ہے کبھی سایہ کبھی ہے روشنی دیوار پر
رنگ بکھراتی ہے کیا کیا زندگی دیوار پر
دونوں ہمسایوں میں ویسے تو محبت ہے بہت
ایک جھگڑا پڑ گیا ہے بیچ کی دیوار پر
میں اندھیرے میں کھڑا حیرت سے پڑھتا ہوں اسے
اک عبارت لکھ رہی ہے روشنی دیوار پر
ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دُھل جائیں گے
بارشیں آئیں تو کائی جم گئی دیوار پر
اک ادھورا نام ، کچھ مدھم لکیریں ، کچھ حروف
یہ مکینوں کی نشانی رہ گئی دیوار پر
اس جگہ شاید کبھی اس کا بسیرا ہو سلیمؔ
ایک چڑیا دیر تک بیھٹی رہی دیوار پر