جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر
دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر
یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو
حق بھی نہیں ملے گا تقاضہ کیے بغیر
پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو
روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر
پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر
مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر
اب تک تو شہرِ دل کو بچائے ہیں ہم مگر
دیوانگی نہ مانے گی صحرا کیے بغیر
اس سے کہو کہ جھوٹ ہی بولے تو ٹھیک ہے
سچ بولتا نہ ہو کبھی نشّہ کیے بغیر