اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے،
رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے،
ہر زاویے سے میرے خدوخالِذات کو،
پرکھا نگار خانہء لیل و نہار نے،
سورج سے تھی امیدِتوانائی جسم کو،
آواز دی بہت شجرِسایہ دار نے،
میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان،
پگھلا دیا ہے نغمگیء آبشار نے،
کہتے ہیں لوگ جبرِ مشیت ہے زندگی،
صبر و رضا کا نام دیا اختیار نے،
اس بار بھی چمن میں وہی حادثہ ہوا،
گھبرا کے خود خزاں کو پکارا بہار نے۔