسد الجسد کلہ۔

شاعری کی اصلاح

جب فن شعر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی اصلاح قریب ناممکن کے ہو جاتی ہے اول تو شعراء کو قدیم الف و عادت کے سبب اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ جس راہ پر وہ جا رہے ہیں اس کے سوا کوئی اور بھی رستہ ہے، اور اگر بالفرض کسی نے قوم کا شارع عام چھوڑ کر دوسری راہ اختیار بھی کی تو اس کو دو نہایت سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اول تو طریق غیر مسلوک میں قدم رکھنا اور اس کے تمام مرحلوں سے عبور کر کے منزل مقصود تک پہنچنا ہی نہایت کٹھن اور دشوار کام ہے۔ دوسری مشکل اس سے بھی زیادہ سخت یہ ہے کہ موجودہ سوسائٹی کا مذاق چونکہ اس نئی روش سے بالکل بیگانہ ہوتا ہے اس لیے نہ کوئی اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہے اور نہ کہیں اس کی محنت کی داد مل سکتی ہے۔ پس کوئی شخص جب تک کہ زمانہ کی قدردانی سے بالکل دست بردار ہو کر اس دہقان کی مانند جو اخیر عمر میں کھرنی کی پود اپنی زمین میں لگائے محض ایک امید موہوم پر آئندہ نسلوں کی ضیافت طبع کا منصوبہ نہ باندھے اس کوچہ میں ہر گز قدم نہیں رکھ سکتا۔

 

اگرچہ یہ ممکن ہے کہ نئی روش پر چلنے والا شاعر کوئی مضمون زمانہ کی ضرورت اور مقتضائے حال کے موافق شعر کے لباس میں جلوہ گر کر کے ملک کے جدت پسند لوگوں میں کچھ شہرت یا قبولیت حاصل کر لے اور ایک خاص حیثیت سے اس کے کلام کی داد توقع سے زیادہ اس کو مل جائے۔ مگر شاعری کی حیثیت سے نہ تو فی الواقع وہ اس کے کلام کی داد ہوتی ہے اور نہ وہ اس کو داد سمجھتا ہے بلکہ ایسی داد سن کر چپکے ہی چپکے اپنے دل میں یہ شعر پڑھتا ہے۔

 

بخوں آلودہ دست و تیغ غازی ماندہ بے تحسیں

تو اول زیب اسپ و زینت بر گستواں بینی

 

شعرائے ہمعصر کچھ تو قدیم شاعری کے تعصب سے اور زیادہ تر اجنبیت اور بیگانگی مذاق کے سبب اس کی روش کو اس حجت سے کہ وہ شارع عام سے الگ ہے تسلیم نہیں کرتے اور بعضے اپنے نزدیک اس کی ہجو ملیح اس طرح فرماتے ہیں کہ فلاں شخص نے شاعری نہیں کی بلکہ مفید اور اخلاقی مضامین لکھ کر اپنے لیے زاد آخرت جمع کیا ہے لیکن اگر وہ فی الواقع موجودہ نسل کی قدر شناسی سے قطع نظر کر چکا ہے تو اس کی ایسی باتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ امید رکھنی چاہیے کہ اگر قوم کی زمین میں کچھ آل باقی ہے تو تخم اکارت نہ جائے گا۔

گولڈ اسمتھ کی شاعری

گولڈ اسمتھ نے جب اول ہی اول اپنے ملک کے قدیم شاعروں کا مسلک جس کی بنیاد جھوٹ اور مبالغہ اور ہواوہوس کے مضامین پر تھی، چھوڑ کر سچی نیچرل شاعری اختیار کی تو اس کی یہی مشکلات پیش آئی تھیں۔ چنانچہ اس نے اس حالت کو ایک نظم میں بیان کیا ہے۔ اس میں اپنی نئی روش کی نظم کی خطاب کر کے کہتا ہے۔ " اے میری پیاری نظم تو ان موقعوں سے پہلی بھاگنے والی نظم ہے۔ جہاں نفسانی خواہشوں کی طغیانی ہوتی ہے۔ تو اس بے قدری کے زمانہ میں بجائے اس کے کہ دلوں کو اپنی طرف مائل اور پاک شہرت حاصل کرے، ہر جگہ ملامت کی جاتی ہے۔ تیری بدولت عام جلسوں میں مجھ کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے لیکن جب تنہا ہوتا ہوں تو تجھ پر فخر کرتا ہوں۔ تو کمال کے طالبوں کی رہنما ہے اور نیکی کی دایہ۔ پس خدا ہی تیرا نگہبان ہو گا۔ دنیا کے کسی حصہ میں خواہ وہ ٹورنو 6 کی چوٹیاں ہوں یا پیکبار کا 7 کی تلیٹی اور خواہ وہ خط استوا کا نہایت گرم خطہ ہو قطب کا منجمد کرنے والا جاڑا۔ جہاں کہیں تجھ پر نکتہ چینی ہو تو وقت کا مقابلہ کیجیو اور باد مخالف کے جھکڑوں پر غالب آئیو اور اپنے درد ناک نالوں سے سچ کی مدد کیجیئو۔ جس کو لوگ حقیر جانتے ہیں تو گمراہوں کو دولت کی حقارت کرنی سکھا اور ان کو اس بات کا یقین دلا کہ جو لوگ اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں اگرچہ وہ مفلس ہوں لیکن خوشحال ہو سکتے ہیں۔ مگر جو ترقی تجارت سے ملک میں ہوتی ہے وہ بظاہر ایک زمانہ تک دھوم دھام دکھلاتی ہے مگر بہت جلد آوے کی طرح بیٹھ جاتی ہے جیسے کہ سمندر کی موجیں آخر اس بند کو برباد کر دیتی ہیں جو کمال محنت و مشقت سے باندھا گیا ہو جو ملک اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ زمانہ کی سختیوں اور بربادیوں کا اس طرح مقابلہ کرتے ہیں جیسے چٹانیں سمندر کی موجوں اور طغیانیوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور جہاں تھیں وہیں بدستور جمی رہتی ہیں۔

شاعر کی اصلاح کیونکر ہو سکتی ہے

نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔

اردو میں شاعر بننے کے لیے فی زمانا کسی شرط کی ضرورت سمجھی جاتی ہے

ہمارے ملک میں فی زمانا شاعری کے لیے صرف ایک شرط یعنی موزوں طبع ہونا درکار ہے۔ جو شخص چند سیدھی سادی متعارف بحروں میں کلام موزوں کر سکتا ہے گویا اس کے شاعر بننے کے لیے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہتی۔ معمولی مضامین، معمولی تشبیہوں اور استعاروں کا کسی قدر ذخیرہ اس کے لیے موجود ہی ہے۔ جس کو متعدد صدیوں سے لوگ دہراتے چلے آتے ہیں۔ اور اتفاق سے وہ موزوں طبع بھی ہے۔ اب اس کے لیے اور کیا چاہیے مگر فی الحقیقت شعر کا پایا اس سے بمراتب بلند تر ہے۔

شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں

شعر کے لیے ایک ایسی چیز ہے جیسے راگ کے لیے بول جس طرح راک فی حد ذاتہ الفاظ کا محتاج نہیں، اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔ اس موقع پر جیسے انگریزی میں دو لفظ مستعمل ہیں ایک پوئٹری اور دوسرا ورس۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی دو لفظ استعمال میں آتے ہیں، ایک شعر اور دوسرا نظم، اور جس طرح ان کے ہاں وزن کی شرط پوئٹری کے لیے نہیں بلکہ ورس کے لیے ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی یہ شرط شعر میں نہیں بلکہ نظم میں معتبر ہونی چاہیے۔

عرب شعر کے کیا معنی سمجھتے تھے

قدیم عرب کے لوگ یقیناً شعر کے یہی معنی سمجھتے تھے۔ جو شخص معمولی آدمیوں سے بڑھ کر کوئی مؤثر اور دلکش تقریر کرتا تھا اسی کو شاعر جانتے تھے۔ جاہلیت کی قدیم شاعری میں زیادہ تر اسی قسم کے برجستہ اور دلآویز فقرے اور مثالیں پائی جاتی ہیں جو عرب کی عام بول چال سے فوقیت اور امتیاز رکھتی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ جب قریش نے قرآن مجید کی نرالی اور عجیب عبارت سنی تو جنہوں نے اس کو کلام الٰہی نہ مانا وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہنے لگے۔ حالانکہ قرآن شریف میں وزن کا مطلق التزام نہ تھا۔ محقق طوسی اساس الاقتباس میں لکھتے ہیں کہ عبری اور سریانی اور قدیم فارسی میں شعر کے لیے وزن حقیقی ضرور نہ تھا۔ سب سے پہلے وزن کا التزام عرب نے کیا ہے۔

وزن کی شعر میں کس قدر ضرورت ہے

البتہ اس میں شک نہیں کہ وزن سے شعر کی خوبی اور اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے۔ یورپ کا ایک محقق لکھتا ہے کہ اگرچہ وزن پر شعر کا انحصار نہیں ہے اور ابتدا میں وہ مدتوں اس زیور سے معطل رہا ہے مگر وزن سے بلا شبہ اس کا اثر زیادہ تیز اور اس کا منتر زیادہ کارگر ہو جاتا ہے۔

قافیہ شعر کے لیے ضروری ہے یا نہیں

قافیہ بھی ہمارے ہاں شعر کے لیے ایسا ہی ضروری سمجھا گیا ہے جیسے کہ وزن۔ مگر درحقیقت وہ بھی نظم ہی کے لیے ضروری ہے نہ شعر کے لیے، اساس میں لکھا ہے کہ یونانیوں کے ہاں قافیہ بھی (مثل وزن کے) ضروری نہ تھا اور جثونی نام ایک پارسی گو شاعر کا ذکر کیا ہے۔ جس نے ایک کتاب میں اشعار غیر مقطے جمع کیے ہیں، یورپ میں بھی آج کل بلینک ورس یعنی غیر مقطے نظم کا بہ نسبت مقظے کے زیادہ رواج ہے اگرچہ قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے۔ مگر قافیہ اور خاص کر ایسا جیسا کہ شعرائے عجم نے اس کو نہایت سخت قیدوں سے جکڑ بند کر دیا ہے اور پھر اس پر ردیف اضافہ فرمائی ہے۔ شاعر کو بلاشبہ اس کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتا ہے جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں دخل انداز ہوتی ہے۔ شاعر کو بجائے اس کے کہ اول اپنے ذہن میں ایک خیال کو تربیت دے کر اس کے الفاظ مہیا کرے سب سے پہلے قافیہ تجویز کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے مناسب کوئی خیال ترتیب دے کر اس کے ادا کرنے کے لیے ایسے الفاظ مہیا کیے جاتے ہیں جن کا سب سے اخیر جز و قافیہ مجوزہ قرار پا سکے۔ کیونکہ ایسا نہ کرے تو ممکن ہے کہ خیال کی ترتیب کے بعد کوئی مناسب قافیہ بہم نہ پہنچے اور اس خیال سے دست بردار ہونا پڑے۔ پس در حقیقت شاعر خود کوئی خیال نہیں باندھتا بلکہ قافیہ جس خیال کے باندھنے کی اسے اجازت دیتا ہے اس کو باندھ دیتا ہے۔ اکثر غزل اور قصیدہ میں اول اخیر مصرع جس میں قافیہ ہوتا ہے اندھا دھند کسی نہ کسی مضمون کا گھڑ لیا جاتا ہے اور پھر اس کے مناسب پہلا مصرع اس پر لگایا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ شعر کو زیادہ خوشنما بنانے کے لیے اس میں ایسی قید لگائی جس سے شعر کی اصلیت باقی نہ رہے بعینہ ایسی بات ہے کہ لباس کو زیادہ خوشنما بنانے کے لیے ایسی قطع رکھی جائے جس سے لباس کی علت غائی یعنی آسائش اور پردہ دونوں فوت ہو جائیں۔ الغرض وزن اور قافیہ جن پر ہماری موجودہ شاعری کا دارومدار ہے اور جس کے سوا اس میں کوئی خصوصیت ایسی نہیں پائی جاتی جس کے سبب سے شعر پر شعر کا اطلاق کیا جا سکے یہ دونوں شعر کی ماہیت سے خارج ہیں۔ اسی لیے زمانہ حال کے محقق شعر کا مقابل جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے نثر کو نہیں ٹھہراتے بلکہ علم و حکمت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح حکمت کا کام براہ راست یہ کہ ہدایت کرے۔ تحقیقات میں مدد پہنچائے اور حقائق کو روشن کرے عام اس سے کہ کوئی اس سے محظوظ یا متعجب یا متاثر ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح شعر کا کام براہ راست یہ ہے کہ فی الفور لذت یا تعجب یا اثر پیدا کر دے عام اس سے کہ حکمت کا کوئی مقصد اس سے حاصل ہو یا نہ ہو اور عام اس سے کہ نظم میں ہو یا نثر میں۔

شعر کی ماہیت

شعر کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ مگر کوئی تعریف ایسی نہیں جو اس کے تمام افراد کو جامع اور مانع ہو دخول غیر سے۔ البتہ لارڈ مکالے نے جو کچھ شعر کی نسبت لکھا ہے گو اس کو شعر کی تعریف نہیں کہا جا سکتا لیکن جو کچھ شعر سے آج کل مراد لی جاتی ہے اس کے قریب قریب ذہن کو پہنچا دیاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ " شاعری جیسا کہ دو 8 ہزار برس پہلے کہا گیا تھا ایک قسم کی نقالی ہے جو اکثر اعتبارات سے مصوری، بت تراشی اور ناٹک سے مشابہ ہے مگر مصور بت تراش اور ناٹک کرنے والے کی نقل شاعر کی نسبت کسی قدر کامل تر ہوتی ہے شاعر کی کہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہے؟ الفاظ کے پرزوں سے، اور الفاظ ایسی چیز ہیں کہ اگر ہومر اور ڈینٹے جیسے صناع بھی ان کو استعمال کریں تو بھی سامعین کے متخیلہ میں اشیائے خارجی کا ایسا صحیح اور ٹھیک نقشہ اتار سکتے جیسا موقلم اور چھینی کے کام دیکھ کر بارے میں خیال اترتا ہے۔ لیکن شاعر کا میدان وسیع اس قدر ہے کہ بت تراشی، مصوری اور ناٹک یہ تینوں رن اس کی وسعت کو نہیں پہنچ سکتے۔ بت تراش فقط صورت کی نقل اتار سکتا ہے۔ مصور صورت کے ساتھ رنگ کو بھی جھلکا دیتا ہے اور ناٹک کرنے والا بشرطیکہ شاعر نے اس کے لیے الفاظ مہیا کر دیے ہوں صورت اور رنگ کے ساتھ حرکت بھی پیدا کر دیتا ہے۔

 

مگر شاعری باوجودیکہ اشیائے خارجی کی نقل میں تینو فنون کا کام دے سکتی ہے اس کو تینوں سے اس بات کی فوقیت ہے کہ انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے۔ نہ وہاں مصوری کی رسائی ہے نہ بت تراشی کی اور نہ ناٹک کی مصوری اور ناٹک وغیرہ انسان کے خصائل یا جذبات اس قدر ظاہر کر سکتے ہیں جس قدر کہ چہرہ یا رنگ اور حرکت سے ظاہر ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہمیشہ ادھورے اور نظر فریب نمونے ان کیفیات کے ہوتے ہیں جو فی الواقع انسان کے بطون میں موجود ہیں۔ مگر نفس انسانی کی باریک گہری اور بوقلموں کی کیفیات صرف الفاظ ہی کے ذریعہ سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ شاعری کائنات کی تمام اشیائے خارجی اور ذہنی کا نقشہ اتار سکتی ہے۔ عالم محسوسات، دولت کے انقلابات، سیرت انسانی، معاشرت نوع انسانی تمام چیزیں جن کا تصور مختلف اشیا کے اجزا کو ایک دوسرے سے ملا کر کیا جا سکتا ہے۔ سب شاعری کی سلطنت میں محصور ہیں۔ شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلمرو اسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلمرو۔"

 

ایک اور محقق نے شعر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ " جو خیال ایک معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذریعہ سے اس لیے ادا کیا جائے کہ سامع کا دل اس کو سنکر خوش یا متاثر ہو وہ شعر ہے خواہ نظم میں ہو اور خواہ نثر میں۔"

 

مذکورہ بالا تقریروں کا مطلب زیادہ دل نشین کرنے کے لیے ہم اس مقام پر چند مثالیں ذکر کرنی مناسب سمجھتے ہیں۔

 

(1) فردوسی کہتا ہے :

 

بمالید چا چی کمال را بدست

بہ چرم کوزن اندر آورد شست

 

ستوں کرد چپ را و خم کرد راست

خروش از خم چرخ چا چی بخاست

 

ان دونوں شعروں میں رستم کی وہ حالت دکھائی ہے کہ وہ اشکبوس کشانی سے لڑنے کے لیے پیادہ میدان کارزار میں گیا ہے اور اس پر وار کرنے کے لیے کمان میں تیر جوڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان شعروں کے مضمون کو اگر ایک غیر شاعر معمولی طور پر بیان کرتا تو صرف اس قدر کہنا کافی تھا کہ رستم نے کمان کے چلہ میں تیر جوڑا لیکن اس بیان میں اس حالت کی جبکہ وہ تیر چلانے کے لیے کمان تانے کھڑا تھا نقل مطلق نہیں پائی جاتی۔ البتہ جو اسلوب فردوسی نے اس کے بیان میں اختیار کیا ہے اس میں جہاں تک کہ الفاظ مساعدت کر سکتے تھے اس حالت کی کافی طور پر نقل اتاری گئی ہے لیکن چونکہ ایک ایسی حالت ہے جو آنکھ سے محسوس ہو سکتی ہے اس لیے اس کو ایک بت تراش یا ایک مصور فردوسی کی نسبت زیادہ واضح اور زیادہ نمودار صورت میں ظاہر کر سکتا ہے۔

(2) سعدی شیرازی

 

چناں قحط سالے شد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

 

اس شعر میں دمشق کے کسی قحط کا وہ عالم بیان کیا ہے جو وہاں کے باشندوں پر طاری تھا۔ اس مضمون کو ایک غیر شاعر اس سے زیادہ بیان نہیں کر سکتا کہ خلقت بھوکی پیاسی مر رہی تھی یا اناج اور پانی نایاب تھا یا اسی قسم کی معمولی باتیں جو قحط کے زمانہ میں عموماً پیش آتی ہیں لیکن منتہائے سختی قحط کی تصویر جن لفظوں میں کہ سعدی نے کھینچی ہے ایسے معمولی بیانات سے ہرگز نہیں کھینچ سکتی۔ اور چونکہ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو محسوس نہیں ہو سکتی اس لیے شاعر کے سوا مصور اور بت تراش دونوں اس کی نقل اتارنے سے عاجز ہیں۔ البتہ ایکٹر ایسا تماشا دکھانے سے کسی قدر عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ شاعر نے اس کے کافی الفاظ مہیا کر دیئے ہوں۔

(3) ابن دراج اندلسی ایک قصیدہ میں اپنے شیر خوار بچہ کی وہ حالت جب کہ وہ خود گھر والوں سے رخصت ہو کر کہیں دور جانے والا ہے اور بچہ اس کے منہ کو تک رہا ہے، بیان کرتا ہے :

 

عیی بمرجوع الخطاب و لخطہ

بموقع اھوا الفوس خبیر

 

یعنی وہ بات کا جواب دینے سے تو عاجز ہے مگر اس کی آنکھ ان اداؤں سے واقف ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس شعر میں استاد نے ایک محض وجدانی کیفیت کی تصویر کھینچی ہے جس کی محاکات زمانہ حال کے مصور، بت تراش اور ایکٹر بھی بلاشبہ کسی قدر کر سکتے ہیں۔ لیکن نہ ایسی جیسی کہ شاعر نے کی ہے۔ نیز شاعر کے سوا کسی کو یہ اسلوب بیان ہرگز نہیں سوجھ سکتا۔ کیونکہ جس مطلب کو اس نے اس پیرائے میں بیان کیا ہے اس کا ماحصل صرف اس قدر ہے کہ رخصت ہوتے وقت جو وہ میری طرف دیکھتا تھا اس پر بے اختیار پیار آتا تھا۔ اس معمولی بات کو وہ اس طرح ادا کرتا ہے کہ وہ شیر خوار بچہ جس کے منہ میں بول تک نہ تھا اس کی آنکھ ایک ایسے بھید سے واقف تھی جس سے اکثر بڑے بڑے عاقل اور دانش مند واقف نہیں ہوتے۔ یعنی یہ کہ کس طرح اوروں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

(4) نظیر نیشا پوری

 

بہ زیر شاغ گل افعی گزیدہ بلبل را

نوا گران نخوردہ گزند را چہ خبر

 

فصل بہار میں پھولوں کے کھلنے یا ہوا مین اعتدال پیدا ہونے یا بدن میں دوران خون کے تیز ہو جانے سے جا نشاط اور امنگ بلبل کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور جس کو شعرا گل و گلشن کے عشق سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کے جوش اور دلوں میں وہ دن بھر چہکتا رہتا ہے۔ اس حالت اور کیفیت کو شاعر نے افعی کے کاٹے کی لہر سے تعبیر کیا ہے۔ گو یہ تمثیل بھی اسی حالت کی اصل حقیقت ظاہر کرنے سے قاصر ہو مگر جس قدر کہ اس حالت کا تصور ان لفظوں کے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے اتنا تھی تصویر یا ناٹک کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا۔ گویا اس کیفیت کا ظاہر کرنا مصوری، بت تراشی اور ناٹک کی دسترس سے باہر ہے۔

شاعری کے لیے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں؟

امید ہے کہ ان مثالوں سے شاعر اور غیر شاعر کے کلام میں اور نیز شعر اور مصوری میں جو فرق ہے وہ بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا۔ اب ہم کو یہ بتانا ہے کہ شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے کون سی شرطیں ضروری ہیں اور شاعر میں وہ کون سی خاصیت ہے جو اس کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے۔

تخیل :

سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے قوتِ متخیلہ یا تخیل ہے جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجہ کی ہو گی، اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجہ کی ہو گی اور جس قدر یہ ادنیٰ درجہ کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ درجہ کی ہو گی۔ یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں جو کہ کمال شاعری کے لیے ضروری ہیں کچھ کمی ہے تو اس کمی کا تدارک اس ملکہ سے کر سکتا ہے لیکن اگر یہ ملکہ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اس کے قبضہ میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی اور مستقبل اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے وہ (شاعر) آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً فیضی کہتا ہے :

 

سخت ست سیاہی شب من

لختے ز شب ست کوکب من

 

اس منطق قاعدہ سے یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ رات کی تاریکی سب کے لئے یکساں ہوتی ہے پھر ایک خاص شخص کی رات سب سے زیادہ تاریک کیونکر ہو سکتی ہے اور تمام کواکب ایسے اجرام ہیں جن کا وجود بغیر روشنی کے تصور میں نہیں آ سکتا پھر ایک خاص کوکب ایسا مظلم اور سیاہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس کو کالی رات کا ایک ٹکڑا کہا جا سکے مگر جس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب ناممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں۔ یہی وہ ملکہ ہے جس سے بعض اوقات شاعر کا ایک لفظ جادو کی فوج سامنے کھڑی کر دیتا ہے اور کبھی وہ ایک ایسے خیال کو جو کئی جلدوں میں بیان ہو سکے ایک لفظ میں ادا کر دیتا ہے۔

تخیل کی تعریف

تخیل یا امیجینیشن کی تعریف کرنی بھی ایسی ہی مشکل ہے جیسی کہ شعر کی تعریف، مگر من وجہ اس کی ماہیت کا خیال ان لفظوں سے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ یعنی وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دلکش پیرایہ میں جلوہ گر کرنی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح خیالات میں ہوتا ہے اسی طرح الفاظ میں بھی ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شاعر کا طریقہ بیان ایسا نرالا اور عجیب ہوتا ہے کہ غیر شاعر کا ذہن کبھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی ایک چیز ہے جو کبھی تصورات اور خیالات میں تصرف کرتی ہے اور کبھی الفاظ و عبارات میں، اگرچہ اس قوت کا ہر ایک شاعر کی ذات میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کا عمل شاعر کے ہر ایک کلام یکساں نہیں ہوتا بلکہ کہیں زیادہ ہوتا ہے کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں محض خیالات میں ہوتا ہے کہیں محض الفاظ میں۔ یہاں چند مثالیں بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔

 

(1) غالب دہلوی

 

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے

 

شاعر کے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتی ہے اور جامِ جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جامِ سفال میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جامِ جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ جامِ جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزہ میں بھی شراب پی جا سکتی ہے۔ اب قوت متخیلہ نے اس تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جامِ سفال کے آگے جامِ جم کی کچھ حقیقت نہ رہی اور پھر اس صورت موجودہ فی الذہن کو بیان کا ایک دلفریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر متلذذ اور کان اس کو سن کر محظوظ اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہو سکے۔ اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے وہ تخیل یا امیجینیشن ہے اور اس نئی صورت موجودہ فی الذہن نے جب الفاظ کا لباس پہن کر عالمِ محسوسات میں قدم رکھا ہے اس کا نام شعر ہے۔ نیز اس مثال میں امیجینیشن کا عمل خیالات اور الفاظ دونوں کے لحاظ سے بمرتبہ غایت اعلیٰ درجہ میں واقعہ ہوا ہے۔ کہ باوجود کمال سادگی اور بے ساختگی کے نہایت بلند اور نہایت تعجب انگیز ہے۔

 

(2) غالب کا اسی زمیں میں دوسرا شعر یہ ہے :

 

ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے رونق منہ پر

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

 

شاعر کہ یہ بات معلوم تھی کہ دوست کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے اور بگڑی ہوئی طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ دوست کو جب تک عاشق اپنی حالتِ زار اور اس کی جدائی کا صدمہ نہ جتائے دوست عاشق کی محبت اور عشق کا پورا پورا یقین نہیں کر سکتا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ بعضی خوشی سے دفعتہً ایسی بشاشت ہو سکتی ہے کہ رنج اور غم اور تکلیف کا مطلق اثر چہرے پر باقی نہ رہے۔ اب امیجینیشن نے اس تمام معلومات میں اپنا تصرف کر کے ایک نئی ترتیب پیدا کر دی یعنی یہ کہ عاشق کسی طرح اپنی جدائی کے زمانہ کی تکلیفیں معشوق پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب تکلیف کا وقت ہوتا ہے، اس وقت معشوق نہیں ہوتا اور جب معشوق ہوتا ہے اس وقت تکلیف نہیں رہتی۔ اس مثال میں بھی امیجینیشن کا عمل معنی اور لفظاً دونوں طرح بدرجہ غایت لطیف اور حیرت انگیز واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ ہر صاحبِ ذوق سلیم پر ظاہر ہے۔

 

(3) خواجہ حافظ کہتے ہیں ۔

 

صبا بلطف بگو آں غزالِ رعنا را

کہ سر بکوہ و بیاباں تو دادہ ما را

 

اس شعر کا خلاصہ مطلب اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ہم صرف معشوق کی بدولت پہاڑوں اور جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں امیجینیشن کا عمل خیالات میں اگر ہو تو نہایت خفیف اور مختصر ہو گا مگر الفاظ میں اس نے وہ کرشمہ دکھایا ہے جس نے شعر کو بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ اسی قسم کے کلام کی نسبت کہا گہا ہے۔ "عبارتے کہ بمعنی برابری دارد۔" اول تو صبا کی طرف خطاب کرنا جس میں یہ اشارہ ہے کہ کوئی ذریعہ دوست تک پیغام پہنچانے کا نظر نہیں آتا۔ ناچار صبا کو یہ سمجھکر پیغامبر بنایا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے شاید دوست تک بھی اس کا گزر ہو جائے۔ گویا شوق نے ایسا از خود رفتہ کر دیا ہے کہ جو چیز پیغامبر ہونے کی قابلیت نہیں رکھتی اس کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہے اور جواب کا امیدوار ہے۔ پھر معشوق حقیقی کو جس کی ذات بے نشان ہے بطور استعارہ کے غزال رعنا کی مناسبت سے کوہ و بیابان میں پھرنے سے تعبیر کرنا اور پھر باوجود ضمیر متصل کے جو کہ واوہ میں موجود تھی۔ ضمیر مخاطب منفصل یعنی لفظ تو اضافہ کرنا جس سے پایا جائے کہ تیرے سوا کوئی شے ہماری اس سرگشتگی کا باعث نہیں ہے اور چونکہ پیغام شکایت آمیز تھا اس لیے صبا سے یہ درخواست کرنی کہ بلطف بگو یعنی نرمی اور ادب سے یہ پیغام دینا تا کہ شکایت ناگوار نہ گزرے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں۔ جنہوں نے ایک معمولی بات کو اس قدر بلند کر دیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے باریک خیالات بھی اس سے زیادہ بلندی پر نہیں دکھائے جا سکتے۔

دوسری شرط کائنات کا مطالعہ کرنا:

اگرچہ قوتِ متخیلہ اس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اسی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخہ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخہ فطرتِ انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں ان کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا۔ جو امور مشاہدہ میں آئیں ان کے ترتیب دینے کی عادت ڈالنی، کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے اور اس سرمایہ کو اپنی یاد کے خزانہ میں محفوظ رکھے۔

 

مختلف چیزوں سے متحد خاصیت اخذ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے مرزا غالب کہتے ہیں۔

 

بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل

جر تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا

 

دوسری مثال

 

بگذر ز سعادت و نحوست کہ مرا

ناہید بغمزہ کشت و مریخ م۔۔۔۔۔۔۔

 

ناہید یعنی زہرہ کو سعد اور مریخ کو نحس مانا گیا ہے۔ پس دونوں باعتبار ذات اور صفات کے مختلف ہیں۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ ان کی سعادت و نحوست کے اختلاف کو رہنے دو۔ مجھ پر تو ان کا اثر یکساں ہی ہوتا ہے۔ مریخ قہر سے قتل کرتا ہے تو زہرہ غمزہ سے۔

 

اور متحد اشیاء سے مختلف خاصیتیں استنباط کرنے کی مثال میر ممنون کا یہ شعر ہے۔

 

تفاوت قامتِ یار و قیامت میں ہے کیا ممنوں

وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچے میں ڈھلتا ہے۔

 

یعنی قامتِ معشوق اور قیامتِ فتنہ ہونے میں تو دونوں متحد ہیں۔ مگر فرق ہے کہ فتنہ قیامت سانچہ میں ڈھلا ہوا نہیں ہے اور قامتِ معشوق سانچہ میں ڈھلا ہوا ہے۔

 

غرضیکہ یہ تمام باتیں جو اوپر ذکر کی گئیں ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعر ان سے استغنا کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان کے بغیر قوتِ متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشو و نما پاتی ہیں نہیں پہنچتی۔ بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔

 

قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ کے پیدا نہیں کر سکتی بلکہ جو مصالح اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کر کے ایک نئی شکل تراش لیتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے نامور شاعر دنیا میں گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرتِ انسانی کے مطالعہ میں ضرور مستغرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ اس مطالعہ کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینہ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔

سر والٹر اسکوٹ کی شاعری

سر والٹر اسکوٹ جو انگلستان کا ایک مشہور شاعر ہے اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصیتیں ایسی ہیں جن کو سب نے تسلیم کیا ہے، ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا۔ دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے نئے اسلوب سے ادا کرنا۔ جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں سر والٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔ سر والٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہیں کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل پر ہی قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ روکبی کا قصہ لکھ رہا تھا ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خودرو پھول پتے اور میوے جو وہاں اُگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا ہے۔ ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس دردِ سر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سر والٹر نے کہا تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔ پس جو شخص محض اپنے تخیل پر بھروسہ کر کے مذکورہ بالا مطالعہ سے چشم پوشی یا غفلت کرے گا اس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہیں یا تمثیلوں کا ایک نہایت محدود ذخیرہ ہے جن کو برتتے برتتے خود اس کا جی اکتا جائے گا اور سامعین کو سنتے سنتے نفرت ہو جائے گی۔ جو شخص شعر کی تربیت میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور محض ہوا پر اپنی عمارت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلب کو جتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرے۔ اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہو گا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔

تیسری شرط تفحصِ الفاظ

کائنات کے مطالعہ کی عادت ڈالنے کے بعد دوسرا نہایت ضروری مطالعہ یا تفحص ان الفاظ کا ہے۔ جن کے ذریعہ سے شاعر کا اپنے خیالات مخاطب کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ یہ دوسرا مطالعہ بھی ویسا ہی ضروری اور اہم ہے جیسا کہ پہلا۔ شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے اور خیال کی تصویر ہو بہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے اس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کو مسخر کر لے۔ اس مرحلہ کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی ہے۔ کیونکہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ اگرچہ شاعر کے متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں بھی ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں۔ لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصہ پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبر و استقلال کے ساتھ ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آ سکتی۔

 

جن لوگوں کو یہ قدرت ہوتی ہے کہ شعر کے ذریعہ سے اپنے ہم جنسوں کے دل میں اثر پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کو ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں لفظ جمہور کے جذبات پر کیا اثر رکھتا ہے اور اس کے اختیار کرنے یا ترک کرنے سے کیا خاصیت بیان میں پیدا ہوتی ہے۔ نظم الفاظ میں اگر بال برابر تھی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کون سی بات کی کسر ہے۔ جس طرح ناقص سانچے میں ڈھلی ہوئی چیز فوراً چغلی کھاتی ہے اسی طرح ان کے شعر میں اگر تاؤ بھاؤ میں بھی فرق رہ جاتا ہے معاً ان کی نظر میں کھٹک جاتا ہے۔ اگرچہ وزن اور قافیہ کی قید ناقص اور کامل دونوں قسم کے شاعروں کو اکثر اوقات ایسے لفظ کے استعمال پر مجبور کرتی ہے جو خیال کو بخوبی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مگر فرق صرف اس قدر ہے کہ ناقص شاعر تھوڑی سے جستجو کے بعد اسی لفظ پر قناعت کر لیتا ہے۔ اور کامل جب تک زبان کے تمام کنوئیں نہیں جھانک لیتا تب تک اس لفظ پر قانع نہیں ہوتا۔ شاعر کو جب تک الفاظ پر کامل حکومت اور ان کی تلاش و جستجو میں نہایت صبر و استقلال حاصل نہ ہو ممکن نہیں کہ وہ جمہور کے دلوں پر بالاستقلال حکومت کر سکے۔ ایک حکیم شاعر کا قول ہے کہ " شعر شاعر کے دماغ سے ہتھیار بند نہیں کودتا بلکہ خیال کی ابتدائی ناہمواری سے لے کر انتہا کی تنقیح و تہذیب تک بہت سے مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں جو کہ اب سامعین کو شاید محسوس نہ ہوں لیکن شاعر کو ضرور پیش آتے ہیں۔"

 

اس بحث کے متعلق چند امور ہیں جن کو فکر شعر کے وقت ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اول خیالات کو صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ کا لباس پہنانا، پھر ان کو جانچنا اور تولنا اور ادائے معنی کے لحاظ سے ان میں جو قصور رہ جائے اس کو رفع کرنا، الفاظ کو ایسی ترتیب سے منتظم کرنا کہ صورۃً اگرچہ نثر سے متمیز ہو مگر معنی اسی قدر ادا کرے جیسے کہ نثر میں ادا ہو سکتے۔ شاعر بشرطیکہ شاعر ہو۔ اول تو وہ ان باتوں کا لحاظ وقت پر ضرور کرتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے بالفعل اس کو زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر جب کبھی وہ اپنے کلام کو اطمینان کے وقت دیکھتا ہے، اس کو ضرور کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے شاعروں کا کلام مختلف نسخوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

آمد اور آورد میں فرق

اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے فوراً بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اس شعر سے زیادہ لطیف اور با مزہ ہوتا ہے۔ جو بہت دیر میں غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسرے کا آورد۔ بعضے اس موقع پر یہ مثال دیتے ہیں کہ جو شیرہ انگور سے خود بخود ٹپکتا ہے وہ اس شیرہ سے زیادہ لطیف و بامزہ ہوتا ہے جو انگور سے نچوڑ کر نکالا جائے۔ مگر ہم اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اول تو یہ مثال جو اس موقع پر دی جاتی ہے اسی سے اس رائے کے خلاف ثابت ہوتا ہے جو شیرہ انگور سے خود بخود اس کے پک جانے کے بعد ٹپکتا ہے وہ یقیناً اس شیرہ کی نسبت بہت دیر میں تیار ہوتا ہے جو کچے یا اَدھ کچرے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مستثنیٰ حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول، زیادہ لطیف، زیادہ با مزہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے جو کمال غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر کسی موقع پر پاکیزہ خیالات جو اس کے حافظہ میں پہلے سے ترتیب وار محفوظ ہوں مناسب الفاظ میں جو حسنِ اتفاق سے فی الفور اس کے ذہن میں آ جائیں ادا کر دے۔ لیکن اول تو ایسے اتفاقات شاذ و نادر ظہور میں آتے ہیں۔ والنادر کالمعدوم۔ دوسرے ان خیالات کو جو مدت سے انگور کے شیرہ کی طرح اس کے ذہن میں پک رہے تھے، کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ وہ جھٹ پٹ بغیر غور و فکر کے سر انجام ہو گئے ہیں۔ شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک خیال، دوسرے الفاظ۔ خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے مگر اس کے لئے الفاظِ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی، یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں تجویز کر لے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہو۔

 

وزن اور قافیہ کی اوگھٹ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ بر آ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر ایک دن کا کام ایک گھنٹے میں کیا جائے گا تو وہ کام نہ ہو گا، بیگار ہو گی۔

 

روما کے مشہور شاعر ورجل کے حال میں لکھا ہے کہ صبح کو اپنے اشعار لکھواتا تھا اور دن بھر ان پر غور کرتا تھا اور ان کو چھانٹتا تھا اور یہ کہا کرتا تھا کہ "ریچھنی بھی اسی طرح اپنے بدصورت بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوبصورت بناتی ہے۔"

 

ایرسٹو شاعر جس کے کلام میں مشہور ہے کہ کمال بے ساختگی اور آمد معلوم ہوتی ہے اس کے مسودے اب تک فریرا علاقہ اٹلی میں محفوظ ہیں۔ ان مسودوں کے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جو اشعار اس کے نہایت صاف اور ساعے معلوم ہوتے ہیں وہ آٹھ آٹھ کاٹ چھانٹ کرنے کے بعد لکھے گئے ہیں۔

 

ملٹن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ نہایت سخت محنت اور جانفشانی سے نظم لکھی جاتی ہے اور نظم کی ایک ایک بیت مین اس کے سڈول ہونے سے پہلے کتنی ہی تبدیلیاں پے در پے کرنی پڑتی ہیں۔

 

ایک فارسی گو شاعر بھی فکر شعر کی حالت اس طرح بیان کرتا ہے :

 

برائے پاکی لفظے شہے بروز آرد

کہ مرغ و ماہی باشند خفتہ، او بیدار

 

سچ یہ ہے کہ کوئی نظم جس نے کہ استقلال کے ساتھ جمہور کے دل پر اثر کیا ہو۔ خواہ طویل ہو خواہ مختصر، ایسی نہیں ہے جو بے تکلف لکھ کر پھینک دی گئی ہو۔ جس قدر کسی نظم میں زیادہ بے ساختگی اور آمد معلوم ہو اسی قدر جاننا چاہیے کہ اس پر زیادہ محنت زیادہ غور اور زیادہ حک و اصلاح کی گئی ہو گی۔

 

ابن رشیق اپنی کتاب ’عمدہ‘ میں لکھتے ہیں کہ "جب شعر سرانجام ہو جائے تو اس پر بار بار نظر ڈالنی چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس میں خوب تنقیح و تہذیب کرنی چاہیے۔ پھر بھی اگر شعر میں جودت اور خوبی نہ پیدا ہو تو اس کے دور کرنے میں پس و پیش نہ کرنا چاہیے جیسا کہ اکثر شعرا کیا کرتے ہیں۔ انسان اپنے کلام پر اس لئے کہ وہ اس کی مجازی اولاد ہوتی ہے مفتون اور فریفتہ ہوتا ہے۔ پس اگر اس کے دور کرنے میں مضائقہ کیا جائے گا تو ایک بُرے شعر کے سبب سارا کلام درجہ بلاغت سے گر جائے گا۔"

انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر :

 

ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ " انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ۔ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاند کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔"

 

مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلا یا بوجھل یا اوھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے چاندی کے پیالہ میں پلائیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہر گز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔

 

ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیان کئے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابل تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جو کو اگلے شعرا باندھ گئے ہیں۔ یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کے لیے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کے لیے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں ایک مشکل ضرور پیش آئے گی۔ یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعرا باندھ چکے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پریں گے یا ایک مبتذل اور پامال مضمون کے لیے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈھنے پڑیں گے۔ جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نا مقبول ہونا قرین قیاس۔

 

.. نا مکمل

۔۔۔باقی۔۔۔۔۔

19. چوتھی صدی ہجری میں شعر کی نسبت کیا خیال تھا

20. مسلمان شعرا کی کثرت

21. اس کثرت کا سبب

22. عرب میں شعرا کی قدر

23. قومی سلطنتوں میں شعرا کی قدر مفید ہوتی ہے مگر شخصی حکومت میں مضر ہوتی ہے

24. شخصی حکومت میں شاعر کی آزادی سے اس کو نقصان پہنچتا ہے

 

46. انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر

47. شعر میں کس قسم کی باتیں بیان کرنی چاہییں

48. اعلیٰ طبقہ کے شعرا کا کلام یاد ہونا چاہیے

49. تخیّل کو قوت ممیّزہ کا محکوم رکھنا چاہیے

50. شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہییں

51. اصلیت سے کیا مراد ہے

52. جوش سے کیا مراد ہے

53. عبرانی اور عربی شاعری میں سب سے زیادہ جوش تھا

54. ابن رشیق اور ملٹن کے بیان میں فرق

55. زمانہ کی رفتار کے موافق اردو شاعری میں ترقی کیونکر ہو سکتی ہے

56. شاعری کے لیے سبق استعداد ضرور ہے

57. جھوٹ اور مبالغہ سے بچنا چاہیے

58. ینچرل شاعری

59. زبان کو درستی کے ساتھ استعمال کرنا

60. فکر شعر کی طرف کس حالت میں متوجہ ہونا چاہیے

61. غزل، قصیدہ اور مثنوی

62. غزل

63. سعدی (اقوال عربی)

64. از دیوان خواجہ حافظ

65. از دیوان خواجہ میر درد

66. از دیوان سودا

67. ذوق

68. غالب

69. شیفتہ

70. حسن مطلع

71. قصیدہ

72. مثنوی

 

٭٭٭

ٹائپنگ: فرخ منظور، شمشاد خان (اردو ویب ڈاٹ آرگ)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔