03:03    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

2295 0 0 00

پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی

تمہید

قافیے ، قفو بہ معنے پیروی کرنے کے نکلا ہے ، جس کے لغوی معنی " پیچھے آنے والے " کے ہیں۔ بقول اخفش قافیہ " شعر کا آخری کلمہ " ہے ۔ لیکن یہ تعریف جامع نہیں۔ سکاکی کے نزدیک ساکن مقدم سے پہلا حرف مع حرکت قافیہ کہلاتا ہے ۔ خلیل کی تعریف یوں ہے ۔ " شعر میں سب سے آخری ساکن سے پہلے جو ساکن آئے اس کے ماقبل متحرک سے آخر تک سب قافیہ ہے " ۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ تعریف صحیح ہے لیکن ہماری زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں بیٹھتی۔ اردو میں قافیہ ان حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے ۔ جو الفاظ کے ساتھ غیر مستقل طور پر شعر یا مصرعے کے آخر میں بار بار آئے ۔ یہ مجموعہ کبھی کبھی مہمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ مضائقہ نہیں بالعموم اس پورے لفظ کو جس میں یہ مجموعہ آتا ہے قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ چونکہ قافیہ ابیات کے آخر میں واقع ہوتا ہے یا ایک قافیہ دوسرے قافیہ کے پیچھے آتا ہے لہذا اس نام سے موسوم ہوا۔

 

    ہمارے نزدیک قافیہ کی واضع تر تعریف یہ ہے کہ قافیہ وہ مجموعہ ء حروف و حرکات ہے جو اواخر ابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے ۔

 

    قافیے کے بعد جو حرف، کلمہ یا کلمات مستقل طور پر بار بار آئیں انہیں ردیف کہتے ہیں۔

 

؂ہوئے حاضر تو متورم تھے پاؤں، خون جاری تھا

    نبی کا دیدۂ ہمدرد وقف اشک باری تھا

 

؂ دل کا خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا

    سینہ کو بھی، سخت ماتم کب سے تھا

 

    پہلے شعر میں " تھا " ردیف ہے اور " جاری" " باری " قافیے ہیں ۔ دوسرے شعر میں " سے تھا " ردیف ہے اور " اب" کب " قوافی۔

 

    غزل اور قصیدے میں قافیہ، مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں آتا ہے ۔ مثنوی کے ہر مصرعے کے آخر اور قطعہ کے مصرع ثانی کے آخر میں۔ غزل اور قصیدے کے باقی اشعار  (ماسوائے مطلع ) میں بھی مصرع ثانی کے آخر میں آتا ہے ۔

 

اختلاف کی تین صورتیں ہیں ۔ ( اول ) معنی اور الفاظ مختلف ہوں مثلاً درد اور زرد ۔ ( دوم ) الفاظ وہی ہیں، صرف معنی میں اختلاف ہو مثلاً باز بمعنی پرندہ شکاری اور بمعنی پھر۔ ( سوم ) صرف لفظی اختلاف ہو مثلاً اطراف اور اکناف

حروفِ قافیہ

قافیے میں حرکات اور حروف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کا ہر قافیے میں آنا ضروری ہو جیسے " لایا " اور " آیا " میں آخر کا " الف " اور اس سے پہلے کی " زبر" یا " نون " اور " زبر"۔

 

    دوسرے وہ حرف اور حرکات جن کا بار بار قافیے میں لانا ضروری نہ ہو۔ یعنی اگر انہیں بار بار لایا جائے تو قافیہ خوبصورت معلوم ہوں اور نہ لایا جائے تو عیب واقع نہ ہو جیسے " لایا " اور " آیا " یا " پایا " اور " کھایا " میں " ی " اور اس سے پہلے کا " الف " بار بار آئے ہیں تو یہ قافیے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن " صحرا " کو اگر ان الفاظ کا ہم قافیہ قرار دیا جائے تو بھی درست ہے ۔

 

    قافیے کا آخری ั حرف روی کہلاتا ہے ۔ اس سے پہلے جو حرف یا حروف ساکن ہوں گے ۔ وہ اور ان سے پہلے کی حرکت ہر قافیے میں بار بار لانی پڑے گی۔ مثلاً " حُور" کا قافیہ " نُور" اور "طور" صحیح ہے لیکن " اور " غلط ہے ۔اس لئے کہ " ر" حرفِ روی ہے ۔ اس سے پہلے حرف واؤ ساکن ہے اور اس سے پہلے " پیش" ہے نہ کہ " زبر" ۔ پس اگر " پیش" کی بجائے " زبر" لائیں گے تو قافیہ غلط ہو جائے گا۔

 

    " تخت" کا قافیہ " سخت" اور "بخت" صحیح ہے لیکن " وقت " غلط ہے ۔اس لئے کہ " وقت " میں " ت " سے پہلے " ق " ہے اور اوپر کے قافیوں میں " ت " سے پہلے " خ " ہے ۔

 

    روی وہ حرف ہے جو ہر ایک قافیہ میں مکرّر آتا ہے اور اسی کے نام سے قافیہ موسم ہوتا ہے ۔ جیسے دل، بگل کا لام۔

روی کی اقسام

روی کی دو قسمیں ہیں :

    ( 1 ) مقیّد

    ( 2 ) مطلق

 

1 ۔ روی مقیّد:

    روی ساکن کو کہتے ہیں جیسے کار اور یار کی " ر"

 

    2 ۔ روی مطلق ؛ وہ روی متحرک ہے جس کے ساتھ وصل ملا ہو جیسے کارم یا رم کی " ر " ۔

 

    روی قافیے کی بنیاد ہے ۔ اس سے پہلے چار حروف لائے جا سکتے ہیں انہیں حروف اصلی کہتے ہیں۔ قافیے کے بعد بھی چار حرف آ سکتے ہیں۔ یہ وصلی کہلاتے ہیں۔ لیکن ان سب حروف کا جمع ہونا لازم نہیں۔ صرف حرف روی کا لانا ضروری ہے ۔ کیوں کہ اگر حرفِ روی نہ ہو تو قافیے کی تحقیق اور تمیز مشکل ہے ۔ جب قافیے کا مدار صرف روی پر ہو تو وہ روی مجرّد کہلاتی ہے ۔

 

    حرفِ روی کے بعد جو حرف یا حروف آتے ہیں ان کا بھی ہر قافیے میں لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح ما قبلِ روی کے ساکنوں کا یعنی اگر حرف روی سے پہلے ساکن ( ایک یا زیادہ ) آ جائیں تو جس طرح ان کی تکرار لازم ہے اسی طرح حروف کے بعد اگر کوئی حرف یا حروف باندھے جائیں تو ان کا بار بار لانا ضروری ہے ۔

 

    اگر حرفِ روی سے پہلے کوئی حرف ساکن نہ ہو ( یعنی ) اس سے پہلے کوئی متحرک حرف ہو۔ تو صرف حرف روی اور اس سے پہلے کی حرکت کا بار بار لانا ضروری ہے ۔ مثلاً " جگر " کے قوافی " نظر" ، " قمر"، " اثر" ، " گزر" اور " خبر" ہوں گے ۔

 

روی "روا" سے نکلا ہے اور لغت میں روا اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اونٹ پر اسباب باندھا جاتا ہے ۔

قافیہ کے اصلی حروف

اہل عجم نے قافیہ کے آٹھ حروف قرار دیئے ہیں چار قبل اور چار بعد از روی۔

 

    قبل از روی مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ تاسیس ؛ (لغوی معنی " بنیاد رکھنا") اصطلاح میں تاسیس وہ الف ساکن ہے جو روی سے پہلے آئے اور حروف روی اور اس الف کے درمیان ایک حرف بطور واسطہ کے واقع ہو۔ جیسے شامل اور کامل کا الف۔

 

    ہر طرف غُل اِدھر آ پیار کے قابل قاتل

    کہیں ہے ہے کہیں اُف اُف کہیں قاتل قاتل

 

    اس شعر میں قابل اور قاتل کا " ل" تو روی ہے اور الف تاسیس

 

    نوٹ :

    تاسیس کا لانا ہر قافیہ میں لازمی نہیں اگر مطلع میں عامل اور شامل قوافی لائے گئے ہوں تو پھر "دل" اور "مکمل" کو قوافی بنانا جائز نہیں ہوگا اور مطلع میں "قاتل" اور "بسمل" قوافی آئے ہوں تو بعد کے شعروں میں تاسیس کی پابندی ضروری نہیں

 

2۔ دخیل: ( لغوی معنی بیج میں آنے والا ) اصطلاح میں دخیل وہ حرف متحرک ہے جو تاسیس اور روی کے درمیان آئے ۔ مثلاً مندرجہ بالا شعر میں "قابل" کی "ب" اور "قاتل" کی "ت" یا مثلاً "کامل" اور "شامل" میں "م" ۔

 

    نوٹ :

    یہ ضروری نہیں کہ ہر قافیہ میں حرف دخیل بار بار لایا جائے ۔ یعنی " کابل" کے قوافی لازماً "عامل" اور "شامل" ہی سمجھے جائیں بلکہ "ساحل" اور "باطل" بھی اس کے قوافی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر مطلع میں حرفِ دخیل کی تکرار واقع ہو تو پھر یہ تکرار تمام اشعار میں لازم ہوگی۔

 

    3۔ رِدف : ( لغوی معنی کسی کے پیچھے پیچھے آنا ) اصطلاح میں رِدف وہ حرف مدّہ ہے جو روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے ۔ مثلاً مال ، حور وغیرہ۔

 

    الف کی مثال :

    چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا

    صبا نے مارا طمانچہ منہ اس کا لال کیا

 

    اس شعر میں " جمال " اور " لال " کا " ل" تو حرف روی ہے اور اس سے متصل " الف " رِدف

 

" ی" کی مثال:

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

    آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

 

    اس شعر میں " تاخیر" اور " عناں گیر" کی " ر " حرف روی ہے اس سے متصل " ی " رِدف

 

    واؤ کی مثال:

    ہے حرفِ خامہ دلِ زدہ حسنِ قبول کا

یعنی خیال سر میں ہے نعتِ رسول کا

 

    اس شعر میں " قبول " اور " رسول " کا " ل" حرف روی ہے اور اس سے پہلے " واؤ " رِدف۔

 

    __________

    (١) حرف مدہ یہ ہیں (ا) الف ساکن ماقبل مفتوح مثلاً " بہار" اور " بخار" میں۔ (٢) یائے ساکن ماقبل مکسور مثلاً " اسیر" اور " امیر" اور (٣ ) واؤ ساکن ماقبل مضموم مثلاً " سرور " اور نفور " میں

    _________

 

    اگر حرفِ روی اور حرفِ مدّہ کے درمیان کے حرفِ ساکن بطور واسطہ واقع ہو تو وہ حرفِ ساکن " رِدف زائد" کہلاتا ہے ۔ جیسے بانٹ اور چھانٹ میں " نون " دوست اور پوست میں " س "۔ جس رِدف میں رِدف زائد آئے اسے رِدف اصلی کہتے ہیں اور جس میں رِدف زائد نہ آئے وہ رِدف علی الاطلاق کہلاتی ہے ۔

 

    " ردف زائد کے لئے یہ چھے حف مخصوص ہیں ش۔ر۔ف۔خ۔ن ان کا مجموعہ " شرف سخن" بنتا ہے ۔ جیسے بہ آسانی یاد رکھا جا سکتا ہے ۔

 

    خواجہ نصیر الدین محققِ طوسی نے معیارالاشعار میں " رِدف زائد " کو " روی مضاعف" کا نام دیا ہے مگر عام طور پر ردف زائد ہی مستعمل ہے ۔

 

    نوٹ :

    1۔ شعرائے عرب و عجم نے رِدف کے اختلاف کو جائز رکھا ہے ۔ جیسے وجود کا قافیہ "وعید" لیکن اردو میں اختلاف ردف کسی طرح بھی جائز نہیں ۔

 

    2۔ قافیے کا مدار تلفظ پر ہے کتابت پر نہیں ۔ پس واؤ معدولہ کو قافیے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ یعنی " خواب" کا قافیہ " ماب" اور "خور" کا قافیہ " دُر " ہو سکتا ہے ۔

 

    3۔ قید ( لغوی معنی بیڑی ، کتاب کا شیرازہ، یا شکنجہ ) اصطلاح میں حروفِ مدّہ کے سوا اور کوئی حرفِ ساکن حرفِ روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے تو اسے قید کہتے ہیں مثلاً " رزم" اور " بزم " کی " ز" جیسے " درد " اور " فرد" میں ر ۔

 

    اگر حرفِ ردف سے پہلے کی حرکت موافق نہ ہو ( یعنی " الف" سے پہلے " زبر" اور" ی" سے پہلے " زیر" اور " واؤ" سے پہلے " پیش" نہ ہو) تو حرف رِدف نہیں بلکہ قید سمجھا جائے گا جیسے جَور اور غَور میں واؤ اور خَبر اور غَیر میں " ی" ۔

 

    عربی میں حرفِ قید متعدّد ہیں لیکن اہل عجم نے دس مقرر کئے ہیں؛ ب ، خ، ر، ز، س، ش، غ، ف، ن، اور ہ ۔ ان حرف کو مختلف اشعار میں نظم کیا گیا ہے ۔

 

1۔ در عجم واں وہ حروفِ قید یعنی با و خا

    را و زا و سین و شین و فا و نون و ہا

 

2۔ با و خا و سین و شین و را و زا

    غین و فا و نون و ہا گفتم ترا

 

3۔ با و خا، را و زا ، سین و شین

    غین و فا و نون و ہا می واں یقین

 

    بعض اہل فن کے نزدیک فارسی میں حرفِ قید بارہ ہیں

 

    حرفِ قید اندر زبانِ فارسی

    وہ دو بالا ہست بشنو اے فتا

 

    با و خا، را و زا ، سین و شین

    غین و فا و نون و واؤ ، ہا و یا

 

    مگر اردو میں اس کی تعداد مقرر نہیں کی گئ۔

قافیہ کے وصلی حروف

بعد از روی یہ ہیں۔

 

    (1 ) وصل : ( لغوی معنی" ملنا" ) اصطلاح میں وصل وہ حرف ہے جو روی کے بعد بلا فاصلے آئے جیسے " موڑا " اور" چھوڑا " میں " الف " ، " حیرانی" اور" ویرانی" میں " ی" : جیسے بندہ اور خندہ کی ہ ۔

 

    نوٹ: روی اور وصل میں یہ فرق ہے کہ وصل کو حذف کرنے سے کلمہ بامعنی رہتا ہے لیکن روی کے ہٹانے سے مہمل ہو جاتا ہے ۔ مثلاً اوپر کی مثال میں " ڑ" حرفِ روی ہے ، اس کو حذف کرنے سے کلمہ بے معنی ہو جائے گا۔ لیکن " الف" ( حرفِ وصل ) کے دور کرنے سے بامعنی رہے گا۔ دوسری مثال میں " ن" حرفِ روی ہے ۔ اس کے دور کرنے سے کلمہ ، کلمہ نہیں رہے گا۔ لیکن " ی" ( حرفِ وصل ) کے حذف کرنے کے باوجود کلمہ رہے گا۔

 

    فارسی میں وصل کے بھی دس حرف مقرر کئے گئے ہیں:  ا، د، ب، ت، س، م، ک، ن، ہ ، ش ۔ ان کو یوں نظم کیا گیا ہے ۔

 

    وہ بود وصل فارسی گویا

    الف و دال و کاف و ہا و یا

    حرفِ جمع و اضافت و مصدر

    حرف تصغیر و رابطہ است دگر

 

    دیگر:

 

    ہم الف ہم دال و تا و یا و سین

    میم و کاف و نون و ہا و حروف شین

 

    اردو میں اضافت اور مصدر کی شاید ہی کوئی مثال ہو، باقی قریب قریب سب استعمال ہوتے ہیں۔

 

    حرفِ وصل کے متعلق یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ خود تو ساکن ہوتا ہے لیکن روی کو متحرک بنا دیتا ہے جب روی متحرک باقی ہے تو اسے مطلق کہتے ہیں ورنہ وہ مقید کہلاتی ہے ۔

 

    (2) خروج : ( لُغوی معنی" باہر آنا" ) اصطلاح میں خروج وہ حرف ہے جو وصل کے بعد بلا فاصلہ آئے ۔ جیسے " جانا" اور " آن " میں " نون" کے بعد کا " الف "۔

    (" نون "حروفِ وصل ہے اور اس سے پہلے کا " الف" حرفِ روی ) ۔

 

    (3) مزید : ( لُغوی معنی " زیادہ کیا ہوا" ) اصطلاح میں مزید وہ حرف ہے جو خروج کے بعد بلا فاصلہ آئے ۔ جیسے " بچائے " اور " مچائے " میں " ئے "۔

    ( " چ" حرفِ روی ہے اور" الف " حرفِ وصل اور " ہمزہ " حرفِ خروج ہے ) ۔

 

    (4) نائرہ : ( لُغوی معنی " دور بھاگنے والا" ) اصطلاح میں نائرہ وہ حرف ہے جو مزید کے بعد بلا فاصلہ آئے ۔ جیسے " جگائے گا" اور " گائے گا" میں آخری " الف" ۔

    ( پہلے " گ" کے بعد کا " الف" حرفِ روی ہے اور " ہمزہ " حرفِ وصل ہے اور " ے " حرف خروج اور " گ " حرف مزید ہے ) ۔

    نوٹ:  نائرہ کے بعد جو حرف آئے اسے ردیف میں شمار کریں گے ۔

 

    حروفِ قافیہ کو یاد رکھنے کی غرض سے یوں نظم کیا گیا:

 

    قافیہ دراصل یک حروف است و ہشت آں راطبع

    چار پیش و چار پس این مرکز آں ہا دائرہ

    حرف تاسیس و دخیل و رِدف و قید آنگہ روی

    بعد ازاں وصل وخروج است و مزید و نائرہ

    دیگر نہ حرف کہ درقافیہ گردد ظاہر

    باید کہ شوی زنام ایشاں ماہر

 

    حرف تاسیس و دخیل و قید و رِدف است و روی

    وصل است و خروج است و مزید و نائرہ

 

    دیگر:

 

    قافیہ ہے اصل میں ایک، آٹھ شاخیں اس کی ہیں

    چار آگے چار پیچھے یوں بنا ایک دائرہ

    حرف تاسیس و دخیل و رِدف و قید اور پھر روی

    بعد ازاں وصل و خروج اور پھر مزید و نائرہ

 

    دیگر:

 

    حرف نو قافیہ کے ہیں ظاہر

    چار قبل روی ہیں اور چار آخر

 

    پہلے تاسیس و رِدف و قید و دخیل

    یاد رکھ اُن کو تو اگر ہے عقیل

 

    بعد ازاں وصل پھر خروج و مزید

    پھر اس کے نائرہ بھی ہے مزید

 

    چار پہلے روی کے ہیں اصلی

    بعد کے چار حرف ہیں وصلی

 

    یہ بات ہمیشہ مد  نظر رہنی چاہیے کہ روی اور اس کے بعد جتنے حروفِ قافیہ ہیں ان کا اختلاف جائز نہیں، رِدف اور قید کو بھی نہیں بدل سکتے ، البتہ تاسیس اور دخیل میں اختلاف ہوس کتا ہے ۔

 

    اردو کے شعرا کا خیال ہے کہ روی کے بعد جتنے حروف آتے ہیں وہ ردیف میں داخل ہیں خواہ وہ مستقل کلمہ ہوں یا نہ ہوں۔ اس بنا پر اردو میں حروف قافیہ صرف تاسیس، دخیل، رِدف اور روی ہوں گے ۔

 

    بعض اہل فن کا خیال ہے کہ شعر کی بنیاد نغمے پر ہے اور نغمہ سماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔اس لئے قافیے میں ہم آواز حروف ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔ یعنی "پاس" کا قافیہ " خاص" اور " میراث " بھی جائز ہے ۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ صرف عربی ضمہ ( الٹا پیش ) ، فتحہ ( کھڑی زبر ) اور کسرہ ( کھڑی زیر ) نیز تنوین کی حد تک یہ اصول درست ہے یعنی " وضو" کا قافیہ " سلہ " ، " مالا " کا قافیہ اعلیٰ ، " آ " کا قافیہ " سہی " اور " فوراً " کا قافیہ " روشن" جائز ہے ۔

 

    ہماری زبان میں بعض قوافی ایسے بھی ۔۔۔ ۔۔ آئے ہیں جن کے حروف نہ تو رِدف اور قید کی تعریف میں آتے ہیں۔ اور نا ہی انہیں تاسیس یا دخیل کہا جا  سکتا ہے مثلاً رحمت زحمت ، زینت طینت، حرکت برکت، کہیں نہیں، یہیں وہیں ۔مفضور فغفور وغیرہ میں حروفِ روی سے پہلے کے حروف۔ ان کے لیے بھی کچھ نام تجویز کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

حرکاتِ قافیہ

 

    قافیہ کی حرکتیں ( زیر، زبر، پیش ) چھ طرح سے آتے ہیں ۔مختلف حالتوں میں ان کے نام یہ ہیں۔

 

    1۔ رس

    2۔ اشباع

    3۔ حذو

    4۔ توجیہہ

    5۔ مجریٰ اور

    6۔ نفاذ

 

    قافیہ راشش بود حرکت بقول او ستاؤ

    رس و اشاعست و مجری حذو و توجہہ و  نِفاؤ

 

    1۔ رس : ( لغوی معنی " ابتدا کرنا " ) وہ زبر ہے جو الف تاسیس سے پہلے آتی ہے ۔ جیسے " ظَاہر" اور " مَاہر" میں " ظ " اور " م" کی زبر۔

 

    2 ۔ اشباع : ( اسیر کرنا ) حرفِ دخیل کی حرکت کا نام ہے ( حرکت کا نام ہے ( حرکت تینوں میں سے کوئی بھی ہو ) مثلاً " چادر" اور" نادر" میں " دال" کی زبر ،" خاطر" اور " شاطر" میں " ط" کی زیر، " تغافُل" اور تجاہُل" میں " ف" اور "ہ" کی پیش۔

 

    نوٹ: اختلافِ اشباع جائز نہیں۔ یعنی " عالَم " اور " عالِم" ہم قافیہ نہیں ہو سکتے لیکن جب حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہو جائے تو جائز ہے ۔مثلاً برابری اور شاطری میں ایک جگہ " ر" سے پہلے حرف ( ب) پر زبر ہے اور دوسری جگہ ( ط) کے نیچے زیر ۔

 

    3 ۔حذو : ( دو چیزوں کا برابر کرنا) رِدف اور قید سے پہلے جو حرکت ہو اسے حذو کہتے ہیں جیسے " غبار " اور" شمار" میں " ب" اور" م " کی زبر" دور" اور " نور" میں " د" اور "ن" کی پیش ، " وزیر" اور " امیر" میں " ز " اور " م" کی زیر۔

 

    نوٹ: اختلافِ حذو  رِدف میں تو قطعاً جائز نہیں یعنی "دلیل" اور طُفیل " ہم قافیہ نہیں ہو سکتے ۔ البتہ حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہو جائے تو بعض کے نزدیک قید میں جائز ہے مثلاً ، " شُستہ" اور " رَستہ " میں " ش" پر پیش سے اور " ر" پر زبر۔

 

    4 ۔ توجہ : ( منہ پھرنا ) اس روی ساکن کے ماقبل کی حرکت کا نام ہے جس سے پہلے کوئی اور حرفِ قافیہ نہ ہو جیسے "علم" اور " قلم" کے " ل" کی زبر۔

 

    نوٹ: اختلاف توجیہہ جائز نہیں " یعنی " ہم " اور" تُم" ہم قافیہ نہیں ہو سکتے ۔ البتہ جب حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہو جائے تو جائز ہے ۔ جیسے " ہٹانا " اور " مٹانا" میں "ہ" پر زبر ہے اور " م" کے نیچے زیر ۔ لیکن ایسی حالت میں یہ حرکت ماقبل روی کہلاتی ہے ۔

 

    5 ۔ مجریٰ : ( جاری ہونے کی جگہ) متحرک حرف روی کی حرکت کا نام ہے ۔ جیسے "حیرانی" اور " پیشانی" میں "ن" کی زیر۔

 

    نوٹ: حرکتِ مجریٰ میں اختلاف جائز نہیں ہے ۔

 

    6 ۔ نفاذ : ( فرمان کا جاری ہونا) حرفِ وصل کی حرکت کا نام ہے ۔ مثلاً " جائیے " اور "کھائیے " میں ہمزہ کی زیر۔

 

    نوٹ: خروج اور نائرہ کی حرکات بھی نفاذ کہلاتی ہیں۔ نفاذ کے اختلاف کی نہ اجازت ہوتی ہے اور نہ گنجائش۔

عیوبِ قافیہ

عیوبِ قافیہ چار ہیں۔

 

    بنزو عجم عیب چار است و آنہا

    سناد است و اقوا و اکفا ایطا

 

    قافیہ میں عیب کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔

 

    (1) اِکفا :؛ حروف روی میں اختلاف۔ مثلاً " کتاب" کا قافیہ " آپ" لائیں۔ صلاح و تباہ ۔

 

    (2) غلُّو : حرفِ ایک جگہ ساکن ہو اور دوسری جگہ متحرک مثلاً

 

    نہ پوچھ مجھ سے کہ رکھتا ہے اضطراب جگر

    نہیں ہے مجھ کو خبر دل سے لے کے تا بہ جگر

 

    (3) سِناد : اختلافِ رِدُف قید کو کہتے ہیں مثلاً گوشت اور پوست، نَار اور نُور، صبر اور قہر، زماں و زمین وغیرہ۔

 

    (4) اقوا : اختلاف حذو اور اختلافِ توجیہہ کا نام ہے ۔ مثلاً طوُل اور ہول، ست اور مَسُت، جَست، جُست۔ وغیرہ۔

 

    (5 ) تعدّی : حرف وصل ایک جگہ ساکن ہو اور دوسری جگہ متحرک، اردو میں اس عیب کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی البتہ عربی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔

 

    ( 6 ) اِیطا : مطلع میں قافیہ کی تکرار کو کہتے ہیں اس کا دوسرا نام قافیہ شائگان ہے ۔ اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ (1) جلی اور ( 2 ) خفی۔

 

    ایطائے جلی وہ ہے جس میں تکرار صاف ظاہر ہو مثلاً " درد مند" اور " حاجت مند" میں " مند" کی تکرار۔ گریاں و خنداں۔

 

    ایطائے خفی وہ ہے کہ تکرار صریحی طور پر معلوم نہ ہوتی ہو مثلاً " دانا" اور " بینا" میں الف کی تکرار ۔ آب و گلاب۔

 

    ( 7 ) قافیہ معمولہ : اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر کوئی لفظ اکیلا قافیہ نہ ہو سکے تو اس کے ساتھ دوسرا لفظ بڑھا کر قافیہ بنا لیں۔ یہ قافیہ معمولہ ترکیبی کہلاتا ہے ۔ مثلاً " پروانہ ہوا" ، " دیوانہ ہوا" وغیرہ قوافی ہوں تو " اچھا نہ ہُوا" بھی ان کے ساتھ لے آئیں۔

 

    دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو ٹکڑے کر کے پہلے کو داخل قافیہ کر دیں اور دوسرے کو شریکِ ردیف مثلاً

 

    درد منت کشِ دوا نہ ہوا

    میں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہوا

 

    رہزنی ہے کہ دلستانی ہے

    لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

    یہاں " نہ ہوا" ردیف تھی۔ضرورت شعری کی وجہ سے "روانہ " باندھنا پڑا " یعنی روانہ سے " نہ" کو کاٹ کر داخلِ ردیف کیا اس کو قافیہ معمولہ تخلیلی کہتے ہیں۔

اقسام قافیہ بہ اعتبارِ روی

حرفِ روی کے لحاظ سے قافیہ کی چھ قسمیں ہیں:

 

    ( ١ ) جس قافیے میں حرفِ تاسیس ہوتا ہے اسے موسَس کہتے ہیں جیسے قابل اور جاہل۔

 

    ( ٢ ) جس قافیہ میں حرفِ دخیل ہوتا ہے اسے مدخول کہتے ہیں جیسے ماہر اور طاہر۔

 

    ( ٣ ) جس قافیے میں حرفِ ردف ہوتا ہے اسے مروّّف کہتے ہیں۔ جیسے کمال اور زوال۔

 

    ( ٤ ) جس قافیہ میں حرفِ قید ہوتا ہے اسے مقیّد کہتے ہیں جیسے برف اور ظرف۔

 

    ( ٥ ) جس قافیہ میں صرف حرفِ وصل یا وصل اور خروج یا وصل، خروج اور مزید وصل، خروج، مزید اور نائرہ بھی ہوں اسے مصولہ کہتے ہیں۔

 

    ( ٦ ) جس قافیے میں روی کے علاوہ اور کوئی حروف نہ ہو اُسے مجرّد کہتے ہیں۔

 

    نوٹ : موسَس، مدخول، مروف، مقیّد اور مجرّد سب کے سب قافیے کے اوصاف ہیں ان سب کا ایک ہی قافیے میں آنا ضروری نہیں۔

اقسام قافیہ بہ اعتبارِ وزن

وزن کے لحاظ سے قافیے کی پانچ قسمیں ہیں:

    ( ١ ) مترادف : جس قافیے کے آخر میں دو ساکن بلا فصل واقع ہوں مثلاً

 

    ہنگامہ گرم، ہستیِ نا پائیدار کا

    چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا

 

    ( ٢ ) متواتر : جس قافیے کے آخر میں دو ساکنوں کے درمیان ایک متحرک واقع ہو مثلاً

 

    ہیں باغ و بہار دونوں وقف دشمن کے لیے

    چند کانٹے رہ گئے ہیں میرے دامن کے لیے

 

    ( ٣ ) متدارک : جس قافیے کے آخر میں دو ساکنوں کے درمیان متحرک واقع ہوں مثلاً

 

    کہاں وہ ہجر میں اگلا سا ولولہ دل کا

    کہو کہ موت کرے آ کے فیصلہ دل کا

 

    ( ٤ ) متراکب : جس قافیے کے آخر میں دو ساکنوں کے درمیان تین متحرک واقع ہوں۔

 

    تیغ ابرو سے جو عذر نہ کرے

    اس کی آئی ہے موت کیوں نہ کیوں نہ مرے

 

    ( ٥ ) متکاؤس : جس قافیے کے آخر میں دو ساکنوں کے درمیان چار متحرک واقع ہوں۔ اس قافیے کی مثالیں عربی تو موجود ہیں لیکن اردو، فارسی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

 

    مترادف، متواتر، متدارک میخواں

    متراکب متکاوسِ لقب قافیہ واں

ردیف

لُغت میں ردیف اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی کے پیچھے سوار ہو۔ اصطلاح میں ایک یا ایک سے زیادہ کلمے یا حروف مستقل کو جو قافیے کے بعد بار بار آئے ردیف کہتے ہیں۔ یہ اہل فارس کی اختراع ہے ۔ قدیم عربی زبان میں اس کا وجود نہیں پایا جاتا البتہ اب عرب شعرا بھی ردیف لاتے ہیں۔

 

    ردیف کا بصورت ِ لفظ یا الفاظ مستقل ہونا ضروری ہے مگر منعا بھی ایک ہونا لازم نہیں۔ مراد اس سے یہ کہ بلحاظ کتابت شکل ایک ہونی چاہئے ۔ مثلاً

 

    نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے

    رہے نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے

 

    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئی

اٹھا اور اُٹھ کے قدم نے پاسباں کے لئے

 

    ان اشعار میں " جان" ، " آسمان" ، اور " پاسبان " قوافی ہیں اور " کے لئے " ردیف ۔ دوسرے شعر میں ردیف کے وہ معنی نہیں رہے جو پہلے دو دو مصرعوں میں ہیں۔

 

    اگر ردیف قافیے سے پہلے آئے یا دو قافیوں کے درمیان واقعہ ہو تو ایسی ردیف کو حاجب کہتے ہیں

 

    مثال اول

 

    ملنا ہمارا ان کا تو کب جائے جائے ہے

    البتہ آدمی سو کبھی جائے جائے ہے ۔

 

    مثال دوم

 

    کہیں آنکھوں سے خوں ہوکے بہا

    کہیں دل میں جنوں ہوکے رہا

 

    ردیف کا تقابل فصحا کے نزدیک عیب ہے یعنی جو کلمہ ردیف ہو وہ پورا کلمہ ( سوائے مطلع کے ) پہلے مصرع میں نہیں آنا چاہئے ۔

 

    اگر ہوتی رسائی عاشق مضطر کی قسمت میں

    تو وہ اب تک پہونچ جاتا کبھی کا ان کی محفل میں

 

    لیکن اگر ردیف کا کوئی جز پہلے مصرعے کے آخر میں آ جائے تو وہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ مثلاً۔

 

    دادِ جاں بازی ملے گی آپ سے امید ہے

    آج جانبازوں کا میلہ آپ کی محفل میں ہے ۔

 

    شعر میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں ہے ۔ صرف قافیہ کی پابندی لازم ہے ۔ جس شعر میں ردیف ہو اس کو مردّف کہتے ہیں۔ردیف کے لئے کوئی خاص مقدار بھی مقرر نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک شعر صرف قافیے اور ردیف ہی پر مشتمل ہو۔

سرقاتِ شعری

کسی دوسرے شاعر کو بعینہ یا لفظی و معنوی ادل بدل سے اپنا کر لینا سرقۂ شعری کہلاتا ہے ۔

 

    سرقات شعری کی دو قسمیں ہیں

 

    (1) سرقہ ظاہر

 

    (2) سرقہ غیر ظاہر۔

 

    سرقہ ظاہر کی قسمیں:

 

    (الف) نسخ و انتحال

 

    بعینہ دوسرے شاعر کے شعر کو اپنا کر لینا اور یہ بہت بڑا عیب ہے ۔

 

    (ب) مسخ و اغارہ

    لفظی ادل بدل سے دوسرے شاعر کے شعر کو اپنا کر لینا۔ اگر دوسرے شعر کی ترتیب پہلے سے بہتر ہو تو سرقہ نہیں ترقی ہوتی ہے اور یہ جائز ہے ورنہ نہیں۔

 

    (ج) المام سلخ

 

    دوسرے شاعر کے شعر کا مضمون اپنے الفاظ میں ادا کر کے اپنا لینا۔

 

    توارد۔ دو شاعروں کے شعر کا لفظی و معنوی اعتبار سے بلا اطلاع و ارادہ اتفاقاً یکساں ہونا۔ یہ سرقہ نہیں تیزی فکر کے باعث ایسا ہوتا ہے ۔

 

    سرقہ غیر ظاہر کی قسمیں:

 

    سرقہ غیر ظاہر معیوب نہیں بلکہ اگر اچھا تصرف ہے تو مستحسن سمجھا جاتا ہے ۔

 

    (1) دو شاعروں کے اشعار میں معنوی مشابہت کا ہونا۔

 

    (2) ایک کے شعر میں دعویٰ خاص ہو اور دوسرے شعر میں عام۔

 

    (3) کسی کے مضمون کو تصرف سے نقل کرنا۔

 

    (4) دوسرے شعر کے مضمون کا پہلے شعر  سے متضاد و مخالف ہونا۔

 

    (5) پہلے شعر کے مضمون میں مستحسن تصرف کرنا اور یہ بہت مستحسن ہے ۔

 

    نوٹ:

 

    کسی خاص غرض میں شعرا کا اتفاق سرقہ نہیں کہلاتا ( جیسے شجاعت یا سخاوت وغیرہ سے کسی کی تعریف کرنا ) کیونکہ ایسی باتیں تمام لوگوں کی عقول و عادات میں مذکور ہوتی ہیں۔ البتہ اس غرض پر دلالت کرنے کے لئے جو تشبیہات اور استعارات و کنایت استعمال کئے جائیں ان میں سرقہ ہو سکتا ہے ۔ مگر جو استعارات و تشبیہات نہایت مشہور ہیں جیسے شجاع کو اسد سے تشبیہ دینا اور سخی کو دریا سے وغیرہ وغیرہ ان میں سرقہ نہیں ہوتا۔

 

    سرقہ شعری کے ذکر میں، میں نے متداولہ رائے سے کسی قدر اختلاف کیا ہے ۔ متداولہ رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شعر بجنسہ یا بتغیر الفاظ کسی دوسرے کلام میں پاتا جائے تو اس کو سرقہ سمجھنا چاہیے میں نے اس پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ سرقہ اس وقت سمجھا جائے گا اگر اس دوسرے شاعر نے باوجود علم کے بدنیتی سے یعنی لوگوں پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ میرا شعر ہے وہ شعر بجنسہ یا اس کا مضمون بتغیر الفاظ چرایا ہو۔ مثلاً غالب کا مطلع ہے ۔

 

    دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

    زخم کے بھرنے تلک ناخن بڑھ آئیں گے کیا

 

    اور شاد لکھنوی کہتے ہیں

 

    کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ پائیں گے کیا

    زخم بھر جائیں گے تو ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا۔

 

    اس میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ شاد کو غالب کے شعر سے آگاہی تھی تو یقیناً یہ سرقہ کی حد میں آتا ہے ۔

 

    البتہ اس قاعدے سے وہ اشعار مستثنیٰ ہیں جن میں کوئی محاورہ یا مثل باندھی جائے ۔ مثلاً سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹا کرو ایک مثل ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ ایک زریں موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا اب اس کی کوشش بیکار ہے اس مثل کو ان چار شاعروں نے باندھا ہے ۔

 

خیالِ زلف دو تا میں نصیر پیٹا کر

    گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹ کر

    (شاہ نصیر دہلوی)

 

سانپ تو بھاگ گیا پیٹتے ہیں لوگ لکیر

    خوب پوشیدہ کئے تم نے دکھا کر گیسو

    ( تمنا )

 

سردے دے مارو گیسوئے جاناں کی یاد میں

    پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا

    (رند)

 

 دکھلا کے مانگ گیسوؤں والا نکل گیا

    پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا

    ( شاد لکھنوی)

 

    ان میں کوئی شعر کسی دوسرے شعر کا سرقہ نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہر شاعر نے ضرب المثل کو باندھا ہے مگر تعجب ہے کہ شاد ایسا استاد اور کہنہ مشق شاعر نے رند کا پورے کا پورا مصرعہ بلا کیسی تغیر و تبدیل کر کے اپنے کلام میں شامل کر لیا۔

تضمین و اقتباس

تعریف: دوسرے کے کلام کو شامل کر لینا۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔

 

    (1) دوسرے کا کلام کو اپنے کلام میں اس طرح شامل کر لینا کہ یہ معلوم ہو کہ یہ دوسرے کا کلام نہیں۔

 

    (2 ) دوسرے کے کلام کو اپنے کلام میں اس طرح شامل کرنا کہ یہ نہ معلوم ہو کہ یہ اسی کا کلام ہے بلکہ اشاراً  بتا دینا کہ یہ دوسرے کا کلام ہے ۔ مثلاً

 

    درد نے گویا کہا تھا یہ انہیں کے واسطے

    اپنے اپنے بوریئے پر جو گدا تھا شیر تھا

 

    ہدایت:جب تک با وثوق ذرائع سے یہ علم نہ ہو کہ سرقہ کیا گیا ہے اس وقت تک کسی شعر پر سرقہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

 

ماخذ:تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔