01:42    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

منور رانا کی شاعری

1069 1 0 15

کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو

جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

 

وہ حیرت سے ہمیں  تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا

وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

 

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے

ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

 

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا

مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

 

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر

تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

 

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے

چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

 

سڑک بھی شیر شاہی آ گئی تقسیم کی زد میں

تجھے ہم کر کے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

 

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو

بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

 

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے

کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

 

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی

وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

 

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے 

ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

 

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی

وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

 

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے

کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں 

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

عبدالواحد عبدالمعید
اتی اتم،

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔